ثقافت کیا ہے؟
ثقافت کا تعلق ہر شعبہ ہائے زندگی سے جڑا ہے۔ہمیں اپنی روزمرہ کی زندگی میں ہر وقت ہر لمحہ ہر آن ثقافت اور روایات کی ضرورت پیش آتی ہے۔یہ انتہائی لطیف موضوع ہے اس موضوع پر بات کرنا اور اسکی درست معنوں میں تفہیم کا حق ادا کرنا ناممکن نہیں تو مشکل دکھائی ضرور دیتا ہے۔ثقافت کے سلسلہ میں مختلف افراد معاشرہ اور مشاہیر کے متعین کردہ مفاہیم میں فرق و اختلاف موجود رہا ہے۔ہمارے معاشرے میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو اسلام کی بنیاد پر ثقافت کو اسلامی ثقافت کی اصطلاح کے تحت زیر بحث لاتے ہیں۔کچھ افراد قومی ثقافت کی اصطلاح کو استعمال کرتے ہیں۔کچھ عوامی ثقافت کی بات کرتے ہیں ۔کچھ لوگ مقامی ثقافت کے فروغ میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں اور اسے فروغ دینےا ور اسکی اشاعت میں اپنی توانائیاں صرف کرتے ہیں۔کچھ افراد افرادی کلچر کی بھی بات کرتےہیں۔بعض لوگوں کے نزدیک مشرق اور مغرب ہر دو کی الگ الگ ثقافت ہے۔اس لیے وہ مشرقی ثقافت اور مغربی ثقافت کی اصطلاح استعمال میں لاتے ہیں۔سب سے پہلے ہمیں ثقافت کی اصطلاح کا جائزہ لینا ہو گا ۔اس کے حدود و امتیازات اور اس کے مماثل دیگراصطلاحات کو بھی دیکھنا ہو گا۔
ثقافت عربی زبان کا لفظ ہے۔اس کا مادہ ث ق ٖ ف ہے۔اس کے معنی ہیں پا لینا ،سیدھا کرنا وغیرہ کلاسیکل عربی میں اس لفظ کو اس معنی میں کبھی بھی استعمال نہیں کیا گیا ۔فارسی میں اس کے مترادف لفظ شائستگی استعمال میں لایا جاتا رہا ہے۔ڈاکٹر سید عبداللہ لکھتے ہیں”تاریخ میں،علم الاجتماع،حیاتیات ،بشریات اور نفسیات میں اس موضوع پر تفصیلی بحثیں آتی ہیں آکسفورڈ کنسائز ڈکشنری میں لکھا ہے دراصل یہ لفظ کلٹیویشن یعنی کاشت کے معنوں سے ہوتا ہوا تربیت، نشوونما اور ترقی کی منزل تک پہنچا ہے۔یہ ترقی و تربیت صرف انسان تک محدود نہیں ہے بلکہ دیگر اشیا ،حیوانات و نباتات بھی اس میں شامل ہیں”مہذب لکھنوی کی لغت کےمطابق” ثقافت استحکام اور تعلیم یافتہ طبقہ کی زبان ہے۔فرمان فتح پوری کے نزدیک ثقافت "اعلی مظاہر” کا نام ہے۔فضل الہی عارف اور ڈاکٹر غلام مصطفے خان کے نزدیک ثقافت کے معنی "فنون لطیفہ،علم وادب،تمدن،اور کسی قوم کے تصور حیات” کے ہیں۔فیروزاللغات اور قاموس مترادفات میں ثقافت کا ایک مطلب "عقل مندی/دردمندی” بھی ہے۔اردو لغت تاریخی اصول پر میں ثقافت کے معنی یہ ہیں”کسی انسانی گروہ کے مذہب،اخلاق،علم وادب اور فنون ” کے ہیں۔ان تعریفات کو اگر پیش نظر رکھا جائے تو ثقافت کا جو مفہوم بنیادی سطح پر سمجھ میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ ایلیٹ کلاس یا تعلیم یافتہ طبقہ کا طرز عمل و فکر اور زندگی سے جڑے عوامل و مظاہر میں سے وہ جو اعلی و برتر تسلیم کر لیے جائیں ان کو ثقافت کہا جائے گا۔اس کے علاوہ فنون لطیفہ،علم وادب ،تمدن سے جڑے وہ تما م تصورات جن کا تعلق کسی قوم سے ہوتا ہے۔ثقافت کے معنی میں آئے گا۔ کلچر انگریزی زبان کا لفظ ہے اس کے لیے اردو میں متبادل لفظ ثقافت ہے۔کلچر کے لیے تہذیب کا معنی بھی استعمال میں لایا جاتا رہا ہے۔لیکن آج کل تہذیب وسولائزیشن اور کلچر و ثقافت کو ہم معنی ومترادف تصور کیا جاتا ہے۔اس لیے ہم کلچر کے مفہوم کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔کلچر کا معنی کاشت کرنا،دیکھ بھال کرنا،جانوروں کو پالنے کا عمل،انسان میں تعلیم و تربیت کےذریعہ بہتری لانا،مصنوعی طریقے سے خوردبینی جانداروں کی پرورش کرنا،اطورا کی نشوو نما اور ترقی،ذہن ،ذوق اور آداب کی تربیت اورافزائش بھی کیا جاتا رہا ہے۔اگر ان تعریفات پر غور کیا جائے تو زندگی گزارنے کا ہر طریقہ اس میں شامل ہو گایعنی مکمل طرزحیات۔ای بی ٹیلر نے اس مفہوم میں ثقافت کو جانا ہے۔”ثقافت و ہ پیچیدہ کل ہے جس میں علم ،عقیدہ، فن، اخلاقیات، قانون، رواج،اور کوئی بھی ایسی صلاحیتیں جو انسان کسی سماج کے فرد کے طور پر حاصل کرتا ہے”۔اس تعریف کے مطابق حیات انسانی کی تما م سرگرمیاں چاہے وہ منظم صورت ہوں یا غیر منظم صورت،انسان کی صلاحیتیں،سماجی ادارے اور اقدار سب ہی ثقافت میں شامل ہوں گے۔احمد حسن دانی "ثقافت کو انسانی زندگی کا مسلسل ماجرا بتاتے ہیں۔ان کے نزدیک یہ ایک مسلسل عمل ہے۔”ایس اے رحمن کے مطابق”ثقافت سے ہماری مراد یہ ہے کہ یہ لوگوں کی پوری زندگی کا بھرپور نمونہ پیش کرتی ہے جو قوم کی حیثیت سے مل جل کر رہتے ہیں۔اور جن کو معاشرے میں سرایت کر جانے والا ایک ایسا ہمہ گیر نقظہ نظر باہم متحد کر دیتا ہے جسے یہ لوگ شعوری طور پر اپناتے یا خاموشی سے قبول کر لیتے ہیں”محمد علی صدیقی کے نزدیک "ثقافت دراصل اس ہمہ جہتی اسلوب حیات کا نام ہے جو تجربہ علم اور معتقدات کے خوب صورت رچاؤ سے جنم لیتی ہے۔تجربہ کیا ہے؟تاریخی عمل سے مستنبط پیکر روایت ہے ۔علم کیا ہے؟یہ درون ذات سے بیرون ذات دیکھنے کا عمل ہے تا کہ وہ سب کچھ جو ہماری ثقافتی زندگی سے باہر سے حاصل کیا جا رہا ہے ہمارے دائرہ علم میں آجائے ۔معتقدات کیا ہیں؟ایک ایسا آفاقی نطریہ جو دین اور دنیا کو محیط ہے۔ (یہ بھی پڑھیں محبت مردہ پھولوں کی سمفنی” کا جمالیاتی جائزہ – نثار علی بھٹی )
ثقافت اور کلچر ہم معنی
کلچر کے حوالے سے ممتاز حسین لکھتے ہیں”کلچر انسان کا طریق زیست ہے،یہ اس کی فطر ت کا جزولاینفک ہے ثقافت کا مترادف کلچر ۔انسان کی فطرت ہے کہ وہ صانع،عاقل اور ناطق ہے اور کلچر اس کی اسی فطرت کا اظہار ہے۔وہ اپنی اس فطرت کے باعث،کیوں نہ ہو فطرتی جو ٹھہرا،اس عام حیوانی فطرت سے ممتا ز ہوا جو اپنے ماحول اور اپنی فطرت کو ازخود بدلنے سے قاصر ہے۔یہ امتیاز صرف انسان ہی کو حاصل ہے کہ وہ نہ صرف اپنے ماحول کو بدلتارہا ہے بلکہ اپنی فطرت کو بھی”سر سید احمد خان نے تہذیب کے لیے سولائزیشن کا لفظ استعمال کیا تھا۔انھوں نے تہذیب الاخلاق میں تہذیب کے حوالے سے لکھا”اس سے مراد انسان کے تمام افعال ارادی اور اخلاق اور معاملات اور معاشرت ،تمدن اور صرف اوقات اور علوم اور ہر قسم کے فنون ہ ہنر کو اعلی درجے کی عمدگی پر پہنچانا اور ان کو خوبی اور خوش اسلوبی سے برتنا جس سے اصلی خوشی اور جسمانی خوبی حاصل ہوئی۔۔۔۔اور وحشیانہ پن اور انسانیت میں تمیز نظر آتی ہے۔”
وکی پیڈیا کے مطابق کلچر کی تعریف یہ ہو گی
“Culture is an umbrella term which encompasses the social behavior and norms found in human societies, as well as the knowledge, beliefs, arts, laws, customs, capabilities, and habits ofthe individuals in these groups.”(1)
کلچر ایک ایسی اصطلاح ہے جس میں سماجی رویے اور اصول آتے ہیں جو انسانی معاشروں میں موجود ہوں۔اس کے ساتھ ساتھ اس میں علم،عقائد،فنون،قوانین،رواج،صلاحیتیں،اور افراد معاشرہ کی عادات و اطوار بھی شامل ہوں گی۔کلچر میں انسانوں کے ایک دوسرے کے ساتھ برتاؤ کا سلیقہ شامل ہے۔اس میں وہ تمام اصول بھی شامل ہیں جو معاشرہ کے افراد ایک ساتھ زندہ رہنے اور زندگی بسر کرنے کے لیے خود وضع کرتے ہیں۔انسانی معاشروں میں معلومات و علم بھی کلچر کی بنیاد ہوتے ہیں۔معاشرے میں جس طرح کے علوم کی تعلیم ہو گی اسی طرح کا کلچر بھی تشکیل پائے گا۔مختلف طرح کے عقائد مختلف لوگوں کے گروہ اپنے لیے بناتے ہیں۔ان عقائد کا کلچر کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہوتا ہے۔اس کے علاوہ فنون اور رواج بھی کلچر کا تعین کرتے ہیں۔اس کی ماہیت کیا ہو گی۔اس کے تعلقا ت ،علم،عقائد،فنون،قوانین،رواج،اور عادات و اطوار پرمشتمل ہوتاہے۔احتشام حسین ثقافت کے لیے تہذیب کے لفظ کا استعمال کرتے ہیں”تہذیب ایک ملک کے فنون لطیفہ اور فلسفیانہ خیالات ،طرز معاشرت ،مادی ترقی اور زندگی کے متضاد اور متصادم عناصر کو متوازن بنا کر اجتماعی زندگی میں ایک خوشگوار احساس پیدا کرنے سے الگ کوئی چیز نہیں ہے۔سبط حسن کلچر کو تہذیب کے معنوں میں برتتے ہیں اور اس سلسلہ میں لکھتےہیں۔ (یہ بھی پڑھیں تحقیقی خاکہ نگاری – نثار علی بھٹی )
"کسی معاشرے کی بامقصد تخلیقات اور سماجی اقدار کے نظام کو تہذیب کہتے ہیں۔تہذیب معاشرے کی طرز زندگی اور طرز فکر و احساس کا جوہر ہوتی ہے۔چنانچہ زبان ،آلات و اوزار پیداوار کے طریقے اور سماجی رشتے،رہن سہن،فنون لطیفہ، علم و ادب،فلسفہ و حکمت،عقائد و فسوں،اخلاق و عادات،رسوم و روایات عشق و محبت کے سلوک اور خاندانی تعلقات وغیرہ تہذیب کے مظاہر ہیں”(2)
اس سلسلےمیں ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم لکھتے ہیں”میتھیو آرنلڈ کہتا ہے کہ کلچر کی مثال ایسی ہے جیسے شہد کی مکھیوں کا چھتہ ہو اس میں شہد بھی ہوتا ہے اور موم بھی شہد میں شیرینی بھی ہے اور غذا بھی،دوا اور شفا بھی۔چھتے میں جو موم ہوتا ہے اس سے منیر و مستنیز شمع بنتی ہے انسا ن کو نور علم اور شیرینی کردار دونوں کے لیے ضرورت ہے کلچر کا لب لباب یہی دو عناصر ہیں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تہذیب تربیت یافتہ فطرت کا نام ہے اور بہترین تہذیب و تمدن وہ ہے جسکے اندر ہر فرد کو اپنی فطرت کے ممکنات کو معرض شہود میں ملانے کے لیے زیادہ سے زیادہ مواقع میسر ہوں۔کوئی کہتا ہے کہ تہذیب اخلاقی احساس کا نام ہے۔مذہبی شخص کہتا ہے کہ مہذب زندگی وہ ہے جو خدا کی مرضی کے مطابق بسر کی جائے۔کسی نے اس خیال کا اظہار کیا ہےکہ انسان کی زندگی اس کو مسلسل کثافت اور جمود کی طرف کھینچتی رہتی ہے اس سے بچنے کے لیے لطیف جذبات،لطیف تاثرات اور لطیف افکار میں زندگی بسر کرنا تہذیب ہے۔ایک تصور یہ ہے کہ خارجی فطرت اور باطنی فطرت انفس وآفاق ایک جنس عام ہے ۔اس کے اندر نظم وآئین کی تلاش اور حسن و جمال اور توازن پیدا کرنا تہذیب ہے”مزید اسکی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں”تہذیب ایک نفسی میلان ہے اور زندگی کے اساسی اقدار کو متحقق کرنے کی کوشش سے تہذیب پیدا ہوتی ہے۔کسی نے خوب کہاہے کہ تہذیب انھی دو عناصر سے مرکب ہے جو شہد کی مکھی کے چھتے میں پائے جاتے ہیں۔اس چھتے میں موم بھی ہوتی ہے اور شہد بھی۔موم کی بتی سے نور پیدا ہوتا ہےاور شہد سے شیرینی کسی قوم کی تہذیب سے بس اس کو جاننا چاہیے کہ اس میں کس قدر عملی اور روحانی تنویر ہے اور زندگی کی تلخیوں کے مقابلے میں اس نے کس قدر شیرینی پیدا کی ہے۔اگر کوئی پوچھے کہ شیرینی کس طرح پیدا ہوتی ہے تو اس کا سیدھا جواب یہ ہے کہ وہ ذوق حسن سے اور جذبہ محبت سے پیدا ہوتی ہے۔ (یہ بھی پڑھیں ہندوستان میں اردو فن ترجمہ کی روایت – نثار علی بھٹی )
ڈی این موڈیمر کے حوالے سے ڈاکٹر منصور احمد منصو ر لکھتے ہیں
“There is common literary use of the term when we use ‘culture’ to convey social charm and intellectual excellence. This is what Mathew Arnold meant when he defined culture as sweetness and light, then there are philosophers like Cassirer and social anthropologists like Sorokin and Mac lever to which culture stands for the moral spiritual and intellectual attainments of man. DavidBidney, philosopher anthropologist, defines it as the self cultivation of human nature and the cultivation of natural geographical environment.”(3)
ٹی ایس ایلیٹ کلچر کے مفہوم کی وضاحت کرتے ہوئے اظہار خیال کرتے ہیں
"کلچر کے لفظ سے ہم مختلف حالات میں مختلف مفہوم مراد لے سکتے ہیں۔اس سے ہم عادات و اطوار کی نفاست اور لطافت بھی مراد لے سکتے ہیں ایسے میں ہمیں ایک جماعت اور اس جماعت کے چند اعلی و برتر افراد کا تصور کرنا ہو گا جو ان کی پوری نمائندگی کرتے ہیں یہاں ہم علم و تہذیب کو پیش نظر رکھ سکتےہیں اور ساتھ ساتھ ماضی کی عقل و دانش سے قریبی تعلق پر بھی غور کر سکتے ہیں۔اگر یہ بات درست ہے تو ایسی تہذیب کا بہت بڑا نمائندہ اہل علم ہو سکتا ہے۔ہم وسیع تر معنی میں فلسفہ پر غور کر سکتے ہیں۔جس میں ہم مجرد خیالات کو پیش کرنے کا اظہار کرتے ہیں۔اگر یہ بات ٹھیک ہے تو اس سے ہم فنکار اور غیر پیشہ ور فنکار بھی مراد لے سکتے ہیں۔ہم لفظ کلچر کے ساتھ ان سب باتوں کا الگ الگ تو سوچتے ہیں لیکن ان سب پہلوؤں کو مجموعی طور پر اپنے ذہنوں میں نہیں رکھتے۔ان سب باتوں کا یہ مطلب نہیں ہے کہ فرد یا گروہ یا جماعت کے کلچر کے بارے میں گفتگو کرنا بے معنی سی بات ہے۔”مزید اس کی وضاحت کرتے ہیں”یہ بات بھی میرے مقالے کا ہی حصہ ہے کہ کسی فرد کا کلچر اسکی جماعت یا کلاس کے کلچر پر منحصر ہوتا ہے۔اور کسی کلاس کا کلچر وہ کلاس جس معاشرہ کا حصہ ہو اس سے جڑا ہوتا ہے”کلچر ایک انسان کی شخصیت کی کانٹ چھانٹ کرتا ہے،اسے سنوارتا ہے،اسے بنا تا ہے۔اس کی زندگی کو ایک ضابطے میں ڈھالتا ہے۔کلچر ایک معاشرے کا مجموعی طرز فکر،طزز احساس اور طرز عمل ہوتا ہے۔انسان اپنی ذات کو ترتیب دیتا ہے۔معاشرے کے بنائے ہوئے اصولوں پر عمل کر کے اپنی شخصیت کو بناتا سنوارتا ہے۔جیسے کسی جگہ پھول،کانٹے اور خود رو گھاس اگی ہو اور اسے کانٹ چھانٹ کرکے کانٹوں اور گھاس کو الگ کر دیا جائے یا گھاس کو کاٹ کر ایک خاص شکل فراہم کر دی جائے تو اس سے اس زمین کے ٹکڑے کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔اسی طرح جب انسان معاشرے کے کلچر کو اپنا لیتا ہے تو اس کی شخصیت سے زائد اور بے کار خیالات کا اخراج ہو تا ہے جو کو اس کو معاشرے کےلیے قابل قبول بنا لیتا ہے۔
کلچر کے حوالے سے ریمنڈ ولیمز اپنے خیال کا اظہار کرتے ہیں
“society,economy,culture:each of these ‘areas’,now tagged by a concept, is a comparatively recent historical formulation, ‘society’ was active fellow ship, company, common doing before it became the description of a general system or order, ‘Economy’ was the management of a community before it became the description of a perceived system of production, distribution and exchange ‘culture’ before these translations, was the growth and tending of cops and animals and by extension the growth and tending of human faculties.(4)
کلچر کے حوالے سے ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں
"کلچر کا لغوی معنی تو کانٹ چھانٹ ہے،جب آپ اپنے پھولوں کی کیاری کو جڑی بوٹیوں سے پاک کرتے ہیں۔پودوں کی تراش خراش کرتے ہیں اور پھولوں کو کھلنے کا پورا موقع مہیا کرتے ہیں تو گویا کلچر کے سلسلے میں پہلا قدم اٹھاتے ہیں مگر اس ایک مبارک قدم کے فورا بعد آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ ایک دو راہے پر آگئے ہیں۔یہاں سے ایک راستہ تو ایگریکلچر کی طرف جاتا ہے اور دوسرا کلچر کی کارکردگی کو انسانی فطرت کے سلسلے میں فعال بنا دیتا ہے۔بنیادی طور پر انسان کا باطن ایک جنگل کی طرح ہے،جو جذبات کی خاردار جھاڑیوں سے اٹا پڑا ہے اور جس میں راستہ بنانا بڑے جان جوکھوں کا کام ہے۔انسان کے وہ تخلیقی اقدامات جن کی مدد سے اس نے اپنی ذات کے گھنے جنگل میں راستے بنائے اور پھر مستقل تراش خراش کے عمل سے ان راستوں کو قائم رکھا۔کلچرے کے زمرے میں شامل ہے۔”(5) ( یہ بھی پڑھیں انسانی شعور کی منزل – نثار علی بھٹی )
تہذیب کیا ہے؟
اردو زبان میں کلچر اور تہذیب کے معنی کو گڈ مڈ کر دیا گیا۔ ہے۔کلچر کےلیے شروع شروع میں تہذیب کا لفظ بھی استعمال کیا جاتا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ کلچر اور تہذیب کے فرق کو واضح کیا گیا ۔ڈاکٹر وزیر آغا کلچر اور تہذیب میں فرق کچھ ایسے کرتے ہیں”کلچر اور تہذیب میں وہی فرق ہے جو بیج کے مغز اور اس کے چھلکے میں ہوتا ہے۔کلچر مغز ہونے کے باعث تخلیق کا منبع ہے جب کہ تہذیب کی حیثیت اس محافظ کی سی ہےجو چھلکے کی صورت میں مغز کی حفاظت کرتا ہےکلچر بنیادی طور پر کومل ،گداز ،قوت نمو کا خزینہ اور ارتقا کا محرک ہےجب کہ تہذیب اصولوں اور قدروں،قوانین اور ضوابط اور رسوم و رواج کے تابع اور اسی لیے بیضوی،پٹی ہوئی اور بے لچک ہے۔کلچر کا جوہر مذہب ہےجب کہ تہذیب کا کا وصف بھیڑچال اور روایت پرستی ہے۔کلچر انفرادیت کا ضامن ہے،مگر تہذیب تقلیدی رجحان کی علمبردار ہے۔اسی لیے کلچر کردار کو جنم دیتا ہےمگر تہذیب کے کوکھ سے ٹائپس پیدا ہوتے ہیں۔خود کلچر اس وقت جنم لیتا ہے،جب معاشرہ زمین کے ساتھ چمٹے ہونے کے باوجود روح سے آشنا ہوتا ہے جب کہ تہذیب اس وقت وارد ہوتی ہے جب یہ معاشرہ "روح ” کو تیاگ کر ایک پامال اور میکانکی اسلوب حیات کو اپنانے اور کولہو کے بیل کی طرح ایک دائرے میں گھومنے کی تیاری کرنے لگتا ہے”
انسائیکلو پیڈیا آف برٹانیکا میں کلچر کی تعریف یوں ہے
The word ‘culture ‘ in its social, intellectual and artistic sense is a metamorphic term derived from the act of cultivating the soil (Latin culture).In the case of civilization there was an apparently simple contrast with ‘barbarism’ ,another social condition which was originally a description of the life of the foreign group. In the case of ‘culture’ there was no such simple contrast ,the cultivation of mind seen as a process comparable to the cultivation of the soil, hence the early meaning of the ‘culture’ in this metamorphic sense, centered on a process, the culture of the minds’.(6)
سجاد نقوی اس سلسلے میں کہتے ہیں”کلچر کےساتھ بالعموم ایک اور لفظ تہذیب کا ذکر کیا جاتا ہے ۔کثرت استعمال سے یہ لفظ اب کلچر کا مترادف بنتا جا رہا ہے۔مگر جس طرح اصل اور بہروپ میں حقیقت اصلی اور بہروپ لمحاتی ہو تا ہے اسی طرح تہذیب بھی کلچر کا بہروپ ہے۔بہروپ میں چکا چوند ہوتی ہے اور ظاہر بین اس سراب کو ہی حقیقت سمجھ بیٹھتے ہیں”مزید سجاد نقوی کہتے ہیں”میرے نزدیک تہذیب کے لفظ کےساتھ درآمد بر آمد کا تصوروابستہ کیا جا سکتا ہے ملکوں کے مابین فاصلے سمٹ جانے کی وجہ سے یہ جنس دنیا کے کونے کونے میں اپنے وجود کا احساس دلاتی ہے۔کلچر اور تہذیب میں وہی فرق ہے جو بیج کے مغز اور چھلکے میں ہوتا ہے۔”براؤڈل کے نزدیک تہذیب ایک مقام،ایک ثقافتی خطہ ہے۔ثقافتی خواص و مظاہر کا ایک مجموعہ ہے۔”ڈاسن کے نزدیک "تہذیب کسی خاص قوم کی ثقافتی تخلیق کے اصلی عمل کی پیداوار ہے۔”اسپنگلر کے خیال میں تہذیب ثقافت کا لازمی مقدر ہے وہ انتہائی خارجی و مصنوعی کیفیات جن کی کوئی ترقی یافتہ انسانی نسل اہل ہو سکتی ہے زیر تکمیل شئے کے بعد آنے والی شئے ہے۔”ویلر سٹائن تہذیب کی یوں تعریف کرتا ہے”کہ یہ دنیا کے بارے میں نقطہ نگاہ،روایات ،ڈھانچوں اور ثقافت کا ایک مخصوص سلسلہ ہے جو ایک قسم کا تاریخی کل بناتا ہے اور اس قسم کی دوسری شکلوں کے ساتھ اپنا وجود رکھتا ہے”ہنٹنگٹن کے بقول "تہذیب و ثقافت دونوں کسی قوم کے مجموعی طرز حیات کی نشاندہی کرتے ہیں۔دونوں کا تعلق اقدار ،رواج ،اداروں اور طرز ہائے فکر سے ہے”تہذیب کو سمجھنے کے لیے ٖفیض احمد فیض کی رائے بھی دیکھتے ہیں”تہذیب کو سمجھنے کے لیے اس کی مجموعی صورت کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔اول:وہ سب عقیدے،قدریں،افکار،تجربے،امنگیں یا آدرش جنھیں کوئی انسانی برادری عزیز رکھتی ہے۔دوم:وہ آداب،عادات،ادب،موسیقی اور طور اطوار جو اس گروہ میں رائج یا مقبول ہیں۔سوم:وہ فنون مثلا ادب ،موسیقی، مصوری، عمارت گری،دستکاری غرض باطنی تجربے،قدریں،عقائد و افکار اور ظاہری طور اطوار۔۔پورے طریقہ زندگی کو کلچر کہتے ہیں۔جس میں سبھی کچھ شامل ہوتا ہے۔کلچر کی اثرا ندازی ذہنی طور پر بھی ہوتی ہےعقائد و افکار کے ذریعے بھی۔زندگی کے آداب و رسوم سے بھی ،زندگی کے روزمرہ محاورہ سے بھی۔فنون،ادب،موسیقی،مصوری،فلم وغیرہ اسی کلچر یا وے آف لائف کے ترشے ہوئے اور منجھے ہوئے اجزا ہیں۔”انیسویں صدی کے بعد کلچر اور سولائزیشن میں فرق کیا گیا۔جرمنی کے مثالیت پرستوں اور امریکہ کے ماہرین سماجیات نے اس میں فرق کیا۔اس طرح سولائزیشن کا تعلق زندگی کے اداروں،قدروں اور طریقوں کے خارجی پہلوؤں سے قرار پایا اور کلچر کا داخلی پہلوؤں سے۔یعنی سولائزیشن معاشرتی زندگی کے ظاہری رکھ رکھاؤ اور کلچر اس رکھ رکھاؤ کے پس پردہ کارفرما اعلی اخلاقی اقدار کا نام ہے۔ (یہ بھی پڑھیں ثقافت اور تہذیب کےمفاہیم کا معنوی وصوری جائزہ – نثار علی بھٹی)
کلچر اور تہذیب کا فرق
اگر اس بحث کو سمیٹا جائے تو ثقافت ایک اصطلاح ہے جسے کسی رویے کے اظہار کی نشاندہی کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جس طرح ہم سوچتے ہیں ، برتاؤ کرتے ہیں اور عمل کرتے ہیں۔ثقافت مذہب،فن،رقص،ادب،رسوم و رواج میں جھلکتی ہے۔اندرونی تطہیر کی اعلی سطح ہے۔اس میں ترقی ہوتی رہتی ہے۔تہذیب کے بغیر ثقافت پروان چڑھ سکتی ہے اور اپنا وجود برقرار رکھ سکتی ہے۔ثقافت وہ طریقہ ہے جس میں لوگوں کی زندگی کی عکاسی ان کی زبان میں ہوتی ہے۔جس طرح سے وہ چیزوں کو سوچتے ہیں ۔ جس طرح سے کھانا کھاتے اور بناتے ہیں۔جس طرح کپڑے پہنتے ہیں۔جس مذہب کی پیروی کرتے ہیں۔یا ان کی عبادت کے اظہار کا طریقہ۔ثقافت علم،تجربات،اور طرزعمل کا مجموعہ ہےجو عام طور پر لوگوں کے ایک گروپ کے طور پر مشترکہ ہوتا ہے۔کلچر میں آرٹ،علم ،اعتقاد،رسم و رواج،روایات ،اخلاق،تہوار،اقدار،روایات وغیرہ شامل ہیں جو معاشرے کے ایک رکن کی حیثیت سے ایک فرد ایک معاشرتی گروپ کے ممبر کے طور پر حاصل کرتا ہے۔اس میں وہ سب کچھ شامل کیا جا سکتا ہے جو ایک فرد ایک گروپ کے ممبر کی حیثیت سے حاصل کرتا ہے۔مختلف خطوں کے کلچر میں فرق پایا جاتا ہے۔جبکہ تہذیب سے مراد وہ عمل ہے جس کے ذریعے ایک خطہ یا معاشرہ ، انسانی ترقی اور تنظیم کے ایک اعلی درجے کی منزل کو پھیلا دیتا ہے۔اس میں دیکھا جاتا ہے کہ ہمارے پاس کیا ہے۔قانون،انتظامیہ،انفراسٹرکچر،فن تعمیر،معاشرتی انتظامات وغیرہ میں اس کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔یہ عام ترقی کی اعلی سطح ہے۔تہذیب ترقی نہیں کر سکتی اور ثقافت کے بغیر اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتی۔تہذیب ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے سےانسان خود کو مہذب بناتا ہے یا انسانی معاشرہ کی وہ صورت پذیری کرنے میں کردار ادا کرتا ہےجو کلچر ،ٹیکنالوجی،سیاسی و اخلاقی و سماجی نظام کی اعلی ترین سطح ہوتی ہے۔تہذیب زندگی گزارنے کا ایک بہترین انداز اور فطرت کےوسائل کا بہترین ممکنہ استعمال بھی ہے۔اس میں معاشرے کے مختلف گروہوں کومنظم کرنےاور مل جل کر کام کرنے پر زور دیتا ہے ۔خوراک،تعلیم،لباس،ذرائع آمدو رفت،نقل وحمل کے معیار کو بہتر بنانے پر زور دیتا ہے تا کہ معیاری زندگی اعلی سطح تک پہنچ سکے۔
ثقافت /تہذیب کی تشکیل کیسے ہوتی ہے۔
ول ڈیورنٹ نے معاشی سہولت،سیاسی تنظیم،اخلاقی روایات اوور علمی استعداد کو تہذیب و ثقافت کے عناصر ترکیبی میں شامل کیا ہے۔اجزائے ترکیبی یا عناصر ترکیبی سے مراد وہ اجزا ہیں جو بے حد بنیادی ہوں۔جن کے بغیر ثقافت یا تہذیب وجود میں آ ہی نہ سکتی ہو۔یہ عناصر ثقافت کے پس پشت رہ کر ثقافت کے وجود کی تشکیل کرتے ہیں۔ول ڈیورنٹ کے پیش کردہ اجزائے ترکیبی کا جائزہ لیا جائے تو جو نتیجہ بر آمد ہوتا ہے وہ ہے کہ یہ اجزا ثقافت کو استحکام تو بخشتے ہیں لیکن تہذیب و ثقافت ان کے مرہون منت نہیں ہے۔علمی ترقی نے تہذیب کو جان بخشیہے۔سیاسی اداروں کے استحکام کےلیے سیاسی تنظیم بے حد ضروری ہے۔اس طرح اخلاقی روایات ،معاشی سہولیات کسی بھی تہذیب کو اخلاقی اور معاشی طور پر نظم و ضبط میں لانے کے لیے ضروری ہیں۔لیکن ثقافت و تہذیب تو ان عناصر سے پہلے بھی موجود تھی۔یہ سوال الگ ہے کہ وہ کس حالت میں تھی پسماندہ تھی یا ترقی یافتہ شکل میں۔ول ڈیورنٹ یورپ کی ترقی یافتہ تہذیب و ثقافت کا پروردہ ہے ۔یورپ کی مادی تہذیب بہت ترقی کر چکی ہے۔یہ اجزا کسی ترقی یافتہ تہذیب کے اہم اجزا شمار ہو سکتے ہیں۔لیکن ان میں وہ اجزا موجود نہیں جو ہر طرح کی تہذیب و ثقافت کو تشکیل بھی دیں۔اور خارجی اور داخلی اعتبار سے اسے مکمل بھی کریں۔سید سبط حسن کے نزدیک دنیاکی ہر تہذیب و ثقافت کی تشکیل چار بنیادی عناصر سے مل کر ہوئی ہے۔
طبعی حالات
آلات و اوزار
نظام فکر و احساس
سماجی اقدار
تہذیب و ثقافت کی پیدائش اور نمود کے لیے کوئی طے شدہ تاریخی یا عمرانی اصول نہیں ہوتے۔یہ کسی بھی بر اعظم رنگ و نسل میں پیدا ہو سکتی ہے۔کوئی بڑی نسل تہذیب کو پیدا نہیں کرتی بلکہ بڑی تہذیب ہی ہوتی ہے جو قوموں کی تخلیق کرتی ہے۔تہذیب کو ئی جامد شے نہیں ہے۔نہ ہی لا زوال ہے۔بلکہ یہ بنتی اور مٹتی رہتی ہے۔تہذیب ثقافت کی اعلی شکل ہوتی ہے۔جب ثقافت اپنی معیاری شکل اختیاری کر لیتی ہے تو وہ تہذیب میں ڈھل جاتی ہے۔دنیا کی ہر تہذیب چاہے وہ پرانی ہو یا جدید ایک ہی تسلسل سے چل رہی ہیں یعنی مسلسل سفر طے کر رہی ہیں۔کچھ پرانی تہذیبیں جب مٹتی ہیں تو اپنے تجربات،وسائل،نظریات نئی تہذیب کو منتقل کرجاتی ہیں۔اس طرح کچھ بنیادی عناصر تمام تہذیبوں میں پائے جاتے ہیں۔ان بنیادی عناصر میں طبعی و جغرافیائی حالات،آلات و اوزار،نظام فکر و احساس،سماجی اقدار یعنی مذہب،زبان ،قوانین وغیرہ شامل ہیں۔دنیا کے کسی بھی علاقے چاہے وہ گرم ہو یا سرد یعنی وہ افریقہ میں واقع ہو یا ایشیا میں،کی تہذیبوں میں یہ عناصر ایسے ہی موجود ہوں گے،جس طرح یورپ یا امریکہ کی تہذیب میں۔یہ تو ممکن ہے کہ مختلف تہذیبوں میں ان عناصر کی ہیئت مختلف ہو یا ایک عنصر دوسر ے سے زیادہ نمایاں ہوں لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ کسی تہذیب میں عناصر ترکیبی میں سے کوئی عنصر سرے سے موجود ہی نہ ہو۔اس حوالہ سے ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں
"کسی معاشرے کے کلچر کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں۔نیز یہ اجزا کس عمل سے گزر کر اپنی تکمیل کو پہنچتے ہیں۔میرے نزدیک کلچر کے کثیف عناصر معاشرے کی خارجی سطح یعنی اس کے چھلکے پر مشتمل ہوتے ہیں اور ان میں طرز بود و باش ،رسوم،خوشی،اور غم کی تقاریب ،موسم کے ساتھ ہم آہنگی کے مواقع یعنی تہوار،کاروباری زبان،کامرانی یا رد و بلا کے لیے اقدامات ،ارد گرد کے ماحول سے اخذ و اکتساب،کار جہاں اور اس قسم کی دوسری لاتعداد صفات شامل ہیں۔بحیثیت مجموعی ان تمام صفات کی حیثیت اس زمین کی سی ہے جس سے معاشرے کا پیڑ توانائی کشید کرتا ہے۔۔۔۔۔جس معاشرے میں کلچر کے اجزائے ترکیبی یعنی اجزائے کثیف موجود ہوں وہ کچھ عرصے کے بعد ثقافتی اعتبار سے فعال ہو جاتا ہے اور اس کے فنون لطیفہ میں معاشرے کی ورہ روح سمٹ آتی ہے جسے اس معاشرے کے کلچر کا بہترین ثمر قرار دینا چاہیے”(7)
تہذیب کے عناصر ترکیبی کا جائزہ اگر انگریزی ادب کے حوالےسے لیا جائے تو درج ذیل اجزا کو کسی بھی تہذیب کے بنیادی اجزائے ترکیبی قرار دیا جاتا ہے۔
Culture refers to the characteristics that bound a particular group of people, including language, religion, literature, architecture, ethics, music, clothing, cuisine and the art.”(8)
ہیلینڈ نے تہذیب کے عناصر ترکیبی کچھ اس طرح بیان کیے ہیں۔
“The seven elements of culture are social organization, customs and traditions, religion, language, arts, and literature, forms of governments and economic systems.(9)
تہذیب کے اجزائے ترکیبی ان تمام تعریفوں میں تقریبا ایک سے ہیں۔کچھ اجزا ایسے ہیں جو ہر کلچر کا لازمی حصہ ہیں اور ان کے بغیر کوئی بھی کلچر اور تہذیب مکمل نہیں ہو سکتا ۔ان اجزا میں جغرافیائی حالات،آلات و اوزار، نظام فکر و احساس اور سماجی اقدار وغیرہ شامل ہیں۔ان اجزا ایا عناصر کے درمیان ایک نا قابل شکست رشتہ ہے جس کی وجہ سے ایک دوسرے پر اثر انداز بھی ہوتے رہتے ہیں۔یہ چاروں عناصر ہر خطے کی تہذیب و ثقافت میں ہمیشہ سے موجود رہے ہیں۔ان کے بغیر ثقافت کی فارمیشن نہیں ہو سکتی۔ثقافت کی تشکیل میں ان کا ایک اہم کردار ہوتا ہے۔ہم ان پر الگ الگ بحث کرتے ہیں۔ (یہ بھی پڑھیں اردو شاعری کی طلسماتی شخصیت :کیف بھوپالی – ڈاکٹر عمیرمنظر )
طبعی حالات/جغرافیائی پس منظر
کسی بھی تہذیب اور کلچر کی تعمیر اور تشکیل میں طبعی حالات کا بہت عمل دخل ہوتا ہے۔یعنی ہر تہذیب کا اپنا مخصوص جغرافیہ ہوتا ہے۔اس کے دریا،پہاڑ،جنگل،میدان،پھل،پھول،سبزیاں،چرند پرند،آب وہوا،اور موسم اس کا خارجی ماحول ،اس کے طرزعمل ،ذریعہ معاش،رہن سہن،خوراک،پوشاک،مزاج ومذاق،اخلاق و عادات،جذبات و احساسات ، غرض یہ کہ اس علاقے کے انسانوں کی زندگی کے ہر پہلو پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ریگستانی علاقوں کی تہذیب،برف پوش میدانوں کی تہذیب سے مختلف ہوتی ہے۔اور دریائی تہذیب کوہستانی تہذیب سے ۔مثلا یورپ اور عربوں کی تہذیب ایک دوسرے سے مختلف ہے تو اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ عربوں کے طبعی حالات ،یورپ کے طبعی حالات سے بہت مختلف ہیں۔
خارجی حالات سے کسی قوم کی تہذیب ہی متعین نہیں ہوتی بلکہ اس قوم کے افراد کی شخصیت دوسرے خطے کے رہنے والے لوگوں سے مختلف ہوتی ہے۔یعنی یورپ کے رہنے والےلوگ اور ایشیا کے رہنے والےلوگوں کی شخصیت کا جازئزہ لیا جائے تو یہ ایک دوسرے سے بہت مختلف ہوں گی۔اس کی بنیادی وجہ طبعی ماحول کا مختلف ہونا ہے۔
تہذیب و ثقافت کے ابتدائی دور میں انسا ن کی زندگی کا ہر لمحہ طبعی ماحول کے تابع تھا اور انسان ماحول کے ہاتھوں بے بس تھا۔وہ نہ تو ماحول پر قابو پا سکتا تھا اور نہ ہی ماحول کو بدلنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔قدیم دور کا انسان جب غار میں قیام پذیر تھا تو اس کے پاس اپنے تحفظ کی قوت بھی نہ تھی۔مگر ایک وقت ایسا آیا جب انسان نے اپنی بڑھتی ہوئی ضروریات کے تحت اپنے طبعی ماحول کو بدلنے کی کوشش کی۔انسان کی کلی جدوجہد اصل میں فطرت کو تسخیر کرنے کی ہی کاوش ہے۔ (یہ بھی پڑھیں دھیمے سُروں کی شاعری (شہریار کی شاعری کا تفصیلی مطالعہ۔ حصّہ اوّل ) – ڈاکٹر صفدر امام قادری )
انسان نے اپنی قوت تسخیر سے اتنی ترقی کر لی ہے کہ جن ملکوں میں کوئلے اور لوہے کا نام و نشان نہیں وہاں سٹیل ملیں کام کر رہی ہیں۔جہاں تیل کا قطرہ نہیں وہاں تیل سے چلنے والی مشینوں اور گاڑیوں کی بھرمار ہے۔جہاں ریگستان اور ویران میدان تھے وہاں پھل دار درخت لگ گئے ہیں۔اور اناج اور فصلیں نظر آتی ہیں۔صحراؤں اور ویرانوں میں بلند و بالا عمارتیں کھڑی ہیں۔غرض یہ کہ صنعت و حرفت اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے طبعی حالات اور ماحول کو متاثر کرنا شروع کر دیا ہے۔مگر پھر بھی کسی علاقے کی ترقی اور ارتقا میں وہاں کے طبعی حالات اور ماحول نمایاں اہمیت کے حامل ہیں۔اور کسی بھی تہذیب کے بنیادی عناصرمیں سے ایک اہم عنصر اس کے طبعی حالات و ماحول کا ہے۔
آلات و اوزار
تہذیب کے عناصر ترکیبی میں ایک اہم عنصر آلات و اوزار ہیں۔تہذیب کی عمارت کا دارومدار آلا ت و اوزار پر ہے۔اور انسانی تہذیب کی ترقی آلات و اوزار کی ترقی پر ہی منحصر ہوتی ہے۔جس قسم کے آلات و اوزار ہوتے ہیں اسی قسم کی تہذیب ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ تہذیب کے مختلف ارتقائی ادوار آلات و اوزار ہی کی مناسبت سے مقرر کئے گئے ہیں۔مثلا پتھر کے زمانے کی تہذیب،کانسی کا زمانہ،اور لوہے کا زمانہ کی تہذیب وغیرہ ۔اس حوالے سے ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں
"دنیا میں تہذیبوں کےابھار،ان کی ترقی،اور ان کے پھیلاؤ میں دھاتوں کا بڑا حصہ ہوتا ہے ۔کانسی نے انسان کو پتھر کے زمانے سے نکالا اور اسے نئے اوزار اور ہتھیار دیئے جن کی مدد سے اس نے اپنی زندگی کو سدھارا جب لوہے کی دھات دریافت ہوئی تو اس نے تہذیبوں کی ترقی میں بہت زیادہ حصہ لیا۔”(10)
یعنی جس زمانے میں انسان پتھر یا ہڈی کے آلات و اوزار استعمال کرتا تھا تو اس کا رہن سہن ،رسم و رواج ا،عادات و اطورا وغیرہ اس مخصوص تہذیب کے عکاس تھے۔لیکن جب کانسی کے اولات و آزار نے رواج پایا تو معاشرے کا پورا بالائی ڈھانچہ بدل گیا۔لوگوں نے جنگل و ویرانوں میں پھرنے کی بجائے بستیاں آباد کر لیں۔مویشی پالنا اور کھیتی باڑی شروع کر دی۔مٹی اور دھات کے برتن بنانے لگے،یوں باقاعدہ شہر اور ریاستیں قائم ہوئیں۔نئے نئے پیشے اور ہنر وجود میں آئے تو طبقے بنے ،اخلاق و آداب کے ضابطے اور قوانین وضع کیے گئے۔اس طرح پورے معاشرے میں طرز زندگی اور فکر و احساس کا نیا نظام قائم ہو گیا۔جو پتھر کے زمانے سے مختلف تھا۔آلات و اوزار کی تبدیلی سے معاشرے کی زندگی کے ہر شعبے میں انقلابی تغیرات آئے۔کسی زمانے کی تہذیب ہو انسان کی ہی جسمانی اور ذہنی کاوشوں کا مظہر ہوتی ہے۔یوں کسی تہذیب کا عروج و زوال کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ اس تہذیب کے پیروکاروں نے اپنی ذہنی توانائیوں سے کس حد تک استفادہ کیا ہے۔اسی طرح جب لوہے کا زمانہ آیا اس نے تہذیب کے پھیلاؤ اور ترقی میں بہت مدد کی خاص کر ٹیکنالوجی میں کیوں کہ لوہے کے آلات و اوزار زیادہ مضبوط اور کار آمد تھے۔دراصل آلات و اوزار ہی وہ بنیادی عنصر ہے جو کسی معاشرے کے عروج و زوال کا باعث بن سکتا ہے۔جب کوئی معاشرہ نئے آلات و اوزار کو قبول کرنے سے انکا ر کر دیتا ہے تو درحقیقت وہ آئین کو رد کرتا ہے۔اور یوں اس کی تہذیب زوال کا شکار ہو جاتی ہے۔اس کی مثال بابل،یونان،روم،ہندوستان اور چین کی قدیم تہذیبیں ہیں جن کے زوال کی تاریخ درحقیقت آلات و اوزار اور معاشرتی رویوں کے جمود کی تاریخ ہے۔یہ عظیم تہذیبیں معاشرے کی بڑھتی ہوئی ضرورتوں کا ساتھ نہ دے سکیں اور فنا ہو گئیں۔وادی سندھ کی تہذیب پر آریہ اس وجہ سے غالب آئے تھے کہ ان کے پاس جدید آلات و اوزار تھے۔اسی طرح ہندوستان پر انگریزوں کے تسلط اور جنگ آزادی 1857 ء میں ہندوستانیوں کی شکست کا سبب بھی مغربی تہذیب کی برتری تھی ۔غرض کسی بھی تہذیب میں تبدیلی اور ترقی کا سبب انسان کے بنائے ہوئے جدید آلات و اوزار ہی تھے۔
نظام فکر و احساس
"تہذیب کے صرف خارجی مظاہر ہی نہیں ہوتے بلکہ اس کا ایک دل و دماغ بھی ہوتا ہے یعنی ایک فکر یا فلسفہ زندگی جس کے بغیر تہذیب محض ایک ڈھانچہ رہ جاتی ہے۔”(11)
فکرو احساس ،عقائد و خیالات میں تبدیلی ،آلات و اوزار،سماجی روابط اور شعور انسانی میں تبدیلی کہ وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔بلکہ یہ تبدیلی اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ معاشرہ اور موجودات،حالات اور تخلیقی نوعیت اب و ہ نہیں رہی جو پہلے تھی۔پتھر کے دور کے جو حالات تھے اسی اعتبار سے عقائد و خیالات بھی تھے۔جہالت،جادو ٹونوں اور پیروں پنڈتوں پر ایمان یہ قدیم دور کی شعوری پسماندگی کو ظاہر کرتی ہے۔اس ترقی یافتہ دور میں جہاں عقل و شعور میں اضافہ ہوا ہے وہاں آج بھی لاکھوں کڑوڑوں لوگ توہم پرستی اور ضعیف الاعتقادی کا شکار ہیں۔ان کی زندگی آج بھی پرانے طریقوں اور عقائد میں الجھی ہوئی ہے ۔جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی برابر کوشش رہی ہے کہ مزدور،عوام اور کسان جدید تعلیم سے محروم رہیں۔تاہم جدید دور میں زلزلوں،آندھیوں اور سیلابوں کے مادی اسباب تلاش کر لیے گئے ہیں ،ستاروں سیاروں کی گردش کے راز معلوم کر لیے گئے ہیں۔ان انکشافات و ایجادات نے انسان کے عقائد و خیالات میں بھی عظیم الشان انقلاب برپا کر دیا ہے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے خیالات و افکار خلا میں نہیں بلکہ تہذیب کے دوسرے عوامل کی طرح سماجی حالات سے ہی جنم لیتے ہیں۔
انسان کو جو چیز دوسری تمام مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے وہ اس کی زبان اور اس کا شعور ہے۔شعور فقط انسانی خصلت ہے۔خود انسان میں شعور نسلی وطبعی نہیں بلکہ اکتسابی ہے۔زبان کی طرح شعور بھی انسان کی بنیادی احتیاجات کی تخلیق ہے۔انسان اپنے آغاز سے ہی گروہ اور قبیلے کی شکل میں زندگی بسر کرتا رہا ہے۔انسان کو سب سے پہلے حسی ماحول کا شعور حاصل ہوا،ساتھ ان رشتوں کا ادراک ہواجو اسے دوسرے افراد یا اشیا سے قائم کرنا پڑے۔تبھی اسے موجودات عالم اور فطرت کا شعور ہوا۔جس کی وجہ سے انسان تہذیب کے ارتقا میں حصہ دار بنا۔
ہر تہذیب کا مخصوص نظام فکر و احساس ہوتا ہے۔یہ نظام اس رشتے کی نوعیت واضح کرتا ہےجو معاشرے کے افراد اور خارجی ماحول میں استوار ہوتاہے۔انسان کے موجودہ حالات جس سطح پر ہوتے ہیں اس کے شعور کی سطح بھی وہی ہوتی ہے۔جمادات،نباتات ،حیوانات اور دوسرے انسانوں سے اس کا رابطہ جس قسم کا ہوتا ہے اس کے سوچنے،محسوس کرنے کا انداز اور عقائد و رجحانات بھی اسی کے مطابق ہوتے ہیں۔آلات و اوزارا اور سماجی روابط میں تبدیلی کی وجہ سے نظام فکر و احساس میں بھی تبدیلی آتی ہے۔یہ تبدیلی اس بات کی دلیل ہے کہ معاشرے کی تخلیقی ااساس اب وہ نہیں رہی جو پہلے تھی مثال کے طور پر قدیم دو ر کا انسان کمان سے شکار کر کے یا خود رو درختوں کے پھل کھا کر اپنی ضرورت پوری کرتا تھا۔اس نے اپنی جبلت اور اپنے روزمرہ سماجی تجربوں سے ارد گرد کی چیزوں کے خواص معلوم کر لیے تھے۔لیکن وہ مظا ہر قدرت کے قوانین سے واقف نہیں تھا۔اس لیے وہ تمام موجودات عالم کو اپنی طرح فعال شخصیت سمجھتا تھا۔اس کی زندگی کا انحصار ہی ان کے طرز عمل پر تھا۔اس لیے جو چیزیں اس کو خوش کرتیں وہ ان کو پسند کرتا اور جو دکھ دیتی ان سے ڈرتا تھا اور ان کو تسخیر کرنے کے لیے جادو منتر سے کام لیتا یا پھر ان کی پرستش کرنا شروع کر دیتا۔اس وقت انسان کا نظام فکر و احساس افزائش نسل اور خوراک کی ضرورتوں کے گرد گھومتا تھا۔
جہاں تک بقائے حیات کا تعلق ہے قدیم دور کا انسان بیماریوں کے اسباب جاننے اور ان پر قابو پانے سے قاصر تھا۔جبکہ دور حاضر کے انسان نے بیشتر بیماریوں کا علاج دریافت کر لیا ہے۔اور علم طب نے بھی بہت ترقی کر لی ہے مگر قدیم انسان علاج سے نا واقف ہونےکی وجہ سے تواہم پرستی کا شکار ہو جاتا تھا۔تہذیب کے ارتقا کے ساتھ انسان کے فکر و احساس میں ارتقا ہوتا گیا،تبدیلی آتی گئی مثلا لوہے اور کانسی کی تہذیبوں کے انسان کا طز ز و فکر و احساس قدیم زمانے کے احساس سے زیادہ ترقی یافتہ تھا۔اس دور میں پیداواری آلات و اوزار بہتر ہوگئے تھے۔پیداوار اور آبادی میں اضافہ ہو گیا تھا۔قدیم پتھر کا زمانہ سفری اور شکاری تھا۔جبکہ کانسی اور لوہے کا دور حضروی او زرعی ہو گیا تھا۔اس وقت انسان مادی تخلیقات پر قادر ہو رہا تھا۔اس طرح انسان کے شعوری ارتقا کا اثر اس دور کے عقائد،مذہبی رجحانات،علم و ادب،فنون لطیفہ،سماجی رجحانات اس کا طر ز معاشرت پر بھی پڑا۔جب معاشرہ طبقات میں تبدیل ہواتو ان طبقوں نے معاشرتی نظام سے ملتا جلتا پوری کائنات کا دیومالائی نظام وضع کر لیا۔تخلیق کائنات کے نئے نئے عقائد نے بھی تبھی رواج پایا۔شعور کی کمی کے باعث ہی قدیم انسان نے کائنات کے نظام کو بھی اپنے سماجی نطام کے حوالے سے دیکھا۔
اس دور میں فنون لطیفہ اور داستان میں لوگوں کی طرز زندگی کا جذبات و احساسات ،غم و خوشیاں ،عادات و اطورا میں ان کے طرز فکر و احساس سماجی شعور کے تابع ہوتا ہے۔اور یہ سماجی شعور سماجی حالات کے مطابق ہوتا ہے۔مثلا انسان کو ہزاروں سال سے یہ ہی یقین تھا کہ کائنات کا مرکز زمین ہے۔اور چاند ،سورج زمین کے گرد گھومتے ہیں۔دوسرا عقیدہ ہے زمین فرش کی طرح بچھی ہوئی ہے۔اگر کوئی سائنس دان ان عقائد سے اختلاف کرتے ہوئے کہتا کہ زمیں گھومتی ہے تو اس پر کفر کا فتوی لگ جاتا اور اسے قتل کر دیا جاتا تھا ۔مگر جب انسان نے سائنسی ترقی کی بنیاد پر اپنے تجربوں سے معلوم کر لیا کہ بارش،سیلاب،آندھی،طوفان سب کےسب مادی اسباب ہیں ان کی پیشنگوئی کی جاسکتی ہے اسی طرح زمین سورج اور چاند وغیرہ مادے کی مختلف شکلیں ہیں۔ان انکشافات و ایجادات نے انسان کےافکار و عقائد میں انقلاب بر پا کر دیا۔اس سے ثابت ہوا کہ انسان کے افکار و احساسات تہذیب کے دوسرے عوامل کی طرح سماجی حالات کی پیداوار ہوتے ہیں اور ہر تہذیب کے نظام و فکر و احساس میں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں اور ان تبدیلیوں کا باعث سماجی حالات میں تغیرات ہیں۔(یہ بھی پڑھیں ناقدین کے عجائب خانوں کاقیدی:میراجی- پروفیسر ابوبکرعباد )
جب کلچر طبقات میں بٹ جاتا ہے تو خیالات کی نوعیت بھی طبقاتی ہو جاتی ہے اور جس طبقے کا غلبہ معاشرے کے مادی وسائل پر ہوتا ہے اسی کا غلبہ ذہنی قوتوں پر بھی ہوتا ہے یعنی معاشرےمیں اس کے خیالات و افکار کا چرچا ہوتاہے مثلا اشرافیہ طبقے کی تہذیب میں ایفائے عہد،شجاعت،سخاوت،عدل،مہمان نوازی اور عزت داری کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔کیوں کہ اس طبقہ کی بقا کے لیے ان تصورات پر عمل کرنابہت ضروری تھا۔لیکن صنعتی دور میں جب سرمایہ دار طبقے کا غلبہ ہوا تو ان تصورات کی پرانی افادیت باقی نہ رہی۔ان کی جگہ آزادی،مساوات،جمہوریت کے تصورات نے رواج پایا کیونکہ یہ تصورات سرمایہ دار نطام کے لیے ضروری تھے۔
طبقاتی تہذیبوں میں خالص افکار و عقائد کے خلاف باغیانہ خیالات بھی ابھرتے رہتے ہیں۔حکمران طبقہ ان خیالات کا سختی سے سد باب کرتا ہے۔ان خیالات کی تبلیغ کرنے والوں کو ملک و قوم کا دشمن قرار دیا جاتا ہے اور ان کی زباں بندی کی جاتی ہے۔اور ان کی تحاریر کو نذر آتش کر دیا جاتا ہے۔موجودہ دور میں اس طرح کے حالات و واقعات معاشرے میں عام ہیں۔غرض کسی بھی تہذیب و کلچر کی ترقی اور ارتقا میں اس تہذیب یا ثقافت میں پنپنے والے افراد کے طرز فکر و احساس کا نمایاں حصہ ہوتا ہے۔
سماجی اقدار
کسی معاشرےمیں روابط و سلوک،اخلاق ،عادات ،طرز بودو باش،رسم و رواج،حسن و جمال ،فن ،اظہار فن یعنی فنون لطیفہ سے معیار رائج ہوتے ہیں وہ ہی اس معاشرے کی سماجی اقدار کہلاتی ہیں۔سماجی اقدار کسی قانون کے ذریعہ نافذ نہیں ہوتی ہیں بلکہ ان کے پیچھے صدیوں کی تہذیبی روایا ت ہوتی ہیں۔معاشرے کی کسب و جہد،تجزیے،مشاہدے،جمالیاتی ذوق اور ان سب کے قوام سے سماجی قدریں تشکیل پاتی ہیں۔معاشرے کے افراد ان قدروں کی حتی الوسع پابندی کرتے ہیں۔پرانے زمانے میں ان قدروں پر بڑی سختی سے عمل کیا جاتا تھا۔اور ان سے انحراف کرنے والوں کو قبیلے یا خاندان سے ہی خارج کر دیا جاتا تھا۔مثلا کچھ قبائل میں بدلہ لینے کا رواج بہت عام تھا۔جو شخص اس سے اجتناب کرتا تو اس کو خاندان بدر کر دیا جاتا تھا۔کوئی بھی معاشرہ اپنی سماجی قدروں کی پاسبانی اس وجہ سے کرتا ہے کہ سماج کی بقا کا دارومدار بہت حد تک ان سماجی قدروں کے تحفظ کی وجہ سے ہوتا ہے۔اگر ان قدروں کی طرف سے غفلت برتی جائے تو معاشرے کا شیرازہ بکھرجائے اور اس کی انفرادیت باقی نہ رہے۔دراصل سماجی قدروں کو کوئی بھی معاشرہ اپنی ضرورتوں کے پیش نظر وضع کرتا ہے ۔بعض سماجی قدریں اپنے عہد کی تقریبا سبھی تہذیبوں میں مشترک ہوتی ہیں۔مثلا جن دنوں غلامی کا رواج نہیں ہوا تھا تب جنگی قیدیوں کو قتل کر دیا جاتا تھا ۔کیوں کہ معاشرہ قیدیوں کی کفالت نہیں کر سکتا تھا۔اور نہ ہی ان کو آزاد چھوڑ سکتا تھا۔اس وقت انسانوں کا خون ناحق اخلاقی جرم نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ معمولات میں شامل تھا لیکن جب حکمرانوں کو احساس ہوا کہ جنگی قیدیوں سے روٹی کپڑا کے عوض مشقت کے سخت سے سخت کام لیے جا سکتے ہیں اور ان کی مد د سے پیداوار بڑھائی جا سکتی ہے تو ان کو قتل کرنے کا رواج ترک کر دیا گیا۔اور ان کو غلام بنایا جانے لگا۔غلام اور کنیزیں آقاؤں کی ذاتی ملکیت بن گئیں۔ان کی خرید و فروخت بھی شروع ہو گئی۔اس طرح سماجی رشتوں کے بعض غیر پیدواری قدریں بھی مشترک ہوتی ہیں۔مثلا سچائی ،مہمان نوازی،رحم دلی،عدل و انصاف،مظلوم کے ساتھ ہمدردی فنکاروں کی عزت ،عالم فاضل لوگوں کا احترام،شعر و شاعری اور گانے بجانے کا شوق شادی بیاہ کی تقریباب ،خوشی اور غمی یا موت پر افسوس کا اظہار وغیرہ یہ قدریں کم و بیش تمام تہذیبوں میں رائج ہوتی ہیں۔ان کے برتنے کا انداز اور قاعدے مختلف ہوتے ہیں۔
بعض قدریں معاشرے کی انفرادی خصوصیات ہوتی ہیں اور ضروری نہیں دوسر امعاشرہ بھی ان قدروں کی پیروی کرے مثلا بعض قومیں چھپکلی،سانپ،مینڈک،سور حتی کہ کتے کا گوست شوق سے کھاتی ہیں جبکہ دوسرے قومیں ان کو چھونا بھی پسند نہیں کرتی ہیں۔اس طرح برہنگی مسلم معاشرے میں نہایت معیوب ہے جبکہ بعض دوسرے معاشروں میں صورت حال اس کے بر عکس ہے۔یہی حال اور بہت سی سماجی قدروں کا ہے۔ہم دوسروں کی سماجی قدروں کو اپنی سماجی قدروں کی کسوٹی پر پرکھنے کے مجاز نہیں ہیں۔سماجی قدروں کو پرکھنے کا ایک عالمگیر معیار ہے تو وہ یہ کہ آیا ان قدروں سے افراد کی داخلی صلاحیتوں یعنی ذہنی اور جسمانی امکانات کو فروغ ملتا ہے۔ان کی تخلیقی قوت اور توانائی بڑھتی ہےیا نہیں۔
سماجی قدریں جامد اور نا قابل تغیر نہیں ہوتیں بلکہ ان میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔معاشرتی ماحول اور سماجی حالات میں جو تبدیلیاں آتی ہیں۔ان کا اثر قدروں پر بھی پڑتا ہے۔مثلا کسی زمانے میں عرب قبائل میں مروت اور محبت کو انسانیت کا جوہر خیال کیا جاتا تھا لیکن اب عرب تہذیب کے مراکز میں احساس کا وہ نام و نشان نہیں۔سماجی قدریں ہر عہد میں معاشرے کی نوعیت اور اس کے تقاضوں کے عکاسی کرتی ہیں۔طبقاتی معاشرے میں عام آدمیوں اور اونچے طبقے کے لیے سماجی قدروں کے پیمانے الگ ہوتے ہیں۔اخلاقی قدروں کے معیار میں اختلاف ہر طبقاتی معاشرے کی خصوصیت ہے۔یہ اختلاف ہر معاشرے میں ہوتا ہے۔
کسی بھی تہذیب کی بنیاد اس تہذیب کے اجزائے ترکیبی یا عناصر ترکیبی پر مبنی ہوتی ہے۔جو اس تہذیب کے عروج و زوال او اس کی امتیازی خصوصیات کو واضح کرتے ہیں۔جس معاشرے میں تہذیب کے جتنے زیادہ عناصر ترکیبی منظم ہوں گے وہ ہر اعتبار سے فعال ہو گا۔اور اس کے فنون لطیفہ میں معاشرے کی اصل روح سمٹ آتی ہے۔ساتھ ہی اس معاشرے کے زبان و ادب پر اس کے اثرات واضح ہوتے ہیں۔اب تہذیبی خصوصیات کو جانتے ہیں تا کہ کلچر اور تہذیب کی پہچان اور شناخت ممکن ہو سکے۔
تہذیبی خصوصیات
تہذیب کسی قوم یا معاشرے کی مشترک خصوصیت ہوتی ہے ۔جس سے نہ صرف وہ قوم پہچانی جاتی ہے بلکہ دوسری اقوام اور معاشرے سے اگر فرق کرنا چاہیں تو تہذیب و ثقافت ہی کی مد د سے اس کا تعین کیا جاتا ہے۔وجہ یہ ہے کہ جبلت کی سطح پر اقوام کے درمیاں امتیاز نہیں کیا جاسکتا۔بقول ڈاکٹر جمیل جالبی
"بھوک لگتی ہے تو ہم کھانا کھا لیتےہیں یہ ایک جبلی عمل ہے۔دنیا کی ہر قوم میں پایا جاتا ہے اس اسے کلچر کے ذیل میں نہیں لایا جا سکتا۔اس کے بر خلاف کھانا کھانے اور پکانے کے طریقے کلچر کا حصہ ہیں۔انہیں طریقوں سے قوموں کے درمیان امتیاز پیدا ہوتاہے۔”(12)
تہذیبی خاکہ کی ساخت پرداخت انسان کی ہی رہین منت ہے۔ظاہر ہے کلچر کا تعلق معاشرے سے ہے چنانچہ تہذیب خلا میں جنم نہیں لیتی۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کچھ تہذیبی رویے وراثت میں ملتے ہیں تاہم ان رویوں کا نام بھی تہذیب ہے جو اپنے خاص ماحول،خاص عقائدو افکار اور دوسرے اثرات کے تحت پیدا کرتا ہے۔یہ اکتسابی عمل بھی کسی قوم کہ تہذیب میں یگانگت اور دوسری اقوام سے امتیاز واختلاف پیدا کرتا ہے اس لحاظ سے قومی تہذیب فرد اور اجتماع دونوں کا مشترکہ سرمایہ ہے۔
کوئی بھی تہذیب دوسری تہذیبوں سے الگ ہو کر پروان نہیں چڑھ سکتی ۔ماضی کی تہذیبوں کے تجربات،گردو پیش میں پائی جانے والی ہم عصر تہذیبیں کسی بھی تہذیب پر مختلف انداز میں اثر انداز ہوتی ہیں۔تہذیب پر نہ صرف قومی میلانات و رجحانات کا ہی اثر ہوتا ہے بلکہ دوسری تہذیبیں بھی اسے متاثر کرتی ہیں۔یہ اثر پذیری اور لچک تہذیبوں کی نمایاں خصوصیات ہیں۔دوسری تہذیبوں کے خواص قبول کرنے کے صلاحیت ہی کسی تہذیب کو زندہ و تابندہ اور ہر آن محرک رکھتی ہے۔کوئی بھی تہذیب دوسری تہذیبوں سے کٹ کر ،محدود ہو کر،آگے کی طرف قدم نہیں بڑھا سکتی۔
رابرٹ بریفالٹ کے نزدیک ترقی ہمیشہ ثقافتوں کے تعاون اور خیالات و تصورات کے تصادم سے پیدا ہوتی ہے۔کوئی بھی معاشرہ کتنا ہی مہذب کیوں نہ ہو اس کی ترقی کے امکانات دوسرے معاشروں کے تعان و اشتراک کے بغیر محدود ہوتے ہیں۔کوئی بھی انسانی تہذیب دوسری تہذیبوں سے کٹ کر ترقی کی جانب گامزن نہیں ہو سکتی۔ایس تہذیب ایک خاص مرحلے پر پہنچ کر جامد و ساکت ہو جاتی ہے اور زوال اس کا مقد ر بن جاتا ہے۔کسی تہذیب کے اثرات منفی بھی ہو سکتے ہیں او ر مثبت بھی۔مسلم تہذیب پر جہاں مغربی تہذیب کے مثبت اثرات ہیں وہاں منفی بھی ہیں۔اصل بات یہ ہے کہ کشادہ دلی اور روشن خیالی کے ساتھ اعتدال و توازن سے کام لیتے ہوئے ،اپنی تہذیب کے بنیادی مزاج کو مدنظر رکھتے ہوئے مثبت عناصر کو اپنی تہذیب میں جگہ دی جائے اور دوسری تہذیب سے شعوری موازنہ کرتے ہوئے اپنی تہذیب کے مردود اور فرسودہ اجزا کو خارج کر کے ترقی کی طرف لے جایا جائے۔ (یہ بھی پڑھیں امیر خسرو کی جمالیات – پروفیسر شکیل الرحمٰن )
ہر زندہ شے کے لیے لازم ہےکہ وہ زندہ رہنے کے لیے اپنے آپ کو ماحول کے مطابق بنائے۔اس کی توانائی اور عمل ان حالات سے ہم آہنگ ہونا چاہیے جو خارجی واسطوں سے اس پر عائد ہوں۔تہذیب کو زندگی کے لیے کبھی خود کو ماحول کے مطابق بنانا پڑتا ہے اور کبھ حالات اور ماحول کو اپنی زندہ اقدار کے مطابق ڈھالنا پڑتا ہے ۔تہذیب وسیع ترین ثقافتی اکائی ہے ،تہذیبیں جامع ہوتی ہیں یعنی پوری تہذیب کے بغیر ان کے کسی ایک جزو کو نہیں سمجھا جا سکتا ۔بقول میلکو تہذیبیں اتحاد کا درجہ رکھتی ہین۔ان کے اجزا کا تعین آپس میں روابط اور کل کے ساتھ روابط میں ہوتا ہے۔اگر تہذیب ریاستوں پر مشتمل ہو تو ان میں اتحاد و یگانگت ان ریاستوں سے زیادہ ہو گا جو ان کی تہذیب سے مختلف تہذیبیں رکھتی ہیں۔وہ ایک دوسرے پر اقتصادی حیثیت سے زیادہ اعتبار کریں گی۔ان میں سفارتی روابظ زیادہ ہو سکتے ہیں۔ان میں نفوذ پذیر جمالیاتی و فلسفیانہ ،مذہبی و سیاسی دھارے مشترک ہوں گے۔ٹائن بی کے نزدیک تہذیبیں احاطہ کرتی ہیں اور دوسروں کے احاطہ میں نہیں آتیں۔ایک تہذیب سے تعلق رکھنے والے دیہات ،خطے،شہر،نسلی و قومی گروہ مذہبی جماعتیں، سرکاری و نجی طبقے ،ملازمین ،کاروباری گروہ اور مختلف ممالک سب ثقافتی اختلاف کی مختلف سطحوں پر جداگانہ ثقافتوں کے حامل ہو سکتے ہیں۔لیکن ان سب کی ایک مشترک ثقافتی اکائی ہو گی جو ان کودوسری تہذیبوں سے تعلق رکھنے والے خطوں سے ممتاز کرے گی۔پاکستان کی ثقافت عرب سے مختلف ہو سکتی ہے لیکن دونوں کی ایک مشترکہ تہذیب ہو گی۔جو ان کو مغربی تہذیب سے الگ کرے گی۔جنوبی اٹلی کے کسی گاؤں کی ثقافت شمالی اٹلی کے کسی گاؤں سے مختلف ہو سکتی ہے لیکن دونوں کی ایک مشترکہ اطالوی ثقافت ہو گی جو جرمن دیہات سےا ن کو ممتا ز کرے گی۔بقول ہٹنگٹن تہذیبیں سب سےبڑا "ہم ” ہیں جن کے اندر ثقافتی طور پر لوگ اطمیان محسوس کرتے ہیں باہر موجود "ان” کے مقابلے میں تہذیب افراد کی اعلی ترین گروہ بندی ہے اور تہذیبی شناخت کی وسیع ترین سطح ہے۔شناخت کی مختلف سطحیں ہو سکتی ہیں۔مثلا روم کا رہنے والا مختلف سطحوں پر خود کو رومی بتا سکتا ہے ،اطالوی بھی،عیسائ بھی،یورپی بھی اور مغربی بھی۔آخری سطح وسیع ترین سطح ہے جس سے فرد وابستہ ہے اسی طرح یورپی آبادیوں میں مشترک خواص ہوں گے جو ان کو چینی ،ہندو یا مسلم آبادیوں سے ممتاز کریں گے۔
تہذیبوں کی کوئی واضح سرحد نہیں ہوتی اور نہ معینہ آغاز و انجام۔چنانچہ وقت کے ساتھ ساتھ تہذیبوں کی ترکیب و شکل بدلتی رہتی ہے۔اقوام کی تہذیبیں ایک دوسرے پر اپنا اثر ڈالتی ہیں۔۔۔۔اس طرح تہذیبیں مسلسل ارتقا پذیر رہتی ہیں۔تہذیبیں انتہائی طویل المدت ادارے کی حیثیت رکھتی ہیں۔”سلطنتیں عروج و زوال پاتی ہیں،تہذیبیں باقی رہتی ہیں” اور سیاسی ، معاشی،معاشرتی حتی کہ نظریاتی انقلابات سے بھی بچ کر نکل آتی ہیں۔”ریاستوں کی حدود گھٹتی بڑھتی ہیں مگر قوموں اور تہذیبوں کی حدود بے حد مشکل سے گھٹتی بڑھتی ہیں مثلا پاکستان کی سرحدیں آج وہ نہیں جو 1947 ء میں تھیں۔تہذیبیں کچھ بنیادی تصورات ،رسومات اور اقدار کی بنیاد پر نسل در نسل چلتی ہیں۔اور معاشرے کو متحرک رکھتی ہیں۔ماضی،حال اور مستقبل کے فرق کے باوجود کہ معاشرے کے تسلسل اور یگانگت کو کو برقرار رکھتی ہیں۔بوزمین کے نزدیک یہ وہ بنیادی اقدار،ادارے،رواج اور تصورات ہوتے ہیں جن کو ایک مخصوص معاشرے کی مختلف نسلوں نے اہمیت دی ہو اور جنہوں نے مختلف نسلوں میں پرورش پائی ہو۔اور جو کسی قوم کے ارتقا و تسلسل کی علامت بن گئے ہوں۔
تہذیبیں ثقافتی اکائی کی حیثیت رکھتی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ کسی ایک تہذیب کے اندر ایک سے زیادہ سیاسی ملک بھی ہو سکتے ہیں۔جیسے مسلم تہذیب میں مسلم ممالک،مغربی تہذیب میں مغربی ممالک۔ایک تہذیب کے اندر صرف ایک ملک بھی ہو سکتا ہے۔مثلا جاپان۔اسی طرح ایک ملک میں صرف ایک قوم بھی ہو سکتی ہے اور کئی قومیں بھی۔مثلا جاپان میں جاپانی اور عراق میںعرب اور کرد،کینیڈا میں برطانوی اور فرانسیسی قومیں۔بھارت میں مسلمان ہندو،سکھ ،قومیں ۔جن ملکوں میں فقط ایک قوم آباد ہو وہاں ریاست ہی ایک تہذیب بن جاتی ہے۔جاپان ایسی ریاست ہے جو تہذیب بھی ہے اور ریاست بھی۔چین ریاست کے لبادے میں ایک تہذیب ہے لیکن جن ملکوں میں ایک سے زیادہ اقوام ہوں وہاں ریاستی تشکیل کا انحصار زیادہ تر قوموں کے رویے ،طرز فکر اور احساس کے ربط و آہنگ پر ہوتا ہے۔تہذیب کی تعریف کرنے والے بنیادی ثقافتی معروضی عناصر میں عموما مذہب سب سے اہم ہے۔اگرچہ نسل اور زبان بھی مشترکہ تہذیبی خواص میں مددگار ہوتے ہیں لیکن تہذیبوں کی شناخت عموما مذاہب ہی سے ہوتی ہے۔جو لوگ مشترک نسل اور زبان رکھتے ہیں وہ ایک دوسرے کا قتل عام کر سکتے ہیں۔جیسے کہ یوگو سلاویہ،برصغیر اور فلسطین میں ہوا۔ایک نسل کے افراد میں تہذیبی اعتبار سے گہری خلیج ہو سکتی ہے۔اور مختلف نسلوں کے افراد میں تہذیبی اشتراک ہو سکتا ہے۔چنانچہ اسلام ااور عیسائیت متنوع نسلوں کے حامل ہیں۔تہذیبوں کی مرکزی شناخت ہی مذہب ہے۔کرسٹوفر ڈاسن کے بقول”عظیم مذاہب وہ بنیادیں ہیں جن پر عظیم تہذیبیں کھڑی ہیں” ہنٹنگٹن نے کہا تھا "تہذیبوں کی مرکزی شناخت مذہب ہے۔” اور ڈاکٹر سید عبداللہ کے مطابق "کلچر کے مظاہر کو عقیدوں سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔کلچر عقیدوں سے پیدا ہوتا ہے” چنانچہ اسلام،ہندو دھرم،کنفیوشزم، اور عیسائیت چار عظیم مذاہب ،چار عظیم تہذیبوں سے وابستہ ہیں۔یعنی اسلامی،ہندی،چینی،اور مغربی تہذیبیں۔قبائل اور اقوام کی مانند تہذیبوں کے سیاسی ڈھانچے بھی ہوتے ہیں۔مثلا ان میں ایک یا ایک سے زیادہمرکزی ریاستیں ہوتی ہیں جن کو بالعموم تہذیب کا سرچشمہ خیال کیا جاتا ہے۔اس تہذیب میں یہ ملک یا ممالک سب سے زیادہ طاقت ور ہوتے ہیں اور لیڈر یا رہنما کا کردار ادا کرتے ہیں۔مثلا آج مغربی تہذیب میں امریکہ۔اسلام میں مرکزی ریاست کا فقدان ہے اور اس کا سبب مغربی استعمار،مسلم ممالک کی داخلی شکستگی اور پسماندگی ہے۔مرکزی ریاست کے علاوہ رکن ریاست یا رکن ریاستیں ہوتی ہیں۔یہ ممالک کسی تہذیب سے مکمل طور پر وابستہ شمار کیے جاتے ہیں۔مثلا پاکستان مسلم تہذیب کا رکن ملک ہے اور ہالینڈ مغربی تہذیب کا۔تنہا ملک میں دوسرے معاشروں اور ملکوں کے ساتھ ثقافتی اشتراک کا فقدان ہوتا ہے۔اہم ترین تنہا ملک جاپان ہے جہاں کوئی دوسرا ملک جاپان کی مخصوص ثقافت میں شریک نہیں ہے۔شکستہ ملک میں مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھنے والےمختلف گروہ موجود ہوتےہیں۔شکستہ ملک میں عام طور پر کشیدگی اس وقت ہوتی ہے جب دو یا دو سے زیادہ گروہ اپنی جداگانہ قومیت کا مطالبہ کرنے ،سیاسی حوالے سے اپنی زبان،مذہب اور علامات کو ریاست کی زبان ،مذہب اور علامات بنانے کی کوشش کرتے ہیں یا ایک جداگانہ آزاد ریاست کا مطالبہ کرتے ہیں جیسے کہ ہندوستان میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان ہوا اسی طرح سوڈان (مسلم،عیسائی)،فلپائن(مسلم ،عیسائی)، انڈونیشیا (مسلمان اور تیموری عیسائی)،فلسطین (مسلمان اور یہودی) اس کی مثالیں ہیں۔
مفتوح ملک میں ثقافت موجو د تو ہوتی ہے اور یہ ثقافت اسے کسی ایک تہذیب سے منسلک بھی کرتی ہے لیکن اس ملک کے رہنما اور کچھ عوام اس ملک کی تہذیب کو کسی دوسری تہذیب میں منتقل کرنا چاہتے ہیں۔بالفاظ دیگر اس ملک کے رہنماؤں کی خاصی تعدار اپنی موجودہ تہذیب کو تسلیم تو کرتی ہے۔لیکن اس موجودہ تہذیب کو بدل کر کوئی دوسری تہذیب اپنے ملک میں لانا چاہتی ہے۔سیاسی رہنماؤں کی ان کوششوں کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ دوسری ثقافت کے کچھ عناصر تو روشناس کروا دیتے ہیں مگر اپنی دیسی ثقافت کے بنیادی عناصر کو ختم کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔وہ نہ دوسرا معاشرہ مکمل طورپر تخلیق کر پاتے ہیں۔ اور نہ اپنی معاشرت کو مکمل طور رائج کر سکتے ہیں۔نتیجتا ایک مقطوع ملک وجود میں آ جاتا ہے جس کے اند ر تہذیبی تصادم پیدا ہو جاتا ہے۔اسلامی تہذیب میں ترکی اس کی ایک مثال ہے۔
حوالہ جات
https://en.wikipedia.org/wiki/Culture1.
2۔ سبط حسن،”تہذیب:تعریف،عناصر ترکیبی اور نظام فکر،”مشمولہ کلچرمنتخب تنقیدی مضامین،مرتبہ،اشتیاق احمد (لاہور:بیت الحکمت 2007)،ص 197
3۔ ڈاکٹر منصور احمد منصور،اردو افسانے میں مشترکہ تہذیبی عناصر،بک ٹاک،لاہور،2020،ص 13
4۔ ڈاکٹر منصور احمد منصور،اردو افسانے میں مشترکہ تہذیبی عناصر،بک ٹاک،لاہور،2020،ص 15
5۔ ڈاکٹر منصور احمد منصور،اردو افسانے میں مشترکہ تہذیبی عناصر،بک ٹاک،لاہور،2020
https://www.britannica.com/topic/civilization6.
7۔ڈاکٹر وزیر آغا،کلچر کا مسئلہ،مشمولہ،پاکستانی ثقافت،مرتبہ،ڈاکٹر رشید امجد،اکادمی ادبیات پاکستان،اسلام آباد،1999ء،ص 94-95
https. // www.Ask.com/elements of culture.8
https.//www.teacherwebs.com/Mr.Hyland cloud world, 2015.9
10۔ڈاکٹر مبارک علی،تہذیب کی کہانی،(لوہے کا زمانہ)،ص 13
11۔ڈاکٹر محمد آصف،اسلامی اور مغربی تہذیب کی کشمکش فکر اقبال کے تناظر میں،ادارہ ثقافت اسلامیہ،لاہور،2015،ص 29
12۔ڈاکٹر جمیل جالبی،پاکستانی کلچر،ص 4
کتابیات
ا۔ڈاکٹر سید عبداللہ،کلچر کا مسئلہ،شیخ غلام علی سنز پبلشرز،لاہور،1977
2۔ محمد نعیم ورک،اردو ناول کا ثقافتی مطالعہ،کتاب محل،لاہور،2020
3۔ڈاکٹر محمد آصف،اسلامی اور مغربی تہذیب کی کشمکش،ادارہ ثقافت اسلامیہ،لاہور،2015
4۔عبدالمجید سالک،مسلم ثقافت ہندوستان میں،ادارہ ثقافت اسلامیہ،لاہور،2011
5۔قاضی جمال حسین،اردو ادب کا تہذیبی اور فکری پس منظر،عکس پیلی کیشنز،لاہور،2019
https://en.wikipedia.org/wiki/Culture.6
7۔سبط حسن،”تہذیب:تعریف،عناصر ترکیبی اور نظام فکر،”مشمولہ کلچرمنتخب تنقیدی مضامین،مرتبہ،اشتیاق احمد (لاہور:بیت الحکمت 2007)
8۔ڈاکٹر منصور احمد منصور،اردو افسانے میں مشترکہ تہذیبی عناصر،بک ٹاک،لاہور،2020
9۔اشتیاق احمد،کلچر،بیت الحکمت ،لاہور،2007
10۔ سبط حسن،”تہذیب:تعریف،عناصر ترکیبی اور نظام فکر،”مشمولہ کلچرمنتخب تنقیدی مضامین،مرتبہ،اشتیاق احمد (لاہور:بیت الحکمت 2007)،ص 197
https://www.britannica.com/topic/civilization11.
12۔ڈاکٹر وزیر آغا،کلچر کا مسئلہ،مشمولہ،پاکستانی ثقافت،مرتبہ،ڈاکٹر رشید امجد،اکادمی ادبیات پاکستان،اسلام آباد،1999ء،ص 94-95
https. // www.Ask.com/elements of culture.13
https.//www.teacherwebs.com/Mr.Hyland cloud world, 2015.14
15۔ڈاکٹر مبارک علی،تہذیب کی کہانی،(لوہے کا زمانہ)،ص 13
16۔ڈاکٹر جمیل جالبی،پاکستانی کلچر،ص 45
نثار علی بھٹی
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |