غزل گوئی۔۱
شہریار کے تمام مجموعوں میں غزل اور نظم دونوں صنفوں کی شمولیت دکھائی دیتی ہے۔ ابتدائی دور میں نظموں کی تعداد زیادہ تھی اور کم از کم تین مجموعوں تک بالعموم یہ بات تسلیم کی جاسکتی ہے کہ شہریار بنیادی طَور پر نظموں کے شاعر ہیں۔ حالاں کہ ابتدائی مجموعوں میں بھی اُن کے کچھ نہایت مشہور اشعار اور کئی بہترین غزلیں شامل ہیں ۔ رفتہ رفتہ ان کے یہاں غزل گوئی کے سلسلے سے توجّہ بڑھی اور بعد کے تینوں مجموعوں میں غزلوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ۔ معیار کے معاملے میں بھی ان کا یہ کلام زیادہ پسندیدہ قرار دیا گیا۔ ان کے مکمّل کلام سے انتخاب کے دوران جب ان کا سارا سرمایہ بہ یک نظر دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا، اس وقت یہ فیصلہ مشکل معلوم ہوا کہ شہریار کی بنیادی حیثیت غزل گو کی ہے یا نظم نگار کی۔ادبی نقّادوں نے ابتدائی دور سے ہی ان کی نظم نگاری کی خصوصیات اور جدید شاعری کے نئے معنوی اور اسلوبیاتی نظام کے تناظر میں اس کلام کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے مگر مجموعی سرمایے کو سامنے رکھتے ہوئے ہمارے لیے ہرگز یہ آسان نہیں کہ ان کی غزل گوئی کو پسِ پشت ڈال دیں یا اس سرمایۂ سخن کی ضمنی اہمیت قبول کر لیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک غزل گو کی حیثیت سے شہریار واقعتا قابلِ اعتبار شاعر ہیں اور اُن کی غزلوں کو ان کے مقام و مرتبے کے تعیّن میں اُن کی نظم نگاری کے ساتھ مساوی مقام دیا جانا چاہیے۔ یہ بات بھی ہمارے پیشِ نظر ہے کہ جس طرح ابتدائی دور میں شہریار کی نظموں نے اُن کی شناخت کے لیے ماحول قایم کیا، اسی طرح شہریار کی غزلوں نے بعد کے زمانے میںان کی مقبولیت اور قارئین کے دائرے کو وسیع کیا۔
شہریار کی غزل گوئی کے مزاج پر غور کریں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جدیدیت کے عہدِ شباب میںبھی وہ اس صنف کی مخصوص روایت سے پورے طَور پر الگ ہو کر نئی زبان ، نیا اسلوب اور نئے موضوعات کے طلسم میں گرفتار ہونے سے بچتے رہے۔ اسی کے ساتھ یہ بات بھی پیشِ نظر ہو کہ شہریار کے یہاں روایت کے نام پر کلاسیکی رچاو ، زبان دانی کا زور اور تراکیب کی بہتات کی محفوظ فضا کبھی قایم نہیںہوئی جب کہ ان کے ہم عصروں میں پہلی قبیل میں ظفر اقبال، عادل منصوری اور محمّد علوی اور دوسری قبیل میں حسن نعیم، زیب غوری اور سلطان اختر اپنے مزاج سے ادبی دنیا کو آشنا کر رہے تھے۔ شہریار نے بین بین رہتے ہوئے ایک مختلف راہ نکالی۔ اسی لیے کبھی کبھی ان کے یہاں بعض ایسے اشعار بھی نظر آجاتے ہیں جو جدیدیت کے تناظر میں سکّۂ رائج الوقت قرار دیے جا سکتے تھے۔ اسی طرح بعض غزلیہ اشعار روایتی شان اور کلاسیکی رنگ و آہنگ میں ڈوٗبے ہوئے بھی مل ہی جاتے ہیں مگر شہریار نے اپنی کاوشوں سے جو اپنا غزلیہ اسلوب تیّار کیا، اس میں جدید یا کلاسیکی عناصر ضمنی حیثیت رکھتے ہیں اور حقیقی شاہ راہ اُن کی اپنی بنائی ہوئی ہے۔ بول چال کی زبان اور ایک غیر شاعرانہ ڈکشن کے ساتھ سرگوشی اور خواب ناکی کی جو کیفیت شہریار نے اپنی غزلوں میں پیدا کی، اُسے ان کا انفراد کہا جا سکتاہے۔ یہ انداز میر، غالب یا آتش و اقبال کے یہاں بھی نہیں ہے اور نہ بانی اور شکیب جلالی کے کلام میں موجود ہے۔بعض افراد شہریار کی غزلوں کے اسلوب پر ناصر کاظمی کے اثرات کے بارے میں اشارے کر چکے ہیں مگر ناصر کے یہاں موسیقیت اور فطرت کے مظاہر میں حل ہو جانے کی ایک خاص کیفیت ہے۔ شہریار اس راستے کے ہرگز ہرگز مسافرمعلوم نہیں ہوتے۔ (یہ بھی پڑھیں دھیمے سُروں کی شاعری (شہریار کی شاعری کاتفصیلی مطالعہ۔ حصّہ دوم ) – ڈاکٹر صفدر امام قادری )
غزل کے مانوس اسلوب اور اپنے عہد کی مشہور آوازوں سے گریز نے شہریار کو اردو غزل کی ایک نئی زبان بنانے کے مواقع عطا کیے۔ پُرانی شاعری کی یہاں عشق وعاشقی بھی ہے اور جدید عہد کی تیز وتند زندگی کے جھونکے بھی نظر آتے ہیں۔ شہریار نے اپنی غزل کی حقیقی شاہ راہ مرتّب کرنے کے مرحلے میںمانوس مضامین اور آزمائی ہوئی اسلوبیاتی رنگا رنگی کو خود سے دور رکھا اور موضوع یا اسلوب دونوں سطحوں پر نئے ادبی وسائل آزمائے۔ شہریار کی غزلوں میں جو عاشقانہ کردار اُبھرتا ہے، وہ روایتی سانچے کا ڈھلا ہوا نہیں معلوم ہوتا۔ اس کے عشق میں جاں نثاری کی ایک مشینی سطح ہے ۔ وہ اپنے جسم کی سرگوشیوں سے بے خبر نہیں رہتا۔ وہ انسان کی مجبوریوں اور ضرورتوں کے بیچ تصاد م کے ساتھ ایک اشتراک کی بھی تلاش کر نے کی کوشش کرتاہے۔ شہری زندگی اورجمہوری عہد کے مسائل سے یہ عاشق کئی بار مختلف مورچوںپر دست وگریباں ہوتا ہے۔شہریار یہاں ایک نئے مزاج کی تشکیل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ پُرانے تصوّر کے مطابق یہ ادھوری محبت یا ناکامیِ عشق ہے مگر نئی زندگی اور بدلتی ہوئی دنیا کے جبر کو شہریار زیادہ گہرائی سے جانتے اور سمجھتے ہیں۔ اس لیے تھوڑی سی محبت ،کچھ پایا ہوا اور کچھ کھویا ہوا پیار، کچھ ہجر اور کچھ وصال کی کیفیات سے ایک الگ زندگی وہ ڈھالتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ پچھلے دور کی شاعری ہوتی تو اسے شکست خوردہ اور ناکام محبت سمجھا جاتا مگر شہریار نے بیسویں اور اکیسویں صدی کے انسانوں کی نئی زندگی کو سمجھا اور ایک جبریہ اعتدال کی زندگی جینے والے لوگوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے عشق و عاشقی کے نئے تناظر کی طرف واضح اشارے کیے۔ یاد رہے کہ یہ موضوع شہریار کی نظموں میں کچھ مزید وضاحت اور صفائی کے ساتھ پیش ہوا ہے۔ محبت کی مختلف صورتِ حال کے پیشِ نظر شہریار کے چند غزلیہ اشعار ملاحظہ کریں جو بہ ہر صورت ایک نئے ادبی ماحول کی صورت گری کرتے دکھائی دیتے ہیں:
آج بھی ہے تری دوٗری ہی اُداسی کا سبب
یہ الگ بات کہ پہلی سی نہیں، کچھ کم ہے
نہیں ہے مجھ سے تعلّق کوئی تو ایسا کیوں
کہ توٗنے مُڑ کے فقط اِک مجھی کو دیکھا کیوں
دوٗریاں قُرب لگیں، قُرب میں دوٗری نکلے
عمر بھر مجھ کو یہی کارِ عجب کرنا ہے
گزرا تھا رات بھی کوئی دریا لبوں کے پاس سے
کتنی عجیب پیاس ہے ،کم تو ہوئی، بجھی نہیں
وہی کہ جس سے تعلّق براے نام ہے اب
اُسی کا راستہ دن رات دیکھے جاتے ہیں
جستجوٗ تیرے علاوہ بھی کسی کی ہے ہمیں
جیسے دنیا میں کہیں کوئی تِرا ثانی ہے
مُدّتوں پہلے جُدا ہم اپنی مرضی سے ہوئے
لگ رہا ہے دل کو یوں جیسے ابھی کی بات ہے
شہریار کی عاشقانہ شاعری کا ایک وہ انداز بھی قابلِ توجّہ ہے جس میں واضح لمسی رجحان اور جنسی اشارے ملتے ہیں۔ شہریار کی شاعری میںرفتہ رفتہ اس ناگفتنی نے خوب خوب ماحول قایم کیا۔ پیش کش کا انداز پُرانے غزل گو شعرا یا معاملہ بندی کے ماہرین سے یکسر مختلف ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ شہریار نئے معاشرے کے کھُلے ماحول کو بہت قریب سے دیکھ رہے ہیں۔ اس نئی زندگی اور انسانی ضرورت کے بیچ جو مطابقت قایم ہوتی ہے، اس سے شہریار کے اشعار کی روٗمانی دنیا مزیدگہری اور جسم وجان کی طلب گار ہوتی چلی گئی۔ شہریار اپنی شاعری میں کچھ اس فطری ڈھنگ سے اس بیانیہ کی طرف آئے ہیں کہ جیسے زندگی نئے سِرے سے اُن پر خود کو منکشف کر رہی ہو۔ شہریار کے معاصرین ہی نہیں بلکہ ان کے بعد والوں میں بھی شاید ہی کوئی نظر آئے گا جس نے محبت کے روٗمانی اور جنسی رنگ کو اس سلیقے اور بھرپورانداز میں اپنی غزلوں میں بے خوف و خطر پیش کرنے میں کامیابی پائی ہو۔ شہریار کے یہاں زندگی کی یہ کیفیت بڑے اہتمام اور توجّہ سے پیدا ہوئی ہے، اس لیے کوئی بے ہنگمی اور ہلکا پن نظر نہیں آتا۔ شہر یار کے مخصوص اسلوب میں یہ موضوع کچھ اس طرح سے ڈھل جاتا ہے کہ غور نہ کریں تو جنس زدگی کے بارے میں کوئی احساس ہی پیدانہ ہو کیوں کہ شہریار عصری تقاضوں کے تحت ایک بے گانگی اور احتیاط میں الجھے ہوئے کردار کے ساتھ ہمارے سامنے نظر آتے ہیں۔ شہریار کے کلام پر اگر کسی نے بہتان تراشی اور جنسی تہمت نہیں لگائی تو اس کے پیچھے شہریار کا وہ شعری بیانیہ ہے جو سب کچھ معقول انداز میں سنبھال لیتا ہے۔اس سلسلے سے شہریار کے چند منتخب غزلیہ اشعار ملاحظہ کریں۔ یہاں وہ اردو کی جدید غزل کی تاریخ میں بعض بالکل نئے انداز کے شعر تخلیق کرتے ہیں جن کے موضوعات اور مفاہیم انوکھے ہیں اور ہمیں نئے سِرے سے پڑھنے کی دعوت دیتے ہیں: (یہ بھی پڑھیں دھیمے سُروں کی شاعری (شہریار کی شاعری کا تفصیلی مطالعہ۔ حصّہ اوّل ) – ڈاکٹر صفدر امام قادری)
آرہی ہے جسم کی دیوار گِرنے کی صدا
اِک عجب خواہش تھی جو اَب کے برس پوٗری ہوئی
میں درندوں کی نظر سے بھی کبھی دیکھوں تجھے
کیا عجب ناپاک خواہش جسم میں پلنے لگی
عشق کہیے کہ ہوس، اس کی بدولت کچھ ہے
راکھ کے ڈھیر میں چنگاری کی صورت کچھ ہے
دید سے لمس تک ہمیں کیا کیا نہ تجربے ہوئے
دِکھنے میں اور کچھ تھا وہ، چھوٗنے پہ اب کچھ اور ہے
تیری سانسیں مجھ تک آتے بادل ہو جائیں
میرے جسم کے سارے علاقے جل تھل ہو جائیں
ہونٹوں سے آگے کا سفر بہتر ہے ملتوی کریں
وہ بھی ہے کچھ نڈھال سا، میں بھی ہوں کچھ تھکا ہوا
جہاں میں ہونے کو اے دوست یوں تو سب ہوگا
ترے لبوں پہ مرے لب ہوں، ایسا کب ہوگا
قُرب پھر تیرا میسّر ہو کہ اے راحتِ جاں
آخری حد سے گُزر جانے کو جی چاہتا ہے
اس جگہ ٹھہروں یا وہاں سے سُنوٗں
مَیں تِرے جسم کو کہاں سے سُنوٗں
بس اک کوندا سا لپکا اور خیرہ ہو گئیں آنکھیں
تِری جانب نظر ہم نے ارادے سے نہیں کی تھی
[نیشنل بک ٹرسٹ انڈیا، نئی دہلی کی جانب سے شائع شدہ شہریار کے انتخابِ کلام کا مقدّمہ]
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |