محمد اکرام
9654882771
کوثرمظہری کی شناخت ناقد، شاعر اور ناول نگار کے علاوہ ایک مترجم کے طور پر بھی ہے۔ ترجمہ نگاری ایک اہم اور مشکل فن ہے۔ اس فن کی روایت بہت قدیم ہے۔ اس کا رشتہ انسان کی سماجی زندگی سے جوڑا جاتا ہے۔ ہندوستان میں بھی یہ روایت بہت پرانی ہے، چونکہ ہندوستان میں دوسرے ممالک سے آئے ہوئے لوگوں نے حکمرانی کی، اس لیے انھیں تراجم کی اشد ضرورت محسوس ہوئی۔ انگریزوں نے تو خاص طور پر فورٹ ولیم کالج کو اسی مقصد کے تحت قائم کیا تھا۔ ترجمے کے ذریعے ہی ہم دوسری زبانوں کے ادبیات کو سمجھتے ہیں۔ اگر ترجمہ نہ ہوتا تو شاید ادب کا ذخیرہ اتنا ثروت مند بھی نہ ہوتا۔ عموماً ترجمے کے فن کو علمی ترجمہ، ادبی ترجمہ اور صحافتی ترجمے میں منقسم کیا جاتا ہے۔ ترجمہ نگاری کے بہت سے اصول و ضوابط بھی ہیں، مترجمین کے لیے ان اصولوں کی پاسداری بہت ضروری ہوتی ہے۔ ترجمے کے اصول و ضوابط کے ساتھ جس زبان سے ترجمہ کیا جارہا ہے، اُس کے تہذیبی اور ثقافتی پس منظر کی جانکاری بھی ہونی چاہیے۔ اگر ادبی ترجمہ کیا جارہا ہے تو اس کے لیے سب سے اہم ہے کہ ترجمہ بامحاورہ کیا جائے اور روزمرہ، تشبیہات، ضرب الامثال، استعارات و کنایات اور رموز و علائم کا خیال رکھا جائے۔ اگر ادبی ترجمے کی بات کی جائے تو اس میں نثر کا ترجمہ قدرے آسان ہے، مگر جب نظم کی بات آتی ہے تو ذرا یہ مشکل ہوجاتا ہے اور جب غزل پر آکر بات رک جائے تو یہ اور بھی مشکل کام ہوتا۔ڈاکٹر خلیق انجم اپنے مضمون ‘شاعری کا ترجمہ‘ میں لکھتے ہیں:
’’سب سے زیادہ مشکل اور بعض اوقات تو ناممکن کی حد تک مشکل کام نظم کا ترجمہ ہے۔ شاید اسی لیے ڈاکٹر جانسن نے بہت سیدھے سادے اور مختصر الفاظ میں کہا تھا ’نظم کا ترجمہ تو جناب ہو ہی نہیں سکتا‘ اور وکٹر ہیوگو نے فیصلہ سنایا تھا ’نظم کے ترجمے کا خیال ہی بے معنی اور ناممکن ہے۔‘‘
(فن ترجمہ نگاری، مرتبہ: خلیق انجم، اشاعت اوّل، 1995، ص 135)
ادبی ترجمے کے تعلق سے پروفیسر کوثر مظہری نے اپنے ایک مضمون ’شعر غالب کے انگریزی تراجم‘ میں کچھ اہم سوالات کھڑے کیے ہیں اور ان کے جوابات بھی بہتر انداز میں دیے ہیں۔ ترجمے کی مشکل پسندی کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں:
’’دنیا کی تمام زبانیں اپنا تہذیبی سیاق بھی رکھتی ہیں۔ انگریزی اپنا تہذیبی پس منظر رکھتی ہے اور فرنچ اپنا۔ اسی طرح عربی زبان اپنے تہذیبی نشانات سے پہچانی جاتی ہے اور سنسکرت اپنے تہذیبی مزاج سے۔ اسی طرح اردو بھی اپنا خاص تہذیبی مزاج رکھتی ہے۔ گفتگو اور نشست و برخاست کے آداب بھی ادب میں کہیں واضح طور پر تو کہیں قدرے مخفی انداز میں دیکھے اور محسوس کیے جاسکتے ہیں۔
فن ترجمہ نگاری میں ادبی ترجمہ نگاری ذرا مشکل کام ہے۔ اس میں بھی شاعری کا ترجمہ تو مزید مشکل ہے اور ذرا آگے بڑھ کے جب ہم اردو غزل کی بات کرتے ہیں اور پھر اس کے انگریزی ترجمے پر غور کرتے ہیں تو پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔ لیکن پسینہ چھوٹنے کے اس عمل کے پیچھے ایک پُرخلوص جذبہ کار فرما ہوتا ہے اور وہ ہے تہذیبی، ثقافتی اور علمی و ادبی لین دین کا جذبہ۔‘‘(قرأت اور مکالمہ، ص 388)
ترجمے کے باب میں کوثرمظہری کا سب سے پہلا اور وقیع کام ہے خلیل جبران (جبران خلیل جبران) کے مشہور ناول The Broken Wings کا اردوترجمہ، جسے انھوں نے ’شکستہ پر‘ کے نام سے شائع کرایا ہے۔ یہ کتاب بہار اردو اکادمی کے مالی تعاون سے 1996 میں شائع ہوئی ہے۔ خلیل جبران بہت مشہور اور معروف ناول نگار تھے۔ ان کی پیدائش لبنان میں ہوئی۔ بعد میں خلیل جبران نے امریکہ میں سکونت اختیار کرلی۔ مذہب کے اعتبار سے عیسائی تھے۔ ان کا گھرانہ افلاس و تنگدستی کا شکار تھا۔ ان کے والد چاہتے تھے کہ یہ بکریاں وغیرہ چرا کر گزر بسر کرے مگر والدہ کی کوششوں سے وہ اس مقام تک پہنچے۔ چونکہ جبران کی مادری زبان عربی تھی اس لیے انھوں نے سب سے پہلے یہ ناول عربی زبان میں ’الأَجْنِحَۃُ المُتکسِّرہ‘ کے نام سے تحریر کیا تھا، اس کی اشاعت نیویارک سے 1912 میں ہوئی تھی۔ بعد میں Anthony R. Ferris نے اسے عربی سے انگلش میں ‘The Broken Wings’ کے نام سے منتقل کیا۔کوثر صاحب نے انگلش سے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ ان سے پہلے حبیب اشرف دہلوی ’ٹوٹے ہوئے پر‘ کے نام سے اردو زبان میں یہ ناول منتقل کرچکے تھے۔ اس کتاب میں دو محبت کرنے والے دلوں کی دلچسپ مگر غم انگیز کہانی ہے۔ ساتھ ہی سماج کے بااثر لوگوں بالخصوص پادریوں اور مذہبی پیشواؤں پر تیکھا طنز ہے جو معصوم عوام کو گمراہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ۔ اس ناول کو جبران خلیل جبران، پیش لفظ غم بے صدا، دست تقدیر، صنم کدے میں، سفید شعلہ، طوفان، دریائے آتشیں، موت کی بارگاہ میں، محبت کی دیوی، ایثار، نجات دہندہ، جیسے کئی عناوین کے تحت تقسیم کیا گیا ہے۔ ترجمے میں کوثر صاحب نے جو اسلوب اختیار کیا ہے وہ بہت سہل اور عمدہ ہے۔ نمونے کے طور پر کچھ اقتباسات ملاحظہ کریں:
’’اے میرے عہد شباب کے ساتھیو! تمھیں ان دوشیزاؤں کا واسطہ جنھیں تمھارے دلوں نے پیار کیا ہے، میں اپنی محبوبہ کے اجڑے ہوئے مزار پر پھولوں کا ایک گلدستہ پیش کرنے کی تم سے گزارش کرتا ہوں۔ سلمیٰ کے مزار پر تمھارا پھولوں کا چڑھانا، مرجھاتے ہوئے گلاب کی پتیوں پر چشم سحر سے ٹپکے ہوئے شبنمی قطروں کے مترادف ہوگا۔‘‘ (شکستہ پر،ص 12)
’’کتنی ہی بار میں کھیتوں کی طرف گیا اور اسباب مایوسی جانے بغیر واپس آگیا۔ ہر لمحہ میں نے سوئے فلک دیکھا اور دل میں گھٹن اور تنگی محسوس کی۔ جب بھی میں نے چڑیوں کے گیت اور جھرنوں کی سرگوشی سنی، وجوہات جانے بغیر ان پر حیران ہوگیا۔ کہا جاتا ہے کہ علاحدگی انسان کو سبکساری عطا کرتی ہے اور یہی سبکساری اسے فکردوعالم سے آزاد کردیتی ہے۔ ‘‘ (ایضاً، ص 16)
’’ایک گھنٹہ گزر گیا جس کا ہر ایک منٹ محبت کا ایک سال تھا۔ رات چاندنی، پھولوں اور درختوں کی خاموشی نے محبت کے علاوہ تمام حقیقتیں بھلا دیں۔ اسی لمحہ ہم نے گھوڑوں کی ٹاپ اور پہیوں کی کھڑکھڑاہٹ سنی۔ ہم اپنی خوش گوار مدہوشی سے بیدار ہوئے اور خوابوں کی دنیا سے اچانک حیرت اور مصیبت کی دنیا میںآگئے۔ بوڑھا شخص اپنے مشن سے واپس آچکا تھا۔ ہم ان سے ملنے کو اٹھ کھڑے ہوئے۔‘‘ (ایضاً، ص 40)
ترجمے میں کوثرمظہری کے اسلوب کو سمجھنے کے لیے یہ اقتباسات کافی ہیں۔ ان اقتباسات کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ ترجمہ نہیں بلکہ اصل تخلیق ہے۔ اس ترجمے کے بارے میں میری ذاتی رائے یہ ہے کہ کوثر صاحب نے ترجمے کے تمام ضروری اصول و ضوابط کی پاسداری بھی کی ہے۔ حتی الامکان انھوں نے کوشش کی ہے کہ یہ طبع زاد سے کم تر دکھائی نہ دے۔ کوثر صاحب ’شکستہ پر‘ کے ترجمے کے تعلق سے لکھتے ہیں:
’’اس کتاب میں میری یہ کوشش رہی ہے کہ اسلوب کی پرکاری اور اثرانگیزی کو برقرار رکھ سکوں۔ ترجمے تو بہت ہوئے ہیں۔ میری کاوش بھی آپ کے پیش نظر ہے۔ اگر کسی حد تک پسند آجائے تو میں سمجھوں کہ میری محنت رائیگاں نہ گئی۔‘‘ (شکستہ پر، ص 10)
یہ مختصر مگر عمدہ ناول ہے۔ ترجمے کی زبان، اس کی سلاست و روانی نے اس ناول کو مزید دلچسپ بنا دیا ہے۔
ناول کے علاوہ کوثر مظہری نے ایک مضمون اور ایک کہانی کا بھی ترجمہ کیا ہے۔ مقتدرہ قومی زبان، پاکستان سے ایک کتاب ’ترجمہ: روایت اور فن‘ کے نام سے 1985 میں شائع ہوئی ہے جس کی ترتیب نثار احمد قریشی نے اور نظرثانی محمد شریف کُنجاہی نے کی ہے۔ اس کتاب میں بڑے اہم لوگوں کے مضامین شامل ہیں، جیسے جیلانی کامران، حسن عسکری، ظ انصاری، جمیل جالبی، آل احمد سرور وغیرہ۔ کوثر صاحب نے ہندی کے رسالہ انوواد کے لیے اسی کتاب سے ایک طویل کا ترجمہ ہندی میں کیا تھا۔ اس رسالے کی مدیرہ دہلی یونیورسٹی کی استاد ڈاکٹر گارگی گپتا تھیں۔ دوسرا ترجمہ مشہور ڈراما نگار اور کہانی کار اصغر وجاہت کی کہانی ’زخم‘ کا ہے جسے انھوں نے ہندی سے اردو میں منتقل کیا ہے۔ یہ کہانی سہ ماہی رسالہ ’پیش رو‘ میں شائع ہوئی تھی۔ اس رسالے کے مدیران میں انور پاشا، مشرف عالم ذوقی، توحید خان اور ابرار رحمانی کے نام لیے جاسکتے ہیں۔
ترجمے کے حوالے سے کوثرمظہری کا مضمون’شعر غالب کے انگریزی تراجم‘ بہت مشہور ہے۔ یہ مضمون کسی زبان کا ترجمہ تونہیں ہے مگر غالب کے اشعار کو جن مترجمین نے ترجمے کے قالب میں ڈھالا ہے، ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کے ترجمے کے کچھ نمونے پیش کیے ہیں، ساتھ ہی ترجمے کے محاسن و معائب کی نشاندہی بھی کی ہے۔ باہم موازنے کی صورت بھی پیدا کی گئی ہے کہ ایک شعر کو مختلف ترجمہ نگاروں نے کن کن معانی میں استعمال کیا ہے ، بعض جگہ کچھ متبادل الفاظ پیش کیے گئے ہیں کہ اگر مترجمین فلاں لفظ کا ترجمہ اس طرح کرتے ہیں تو شاید زیادہ بہتر اور معیاری ہوتا ہے۔ ترجمے کی باریکیوں سے واقفیت کے لیے یہاں کچھ نمونے پیش کررہا ہوں کہ ایک ہی شعر کو الگ الگ ترجمہ نگاروں نے کس کس طرح سے برتا ہے۔غالب کے مترجمین میں ایک نام ڈاکٹر سرفراز نیازی کا ہے جنھوں نے غالب کے پورے دیوان کا ترجمہ اور اس کی تشریح انگریزی میں کی ہے۔ اس کتاب کا تعارف ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے قلمبند کیاہے۔ غالب کا بہت مشہور شعر ہے:
دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
اس کا ترجمہ اس کتاب میں اس طرح کیا ہے:
What is ailing thee, my simpleton heart?
What is the remedy for your pain, eventually?
اس شعر کے ترجمے کا جائزہ لیتے ہوئے کوثر صاحب لکھتے ہیں:
’’یہاں ترجمہ نگار نے ’آخر‘ کے لیے Eventually لکھ کر تقریباً ’آخر‘ میں چھپی ہوئی بیزاری کو کسی قدر منتقل کردیا ہے۔ لیکن یہاں بھی اس درد کے لیے Your Pain لکھا گیا ہے، جو غلط ہے۔ ایک ترجمہ David Mathews کا ہے۔ جس میں ’اس درد‘ کے لیے This Pain لکھا ہے جب کہ مذکورہ بالا ترجمہ نگار نے ’اس درد‘ کے لیے Your Pain لکھا ہے جو غلط صیغہ ہے۔ میتھیوز کو سنیے:
My foolish heart! What has become of you?
No cure for this pain? What can I do?
)Urdu verse in English: 1995, p-45(
یہاں بیزاری اور اکتاہٹ کو What can I do جیسے عام بول چال کے فقرے سے پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ پھر یہ کہ ’دل ناداں‘ کے لیے Simple heart کے بجائے Foolish heart زیادہ موزوں اور برمحل معلوم ہوتا ہے۔ بلکہ اس سے بھی موزوں Silly heart ہے جس کا استعمال O.P.Kejriwal نے کیا ہے۔ملاحظہ لیجیے:
What ails you
You silly heart?
What could ease
This disease?
And oh! this pain
What could be its medicine?
)Ghalib in Translation: O.P.Kejriwal, p-159(
اس ترجمے میں اوپر کی صرف چار لائنیں کام کی ہیں۔ بقیہ دو لائنیں بھرتی کی اور زبردستی کی ہیں، یعنی ایجاز کے بجائے طوالت سے کام لیا گیا ہے۔‘‘(قرأت اور مکالمہ، ص 391-92)
غالب کا ایک اور مشہور شعر ہے:
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں
اس شعر کا ترجمہ پروفیسر نورالحسن نقوی اور عبداللہ انوار بیگ نے اپنے اپنے انداز سے کیا ہے۔ ان مترجمین کے ترجمے کی خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ دونوں ترجموں کا موازنہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’پروفیسر نورالحسن نقوی نے اس کا ترجمہ اس طرح کیا ہے:
Not all the forms of beauty
in the lovely flowers appear
O, hidden in the dust what a number
of beauteous forms may be there
(Ghalib Reveals himself: 1970, p-67)
یہاں ’خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں‘ کے لیے کہا گیا ہے:
What a number of beauteous forms may be there.
یہاں ’کیا صورتیں ہوں گی‘ سے مراد ہے کیسے کیسے اچھے اور خوبصورت چہرے جب کہ یہاں ترجمے میں حسن کی رفعت کے بجائے اُسےCountable noun بناکر پیش کیا گیا ہے۔ دراصل پہلے مصرعے میں Not all the forms of beauty کہہ کر ترجمے کی ٹیڑھی اینٹ رکھ دی گئی ہے جس کے سبب حسن بھی Countableہوگیا ہے۔ اسی شعر کا ترجمہ عبداللہ انوار بیگ نے قدرے کامیابی کے ساتھ سبک انداز میں کرنے کی کوشش کی ہے:
Not all, but some have appeared as tulips and roses,
Much beauty must there be concealed in the earth!
خدا کا شکر ہے کہ یہاں حسن کو Numericals میں پیش نہیں کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی لالہ و گل کے لیے نقوی صاحب کے Lovely flowers کے بجائے یہاں Tulipاور Rosesآئے ہیں جو چہروں اور صورتوں کے لحاظ سے زیادہ مناسب ہیں۔ صرف Lovely flowers سے صورتوں کو تشبیہ نہیں دی جاسکتی۔‘‘ (ایضاً، ص 392-93)
غالب کا ایک مشہور شعر ہے :
عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہوجانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہوجانا
اس شعر میں بھی کوثر صاحب نے موازنے کی صورت نکالی ہے۔ مترجمین کے ترجمے کے ساتھ کوثر صاحب نے کچھ الفاظ کے متبادل بھی پیش کیے ہیں۔ جس سے ترجمے کی معنویت و اہمیت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس شعر کی بابت کوثر صاحب پون کمار ورما اور اعجاز احمد کے ترجمے کا موازنہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’پون کمار ورما نے اس کا ترجمہ یوں کیا ہے:
Glory it is for the drop
To merge with the ocean;
Pain ceases to be
Once beyond redemption
(Ghalib : the man the times, 1989, p-123)
پون کمار کا ترجمہ رواں اور دل چسپ ہے۔ درد کے حد سے گزرنے کے لیےBeyond redemptionلکھا گیا ہے اور دوا ہوجانے کا مفہوم یہ پیش کیا گیا ہے کہ درد ختم ہوجاتا ہے جس کے لیے انگریزی میں Pain Ceases to be استعمال ہوا ہے۔ یہاں غور طلب امر یہ ہے کہ فنا ہوجانے کے لیے صرف Merge لفظ کافی نہیں۔ یہ عشق کے اس تصور کو پیش کرنے سے قاصر ہے جس کی طرف غالب نے اشارہ کیا ہے، یعنی ’فنا فی اللہ‘ ہونے کا تصور۔
اعجاز احمد والی کتاب میں Thomas Fitzsimmons نے دس اشعار والی اس غزل کے پانچ شعروں کے ترجمے پیش کیے ہیں۔ مذکورہ بالا شعر کا ترجمہ دیکھیے:
Waterbead ecstasy : dying in a stream;
Too strong a pain brings its own balm
(Ghazals of Ghalib, Ed. by Aijaz Ali. Oxford University, Press, 1994, p-25)
مجھے یہاں لفظ Balm کھٹک گیا تھا لیکن مترجم نے منظوم ترجمہ سے پہلے Literal Translation کیا ہے جس میں Medicine لکھا ہے جو لفظ دوا کا لغوی ترجمہ ہے۔ یہاں لفظ Remedy بھی آسکتا تھا۔ اسی لغوی ترجمے میں قطرہ کے لیے Drop لکھا ہے جب کہ منظوم ترجمے میں اسی لفظ کے لیے Waterbead استعمال کیا گیا ہے۔ دونوں اپنی جگہ درست ہیں۔ البتہ Waterbead میں ایک طرح کی ندرت پائی جاتی ہے۔ اس ترجمے میں یہ بات کھٹکتی ہے کہ دریا کے لیے Stream لفظ استعمال ہوا ہے۔ دریا کے لیے بیشتر ترجمہ نگاروں نے Ocean یا Sea یا River استعمال کیا ہے، جو زیادہ مناسب ہے…‘‘ (ایضاً، ص 394-95)
نثر کے مقابلے شاعری کا ترجمہ واقعی بہت مشکل ہے۔ جب کلاسیکی شعرا کی بات آجائے تو یہ مزید مشکل ہوجاتا ہے۔ اسی لیے مترجمین کو ذولسان ہونے کے ساتھ ساتھ ترجمے کے تمام اصول و ضوابط پر نظر رکھنا ازحد ضروری ہے۔ بغیر اس کے عمدہ اور معیاری ترجمہ ممکن نہیں ہے۔ کوثر مظہری صاحب کے اس مضمون کا مطالعہ آج کے مترجمین کے لیے نہایت ضروری ہے۔ اشعار کے ترجمے کی باریکیوں کو جس اندازمیں کوثرصاحب نے پیش کیا ہے وہ مترجمین کے لیے بہت ہی مفید اور کارآمد ہے۔
موجودہ دور سائنس کی نت نئی ایجادات کا ہے۔ نئے نئے ایپ مثلاً گوگل ٹرانسلیٹ اور ڈیپ ایل (DeepL) وغیرہ ہمارے سامنے ہیں، ترجمے میں مترجمین ان ایپ سے بھرپور استفادہ بھی کررہے ہیں، خاص کر مصنوعی ذہانت (AI) تو اس سمت بہت مثبت اور اہم ادا کررہا ہے۔ AI کے ذریعے ایک زبان کو دوسری زبان میں منتقل کرنا ایک آسان عمل بن گیا ہے۔ مصنوعی ذہانت یعنی AIنے آج کی مصروف ترین زندگی کو بھی آسان سے آسان تر بنا دیا ہے۔ اس مشینی ترجمے کے دور میں انسانی ترجمے کی افادیت کواگر برقراررکھنا ہے تو مترجمین کو کئی زبانوں پر مہارت کے ساتھ ترجمے کے اصول و ضوابط اور باریکیوں پر نظر رکھنا بہت ضروری ہے، وگرنہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب مشینی ترجمہ انسانی ترجمے سے بہت آگے نکل جائے گا اور ہم لاچار و مجبورخود مشینوں کے محتاج ہوجائیں گے۔ ایسے میں کوثرمظہری کی جتنی ستائش کی جائے کم ہے کہ وہ اس مشینی دور میں بھی انسانی ترجمے کی اہمیت و معنویت کو سمجھتے ہوئے محتاط مگر مثبت قدم اٹھاتے ہیں کیونکہ وہ ذی علم ہیں، ترجمے کی باریکیوں سے واقف ہیں۔ باوجودیکہ انھوں نے تنقید اور شاعری کے مقابلے ترجمے پر ذرا کم وقت صرف کیا ہے۔ پھر بھی ترجمے پر ان کے جو بھی کام ہیں وہ نہ صرف ادب کی ثروت میں گراں قدر اضافہ ہیں بلکہ مستقبل میں ترجمہ نگاروں کے لیے مشعل راہ بھی ہیں۔
ll
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page