انسان جو دیکھتا ہے، محسوس کرتا ہے اور جو جذبات اسکے دل میں پیدا ہوتے ہیں انکے اظہار کے راستے بھی کھوج لیتا ہے جس طرح پانی کے دھارے اپنا راستہ ڈھونڈھ لیتے ہیں۔ اپنے جذبات و خیالات کے اظہار کے لئے انسانوں نے مختلف طریقے اور راستے اپناۓ ہیں اور اس کے نتیجے میں ایسے ایسے کارنامے ان سے انجام پائیں جو عقل کو حیران کر دیتے ہیں۔ جذبات و احساسات کے اظہار کے لئے انسانوں نے جو سب سے پر کشش اور دلچسپ راستہ اپنایا وہ ادب کا ہے۔ کہانیوں، مضامین،ڈراموں،ناولوں، نظموں، گیتوں وغیرہ کے ذریعہ صرف اپنے جذبات و خیالات کا اظہار ہی نہیں کیا بلکہ انقلاب بھی برپا کیا ہے۔ روسی اور فرانسیسی انقلابات اسکی بہترین مثالیں ہیں۔ جن ادیبوں اور شعراء نے ادب کو سماج میں انقلاب لانے کا ذریعہ ہی نہیں سمجھا بلکہ اپنے فن پاروں میں داخلی کیفیات کی موثر ترجمانی کرنے کی کوشش بھی کی ، ان میں ایک نام اردو ادب کی دنیا میں ابھرتے ہوئے نئ نسل کے شاعر، افسانہ نگار، مبصر اور ناقد جناب نسیم اشک کا بھی ہے۔ نسیم اشک نے مغربی بنگال کے شمالی چوبیس پرگنہ کے ایک قصبہ جگتدل میں اپنی آنکھیں کھولیں۔ یہاں کی سر زمین اردو ادب کے لئے ہمیشہ سے زرخیز رہی ہے۔ جگتدل اور اس کے قرب و جوار کے علاقوں میں کئی نامور شعراء و ادباء نے جنم لیا۔ یہاں کی ادبی فضا میں نسیم اشک نے جب اپنی تخلیقی قوتوں کو قرطاس پر بکھیرنا شروع کیا تو یہاں کا ماحول انکی غزلوں اور نظموں سے مزید خوش رنگ اور خوشگوار ہوتا گیا۔
آج کل دنیاۓ اردو ادب میں یہ ٹرینڈ چل پڑا ہے کہ ماہرین ادب ادبی تخلیقات اور فن پاروں کو انکی فنی خوبیوں، اجزائے ترکیبی، موضوعات کے انتخاب اور دیگر خصوصیات کی بنیاد پر مختلف ادوار کے فنی اسالیب سے منسوب کر تے ہیں جیسے کلاسکی، ترقی پسندی ، جدیدیت اور مابعد جدیدیت۔ مگر جہاں تک نسیم صاحب کی شعری اور نثری تخلیقات کا تعلق ہے انہیں کسی ایک زمرے میں قید کرنا بڑا مشکل امر ہے۔ چونکہ اس مضمون میں موضوع بحث انکی افسانہ نگاری ہے اس لئے اس صنف میں انکی فنی خصوصیات کو اجاگر کرنے کے لئے انکے افسانوی مجموعے "رات ڈھلنے کو ہے”کا انتخاب کیا گیا ہے۔ اس مجموعے میں کل چوبیس افسانے شامل ہیں۔ اس مجموعے کے تمام افسانوں کا اگر باریک بینی سے مطالعہ کیا جائے تو ہمیں نسیم اشک کوہِ افسانہ نگاری کی اس بلند چوٹی پر نظر آئیں گے جہاں ایک افسانہ نگار اپنے ادبی سفر کے راستوں میں ہونے والی غلطیوں سے حاصل ہونے والے تجربات، سیکھنے کی بھوک، عمیق مطالعہ، انسانی نفسیات کا ادراک اور زندگی کے مختلف شعبوں پر گہری نظر کے ذریعہ پہنچتا ہے۔
انسانی تواریخ پر گہری نظر رکھنے والا ہر باشعور شخص اس بات سے بخوبی واقف ہوگا کہ سماج میں ہونے والی ہر تبدیلی انسانی زندگی پر اپنے مثبت اور منفی دونو اثرات مرتب کرتے ہیں۔ قدرت ہمیں کچھ دیتی ہے تو بدلے میں کچھ ضرور لیتی ہے۔ صنعتی انقلاب نے جہاں ہماری زندگی میں کچھ آسانیاں پیدا کیں وہیں اس نے ہماری سماجی زندگی کو بےحد پیچیدہ بنادیا۔ صنعتی انقلاب نے ایک ایسے سماج کو جنم دیا جسے ہم سرمایہ دارانہ سماج کہتے ہیں۔ یہ ایک ایسا سماج ہے جہاں امیری اور غریبی کے درمیان بہت بڑی خلیج ہے جسے کم کرنا نا ممکن نظر آرہا ہے۔ اخلاقی قدریں ، خلوص، بھائی چارہ غرض کہ ہر اچھے افکار ماضی کی باتیں لگنے لگی ہیں۔ عمارتیں بڑی ہوتی گئیں دل چھوٹے ہو تے گئے ۔ نسیم صاحب کا افسانہ "بونے لوگ ” ایک ایسے ہی سماج کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے اپنے اس افسانے میں ماقبل صنعتی سماج کی مٹتی تصویروں کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ اس افسانے میں ایک چاۓ خانے کا ذکر ہے جسے انہوں نے بہت قدیم کہا ہے۔ یہ چاۓ خانہ دراصل اسی سماج کی مٹتی تصویروں کا ایک دھندھلا نقش ہے اور سوداگر میاں جیسے لوگ ان تصاویر کے سبجیکٹس ہیں۔
” چاند رات” ایک بہت ہی تلخ حقیقت پر مبنی افسانہ ہے کہ زندگی سبھوں کے لئے یکساں نہیں ہوتی۔ میلے، ٹھیلے اور تہواروں کی خوشیاں ہر کسی کے نصیب میں نہیں ہوتی۔ تہواروں کی خوشیاں اور مذہبی رسومات سے حاصل ہونے والے ثواب بھی انہی لوگوں کے حصے میں آتے ہیں جن کے پیٹ بھرے ہیں۔ غریب کا مذہب اور زندگی کا فلسفہ الگ ہوتا ہے۔ نسیم اشک انسانی زندگی کے اس گوشے پر نظر ڈالتے ہیں جسے عموماً لوگ نظر انداز کر دیتے ہیں یا شاید ارادی طور پر اس کے متعلق سوچنے سے گریز کرتے ہیں۔ اس افسانے میں ان لوگوں کی زندگی کی بھی عکاسی کی گئی ہے جن کے گھروندے دنگے فساد کے طوفان کی نذر ہو جاتے ہیں۔ مذہب کے ٹھیکیدار، مذہب کے نام پر انسانیت کو شرمسار کرنے والے، ایسے کام کر جاتے ہیں جس پر زندگی برسوں آنسو بہاتی ہے۔ ان فسادات میں اپنوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے مرتے دیکھ کر لوگوں کے نفسیات پر کیسے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اس کی ایک واضح تصویر اس افسانے کے کرداروں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ نسیم صاحب کے خیالات میں اشتراکیت کے عنصر اس جملے میں دیکھے جا سکتے ہیں جو اس بوڑھے نے اس وقت کہا جب افسانہ نگار نے اسکے پوتے کو کچھ کھانے کے لئے دینا چاہا۔ جملہ ملاحظہ فرمائیں، "بابو جی ! اور بھی بچے ہیں۔ ”
زندگی کی تلاش اور اسکے لئے مسلسل جدوجہد ازل سے جاری ہے۔ انسانوں کی اپنی بقاء کے لئے جدوجہد اسکی پیدائش سے ہی شروع ہوجاتی ہے اور یہ سلسلہ اسکی موت تک جاری رہتا ہے۔ مگر ہر انسان کی جدوجہد کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ ایک غریب کی زندگی اور اسکے مسائل ایک امیر اور کھاتے پیتے شخص سے بہت مختلف ہوتے ہیں اس لئے انکے ان مسائل کا سامنا کرنے اور لڑنے کے طریقے بھی ایک جیسے نہیں ہوتے ہیں۔ یتیموں اور مفلسوں کی خود کو زندہ رکھنے کی جدوجہد کو افسانہ "بجھتے دیپ نینوں کے” میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔ افسانہ نگار نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا یے کہ جب تک انسان کی بنیادی ضروریات جس کا تعلق روٹی، کپڑا اور مکان سے ہے، پورے نہیں ہوتے وہ دوسری باتوں کی طرف دھیان نہیں دیتا۔ بھوک سے جلتے ہوئے پیٹ کو فلسفے نہیں روٹیاں ٹھنڈک پہنچاتی ہیں۔ تہذیب یافتہ سماج میں پائی جانے والی ایک بہت ہی عام بیماری جسے رشوت خوری کہتے ہیں جس کے شکار زیادہ تر غریب اور مفلس ہوتے ہیں اس کی جھلک بھی اس افسانے میں نظر آتی ہے۔ افسانہ نگار نے جہاں غریب طبقے کی روزمرہ کی جدوجہد، انکی زندگی میں پھیلے غم اور مایوسی کی کالی رات کو موضوع بنایا ہے وہیں افسانے کے خاتمے پر مستقبل میں ایک بہتر زندگی کی پر نور صبح کے آنے کی امید کو بھی دکھایا ہے۔ یہ وہ امید ہے جو انکے سانسوں کی ڈور کو ٹوٹنے نہیں دیتی اور زندگی سے مسلسل لڑنے کا حوصلہ دیتی ہے۔
آج کا ترقی یافتہ دور ازل سے انسانوں کے اندر قدرت کے چھپے راز کو جاننے کی چاہت، نۓ راستوں اور جگہوں کو تلاش کرنے کا جنون اور اپنی زندگی کو آسان بنانے کی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ سائنسی اور ٹیکنالوجی میں ہوئی ترقی نے انسانی زندگی میں تو آسانیاں پیدا کر دیں مگر ترقی کے اس سفر میں انسانوں نے اپنی انسانیت کو کھو دیا۔ ایک ایسے ہی ترقی یافتہ سماج کی تصویر ہم افسانہ "گھٹن” میں دیکھتے ہیں۔ اس افسانے کے عنوان کا انتخاب بہت موزوں ہے۔ اسکا مطالعہ ہر باشعور، حساس اور زندہ انسان کے اندر ایک گھٹن کی کیفیت پیدا کرے گا۔ یہ افسانہ ہماری ارتقائی منازل کا از سر نو جائزہ لینے کی وکالت کرتا ہے ۔انسانوں کی ایک بڑی آبادی تنگ گلیوں، فٹ پاتھوں ، ریلوے لائن کے کنارے اور جھوپر پٹیوں میں کیڑے مکوڑوں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ آج دنیا کے بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک سیاروں میں زندگی تلاش کر رہے ہیں مگر ہماری دھرتی پر جو زندگی موجود ہے انہیں اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ ماحولیات پر سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہوئی ترقی کے جو منفی اثرات مرتب ہوۓ ہیں اس کا اظہار افسانہ نگار نے اس جملے میں اس طرح کیا ہے، "اسپتال میں لوگوں کی بھیڑ بہت زیادہ تھی۔ گرمی بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے کچھ لوگ بیہوش ہو گۓ تھے۔ شاید نئے سیارے پر جانے کے بعد ایسا ہوتا ہے۔ ” ایسے موضوعات پر قلم اٹھانا اس بات کا ثبوت ہے کہ نسیم اشک اپنے گردوپیش ہونے والی ہر طرح کی تبدیلیوں پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ انسانی سماج اور اس میں ہونے والے تغیرات کا عمیق مشاہدہ ہی ایسے افسانے کو جنم دیتا ہے۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں جہاں غریبوں، یتیموں، مزدوروں ، وقت اور حالات کے ستائے ہوئے لوگوں کی زندگی اور ان کے مسائل کا احاطہ کیا وہیں انہوں انسانی نفسیات، فطرت، اور بشری کمزوریوں کو بھی بخوبی پیش کیا ہے۔ ازدواجی رشتوں کی اہمیت، انسانی نفسیات اور بشری کمزوریوں کو نسیم صاحب نے اپنے افسانے "یادوں کے ساۓ تلے،” کھویا جہاں”اور "سوپ کیس” میں بڑے انوکھے انداز می پیش کیا ہے۔ ماں کی عظمت اور اپنے بچوں کے کیلۓ اسکی قربانیاں افسانہ "آخری سفر ” کے اس جملے میں ظاہر ہوتا ہے، ” ماں جو اچانک سب کچھ چھوڑ کر چل دی، اس نے عمر بھر دکھ کے نوالے کھاۓ مگر بچوں کو امرت پلاتی رہی۔ اس کے تشنہ لبوں پر کبھی حرف شکایت نہیں آیا۔ شاید ماں کے لبوں تک آکر پیاس کی حد مٹ جاتی ہے۔”
افسانہ "مٹتی تصویریں ” کا ایک جملہ” موسمِ بہار میں پھول کھلے یا نہیں،اس سے زیادہ ضروری ہے کہ کوئی بھوکا سویا تو نہیں۔” نسیم صاحب کی اس سوچ کی ترجمانی کر تا ہے جس کی جھلک ہمیں فیض احمد فیض کی نظم "مجھ سے پہلی سی محبت میری محبوب نہ مانگ” کے ذیل کے بند میں ملتا ہے۔
” جسم نکلے ہوئے امراض کے تنوروں سے
پیپ بہتی ہوئی گلتے ہوئے ناسوروں سے
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے
اب بھی دل کش ہے ترا حسن مگر کیا کیجے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ”
اسی افسانے میں وہ ادب کے تخلیق کاروں سے مخاطب ہیں اور کہتے ہیں کہ ادبی تخلیقات کی عمارت محض تخیل کی بنیاد پر بنانا فضول ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ ادبی فن پاروں میں انسانی سماج کے جس طبقے کی زندگی کی ترجمانی کرنی ہو اسے قریب سے دیکھے کی ضرورت ہوتی ہے۔
منظر نگاری اور جزئیات نگاری ایسے ہنر ہیں جس میں تخیل کی پرواز اور لفظوں کے درمیان آہنگ پیدا کیۓ بغیر قدرت حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ "اسٹون مین” ، "بونے لوگ” اور "اندھی روشنی” ایسے افسانے ہیں جن میں نسیم اشک انِ ہنر میں درجہ کمال پر نظر آتے ہیں۔ سادہ اور سلیس زبان میں پیچیدہ فلسفے بیان کرنا بڑا مشکل امر خیال کیا جاتا ہے۔ مگر نسیم صاحب اپنے افسانوں میں بڑی بڑی باتیں بلکل سلیس اور سادہ زبان میں کہہ جاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انکے تخلیق کردہ کرداروں کے جملے دل میں اتر جاتے ہیں اور روح کو جھنجھوڑ دیتے ہیں۔ انکے یہاں ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ اپنے افسانوں کو زیادہ طویل نہیں کرتے۔ غیر ضروری باتوں کو شامل کرنے سے پرہیز کرتے ہیں اور چھوٹے سے پلاٹ میں اپنے خیالات کو بڑی خوبی سے پیش کرتے ہیں۔ یہی ساری خوبیاں انکے افسانوں کو دلچسپ بناتی ہیں اور قارئین میں اکتاہٹ کا احساس پیدا ہونےنہیں دیتی ہیں۔
مزکورہ افسانوں کے علاوہ اس کتاب میں شامل دوسرے افسانے جیسے "گمشدہ”, "لاحاصل”، "اسکیپیسٹ”، ” چراغ جلتا رہا” "اور وہ بھگوان ہو گیا” اور "اندھی روشنی” پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ "رات ڈھلنے کو ہے”، اور "صبح کا انتظار” جیسے افسانے زندگی کے تاریک راہوں کے سفر میں مشعلِ راہ ہیں۔
نسیم اشک کی کتاب "رات ڈھلنے کو ہے” اس بات کا پیغام دیتی ہے کہ گہری سیاہ رات روشن صبح ہونے کا اشارہ ہے۔
خالق کائنات ان کے قلم کو مزید تابندگی بخشے۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page
1 comment
جناب یوسف اقبال اور جناب نسیم اشک کو میں دل کی گہرائیوں سے مبارباد پیش کرتا ہوں ۔۔۔مضمون پڑھ بہت خوشی ہوئی۔۔۔۔ بہت خوبصورت الفاظ کا چناؤ ہوا ہے۔۔۔۔۔