(افسانوی مجموعہ ’رات کی بات‘ کے تناظر میں)
افسانہ اپنے وجود میں آنے تک نہ جانے کتنی کہانیوں کو جنم دیتا ہے، یہ وہی جانتا ہے، جس نے افسانوں کو اپنے احساسات کا آئینہ بنایا ہو ۔ یہ وہ فن ہے، جو رشتۂ ازدواج میں بندھنے سے قبل اپنے بچوں کے کھلونے خرید لیتا ہے۔ افسانے کا رَٹا رٹایا تعارف بارہا دہرانے سے قدرے بہتر ہے کہ یہ سوچیں کہ افسانے کا وجود کیوں ہوا ؟ وہ کون سے عوامل تھے ،جن سے ایک معمولی گوشت پوست کے آدمی کو خلق کا مژدہ دیا ؟ ایک تخلیق میں خلاقی ذہن کہاں سے آ سمایا؟ چوں کہ کائنات ہی ایک افسانہ ہے اور انسان اس کائنات کے احساسات ہیں۔ انسان ہونے کی شرط ہی حساس ہونا ہے ۔ دراصل محسوسات نے ہی انسان کو ظاہری اور باطنی اعتبار سے آدمیت کے اعلیٰ درجے پر پہنچا یا ہے اور بے حسی نے انسان کو آدمیت کی سطح کے ہزار فٹ نیچے دفن کردیا ہے ۔ ہاں !تو افسانے کا وجود کیوں ہوا ؟ افسانے کا وجود یوں ہوا کہ اگر یہ افسانے نہ ہوتے تو انسان اپنا اور اپنے سماج کا محاسبہ نہ کر پاتا ۔ افسانہ نگار اپنے اندر ، اپنے لہو میں دوڑ کر تمام اعضا ء کو نہارتا ہے اور پھر یکایک تیزی سے باہر نکل کر اپنے ظاہری پتلے کے نین نقش دیکھتا ہے۔ وہ بے کل ہو اُٹھتا ہے کہ بیشتر اوقات دونوں متضاد ہوتے ہیں اور کبھی کبھار ایک جیسے ۔ وہ افسانہ نگار پھر اپنی نظریں، شہر کے گلی کوچوں سے لے کر عالیشان عمارتوں تک پسار دیتا ہے اور اُن کا بھی مشاہدہ کرتا ہے ، پھر وہ جو محسوس کرتا ہے ، اس کے اظہار کے وسیلے ڈھونڈتا ہے ۔ اسے وسیلے بھی ملتے ہیں مگر وہ ان محسوسات کو ویسے ہی دکھانا چاہتا ہے، جیسے اُس نے دیکھا ہے، تب وہ اپنے ہاتھوں ، اپنے جیسے بتوں کو گڑھتا ہے اور ان بتوں کی زبان سے وہ کہہ جاتا ہے جس کی خاطر اُن کی تخلیق کرتا ہے ، مجسمہ سازی کے اس مرحلے میں وہ کبھی کبھی اپنی شکل کا بھی مجسمہ بنا دیتا ہے مگر یہ بہت مشکل کام ہے اور اس مشکل کام کو خورشید اکرم آسانی سے کر جاتے ہیں۔
خورشید اکرم کا نام اردو افسانے کے حوالے سے معروف ہی نہیں ، معتبر بھی ہے۔حالاں کہ وہ شاعری بھی کرتے ہیں مگر وہ بطور افسانہ نگار ہی ادبی دنیا میں خود کو متعارف کراتے ہیں۔ ایک لمبے وقت سے ادب کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ تخلیق اور تخلیق کار کے اس جم غفیر میں یہ انتہائی مشکل امر ہے کہ کسی مخصوص کو ڈھونڈ لیا جائے مگر اس جم غفیر میں بھی کچھ ایسے فن کار ہیں، جن کا فن، اس قدر دراز قد ہے کہ اُن کی پہچان بہت آسان ہوجاتی ہے۔ اُن کا تیور ، اُن کا لہجہ اور اُن کی وسعت فکر چیخ چیخ کر اپنے ہونے کا پتا بتاتے ہیں۔ وہ شخص جس نے عمر کا ایک بڑا حصہ ادب کو دیا ہو اور پھر یہ کہ اس طویل مدت میں اُس کے دو ہی افسانوی مجموعے منظر عام پر آئے ہوں اور اس پر طرّہ یہ کہ مصنف ان افسانوں کو ٹوٹے پھوٹے اور گرے پڑے افسانوں سے تعبیر دیتا ہو۔۔۔ ان باتوں سے افسانہ نگار کی وسعتِ قلب کا اندازہ لگانا مشکل ہے کہ آخر اب وہ کیسے افسانے رقم کرنا چاہتا ہے؟
خورشید اکرم کی حالیہ تصنیف ’رات کی بات ‘ ان کا دوسرا افسانوی مجموعہ ہے۔ اس مجموعے میں بارہ افسانے شامل ہیں۔ کتاب کے ہاتھ میں آتے ہی quantity اور quality کا فرق واضح ہو جاتا ہے۔ ہر چند کہ اس مجموعے میں افسانوں کی تعداد مختصر ہے مگر کیا کیجئے گا ، اچھی اور برانڈیڈ چیزوں کی قیمت بھی زیادہ ہوتی ہے اور مقدار بھی کم ہوتی ہے۔
خورشید اکرم شاعر بھی ہیں اور نثر نگار بھی۔ ان کا شعری مجموعہ ’پچھلی پیت کے کارنے‘ نظموں کا انتخاب ہے۔ ترتیب و تہذیب ، انتخاب و ترجمہ اور تنقید ، کئی جہتوں سے اردو ادب کے گلشن کی آبیاری کر رہے ہیں۔ اُن کی کئی کہانیاں اردو کے ساتھ ساتھ دیگر زبانوں کے انتخابات میں شامل ہیں ۔ یہ کسی بھی لکھاری کے لئے بڑے اعزاز کی بات ہے۔
مجموعے کا پہلا افسانہ’صورت گرہن‘ ایک کامیاب دنیاوی زندگی کا محاسبہ ہے اور یہ محاسبہ افسانہ نگار ، اپنی زندگی کے Eleventh Hour میں کرتا ہے جس کا حاصل ’لا حاصل‘ ہے۔ اس افسانے کا موضوع ہر اُس انسان سے تعلق رکھتا ہے ، جو اپنی گزاری ہوئی زندگی کا کچھ دیر رک کر خود احتسابی کرتا ہے ۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ کچھ لوگ ایک بار کے لئے ہی سہی، اپنا محاسبہ کرنے کا خیال تو لاتے ہیں ، ورنہ دنیا کی ترقی اور کامیابی حاصل کرنے کے بعد کون یہ سوچتا ہے کہ اُس نے ایک کامیاب اور پُر لطف زندگی گزارنے کے لئے کتنا صحیح اور کتنا غلط کیا؟ معاملہ تو ایسا ہوا ہے کہ اپنی غلطی کا اعتراف کرنا بھی ایک بڑی غلطی سمجھی جاتی ہے۔ کہانی کا متکلم گرچہ خود احتسابی کرتا ہے مگر قاری کو بھی اپنے اس احتسابی عمل میں ساتھ رکھتا ہے اور افسانے کی قرأت کے دوران وہ بھی اپنے جسم میں سرایت کر کے لہو میں شامل ہوجاتا ہے اور اپنے اندرون کو دیکھتا ہے۔ افسانہ نگار کا یہ اعتراف دیکھیں کہ کیسے اُس نے اپنے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے۔ اس اقتباس کا بیانیہ لہجہ اتنا پُر تاثیر ہے کہ گھنٹوں تک دل و دماغ ایک عجیب کیفیت میں مبتلا رہتے ہیں اور مصنف کے لقمے کو اپنی دانتوں سے چبا چبا کر شکم میں داخل کرتے ہیں۔ نہایت ہی شدتِ احساس کے ساتھ یہ اقتباس قاری کے ضمیر کو جھنجھوڑتا ہے:
’’۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے گناہ کئے ہیں۔ بڑے بھاری گناہ۔ گناہ اور عذاب کا ہر مفروضہ ، ہر تصوّر بحث طلب ہوسکتا ہے لیکن وہ فعل یقینا گناہ ہے جس سے دوسرے کو آزار پہنچتا ہے۔ میں اس لڑکی سے معافی مانگنا چاہتا ہوں جس کی ناف پر ایڑی رگڑ کر میں چلا آیا تھا۔ وہ بچہ میرے خوابوں میں ہمکتا ہوا آتا ہے اور میری بانہوں میں آکر خون بھرا لوتھڑا رہ جاتا ہے۔ مجھے اب رات دن اُس کی سسکیاں سنائی دیتی ہیں۔ وہ مجھ سے اپنے ہاتھ، اپنے پاؤں، اپنی آنکھیں اور اپنا چہرہ مانگتا رہتا ہے۔ میں اُس سے معافی مانگنا چاہتا ہوں لیکن بالکل اُس کے سامنے جاکر۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ کسی دیوتا کی طرح میرے سامنے آ کر کھڑا ہوجائے اور میں اُس کے پاؤں کے پنجے کے سامنے للی گھوڑے کی طرح رینگتا ہوا پہنچوں۔‘‘
اس افسانے میں اور بھی ایسی مثالیں ہیں ، جو دھیرے دھیرے اچھے بھلے صورت کو گرہن لگاتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
خورشید اکرم کے افسانوں میں ایک نوع کا کرب ملتا ہے، وہ کرب ، جس کا شکار ہر شعور مند ہے۔ زندگی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اجیرن ہوتی جارہی ہے۔ سارے رشتے ناتے ، ہمدردی، بھائی چارگی کتابوں میں الفاظ کی طرح چپکے ہوئے ہیں، وہ چاہیں جتنا زور لگا لیں اب وہ باہر نہیں نکل سکتے۔ اس دور حاضر میں ، جہاں انسان بے شمار الجھنوں کا شکار ہے، نت نئے طریقے سے اپنے ذہن پر ہتھوڑے برسا رہا ہے، وہیں ایک اور مرض میں بھی مبتلا ہوتا جارہا ہے اور وہ نفسیاتی مرض ہے۔ وہ بیماریوں کا باپ ہے۔ ہر ذہن متفکر ہے ، ہر رات آنی والی نئی صبح سے ڈرا رہی ہے۔ اس نام نہاد ترقی نے جہاں زندگی کا جھوٹا معیار اونچا کیا ہے، وہیں اُس نے اعتبار کو کھائی میں ڈھکیل دیا ہے۔ اس پُر آشوب دور میں سب سے خطرناک زہر کھلایا نہیں بلکہ زہر بسایا جارہا ہے انسانی اذہان میں ۔ خورشید اکرم اس نفسیات کی ترجمانی یوں کرتے ہیں کہ جیسے ہم آنکھوںکے سامنے ویسے ہی کردار اپنے اس پاس دیکھتے ہیں ، چاہے وہ فخرو نٹراج ہو، لالہ ہو، مسٹر شرما ہو یا کوئی اور۔ مذہبی جنون نے روزی روٹی اور دیگر ضروریات کو بے معنی بنا دیا ہے۔ صحافت کا نیا چہرہ بھی مقبولیت کا غازہ مَل رہا ہے۔ جھوٹ اور افواہ کے بادل ہمہ وقت گِھرے رہتے ہیں۔ ’بلینک کال‘ ایسا ہی ایک افسانہ ہے ، جو زمینی حقیقتوں کو بیان کر تا ہے۔ افسانہ نگار نے اپنے افسانوں میں طلسمی نظارے سجانے کی بجائے خوفناک برہنہ حقیقتوں سے متعارف کرایا ہے۔ ان افسانوں کو پڑھ کر رگیں پھڑ پھڑا نے لگتی ہیں کہ ہم کس عہدِ تاباں میں جی رہے ہیں۔ سبزیاں چن چن کر خریدنے والے ایک پل میں اتنے غیر اعتمادی کا شکار کیوں کرہو جاتے ہیں کہ صرف سن کر تاریک راہوں کی طرف دوڑ پڑتے ہیں۔
خورشید اکرم کے افسانوں میں نفسیاتی الجھنوں کی بہترین ترجمانی ملتی ہے۔موصوف سامنے دکھائی دینے والے خطرے سے خوف زدہ نہیں بلکہ وہ اس کیفیت کا سراغ ڈھونڈتے ہیں جس نے اس خوف کو جنم دیا ہے۔ یہ حقیقت بھی ہے کہ انسانی زندگی میں نفسیات کا اہم رول ہوتا ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ نفسیات ہی انسان کی خوشی اور غم کی وجہ بنتی ہے۔ دور حاضر میں انسان نفسیاتی ہیجان میں مبتلا ہے۔ نفسیاتی ہیجان کی تشکیل میں قدرتی عناصر کم، مصنوعی زیادہ ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ لامعلوم مرض میں مبتلا رہیں۔ اُن کا افسانہ ’رات کی بات‘ اس خوفناک ماحول کی تصویر پیش کرتا ہے جس کی یاد سے کلیجہ کانپ جاتا ہے۔ کورونا نے انسانی تہذیب کا جس طرح شیرازہ بکھیرا ، اس کی گواہ ساری دنیا ہے۔ انسان کو انسان سے خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔ ساری قربتیں دم توڑ چکی تھیں۔ اتنا خوف زدہ آدمی کبھی نہ تھا، جتنا پچھلے چند برسوں میں مہلک بیماری کی وجہ سے رہا ہے۔ اس افسانے میں مصنف نے اس خوف کے درمیان ایک اور خوف کا ذکر کیا ہے اور وہ خوف ، وہ خواب ہے ، جس خواب میں پانی سے شیر نکلتے تھے۔ جمے ہوئے برساتی پانی سے شیر کا نکلنا استعاراتی طور پر استعمال ہوا ہے۔ موسم برسات میں برساتی مینڈک بھی چھاتی پھلا کر ببر شیر بن جاتے ہیں۔ جہاں انسانیت کی بقا درکار ہے، وہاں اس پر بے جا اشتعال پیدا ہورہا ہے اور وہ بھی لاقانونیت کو قانون بنا کر۔ کہانی میں مسعود ایک جگہ کہتا ہے کہ:
’’توپ اور بم بار سے بہت زیادہ بڑی مار قانون کی ہوتی ہے اور قانون ، اُس کا جس کے پاس قانون بنانے کی طاقت!‘‘
پوری انسانیت ابھی ایسے نازک دور سے گزر رہی ہے ، جہاں ہر دوسرا آدمی نفسیاتی پے چیدگیوں کا شکار ہے۔ نیند اس سے آنکھوں سے کوسوں دور ہوتی جاتی ہے اور وہ دواؤں کے قریب ہوتا جاتا ہے:
’’اوہو !مگر رات کیسا خواب دیکھا تم نے کہ ڈاکٹر نے ڈوز ڈبل کردیا۔‘‘
’’کیا بتاؤں!‘‘ مسعود اپنے کل کے خواب کو دھیرے دھیرے بتا رہا تھا۔ ’’اِدھر اُدھر بولایا پھر رہا تھا جانے کیوں؟ جانے کہاں؟ پھر ایک چوڑی سی گلی میں داخل ہوا جس کے دونوں طرف دکانیں تھیں اور لوگ بھی تھے۔مجھے تو وہاں کچھ بھی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ گھٹنے سے نیچے تک پانی بھرا تھا۔ میں جارہا تھا کہ اچانک میرے سامنے ہی پانی سے ایک شیر نکلا ،ببر۔۔۔۔۔۔۔‘‘
خورشید اکرم کے افسانوں کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ اُن کے افسانے کا اُسلوب اس قدر رواں اور شگفتہ ہے کہ افسانے قدرے طویل ہونے کے باوجود قاری کی آنکھوں سے چپکے رہتے ہیں ، افسانے کی قرأت کے دوران کہیں ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ افسانہ نگار ، افسانے کو بڑھا رہا ہے، برعکس اس کے ، افسانہ خود بڑھتا ہوا معلوم ہوتا ہے ، ایک تسلسل سے تمام واقعات رونما ہوتے ہیں اور قاری ان کہانیوں کے صاف ستھرے عکس میں اپنا رنگ روپ دیکھتے رہتے ہیں۔ دخیل و ثقیل الفاظ دور دور تک نظر نہیں آتے۔ افسانہ جب قاری کے اذہان کو اپنے حصار میں نہ رکھے تو اُس کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ خورشید اکرم کے یہاں قاری سے جڑنے کا بہترین سلیقہ ہے اور وہ قاری کے اذہان کو اپنے حصار میں رکھنے کا ہنر بہ خوبی جانتے ہیں۔
افسانہ نگاری میں منظر نگاری بہت اہم ہوتی ہے۔ اُن کا ایک افسانہ ’چیونٹیاں‘ جو ایک الگ نوعیت کا افسانہ ہے، اس میں منظر نگاری کا اعلی نمونہ پیش کیا گیا ہے۔ ان میں حرکات و سکنات کو جس باریک بینی سے دکھایا گیا ہے، کھلی آنکھوں سے دیکھنا تو ہرگز ممکن نہیں ، افسانہ نگار کی دوربین نگاہ اور چیونٹیوں کی ایک ایک حرکت کو جتنا ٹھہر کر کہانی کار نے دیکھا ہے ، اتنا ہی ٹھہراؤ اُن کی پیشکش میں بھی ہے۔ گرچہ افسانہ نگار کا مقصد تفریحی منظر نگاری نہیں بلکہ ایک بہت ہی اہم پیغام کی ترسیل ہے ، جسے انہوں نے استعاراتی پیرائے میں بیان کیا ہے۔ چیونٹیوں کی اس Tug of War میں معلوم نہیں کیوں ، چیونٹیوں کا روپ دھارے انسان دِکھ رہے ہیں۔ اس افسانے میں چیونٹیوں کی عکس بندی کی ایک مثال دیکھئے:
’’ظاہر ہے کہ چیونٹا مرا ہوا ہے اور اب ان چھوٹی چھوٹی مگر زندہ چیونٹیوں کا رسد ہے۔ کتنی چیونٹیوں کا ، کہا نہیں جاسکتا۔ سو دو سو کا تو یقینا ، شاید ایک ہزار کے لئے بھی کافی ہو اور وہاں آس پاس سو ایک چیونٹیاں تو ہوں گی ہی۔ فرش کے اس حصّے سے لے کر اس سے لگی ہوئی دیوار کے اوپری سرے تک۔ چیونٹیاں چلی چل رہی ہیں، کہیں ٹھہرتی نہیں ہیں۔ پل بھر کو رُکتی بھی ہیں تو ایسے، جیسے کسی دوراہے پر مسافر ٹھٹھک کر اپنا نقشہ دیکھتا ہے کہ اب دائیں جانب ہے یا بائیں؟ دیوار کے اوپری سرے سے فرش کے اُس حصّے تک اور اُس سے بھی آگے فرش کے دوسرے سرے تک چیونٹیاں.!‘‘
بس نام کے لئے مہذب کہلانے والے اور خود کو بہت کچھ سمجھنے والے ہم لوگ ، ہمیں کبھی اپنی غلطیوں کا احساس ہی نہیں ہوتا، ہم سیدھے، ڈنڈا دوسروں کے سر پر چلانا جانتے ہیں یا ایسا کرنا ہم عین فرض سمجھتے ہیں۔ کبھی کبھار تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ کچھ لوگ جو کسی طرح کے جھگڑے جھمیلے میں تنے دکھائی دیتے ہیں ، ان میں بیشتر یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ کس بات کے لئے تنے ہیں ؟ بس تنے ہیں۔ خورشید اکرم کا افسانہ ’پیشاب گھر‘ ہماری روزمرہ زندگی سے اُٹھائی گئی ایک کہانی ہے۔ جب ہر کوئی آسانی کا طلب گار ہوجائے تو جسے، جیسے آسانی ہوتی ہے ، وہی اس کے لئے ٹھیک ہوتا ہے۔ مسافروں نے پیشاب کی بدبو سے نجات حاصل کرنے کے لئے پیشاب خانہ تو بنوا لیا مگر خود کو ہلکا کرنے کے لئے شیڈ سے دور جانا بہت بھاری ہوگیا ۔ بس کیا تھا، وہ پرانا پیشاب خانہ جو بند کردیا گیا تھا ، لوگ اس کو ہی اپنی پہلی ترجیح دیتے۔ آخر انہیں ’ذرا سا آڑ ہی تو‘ چاہئے تھا، حد تو یہ ہے کہ اس بدبو کا احساس انہیں تب ہوا ، جب اس خوبصورت عورت نے اپنے ناک پر رومال رکھنا شروع کیا جس پر سب کی نظریں آڑی ترچھی پڑتی تھیں۔ افسانہ نگار نے انسانی سماج کی ایک حقیقی تصویر پیش کی ہے۔ جھونپڑ پٹّی کی اس عورت کا نئے پیشاب خانے کے پاس کپڑے دھونا اور بچوں کا نہلانا اُن کی بے حسی کے ساتھ، اُن کی ابتر زندگی کو بھی درشاتا ہے۔
قسمت اور حالات کا مارا یقینی اور بے یقینی ، دونوں مرحلوں میں سفر کرتا ہے۔ اسے ہر وہ بات اچھی لگتی ہے جس سے اسے راحت ملتی ہو۔ اسے اپنی حکمت عملی زندگی کے کسی موڑ پر ، جب بالکل ناکارہ معلوم ہونے لگتی ہے ، تب وہ امید کے اُجالوں کی طرف دیکھنے کی سعی کرتا ہے۔ ایسی صورت حال میں وہ بس اس غم کی کالی رات سے باہر نکلنا چاہتا ہے اور کچھ نہیں۔ افسانہ ’سات جمعرات‘ کے تانے بانے اس خیال کے ہمراہ چلتے ہیں۔
افسانہ نگار کے یہاں زندگی کا ایک مثبت پہلو ہر جگہ نمایاں ہے۔ اُن کے افسانوں میں جدیدیت کے مسائل آنکھ کھولے گھور رہے ہیں۔ یقینا افسانہ نگار اس بے راہ روی سے بے زار ہے اور کبھی کبھی وہ گھٹن بھی محسوس کرتا ہے۔ بلاشبہ ملک کے حالات جس تیزی سے بدل رہے ہیں ، وہ یقینا تشویش ناک ہیں مگر ایسی صورت حال میں ایک حساس آدمی کی نبض جب پھڑپھڑاتی ہے ، تو وہ یہ سوچ کر خاموش ہوجاتا ہے کہ ایسے حالات صرف ایک شخص اور ایک مقام کا نہیں بلکہ اب چاروں طرف ہے۔ زندگی کرنے کی ضرورتوں نے انسان کو اتنا توڑ کر رکھ دیا ہے کہ کچھ بھی واقع ہونے کا اُس پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا۔ ایک آدمی اپنے اندر ، اپنی تلاش میں سرگرداں ہے ۔ حیران کن امر یہ ہے کہ وہ ساتھ رہنے کے باوجود اس سے نہیں ملتا۔ افسانے میں استعارے و تشبیہات مبہم نہیں ہیں، اس لئے افسانے کی ‘اَن کہی‘ کو سمجھنا بہت مشکل نہیں ہوتا۔ زندگی کے بدلتے زاویوں نے انسانی نقطۂ نظر کو بھی بدل دیا ہے۔ اب بے زاری کی جگہ مطابقت نے لے لی ہے۔ تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ، دونوں کے سُر تان ایک ہی ہیں۔ ’بجھی ہوئی تیلیاں‘ اس تناظر میں ایک بہترین افسانہ ہے۔
انسانی سماج میں شروع سے طاقت کی حکومت رہی ہے۔ طاقت ، زور و ستم کو ہوا دیتی ہے اور طاقتور ، عرف عام میں’ ظالم‘ کو کمزور پر اپنی طاقت دکھانے کی حاجت ستاتی ہے اور وہ بے وجہ اُس کی نمائش بھی کرتا ہے۔ سر ُابھارنے والے عصری مسائل میں Class Struggle تیزی سے پنپ چکا ہے۔ احساس برتری کا مادّہ بھرا نہیں ہے بلکہ بھر کر بہہ رہا ہے۔ افسانہ نگار نے ’کہانی ایک محبت کی‘ میں عصری تقاضے کے عین مطابق سمجھوتہ کو استعاراتی پیرائے میں بیان کیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ڈھلتا اعتبار کہ جس کا ملال کسی چہرے پر نہیں ، اس حسیاتی زوال کو بھی بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ مذکر ،مونث سے انسان اور کتّے کے سفر کو پیش کرتے وقت اُس کی خفگی کا احساس تو ہوتا ہے مگر یہ احساس کہانی کے ہیرا موتی کے پیار کی انگڑائیوں میں کھو جاتا ہے۔
’’مذکر اور مونث۔۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔۔ لڑکا اور لڑکی ۔۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔۔ ہیرا اور موتی ۔۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔۔ وہ بے نام کتّا اور کتیا ،ایک بار پھر آنکھوں میں پیار لئے انگڑائیوں بھرے بدن کے ساتھ ایک دوسرے کی طرف بڑھے۔‘‘
خورشید اکرم کے افسانوں میں تہہ داری ملتی ہے ، جہاں ایک نکتے پر ذہن سوچنے لگتا ہے، عین اسی وقت ایک دوسرا نکتہ گیند کی طرح اچھل کر سامنے آ جاتا ہے، پھر اس گیند نما نکتے پر ذہن مرکوز ہوتا ہے ، تو پھر تیسرا نکتہ کاغذی صفحوں سے خود کو آزاد کرکے ذہن کی انگلی تھام لیتا ہے۔ کہانی کے بیان کے دوران افسانہ نگار کہیں نہ کہیں سے سامنے آتا ہے اور ایک سوال دیتا ہے اور پھر کہانی سے روپوش ہوجاتا ہے۔ افسانہ نگار جو ہو رہا ہے، اس کے صحیح غلط ہونے پر اپنا فیصلہ صادر نہیں کرتا بلکہ فیصلہ قاری سے کراتا ہے ۔ ہاں! مگر اسے گلوب کی طرح چاروں طرف گھما کر ، تاکہ اس کے منشا اور اس کے احساسات کو ہر زاویے سے دیکھا جاسکے۔ احساسات کو دیکھا نہیں جاسکتا مگر خورشید اکرم اپنے کمالِ اظہار سے اسے یوں پیش کرتے ہیں ، جیسے وہ کوئی ہاڈ مانس کا آدمی ہو ۔ افسانہ نگار قاری کی رائے بھی طلب نہیں کرتا ، بس بول جاتا ہے جو بولنا چاہتا ہے ، کوئی سنے یا نہ سنے۔ اس کا کام صدا دینا ہوتا ہے ۔ وہ زندہ ہے تو چپ تو نہیں رہ سکتا۔ خورشید اکرم کا اسلوب ہی اُن کا انفرادو اختصاص ہے۔ بیانیہ لہجہ قاری کو اپنی قید سے آزاد نہیں ہونے دیتا اور قاری، پھر، اس کے بعد ،آکے، ہاں تو پھر کرتا ہوا کہانی کی منزل کی تلاش میں کہانی کار کے ہمراہ ہو لیتا ہے تاکہ ’رات کی بات ‘ کان لگا کر سن سکے۔
خورشید اکرم کے افسانے کا تیور ، انہیں ملک کے نمائندہ افسانہ نگاروں میں نمایاں مقام عطا کرتا ہے ۔ ہمیں یوں ہی مزید بہترین افسانے پڑھنے کو ملیں، اس واسطے جگت کے کہانی کار سے ، اُن کے قلم کی روانی کی دعا کرتا ہوں۔
٭٭٭٭٭
نسیم اشک
ہولڈنگ نمبر10/9گلی نمبر3
جگتدل 24 پرگنہ مغربی بنگال
فون۔9339966398
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page