ہمارے سماج یا معاشرے میں کوئی بھی واقعہ رونما ہوتا ہے، اس کے رد عمل سے احساس کی تمام رگیں تن جاتی ہیں۔اس کی لرزش سے نظام اعصاب کے نامیاتی خلیے حرکت میں آتے ہیں اور Response کے طور پر جو خیال یا تصورذہن کے پردے پر اُبھرتا ہے وہ قرطاس ادب پر حرف کی شکل اختیار کرتا ہے۔ افسانہ اردو نثر کا مقبول فن پارہ ہے جو ہر دور میں مواد کی تبدیلی کے سبب اپنی تر وتازگی کو قائم رکھنے میں کامیاب رہا ہے۔ کسی بھی صنف کے رجحان،اس کے مواد،اس کے اسلوب ،اس کی ہیت و دیگر تراکیب کو کسوٹی پر پرکھنے کے لیے دودہائی کی مدّت کافی نہیں تو کم بھی نہیں ہے۔ان دودہائیوں میں حیات انسانی مختلف مراحل سے گذری ہے جن کے اثرات دیگر زبانوں کے ساتھ ساتھ اردو ادب کے فن پاروں پر بھی گہرے پڑے ہیں جس کا مطالعہ ہم خواتین کے افسانوں کے حوالے سے کریں گے کہ ان میں سماجی،سیاسی ،معاشی اور خانگی کے علاوہ ہنگامی زندگی کے مسائل پر اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کو الوداع کہتے ہوئے ہماری خواتین افسانہ نگارکس طرح سوچتی ہیں،کیا سوچتی ہیں اور ان مسائل کو کس طرح ادب کے پیمانے میں ڈھالتی ہیں؟اس مضمون میں ہم نہ صرف بر صغیر کی خواتین قلم کاروں کے افسانے کی تفہیم کریں گے بلکہ یوروپین ممالک میں جاکر بس جا نے والی خواتین کے افسانوں کا تجزیہ بھی پیش کریں گے تاکہ ادب میں عالمی گاؤں کے تصور پر انگلی نہ اُٹھے۔جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ کسی محفل میں جب گلاس ٹوٹتا ہے تو اس گلاس کے ٹوٹنے کی آواز سب کو سنائی دیتی ہے لیکن ہر شخص آواز کے چھناکے کو اپنے اپنے طور پر محسوس کرتا ہے۔ایسا اس لیے کہ یہ سب نامیاتی خلیے کے بائیولوجیکل اعمال پر انحصار کرتا ہے اور ہر شخص کے خلیوں میں بائیولوجیکل اعمال یکساں نہیں ہوتے ہیں جس کے باعث محسوسات کے رد عمل کی نوعیت بھی الگ الگ ہوتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ ایک ہی موضوع پر ایک ہی معاشرے میں رہ کر مختلف قلم کاروں کے فن پارے کی فکر، ماہیت،نوعیت،اسلوب ،پیش کش میں انفرادیت ہوتی ہے۔ایک ہی عصر میں سانس لینے والی خواتین افسانہ نگاروں کے رجحان کا تعین صد فیصد تو اس مختصر مضمون میں ممکن نہیں ہے لیکن اس کا اشارہ مل سکتا ہے کہ یہ عصراپنے کس ابراہیم کی تلاش میں ہے۔
ذکیہ مشہدی ،ڈاکٹر صادقہ نواب سحر،رینوبہل،انجم قدوائی،افساں ملک ،ڈاکٹر نصرت مہدی،رخشندہ روحی مہدی ،تبسم فاطمہ،ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا،صدف اقبال، غزال ضیغم،ڈاکٹر مہ جبیں غزال ، نسترن احسن فتیحی،سلمیٰ صنم ،ترنم جہاں شبنم ،واجدہ تبسم گورکو،نجمہ محمود،عالیہ نقوی،قمر قدیر،نفیسہ سلطانہ انا،شہناز فاطمی،یاسمین اختر،رومانہ نسیم، سلطانہ حجاب، نشاط پروین، عشرت معین سیما،مریم ثمر،رضیہ کاظمی،سائرہ ملک،رابعہ الربا، نیلم احمد بشیر،قمرجمالی،ثمینہ سید،فریدہ انصاری،سلمیٰ جیلانی،سبین علی،شاہین کاظمی،فارحہ ارشد،ہمافلک،مونا شہزاد، گل ارباب،قرۃالعین حیدرراٹھور،فرحین جمال،صائمہ نفیس، نوشابہ خاتون،سرفرازجہاں،صفیہ شاہد،روبینہ فیصل،نشاط پروین،فرحین خالد،ناہید طاہر، صوفیہ کاشف،صبیحہ تزئین،فرزانہ روحی اسلم،شوبی زہرہ نقوی،ابصارفاطمہ،فاطمہ عثمان زاہد،عذرانقوی،فرحین جمال،ڈاکٹر ناہید اختر،رضوانہ سید علی،صوفیہ بیدار،کنول بہزاد، ناہیدطاہر، سعدیہ بشیر،سہیرہ مسرور،عذرا مناظ،صوفیہ شیریں،فاطمہ خاتون،شہنازرحمن وغیرہ وہ نام ہیں جو عالمی گاؤں کی ادبی افق پر روشن ہیں۔
ذکیہ مشہدی کا شمار عصر حاضر کے قد آور افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ان کا افسانہ ’’جگنوؤں کی بارات‘‘ ایک ایسا افسانہ ہے جس میں سماجی زندگی کو موضوع بنایا گیا ہے جہاں پاک محبت کے قصے سنائے گئے ہیں۔اس میں ضمنی طور پر یہ تاثر اُبھارنے کی کوشش ہوئی ہے کہ نانیاں اور دادیاں خوبصوت قدرتی وادیاں ہیں جن کی گود میں نسلیں پلتی ہیں اور جوان ہوتی ہیں۔بیتے پل کی روداد بیان کرتے ہوئے ذکیہ مشہدی کبھی کبھی جذباتی ہوجاتی ہیں، ایسا اس لیے کہ افسانے کی فضا ہی ایسی ہے جہاں مس الزبیتھ زندگی کے سفرمیں محبت کی کسک کو دل کے نہاں خانوں میں دبائے سبک خرامی کے ساتھ رواں دواں ہے تاکہ اس کا انکشاف گوہر کے والد پر نہیں ہو کہ کہیں ان کی ازدواجی زندگی خطرے میں نہ پڑجائے۔گویا ناری ناری کے دکھ کو اچھی طرح سمجھتی ہے۔پاک محبتیں لافانی ہوتی ہیں جو پاک دل میں پنپتی ہیں اور پاکیزگی کو ہر حال میں برقرار رکھتی ہیں۔افسانے میں ناسٹلجیائی کیفیت ہے۔مس الزبیتھ اور گوہر کے والد کے درمیان ہجر کے جو فاصلے آئے وہ اس لیے آئے کہ ذکیہ مشہدی یہ دِکھانا چاہتی ہیں کہ پاک محبتیں قربانی چاہتی ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے۔
’’مس الزبیتھ نارٹن کی زندگی میں ایک بار جگنوؤں کی بارات اُتری تھی جو لمحاتی روشنی دے کر اُڑگئی لیکن اس روشنی کے پرتونے ان کے دل کو اب بھی منور کر رکھا تھا‘‘
’’ جگنوؤں کی بارات‘‘ (عالمی افسانہ فورم)
رواں عصرمیں کرونا جیسے موذی وائرس سے پوری دنیابری طرح متاثر ہے ۔اس کے اثرات سے پوری دنیا تہہ وبالا ہوگئی ہے۔اس تہہ وبالگی کے اثرات سے ہمارا اردو افسانہ بھی متاثر ہوا ہے۔ہماری خواتین افسانہ نگارنے اس موضوع کو اپنے افسانے میں پیش کرنے کی جسارت کی ہے۔’’گواہ‘‘(ڈاکٹر عشرت ناہید) کا شمار ایسے ہی افسانوں میں ہوتا ہے جو قاری کویہ تاثر دینے میں کامیاب ہے کہ عصر حاضر میں کرونا وائرس کی وباہر رشتے کی گرمی کو ختم کررہی ہے۔اس افسانے کا ایک متحرک کردارنیہا کا اپنے موبائل کے سئوچ کوبند کرنا اور پھر پھوٹ پھوٹ کر روپڑنا یہ اشارہ کرتا ہے کہ وہ رزم گاہ جاں میں سیکڑوں معرکے ہارنے کے بعد ہی سوئچ آف کی ہوگی اور دائمی ہجر کا پیالہ سر جھکا کر پیا ہوگا ورنہ سچی محبت اتنی بے وفا نہیں ہوتی ۔!عصر حاضر میں اس وبا کے بطن سے جو حزن و ملال کی چنگاریاں پھوٹی ہیں اس کی تپش کو قاری افسانے کے کینوس پر محسوس کرتاہے۔افسانے کے کینوس پر زندہ رہنے کی خواہش اور محبّت کے درمیان معرکے ہوئے ہیں جس میں زندہ رہنے کی جبلت کو فتح ملتی نظر آرہی ہے۔
ترنم جہاں شبنم کا افسانہ’’مشت غبار‘‘ لاک ڈائون کے دوران پنپے مسائل سے نبرد آزماانسانیت کی ایک روداد ہے جس میں مقامی زبان کی بازیافت افسانے کو مقامیت سے دور ہٹنے سے روکتی ہے جس سے افسانہ اپنی مٹی سے کٹتا نہیں ہے۔منظر نگاری ،سادہ بیانیہ اسلوب، جزئیات نگاری کی ترسیل خوب ہوئی ہے۔افسانے کا اختتام گرچہ المیہ ہے لیکن یہ پیغام بھی دیتاہے کہ طوفان میں بھی شمع حیات بجھتی نہیں ہے!
تانیثی موضوع ہر دور میں ادب کا حصہ بناہے۔اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں بھی یہ موضوع قلم کاروں کے لیے مرغوب رہا ۔روئے زمین پر جب حقوق نسواں سلب ہوئے تب تانیثی تحریک نے زور پکڑا۔اس کی روح رواں میری وال اسٹون کرافٹ،ورجینا ولف،سیمون دی بواور جان اسٹورٹ مل تھیں۔انہوں نے فکشن میں روایتی نسوانی کردار کے خلاف احتجاج کیا۔انہوں نے عورت کے ایسے کردار پر زور دیاجو مرد اور مرد اساس معاشرے کے خلاف کھلے طور پر بغاوت کرے۔اپنے حق کی پاسداری کے لیے آواز اُٹھائے جس سے قاری کو یہ احساس ہو کہ عورت مرد کے ماتحت نہیں ہے۔نیز عورت کو اپنے وجود اور انفرادیت کا احساس ہو۔اردو ادب میں عصمت اور ہاجرہ مسرور نے ایسے نسائی کردار کو تراشا۔اِن بزرگ خواتین افسانہ نگاروں کے قافلے گذرجانے کے بعدیہ رجحان سرنگوں نہیں ہوا۔ لہٰذا تانیثی رجحان کے زیر اثر تبسم فاطمہ کا افسانہ’’ لافنگ بدھا‘‘ اسی روایت کو آگے بڑھایا ہے۔یہ افسانہ یہی صدا دیتا ہے کہ مرد اساس معاشرے میں نسائیت کے پاس بھی زندگی کے اقدارکے لیے اپنے پیمانے ہیں تاکہ نسائی زندگی کے حقوق کی کوئی ڈنڈی نہ مار لے۔افسانے کے بیانیہ میں گنگا کی روانی سمٹ آئی ہے۔قرأت کے دوران ایک دو جگہ بظاہر کراہیت ہوتی ہے لیکن کیا کیا جائے یہی حقیقت ہے جس کے درمیان ہم زندگی کی ایک ایک سانس لے رہے ہیں۔اسی کا عکس تبسم فاطمہ نے بولڈ انداز میں دِکھایا ہے کہ افسانہ زندگی،تہذیب اور معاشرے کا درپن ہوتاہے جس میں جب ان کی حقیقتیں اپنا جلوہ دِکھاتی ہیں تو زندگی کی رمق کا حقیقی عکس قاری کے سامنے آتا ہے۔
انسانی زندگی کے سفر میں مجرمانہ ذہن کی وسعتیں روز بروز بڑھتی جارہی ہیں،قتل و غارت گری کا شجر روزبہ روزشاداب ہوتا جارہا ہے،انسانیت کا گراف رفتہ رفتہ گرتا جارہا ہے اور سماجی سطح پر فرقہ واریت، انسانیت کی سبھی طنا بوں کو بے دریغ توڑ کر رکھ دی ہے۔ اس کاکرب افسانہ’’ زہریلی دھوپ‘‘ (ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا) کے کینوس پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ایسا اس لیے کے عصر حاضر میں فرقہ واریت انسانی سائیکی کا ایک حصہ بن گئی ہے جس کی نیرنگیاں کرئہ ارض کے ہر خطے میں چولے بدل کے دِکھائی دیتی ہیں۔ بیانیہ اسلوب کے اس افسانے میں کردار نگاری کے علاوہ مکالمے بڑے جذباتی ہیں جو دل پر گہرے اثر ڈالتے ہیں۔یہ افسانہ دل و دماغ پر گہرا اثر ڈالتا ہے اور انسانیت کا سبق پڑھاتاہے۔
’’آج تم نے اس چاہت کا بھی خون کردیا۔کیا پانچ مرنے والے انسان تمہاری نظر میں ان پانچ مردہ چڑ یوں سے بھی زیادہ حقیر تھے جن کا تم نے ہفتوں ماتم کیا تھا۔یہ کیسا زہر ہے نفرت کا جو تمہاری نسوں میں دوڑنے لگا ہے؟کس نے یہ زہر تمہارے اندر بھر دیا ہے کہ تمہارا دل پتھر ہوگیا اور تم مزید خون بہانے کے منصوبے بنارہے ہو۔‘‘
’’زہریلی دھوپ‘‘ (عالمی افسانہ فورم)
نصرت مہدی کا افسانہ ’’انتشار‘‘ ٹرائبل زندگی کا عکاس ہے۔اس افسانے میں ماریہ قبائلی گلوکارہ سنتھالہ کے ساتھ فصل کٹنے کے بعد سات دنوں تک چلنے والے جشن میں شامل ہوتی ہے جہاں جنگل کے بیچ و بیچ پورے چاند کی آدھی رات کو قبائلی نوجوان لڑکے اور لڑ کیاں پھول پتی کے مختصر لباس میں قدم سے قدم اور تال سے تال ملا کر مستی میں ڈوب کر محورقص ہوتے ہیں اور ناظرین پر مہوا کا نشہ حاوی رہتا ہے۔واپسی پر سنتھالہ کے بیٹے نیل سے اس کی ملاقات ہوتی ہے۔ آہستہ آہستہ وہ اس کے قریب ہوجاتی ہے یہاں تک کہ اس کے ساتھ مالا بدل بھی ہوجاتا ہے۔پھر ماریہ یہ کہتے ہوئے ازدواجی زندگی جینے کی راہ پر نکل پڑتی ہے۔
’’کالجی تم لوگ ٹھیک کرتے ہو…زندگی بھر نبھانے کا کوئی وعدہ نہیں کرتے…یو پیپول آر گریٹ…رشتوں کی لاشیں نہیں ڈھوتے…ادھر کالجی ماریا کی کوئی بات نہیں سمجھ رہاتھا لیکن جسم جسم کی زبان بخوبی سمجھ رہا تھا۔اس نے اپنے گرم ہونٹ ماریہ کی چوٹ پر رکھ دیئے اور اس کی انگلیاں ماریہ کے پورے جسم پر گردش کرنے لگیں اور پھر…ماریہ نے پھولتی سانسوں کے درمیان تیزی سے پلٹ کر کالجی کو اپنے اوپر کھینچ لیا۔وہ اب بھی بڑبڑا رہی تھی…ڈونٹ وری کالجی…کم آن …میں اب تم جیسی ہوں…یو نو …آئی ہیو ٹرائبلازڈ مائی سلف…‘‘
’’انتشار‘‘ (عالمی افسانہ فورم)
اس افسانے کاا پنا ایک بیانیہ اسلوب ہے جس میں زبان کی روانی اور تجسس برقرار ہے۔پلاٹ گھٹا ہوا ہے۔قبائلی زندگی اور اس کے سماجی و معاشرتی زندگی کی دل کش منظرکشی، عمدہ کردار سازی ،چست مکالمے اور سب سے بڑھ کر افسانے کی پنچ لائن جہاں تک آتے آتے ایک گہر ا جھٹکا لگتا ہے کہ یہ شہر سے جنگل کی طرف واپسی کیوں؟ کیا ایسا کہ:
لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو…!
’’گنگا بہتی کیوں ہو‘‘ انجم قدوائی کا مختصر افسانہ ہے جس کا اسلوب سادہ بیانیہ ہے۔افسانہ پریم رس میں ڈوبا ہوا ہے لیکن اختتام المیاتی ہے۔ہرپریم کہانی میں ایک لڑکا اورایک لڑکی ہوتی ہے ۔کبھی دونوں ہنستے ہیں…کبھی دونوں روتے ہیں…!اس افسانے میں بھی ایسا ہی کچھ ہے جس کے کینوس پر چاندنی مرکزی کردار ہے جس کو چندر سے بے انتہا محبت ہے۔چاندنی ایک غریب کسان کی بیٹی ہے لیکن محبت گائوں کے زمین دار کے بیٹے چندر سے کرتی ہے۔ روایت کے مطابق ان دونوں کے درمیان بھی وہی قصے دہرائے گئے۔
’’مگر چاندی اپنے سماج کی ریتوں رواجوں کی پابند تھی … ماں ،بابو،سونوبھیا کی پیار کی بندھی چاندنی…ا کرتی؟ اور وہ باولا ہوگیا۔گائوں کے زمیندار کا اکلوتا وارث …وہ کیسے برداشت کرتے ؟کہاں وہ…اور کہاں ایک معمولی کسان کی بیٹی…؟اوروہی سب ہوا …اپنی طرح … پرانے دھرانے قصے دہرائے گئے…چاندنی دور ہوگئی چندر سے …!‘‘ ’’گنگا بہتی کیوں ہو۔‘‘
(ثالث،عالمی خواتین نمبر،ص:۳۴۴)
ایک دن چاندنی کی ماں اس کو لے کر اپنے بھائی کے گھر جاتی ہے اور چاندنی کے لیے لڑکا تلاش کرنے کو کہتی ہے۔وے لوگ لڑکا ڈھونڈنے جاتے ہیں۔اس درمیان موقعے کی نزاکت دیکھ کر اس کا ماموں زاد بھائی اس کے ساتھ زیادتی کرتا ہے۔پھر اس کا پیر بھاری ہوجاتا ہے۔چاندنی تڑپتی رہ جاتی ہے۔ موقعے کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اس کا بھائی سونو سب الزام چندر پر ڈال کر چاندنی کا گلاگھونٹ دیتا ہے اور چاندنی کا وجود ہمیشہ کے لیے مٹ جاتا ہے۔
اس افسانے میں جہاں پیار و محبت کا دلگداز فسانہ ہے وہیں مرد اساس معاشریکی سنگ دلی کی روداد بھی ہے۔جبر کی ایک گاتھا بھی ہے۔سچے پیارکی پسپائی بھی ہے۔ غربت کے بد اثرات کے مناظر بھی ہیں۔زمانے کی سفاکیت بھی ہے۔سماج کے رسم و رواج میں دبی پیار کی سسکیاں بھی ہیں اور نسائیت کی بے بسی بھی۔لیکن افسانہ تا نیثیت کے دائرے سے باہر رہا ۔ایسا اس لیے کہ اس افسانے میں چاندنی کے اندر ریت رواج کو توڑ نے کا حوصلہ نہیں ہے اور نہ ہی اس سے بغاوت کا تیور سامنے آتا ہے بلکہ جب اس کا ماموں زاد بھائی رگھواس کے ساتھ جبر کرتا ہے تو اس وقت بھی وہ اپنا سب کچھ لٹا کر خاموش رہ جاتی ہے ،یہاں تک کہ شک کی بنیاد پر اس کا بھائی اس کا گلہ دبا دیتا ہے۔دو ہنسوں کا جوڑا افسانے کے کینوس پربچھڑتا ہے اورکسک قاری کے دل میں ہوتا ہے کیونکہ گنگا کے شفاف پانی میں جو عکس بنا تھا وہ زمانے کے ہاتھوں پھینکے گئے پتھر وں سے ٹوٹ پھوٹ کر بکھر گیا :
’’چاندنی کے گلے پر دباؤ بڑھ رہا تھا…وہ چھٹپٹا رہی تھی اور پھر آہستہ آہستہ چاندنی گل ہوگئی ۔صبح یہ شور ہوا کہ چاندنی کو رات میں سانپ ڈس لیا۔میت کسی کو دکھائے بنا ہی انتم سنسکار کردیا گیا۔‘‘ ’’گنگا بہتی کیوں ہو‘‘
(ثالث، عالمی خواتین نمبر،ص:۳۴۶)
افسانے کے اختتام پر چاندنی کا نہیں بلکہ انسانیت کا انتم سنسکار ہورہا ہے۔یہ اس سماج یا معاشرے کاالمیہ ہے جس میں انسان اوج ثریا پرکمندیں ڈال کر اس سے آگے کے سفر کا منصوبہ بنا رہا ہے۔اس لیے افسانے کا عنوان استفہامیہ ہے کہ گنگا بہتی کیوں ہو؟ یعنی اس سفاک معا شرے میں تم منجمد کیوں نہ ہوگئی!!
عشرت معین سیما کا افسانہ ’’ہجر کے سائے ‘‘میں یہ احساس جاگزیں ہوتاہے کہ حسن کا ادراک فن کی کسوٹی ہے جو فن پارہ لمحہ بھر کے لیے ہی سہی سرشار کردے اور وجود کے کرب سے نجات دلائے وہی فن پارہ اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوتا ہے۔ مذکورہ خوبیاں تب آتی ہیں جب اس میں آفاقی موضوع ہو،حسن بیان ہو،تخیل کی زرخیزی ہو اور حسن فطرت کی پیش کش ہو۔یہ تمام خوبیاں اس افسانے میں در آئی ہیں جس کے کینوس پر محبت کے ملبے پر بیٹھ کر عاشق اور معشوق کے سسکنے کی آواز۲۸ برسوں تک سنائی دیتی ہے لیکن آخر کار دیوار برلن گرنے کے بعد اپنی محبت کا خراج وصول کرلیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دل کا گلاب ہجر کی تیز تپش کی مار سہتے ہوئے شاداب رہتا ہے جس کی خوشبو قاری کے من کے آنگن میں بہت دیر تک مہکتی رہتی ہے۔افسانے کا اسلوب استعاراتی ہے۔زبان افسانوی ہے جس کا اختتام چونکاتا ہے۔افسانے کی اصل کلید ’اپنی بیٹی‘ میں چھی ہوئی ہے جس کو پڑھتے ہی افسانے کا یہ اقتباس ذہن میںرقص کرنے لگتا ہے۔
’’اُس نے چپکے سے کمرے کا جائزہ لیتی مارٹینا کے قریب جاکر اس کی کمر میں ہاتھ ڈال دیئے اور اسے اپنے اتنے قریب کرلیا کہ اس تنہائی میں ان دونوں کی سانسیں اُلجھنے لگیں۔کچھ دیر وہ دونوں مست اس ادھورے بستر پر مکمل زندگی کا لطف لینے لگے۔کچھ دیر بعد مارٹینا نے پلنگ کے سخت تختے پربیٹھتے ہوئے اپنے بلاوز کے بٹن بند کرتے ہوئے کرسٹیان کی جانب دیکھنے ہوئے کہا۔تم بہت بے صبرے ہو۔‘‘
’’ہجر کے سائے‘‘ (عالمی افسانہ فورم)
صدف اقبال کا افسانہ’’ نروان کی آخری سرحد‘‘ اپنے عصری مسائل کو علامتی انداز میں پیش کرکے بہت گہرا تاثر چھوڑرتاہے۔اساطیری اسلوب اور داستانی فضا میں لکھے گئے اس افسانے میں تذبذب،المیاتی منظر نامہ،راج بال کامنی کے ڈھلتے حسن کا ذکر، جبر کے بطن سے پنپنے والی برائیوں کی طرف اشارہ،شگفتہ ہندی الفاظ کا استعمال اور بانس کے جنگلوں میں بسنے والے انسانوں کی سادہ لوحی کی رودادہے جن کو حالات کے ستم ظریف لمحوں نے اس موڑ پر لاکھڑا کیا ہے کہ اب وہ یہ سوچنے لگے ہیں:
’’مجھے دیوتاؤں کی طرف سے اشارہ مل گیا ہے۔ہمیں بستی اور نیستی کو مدغم کرنا ہوگا۔ہم سب ماضی پرست ہیں اور ہمیں اب ماضی کی طرف مراجعت کرنی ہوگی۔اب ہم یہ بستی چھوڑرہے ہیں۔ہم پورے ملک میں پھیل جائیں گے۔ان میں گھل مل جائیں گے۔بادشاہ نے جانور کھانے پہ پابندی لگائی ہے۔ انسان کھانے پہ نہیں ۔مگر اب ہم مردار نہیں زندہ گوشت کھایا کریں گے۔سناہے انسان کا گوشت بہت لذیذ ہوتا ہے۔‘‘
’’ نروان کی آخری سرحد‘‘ ( اردو افسانہ فورم)
سادہ بیانیہ اسلوب میں لکھا ہوا واجدہ تبسم گورکو کا افسانہ’’ راز دل‘‘ یہ احساس دلاتا ہے کہ کسی کی قدر و قیمت تب معلوم ہوتی ہے جب وہ ہم سے دورہوجاتاہے ، ورنہ گھر کی مرغی دال برابر۔!افسانے کا تھیم ہماری روزانہ کی زندگی سے واسطہ رکھتا ہے۔افسانے میں زندگی کی تلخیاں سمٹ آئی ہیں۔اس کا مرکزی کردار اشرف ایک ایماندار،جفاکش کردارہے جو بڑی محنت و مشقت سے گھر چلانے کے لیے آمدنی کرتا ہے۔اچانک اس کی گمشدگی سے پیدا شدہ مسائل اور صورت حال کا ذکر بڑے خوبصورت انداز میں کیا گیا ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ کسی چیز کی اہمیت اس کے رہتے بھر دینی چاہیے ۔افسانے میں کوئی استعارہ نہیں ،کوئی علامت نہیں بس واقعہ کو خوبصورتی سے بیان کردیا گیا ہے ۔اس افسانے میں جن مسائل کو اُٹھایا گیا ہے اس سے کم و بیش ۲۰فیصد افراد ضرور متاثر ہیں اور اگر ان ۲۰فیصد لوگوں کے دل کی ترجمانی کرنے میں یہ افسانہ کامیاب ہے تو اس کو عصری ترجمان کے احاطے میں رکھا جاسکتا ہے۔
رخشندہ روحی مہدی کا افسانہ’’ بڑا آدمی‘‘ راست بیانیہ میں لکھا گیا ہے جس کی فضا میں مایوسی،ناامیدی اورکسک کا ابر چھایا ہے۔افسانے کے کینوس پر معاشی ناہمواری کی جہت نمایاں ہے۔ملک کی آزادی کے بعد زمین داروں کی زبوں حالی کا جو منظر نامہ سامنے آیا اس میں آم کا باغ،امرود،کے باغ،بیریاں، کھیت اوردکان،مکان کی فروخت کے لیے خاموشی سے بیع نامے پر دستخط ہوتے رہے اور خستہ حالی کا گراف اوپر اٹھتا رہا۔ نوبت یہاں تک آپہنچی :
’’ابّا کو اپنا فرض پورا کرنا تھا۔آپ کا گھر بسانا تھا۔ان کو تو معلوم تھا کہ آپ کے خواب کیا ہیں تو میری قربانی کیوں دی آپ کے ابّا نے۔اباّخود تو چلے گئے اور مجھے آپ کے خوابوں کے کھنڈر پر اپنی حقیقی زندگی کا چوبارہ تعمیر کرنے کے لیے چھوڑ گئے۔‘‘
’’ بڑا آدمی‘‘ ( آج کل ،مئی ۲۰۲۱ ص:۳۶)
زندگی کے سفر میں شریک سفر کا یہ تیور صر ف اس لیے آیا کہ سب کو اپنی اولاد عزیز ہوتی ہے ۔اس لیے ایک ماں بیٹے کو شوہر کی طرح ہوا محل کی راہداری میں نہیں بھٹکنے دینا چاہتی ہے بلکہ اپنے بیٹے سروش کو ایک عظیم شخصیت کے روپ میں دیکھنا چاہتی ہے۔ سروش کے والد کا سلسلۂ نسب ایک زمین دارگھرانے سے تھا لیکن جب زمینداری کا خاتمہ ڈگڈگی بجا کر کیا گیا تو زمینداروں کی معاشی حالت کی بھی ڈگڈگی بج گئی۔جب معاشیات کا گراف گرتا ہے تو بے گا نے تو دور اپنے بھی شمشیر بکف ہوکر صلواتیں سنانا شروع کرتے ہیں۔افسانے میں اس بغاوت کی پہلی آواز بیوی کے منہ سے آتی ہے:
’’میں اپنے بچے کے ساتھ کسی بڑے شہر چلی جاؤں گی۔وہاں محنت کرسکتی ہوں۔وہاں آپ کے زمیندار رتبے کو ٹھیس نہیں پہنچے گی۔ میں اپنے سروش کو ایک بڑا آدمی بنانے میں جی جان لگادوں گی۔‘‘
’’ بڑا آدمی‘‘ (آج کل ،مئی ۲۰۲۱ ص:۳۶)
اس کے بعد سروش کے والد جھڑکیوں کو سن کر نمناک آنکھوں سے صدر دروازے کے اونچے پھاٹک کو تاکنے لگتے ہیں اور امی مارے غصہ کے چولہے پر اُبلتی دال میں زور سے کفگیر چلادیتی ہے۔پھر زندگی کے اس موڑ پر نکاح تو فسخ نہیں ہوتا ہے لیکن دونوں کے درمیان اجنبیت کی دیوار حائل ہو جاتی ہے اور دم ِمرگ تک یہ دیوار گرتی نہیں ہے۔
ادھر سروش کے والد کے ادبی خدمات پر روٹری کلب میں سیمینار کے دوران پتہ چلتا ہے کہ اس کے والدکے قلم کی کتنی قیمت تھی۔واپسی پر شکن آلودچادر، تولیہ، گائوتکیہ، ٹوپی،چائے کی پیالی کی پوٹلی باندھ کر ممبئی کے ایک چھوٹے سے فلیٹ کی چابی اس کے مالک کو تھماکر واپس آتا ہے اور سیدھے اپنی ماں کی قبر پر پہنچ کر کہتا ہے۔
’’امی ایک بڑے آدمی کا نذرانہ عقیدت !‘‘پھر دربان سے کہتا ہے :
’’بابا یہ سامان میری امیّ کا ہے اس کو یہاں امیّ کے سرہانے …‘‘
’ ’ بڑا آدمی‘‘ (آج کل ،مئی ۲۰۲۱ ص:۳۷)
اور سسکتے ہوئے ویران اور خاموش قبرستان سے باہر نکل آتا ہے۔اس وقت اس کے دماغ میں شاہ رخ خان کے اس جملے کی بازگشت سنائی دیتی ہے :
’’سدا تم نے عیب دیکھا۔ہنر تو نہ دیکھا۔وہ تو ہے البیلا ہزاروں میں اکیلا‘‘
’’ بڑا آدمی‘‘ ( آج کل ،مئی ۲۰۲۱ ص:۳۷)
افسانے میں یہ بھی ایک المیہ ہے کہ جس بیٹے کو آدمی بنانے کے لیے اس کی ماں نے اتنے دکھ اُٹھائے،محنت و مشقت کی،شوہر سے لاتعلقی کا اظہار کیا وہ بیٹا جب آدمی بن جاتا ہے اور کینڈا میں مقیم ہوجاتا ہے تو سترہ برس تک چاہ کر بھی ماں کو دیکھنے بریلی نہیں آتا ہے۔یہاں تک کے وہ داعئی اجل کو لبیک کہہ دیتی ہے۔
اگر افسانے کے پہلے اقتباس کو ہٹا بھی دیا جائے تواس کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔جب کہ اس کی موجودگی سے اختتام پر کئی نقطے اُبھر کر سامنے آجاتے ہیں۔ افسانے کا متن عمدہ تخلیقی شعور کی مثال ہے ۔
ڈاکٹر نجمہ محمود عصر حاضر میں لکھنے والی خواتین افسانہ نگاروں میں ایک مقام رکھتی ہیں۔ان کے افسانے سماجی زندگی کے خمیر سے تیار ہوتے ہیں۔موصوفہ کاافسانہ’’ خالی جھولی ‘‘پڑھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔افسانہ ملازمت کرنے والی ماؤں کے لیے ایک سبق ہے کہ کہیں ان کے بچے سے بھی ماسی ماں سڑک پر کٹورے تھما کر بھیک نہ منگواتی ہو۔ یقینااس متن کو پڑھ کر قاری کانپ جائیں گے۔
’’ایک بچہ پھٹے ہوئے میلے چیکٹ کپڑے پہنے ہاتھ میں بڑا سا پیالہ لیے دوڑرہا تھا۔ہر راہ گیر کے پیچھے…اے بابو پیسہ دے دے نا…دو دن کے بھوکے ہیں…اے بابو…وہ ایک صاحب کے پیچھے دوڑ رہا تھا۔اس کا چہرہ دھول میں اٹا ہواتھا۔اس لیے اسے پہچانناذرا مشکل تھا۔لیکن اتنا زیادہ مشکل بھی نہ تھا ۔اس کے ساتھ ایک عورت بھی تھی جس کے ہاتھ میں بھی ایک پیالہ تھا اور ہر راہ گیر کے پیچھے دیوانہ وار بھاگتی تھی۔اس کے پیالے میں چند سکے تھے اور بچے کے پیالے میں بھی…..مائی او مائی وہ اس کی طرف پلٹا اور اس کے پیر چھونے لگا وہ کانپ گئی۔‘‘
’’ خالی جھولی ‘‘ (عالمی افسانہ فورم)
ڈاکٹر مہ جبیں غزال کا افسانہ’’ اپسرا‘‘ بیانیہ اسلوب میں رقم کیا گیا جذباتی افسانہ ہے جس کے کینوس پررات کے اندھیرے میں فٹ پات پر رہنے والی عورتوں کے جسمانی استحصال کوموضوع بنایاگیا ہے۔ ان عورتوں کا ضمیر زندہ ہے لیکن معاشی بدحالی کے سبب سماج کے ٹھیکے دار اس کی عصمت سے کھلواڑ کرتے ہیں اور روح کے ریشمی آنچل کو بے دردی سے چتھڑے چتھڑے کردیتے ہیں۔ان زخمی روح کی سسکیوں کی آواز افسانے کی فضامیں بار بار سنائی دیتی ہے۔ یہ سسکتی آوازاُس ناری کی ہے جس کی عصمت ہر شام ڈھلے رات کے اندھیرے میں لٹتی رہتی ہے۔ افسانے کے کینوس پر انسانیت اور نسائیت دونوں بیدار دِکھائی دیتی ہیں۔
’’میں جاننا چاہتی ہوں کہ میرے پیٹ میں پل رہے بچے کی رگوں میں کس کا خون دوڑ رہا ہے…بزنس مین کا ،اسمگلر کا ،غنڈے کا،یا موالی کا…‘‘
’’اپسرا‘‘ ( عالمی افسانہ فورم)
نیلم بشیر کا افسانہ’’ خلا‘‘ مغربی اور مشرقی تہذیب کے تصادم کے محور پر گھوم رہا ہے جس کا اختتام شک پر ہوتا ہے۔طارق اور فضیلہ اپنی مٹی سے ہجرت کرکے امریکہ میں ضرور سکونت اختیار کرلیے ہیں لیکن دل کے کوزے میں اپنی مٹی اور اس کی تہذیب و تمدن سے پیار کا جذبہ چھلکتا رہتا ہے جبکہ بیٹا عمران ویسٹرن کلچر کا دلداہ ہوگیا ہے جس کے باعث ماں اور بیٹے کے درمیان نظریاتی تصادم ہوتا ہے لیکن ممتا غالب رہتی ہے۔ لاکھ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ بیٹے کی خواہش کے سامنے سپر ڈال دیتی ہے اور اس کی شادی اس کی محبوبہ مینڈی سے تبدیلی مذہب کے بعد کرنے پر راضی ہوجاتی ہے جو شادی سے پہلے حاملہ ہوگئی ہے لیکن شادی کے بعد جب اس کی بیٹی پیدا ہوتی ہے تو اس کے نین نقش دیکھ کر فضیلہ کو جیسے کرنٹ لگ جاتی ہے اور وہ بچی کو ماں کے پہلو میں لیٹا کرنفرت سے یوں منہ موڑلیتی ہے جیسے اس سے بدصورت بچی اس نے کبھی دیکھی نہ ہو۔اس طرح اپنی ہتھیلی پر اپنے جین کو نہ دیکھ کر نفرت اور حقارت کی آندھی تیز تر ہوجاتی ہے۔ اس افسانے میں عورتوں کی نفسیات کو بھی نیلم بشیر نے بڑی خوبی سے پیش کیا ہے۔ افسانے سے یہ بھی تاثر آتا ہے کہ بچے کی پرورش جس ماحول میں ہوگی وہ اس کی مطابقت کرتا ہے نیزنئی نسل اپنے اقدار اور روایت کو بھول رہی ہے۔اس کے لیے جہاں نئی نسل ذمہ دار ہے وہیں اس کے والدین بھی قصور وار ہیں کہ ترقی کی ہوڑ میں وہ اپنی مٹی سے اُکھڑ کر مہاجر بن جاتے ہیں جہاں ان کی اولاد وہاں کی تہذیب و تمدن کے سانچے میں ڈھل جاتی ہے۔پھر یہ ذہنی تصادم سامنے آتاہے۔
’’مام !یہ اس ملک کا کلچر ہے جس میں ہم رہ رہے ہیں۔میں امریکن ہوں۔یہاں کا رہنے والاہوں۔آپ کو اندازہ بھی ہے کہ ہم ایشین بچوں پر اس سوسائٹی میں کتنے پریشر ز ہوتے ہیں جوان ہونے کے بعد ہم اپنے ساتھیوں سے الگ تھلگ کیسے ہوجائیں؟اگر ہم کسی کے ساتھ ڈیٹینگ نہ کریں تو ہمیں ابنارمل یا ’گے ‘سمجھ لیا جاتا ہے۔اور اگر اپنے فرینڈ ز کی طرح امریکن لائف گذاریں تو آپ لوگوں کی ویلوز خطرے میں پڑجاتی ہیں۔ہم لوگ اس سوسائٹی میں رہ کر مس فٹ ہونا نہیں چاہتے ہیں۔یہ ہمارے سروائیول کا مسلہ ہے۔آپ لوگ سمجھنے کی کوشش کریں۔ہمیں یہاں رہنا ہے ہمیشہ اور مستقیلًا۔ ہمیں مت روکیں۔‘‘
’’ خلا‘‘ )ثالث ،خواتین افسانہ نمبر،ص:۳۱۶)
نسترن احسن فتیحی کا افسانہ ’’یہ عجیب عورتیں ‘‘تانیثیت کا علمبردار ہے۔اس افسانے میں ایک عورت ہے جو ’’میں ‘‘کے لبادے میں کینوس پر نمودار ہوتی ہے جس کے ذہن میں عورت کی سماجی حیثیت سے متعلق سیکڑوں سوالات سر اُٹھاتے رہتے ہیں۔ خواتین کی جانب سے متنازعہ شہریت قانون کی مخالفت شاہین باغ کی تحریک سے شروع ہوئی تھی اس تحریک کے مقصد کی بازگشت اس افسانے میں سنائی دیتی ہے کہ جب جاگو تب سویرا …!فولادی ہمت والی یہ خواتین اپنے آنچل میں اپنے لال کو سمیٹے آنے والی نسلوں کے مستقبل اور حقوق کے لیے سڑکوں پر بیٹھ کر احتجاج کرنا شروع کرتی ہیں ۔ یہ بھیڑ طاقت کا ایک استعارہ بن کر سامنے آتی ہے جس کی پھنکار مد مقابل کو پست کردیتی ہے۔ضمنی طور پر اس افسانے میں عورتوں سے منسلک عصری مسائل کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔افسانے میں صفورہ زرگر کا بھی ذکر ہے جو کم سن ہوتے ہوئے تین ماہ کی حاملہ ہے پھر بھی اس کے حو صلے جوان ہیں۔اس چھوٹی سی عمر میں پہاڑ جیسی ہمت رکھنے والی یہ لڑکی ایک نظام سیٹکراتی ہے ۔نظام کے جبر کے خلاف آواز اُٹھاتی ہے ۔نیز جبر کے بطن سے پنپے خوف کو بھی للکارتی ہے جو عوام کے دلوں میں چھپ کر بیٹھ گیا ہے۔صفورہ کی یہ للکار افسانے کی مرکزی کردار کو اُکساتا ہے اور آخر کار جب اس کا لڑکا غیر ممالک سے نوکری چھوڑ کر اپنے وطن کی واپسی کی خبر اس کو دیتا ہے تو وہ یہ سوچتے ہوئے اس بھیڑ کاحصہ بن جاتی ہے:
’’میرا لال بھی واپس آرہا تھا…بلکہ اسے بھیج کر اب تک خود دھوکے میں جی رہی تھی۔میں ان سے الگ نہیں تھی مجھے بھی اس کے مستقبل کی فکر کرنی تھی پرندے لوٹ کر گھونسلے میں ہی آتے ہیں اور اس گھونسلے کو محفوظ رکھنا ہمارا فرض تھا…‘‘
’’یہ عجیب عورتیں ‘‘) ثالث ،عالمی خواتین نمبر ص:۳۲۷(
ڈاکٹر صادقہ نوب سحر کاافسانہ ’’بوڑھی پڑوسن کا موبائل‘‘ کا اسلوب سادہ بیانیہ کے ساتھ مکالماتی ہے جس میں فائزہ، اس کا معصوم بچہ عدیل،کم وبیش ۸۰سالہ ضعیفہ اوران کے بیٹے اور بہوئوں کے د رمیان تانہ بانہ بن کر ایک پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ آج کی سماجی زندگی میں ضعیف لوگوں کی قدربہت نیچے گرگئی ہے۔اتنا نیچے کہ اس کی اولادیں ان کو ایسا موبائل دیئے ہیں جو برسوں پہلے پانی میں گر کر خراب ہوگیا ہے اور اس موبائل کو ضعیفہ یہ سوچ کر اپنے پاس رکھتی ہے کہ یہ موبائل ٹھیک ہے۔یعنی یہ افسانہ علامتی طورپر والدین اور اولاد کے درمیان Communication gap کی اطلاع قاری کو دے رہا ہے جس میں جزیات نگاری اچھی طرح کی گئی ہے جس کے باعث ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے سب کچھ آنکھوں کے سامنے ہورہا ہے۔عدیل کے کردار سے افسانہ نگار فائزہ (ماں)کو یہ کہنا چاہتی ہیں کہ یہ بھی جب ایک دن بڑا ہوگا تو اسی طرح ڈیڈ موبائل تمہارے ہاتھوں میں دے گایعنی جس کرنی تس بھوگ رہے داتا۔!کئی جملے ایسے رقم کیے گئے ہیں جو چبھتے ہیں۔
’’بیٹے کی بہو جارہی تھی اس لیے میں یہاں آگئی تھی۔میں یہاں نہیں رہتی ۔چھوٹی بہو کے گھر رہتی ہوں‘‘
’’بہو کا یا بیٹے کا گھر؟‘‘وہ چپ رہی‘‘
’’بوڑھی پڑوسن کا موبائل‘‘) ثالث،عالمی خواتین نمبرص:۳۲۹(
افسانے میں پوتے اور پو تیوں سے شفقت کی خوشبو رچی بسی ہے۔ یہ افسانہ ایک تحصیل دار کی ماں کی بے بسی کا استعارہ ہے جو یہ اشارہ کرتا ہے کہ عصرحاضر میں Old is not goldبلکہ اس جدید سماجی زندگی میں Old is rolled۔ترقی کی دوڑ میں فلیٹ زدہ معاشرے میں اپنے پڑوسیوں کو بھی واٹس اپ کے ذریعہ موت کی خبردی جاتی ہے۔ اگر موبائل خراب رہا یا مصروفیت زیادہ رہی تو یہ خبر بھی اس کو نہیں ملتی ۔فائزہ کو گرِل سے بڑی بی کی آنکھیں دکھائی دینا کرب انگیزی کا سبب بنتا ہے۔اس کرب انگیزی میں بے بسی اور اداسی ہے ۔ایک ایسی اداسی جو ہمہ وقت ہماری سماجی زندگی میں چھائی رہتی ہے لیکن بہت کم لوگ اس کومحسوس کرتے ہیں۔موجودہ ترقی یافتہ زندگی میں موبائل اپنوں کے درمیان رابطے کی ایک کڑی ہے لیکن وہ بڑی بی کے یہاں برسوں پہلے پانی میں گر کر خراب ہوگیا ہے اوربڑی بی کی سادہ لوحی ابھی بھی اس کو صحیح سالم سمجھتی ہے۔اس طرح یہ افسانہ قاری کے ذہن میں اس خیال کو منتقل کررہا ہے کہ والدین اور بچوں کے درمیان رشتے منقطع ہوگئے ہیں لیکن والدین غلط فہمی کے شکار ہیں۔
رینوبہل کا افسانہ’’ دونیناں‘‘ سماج کے ایک ایسے طبقے کا ترجمان ہے جس کے مقدر میں زندگی کی تمام ستم انگیزیوں کو جھیلنا لکھا ہوتا ہے۔اس افسانے میں سنبل کا کردارایک ایسے طبقے کی نمائندگی کرتا ہے جو عالم شباب میں پرستان کی پری جیسی تھی لیکن وقت کے دھارے ،غربت کی مار،شرابی شوہر کی بری لت نے اس کی نجی زندگی کو اس قدر نچوڑ لیے کہ حسن کی راہوں میں چاروں طرف زرد پنکھڑیاں بکھر گیں۔جس سنبل کے ہنسنے سے جل ترنگ بج اُٹھتے،جس کی کالی کجراری آنکھوں میں ڈوبنے کی خواہش سب کو رہتی ،سیاہ زلفوں اور بھرے بھرے لبوں والی جب مسکراتی تو پھول جھڑتے لیکن قسمت کے تھپیڑے سہتے سہتے وہ اس منزل پر آکر ٹھہر گئی تھی۔
’’ماں پہچانتی نہیں کسی کو…کنچو نے میرے پائوں چھوتے ہوئے کہا۔سنبل کے پاس بستر پر اس کا ہاتھ پکڑ کر بیٹھ گئی۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ ہوگئی ہے۔بالوں میں چاندی چمکنے لگی ہے، چہرے جھریوں سے بھر گیا ہے۔رنگ زرد،آنکھیں ویران، اپنی عمر سے زیادہ بوڑھی لگنے لگی ہے۔‘‘
(’’دونیناں ‘‘ثالث،عالمی خواتین نمبرص:۳۴۱)
سنبل کی زندگی اس موڑ پر تب آئی جب اس کو کروڑپتی تاجر کے نالائق،شرابی عیاش مزاج لڑکے سے شادی ہوجاتی ہے جس کے بطن سے پہ در پہ کئی لڑکے اور لڑکیاں جنم لے لیتی ہیں اور معاشی حالت نیچے گرتے گرتے اس وقت مزید بگڑجاتی ہے جب شوہر شراب کے نشے میں دھت گاڑی سے ٹکرا کر چتا پر سوجاتاہے جس سے اُٹھنے والی لپٹیں صرف اس کو ہی نہیں جھلساتی ہیں بلکہ سنبل کی زندگی بھی اس میں یوں جھلس جاتی ہے کہ راوی کو اپنی دادی کی کہی بات یادآنے لگتی ہے۔
’’لڑکی کی شکل نہیں ،قسمت خوبصورت ہونی چاہئے‘‘
’’ دونیناں‘‘(ثالث،عالمی خواتین نمبرص:۳۳۵)
افسانے میں انسانی ہمدردی کی ایک جوت ہے جو بے حس معاشرے کو روشن کرتی نظر آتی ہے۔یہ جوت سنبل کی سہیلی پرتی کی بڑی بہن کے وجود سے پھوٹ رہی ہے جو بُرے دنوں میں سنبل کی ہر مددکرتی ہے ۔یہاں تک کہ اس کے ایک بیٹے کی پرورش بھی کرتی ہے۔تقسیم وطن کے بطن سے پنپے سانحہ کا ہلکا لیکن موثر ذکر اس افسانے میں ہے۔
’’جب اسے علم ہوا کہ اس کے پائوں بھاری ہیں۔نئی سی امید کی کرن پھوٹتی ہے کہ تقسیم ملک کے سانحہ نے زندگی کا پانسہ الٹ دیا۔قتل و غارت گری،عصمت دری،لوٹ پاٹ،آگ زنی نے سب تباہ کردیا ۔بھراپرا گھر چھوڑ نقدی اور زیور سمیٹ کنبے کے ہمراہ وہاں سے نکل پڑے۔ہندوستان پہنچتے پہنچتے دس میں سے صرف تین افراد رہ گئے باقی راستے میں ہی ہلاک ہوگئے اس کی پہلی اولاد کا جنم ر فیوجی کیمپ میں ہوا۔‘‘
’’ دونیناں‘‘ ( ثالث،عالمی خواتین نمبرص:۳۳۶)
افسانے کے اِس متن میں رینو بہل یہ کہنا چاہتی ہیں کہ تقسیم وطن کے سانحہ سے نہ جانے کتنی زندگیاں برباد ہوئیں بلکہ کتنے گھر اُجڑ گئے۔افسانہ دبے لفظوں میں یہ بھی کہہ رہا ہے کہ اے میرے مالک سب مخلوق تیری ہے لیکن تیری آنکھیں دوکیوں ہیں؟ افسانے کے کینوس پرنصیب کی تمام ستم انگیزیوں کے منظر نامے محورپر ہیں جس میں کہیں بھی ریا کاری کی جھلک نہیں ہے۔جو جیسا ہے ویسا ہی دِکھائی دے رہا ہے جس کے باعث رینو بہل کا یہ افسانہ ہماری زندگی سے بہت قریب دِکھائی دیتاہے۔
سلمٰی صنم کا’’ افسانہ پت جھڑ کے لوگ‘‘ میں سیما اور مدثر حقیقی کردار ہیں۔سیماعمر کے آخری پڑاؤ میں ہے۔میز پر اب مدثر کی تصویر رہ گئی ہے۔ایک دن کھٹیا پر سوئے سوئے وہ سوچ رہی ہے کہ پت جھڑ کا موسم آیا نہیں کہ سب کچھ بکھرنے لگا،چلنا پھرنا اُٹھنا بیٹھنا عذاب بن گیا ۔اس طرح افسانہ ناسٹلجیائی فضا میں آگے بڑھتا ہے ۔اچانک سیما کو ایسامحسوس ہوتا ہے جیسے اس کے سر سے مدثر لحاف ہٹا یا ہو جس کے ہمراہ ساری جوانی اس کھٹیا پر گذاری ہے۔وہ اس کو بے خیالی میں دبوچ لیتی ہے لیکن جب غور سے دیکھتی ہے تو وہ بھکشو تھا۔پھر یاد کے ہچکولے میں وہ پڑتی ہے۔وہی بھکشو ،پھیلی ناک والا …اُبھری آنکھوں والا۔مشرقی ہندوستان کی کسی بستی سے آیا ہوا بھکشو جس سے اس کی ملاقات کالج کے زمانے میں اس وقت ہوئی تھی جب وہ پری جیسی تھی اور وہ بھکشوکوبڑی حقارت سے دھتکاردی تھی لیکن زندگی کی آخری منزل پر اس کی یاد بھی مدثر کی یاد وںکے متوازی رواں دواں ہے۔
وہ زندگی کس قدر حسین ،شبنم کی طرح خاموش،بجلی کی طرح سبک اور سورج کی طرح روشن تھی جو ندی کی طرح تیز، اپنی روانی میں بہے جارہی تھی۔ اس نے ساری عمر سایہ دار شجر بن کر سب کو چھائوں دی لیکن اب دھوپ کی تمازت سہنی پڑرہی ہے کہ بیٹے، بیٹی، پوتے پوتی اور بہو سب کے سب حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔سردی کی طویل سرد رات کو آنکھوں میں کاٹتے ہوئے وہ سوچتی ہے۔
’’کا ش کہ ہم پت جھڑ کے لوگوں کو بھی ایساکچھ میسر ہوتا۔ ہماری بھی کہیں کوئی بل ہوتی ۔ہم نے بھی کوئی غذا جمع کی ہوتی ۔ساری زندگی بچوں کو سمیٹتے گذاردی اور یہ بچے!‘‘
’’ پت جھڑ کے لوگ‘‘(قطار میں کھڑے چہرے اور دیگر کہانیاں،ص:۴۴)
کالج میں پڑھنے والی کرائے دار کی نوجوان لڑکی صبح صبح ایسی تیز ریش میوزک بجاکر ورزش کرتی ہے کہ درودیوار ہل رہے ہیں۔شکایت کرنے پر جواب دیتی ہے۔ ہماری یہ عمر موج مستی کی ہے۔اب شور نہ کروں تو پھر کب کروں ؟ماں کے منع کرنے پر آگ بگولہ ہوکر کہتی ہے یہ بوڑھے وبال جان ہوتے ہیں۔میرا جی کرتا ہے کہ تمام بوڑھوں کو گولی سے اُڑادوں۔اس طرح افسانے میں جینریشن گیپ کی سوچ کی تیکھی تپش کا احساس قاری کو ہوتا ہے۔جس سایہ دار شجر کے سائے میں ان نسلوں کی آبیاری ہوئی اس میں بیٹے اوربیٹیوں کے رویئے کو دیکھتے ہوئے ذہن میں یہ سوال سر اُٹھاتا ہے کہ یہ تربیت کا قصور ہے کہ جینریشن گیپ کی سوچ کا؟جب کسی فن پارے کے بین السطور میں انسانی جذبے کا انجذاب ہوتا ہے تو اس کی قدروقیمت بڑھ جاتی ہے نیز جب فن پارے میں الفاظ مثل چراغ جل اُٹھتے ہیں تو روشنی ذہن کے سائبان میں بہت دور تک جاتی ہے۔ایسا ہی کچھ اس افسانے میں ہوتا ہے۔
قمر جمالی کا ’’ فاتح عالم‘‘ تانیثی افسانے کا پرچم لہرارہا ہے۔اس افسانے کے کینوس پر ایک دن شہیراپنی بیوی کو لے کر فلم دیکھنے جا تا ہے۔ خوب تیزبارش ہورہی ہے۔فلم جب ختم ہوتی ہے تو واپسی کا مسئلہ سامنے آتا ہے۔بہت دیرتک انتظار کرنے کے بعد بس آتی ہے۔دونوں اس میں سوار ہوتے ہیں۔بس میں صرف مرد حضرات سفر کررہے ہیں کہ اتنے میں بیوی کی نظر بس کی پچھلی سیٹ پر بیٹھے ایک نوجوان عورت پر پڑتی ہے جس کی گود میں ایک معصوم بچہ بارش کی سردی میں ٹھٹھررہا ہے۔اس نوجوان عورت کے پاس اتنا کپڑا نہیں ہے کہ بچے کو سردی سے بچائے ۔بس کے مرد مسافر اس عورت پر اپنی گندی نگاہوں کے تیر پھینک رہے ہیں جس کی چبھن وہ برداشت کررہی ہے۔جب شہیر اور اس کی بیوی کا بس اسٹاپ آتا ہے تو وہ عورت گیٹ پر چلی آتی ہے اوراپنی ساڑی کو اُتار کر اس میں بچے کو لپیٹ لیتی ہے۔پھٹے پیٹی کوٹ اورچولی کے باوجود وہ ایسے تن کر کھڑی ہے جیسے اس نے ننگی ہوتے ہوئے بھی بے حساب دوپٹے اوڑھ رکھی ہو۔یہ ماں کا وہ روپ ہے جس کا صلہ یہ دنیا دینے سے قاصر ہے۔
’’اس کا چہرہ پُرجلال ہوگیا۔اس کے سہمے ہو ئے اعضا تن گئے اور پلک جھپکتے میں اس نے اپنے جسم پر لپٹی ہوئی ساڑی کھینچی اور نیلے پڑتے ہوئے اپنے لخت جگر کے اطراف کس کر لپیٹا۔اس کا پٹی کوٹ اور چولی جابجا پھٹے تھے۔اس کا جوان جسم دعوت نظارہ دے رہا تھا۔مگر وہ تو ایسی اکڑی کھڑی تھی جیسے تنگی ہوتے ہوئے بھی اس نے بے حساب دوپٹے اوڑھ رکھے ہوں۔‘‘
’’ فاتح عالم‘‘ (ثالث،عالمی خواتین نمبرص:۳۵۱)
یقینااس کی لرزتی پلکوں،کپکپاتے ہونٹوں اور استقلال سے چمکتے چہرے پر جو رعب اور نورتھاوہ نسائیت کے قد کو بہت اونچا کردیتا ہے۔وہیں غلیظ نگاہ رکھنے والے مردوں کی بے آبروی اورپشیمانی کا سبب بھی بن جاتا ہے۔جن مردوں کی غلیظ نگاہیں اس ماں کی جوانی کونظروں سے بھبھوڑ رہی تھیںان پر شرم کا دبیز پردہ پڑگیا جو اس بے لباسعوت کے لیے مثلِ حجاب ان کے درمیان حائل ہوگیا ہے اس منظر کو دیکھ کر شہیر کی بیوی بے اختیار چینخ پڑتی ہے۔
’’تم بہت بہادر ہوماں…بہت عظیم ہو…فاتح عالم ہو … دنیا جہاں کی تسخیر شاید اسی کا نام ہے‘‘
’’ فاتح عالم‘‘ (ثالث،عالمی خواتین نمبرص:۳۵۱)
اسلوب کی سطح پر ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے افسانہ نگار کہیں کہیں خود داخل ہوگئی ہے اور اس نظریے کی تشہیر کرتی ہے جو ترقی پسندوں کاتھا کہ تو اس آنچل سے اک پرچم بنالیتی تو اچھاتھا۔ا فسانے میں اسی کردار کو تراشنے کی کوشش ہوئی ہے جس کو پروان چڑھانے کے لیے تانیثت کی تحریک شروع ہوئی تھی ۔
’’محبوبہ ‘‘ثمینہ سید کا افسانہ ہے ۔یہ افسانہ عصر حاضرکی ایک ایسی ماڈرن لڑکی کی زندگی کے محور پر گھومتا ہے جو اپنے کالج کے دوستوں کے ساتھ گل چھرے اُڑاتی ہے اور ماں اس کو اس راستے سے ہٹنے کی تلقین کرتی ہے۔وہ اس سے کہتی ہے۔دوست تیرا ماس کھا رہے ہیں ۔یہ راستہ چھوڑ دے لیکن وہ اس کی پرواہ نہیں کرتی ہے اور اخلاق و تمیز کو بالائے طاق رکھ کر کہتی ہے۔
’’ماس کو بھی نچوانے کا چسکا ہوجاتا ہے اماں…مرکے ہی چھوٹے گا اب…‘‘
(ثالث، عالمی خواتین نمبرص:۳۵۴)
غلط راستے سے ہٹنے کے لیے ماں سعیدہ بار بار تلقین کرتی رہی اوربیٹی مومنہ دلربا ہنسی ہنستی رہی نتیجہ پروفیسر اظہر سے بھی اسے دھوکہ ہی ملا اور وہ بھوکی شیرنی بن گئی۔ایک دن مکاری سے اس نے اپنے عاشق کے مخصوص اعضاء کوکاٹ دیا۔اس طرح اس افسانے کا نسوانی کردارمومنہ لجلجی نہیں بلکہ بہت بولڈہے جو روح کے زخموں کا بدلہ مرد ذات سے لینے میں کامیاب ہوجاتی ہے اور افسانہ تانیثیت کے احاطے میں آکر کھڑا ہوجاتا ہے۔
فریدہ انصاری کا ’’بے بی اماں‘‘ ایک سماجی افسانہ ہے جس میں جیٹھانی اور دیورانی کی کریہہ مگر سبق آموز کہانی بیانیہ اسلوب میں لکھی گئی ہے جس میں نہ کوئی استعارہ ہے اور نہ علامت اور نہ تجرید۔بس ایک خاندان کے اندر پیش آئے چند واقعات کو یکجا کرکے قاری کے سامنے پیش کردیا گیا ہے جس کے متن سے کئی سبق آموز باتیں قاری تک پہنچتی ہیں اور قاری یہ تاثر لیتا ہے کہ جب دینے والے ہاتھ لینے والے بن جاتے ہیں اس وقت طعنوں سے وجود گم ہوجاتا ہے۔نتیجے کے طور پر ماتحت لوگ سیاہ و سفید کے مالک بن جاتے ہیں اور اس کا حشر پاگل خانے میں موت کی صورت ہوتی ہے ۔ڈپٹی نذیراحمد کے افسانوں اور ناولوں کی طرح یہ اصلاحی افسانہ ہے جس میں ایک کردار صبا کی اُبھرتی ہے جو نفسیات کا ڈاکٹر ہونے کے باوجود اپنی ساس کی خوب خدمت کرتی ہے۔نتیجتاً ساس کی دیورانی سے ایسے ایسے طعنے سننے پڑتے ہیں۔
’’لو بڑی ڈاکٹر صاحبہ بنی گھومتی تھیں،کیا ہوا سارے سرٹیفیکٹ جھوٹے نکلے کہ کلینک نہیں جاتیں،گھر کی ہوکر رہ گئی ہیں محترمہ۔اس کاکیا راز ہے؟اے منشی !ذراپتہ تو کر آکہ سرٹیفیکٹ جعلی تو نہیں‘‘
’’ بے بی اماں‘‘( ثالث ،عالمی خوا تین نمبرص:۳۶۰)
اس افسانے میں ایک سعادت مند بیٹے کی تصویر بھی اُبھر کر سامنے آتی ہے جو شبِ زفاف میں اپنی بیوی سے کہتا ہے ۔ماں ہی اس کی متاع حیات ہے لیکن چچا کی طوطا چشمی سے وہ اپنی پاگل ماں،کمزور نحیف باپ اور نئی نویلی دلہن کو لے کر بنجر زمین پر اللہ سے امید لگا کر جابستا ہے۔کہنے کا لب لباب یہ ہے کہ فریدہ انصاری نے اصلاحی افسانے کی روایت کو اس افسانے میں آگے بڑھایا ہے جس میں منفی اور مثبت سوچ والے کردار اُبھر کر سامنے آئے تھے۔
’’رشتوں کی دیمک‘‘ سلمٰی جیلانی کا افسانہ ہے جو اس حقیقت سے پردہ اُٹھاتاہے کہ آج ہم جس عصر میں سانس لے رہے ہیں اس میں خواتین کے لیے رشتے دیمک بن گئے ہیں نیزرشتے کی پاکیزگی دم توڑرہی ہے ۔بچپن سے لے کر جوانی تک خواتین کی عصمت کا استحصال ہوتاہے، اس کی تفسیر بیان کرتا ہوا یہ افسانہ یہ تاثر دے رہا ہے کہ یہی ستائی ہوئی لڑکیاں جب اپنے ماضی کی طرف پلٹ کر دیکھتی ہیں تو جو کریہہ منظر ان کو دِکھائی دیتا ہے اس سے ان کو مرد ذات سے نفرت ہوتی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ زمانے کی ستائی ہوئی عورت جب بدلہ لینے پر آتی ہے تو وہ گنجہ ناگن بن جاتی ہے جوضرورت پڑنے پر اپنے بیٹے کو بھی ڈس لیتی ہے۔اس افسانے میں مردوں کی دغا بازی،بچوں کی اپنی ماں کی محبت میں کسی کی شراکت داری پر حسد کی نفسیات،انسانیت کے جذبے کی خوشبو کا احساس بھی قاری کو ہوتا ہے۔رشتے ناطے کی سطح پر ہونے والی بدعنوانی اور ان کے بطن سے پنپے مسائل کی توضیح کرتا یہ افسانہ اپنے سماج کو آئینہ دِ کھاتا ہے ۔ افسانے کا اسلوب سادہ بیانیہ ہے جس میں استعارے اور علامت کا کوئی سہارا نہیں لیا گیا ہے۔
’’بچپن کے زخم ہرے ہی رہے۔کاش میری ماں نے مجھے ایسی گلیوں میں کھیلنے کو نہ چھوڑا ہوتا…دکانوں پر اکیلے سودا لینے…سپارہ پڑھنے کو خالہ بی کے گھر گھنٹوں کے لیے نہ بھیجا ہوتا…کاش میری ماں تم …اتنی سیدھی نہ ہوتیں…کیوں تم نے میری حفاظت نہ کی…کیوں بیٹی پیدا کی تھی…کیوں اللہ نے مجھے …حسن دیا…غریب لڑکی کو تو بدصورت ہونا چاہیے…کوئی اس کی طرف بری نگاہ نہ ڈالے…میں نے بھی پھر…سارے مردوں سے خوب…بدلہ لیا…تم سے بھی تمہارا تو کوئی قصور بھی نہ تھا…نہ تمہارے بے وقوف باپ کا…تمہاری صورت میں مجھے اپنا چاچا نظر آیا…بالکل ویسی ہی بڑی بڑی آنکھیں…مجھے گھورتی ہوئی آنکھیں …جیسے مجھے بے لباس دیکھتی ہوں…‘‘
’’رشتوں کی دیمک‘‘(ثالث ،عالمی خوا تین نمبرص:۳۶۹ )
جہاں یہ متن خونی رشتے کی پول کھولتا ہے، وہیں اس سے سماج میں یہ پیغام جاتا ہے کہ عورت صرف عوت ہوتی ہے اور مرد صرف مرد ہوتا ہے جس کی تعاقب کرتی نگاہیں ہمیشہ ایک عورت کو بے لباس دیکھنا چاہتی ہیں ۔ہوس پرستانہ نگاہوں کے اس نار میں جلنے والی خواتین جب ناگن بنتی ہیں تو اس موڑ پر آجاتی ہیں۔
’’ہاں مجھے مردوں سے نفرت تھی۔پھر بھی میں نے ایک کے بعد ایک کتنے مردوں کو اپنے حسن کے جال میں پھنسایا … انہیں لوٹا،پھر تڑپنے کو چھوڑدیا۔‘‘
’’رشتوں کی دیمک‘‘( ثالث ،عالمی خوا تین نمبرص:۳۶۸)
سبین علی کا افسانہ’’ سیلمون فیش ‘‘روزانہ ڈائری کی تکنیک میں غریب الوطن خادمہ کی ایک ایسی کہانی ہے جس میں دیار غیر میں روزی یا ملازمت حاصل کرلینے کے بعدکیسی ذہنی اذیت سے اس کو گذرنے پڑتا ہے، کوبڑے سلجھے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔افسانے میں ناسٹلجیا کا Glow رہ رہ کر قاری کی نگاہوں کے سامنے آتا ہے جس کے سبب کرداروں کے ساتھ ساتھ قاری بھی افسردہ ہوجاتا ہے۔افسانے میں مادم ای ہیر کٹنگ سیلون کی مالکہ ہے جس کی دو خادمائیں جو ااور خود افسانے کا راوی ہے۔شروع شرع میں راوی کے ساتھ اس کے حسن سلوک کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ اس کے اندر انسانیت زندہ ہے لیکن جب خادمہ پر بڑھاپے کا سایہ لہراتا ہے تو مالکن کچھ اورکہتی ہے:
’’مادم کہتی ہیں اب مجھے اپنے وطن چلے جانا چاہئے ۔بڑھاپا آرہا ہے۔اتنے بڑے گھر کے کام سنبھالے نہیں جاتے ۔وہ کسی نئی خادمہ کا بندوبست کریں گی۔‘‘
’’ سیلمون فیش ‘‘(ثالث ،عالمی خوا تین نمبرص:۳۷۳)مادم کے اس رو یئے کے بعد راوی کو یہ احساس ہوتا ہے کہ گل خان ٹھیک ہی کہہ رہا تھا کہ اجنبی زمین پر انسان تنکوں سے بھی زیادہ ہلکا ہوتا ہے ۔ساری زندگی غیر کی مٹی میں کھپا دو لیکن وہاں کی مٹی جڑ گاڑنے نہیں دیتی ۔مہاجر بن کر ہی جینا پڑتا ہے۔صرف یہی نہیں بلکہ وقت رہتے اپنے دیار واپس نہیں ہونے سے اپنے آشیانے بھی پہچاننے سے انکاری ہوجاتے ہیں۔ جو لوگ بہتر مستقبل اور اپنوں کی خوش حال زندگی کے لیے معاشی ہجرت کرتے ہیں ان کی حیثیت سیلمون فیش جیسی ہوتی ہے جو سمندر سے دریا اور پھر دریا سے اپنے آبائی چشمے کی طرف وقت رہتے لوٹ جاتی ہے۔بالفرض ایسانہیں ہوتا ہے تب زندگی خلامیں بے ڈورکی پتنگ ہوجاتی ہے۔اس افسانے میں ایک اور کرب کا اظہار دردمندانہ انداز میں ہوتا ہے، وہ ہے اپنوں کی بے گانگی جس کی خوشیوں کے لیے وہ اپنی زندگی کو دیارِ غیر میں رہن رکھتا ہے، اس کے خلوص سے بھی وہ محروم رہ جاتا ہے۔ افسانے کا پیغام یہی ہے کہ دیار ِغیر میں جاکر کام کرنے والوں کے ساتھ سب سے بڑا المیہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے اور بے گانے دونوں کے دوطرفہ استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔ کنکریٹ کے مکان ،بینک بیلنس،قیمتی اشیاء کی چاہ میں جھیل ،درخت، آبی پرندے سب چھوٹ جاتے ہیں لیکن بہتر مستقبل پھر بھی نہیں ملتی ہے کیوںکہ جو بھی معاشی ہجرتیں ہوئی ہیں ان کا انجام یہ ہوتا ہے۔
’’ٹیسو پیپر کی مانند انسانوں کو استعمال کرو،جب تک ضرورت ہوان کی ذہنی و جسمانی توانائی استعمال کرو اور جب چاہو پھینک دو۔‘‘
’’سیلمون فیش ‘‘(ثالث ،عالمی خوا تین نمبرص:۳۷۴)
جدید رجحان نے جب اپنے پر پھیلائے تو اس نے روایت کے تمام بتوں کو توڑ دیا۔دوسرے فن پاروں کے ساتھ ساتھ اردو افسانہ بھی اس کی زد میں آیا اور اس کے اجزائے ترکیبی خلا میں بکھر گئے۔داخلی کشمکش کا اظہار کھل کر ہوا۔دماغی ورزش تیز ہوئی۔ کسی موضوع پر نئے نئے خیال سامنے آنے لگے۔شاہین کاظمی کا افسانہ ’’پیاز،پیار اور پیلا ربن‘‘ اس کا اتباع کرتا نظر آرہا ہے جس میں پیارو محبت کے موضوع کو ایک انوکھے طریقے سے پیش کرنے کی کوشش ہوئی ہے جس کا اختتام ایک لامتناہی سلسلے کی طرف لے جاتا ہے اور تذبذب باقی رہ جاتا ہے کہ آخرحیات نجدی ازشیراز،ایان نے پچھتر ہزار یوروزمیں اس پینٹنگ کو کیوں خریدا تھا جس میں کتھئی آ نکھوں والی اُداس لڑکی بالوں میں پیلا ربن لگائے ویران راستے پر نظر یں جمائے کھڑی تھی۔یہی تذبذب جدید اردو افسانے کی سب سے بڑی خوبی ہے ۔افسانے میں خیال کا اظہار خوب ہوا ہے۔ مثلاً(۱)محبت پیاز جیسی ہوتی ہے۔(۲)رشتوں اور دوسری محبتوں کے بندھن اتنے مضبوط ہوتے ہیں کہ انسان اپنی روح کے آگے سرنگوں ہونے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ (۳)عزیزی جنت اور جہنم ہمارے اندر بستے ہیں۔اصل سوال یہ ہے کہ کون سا دروازہ کھولنا ہے اور کون سا بند رکھنا ہے۔(۴)محبت اپنے ہونے کا جواز نہیں چاہتی۔ (۵)یقین رگوں میں بہتے لہو کی طرح ہوتا ہے۔اس یقین کو کبھی مرنے مت دینا (۶)جب الفاظ اور لہجے اندر پنپنے والے احساس کو بیان کرنے سے قاصر ہوں تو ناگفتنی، گفتنی سے زیادہ تاثیر رکھتی ہے۔(۷)سائے بھی کبھی اپنے ہوئے ہیں(۸)کہنے سننے کی وحشت سے جتنی جلد باہر نکل آئو اتنا بہتر ہوگا۔
اختتام پر افسانے کا’ میں ‘اپنی محبوبہ کے دامن میں بہت سخاوت سے انتظار کی اذیت کی سوغات دیتا ہے جس کو وہ خندہ پیشانی سے قبول کر لیتی ہے کیونکہ اس کو پہلے سے معلوم تھا کہ اس انتظار کا ماحصل لاحاصلی کے سوا کچھ نہیں ہے ۔
فارحہ ارشد کا ’’آدھی خودکشی ‘‘کا اسلوب بیانیہ ہے جس میں ایسے الفاظ استعمال ہو ئے ہیں جو بطور استعارہ قابل قدر ہیں۔یہ افسانہ ایک عورت کے استحصال کی درد بھری رودادہے ۔مرد اساس معاشرے کی سفّاکی،اس کی بے حسی،اس کی بے وفائی، معصومیت کے پردے میں چھپا اس کا خونخوار چہرہ، مرنے کے بعد بھی اس کے جسم کے استحصال کی منظر کشی ،قاری کو بہت دیر تک سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔
’’وہ نشے میں دھت میرے ساکت جسم کو ہی ساری رات بھنبھوڑتا رہا۔جب سارے نشے بہہ گئے تو گٹھری پھینک آیا۔ پولیس آئی تو کوئی وارث نہ بنا۔بہت سے بگلہ بھگت بہت سے رنگے سیار جو بھیڑ کے روپ میں بھیڑیے بنے مہذب ہونے کا ڈھونگ رچارہے تھے۔‘‘
’’آدھی خودکشی ‘‘(ثالث ،عالمی خوا تین نمبرص:۳۸۵)
ڈھونگ رچائی اس بھیڑ میں دختر حوّا، جس کا بدن ،کبھی آتش سیال تھا ،جس کی زیبائی صبح کی انگڑائی اور شام کا غرور تھی، بوسیدہ میلے کپڑے کی گٹھری بنا ہوا تھا جس کا کوئی وارث نہیں تھا۔اس کی ٹھہری ہوئی پتلیاں،ساکن زرد جلد،نیلے کچرے ہونٹ، مکھی بھرے چہرے والے نشیڑی ،مردہ بدن کی رنگت اور ملائمیت پر رالیں ٹپکارہے تھے۔یہ اسی دختر حوا کا مردہ جسم ہے جس کو چوکیدار کے بیٹے نے بھگا کر نکاح کیا اور پھر اس سے کچھ نہ ہوسکا تو ایک دن وہ اس کو مچھلیوں کے تاجر کے ہاتھوں بیچ دیا۔اس نے مچھلیوں کی باس سے اٹی نیم تاریک کھولی میں، اس پر ہر نسل کے کتے کو چھوڑا۔یہ کتے اس کے جسم کو بھنبھوڑے اور وہ تلچھٹ کی طرح اپنے وجود کے پیندے میں بیٹھتی چلی گئی۔موت کے بعد بھی اس کے بدن کے استحصال کا یہ کریہہ منظر دیکھئے:
’’میرے جسم کو عزت دینے کی تاکید کرتے ہوئے اس سفید کوٹ والے بوڑھے نے ارد گرد کھڑے لڑکے لڑکیوں کو دیکھانے کے لیے سفید کپڑا میرے جسم سے ہٹا دیا۔دو گھنٹے بوڑھا میرے اعضاء کو چھوکر سفید کوٹ والے لڑکے لڑکیوں کو کچھ بتا تارہا۔میرا جسم تھک چکا ہے موت کے بعد قبرسکون دیتی ہے مگر مجھے لگتا ہے ہم آدھی خودکشی کیے لوگ ہیں جنہیں زندگی کی اذیت کے ساتھ ہر لمحہ مرتے رہنا تھا اور مرنے کے بعد بھی نمبروں کی چیٹں پائوں سے باندھے اپنے باری کا انتظار اس سرد ہال میں پڑے کررہے ہیں۔ کب ہماری ہڈیوں کی گنتی شروع ہو…کب ہمارے پیٹ چاک کیے جائیں…پوری زندگی کا سکھ نہ پوری موت کا…ہم وہی ہیں جنہیں بدعا دی گئی کہ ہمیں قبر بھی نصیب نہ ہو…‘‘
’’آدھی خودکشی ‘‘(ثالث ،عالمی خوا تین نمبرص:۳۸۶)
یہ بدعا مرنے کے بعد بھی اس کا پیچھا کرتی رہی یہاں تک کہ سرد ہال میں میز نمبر۷ کا اسسٹنٹ لڑکا اس کے مردہ جسم کو گھور رہا ہے۔اس کی بھیگتی مسوں کے اوپر ناک کے نتھنے پھڑ پھڑارہے ہیں جو ننگے جسم کو چھونے کی خواہش میں بے چین ہے کہ اس نے ابھی تک لڑکی کے ممنوعہ اعضا کو چھوکر نہیں دیکھا ہے۔اپنے وارثوں کو چھوڑ کر کسی بھیڑ میں گم ہوجانے کی سزا اس لڑکی کو ملی۔اس کے علاوہ اس افسانے میں کئی ضمنی واقعے کو فنکارانہ طور پر پیش کیا گیا ہے جہاں غریبی اور غربت کی منظر کشی کی گئی ہے جو اس افسانے کے اصل تھیم سے جڑے ہوئے ہیں اور وحدت تاثر کو اُبھارنے میں معاون ہیں۔
ہمافلک کاافسانہ’’زرمینے ‘‘ سفاکیت کے محور پر گردش کرتا ہے۔افسانہ بڑی خاموشی سے کہتا ہے کہ قاتل کو اپنا خون بھی معاف نہیں کرتا ہے ۔کسی کی محبت کا گلا دبا کر عزت نفس کے نام پر دفاع کرناحیوانیت کے مترادف ہے۔افسانے میں مرد اساس معاشرے کی انانیت اپنی پھول جیسی بیٹی جو اپنے پسند کی شادی کرنا چاہتی ہے ،کا گلا بڑی بے دردی سے دبا کر جنگل میں پھینک دیتی ہے۔اس افسانے میں ہما فلک اس انانیت کو لفظوں میں یوں پرویا ہے۔
’’کچھ ٹھیک نہیں ہوگا۔یہ زخم کبھی نہیں بھرے گا۔تم یہ بات کیوں نہیں سمجھتی ہو بے غیرت عورت! مجھے بھی میری برادری میں سب کے سامنے بے غیرت بنا دیا ۔یہ کہہ کر وہ غصے سے پھنکارتا باہر چلا گیا۔‘‘
’’زرمینے ‘‘(ثالث ،عالمی خوا تین نمبرص:۳۸۷)
افسانے میں تین کردار ہیں۔تبریز خان،گل جاناں،اور دو بیٹیاں زرمینے اور پلوشے۔زرمینے سے ماں گل جاناں بہت محبت کرتی ہے۔سرخ و سفید چہرہ ،سبز آنکھیں اور سنہری گھنگریالے بال والی زرمینے کو اپنی ماں سے بہت پیار تھا وہ اپنی ماں کی کلائی کے کڑے سے کھیلاکرتی تھی۔ وہ اکثر کہا کرتی تھی کہ ان کڑوں کی قیمت تب تک ہے جب تک یہ کڑے میری ماں کی کلائیوں میں کھنکھناتے ہیںان کلائیوں سے اُتر جانے کے بعد اس کی کوئی قیمت نہیں ہوگی اور اس کی آنکھیں نم ہوجاتیں۔تب گل جاناں اس کی پیشانی چومتی اور ہاتھ سے کڑے نہ اُتارنے کا وعدہ کرتی لیکن ماں نے اس دن کڑے اُتار دیا جس دن اس کے باپ کے اندرکی سفاکیت نے عزت نفس کے نام پر سر اُبھارا اور اپنے ہی ہاتھوں سے بیٹی کو سرخ جوڑے اور جھمکے پہنا کر موت کا پیالہ یہ کہہ کر پینے کو دے دیتی ہے۔
’’بیٹا جرمنی ہویا دنیا کا کوئی بھی ملک اور کوئی بھی زمانہ برائی تو ہر وقت،ہر جگہ موجودرہتی ہے۔ہم اپنے طور پر اس سے بچنے کی تدبیر کرتے رہتے ہیں۔‘‘
(ثالث ،عالمی خوا تین نمبرص:۳۸۹)
اس تدبیر میں ماں کا خود ہاتھ بٹانا ممتا کی توہین لگتی ہے لیکن گل جاناں کر بھی کیا سکتی تھی۔تبریز خان کی خاندانی مریادا بھی اس کے پیش نظر تھی۔گویا بیٹی مقتل میں بھینٹ چڑھ جائے لیکن سہاگ کی عزت و ناموس پر دھبہ نہ لگے۔
افسانہ’’ ادھوری حقیقت‘‘ (گل ارباب)میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ جب حقیقت ادھوری رہ جاتی ہے تو انسان کو مسائل سے نبردآزما ہونا پڑتا ہے۔ افسانے میں جو حقیقت ادھوری رہ گئی وہ ایک ڈاکٹر کی لاپرواہی سے ہوئی ہے جو ایک لڑکے کی میڈیکل رپورٹ میں جنس کی غلط تصدیق سے ہوتی ہے جس کے باعث اس لڑکے کو لیڈیز کمپارٹ میں بھرتی ہونے کے لیے جانا پڑتا ہے جہاں چند نوجوان لڑکیاں بھی پہلے سے بھرتی ہیں۔یہ لڑکیاں مختلف موضوعات پر گفتگو کررہی ہیں ۔اپنی پسندیدگی کا اظہار کررہی ہیں۔اس کے متوازی ضمنی طور پر مذہبی امور پر بھی چند خیالات قاری کے ذہن میں پہنچانے کی کوشش ہوئی ہے اس کوشش کے دوران مذہبی شدّت پسندی اور دوسرے مذہب کے ماننے والوں کے درمیان معمولی اختلاف کی جھلک بھی د ِکھائی گئی ہے۔خیالوں کے اس تصادم کے دوران اصلاحی خیال بھی پیش ہوئے ہیں۔
’’دین کو ظاہری حلیے تک محدود نہ کرو دل اور حلیہ ایک جیسا نہ ہو تو اسے منافقت کہتے ہیں اور منافقت ننگے بدن سے بڑا گناہ ہوتا ہے۔‘‘
’’ادھوری حقیقت‘‘(ثالث،عالمی خوا تین نمبرص:۴۰۱)
افسانے میں کہیں کہیں کرداروں کے درمیان طنزیہ مکالمے کا تبادلہ بھی ہوا ہے لیکن اس میں شدّت پسندی کم ہے۔ساتھ ہی ساتھ اسپتال کے خواتین وارڈ کی گندگی اور ڈاکٹروں کی لاپرواہی سے پردہ ہٹایاگیا ہے۔ جائز اور ناجائز کی تمیز بھی بتائی گئی ہے۔ کہنے کا لب لباب یہ ہے کہ افسانہ سماجی زندگی کے محور پر گردش کررہا ہے جس میں سماجی مسائل کو قاری کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔اس طرح یہ افسانہ سماجی اصلاحی افسانے کے زمرے میں آتا ہے۔
’’تین…د…‘ ‘صائمہ نفیس کا خالص بیانیہ افسانہ ہے جس سے یہ تاثر اُبھرتا ہے کہ مرد اساس معاشرے کا جبر نسائی نفسیات پر بُرا اثر ڈالتا ہے۔اس جبر کے سبب افسانے کے مرکزی کردار پر خوف کا سایہ منڈلاتا رہتا ہے۔ افسانے میں ایک عورت کے ذہن میں پنپے خوف کی دو سطحوں کو اُجاگر کرنے کی کوشش ہوئی ہے ۔ایک مرد کا ظلم اور دوسرا اس کا اعتبار۔ان دو پہیوں کے درمیان افسانے کا مرکزی کردار ساری زندگیپستا رہتا ہے۔افسانہ یہ تاثر دینے میں کامیاب ہے کہ مرد کے ظلم کے خوف سے افسانے کا کلیدی کردار تیسری جنس کے ساتھ زندگی گذارنے کے لیے تیار ہوجاتی ہے۔
شہناز رحمن کا افسانہ’’ شب تاب ‘‘پر انگریزی فکشن کا اسلوب نمایاں ہے۔اس کے بیانیہ میں روانی اور مکالمے بڑے چست اور درست ہیں جن سے فلسفہ اور فکر کی روشنی پھوٹتی ہے۔افسانے کے دو مرکزی کردار رامین اور خودراوی ہے،جن کے مکالموں سے افسانہ آگے بڑھتا ہے۔ان مکالموں میں بلا کی گہرائی اور فلسفیانہ پہلوپوشیدہ ہیں جو قاری کے دل و دماغ کو روشنی دیتے ہیں۔رامین زندگی کے فلسفہ اور موت کے اسرار و رمواز پر بڑی گہری گفتگو کرنے والی ایسی کردارہے جو ہسپتال میں آنکھ کی لیڈی ڈاکٹر ہے۔راوی بھی اسی اسپتال میں نوکری کرتا ہے۔ شفٹنگ الگ الگ ہونے کے باوجو ان دونوں کی ملاقات اکثر ہوجایا کرتی ہے۔ فرصت کے ان لمحوں میں راوی گفتگو کے دوران اصل موضوع سے ہٹ کر خالص نجی زندگی کے موضوع پر باتیں کرنا چاہتا ہے لیکن رامین کی منتشر مزاجی اور پریشان طبیعت اسے ایسا کرنے سے روکتی ہے۔اس پریشانی کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ مریض کی روحانی اذیتیں اپنے اندر جذب کرلیتی ہے۔ آنکھوں کی تھکن ،زندگی کے بوجھ سے اُکتا کر موت کی خواہش مند آنکھوں کی تڑپ، زندگی کی لذتوں سے محروم آنکھوں کی حسرتیں اور انسانی آنکھوں کی اندرونی اذیتیں رامین کو اندر سے بے چین رکھتی ہیں۔
’’ویران و منتشر ہوتے گھر کو وہ حال کی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے،اسی لیے اسے یہ بیماری لاحق ہوئی ہے۔اسے موتیابین کے مریض کی آنکھوں میں فسادات کی دہشت کا نقش نظر آتا ہے۔بتا رہی تھی کہ احباب کی سلگتی لاشوں سے اُٹھنے والا دھواں مریض کی آنکھوں میں اس قدر بھر گیا ہے کہ اُسے دھند لانظر آنے لگا ہے۔eye strokeوالی آنکھوں میں اسے ہوس نظر آتی ہے۔‘‘
(شب تاب ،آجکل،مئی ۲۰۲۱ء)
افسانے کے راوی کو یہ احساس ہے کہ رامین اب بینائی سے محروم آنکھوں سے اس کے دکھوں کو پڑھ کر داونچی ہونے کا ثبوت دینا چاہتی ہے کہ اسے بھی سامنے کا منظرتھری ڈائیمنشنل کی بجاے دوسطحی نظر آتا ہے جس کی وجہ سے وہ لازوال تصویریں پینٹ کی تھی۔ راوی رامین کی نظر التفات سے نظر انداز ہوا ہے پھر بھی اس کو یہ خوش گمانی ہے کہ:
’’وہ مجھ سے لاکھ چھپائے لیکن اس کی آنکھوں نے سارے راز عیاں کرد یئے ہیں۔اب اس کے سارے دکھ میرے ہیں۔‘‘
(شب تاب ،آجکل،مئی ۲۰۲۱ء)
رامین کے پس قدرت کا یہ عطیہ بھی ہے کہ وہ ظاہری تکلیفوں کے ساتھ روحانی اذیتوں کا بھی تشخیص کرلیتا ہے۔راوی کی نگاہ میں رامین کی قدروقیمت قلو پطرہ جیسی ہے جو اتنی خوبصورت نہیں تھی جس قدر شیکسپیئر کی تحریروں نے اسے بنادیا تھا۔پروگرام سے رامین جب چلی جاتی ہے تب افسانے کا راوی یہ سوچ کر کف افسوس ملتا ہے۔
’’ہر طرح کی تحریر پڑھ لینے والی ان آنکھوں نے میرے چہرے ،میری آنکھوں اور میرے سراپا پہ لکھی ہوئی تحریر کیوں نہ پڑھی۔ہماری زندگی میں غمگینی کے لمحات طشتریوں میں پیش کیے جاتے ہیں اور خوشی کے دو لمحوں کے لیے جگر کو خون کرنا پڑتا ہے۔‘‘
(شب تاب ،آجکل،مئی ۲۰۲۱ء)
رامین زندگی کے فلسفہ اور موت کے اسرار و رموز پر بڑی گہری گفتگو کرنے والی ایسی کردار ہے جو ہسپتال سے نکل کر گھر جاتی ہے۔ چائے پی کر گھنٹوں لیپ ٹاپ پر مریضوں کی آنکھیں غور سے دیکھتی رہتی ہے۔وہ اس کو اپنے پیشے اور مصروفیت کا جزو سمجھتی ہے۔وہ ایسی آئی اسپسلسٹ ہے جو اپنے پیشے کو عبادت کا درجہ دیتی ہے۔قدرتنے اس کی آنکھوں کو بھی بڑی خوبصورت بنایا ہے۔ایک دن وہ راوی کے ساتھ ہری ہری گھاس پر ٹہلتے ہوئے سوچتی ہے۔
’’آنکھوں کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ جو چیز یں قابل توجہ ہوتی ہیں انہیں وہ دیکھ ہی نہیں پاتیں،ساری زندگی وہ ایک اسرار اور ایک راز کی طرح رہ جاتی ہیں اور جن چیزوں کو دیکھنا اتنا ضروری نہیں ہوتا وہ پتلیوں سے چپک کر رہ جاتی ہیں۔‘‘
(شب تاب ،آجکل،مئی ۲۰۲۱)
افسانے میں ضمنی طور پر انگریزوں کے زمانے کی تعمیر کردہ مغربی طرز کی تاریخی عمارت کا تذکراور داونچی کی آنکھ کی بیماری ایکزوٹوپیا جس میں مریض کو تھری ڈائی مینشنل کی جگہ سامنے کا منظر دو سطحی نظر آتا ہے، کا ذکر بھی بڑے دلچسپ انداز میں بیان ہوا ہے۔افسانے میں اس کا بھی ذکر ہے کہ رامین کا مضمون ’’Artificial Inteligence کے دور میں گلوکوما کے علاج‘‘ پر اسے کافی مبارکبادیاں ملی تھیں لیکن وہ اس سے مغرور نہیں ہوتی ہے ۔ پروگرام کے دوران اصرار کے باوجود مہمانوں کی صف میں نہیں بیٹھی بلکہ مسکراتی ہوئی پچھلی صف کی آخری کرسی پر جاکر بیٹھ گئی ۔یہ رامین کی انکساری نہیں بلکہ یہ اس کے اندر کی آگہی ہے کہ انسان جس دن عرفان کی منزل تک پہنچ جائے گا اس دن اس کو اپنی بلندی پر غرور نہیں ہوگا۔اس طرح افسانہ نگار افسانے کی فضا میں فلسفہ کی خوشبو بکھیرنے کی کوشش کی ہے۔افسانے میں رامین سے مل کر راوی کے اندر جو بیماری پیدا ہوئی تھی اس کا علاج اس کتاب میں نہیں تھا جس کا اجرأ اس پروگرام میں ہونے والا تھاجس کے لیے صاحب کتاب نے بطور خاص رامین کو مدعو کیا تھا۔افسانے کی چند خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بھی ہے کہ بظاہر کتا ب پرگفتگو ہورہی ہے لیکن عشق و محبت کی باتیںان مکالموں کی تہہ میں کرنٹ کی طرح بہہ رہی ہیں جس کو رامین اور راوی دونوں سمجھ رہے ہیں لیکن سمجھ کر بھی ناسمجھ بن رہے ہیں۔
’’واقعی آنکھوں کی بیماریوں سے متعلق کیسی کیسی اہم معلومات ہیں اس کتاب میں‘‘
’’آنکھیں انسان کے لیے کتنی عظیم نعمت ہیں لیکن یہ کیسی بدقسمتی ہے کہ وہ اپنے اندر جمع کئے ہوئے خوابوں کو خود نہیں دیکھ سکتیں۔انہیں ان خوابوں کے بھیانک پن اور حسرت کا بھی اندازہ نہیں ہوتا۔‘‘میرے کسی رد عمل کا انتظار کئے بغیر اس نے دوسرا جملہ کہا:’’میں نے ایک مریض کی آنکھوں کا معائنہ کیا تھا۔تشنہ خوابوں نے اس کی بینائی غارت کردی تھی‘‘۔’’کیا تم نے کبھی ان خوابوں کی اذیت محسوس کی ہے جو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوتے؟‘‘میرے جواب کا انتظار اس نے اس بار بھی نہیں کیا اور بولتی گئی۔’’خواب اگر ادھورے رہ جائیں تو ادھورے پن کی بازگشت ساری زندگی انسان کا پیچھا کرتی ہے۔‘‘’’خوابوں کے بوجھ تلے کراہتی اور سسکتی آنکھوں والے مریض اب کچھ زیادہ ہی آنے لگے ہیں‘‘
(شب تاب ،آجکل،مئی ۲۰۲۱ء)
المختصر ادب کی سیاہ لکیروں میں دل کی باتیں یا اس کی رعنائیاں سمٹتی ہیں۔لفظوں کی اس جادو گری سے جب شجر ادب کی شاخوں پرفکر یادل کے جذبے شگوفے بن کر کھلتے ہیں توخوشبو سے چمنستان ادب ہی معطر نہیں ہوتا ہے بلکہ قاری کی اندرونی دنیا بھی مہک اُٹھتی ہے۔ایسا ہی کچھ شہناز رحمن کا افسانہ ’’شب تاب ‘‘کے مطالعہ کے دوران محسوس ہوتا ہے۔
’’اعتراف‘‘(قراۃ العین حیدر راٹھور)ایک سماجی افسانہ ہے جس میں ازدواجی زندگی کی تلخیوں کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔سجاد اور سعدیہ افسانے کے مرکزی کردارہیں اور بیٹا ضمنی کردار کے طور پر افسانے کے کینوس پر اُبھرتا ہے۔سعدیہ سجاد کی خالہ زاد بہن ہے جس سے ان کا ارینج میرج ہوا ہے۔سجاد یونیورسٹی کے زمانے میں حنا سے محبت کرتاہے جو شادی تک پہنچنے میں ناکامیاب رہتی ہے لیکن یادیں اور باتیں ہر لمحہ اس کا پیچھا کرتی رہتی ہیں۔اس کی بھنک سعدیہ کو ہے نتیجے میں بچے پیدا کرنے کے علاوہ سعدیہ نے بیوی ہونے کا حق ادا نہیں کیا جس کی شکایت سجاد کو تاعمر رہی ۔بدلے میں سعدیہ اس کو یہ جواب دیتی ہے ۔
’’آپ کو تو چڑ ہے میری سوشل ایکٹیویٹیز سے شادی ہوگئی اس کا یہ مطلب تھوڑی ہے کہ گھر میں بند ہو جاؤ۔ سوسائٹی میں Move بھی تو کرنا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ میں گھر میں بیٹھ کے کروں کیا؟تم بھی تو ریٹائر منٹ کے بعد ہی گھر بیٹھے ہو۔جوانی میں کہاں تمہارے پاس میرے لیے وقت تھا۔ چھٹیاں آتیں تو خود ہی گھومنے پھرنے نکل جاتے تھے۔سارا الزام مجھ پہ نہ لگائو جب میں تمہیں پہلے دن سے پسند نہیں تھی تو اپنی پسندکی شادی کرلینی تھی۔پوری زندگی تمہیں مجھ سے شکوے رہے ہیں اب جب چل چلاؤ کا وقت ہے تمہیں اب بھی تنقید ہی سوجھ رہی ہے۔‘‘
’’ اعتراف‘‘(ثالث ،عالمی خوا تین نمبرص:۴۰۷)
یہ اقتباس واضح اشارہ کرتا ہے کہ سعدیہ کے دل میں جو خلش ہے وہ سجاد کی بے رخی ،سرد مہری،بے اعتنائی کی وجہ سے ہے۔سجاد کو اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں کامیابی کے نشان نصب کرنے والے کی زندگی کے آنگن میں ان کی خوشگوار زندگی کا پرچم سرنگوں ہے جوچوالیس برسوں کے بعد بھی اپنے مستول پر نہیں پہنچا۔افسانے میں سجاد اور سعدیہ کے درمیان نوک جھونک کی دلخراش آواز بھی قاری کے کانوں تک آتی ہے جس کے دوران سجاد کے کانوں میں حنا کی آواز مدھر رس گھول جاتی ہے۔ادھر سجاد اپنی بدمزہ زندگی سے عاجز ہے۔حنا کے ساتھ چند گھنٹے کی رفاقت پوری زندگی پر غالب رہی جو سجاد کی ازدواجی زندگی کے لیے گھونٹ گھونٹ زہر بن گئی ۔زندگی کے جام میں زہرپیش کرنے کے ذمہ دار سجاد کے والدین تھے جنہوں نے حنا کو بہو بنانے کی بجائے برگیڈیئر بھائی (سعدیہ کے)کی نک چڑھی بیٹیوں میں سے ایک کو سجاد کی دلہن بنائی اور سجاد خاندانی مان مریادا اور سماجی مرتبے کے پیش نظر روایت سے بغاوت کرنے کا حوصلہ نہیں جٹا پایاجس کے عوض ہجر کی تنہائیاں مقدر بنیں اور ساری عمر دوطرفہ کرب سے نبرد آزما رہا۔اس اقتباس کی تہہ میں اس خیال کا بہائوہے کہ والدین کو بیٹے اور بیٹیوں کی زندگی کے سفر پر روانہ ہونے سے پہلے ان کی ذاتی رائے کو اور جائز خیال کو فوقیت دینے کی کوشش کرنا چاہئے ورنہ ان کی حیثیت ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر کھڑے دو مسافروں جیسی ہوجائے گی جو اپنی اپنی ریل گاڑی کے آنے کا انتظار کررہے ہوں۔افسانے میں حنا کا حشر روایتی افسانوں جیسا ہے جوشبِ ہجرمیں اس تیقن پر ساری زندگی اختر شماری کرتی رہی :
’’سجاد عورت اپنے محبوب کبھی نہیں بدلتی یہ میری قوت ارادی ہے کہ میں نے کسی کو قبول نہیں کیا۔تم میری زندگی کا سب سے بڑا سچ ہومیں تمہیں اپنی محبت کی حرارت سے زندہ رکھوں گی۔‘‘
’’اعتراف‘‘ (ثالث ،عالمی خوا تین نمبرص:۴۱۵)
عورت کے اسی روپ کو ہرجائی کہتے ہیں ۔بات صحیح ہے کہ حناکی ہتھیلیوں پر سجاد کے نام کی مہندی کی سرخی نہ چڑھ سکی لیکن اس کے اخلاق کا تقاضہ تھا کہ کم سے کم سعدیہ کی ازدواجی زندگی کا خیال کرتی ۔اس کی ایک غیر ذمہ داری سے تین تین زندگیاں محبت کے سائڈ ایفکٹ کا شکار ہو گئیں۔افسانے کے اختتام پر بیٹا ذیشان اپنے والدین کے مسائل کو سننے کے بعد ماں کو پریشان کرتا ہے لیکن ماں کو راہ راست پر لانے کے کیا فائدے کیوںکہ وقت گذرجانے کے بعد خواہش کتنی ہی شدید کیوں نہ ہو،کشش باقی نہیں رہتی ہے۔
صوفیہ شیریں کاافسانہ’’ کہیں پھر تو نہیں ‘‘راست بیانیہ اسلوب میں لکھا گیا ہے جس میں معاصر موضوع کو ترجیح دی گئی ہے۔بظاہرافسانہ راست بیانیہ اسلوب میں لکھا گیاہے لیکن اس کے باطن میں گہری معنویت ہے جو اپنے عصرکی شدّت پسندی اورنئی نسل کے بدلتے رجحان کی تشہیرکرتی ہے۔اس افسانے میں ایک ماں اپنے بیٹے سے پوچھتی ہے کہ اس نے اپنے مستقبل کے بارے میں کیا فیصلہ کیا ہے۔؟ بیٹااس وقت ٹی-وی پر نیوز سن رہا ہوتا ہے۔ ٹی وی کی خبریں سن کربیٹے کو اپنے ملک کی بدلتی فرقہ وارانہ صورت حال اورکشیدگی میں تابناک مستقبل دھندلا نظر آرہا ہے۔لہذا وہ اپنی ماں سے کہتا ہے کہ وہ غیر ملک میں جاکر تعلیم حاصل کرے گااور تعلیم حاصل کرنے کے بعد اسی ملک کا شہری بن جائے گا۔ بیٹے کے اس فیصلے سے ماں متعجب ہوکر سوال کرتی ہے۔
’’آخرکیوں …..؟ایسا کیا ہوگیا میرے بچے کہ تم نے اس ملک سے رشتہ ہی توڑ لینے کا فیصلہ کرلیا۔یاد رکھومنزل تک پہنچنے کے لیے صحیح راستے کا انتخاب ضروری ہے۔ایک غلط فیصلہ پوری زندگی کا رخ بدل دیتا ہے ‘‘
’’کہیں پھر تونہیں‘‘(آج کل،مارچ ۲۰۲۱ء)
مذکورہ اقتباس میں ماں کی ممتا کی جھلک ہے جس کو کشیدکرنے سے جوقیمتی بات سامنے آتی ہے وہ یہ کہ غلط فیصلے زندگی کے بادباں کو بے ہواکرد یتے ہیں۔افسانے کے متن میں ملک کا کرب ہے جہاں فرقہ واریت کے ساتھ ساتھ اخلاقی بحران شباب پر ہے جہاں پانچ سال کی بچی کی آبروریزی اور قتل کیاجاتاہے،ڈائن کے شبہ میں بزرگ خاتون کو زدوکوب کیاجاتا ہے،اقلیتی طبقہ کے نوجوان کی پیڑ سے باندھ کر پٹائی کی جاتی ہے، جبراًجئے شری رام کہلوانے کی کوشش،ہجومی تشدّد اور ایک شخص کو گوشت کھانے کے شبہ میں پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا جاتا ہے۔ماب لنچنگ کے ایسے خوفناک ماحول میں ماں کی رگوں میں خون کا منجمدہونااور بیٹے کی آنکھوں میں خون کا اُتر نا غیرفطری اور حیرت انگیز بات نہیں لگتی ہے جس کے سبب ماں یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ :
’’موسم کے سردہواؤں سے تو میں نے تمہیں بچا لیا پر زمانے کی ان گرم ہواؤں سے کیسے بچاؤں؟‘‘
’’کہیں پھر تونہیں‘‘(آج کل،مارچ ۲۰۲۱ء)
یہ متن افسانے کاپنچ لائن ہے جومذکورہ افسانے کے پہلے متن کی تردید کرتا ہے۔ افسانہ اقلیتی طبقے کے اندر پنپی ناامیدی،خوف،بے بسی اور تاریک ہوتے مستقبل کے اُلجھن نیز ملک میں بڑھتے تشدّد کے پیش نظر،نئی نسل کی طرف سے اپنی مٹی کو چھوڑ کر دوسرے ملک میں تعلیم حاصل کرنے اور وہیں پر مقیم ہوجانے کے فیصلے کے رجحان سے قاری کو آگاہ کرتا ہے۔ افسانے میں جہاں خوف کے ماحول میں نئی نسل کے چہرے پر غم اور غصہ دونوں کے ملے جلے تاثرات رقص کناں ہیں وہیںان کے اندر تذبذب، شدید ذہنی کشمکش بھی ہے۔ اپنے مستقبل سے متعلق ایک انجانا ساخوف اس نسل کے اندر جڑیں پھیلارہا ہے کہ اب اس ملک میں تمہارے لیے سرکاری نوکری،معقول آمدنی، رہائشی کوارٹر اور ساتھ ہی ساتھ معاشرے میں عزت و وقارحاصل کرنا دیوانے کے خواب کے متراد ف ہے، تب ہی تو جب ماں اپنے بیٹے سے سرکاری نوکری کے بارے میں سوچنے کا مشورہ دیتی ہے تو وہ حیرت سے کہتا ہے۔
’’سرکاری نوکری؟اس کے ماتھے پر کئی سلوٹیں اُبھریں جیسے وہ یقین اور وہم کے درمیان کھڑا ہو۔‘‘
’’کہیں پھر تونہیں‘‘(آج کل،مارچ ا۲۰۲)
نئی نسل کا یقین اور وہم کے زیروپوئنٹ پر کھڑا ہونا یقینا تشویشناک بات ہے۔ان کاشکوک کے پادان پر کھڑا ہوناملک اور قوم دونوں کے لیے نیک شگون نہیں ہے کیوںکہ وطن کے مستقبل کا دارومداراسی نسل پر ہوتاہے۔افسانے میں بیٹے کے فیصلے سے ماںکے دل پر جوسنگ گرتا ہے اس کا کرب اس کو ماضی کی طرف لے جاتا ہے جہاں وہ بیٹے کوگرم تیل کی مالش کی ہے ،گود میں لے کر رات رات بھر اونگھتی رہی ہے کہ بسترپر جاتے ہی اس کی نیند نہ ٹوٹ جائے۔درودشریف پڑھ پڑھ کر اس پر دم کی ہے کہ زمانے کے سرد وگرم ہواؤں کے اثرات سے وہ محفوظ رہے ۔ظاہر ہے ایسے میں ممتابیٹے کے اس یکطرفہ فیصلے پر یہ سوال پوچھنے پر حق بجانب ہے :
’’تم ہمیںیہاں تنہا چھوڑ کر دوردیش میں اپنی دنیا بسا لوگے اور یہ فیصلہ تم نے صرف سترہ سال میں ہی کرلیا۔‘‘
’’کہیں پھر تونہیں‘‘(آج کل،مارچ ۲۰۲۱ء)
اگر غور سے دیکھا جائے تو سترہ برس کی عمرقانون کی نظر میں نابالغ کی عمر ہے لیکن بدلے ماحول میں اگر ایک نابالغ بچہ بالغ نظری کامظاہرہ کرے تو قاری کو مایوس کن صورت حال کا احساس ہوناناگزیرہوجاتا ہے ۔گھر کی بدتر مالی حالت میں بیٹے کی بہتر مستقبل کی فکر رخشندہ روحی مہدی کاافسانہ’’ وہ بڑا آدمی‘‘میں بھی ہے اور یہاں بھی لڑکا کینڈا میں جاکر بس جاتا ہے لیکن ۱۷برس گذرجانے کے بعد وہ اپنے وطن کی مٹی پر اس وقت پہنچتا ہے جب اس کی ماں مٹی میں دفنا دی گئی ہوتی ہے۔سلمٰی صنم کا افسانہ’’ پت جھڑ کے لوگ‘‘میں بھی اس کرب کا اظہارہوا ہے جہاں اولاد بڑھاپے میں ماں باپ کو چھوڑدیتے ہیں، کا کرب اُبھر کر سامنے آیا ہے۔بیٹے ،پوتے اور بہوسب کے سب حقارت بھری نگاہ سے دیکھتے ہوئے، آنکھوں سے دور ہوگئے۔ مذکورہ افسانوں کے تراشیدہ بیٹے کے کرداروں سے اگر اس افسانے کے بیٹے کے کردار کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو اس نقطے پرآسانی سے پہنچا جاسکتا ہے کہ صوفیہ شیریں نے اپنے اس افسانے میں بیٹے کا جو کردار تراشا ہے ،اس کے اندر والدین کے مرتبے کا خیال جاگزیں ہے ۔وہ اپنی ماں سے وعدہ کرتا ہے کہ غریب الوطن میں P.Rملنے کے بعدوہ اپنے والدین کو وہاں بلا لے گا۔گویا صوفیہ شیریں یہ کہنا چاہتی ہیں کہ ا بھی بھی اولاد کا ایک ایساطبقہ ہے جو والدین کی قدر وقیمت اور مرتبے کا انکاری نہیں ہے۔ہر افسانہ نگار اپنے فن پارے سے قاری تک کچھ نجی خیال کو پہنچانا چاہتاہے۔صوفیہ شیریں بھی نئی نسل کے دل ودماغ میں ایک بات منتقل کرنا چاہتی ہیں۔
’’ایسا کیا ہے غیر ملک میں جو اپنے ملک میں نہیں ؟تمہاری جنریشن کا یہ تو مسئلہ ہے کہ تم لوگ ٹی وی اور فلموں میں مغربی ممالک کی چکاچوند اور دلفریب دنیا دیکھ کر ہی فیصلہ کرلیتے ہو۔پر یادرکھو،دور کا ڈھول سہانا ہوتا ہے۔‘‘
’’ کہیں پھر تونہیں‘‘(آج کل،مارچ ۲۰۲۱ء)
اس درس کو سننے کے بعد بیٹے کے چہرے پر اُلجھن کی لکیر گہری ہوجاتی ہے۔ اس کے Body Gap languageسے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ جو کچھ کرنا چاہتا ہے وہ اس کی فطری سوچ نہیں ہے بلکہ ایک انجانی قوت اس کو اس کی طرف ڈھکیلنے کی کوشش کررہی ہے اس لیے وہ ماں کے مشورے سے متفق نہیں ہے۔ مذکورہ متن سے جہاں کومل ذہن پر ٹی وی اور فلموں کے بد اثرات اور مغربی ممالک کی چکاچونددنیا کی دلفریبی کااشارہ ملتا ہے وہیںمادر وطن کی مٹی سے محبت کی خوشبو بھی آتی ہے۔
بہر حال افسانے کو سادہ زبان،چست اور درست مکالمے دلچسپ بناتے ہیںجس میں افسانے کی شعریات سے انحراف دِکھائی نہیں دیتا ہے ۔ افسانہ فرقہ واریت کے بطن سے پنپے متعددمسائل کی نشان دہی کررہا ہے جس کی لپیٹ میں نئی نسل آگئی ہے جس کے پیش نظر ان کے سامنے ہجرت ایک بارپھر زیر غور ہے لیکن صوفیہ شریں کے افسانے کا یہ متن اس ہجر ت کو بڑھاوا دینے کی بجائے نئی نسل کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتاہے جس سے اپنی مٹی سے محبت کی خوشبو آتی ہے۔
’’ہم تو جہاں بھی جائیں گے یہ مٹی ہمارے جڑوں سے لپٹی رہے گی۔ہم چاہ کر بھی اس مٹی سے الگ نہیں ہوسکتے ۔کئی دہائیوں پہلے بھی کچھ لوگوں نے ایسی کوشش کی تھی۔نتیجہ تاریخ کی کتابوں سے کہیں زیادہ روندے ہوئے جسموں اور زخم خوردہ ـذہنوں پر درج ہیں اور پھر ہم کیوں جائیں گے؟ ہمارے آبا و اجداد نے فیصلے کی گھڑی میں اسی مٹی کو چنا۔اسی مٹی کی حفاظت میں اپنی جانیں قربان کیں۔‘‘
’’ کہیں پھر تونہیں‘‘(آج کل،مارچ ۲۰۲۱ء)
یقینا آپ کو اس اقتباس میں اپنے اجداد کی مٹی کی بھینی بھینی خوشبو کا احساس ہوا ہوگا۔صوفیہ شیریں اپنے اس افسانے سے اسی خوشبو کو چارسوپھیلانا چاہتی ہیںتاکہ وطن کی شاخوں پر ہریالی قائم ودائم رہے۔
زیر نظر مضمون میں ایشیاء،یوروپ اور آسٹریلیامیں مقیم منتخب خواتین افسانہ نگاروں کے افسانوں کے تجزیاتی مطالعے کے بعد اس نتیجے پر پہنچنے میں کامیابی ملی ہے کہ ان معاصرخواتین افسانہ نگاروں کے افسانوں میں عصری مسائل کا تخلیقی اظہارہواہے۔ یہ مسائل سماجی اورخانگی زندگی کے دائرے میں رقص کناں ہیں۔اخلاقی زوال،زندگی کی تمازت میں اپنوں کی بے گانگی ،تہذیبی زوال کی دستک ،بے گانے میں اپنے ہونے کی تپش کا احساس ،رشتوں کے زوال کا المیہ،قسطوں میںبٹی زندگی کا کرب،جنس،سماجی زندگی میں غلط فیصلے کے بد اثرات،مابعدکروناکے بطن سے پنپے مسائل نے ابن آدم کوجو کرب دیئے اس کا اظہاراور ازدواجی زندگی کے کریہہ لمحوں کے اُتارچڑھائو وغیرہ موضوعات کی موجودگی سے معاصر خواتین افسانہ نگاروں کی فکری جہت کا ادراک ہوتا ہے۔ان افسانوں کو پڑھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ معاصر خواتین افسانہ نگاروں کے یہاں اعتدال پسندی ہے۔جذبات کے اظہار میں برہنگی نہیں ہے۔روایت کے بتوں کو توڑنے کا عزم نہیں ہے بلکہ سلیقے کے ساتھ روایتی ڈگر پر گامزن سفر رہنااور اپنے مسائل کو مہذب انداز میں قاری کی عدالت میں پیش کرنا ان کا شیوہ ہے۔یہ خواتین افسانہ نگاراس شعر کے مصداق افسانے کاعلم کاندھے پراُٹھا ئے ادب کی پگڈنڈی پر آگے بڑھ رہی ہیں:
ہم آئینے ہیں دِ کھاتے ہیں داغ چہروں کے
جسے خراب لگے سامنے سے ہٹ جائے
٭٭٭
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page