ڈاکٹر عظیم اللہ ہاشمی
ہولڈنگ نمبر1-A،بی ایل نمبر 23،کیلا بگان ،
جگتدل ،نارتھ 24 پرگنہ(مغربی بنگال)،پن کوڈ: ۷۴۳۱۲۵
mob:9339327323 ای میل:mail.com ahashmi3012@g
احساس کے نکتہ راس کو جذبہ کہاجاتاہے ۔اس کے زیرسایہ افسانہ نگار اپنے حواس سے کسی موضوع کا ادراک کرتاہے۔درک کا یہ نکتہ اپنے چاروں طرف ماجراسازی کے تانے بانے بنتاہے ۔اس ماجراسازی کومتحرک بنانے کے لیے چندکرداروں کی ضرورت پیش آتی ہے ۔یہ کردار اپنے مثبت یا منفی سوچ سے کینوس پر اُبھرتے اور ڈوبتے ہیں۔اپنے نفسیاتی اُلجھنوں اور دیگرمسائل کو پیش کرتے ہیں۔ ایک نباض افسانہ نگار ان کرداروں کی حرکات وسکنات کو اس طرح پیش کرتاہے کہ وہ زندہ جاوید ہوجاتے ہیں ورنہ بے دم ہوکر حاشئے پرچلے جاتے ہیں ۔اس طرح افسانے کی تشکیلی عناصر میں کردار وں کا کردار اہم ہوتاہے، باقی تو قاری کے دل لبھاون اور ان کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے ہوتی ہے جو اس کوآگے بڑھنے میں مددکرتی ہے یاپھرنکتہ نظر کے Impressionکو بڑھانے کے لیے اس کا استعمال ہوتاہے۔
اگر کوئی فن پارہ زندگی کے ساز کو چھیڑتے ہوئے، پڑھنے والے کے تارِ نفس کو بیدار کرے، جس سے بصیرت اور بصارت کے در واہوں اور تازہ ہوا کے جھونکے ،داخل کے ذرّے ذرّے کو آسودہ حال کرے تو ایسے فن پارے حاشیائی فن پارے کے دائرے میں جانے سے محفوظ رہ جاتے ہیں۔اس حقیقت سے سب واقف ہیں کہ تازہ ہوا کے جھونکے سے داخل کی حبس اور گھٹن دونوں ختم ہوتی ہیں۔رواں عصر میں اردو افسانہ نثری ادب کا مقبول صنف ہے۔اس نے کم وبیش ایک صدی سے زائد کاسفر مکمل کرلیا ہے اور ہر طرح کے نشیب وفراز کو اپنے دامن میں سمیٹتے ہوئے اکیسویں صدی کے کم وبیش ایک چوتھائی حصے کو عبورکرلیاہے۔ ہم اس عصر میں سانس لیتے ہیں جہاں بقول قمرصدیقی
ہمارے خواب کوئی اور دیکھ لیتاہے
ہماری آنکھ،خلاء،انتظارسنّاٹا
مذکورہ شعرکے پس منظر میں اگر ہم اکیسویں صدی کی پہلی دودہائی کے افسانوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ انکشاف ہوتاہے کہ دوسرے بڑے افسانہ نگاروں کے ساتھ غضنفر صاحب کا شمار معاصرافسانہ نگاروں کی پہلی صف میں ہوتاہے۔سرسوتی اسنان، کڑواتیل،حیرت فروش،پارکنگ ایریا ان کے شاہکار افسانے ہیں۔موصوف افسانے کے بہترین پارکھ بھی ہیں۔ یہ جگ ظاہر ہے کہ کسی بھی فن پارے کی اپنی ایک مخصوص نفسیائی ماہیت ہوتی ہے جو ایک احساس کے زیر اثر وجود میں آتی ہے۔ اس میں خالقِ فن پارہ کے محسوسات وجذبات کاخمیر شامل رہتاہے۔ اس عمل کے دوران ایک قلم کار اپنے معاشرے یا سماجی سطح پر وقوع پزیر واقعے سے متاثرہوتاہے۔اس کا وہ مطالعہ کرتاہے پھر فیصلہ کرتاہے کہ اس کے اثرات سے انسانی زندگی کس قدر متاثر ہوئی ہے۔ افسانہ۔’’سانڈ‘‘کو رقم کرتے وقت غضنفر صاحب کے یہاں یہی جذبہ عمل پیہم رہا ہے۔
’’سانڈ بن کر جب اس نے اینڈنا اور سینگ مارنا شروع کیا تو سورج پور والوں نے اس کا رخ دھام پور والوں کی طرف موڑ دیا۔ دھام پورگائوں میں گھس کر اس نے گائوں کو روندنا اور تہس نہس کرنا شروع کر دیا۔ وہاں بھی بیل لہو لہان ہونے لگے۔ ان کے چارہ، پانی کے برتن بھی ٹوٹنے پھوٹنے لگے۔ان کے کھیت اور کھلیان بھی تباہ وبرباد ہونے لگے۔ ‘‘
مذکوہ بالامتن میں جن مسائل کی طرف نشاندہی کی گئی ہے وہ زندگی کے خارجی مظاہر کے خمیر سے تیار ہوئے ہیں۔ان مسائل سے آج کا انسان نبردآزماہے۔ سانڈ ایک علامت کے طور پر افسانے کے کینوس پر ابھراہے جو عام انسانوں کی زندگی کودوبھر بنائے رکھتاہے ۔اس افسانے میں غضنفر یہ کہناچا ہتے ہیں کہ غلط کی کاٹ غلط سے نہیں ہوناچاہیے۔افسانہ مذہبی جنونیت کی نشاندہی بھی کرتاہے جہاں ضعف الاعتقادی اپنے شباب پر ہے۔ کسی فن پارے کا متن کئی نسلوں سے ہم کلام ہوتاہے۔اس افسانے کے متون بھی یقیناکئی نسلوں سے ہمکلام ہوں گے کیونکہ زیرنظر افسانہ ’’سانڈ‘‘میں یہ خوبی ہے۔ یہ ہمارے عصر کی کڑوی سچائی ہے جس سے نجات ملنی چاہے۔ نئی نسل کے سامنے سید محمد اشرف کاقد معاصر افسانہ نگاروں کی پہلی صف میں ہے.۔ان کا افسانہ ’’بادصبا کا انتظار ہے‘‘ کے کردار متحرک ہیں۔افسانے میں علامتی کشش ہے جہاں مریضہ زندگی کی علامت بن کر ابھری ہے ،جو آج کے گھٹن زدہ ماحول میں، اپنی زندگی کی ایک ایک سانس لے رہی ہے۔گھٹن کے اس ماحول میں جینے کے لیے ذہن وفکر کے تمام بنددریچے کو کھولنا ہوگاتاکہ باہر کی تازہ ہوااندر داخل ہوسکے ۔افسانہ فلیٹ زدہ زندگی کی حبس کو بڑی ہنر مندی سے پیش کرتاہے جس میں تخلیقیت کی خوشبوہے۔اس افسانے کا متن عہد حاضر کی گھٹن سے نجات چاہتا ہے۔بقول نشترن فتیحی۔
’’سید محمد اشرف کی تخلیقات اسلوبی سطح پر بھی بہت متاثر کرتی ہیں وہ سادہ بیانیہ ہو یا علامتی۔زبان اور تہذیب کا سوال ہو یا طبقاتی کشمکش ہمارے ذہن ودل پر اپنا اثر چھوڑتی ہیں،کیونکہ وہ گہری فکر کی حامل ہیں۔وہ تہذیب جو اب ماضی بن چکاہے اور وہ زبان جو مررہی ہے اس کا نوحہ ان کی تخلیققات میں نظر آتاہے۔‘‘
سنیئرافسانہ نگاراسرار گاندھی کا افسانہ’’پناہ گاہ‘‘رومانی فضا میں اعلیٰ تعلیمی درس گاہوں کے اخلاقی کرپشن کے منظرنامے کو پیش کرتا ہے جس میں جوزف کا کردار بھونرے جیسا ہے۔اس کے اندر کا اصل چہرہ تب سامنے آتا ہے جب اس کو یہ احساس ہوتا ہے کہ خالی spaceکو بیوی سے بھرنا چاہئے۔افسانے میں جہاںکارمن کا کردار انتہائی گھناونا ہے وہیںہنی کا کردار ہینگس نہیں بن سکا ہے جس کے باعث ہنی ہنی ہی رہ گئی۔افسانے کی بنت اورزبان خوبصورت ہیں۔اسرار گاندھی کے افسانے معاصر زندگی کے شب وروز کے محور پر گردش کرتے ہیں۔
’’ہنی ایک دلچسپ بات اور سنو۔آج کل میں اپنی وائف کے ساتھ کوئی بارہ برسوں کے بعد مارننگ واک پر نکل رہاہوں۔کئی دن تو میرے سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا بات کروں۔چپ چاپ ٹہلتے اور واپس آجاتے۔اب تھوڑی بہت باتیں ہونے لگی ہیں۔لیکن نہ ماضی کی بے اعتنائیاں اور نہ حال کی شکایتیں کہ تعلقات کو بہتر کرنے کایہی رستہ ہے۔شایدوہ spaceجوبرسوں سے میری زندگی میں خالی پڑاتھا،اس کے بھرنے کے دن آگئے ہیں۔کچھ بھی ہووہ میرے بچوں کی ماں ہے۔اس spaceکا حق شاید اس سے زیادہ کسی اور کو نہیں ہے کہ واپسی ہمیشہ خوبصورت ہوتی ہے۔‘‘ افسانہ :’’پناہ گاہ‘‘
اس میں دورائے نہیں کہ عصمت چغتائی اور قراۃ العین حیدر کے بعد جن خواتین افسانہ نگارکو احترام کی نگاہ سے دکھاجاتاہے ان میں ذکیہ مشہدی کا نام شامل ہے جن کا شمار معاصر فکشن نگاروں کی صف اوّل میں ہوتا ہے۔اب تک ان کے سات مجموعے منظر عام پر آئے ہیں اور اپنانقش چھوڑنے میں کامیاب رہے ہیں۔’ پنچ پرمیشور‘‘ان کا مشہورافسانہ ہے ۔منشی پریم چند کے پنچ پرمیشور اور ذکیہ مشہدی کے پنچ پرمیشور میں فرق یہ ہے کہ اوّل الذکرست یگ کے تھے اور ثانی الذکر کل یوگ کے ہیں۔افسانے کے کرداروں میں حلال اور حرام کی تمیز ہے ۔افسانے میں گائوں کی زبان رواں،کلمات بے ساختہ اورکرداروں کے حرکات وسکنات گائوں کے لوگوں کی طرح ہی گنوار ہے جس سے افسانے میںفطری پن ہے۔
’’شاکر علی کا لباس بہت بہتر ہوگیا۔علاقے کے ایم ایل اے کے پاس گھسے رہنے لگے تھے۔گائوں والوں میں دھاک جمتی جارہی تھی۔شریفہ کو بھی ودھواپنشن دلوادی تھی۔چھ سو کے چار سو ہاتھ میں آتے تھے لیکن مفت میں بھاگتے بھوت کی لنگوٹی اور جو بیچاریاں سچ مچ بیوہ تھیں ان کے ہاتھ بھی تو اتنے ہی آتے تھے۔تبھی گاؤں میں پنچایت کے چنائو کا اعلان ہوا۔اب تو بیل گاڑی چلانے والے بھی زور شور سے مقامی سیاست میں حصہ لیتے تھے لیکن رفیقن آنکھ کان بند کرکے رہا کرتی تھیں۔کہتی تھیں کوئی پنچ بنے کوئی ودھایک ہمیں کیا۔ہم تو ایسے ہی رہیں گے۔ہمارے اندھے بیٹے کی آنکھیں بھی بے نور رہیں گی۔‘‘ افسانہ:’’ پنچ پرمیشور‘‘
سلام بن رزاق کے افسانے انسان کے دکھ سکھ اور المیہ کے خمیرسے تیار ہوتے ہیں جن میں دیگرجدید افسانوں کی طرح ترسیل وابلاغ کا مسئلہ درپیش نہیں آتاہے بلکہ ان میں ایک فطری روانی اور بلوریت ہے۔ایک ایک سطرپڑھتے جائیے خود بخود کرداروں کی پرتیں قاری کے ذہن کے پردئہ سیمیں پرکھلتی جائیں گی۔افسانہ رقم کرتے وقت موصوف نے ہمیشہ اس خیال کو ذہن کے کسی گوشے میں جاگزیں رکھا ہے کہ ان کی ذات سے ہی ان کے کردار وجود میں آتے ہیں اور ان کرداروں سے مل کر ہی ان کی ذات مکمل ہوتی ہے۔افسانہ’’ گیت ‘‘کی منظرکشی کا جواب نہیں۔اس افسانے میں ننھی پری امن کی علامت بن کر ابھری ہے اور گاؤں پورے وطن کا۔ہاں وہی وطن جہاں کبھی امن وامان بھائی چارے اور یکجہتی کے گیت گائے جاتے تھے لیکن اس کے کھیتوں میں ہل چلاکر ایسے نفرت کے بیج بوئے گئے کہ توبہ بھلی۔جب پانی سر سے اونچا ہوا تو مغموم پری پھر آئی اور ایسا گیت گائی کہ نیزے پھول کی چھڑی اور تلواریں مور پنکھ بن گئے لیکن افسوس صد افسوس کہ پری کے گائے اس گیت کو ہم بھول گئے۔راوی اپنے بچے کو ویسا گیت لکھنے کو کہتا ہے لیکن اسے اس کا اندیشہ ستاتا ہے کہ کیا میرابیٹا ویسا گیت لکھ پائے گا؟یہی وہ تجسس ہے جو افسانے کو افسانہ بناتا ہے کیونکہ جس عصر میں یہ افسانہ لکھا جارہا ہے اس کی فضافرقہ واریت اور نفرت سے زہر آلود ہے۔زبان وبیان میں پھولوں کا رس اور شہد کی مٹھاس ہے۔روانی ایسی جیسے گنگا کی لہراتی موجیں۔افسانہ قاری کے دل کو اپنی مٹھی میں کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتاہے۔کاش ہم سب اس گیت کو لکھنے کے اہل ہوجاتے۔صادقہ نواب سحرکوامسال ساہتہ اکاڈمی ایوارڈ سے سرفراز کیاگیا ہے۔ان کے افسانوں کا پس منظر سماجی مسئلے ہوتے ہیں افسانہ ’’جنابائی کی چپل ‘‘جنا بائی کی نفسیات کو اُجاگر کرتا ہے جو آنند کی بے وقت موت کی وجہ سے برانگیختہ ہوئی ہے۔افسانے میںروزانہ چپل لے کر اس کا منتظر رہنا دو باتوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔پہلا یہ کہ وہ آج بھی اپنے نواسے کے غم میں بدحواس ،اس کی واپسی کی منتظر ہے اور دوسرا یہ کہ وہ ٹیوشن ٹیچر سے اس قدر برآفروختہ ہے کہ وہ چپل لے کراس کا انتظار کرتی ہے کہ کب وہ آئے اور وہ آنند کی بے وقت موت کے ذمہ دار کو سزا دے۔افسانے میں منظرکشی’جزیات نگاری اور ماحول کی عکاسی ہوئی ہے۔اسلوب سادہ بیانیہ لیکن پراثر ہے۔اقبال حسن آزاد کے اب تک کل تین افسانوں کے مجموعے ،قطرہ قطرہ احساس،مردم گذیدہ اور پورٹریٹ منظر عام پر آئے ہیں۔ان کے افسانوں کا بیانیہ اسلوب متاثر کرتا ہے۔افسانہ ’’پورٹریٹ‘‘ کا مرکزی کردار جس نفسیات سے گزر رہا ہے اس سے سابقہ سب کو عمر کے آخری پڑائو میں پڑے گا۔یہ کردار نا قدری کے خوف سے ناسٹلجیائی ہوگیا ہے۔افسانے کے اختتام پر اس کے ذہن پر جو کیفیت طاری ہے، وہ والد کی ناقدری کا کرب کم، اس کا اپنا زیادہ ہے۔نہ جانے کتنے خزاں کا موسم آے گا اور ہر موسم میں اس کا مرکزی کردار آئینے کے روبروہوگا اور وہ اسی ذہنی کیفیت سے دوچار ہوگا۔اس لیے کئی صدی تک اس افسانے کو زندہ رہنے کا امکان روشن ہے۔ایک کامیاب فنپارے کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اس کے متن ایسے مفاہیم کو سامنے لاتے ہیں جس کو لکھنے کے دوران خودافسانہ نگار ذہن کے کسی گوشے میں نہیں ہوتاہے بلکہ کرداروں کے حرکات وسکنات سے افسانے کی فضا میں ایسی صورت حال پیداہوجاتی ہے کہ ایک نیا مفہوم قاری کے سامنے آتاہے جو زندگی کے مسائل سے بہت قریب کا درجہ رکھتاہے۔یہ خوبی اس افسانے میں ہے۔افسانے کو پڑھ کر رومی کے اس قول کی یاد آئی ۔
’’ماں باپ کے ساتھ آپ کا سلوک ایسی کہانی ہے جو لکھتے آپ ہیں لیکن اس کو پڑھ کر آپ کو آپ کی اولاد سناتی ہے۔‘‘ مولانارومی
معاصر اردو افسانے میں معین الدین جینابڑے کا قداور قلم دونوں معتبر ہے۔موصوف کاافسانہ ’’تعبیر‘‘ کابیانیہ ،کشش رکھتاہے جس کے سبب طوالت کا احساس نہیں ہوتاہے۔ افسانے کی پرسراریت کومعلوم کرنے کے لیے قاری پڑھتاہی چلاجاتاہے اور اختتام پرپہنچ کراس کے ذہن سے یہ فتورنکل جاتاہے کہ افسانہ فرقہ واریت کے چنگل میں ہے۔جس دھرم پورکی راتیں اندھیرے کے باوجودکبھی سہانی اور نورانی ہواکرتی تھیں وہاں بابوگوردھن اور جانکی داس کی سیاسی رسہ کشی سے نہ صرف مندرزمیں بوس ہوتاہے بلکہ مسجدکے محراب پرصدیوں سے جلتادیابھی بجھ جاتاہے جس کو چودھری دھرم پال روشن کیا کرتے تھے۔افسانے میں دوسائے کی پرسراریت قاری کوتجسس میں ڈالتی ہے جن کے باہر نکلتے ہی مندرملبے میں تبدیل ہوجاتاہے۔یہاں قاری کے ذہن میں یہ سوال سر اُٹھاتاہے کہ کیا مسجد کے محراب پر جلتے دیاکے محافظ یہی دونوں تھے؟اگر ہاں تو پھریہ دونوں کون تھے؟ افسانہ سیاسی چپقلش کو اُجاگر کرکے یہی اشارہ کرتاہے کہ ان کے دم سے ہی معاشرے میں ہم آہنگی غیر متوازن ہوتی ہے۔اس افسانے کے توسط سے یہی کہاجاسکتا ہے کہ معین الدین جینا بڑے نے افسانے کی تعبیر سے ہمارے عصر کو آئینہ دکھایا ہے کہ مندر جب زمیں بوس ہوگاتو مسجد کے محراب کا دیا بھی محفوظ نہیں رہے گا۔اس لیے دونوں کی حفاظت ٖضروری ہے۔اسلم جمشید پوری کا شمارمعاصر افسانہ نگاروں میں ہوتاہے۔افسانے کی تنقید پر موصوف نے بہت کام کیاہے۔کئی افسانوں کے مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ان کے افسانے کی چند خوبیوں میں سے ایک خوبی اس میں کہانی پن کا ہوناہے۔اس ضمن میں ان کا افسانہ ’’پہاڑی گلاب‘‘کو پیش کیا جاسکتاہے جس کی فضاخالص رومانی ہے لیکن اختتام دردِہجرکے سوتوں کو قاری کے دلوں میں پھیلادیتاہے۔اس افسانے میں ایک ایسادردہجر ہے جس کا سلسلہ ایک نسل نہیں دونسل نہیں بلکہ اس کا لامتناہی سلسلہ چلنے کا امکان ہے جہاں ہر دورمیں ماں کا انتقال ہوتارہے گا۔بیٹی کی بیٹی پائوں پائوں چلنے لگے گی اور پھر ایک نیا قصہ شروع ہوجائے گا۔افسانے میں نسائیت کی بدقسمتی اور بے بسی پر رونا آتاہے۔نوشاداورگل کی دل گدازمحبت کی تفسیرمعلوم کرنے کے لیے قاری صفحہ درصفحہ پڑھ کراختتام پر پہنچتاہے لیکن اس کی زبان وبیان کی بہاؤ اوراس کی دلگدازیت سے جی بوریا اُلجھن کا شکار نہیں ہوتاہے۔افسانے کی تشکیلی فضاء میںماحولیاتی شعور بیدارہے جو منظر کشی کی راہ ہموار کرتاہے۔
شبیراحمد کاافسانہ ’’پاروتی سے پارو‘‘ہندی مائتھالوجی کے سہارے بُنا گیا ایک پراثر افسانہ جس میں عصری زندگی کے مسائل کو فن کے سہارے خوبصورت اسلوب میں پیش کیا گیا ہے جس کے بطن میں عصری زیروزبر کا ایک سمندر سمٹ آیاہے۔اس افسانے کو پڑھ کر احساس ہواکہ جذبات میں بہے بغیر روح کے کرب کو افسانے میں کیسے سمویاجاسکتاہے۔اس افسانے میں افسانوی جمالیات کا شعور جاگزیں ہے جو اپنے عصر ی مسائل اور اس کے کریہہ منظر نامے کا استعارہ ہے۔شبیراحمد کے اس افسانے میں پاروتی ایک لاچار لڑکی کے کردار میں اُبھرتی ہے جس کے باپ کو لقو ہ ماردیتاہے۔اس کے علاج کے لیے اس کو شہرجانے پڑتاہے جہاں وہ جنسی استحصالی نظام کی گرفت میں آتی ہے پھر پاروتی سے وہ پارو بن جاتی ہے اور ریڈلائٹ ایریا اس کا مقدر بن جاتاہے۔اخلاقی اقدار کے زوال کو افسانے میں درشاتے ہوئے ایک کمزور بے بس نسائیت کو کس طرح معاشرے کا جنسی استحصالی طبقہ استحصال کرتاہے اور اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتاہے یہ سب کچھ افسانے میں فن کاری سے پیش کیا گیا ہے جہاں ان کا تانیثی شعور بیدار ہے جو اس افسانے میں یہ بتاناچاہتاہے کہ ہمارے معاشرے میں معاشی مجبوری کے زیر اثر کس طرح ایک مجبور لڑکی اپنے باپ کے علاج کے لیے جسم فروشی کے دھندے میں پھنس جاتی ہے۔
’’پاروتی ہنوزداؤ کھینچے کھڑی تھی۔مگر اس کی آنکھوں میں غصہ نہ تھا،آنسو تھے۔نگاہوں کے آگے کل رات کا خواب نہیں،بیمار باپ کا چہرہ تھا۔وہ حواس باختہ کھڑی رہی اور پھر ایک دم پورا منظر بدل گیا۔ماں درگا مہیسہ سُرکے آگے خود سپردگی کررہی تھی۔اس کے قدموں میں ہتھیار ڈال کر گڑگڑارہی تھی۔ہاتھ جوڑ کر عاجزی کررہی تھی‘‘ افسانہ:پاروتی سے پاروتک
نصرت شمسی کا افسانہ ’’کفارہ ‘‘سادہ بیانیہ اسلوب میں لکھاگیاہے جس کے کم وبیش 80فیصدحصے پرہندوستانی مسلم معاشرے کی خوشبو غالب ہے۔اس افسانے میں دوممالک کی تہذیبی زندگی کے تصادم،اپنی مٹی کا کرب اورنوجوانی کے دنوں میں غلط فیصلے کے بد انجام،کرداروں کے ذریعہ پیش گئے ہیں۔افسانے میں بیانیے کا فسوں ہے۔افسانہ اپنے پیچھے ایک سبق چھوڑتاہے کہ اولادکوماں باپ کے فیصلے کومانناچاہیے ورنہ اس کا کفارہ اداکرناہوگا۔کل ملاکر افسانہ غلط فیصلے کے درد کو قاری کے سامنے پیش کرتاہے جس کوپڑھنے اور سمجھنے میں کوئی قباحت نہیں ہوتی ہے۔احمد صغیر کاافسانہ’’ فاتحہ ‘‘رواں بیانیہ میں دس سالہ صوبی کے اندر کی معصومیت کے ساتھ ساتھ اس کے سینے میں بھڑکتے جوالے کو بڑی سبک روی سے پیش کرتا ہے جس کی پنہائیوں میں طنز ہے۔افسانہ جب اپنے اختتام پر پہنچتا ہے اس سے تھوڑی دیر پہلے اندازہ ہوجاتا ہے کہ صوبی کے ذریعہ دیئے گئے نذرکا کھانہ کہاں پہنچے گا۔بیدی کے ’’تلا دان ‘‘کا بابو اور ’’فاتحہ‘‘ کی صوبی دونوں کی نفسیات میں یکسانیت ہے لیکن رویئے میں فرق ہے۔ اگرافسانے کے اختتام پر لیاقت علی نہ لکھ کر سید لیاقت علی لکھا گیا ہوتا اور صوبی دروازے کو دستک دے کر گھر کے افراد کو بلا کر انکساری کے ساتھ اپنے دئیے گئے نذرکو کھا لینے کی گذارش کرتی تو افسانہ مزید پرتاثر ہوجاتا۔افسانے میں ایک ایسی نفسیات کو پیش کرنے کی کوشش ہوئی ہے جو ہر جگہ بڑی خاموشی سے دو طبقوں کے درمیاں رواں دواں رہتی ہے۔افسانے میں صوبی اس نفسیات کی نمائندہ بن کر اپنے جذبے کا اظہار کرتی ہے۔یہ جذبہ روایت کے حصار کو توڑتا نظر آتا ہے ۔ایک دفعہ اقبال حسین آزادّنے اپنے خیال کا اظہارکرتے ہوئے کہاتھاکہ:
’’فکشن میں دو چیزیں ہوتی ہیں۔۔۔۔مکالمے اور بیانیہ۔مکالمے آپ بے شک کرداروں کی زبان میں اداکریں لیکن بیانیہ آپ کا اپنا ہوناچاہے۔‘‘
مذکورہ بالا اقتباس کی کسوٹی پر عیاث الرحمن کا افسانہ ’’اس پار‘‘ سو فیصد کھر ااُترتاہے۔اس بیانیے میں جو کشش ہے،کم کم پڑھنے کو ملتاہے۔چھوٹے چھوٹے جملوں سے منظر نگاری خوب ہوئی ہے۔ایسا لگتاہے جیسے آنکھوں کی اسکرین پر سب منظر گردش میں ہیں۔افسانے کے مرکزی کردارگنگاکو اپنی غربت کا احساس ہے۔اسی احساس نے اس کو ندی میں پتھر پھینکنے سے روکاہے۔کرداروں کی گفتگو میں مقناطیسی کشش ہے۔
’’یہ تیرا پاگل پن ہے رے،جانے والے کبھی نہیں آتے۔اور پھر ان بدیسی لوگوں کے دل میں محبت تھوڑی ہوتی ہے۔یہ لوگ بڑے کٹھور ہوتے ہیں۔اپنے گاؤں والوں سے بھی زیادہ۔اس نے تو تجھے بھلا بھی دیا ہوگا۔یہ لوگ ہم دیسی لوگوں سے بڑی نفرت کرتے ہیں۔پتہ نہیں تیرا دماغ میں یہ کیسے بیٹھ گیا ہے کہ وہ تجھے۔‘‘ افسانہ: ’’اس پار‘‘
رومانی فضامیں شکستہ احساس کی ترجمانی کرتے اس افسانے کے کردار اپنی مٹی کی زبان میں بولتے ہیںاور مٹی کی زبان سب کو پیاری لگتی ہے۔اس افسانے کے کردار حقیقی زندگی کی جیتی جاگتی تصویرہیں۔شفیع مہدی کا افسانہ ’’گرتی دیواریں‘‘سادہ بیانیہ اسلوب میں لکھاگیاکردار کا افسانہ ہے۔اس کردار کی خوبیوں کو اُجاگر کرتے ہوئے افسانہ نگارجب کلائمکس پر پہنچتاہے اس وقت کردار کی اصلی صورت مسخ ہوجاتی ہے جس کے باعث axisپر کردار کا جوگراف اوپر اُٹھا ہے وہ اختتام پر نیچے گرجاتاہے ۔ایسا غریبی اور مجبوری کی وجہ سے ہواہے۔یہی مجبوری احمد ندیم قاسمی کا افسانہ ’’الحمداللہ‘‘میں مولوی صاحب کو اپنے محسن کی موت پر بیوی سے یہ کہنے پر مجبور کرتی ہے کہ منے ّکی اماں اللہ نے سبیل پیداکردی ہے۔جنازہ پڑھائی کی رقم سے منّے کی چولی چنری اور ٹوپی کا انتظام ہوجائے گا۔احسان قاسمی صاحب کا شمار معاصرافسانہ نگاروں کی اس صف میں ہوتا ہے جو زندگی کی حقیقت اور اس کی تلخیوں کو اپنے افسانوں کا موضوع بناتے ہیں۔’’زرد پتے‘‘ میں ایک مجبور ‘بے روزگار انسان کی ایسی درد بھری کہانی ہے جس کی بے بسی کو دیکھ کرجہاں قاری کی آنکھیں نم ہوتی ہیں وہیں گدھ کی آنکھیں چمک اٹھتی ہیں۔افسانے کا اختتام بہت درد انگیز ہے۔اس لیے کلیم سے بنا کلوا کے کردار سے ہمدردی پیدا ہوتی ہے۔افسانے میں فضاآفرینی ہے۔آغاز میں پیپل کی شاخ پر بیٹھے گدھ کو دیکھ کر کھٹکا تھا کہ آگے کچھ ایسا ہونے والا ہے جس کو دیکھ کر دل دہل اٹھے گا۔دنیا کے ایکو سسٹم میں ایسا ہی ہوتا ہے کہ ایک کنزومر کی زندگی دوسرے کنزومرکی زندگی پر منحصر کرتی ہے۔اس نظام میں ایک کی موت دوسرے کی زندگی کی علامت بن جاتی ہے۔ افسانے میں درد کے سوتے بہت دور تک پھیلے ہیں۔ٖٖفخرالدین عارفی کاافسانہ ’’دیوار‘‘ایک رومانی فضامیں شہلاکے جس کردار کوتراشتاہے اس کی باتوں میں جادو،خیالوں میں فرشتوں کاتقدس ،فکرواحساس میں طہارت ، احساس وجذبات میں معصومیت اور دل میں انسانیت کا سچا دردہے۔آداب گفتگو اور اس کی شیرینی نے افسانے کے راوی کو اس کی طرف راغب کرتاہے اور شہلا کوزندگی کا مرکز مان لیتاہے۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کی کلائیوں میں سہاگ کی چوڑیاں کھنکھناتی ہیں۔اس کا شوہر ڈاکٹر سجاد نے پیسے کو ہی سب کچھ سمجھاجس کے سبب شہلا کی ازدواجی زندگی خوف ناک اور بھیانک بھنورکی گہرائیوں میں ڈوبتی چلی گئی۔ریزہ ریزہ احساس اور اذیت ناک تنہائی میں اس کی نوکری اس کاسہارا بنی ۔افسانے کی رومانی فضامیں نسائیت کی تشنگی اور صنف کرخت کی بے حسی کو درشایا گیا ہے۔افسانے کے اختتام پر مرکزی کردار کے ضمیر کابیدار ہوجانااس کے قد کو بڑا کردیتاہے۔
’’شہلاآخرکب تک ان تلخ حقیقتوں کو برداشت کرسکے گی؟زہر کے اور کتنے گھونٹ اسے پینے ہوں گے؟وفا کی راہ میں اور کتنی دور تک اسے انگاروں پرچلنا ہوگا؟اب تو اس کے پائوں بھی لہولہان ہوچکے ہیں۔زہر کے اثرات نے اس کے جسم کو نیلگوں کردیا ہے اور دکھ کا کانٹااس کے حلق میں بہت اندر تک گرتاہی چلاجارہا ہے‘‘ افسانہ:’’دیوار‘‘
ڈاکٹرریاض توحیدی کاشمیری کا افسانہ ’’پوش کالونی کے ویران کھنڈر‘‘ رواں بیانیے کی صورت قاری کے سامنے آیا ہے۔اس افسانے میں اولادوں کی ناخلفی اور اس کے اسباب تلاش کرنے کی کوشش ہوئی ہے جبکہ پروفیسر کا کردار ایک دکھی کردار کی صورت نمودار ہواہے جس کے پاس سب کچھ ہوتے ہوئے بھی کچھ بھی نہیں ہے۔ایسا کہاجاتاہے کہ اولاد بڑھاپے کی لاٹھی ہوتی ہے لیکن رواں عصر میں یہ بیساکھی بننے سے بھی قاصر ہے۔اس کی سب سے بڑی وجہ مادہ پرستی ہے جس کے ہوس میں آج کی اولاد اپنی تہذیبی و اخلاقی قدروں سے انحراف کررہی ہے۔اسی کے سبب مشترکہ خاندانی کلچر زوال پزیر ہے۔اس کا شکار پوش کالونی میں رہنے والے لوگ زیادہ ہیں جو باہر سے بظاہر خوش پوش دکھتے ہیں لیکن اندر سے وہ اتنے ہی بیمار ہوتے ہیں۔ایسے ہی لوگوں کا ترجمان زیر نظر افسانے کامرکزی کردار پروفیسرصاحب ہیں۔یہ افسانہ احسا س دِلاتاہے کہ گائوں میں کوئی انسان لاوارث نہیں مرتااور پوش کالونی میں ان کاکوئی وارث نہیں ہوتا۔نیزعصرِ رواں میں بیٹوں کے بھیجے کتے وفادار، لیکن جن کو خون جگرپلا کر پالاپوسا وہ ناخلف ہوگئے۔ افسانہ معاصر زندگی میں والدین کے کرب کا ایک نثری مرثیہ ہے جس پر مقامی بولی کااثر کی جھلک نمایاں ہے۔ اجیت سنگھ مچھانہ کا افسانہ ’’اجیت روڈ بٹھنڈہ‘‘ رواں عصر میں لوگوںکی تاجرانہ ذہنیت سے پردہ ہٹاتاہے جس کا بیانیہ سادہ ہے۔ افسانہ ملکی نظام اور نصابِ تعلیم پرچوٹ کرتاہے کہ یہ محض حصول معاش کی ترغیب دیتاہے۔ملک کی ڈگمگاتی معاشی حالت اور زندگی کے ہر شعبے میں پھیلی رشوت خوری،بدیانتی،کنبہ پروری پربھی افسانے میں اُنگلی اُٹھی ہے۔افسانے میں افسانویت کم کم ہے۔اس کے کردار جن مسائل سے دوچار ہیں وہ سب کے سب میرے اور آپ کی صدی کے ہیں۔افسانے کا اختتام استفہامی ہے جس کا راوی زندگی کے ہر شعبے میں انارکی ودگر گوں حالت کے پیش نظر اس نکتے پر سوچناچاہتاہے کہ لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو۔!سلمٰی صنم کاا فسانہ’’ دیوی‘‘ ٹرانسجینڈر کو موضوع بحث بناتا ہے۔سماج کا یہ وہ طبقہ ہے جس کو بہت حقیرنظرسے دیکھا جاتا ہے لیکن اس جہاں میں کچھ خطے ایسے بھی ہیں جہاں ان کو دیوی دیوتائوں کا اوتار مان کرخوب آئو بھگت کی جاتی ہے۔اس افسانے کا مرکزی کردار جوگپاس ساگر ہے۔جب وہ مندر میں رسم جوگپاسی کے بعد اپنے قبیلے میں داخل ہوجاتا ہے تب اس کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔افسانے کی زبان میں روانی ہے۔اس کے بیانیے میں کو ئی علامت و استعارہ سازی نہیں ہے ۔افسانہ اپنے نقطہ نظر کو قاری کے ذہن میں منتقل کرنے میں کامیاب ہے۔وسیم عقیل شاہ کا افسانہ ’’بجھے دیے‘‘ کابیانیہ سادہ ہے جس میں امیشا کی باپ سے گہری محبت ‘ناگفتہ بہہ صورت حال میں اس کے اندرپنپے خوف وہراس اور نفسیاتی کیفیت کو پیش کیاگیاہے۔رمیشا تذبذب کے بھنور میں ہے۔جس کے مکالمے سے گھبراہٹ’تشویش،بیچینی،حواس باختگی جھلکتی ہیں۔ماب لنچنگ کے خوف سے امیشا کے اوپر جوکیفیت طاری ہے ،اس کا شکار آج ہم سب ہیں۔اس جنونیت سے بچاؤ کی صورت نظر نہیں آتی۔یہ رواں عصر کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔افسانے کی بنت میںسب کے گھر میں دیا جلا لیکن پرکاش کا گھر اندھیرا ہی رہ گیا اس سے افسانے میں افسردگی طاری ہوتی ہے۔یہ افسردگی اس عہدکی سچائی ہے جس میں ہم زندگی کا ایک ایک سانس لے رہے ہیں۔ ایم مبین کا افسانہ’’ مسیحائی ‘‘ میں ترسیل کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔آج ہر اسپتال اور نرسنگ ہوم میں بابوجی مل جائیں گے۔افسانے کاپیغام یہ ہے کہ رواں عصر میں ڈاکٹری کا پیشہ عبادت نہیں تجارت بن گیا ہے۔اس سے نجات کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی ۔صارفیت کے اس دور میں زندگی کاہر شعبہ آلودہ ہے۔جان سے زیادہ قیمت پیسے کی ہوگئی ہے۔زندگی کی اس کربلاسے کیسے باہر نکلاجائے۔اس پر غور وفکرکی اسد ضرورت ہے۔کم از کم علاج ومعالجے کے شعبے کو اس سے پاک ہوناچاہئے کہ ڈاکٹرکا مرتبہ زمینی خداکے برابر ہوتاہے ۔افسانہ یہ سوچنے پرمجبورکرتاہے کہ کہیں کل کا بابوجی ہم ہی نہ ہوں۔ڈاکٹر صادق اسد کا افسانہ’’ قندیل‘‘ انسان کی بے بسی اور بے حسی دونوں کی ترجمانی کرتے ہوئے سادہ بیانیہ اسلوب میں لکھا گیا ہے۔افسانہ تقسیم وطن کے دوران لٹتی انسانیت کی بلکھتی جھلک اوربے روزگاری کا دکھڑاسناتاہے جس میں تجسس ہے ۔نسائیت کا استحصال پرعظیم اللہ ہاشمی کا افسانہ’’ داغ ‘‘پرانجم قدوائی اپنے خیال کا اظہارکرتے ہوئے لکھتی ہیں۔
’’ڈاکٹر عظیم اللہ ہاشمی بنگال کے مشہور و معروف افسانہ نگار ہیں۔ان کے افسانوں کا ایک مجموعہ پڑھ چکی ہوں اور بے حد متاثر ہوں۔اس افسانے میں منظر نگاری اتنی خوبصورتی سے کی گئی ہے کہ قاری اپنے آپ کو گاؤں میں ہی محسوس کرنے لگتاہے۔آغاز سے افسانہ ایک آبشار کی طرح رواں ہے۔بہترین الفاظ عمدہ بیانیہ،چند لمحات ایک سحر میں گزرجاتے ہیں۔مقدمہ بھی جیت لیا جاتاہے تب یہ تجسس شروع ہوتاہے کہ اب کیا ہوگا۔اختتام کی چند سطروں میں اس قدر خوبی سے افسانے کا محرک سامنے لایا گیا ہے کہ بے ساختہ واہ کرنے کو دل چاہا۔ایک معیوب بات کو اس نفیس انداز سے بیان کیا کہ چھینٹیں بھی نظر نہیں آئیں۔‘‘ انجم قدوائی
عمران جمیل کاافسانہ’’بائیسکوپ‘‘ سادہ اسلوب میں ایک سماجی بیانیہ ہے۔اس بیانیے کی منظر نگاری دل کوموہتی ہے۔چاہے بیدی کی لاجونتی ہو یااس افسانے کی اماں نسائیت ہردور میں مردوں کے جبر کاشکار ہوئی ہے۔درمیانی متن میں کرونا کال کی اداسی جی کوملول کرتی ہے۔زبان وبیان میں فسوں ہے۔افسانے کااختتام فضاآفرینی کے عنصر سے ہوتا ہے جس کے باعث آنکھوں کی اسکرین پر بائیسکوپ کے مناظر رقص کرنے لگتے ہیں اوربچپن کی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں جس سے ایک خوشگوار کیفیت کااحسا س جاگزیں ہوتا ہے۔افسانہ جب طویل ہوجاتا ہے تووحدت تاثر منتشرہونے کا امکان بڑھتا ہے۔اس افسانے کاتانا بانااس قدرآکرشک ہے کہ جی گھبراتا نہیں ہے جس سے انتشاری کیفیت کاامکان کم ہوجاتا ہے۔افسانے میں پدری محبت وشفقت کی خوشبو ہے۔نیلوفرعامر اور ذویا کے کردار متحرک ہیں جن کے حرکات وسکنات سے افسانے میں حرارت باقی ہے۔افسابے کاکینوس وسیع ہے۔اسلوب میں سادگی ہے۔باپ کے کردار میں کرختگی ہے باقی کرداروں کے لہجے میں شہد کی میٹھاس ہے۔کشمیری فضاکی سحرانگیزی افسانے میں سمٹ آئی ہے۔افسانے میں اشارتاً ضمنی طور پر کئی باتیں سامنے آئی ہیں جن سے عصری بربریت کی قلعی کھلتی ہے۔افسانے کی تکنیک قاری کوگرفت میں رکھتی ہے۔ رفیعہ نوشین کا افسانہ’’ جھلی‘‘ مرو اساس معاشرے کا جبر اوردقیانوس خیالات کی بربریت کو اُجاگر کرتا اخلاقی زوال کی انتہا کو پیش ضرور کرتا ہے لیکن افسانہ اشارے وکنائے کا فن ہے جس میں وہ بات کہی جاتی ہے جو افسانے میں کہیں نہیں لکھا ہوتا ہے۔اگرمعیار کی اس کسوٹی پر اس کو پرکھیں تو بات بہت زیادہ کھول کر کہی گئی ہے لیکن افسانہ تھیم کو قاری کے ذہن میں منتقل کرنے میں کامیاب ہے۔رخسانہ نازنین کا افسانہ ’’واپسی‘‘بالکل عام فہم زبان میں لکھاگیا معاصر زندگی کے شب وروز کی ایک ایسی روداد ہے جس میں باپ گھرکی معاشی کفالت کے بوجھ تلے دب کر سسک رہا ہے لیکن زبان پر حرف و شکایت نہیںہے۔اس دورمیں سماجی زندگی میں رشتے ناتے سب کے سب مادہ کے محور پر گردش کرتے ہیں۔اس مادّی دور میں ضرورتیں اور خواہشیں جذبات واحساسات پر غالب ہیں۔فرخندہ ضمیر کا افسانہ’’ ادیب ‘‘سادہ بیانیہ اسلوب میں سبق آموز فن پارہ ہے۔سبق آموز اس معنوں میں کہ شاد صاحب کی صحت یابی دعاؤں کے زیر اثر ہوئی جبکہ منسٹر صاحب کی موت کی وجہ چاہے جو بھی ہو اتنا طے ہے کہ نیک انسان مصائب کے گرداب سے کرشماتی طور پر باہر نکل آتا ہے۔افسانے میں جو کرنٹ ہے اس کا پیغام یہی ہے کہ اعمال اچھا ہوناچاہئے کہ دعائیں انسان کو موت کے منہ سے بھی کھینچ لاتی ہیں۔اس لیے آدمی کو دعائیں کمانے کی کوشش کرناچاہیے۔اس سے بڑی سے بڑی بلائیں بھی ٹل جاتی ہیں۔افسانے میں سیاسی ریشہ دوانی کو بھی دبے لفظوں میں اُجاگر کرنے کی کوشش ہوئی ہے۔اویناش امن اکیسویں صدی کے پروڈکٹ ہیں۔ان کے افسانوں میں کہانی پن کی موجودگی متاثر کرتی ہے۔موصوف موضوع اور اسلوب دونوں پرتوجہ دیتے ہیں۔ان کے افسانے میں منظر نگاری ہوتی ہے جس سے دلچسپی بڑھتی ہے۔معاصر زندگی میں ناخلف اولاد کی ناخلفی کو’’طوطے کی کہانی‘‘میں پیش کیا ہے جس کا اسلوب طنزیہ ہے۔
’’بیٹے تم لوگ باہر جارہے ہوتو ہمیں تنہائی دور کرنے کے لیے کچھ تو چاہئے تھا۔سوچاایک پالتو جانور گھر پر رکھ لوں ۔۔۔اور دیکھواس بار میں طوطانہیں لایا ہوں بلکہ تمہارے کہنے کے مطابق کتاہی لایا ہوں۔تم ہی نہ کہتے تھے طوطے کی فطرت نہیں بدلتی۔‘‘ افسانہ ’’طوطے کی کہانی‘‘
مقصود حسن کا افسانہ’’ افیم کی گولی‘‘ کی سب سے بڑی خوبی اس کا فطری بہائوہے جو دریائے ہگلی کی نرم نرم کومل موجوں کی طرح بہتی جارہی ہے اور قاری کے من کی کشتی ہولے ہولے آگے بڑھتی جاتی ہے۔یہ کشتی جب ساحل پر پہنچتی ہے تو نظارے دیکھ کر کوئی حیرت نہیں ہوتی ہے۔ایسا اس لیے کہ ایک افیمچی اپنے حصے کی افیم کی گولی دوسرے افیمچی کو دے دیتا ہے کیونکہ اس کو معلوم ہے کہ نشہ نہیں ملنے پر کس قدر بے چینی ہو تی ہے۔ابن صفی کے ناولوں کو افیم سے تشیبح دے کر ناولوں کی شدّت انگیزی کو اُجاگر کیا گیا ہے اور یہ سچ بات ہے کہ ایک زمانے میں ابن صفی کے ناول کو پڑھنے کے لیے لوگ دیوانے تھے۔
رضوان الحق کا افسانہ’’ نیاپرزہ‘‘افسانہ اپنی ہیت میں علامتی ہے جو یہ واضح کرتا ہے کہ فرسودہ نظام نئے پرزے کو بھی گھس کر پرانے رنگ میں ڈھال لیتا ہے۔اس کے خلاف مزاحمت ہوتی ہے لیکن عہدے کے زیراثر بے دم ہوجاتی ہے۔افسانے میں پرانے نظام میں جبر کی جبریت کا گراف جب اوپر اُٹھتا ہے اس وقت نئے پرزے سے جوچینخ نکلتی ہے وہ بے بسی کی ہوتی ہے۔آخرکا ریہ قوت نئے پرزے کو موافق بنا کر رواں نظام کے مطابق بنانے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔غضنفر صاحب کا افسانہ ’’پرزہ‘‘میں بھی کرپٹ سسٹم کو موضوع بنایا گیا ہے جہاںسسٹم سے پرزہ بدل دینے کی بات ہوتی ہے جبکہ زیر نظر افسانے میں پرزے کو اپنے نظام کے مطابق ٹھوک ٹھاک کر ٹھیک کرلیا جاتا ہے۔ افسانہ ایک قرأت میں نہیں کھلتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کو OPAQUEکہا جائے۔مجاہد ہادی کاافسانہ’’پیار زندہ ہے‘‘ سادہ بیانیہ میں خوانگی زندگی کا ایسا درپن ہے جس میں ماں کا کردار کریہہ ہے۔ ماں اور بیٹی کے خیالات کاتصادم افسانے کے اختتام پر اس پنچ لائین سے ہوتا ہے کہ
’’اگر عورت کو ملکہ بن کر رہنا ہے تو پہلے شوہر کوبادشاہ بنانا ہوگا‘‘
لیکن ماہین اپنے اس خیال کوزندہ رہ کر ماں کے گوش گذار کرتی تو افسانہ المیاتی ہونے سے بچ جاتا۔ افسانے میں ماں کے کردارکاقد جہاں چھوٹا ہوا ہے وہیں فیصل کا قد بڑا ہوگیا ہے۔ افسانے میں ایک دو جگہ ڈرامائیت در آئی ہے۔ اس فن پارے میں ایک عورت کی نفسیات کوبھی اُجاگر کیا گیا ہے جو ایک بھرے پرے گھرکواُجاڑ دیتی ہے۔خواہ وہ بیٹی کا گھرہی کیوں نہ ہو۔ یہ نفسیات مردد اساس معاشرے پر غالب آنا چاہتی ہے۔ افسانہ سبق آموزاور اصلاحی ہے جو یہ پیغام دیتا ہے کہ اذدواجی زندگی میں کسی کے بہکاوے میں نہیں آنا چائیے۔ زندگی کی یہ گاڑی اعتماداور یقین دو پہئے پر چلتی ہے۔ ان دونوں کی رفتارمتوا زن ہونا چاہئے ورنہ حادثے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔کردار نگاری افسانے کی روح ہے۔انورمرزا کا افسانہ’’ استالاوستا ‘‘میں چارلی کا کردار زیادہ متحرک ہے اور فلورینس کے کردارنے فلوکی وجہ سے موت کی آغوش میں سو کر بھی افسانے کو متحرک رکھا۔زبان وبیان میں مقناطیشی کشش ہے۔افسانہ دلگیر اس لیے ہوجاتا ہے کہ فلورینس کے دیے گفٹ کی فروخت قیمت سے پہلی برسی پر اس کی قبر پر ڈالنے کے لیے پھول خریدے گئے ہیں اور اختتام پر وہی جوتا اس کو اونا واپس لاکر دیتی ہے لیکن بدلے میں اس کو ’’پھر ملیں گے‘‘کاتحفہ ملتا ہے۔افسانہ کردار نگاری کا عمدہ نمونہ ہے جہاں جذبے کی قدر ہوتی ہے تحفے کی نہیں۔طاہر انجم صدیقی ایک اچھے افسانہ نگار ہیں۔ان کا افسانہ ’’مکھی‘‘کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ آج بھی محسوس کرتا ہوں۔زیر نظر افسانہ ’’پاگو‘‘ میں بیانیے کا فسوں ہے۔مشاہدہ اور جزیات نگاری حقیقت نگاری کی آبرو بچاتے ہیں۔افسانے میں پاگو کا کردار خوب اُبھراہے۔اس کردار کے حرکات وسکنات سے وہ پاگل کم خبطی زیادہ لگتا ہے جو جبر کے ہاتھوں اپنی جان گنواتا ہے اور دوسرے کی پٹی بچھاتے بچھاتے خود کی پٹی بچھوالیتا ہے۔افسانے کا اختتام المیاتی ہے لیکن اس کی تہہ میں ایک خاموش احتجاج بھی ہے جو زمیں ذادوں کے جبریہ کرتوت کو فن پارے کی شکل میں پیش کرکے ایک ایسی صورت حال کی عکاسی کرتا ہے جس سے انسانوں کا ایک طبقہ آج نبرد آزما ہے۔پٹی بچھانا ایک مقامی بولی ہے جس سے آشنائی دوسرے خطے کے پڑھنے والوں کو نہیں ہے۔اس لیے پہلے پہل کچھ اُلجھن ہوتی ہے لیکن اختتام پر مطلب سمجھ میں آجاتا ہے۔افسانے میں پاگو کی سادہ لوحی نے متاثر اور اس کی موت نے ملول کیا۔امتیاز خان کا افسانہ ’’کتا‘‘ کابیانیہ سادہ ہے جس کا تھیم اس محور پر گردش کررہا ہے کہ بھیکاری ترقی پزیرسماج کے لیے بدنماداغ ہیں اس لیے دینوحلوائی مٹھائی خراب ہونے پر پھینک دیتا ہے لیکن پولیوزدہ گداگر شیدے کو نہیں دیتا ہے جس کا باپ بھی لنگڑا ہے اور گداگری سے اپنے بال بچوں کا پیٹ پالتا ہے۔افسانہ اس پر بھی نرمی سے طنز کرتا ہے کہ منسٹر صاحب کے دورے پرمخمل سے شیدے جیسے ٹاٹ کو ہٹانے کی بات ہوتی ہے لیکن ٹاٹ کو مخمل بنانے کی کوئی بات نہیں کرتا۔افسانے کے اختتام پردینو حلوائی کاکاغذ کی پلیٹ میں مٹھائیاں مدقوق کتے کے سامنے رکھنااس کی شیدے سے نفرت کاکفارہ ہی نہیں بلکہ قلب ماہیت بھی ہے جو قاری کو تھوڑی دیر سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ سماج کے اس طبقے سے ہمدردی ہونا چاہئے ۔ایک بہترین افسانے کی پہچان یہ ہے کہ وہ جہاں ختم ہوتا ہے،وہاں سے کہانی قاری کے ذہن میں شروع ہوتا ہے۔یہ خوبی شہانہ اقبال کاافسانہ ’’اے کاش‘‘ میں ہے۔افسانے کی پنچ لائین نے خاموشی سے وہ سب کچھ کہاجو افسانے میں کہیں نہیں کہا گیا۔اس پنچ لائین سے یہ بھی پیغام ملا کہ Natural Callکسی پاکیزہ رشتے کا منتظر نہیں ہوتا۔یہ افسانہ اپنے پیچھے ایک نصیحت چھوڑ گیا۔زبان وبیان نہایت سادہ لیکن دم دار۔کردار متحرک اور پلاٹ گٹھا ہوا۔ناہید طاہر کا افسانہ’’اے زندگی‘‘ المیاتی ہے۔انسانی زندگی میں سکہ وہ محور ہے جس پر انسان کی زندگی کا دارومدار ہے۔کہیں اس کے عوض جسم بکتے ہیں تو کہیں کوکھ کرایے پر د یئے جاتے ہیں۔افسانے میں جہاں انسانی بے حسی کی جھلک ہے وہیں ممتا کی رمق بھی ہے۔بے حسی کے پیش نظر وراثت جب کہ تڑپتی ممتا کے پیش نظرپدرانہ محبت ہے۔کل ملا کر نتیجہ یہی نکلا کہ نسائیت کے حصے میں ہی خسارہ آیاجس کو اس حق سے بھی محروم رکھا گیا کہ وہ کم از کم اپنے جسم یا روح کے ٹکڑے کو ایک نظر دیکھ لے جس کو نومہینے کی دکھ مصیبت جھیل کر جنم دیاہے۔اس میں اس جانب بھی اشارہ ہے کہ کرایے پر کوکھ مل سکتی ہے ممتا نہیں۔افسانے کے اختتام پرخالی چارپائی دیکھ کر قاری کے اعصاب بھی تن گئے کہ اللہ تو نے صنف نازک کو اتنا بے بس کیوں بنایا؟۔ڈاکٹرذاکرفیضی کا افسانہ’’وائرس‘‘نفسیاتی افسانہ ہے جس میں قاتل پر مقتول کے آخری کلمہ’’میری ماں سے کہہ دینا میں مر گیا‘‘کا آسیب پیچھا نہیں چھوڑتاہے۔اس کے اوپر اس نفسیات کا ایسا غلبہ طاری ہوتا ہے کہ اس کو ہر وقت اپنی موت نظر آنے لگتی ہے۔افسانہ خاموشی سی یہی کہنا چاہتا ہے کہ پاپ اپنے باپ کو بھی نہیں چھوڑتا ہے۔اس لیے انسان کو اس سے بچنے کی کوشش کرنا چاہئے۔افسانے میںقتل کے بعد قاتل قلب ماہیت کا شکار ہوتا ہے لیکن اس سے اس کو نجات ملنے کی کو ئی صورت نظر نہیں آتی۔افسانے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جرائم پیشہ افراد کو قلبی سکون حاصل نہیں ہوتاہے بلکہ وہ اپنے کئے جرم کی نفسیاتی آگ میں ہمہ وقت جلتا رہتا ہے۔اس افسانے میں جہاں مقتول کی معصومیت پر ترس آتا ہے وہیں قاتل کی ذہنی کیفیت پرترحم کے احساس بھی بیدار ہوتے ہیں۔افسانے میں قاتل کی ذہنی کیفیت پڑھ کر ایسا لگا کہ کہیں یہ مقتول کی ماں کی ہائے کا اثر تو نہیں۔۔!!قاتل جس بیماری میں مبتلا ہے وہ Viral disease نہیں ہے بلکہ نفسیاتی ہے اس لیے عنوان مطابقت نہیں رکھتاہے۔آسیہ رئیس خان کاافسانہ ’’پیتل کا گلاس‘‘ نظر کے زاویے کو کج کرکے دیکھنے سے اس کے کئی پہلو سامنے آتے ہیں جس میں سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ پیتل کے گلاس کی آوازتھوڑی دیر کے لیے وارنگ بیل تھی لیکن ناسمجھ بہواور بیٹے اس اشارے کو سمجھنے سے قاصر رہ گئے۔نتیجہ ہر قاری نے افسانے کے اختتام پر دیکھا۔افسانہ افسانوی شعریات کو دامن میں سمیٹے اختتام پر اپنے پیچھے بہت کچھ سوچنے کے لیے چھوڑ جاتا ہے۔ڈاکٹرانصاری مختارکاافسانہ’’بانسری‘‘ نسائیت کی معراج کا گن گاتا ہے جو اس جانب اشارہ ہے کہ اپنی کوکھ سے پیدا ہونے والی اولاد سے محبت تو سب کرتے ہیں لیکن سوتن کے بطن سے پیدا ہونے والی اولاد کی محبت میں زندگی کے سنگ خاراں سے گذر کرجوپرورش کرتی ہے وہ اماں جی ہوتی ہے۔ اس لیے افسانے میں اس کردار کا قد بہت اونچا ہوگیا ہے۔ ایسا اس لیے کہ اماں جی کے شوہر پھٹے بانس رہ گئے اور اماں جی اپنے سوتن کے اپاہج بیٹے کے لیے اپنے جسم میں سوراخ کرکے پوری زندگی بانسری بنی بجتی رہی۔ افسانے کا اختتام دل پر درد کی لکیر کھینچ جاتاہے۔ اس کی بنت میں تجسس ہے جو قاری کواختتام تک پڑھنے پر اکساتا ہے۔ بیانیہ میں کرنٹ ہے اور زبان میں کشش۔ یہ سب مل کر افسانے کے معیار کو بلند کرتے ہیں۔ فکرکی شمع پہروں جلتی ہے تب جاکرکسی فن پارے کی راہیں منور ہوتی ہیں۔تحت الشعور میں متعددحس زیر سطح ہوتی ہیں۔کسی فن پارے کے مطالعے سے ان میں کون بیدار ہوتی ہے، یہ فن پارے کے خالق کی ہنرمندی پر منحصر ہے۔زاہد مختارکاافسانہ ’’دائرے ‘‘علامت کے دائرے میں ہے ۔علامتی افسانے کاڈیمانڈ یہی ہوتاہے کہ کون قاری کتنی دور کی کوڑی لاتاہے۔اگرافسانے کی چونٹیوں کو انسان کی خواہشات یا پھرمعاصرزندگی کی دہشت ناکی کی علامت پہنادیں تو افسانے کا قفل کھلتاہے جس میں ایک عام انسان بے بس اور خوف زدہ زندگی کی الجھنوں کو کاٹ رہا ہے۔افسانے کا مرکزی کرداربچپن سے نفسیاتی الجھنوںکا شکارہے۔شہادت کی انگلی سے کھینچے گئے دائرے کوچنوٹیوں کا عبور کرجانا عہد رواں میں انسان کی بے بسی کو درساتاہے۔افسانے کے اختتام پرقاری کو محسوس ہوتاہے جیسے اس کو بھی دو آنکھیں گھوررہی ہیں۔ہمارے معاشرے میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جوجسمانی طورپر معذور ہوتا ہے۔وہ غیر معذوروں کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتا ہے اور من ہی من میں معذوری کی کسک کو محسوس کرتا ہے۔اس احساس کو اجاگر کرنے کے لیے اعجازعبیدنے افسانہ’’پارک میں‘‘کو احاطہ تحریر میں لایا ہے ۔اس افسانے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اگر ہم پارک کو دنیا اور معذور شخص کو اس طبقے کا نمائندہ فرض کرلیں جو زندگی کی چھو ٹی چھوٹی خوشیوں کو حاصل کرنے کے لیے بھی زندگی کی دوڑمیں بہت پیچھے رہ گئے ہیں تو افسانے کے باطن میں پوشیدہ اس پیغام کی ترسیل ہوتی ہے جس مقصد کے لیے افسانے کا تانا بانا بنا گیا ہے۔اس افسانے کے بافتی نظام میں منظر نگاری کا فیصد زیادہ ہے جو چھوٹی چھوٹی اکائی کے طور پر جب متحد ہوتی ہیں تو وحدت تاثر قاری کو اپنی گرفت میں لیتا ہے اور قاری تھوڑی دیر کے لیے اسی کرب کومحسوس کرنے لگتا ہے جس کے سبب پارک میں افسانے کا معذور کردار اپنے دل کو مسوس کر ویل چیئرسائیکل کی ہنڈل کو موڑ لیتا ہے۔افسانے سے معذوروں کے لیے ہمدردی کی لہر اٹھتی ہے۔
المختصر معاصر زندگی کے نئے حقائق ،اس کے المیے،اس کے درپیش مسائل پر سنجیدہ مکالمے سے ،اکیسویں صدی کے اردو افسانے کے کردار مد مقابل ہیں جو اپنی وجودی صورت حال کوسادہ بیانیہ اسلوب میں آشکارہ کرتے ہیں جس کے کینوس پر استعارے مثل ستارے اپنی روشنی چاروں طرف بکھیرتے ہیں۔روشنی کی یہ شعاعیں قاری کے ذہن وفکر پر موضوع سے منسلک ایک وسیع کینوس پر بحث کے درکو واکرتے ہیں۔ایسے میںبیسویں صدی کو الوداع کہے ہوئے کم وبیش چوبیس برس ہوگئے۔ان چوبیس برسوں میں اردو افسانے کے موضوعات میں کوئی خاص فرق نہیں آیا ہے۔اب بھی وہی موضوعات گردش میں ہیں جو ہمیں بیسویں صدی سے وراثت میں ملے لیکن شعلہ بارعصری موضوعات جیسے کروناکال،ماب لنچنگ،بابری مسجدکا انہدام اور اس سے پیداشدہ مسائل،ممبئی بم بلاسٹ اور اس کے اثرات،فرقہ واریت کے تازہ صورت حال،اقلیت کے سنگین مسائل،ٹیون ٹاور کی زمیں بوسی اور اس سے پیداہونے والے دیگر مسائل،تھرڈ جینڈرکے مسائل اورمعاشی ہجرت کے کرب یا پھر مذہبی جنونیت کو اردو افسانے نے اپنے دامن میں سمیٹ کرUpdateرہنے کی کوشش کی ہے۔ نئی صدی میں منظر عام پر آنے والے افسانوں میں ایسے کرداروں کے تراشنے کی کوشش ہورہی ہے جن کو ہم منگو کوچوان،لاجونتی،کالوبھنگی کی صف میں کھڑاکرسکیں ۔تب یہ ہے کہ اسلوب کی سطح پر اس صدی کا افسانہ روایت سے ہٹ کر ارتقائی مرحلے کو طے کیا ہے اور علامت نگاری،تجریدنگاری سے دامن جھٹک کر آگے بڑھ گیا ہے جس میں بیانیے کی خوشبو چاروں طرف بکھری ہے۔
نئی صدی کے افسانے ٹوٹ پھوٹ کے شکار نہیں ہیں۔ نہ ہی کرداروں کی شناخت کی گمشدگی کا مسئلہ ہے اور نہ ہی کردار تذبذب کے بھنور میں ہیں،ہاں الجھنوں کے گرداب میں وہ محصورہیں۔ تخلیقی سطح پرافسانے کی شعریات کو ترجیح دی جارہی ہے۔ان افسانوں میں واقعیات کی ماجرا سازی کے بیانیے میں ایک مدھر میٹھاس ہے ۔یہ میٹھاس جہاں جمالیاتی حس کو تسکین پہنچاتی ہے وہیں اس کے موضوعات بصیرت اور بصارت دونوں کے درواکرتے ہیں۔افسانے میں اب بھی مکالمہ نگاری ہورہی ہے اور استعارے کو فروغ حاصل ہے۔کردار وںکی تعداد کے اعتبار سے کینوس محدود ہے۔مقامی زبان کو فوقیت مل رہی ہے اور ہندی بول چال والے شگفتہ الفاظ کی بازگشت اردو افسانے میں سنائی دے رہی ہے۔ہندی اور اردو کایہ رس امرت تب بن جاتاہے جب اردو افسانے کے قالب میں ڈھلتاہے اور امرت راکشش اوردیوتاکون نہیں پینا چاہتاہے؟
ماحصل:
(۱)سادہ بیانیہ کوفوقیت حاصل ہے۔
(۲)موضوعاتی سطح پراردو افسانے کارجحان معاشرتی وسماجی زندگی کے مسائل ہیں۔
(۳)کردارنگاری اورمنظرنگاری پرزورزیادہ دیاجارہاہے۔
(۴)ان افسانوں کے کرداروں میں احتجاج کی لے بہت کم ہے۔
(۵)کرداروں کی تعدادچارسے زیادہ اتفاقاًہوتاہے جومتحرک ہیں۔
(۶)بین المتونی کارجحان تقریباًصفر کے برابر ہے۔
(۷)سماجی تہذیبی ومعاشرتی زندگی کے تصادم کے المیے افسانوں میں بیان ہوئے ہیں۔
(۸)ان افسانوں میں مثبت اور منفی دونوں نوعیت کے کردار متحرک ہیں۔
(۹)افسانے میں نفسیاتی الجھنوں کے شکار کردار تراشے جارہے ہیں جو معاصرزندگی کی ترجمانی کرتے ہیں۔
(۱۰)افسانہ اپنے متون میں کرداروں کے نرم گرم سانسوں کی آہٹ کو محفوظ رکھنے میں کامیاب ہے۔
٭٭٭
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page