ڈاکٹر محمد شاہنواز عالم
اسسٹنٹ پروفیسر
شعبہ اردو ،ملت کالج دربھنگہ
جوگندر پال اردو کے ایک ایسے افسانہ نگار ہیں جو کبھی بھی کسی خاص دھارے میں باقاعدگی سے شامل نہیں رہے. اپنے افسانوں کے متعلق ان کا کہنا ہے کہ میری کہانیاں مجھ پر اس طرح بیتی ہیں کہ اپنے کرداروں پر مجھے اپنے آپ کا گمان ہوتا ہے. ظاہر ہے کہ ان کا یہ اعتراف اس بات کی دلیل ہے کہ ان کی کہانیوں میں انسان کی پوری زندگی سمائی ہوئی ہے. لہٰذا عام انسانوں کےمسائل، انسانی دکھ درد، سماجی، تہذیبی اور اخلاقی اقدار سے لگاؤ اور ان کی بے حرمتی پر اظہارِ افسوس، سچائی اور جھوٹ کی آپسی کشمش، معاشرتی ٹکراؤ، ہوس اور معصومیت کے تصادم سے پیدا ہونے والے مسائل وغیرہ وہ عناصر ہیں جنہوں نے جوگندر پال کے افسانوں کو کافی کشادہ کر دیا ہے. ‘گرین ہاؤس ، کھودو بابا کا مقبرہ، گاڑی، جادو، بیک لین، تخلیق، بے مراد، زوال، مہاجر، جے شری رام اورپناہ گاہ ان کے ایسے افسانے ہیں جن میں جذبہ انسانیت کی ساری رنگا رنگی دیکھنے کو ملتی ہے.پیش ہے’ پناہ گاہ ‘کا فکری جائزہ جو فرقہ پرستی اور احیا پرستی کی نفی پر مبنی ایک بہترین افسانہ ہے.
افسانہ پناہ گاہ میں بنیادی طور پر جذبہ رواداری کو پیش کیا گیا ہے. اور یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ جذبہ رواداری ہی ملک کی بھلائی اور سلامتی کا ضامن ہے. اسی جذبہ رواداری میں انسان دوستی اور انسانیت پروری کا راز پوشیدہ ہے. مذہبی عقائد کو اس میں حائل نہیں کرنا چاہیے. کیونکہ جب کسی واقعے کے تحت ایسا ہوتا ہے تو رواداری کا وہ جذبہ مفقود ہو جاتا ہے جو ہندوستانی تہذیب کی اعلیٰ خصوصیت سمجھی جاتی ہے. لہٰذا افسانے میں ‘بھروسے’ جیسے فرقہ پرست کردار کے ذریعہ اس جذبہ رواداری پر جو آنچ آتی ہے، اس پر افسانہ نگار نے آنسو بہائے ہیں، افسوس ظاہر کیا ہے
افسانے میں جن کرداروں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں فتو، ویرو اور میراثن کو مرکزی حیثیت حاصل ہے کہ پوری کہانی ان تین کرداروں کے گرد گھومتی ہے. دوسرے کرداروں مثلاً بھروسے، مرزا، سلطان شاہ اور کنس راؤ کی حیثیت ضمنی ہے. تاہم ان سب کرداروں کا عمل افسانے کے مرکزی کردار کے ساتھ اس طرح استوار ہے کہ انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا. یہ سارے کردار ایک ہی بستی یعنی تارا پور کے باشندہ ہیں جو مختلف عقیدے اور پیشے سے تعلق رکھتے ہیں. مرزا صاحب زمیندار ہیں. سلطان شاہ حکیم ہیں. کنس راؤ گاؤں کا سرپنچ ہے. میراثن ایک معمولی عورت ہے اور اپنے اندر خلوص و محبت اور انسانی ہمدردی کا بحر بیکراں جذبہ اپنے سینے میں رکھتی ہے. اور پنڈت کا لڑکا بھروسے ہے جو اپنی ذاتی دشمنی کی بنا پر گاؤں میں فساد برپا کرنے کے درپے ہے. کیونکہ وہ یہ پسند نہیں کرتا کہ فتو مسلمان ہو کر ایک ہندو لڑکی ویرو سے شادی کر لے. دراصل بھروسے خود ویرو سے شادی کرنا چاہتا ہے.
جیسا کہ ہندوستانی معاشرے میں یہ روایت پائی جاتی ہے کہ شادیاں اکثر اپنے ہی مذہب میں ہوا کرتی ہے. لیکن جوگندر پال نے اس افسانے میں اس روایت کو توڑنے کی کوشش کی ہے. لہٰذا ویرو اور فتو دونوں دو مذہب سے تعلق رکھتے ہیں لیکن پھر بھی دونوں کی شادی ہوتی ہے. اس لئے کے دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں. دراصل ویرو اور فتو کی محبت اور ان کی شادی کے حوالے سے جوگندر پال اس نظریے کی ترجمانی کرتے ہیں کہ محبت اور شادی کلی طور پر فرد کا ذاتی معاملہ ہے اور انفرادی حق ہے. اجتماعیت کا اس میں عمل دخل نہیں ہونا چاہیے. لیکن روایتیں کس طرح فرد کی آزادی پر پابندی عائد کرتی ہے اس نکتہ کو بھی جوگندر پال نے پیش کیا ہے. لہٰذا ویرو اور فتو کی محبت سماجی اقدار کی عین مطابق بحث و مباحثے کا موضوع بنتی ہے اور ہندوؤں مسلمانوں کے لئے ایک مسئلہ بن کر ابھرتا ہے. یہاں میراثن کے کردار کے توسط سے جوگندر پال اس روایت پرستی پر چوٹ کرتے ہیں. لہذا گاؤں میں ویرو اور فتو کی محبت کے متعلق جب چہ میگوئیاں ہوتی ہیں تو میراثن حکیم صاحب کے نزدیک دونوں کی انفرادی آزادی کے جواز میں یہ دلیل پیش کرتی ہے.
"آپ ہی سوچو ہکیم جی. ہماری دنیا میں اتنی کھراب بیماریوں والے لوگ سانس لیتے ہیں، پھر بھی اللہ پاک کی ہوا ساپھ کی ساپھ رہتی ہے. اور فتو اور ویرو کے سانس تو اتنے ساپھ ہیں کہ مردوں میں بھی جان پڑے. ہندو اور مسلمان کھا مکا آپس
میں بگڑ رہے ہیں. موہبت کرنے والوں کو چپ چاپ موہبت سے جینے دیں. ”
(افسانہ – ‘پناہ گاہ’ مجموعہ ‘بے ارادہ – جوگندر پال، زم زم بک ٹرسٹ، دہلی، 1981، صفحہ – 42)
ایک میراثن ہی نہیں گاؤں کےدوسرے لوگ بھی اس واقعے کو ویرو اور فتو کا ذاتی معاملہ سمجھتے ہیں اور اس حق میں ہیں کہ دونوں کی شادی ہو جائے. کنس راؤ سرپنچ انہیں لوگوں میں سے ہے. لہٰذا فتو اور ویرو کے محبت کی خبر اس کو ملتی ہے تو وہ قطعی جزبز نہیں ہوتا. وہ سیدھا حکیم سلطان شاہ کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے "کسی بات کی چنتا مت کرو سلطان شاہ، فتو اکیلے رکھے تیلی کا بیٹا نہیں ہماری ساجھی دولت ہے. اور پھر کنس راؤ ہی ویرو کے باپ کو سمجھاتا ہے کہ بات ہندو اور مسلمان کی نہیں ہے. فتو اگر مسلمان ہوا تو کیا ہوا وہ ویرو سے محبت کرتا ہے. بالآخر فتو اور ویرو کی شادی ہو جاتی ہے. کنس راؤ کی رواداری پر حکیم سلطان شاہ کا کلمہ شکرانہ بھی آپسی بھائی چارگی اور رواداری کی تشریح ہے.
"ہزار آفریں ہے اپنے کنس راؤ پر، حکیم نے مرزا کی جانب جھول کر کہا.جو دونوں کی شادی امن سے انجام پا گئی. ورنہ خدانخواستہ گڑبڑ ہو جاتی تو مسلمان تو آٹے میں نمک کے برابر تھے. مگر آٹے میں نمک رچ بس جاتا ہے سلطان شاہ تو آٹا نمک سے الگ ہوتا ہے نہ نمک آٹے سے ہاں آپس میں رچنا بسنا ہو جائے تو سبھی کا ذائقہ ایک ہی ہو جاتا ہے ”
(افسانہ ‘پناہ گاہ’ مجموعہ ‘بےارادہ – جوگندر پال ،دہلی – 1981،صفحہ-44)
مرزا اور سلطان شاہ کی یہ گفتگو بلاشبہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین پائی جانے والی بھائی چارگی اور ان کی یکجہتی کی بلیغ وضاحت ہے. مذہب مختلف، رسم و رواج مختلف، زبان مختلف. تاہم ان سب کے باوجود سماجی سطح پر اس طرح شیروشکرکی طرح ملے ہوئے ہیں کہ دوئی کا احساس نہیں ہوتا. دراصل یہ رواداری اور جذبہ خلوص و محبت کی دین ہے جو یہاں کے لوگوں کی سرشت میں داخل ہے. جوگندر پال واقعے کے بیان میں کہیں بھی اس حقیقت کو نہیں بھولتے. لہذا نازک موقعوں پر بھی افسانے کے بیشتر کرداروں میں رواداری اور وسیع المشربی کا ربط و تسلسل ٹوٹتے نہیں پاتا. حتیٰ کہ پنڈت کا لڑکا بھروسے حضرت شاہ کے میلے کے دن ویرو اور فتو کو اپنے چند ساتھیوں کی مدد سے قتل کر دیتا ہے اور خود بھی اپنی جان گنوا بیٹھتا ہے،اس وقت بھی تاراپور گاؤں کے افراد مذہب و ملت سے بے پروا ہو کر اس سانحہ پر آنسو بہاتے ہیں. صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ہندو بھی بھروسے کو ذمہ دار
ٹھہراتے ہیں. لیکن بھروسے مرتے مرتے فساد کی آگ لگا چکا تھا اور اس کی لپٹیں بڑھتی جا رہی تھیں.
فسادات سے نپٹنے کے لئے سرکار نے سخت کرفیو نافذ کر دیا. لیکن یہ طریقہ کارگر نہ ہوا. آخر میں حکومت نے مسلمانوں کی حفاظت کے پیش نظر یہ فیصلہ لیا کے ان کے لئے راجدھانی کے قریب ایک گاؤں میں کیمپ کھول دیا جائے. اس فیصلے پر عمل بھی کیا گیا. گاؤں سے تمام مسلمانوں کا قافلہ روانہ ہوا. جب مسلمان جانے لگے تب گاؤں کے سر پنچ کنس راؤ اور کئی دوسرے ہندو بزرگ ان کو وداع کرنے آئے. جوگندر پال نے یہاں باور کرایا ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے دل میں خلوص و محبت کا رشتہ بہت ہی پاک اور منزہ ہے.
"سرپنچ نے پڑیاں اپنی جیب میں رکھ لی مجھے تو لگ رہا ہے شاہ کہ ہمارے باپ دادا سبھی مرے ہوئے بزرگ آپ لوگوں کے ساتھ ہی گاؤں سے جا رہے ہیں. رکھے تیلی کے بڈھے باپ کے پوپلے منھ سے بے اختیار نکل گیا. مگر لالہ ہم اپنے بچے یہیں قبرستان میں چھوڑے جا رہے ہیں، ان کا خیال رکھنا .کنس راؤ نے بوڑھے تیلی کا دکھ محسوس کرتے ہوئے جواب دیا. "میرا جی تو چاہتا ہے بھائیا، اپنے ہی پیٹ میں چھرا گھونپ کر ہندوؤں سے تمھارا بدلہ چکا دوں.”
افسانے کے اس جائزے کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ ‘پناہ گاہ’ ہندوستانی تہذیب کی اس حقیقت کا اشاریہ کہ اس ملک کی بنیاد میں مختلف مذہبی گروہوں کے درمیان ایک خاموش معاہدہ رواداری چلا آرہا ہے. جسے ہزاروں سال کے تجربے اور مصلحت کی بنا پر جنم دیا ہے. مگر اس صورتحال میں متضاد عناصر بھی رہتے ہیں جو خلفشار پیدا کر کے اس حقیقت پر کاری ضرب لگانے کی کوشش کرتے ہیں. جوگندر پال کا کمال یہ ہے کہ ان دو متضاد عناصر کے درمیان ایک ایسی صورتحال کو پیش کیا ہے جہاں رواداری، بھائی چارگی اور محبت کا مشترکہ جذبہ بہرحال تمام نشیب و فراز سے گزر کر قائم و ائم رہتا ہے.
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page