انٹرویو نگار : علیزے نجف
انسان اپنی پہچان کو لے کر ہمیشہ سے ہی حساس رہا ہے اس پر ہر دور میں بات ہوتی رہی ہے ، انسانی شناخت حوالے بھی رکھتی ہے اور مرکزیت بھی، کچھ حوالے وراثت میں ملتے ہیں اور کچھ مرکزی حوالوں کی تشکیل خود انسان کرتا ہے۔ اس وقت میرے پیش نظر ایک ایسی شخصیت کا ذکر کرنا مقصود ہے جو دونوں ہی اعتبار سے معتبر حوالے رکھتی ہیں، وہ ہیں اردو دنیا کے معتبر جلیل القدر شاعر فیض احمد فیض کی بڑی صاحبزادی سلیمہ ہاشمی صاحبہ، ایک طرف فیض احمد فیض کا نام ان کی شناخت کو معتبر بناتا ہے وہیں دوسری طرف یہ پاکستان کی مایہء ناز آرٹسٹوں میں سر فہرست ہیں، انھوں نے پاکستان کے نامور کالج "نیشنل کالج آف آرٹس” میں مسلسل تیس سال تک آرٹ کی استاد کے طور پر خدمات انجام دی ہیں اور اسی کالج میں چار سال تک پرنسپل بھی رہیں اس کے بعد تقریبا دس سال تک ایک پرائیویٹ کالج میں آرٹ کے شعبے کی سربراہی کی، ان کے آرٹ کو بین الاقوامی سطح پہ شہرت حاصل ہے، انھوں نے دنیا کے مختلف خطوں میں اپنے فن سے متعلق لیکچرز بھی دئے اور کئی بین الاقوامی آرٹ شوز کا انعقاد بھی کیا، پاکستان کی خواتین آرٹسٹوں کو دنیا بھر میں متعارف کروایا ، 14 اگست 1998ء کو حکومت پاکستان نے ان کی قلمی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا ۔آرٹ اینڈ ایجوکیشن کے لئے پرائیڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیا ۔2012میں’’وویمن آف انسپریشن ایوارڈ ،،کے لئے بھی منتخب کی گئیں 2013میں ایک مختصر دورانیے کے لیے پنجاب کی نگراں کابینہ میں بھی شامل رہیں جبکہ 2016یں پروفیسر سلیمہ ہاشمی کو برطانیہ کی باتھ اسپا یونیورسٹی کی جانب سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا گیا۔
ایک آرٹسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ یہ چار مستند کتابوں کی مصنفہ بھی ہیں، آرٹ کے علاوہ انھیں سیاست سے بھی کافی دلچسپی ہے کیوں کہ ان کا کہنا ہے سیاست ہر فرد سے بالواسطہ یا بلا واسطہ جڑی ہوتی ہے۔ سلیمہ ہاشمی مجموعی طور سے ایک متحرک فعال شخصیت ہیں، میں نے ان سے انٹرویو لیا کئی سارے سوالات کئے جس میں ان کے والد فیض احمد فیض اور والدہ ایلس فیض کا بھی ذکر شامل رہا، ان سے ان کے بچپن، مزاج، آرٹ کے علاوہ فیمینزم، مذہبی شدت پسندی، ڈجیٹل دور میں آرٹ کا مستقبل اور فیض کی شاعری سے متعلق بھی کئی اہم سوالات کیے جن کا انھوں نے بہت خوش اسلوبی کے ساتھ جواب دیا، اس گفتگو کا ماحصل اس وقت آپ کے سامنے ہے امید ہے آپ لوگ اس سے محظوظ ہوں گے۔
علیزے نجف: آپ پاکستان کی مایہء ناز آرٹسٹ ہیں اور معتبر قدآور شاعر فیض احمد فیض کی بیٹی ہیں ان دو تعارفی حوالوں نے عوامی زندگی میں آپ کی شخصیت پہ کس طرح کے اثرات مرتب کئے اور کون سا حوالہ کس پہ غالب رہا؟
سلیمہ ہاشمی: میری زندگی کا ایک بڑا حصہ تعلیم و تعلم سے متعلق رہا ہے یعنی آرٹ ایجوکیشن سے، 1970 سے باقاعدہ میں نے این۔ سی۔اے۔ یعنی نیشنل کالج اینڈ آرٹ میں پڑھانا شروع کیا ، تیس سال مسلسل پڑھاتی رہی، پھر اسی کالج میں چار سال میں پرنسپل بھی رہی اس دوران اگر چہ میرے پڑھانے کا سلسلہ منقطع ہو گیا تھا لیکن میں اس دوران بھی ڈیزائن سیمینار کے کلاسز لیتی رہی
اگر آج پاکستان کا آرٹ سے متعلق ایک بڑا طبقہ یعنی آرٹسٹ و آرکیٹیکچر ڈیزائنر مجھے جانتے ہیں تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان میں سے اکثر میرے اسٹوڈنٹ رہے ہیں جنھیں میں نے نہیں پڑھایا وہ مجھ سے چاہتے رہے کہ میں ان کے کام پر تنقید اور ان کے فن پر گفتگو جاری رکھوں۔ یہ میری زندگی کا ایک حصہ ہے دوسرا حصہ کچھ اس طرح شروع ہوا کہ جب میں این۔ سی۔ اے۔ سے ریٹائر ہو رہی تھی تو ایک نئی پرائیویٹ یونیورسٹی شروع ہو رہی تھی تو اس کے ذمے داران نے مجھ سے درخواست کی کہ میں آرٹ کے شعبے کی سربراہی کروں میں نے قبول کی، اس کی ذمےداری تقریبا بارہ سال سنبھالی، آج الحمدللہ وہ ایک معتبر ادارے کی حیثیت رکھتا ہے، اہم بات یہ ہے کہ پورے جنوبی ایشیا سے طلبہ اسکالرشپ پہ وہاں آتے رہے ہیں مین نے انھیں اس فن کی باریکیوں سے روشناس کرایا ، یوں کہہ لیں کہ اس کو پروان چڑھانے میں میں نے ایک اہم کردار ادا کیا تھا، رہی بات میرے والد یعنی فیض احمد فیض سے نسبت کی تو بےشک میں فیض احمد فیض کی بیٹی ہوں جو لوگ مجھے بطور آرٹسٹ نہیں جانتے ان کے لئے میرے والد صاحب کا حوالہ قابل ذکر ہوتا ہے ، میرے نزدیک استاد ہونا اور لوگوں کی زندگیوں میں ویلیو ایڈ کرنا یہ زیادہ اہمیت کا حامل رہا ہے، فیض کی بیٹی ہونا یہ میرے لئے بہت پیار کی بات ہے جیسا کہ فیض نے کہا ہے "آئے جو آئے دل کشادہ رکھتے ہیں” میں بھی اپنا دل کشادہ رکھتی ہوں ، میرے آرٹ کے فن پر فیض کی شاعری کا بہت بڑا اثر رہا ہے ۔
علیزے نجف: فیض احمد فیض اور ایلس فیض کو آپ نے بطور والدین کیسا پایا خود آپ کی شخصیت پر ان دونوں میں سے کس کا اثر زیادہ رہا ہے؟
سلیمہ ہاشمی: بطور والدین فیض احمد فیض اور ایلس فیض کا بہت گہرا اثر رہا ہے، مزاج کے اعتبار سے دونوں بہت مختلف تھے، میری والدہ ایک منظم شخصیت کی مالک تھیں وہ بہت نفاست کے ساتھ چیزوں کو مرتب کرتی تھیں اور پوری منصوبہ بندی کے ساتھ معاملات کے ساتھ ڈیل کرتی تھیں۔ میرے والد صاحب کا ماننا تھا کہ بچے کی شخصیت کی تشکیل میں والدین کے لیکچر سے زیادہ ان کا عمل زیادہ موثر ہوتا ہے، ہمارے ساتھ ان کا بہت کم وقت گذرا جب انھیں ہمارے ساتھ ہونا چاہئے تھا وہ جیل میں چلے گئے ایسے میں ماں باپ دونوں کا رول ایلس نے نبھایا اس وقت میری عمر تقریباً آٹھ سال تھی میں نے ان کی جدوجہد دیکھ کر یہ جانا کہ ایک عورت کو گھریلو معاملات کے ساتھ جب معاشی ذمےداریاں اٹھانی پڑتی ہیں تو اسے کتنا مضبوط ہونا پڑتا ہے ہماری والدہ نے نوکری کرتے ہوئے بہت بہادری کے ساتھ ہم دونوں بہنوں کی پرورش کی، ممکن حد تک ہمارے سارے شوق پورے کئے مجھے برش، پینٹ، ڈرائنگ بک اور کتابیں وغیرہ سب مہیا کئے، جہاں تک رہی بات کہ میری شخصیت پہ کس کا اثر زیادہ رہا تو ڈسپلن وغیرہ میں نے اپنی والدہ سے کیا اور باقی مزاج کے معاملے میں میں اپنے ابا پہ گئی ہوں مجھے جلدی غصہ نہیں آتا، کوئی کچھ بھی کرنے کو کہے میں فورآ تیار ہو جاتی ہوں، خاموش طبع متحمل مزاج ہوں۔ میرے والد اور والدہ دونوں ہی محنتی اور بامقصد زندگی جینے کے عادی تھے یہ مشترکہ صفت میری بھی شخصیت کا حصہ ہے۔
علیزے نجف: آپ کا بچپن کیسا گذرا کیا آپ بچوں والی شرارتیں کرتی تھیں ؟
سلیمہ ہاشمی: میں بلکل بھی شرارتی بچی نہیں تھی، بلکل خاموش طبع، اپنے آپ سے بات کرتے رہنا، اپنے خیالات میں گم، مجھے گھر والے اور رشتے دار اللہ میاں کی گائے کہتے تھے، کتابیں پڑھنا، اپنے آپ میں مگن رہنا پسند تھا، مجھے کہیں آنا جانا بلکل اچھا نہیں لگتا تھا، گھر میں مہمان آتے تو میں خود کو باتھ روم میں بند کر لیتی تھی، خلوت پسند شرمیلا مزاج تھا، جب ذرا بڑی ہوئی تو درختوں پر چڑھنے کا شوق ہوا، محلے کے بچوں اور کزنز کے ساتھ وہ کھیل بھی کھیلے جو اس وقت دوسرے بچے کھیلا کرتے تھے، سپورٹ کا شوق نہیں تھا، ٹیبل ٹینس کھیلنا سیکھا تھا۔ اسی طرح میرا بچپن گزرا عام بچوں کی طرح میں نے کبھی زیادہ شرارتیں نہیں کیں۔
علیزے نجف: آپ مصوری کے فن میں کمال رکھتی ہیں رنگین پینسلوں اور رنگوں سے کھیلتے ہوئے کب آپ کو محسوس ہوا کہ آپ کو اسے بطور فن یا مشغلے کے اپنا لینا چاہئے پھر آپ کی پہلی باقاعدہ پینٹنگ کی تھیم کیا تھی ؟
سلیمہ ہاشمی: جب ہم اسٹوڈنٹ ہوتے ہیں اور خواہ کسی بھی شعبے میں ہوں اس میں کوئی چیز مکمل نہیں ہوتی، کئی ساری پینٹنگز بنتی ہیں جو بہتر سے بہتر ہوتی جاتی ہیں اس طرح ہم سیکھ رہے ہوتے ہیں، اس لئے ایسے میں ہم یہ کبھی نہیں سوچ رہے ہوتے کہ یہ باقاعدہ پہلی مکمل تصویر ہے، جب ہم سٹوڈیو میں داخل ہوتے ہیں پینٹ برش اٹھا کر ہم اپنے اندر موجود فن کو برتنا شروع کرتے ہیں تو یہ سفر مرحلہ وار آگے بڑھتا جاتا ہے اس لئے مجھے کوئی یاد نہیں کہ یہ میری پہلی باقاعدہ پہلی تصویر ہے، اس دوران میں نے کئی تصویریں بنائیں، ایک تصویر میں نے اپنی بہن منیزہ کی بنائی تھی جو اس وقت دلی سے نکلنے والے ایک رسالے میں شائع ہوئی تھی جس پر شنکرس ویکلی کی جانب سے انعام بھی موصول ہوا اور اخبار میں میری تصویر بھی لگی تھی جسے اماں نے ابا کو بھیجی جو کہ اس وقت جیل میں تھے پھر انھوں نے مجھے خط لکھا کہا کہ بھئی لوگ تو پیسے دے کر اپنی تصویریں لگواتے ہیں لیکن تمھارے فن کی وجہ سے اتنی کم عمری میں ہی تمھاری تصویر اخبار میں آگئی۔ آپ اسے میری پہلی باقاعدہ مکمل تصویر سمجھ سکتی ہیں ۔
علیزے نجف: پینٹنگ کرتے ہوئے کیا آپ کے لئے کچھ مخصوص موڈ یا ماحول کا ہونا ضروری ہوتا ہے اپنے اندرونی احساسات اور خلفشار کو رنگوں کی تہوں اور آرٹسٹک لکیروں میں سمونے کے بعد کیا آپ مطمئن ہوجاتی ہیں یا ایک تشنگی کا احساس باقی رہتا ہی ہے؟
سلیمہ ہاشمی: تشنگی کسی بھی تخلیقی کام میں بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے وہ اس لئے کہ جب آپ کسی کام کو کرنا شروع کرتے ہیں تو آپ کے اندر یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ آپ کو مزید ریاض کرنا ہے کیوں کہ کوئی بھی فن مشق یا ریاض کے بغیر کبھی پروان نہیں چڑھتا، اس لئے دل کرے یا نہ کرے یہ کام کرنا ہی پڑتا ہے، میں چونکہ پڑھاتی بھی تھی اس لئے میرا وقت ذرا کم یاب اور مجھے عزیز ہوتا تھا، سال میں ایک یا دو مرتبہ ضرور وقت نکالتی ہوں کہ میں بیٹھ کر یہ سارے کام کر سکوں ، کوئی مخصوص ماحول ضروری نہیں ، ہاں تنہائی ضروری ہوتی ہے پس منظر میں اگر کوئی میوزک چل رہا ہو تو بہت اچھا لگتا ہے، ایک وقت تھا جب میں کشوری امنکر کے بھجن بار بار سنا کرتی تھی اس قدر کہ کبھی کبھی گھر والے کہنے لگتے کہ بھئی اب اسے بدل دو ، مصوری کرتے ہوئے میوزک بہت ضروری نہیں صرف تنہائی درکار ہوتی ہے۔
علیزے نجف: اپ آرٹسٹ ہی کیوں بنیں کیا اوروں کے والدین کی طرح کبھی آپ کے والدین نے ڈاکٹر انجینئر اسکالر بنانے کی بات کی تھی؟
سلیمہ ہاشمی: ہمارے گھر میں مکمل آزادی تھی کہ ہم جو چاہیں بنیں سب کچھ ہمارے ذوق کے اوپر منحصر تھا اس لئے کبھی ہمارے والدین نے نہیں کہا کہ بھئی انجینئر، ڈاکٹر بن جاؤ، وہ خود بھی نہیں تھے تو ہم سے بھلا کیا کہتے (مسکراہٹ) ہاں ان کا زور بس اس بات پر تھا کہ جو کام کرنا چاہ رہی ہو وہ کل کو خود کفیلی میں معاون ہوگا یا نہیں تاکہ کسی کی محتاجی نہ رہے، ہم صرف دو بہنیں تھیں بھائی کوئی نہیں تھا تو ایسے میں ضروری تھا کہ ہماری تربیت اس نہج پہ کی جائے اس لئے ہمارے والدین نے اس اصول پر ہمارے ذوق کو پرکھتے ہوئے ہمیں آگے جانے کی پوری آزادی دی۔
علیزے نجف: فیض احمد فیض کی شاعری شاہکار کی حیثیت رکھتی ہے کیا ان کی شاعری نے آپ کے آرٹ کو کبھی کسی طرح مہمیز دیا ؟
سلیمہ ہاشمی: جی فیض کی شاعری نے مجھ پہ بہت گہرا اثر مرتب کیا ہے کبھی ایسا ہوتا کہ کام کرتے ہوئے ان کا کوئی مصرعہ ذہن میں آ جاتا وہ ایک کیفیت پیدا کر دیتا جو کہ آرٹ پر کہیں نہ کہیں اپنا اثر ظاہر کر دیتا، لیکن اس طرح کبھی نہیں ہوا کہ میں نے کسی شعر کی تشریح کے لئے کوئی آرٹ بنایا ہو، فیض کی شاعری نے میرے فن کو مہمیز دی ہے اس نے میرے اندر کی کیفیت کو ایک واضح رخ دیا ہے، دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ ان اشعار کی چھاپ جزوی طور پر میرے فن میں موجود ہے وہ اس طرح نہیں کہ اسے کسی شعر کی وضاحت یا تمثیل کے طور پر دیکھا جائے۔
علیزے نجف: مصوری ایک خاموش زبان ہے آپ کو کیا لگتا اس خاموش زبان کو سمجھنے کے لئے سامنے والے کے اندر کیا کسی طرح کی خاص صلاحیت کا ہونا ضروری ہے؟
سلیمہ ہاشمی: مصوری بےشک ایک خاموش زبان ہے اس کے اپنے نشیب و فراز ہوتے ہیں ہر انسان اسے مختلف زاویہء نظر سے دیکھتا ہے، جب ہم میوزیم میں جائیں تو دیکھتے ہیں کہ لوگ کسی آرٹ کے پاس کھڑے ہو کر اپنے دوستوں اور عزیزوں سے اس پر تبادلہء خیال کر رہے ہوتے ہیں اس طرح وہ ایک دوسرے کے نظریوں کے مطابق اس تصویر کو دیکھ رہے ہوتے ہیں اور یہ لازمی نہیں کہ ہر کوئی خاموش ہو کر اس خاموش زبان میں موجود پیغام کو سمجھے، ہاں یہ ضرور ہے کہ تصویر کے ساتھ کوئی نہ کوئی تعلق بنانا ضروری ہوتا ہے اس میں آپ کا قوت مشاہدہ اور زندگی کے متعلق آپ کا مجموعی نظریہ ایک اہم کردار ادا کرتا ہے جو آپ کے احساس کو اس تصویر کے ساتھ ہم آہنگ کرنے میں معاون ہوتا ہے۔
علیزے نجف: یہ ایک ڈیجیٹل دور ہے جہاں پہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس وجود میں آ چکا ہے گرافک ڈیزائننگ ہی چار سو نظر آتی ہیں ایسے میں مصوری کا مستقبل انفرادی اور معاشرتی سطح پہ آپ کی نظر میں کیسا ہوگا ؟
سلیمہ ہاشمی: دیکھئے مصوری ارتقاء کی کئی منزلوں سے گذری ہے ایک زمانہ تھا جب آئل پینٹ نہیں ہوتے تھے ٹیمپورا میں کام ہوتا تھا اسی طرح پینسل کو لے لیجئے اس کی بھی عمر تقریبا دو سو سال ہے اس سے پہلے سٹک استعمال ہوتی تھی قدرتی چیزوں سے خدوخال بنائے جاتے تھے، یہ ارتقائی سفر ہے جو ابھی بھی جاری ہے۔ اب نئی نئی ٹیکنالوجیز آ گئی ہیں میٹیریلز بدل گئے ہیں، خاص طور خواتین آرٹسٹوں نے تو مصوری کی دنیا ہی بدل دی ہے، اس بات کی بلکل بھی ضرورت نہیں ہے کہ آپ کے پاس رنگ اور کینوس ہوں۔ میری ایک ذہین آرٹ سٹوڈنٹ ہے جس نے انسانی بال سے اپنی تصویر بنائی ہے، انسانی ناخن سے باورچی خانے میں استعمال ہونے والی روزمرہ کی اشیاء سے بھی اس نے تصویریں بنائی ہیں۔ اس لئے یہ بات اب ثانوی حیثیت رکھتی ہے کہ مصوری کے لئے ایک خاص طرح کے میٹیریل کی ضرورت ہوتی ہے، رہی بات ٹیکنالوجی کی تو میں خود اپنے آرٹ میں ڈجیٹل تصویریں استعمال کرتی ہوں ایسا میں نے پچھلے تین چار سال سے کرنا شروع کیا ہے۔ کیوں کہ جب کسی فن میں کچھ نئے ایلیمنٹ داخل ہوتے ہیں تو پھر دل کرتا ہے کہ اسے بھی فنی کمال کے ساتھ استعمال کیا جائے، یہ ڈیجیٹل دور مصوری کے فن کے لئے بھی کافی معاون ہے اس سے نت نئے پہلو سے صورت گری کی جا سکتی ہے۔
علیزے نجف: آرٹ کے علاوہ آپ کو سیاست سے بھی گہری دلچسپی رہی ہے پاکستان کے قیام کے بعد اس کے پچھتر سالہ سیاسی نشیب و فراز کو آپ کس طرح دیکھتی ہیں آج کے پاکستان کو مستحکم ہونے کے لئے کن تین شعبوں میں کام کرنے کی اشد ضرورت آپ محسوس کرتی ہیں ؟
سلیمہ ہاشمی: جی بےشک سیاست میں صرف مجھے ہی نہیں بلکہ ہر شخص کو دلچسپی لینی چاہئے کیوں کہ ہماری زندگیوں کا دارومدار جن چیزوں پر ہے اس میں کہیں نہ کہیں سیاست بھی شامل ہے، ضروری نہیں کہ روایتی سیاست ہی سیاست ہو میرے خیال میں ہر چیز سیاست سے متعلق ہے کوئی بھی تخلیقی فن ہو اس کا سیاق و سباق اپنے ملک کی سیاست پر مبنی ہوتا ہے، پاکستان میں ہماری پوری عمر گذری ہے اس میں کئی طرح کے نشیب و فراز آئے ہیں جس کا اثر ہم سب کی زندگیوں پر پڑا ہے اقلیتی طبقہ، خواتین اور بچوں سمیت سبھی اس میں شامل ہیں ہر سوچنے و سمجھنے والا طبقہ مثلا رائٹر، مصور، فلم میکر، وغیرہ اس پر غور کرتا ہے اس کے منفی و مثبت پہلوؤں پر بات کرتا ہے۔
کسی بھی ملک کی ترقی میں ہر شعبہ اہم ہوتا ہے خواہ وہ تعلیم ہو یا معاشی استحکام، منظم سیاسی منصوبہ بندی ، ہیلتھ کیئر کا ڈپارٹمنٹ وغیرہ سبھی بنیادی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، پاکستان کو بھی ان تمام شعبوں پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے، جس کے اپنے چیلنجز ہیں کیوں کہ ملکی سطح پر تبدیلی لانا کوئی اتنا آسان کام تو نہیں ہو سکتا نا ، ان تمام باتوں میں سر فہرست بات میں یہ کہنا چاہوں گی کسی بھی ملک کی ترقی میں امن و سلامتی کلیدی کردار ادا کرتی ہے سب سے زیادہ اندرونی و بیرونی سطح پر امن اور انسان دوستی کی ضرورت ہے اس کے بغیر سب کچھ بےکار ہے۔
علیزے نجف: اس وقت ہمارے معاشرے میں مذہبی شدت پسندی عروج پر ہے اندھی تقلید و تنقید کا رویہ عام ہے اس پوری سچویشن کو آپ کس طرح دیکھتی ہیں خاص طور سے آپ مسلم نوجوان کو کیا مشورہ دینا چاہیں گی؟
سلیمہ ہاشمی : مذہبی انتہا پسندی یہ صرف ہندوستان و پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے، یہ عالمی مسئلہ ہے امریکہ و افریقہ میں بھی یہ شدت پسندی پائی جاتی ہے میرے خیال میں ایسا تب ہوتا ہے جب ہم اپنی زندگیوں سے مطمئن نہیں ہوتے اور کسی نہ کسی شخص یا نظریہ سے متاثر ہو کر اس کی انتہا پسندی کو اپنا لیتے ہیں، ان کی سوچوں میں نفرت اس طرح کوٹ کوٹ کر بھر دی جاتی ہے کہ وہ پھر سوچنے و سمجھنے قاصر ہوجاتے ہیں انسان دوستی ان کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی ۔ آپ نے نوجوان مسلمانوں کو نصیحت کرنے کی بات کہی تو اس پہ مجھے استاد شاکر علی صاحب کی بات یاد آگئی وہ کہتے تھے کہ بھئی میں کسی کو نصیحت نہیں کرتا میں نے تو اپنے بابا کی بھی نصیحت نہیں سنی تو میں کسی کو کیا نصیحت کروں، مجھے ان کی یہ بات بہت اچھی لگی، اس لئے نصیحت نہیں بس ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بھئی نفرت کرنا آسان ہے لیکن اس کا نتیجہ بہت خوفناک ہوتا ہے جب کہ محبت سے جو آسودگی پیدا ہوتی ہے اس کا کوئی نعم البدل نہیں، اگر آپ اسلام کو مانتے ہیں تو اس کے بنیادی تقاضے نرمی، کشادہ دلی، رواداری کو بھی اپنائیں دوسروں پر اپنے نظریات تھوپنے کے بجائے تحمل اور بردباری سے کام لیں۔
علیزے نجف: فیمینزم کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے ایک عورت کی خودمختاری کی راہ میں کیا ایک عورت ہی حائل ہے یا مرد کی حاکمانہ نفسیات ؟
سلیمہ ہاشمی: فیمینزم کے حوالے سے میری رائے یہ ہے کہ یہ ایک سوچ ہے جو یہ سمجھتی ہے کہ عورت کو بطور انسان زندگی کے ہر شعبے میں آگے بڑھنے کا موقع دیا جائے اور اس کی خود مختاری کو قبول کیا جائے، زندگی میں اس سے بڑی اور خوشی کی کوئی بات نہیں ہو سکتی کہ آپ کا ساتھی آپ کو زندگی میں آگے بڑھنے اور اپنا حصہ ڈالنے کا موقع دے، بےشک یہ سچ ہے کہ ایک زمانے سے دنیا کا نظام patriarchy کے تحت چلتا رہا ہے اسی کے مطابق قانون بھی بنے اور لوگوں کے معاملات طئے ہوئے ایسا نہیں ہے کہ اس میں صرف مرد ہی شامل رہے ہیں بلکہ کہیں کہیں عورتیں بھی اس کا حصہ رہی ہیں۔کیوں کہ اکثر عورتیں جو خود مختار ہوتی ہیں ان کے پاس طاقت ہوتی ہے تو وہ چاہتی ہیں کہ ہم مردوں کی طرح ہو جائیں وہ مردوں کی طرح تسلط پسند ہوجاتی ہیں اپنی رائے کو دوسروں پر تھوپنا شروع کر دیتی ہیں، یہ رویہ میرے خیال میں ناسمجھی پر مبنی ہے۔
فیمینزم ایک جمہوری نظریہ ہے جو یہ کہتی ہے کہ ہم جنس سے قطع نظر ہر فرد کی ذاتی آزادی کا احترام کریں، ایک فیمنسٹ عورت کبھی ایک عورت کے حق کو غصب نہیں کرے گی، ہمارے معاشرے میں عورت کو کبھی بھی خودمختاری حاصل نہیں رہی ہے اسے ہمیشہ مردوں کے مقابلے میں کم تر ہی سمجھا گیا ہے بےشک تبدیلی آئی ہے لیکن ایک لمبا سفر طئے کرنا ابھی باقی ہے۔
علیزے نجف: زندگی کے اس موڑ پر آ کر اگر آپ پیچھے مڑ کر دیکھیں تو آپ کو اپنی پرسنل و پروفیشنل زندگی سے جڑی کن کامیابیوں کو دیکھ کر ایک فخر اور خوشی کا احساس ہوتا ہے؟
سلیمہ ہاشمی : اس وقت تقریبا 82 سال میری عمر ہو چکی ہے جب پیچھے نظر دوڑاؤں تو پرسنل و پروفیشنل کامیابیوں پر کوئی فخر نہیں ہوتا ہاں شکر گزار ہوں اس بات کی کہ ایک بامقصد زندگی گزاری، اچھا جیون ساتھی ملا جتنا بھی وقت ان کے ساتھ گذارا بہت خوبصورت رہا، اس کے علاوہ بہت اچھے دوست ملے جنھوں اس زندگی کے سفر کو پرلطف بنایا، جب پیچھے مڑ کر دیکھیں تو روزمرہ کی زندگی میں سر ہونے والے معرکے اتنا یاد نہیں آتے جتنا وہ خوبصورت یادیں یاد آتی ہیں جنھوں نے زندگی کے لمحوں میں جان ڈال دی ہوتی ہے۔ یہ سارے خوبصورت چہرے جب یادوں میں ابھرتے ہیں تو ہونٹوں پر بےساختہ مسکراہٹ آ جاتی ہے، اس میں ہمارے دوست، سٹوڈنٹ، ابا کے دوست، اور خاص طور سے ہمارے اماں ابا جو کہ ایک دوسرے سے بہت مختلف تھے دونوں نے اپنے اپنے طریقے سے ہماری تربیت کی جس سے ہماری زندگی بہت آسان ہو گئی، جب پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں تو مجھے یہی کچھ یاد آتا ہے، یہ نہیں یاد آتا کہ میں نے فلاں تصویر بڑی اچھی بنائی تھی یا فلاں لیکچر بہت اچھا دیا تھا فلاں فلاں ایوارڈ ملا، جب ماضی میں پلٹ کر دیکھوں تو مجھے یہ بلکل نہیں یاد آتا۔
علیزے نجف: آپ ہمیشہ سے ایک خاموش طبع سنجیدہ انسان رہی ہیں آپ کن طرح کے لوگوں کے ساتھ وقت گزارنا پسند کرتی ہیں اپنی طرح سنجیدہ مزاج یا پھر ہر طرح کے لوگوں کے ساتھ؟
سلیمہ ہاشمی: ہاں میں خاموش طبع رہی ہوں مجھے یہ ورثے میں ملا ہے اپنے والد کی طرف سے کیوں کہ اماں تو بہت باتونی تھیں (مسکراہٹ) میرے خیال میں خاموش طبع ہونے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ جب کوئی ناگوار صورت حال سامنے ہو یا پھر کچھ ایسا ہو گیا ہو جو کہ پسند نہیں تو ایسے میں اپنے والد کی طرح میں ذہنی طور سے سوئچ آف ہو جاتی ہوں مطلب ذہن کو ادھر سے پوری طرح ہٹا دیتی ہوں ، جب ہم پہلے ہی خاموش طبع ہوں تو کسی کو پتہ بھی بھی نہیں چلتا کہ ہمارے ذہن میں کیا چل رہا ہے لوگ جانتے ہیں کہ سلیمہ نے تو کوئی جواب دینا ہے نہیں یہ تو ویسے ہی چپ رہتی ہے، لوگوں کا ہم پر کوئی زور نہیں ہوتا۔ مختلف طبیعت کے لوگ ہوتے ہیں مجھے بہت اچھا لگتا ہے کہ اگر میرا کوئی دوست باتونی ہو جو کہ پرلطف باتیں کرے اور میں اس سے محظوظ ہوں ، اکثر ایسا ہوتا ہے جب ہم کئی سارے لوگ ایک ساتھ بیٹھے ہوتے ہیں ان میں سے ایک دو میری طرح خاموش ہوتے ہیں باقی سب مزے لے لے کر باتیں کرتی ہیں تو مجھے بہت اچھا لگتا ہے میری دوستیں چلبلا اور زندہ دل مزاج رکھتی ہیں اور میرے خیال میں زندگی اسی کا نام ہے کہ ہم ہر طرح کے لوگوں کے ساتھ مل جل کر کام کریں اور زندگی کو انجوائے کریں اسی طرح زندگی خوبصورت ہوتی ہے ورنہ اگر سبھی خاموش ہو جائیں تو پھر زندگی بےرنگ ہو جائے گی۔
علیزے نجف: کچھ اپنی فیملی ممبرز کے متعلق بتائیں ان میں سے کیا کوئی آپ پر یا فیض صاحب پر گیا ہے اگر نہیں تو پھر وہ کس شعبے میں ہیں؟
سلیمہ ہاشمی: آپ نے پوچھا ہے فیض پر کون گیا ہے پوچھنا تو یہ بھی چاہئے تھا کہ ایلس پر کون گیا ہے ( مسکراہٹ) ہماری دو بہنیں ہیں، میں سلیمہ ہاشمی، میری چھوٹی بہن منیزہ ہاشمی، منیزہ کے دو بیٹے ہیں عدیل اور علی اور میری ایک بیٹی میرا صدف اور ایک بیٹا یاسر ہے ، میرا تعلق آرٹ سے ہے میری بیٹی کا تعلق فلم بنانے سے تو نہیں بلکہ فلم ایز اے تھیوری سے ہے اس میں اس نے ڈگری بھی لی ہے اگرچہ اس نے ایکٹنگ بھی کی ہے لیکن اس کی دلچسپی فلم سے متعلق لکھنے میں زیادہ ہے وہ فلم سٹڈیز بھی پڑھاتی رہی ہے۔ میرا بیٹا یاسر LUMS میں cognitive science and psychology پڑھاتا ہے میرا پوتا پاکستان کی chess team میں شامل ہے اس کی عمر ابھی گیارہ سال ہے، میری پوتی جس کی عمر ابھی پانچ سال ہے وہ کہتی ہے میں آرٹسٹ بنوں گی ۔ اسی طرح منیزہ کے پوتے پوتیاں بھی مختلف شعبے میں ہیں، ایسے میں لگتا ہے کہ شاید فنون لطیفہ میں فیض کا رنگ آ جائے میرا نواسا جس کا نام ہم نے فیض رکھا ہے وہ اس وقت لندن میں ہے وہ فنون لطیفہ میں تعلیم حاصل کررہاہے اس کی چھوٹی بھی فنون لطیفہ سے دلچسپی رکھتی ہے۔ اس پس منظر کو دیکھ لیں اب یہ تو نہیں ہو سکتا ناں کہ ڈاکٹر کے بچے ڈاکٹر ہوں یا شاعر کے بچوں کا شاعر ہونا ضروری ہے سبھی کی شخصیت کے اپنے اپنے رنگ ہوتے ہیں۔ سو ایسا ہی کچھ ہمارے یہاں بھی ہے۔a
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page