انٹرویو نگار: علیزےنجف
اردو ادب کی بساط پہ چندر بھان خیال کا نام کسی کے لئے بھی محتاج تعارف نہیں اردو ادب کے تئیں ان کے والہانہ جذبات ہر کسی پہ ظاہر ہیں ان کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جنھوں نے گنگا جمنی تہذیب کی وراثت کی نہ صرف حفاظت کی ہے بلکہ اس کے اثاثوں میں گراں قدر اضافہ بھی کیا ہے ہندی اور اردو ان کے لئے دو روشن آنکھ کی طرح جو ہندوستان کی کثیر ثقافت کی آئینہ دار ہے ان کے خیال کے مطابق اردو زبان کی کشش ایسی ہے کہ ہندوستان کی ستر فیصد آبادی اسے سیکھنا چاہے گی لیکن بدقسمتی سے اردو زبان کو مذہب سے جوڑ کر اس کے ساتھ بڑی ناانصافی کی گئی ہے۔ چندر بھان صاحب ایک بہترین صحافی ہیں جو قومی آواز جیسے مؤقر اخبار سے برسوں وابستہ رہے ان کی شاعری میں جذبات کو اتنی سلاست و روانی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ پڑھتے ہوئے احساس میں ترنگ پیدا ہو جاتا ہے ایسی کئی خصوصیات کے حامل اور ساہتیہ اکادمی ایوارڈ یافتہ چندر بھان خیال صاحب کے سامنے آج میں بطور انٹرویو نگار کے حاضر ہوں آئیے ہم ان سے ملتے ہیں اور گفتگو کرتے ہوئے ان سے وہ سارے سوالات پوچھتے ہیں جو کہیں نہ کہیں ہم سب کے ذہنوں میں ہیں اور اردو ادب کے متعلق بھی بہت کچھ ان سے جاننے کی کوشش کریں گے ۔
علیزے نجف: سب سے پہلے تو آپ ہمیں خود سے متعارف کروائیں اور یہ بھی بتاتے چلیں کہ آپ کا تعلق ہندوستان کے کس علاقے سے ہے اور اس وقت آپ کہاں قیام پزیر ہیں؟
چندر بھان خیال: میں سناتن دھرمی ہندو خاندان کا ایک فرد ہوں .ماں ان پڑھ تھی . والد دسویں جماعت پاس تھے . بچپن بہت غریبی اور بڑی تکلیفوں میں گزرا . تعلق مدھیہ پردیش سے ہے . بھوپال سے جنوب میں 75 کلو میٹر کے فاصلے پر نرمدا ندی کے جنوبی صاحل پر ہوشبگ آباد (.اب نرمدا پورم )شہر آباد ہے جو ضلع کا صدر مقام بھی ہے .یہاں سے مشرق میں 20 کلو میٹر دور قصبہ بابیُ (اب ماکھن نگر ) میں 30 اپریل 1946 کو میرا جنم ہوا . گزشتہ 55 برسوں سے دلی میں قیام پزیر ہوں .
علیزے نجف: آپ نے جب آنکھ کھولی تو آپ کے ارد گرد کے معاشرتی ماحول میں کس طرح کے نظریات کا غلبہ تھا اور ان نظریات کے متعلق آپ کی اس وقت کیا رائے ہے اور موجودہ ماحول میں پنپنے والی مذہبی فرقہ پرستی کے بارے میں آپ کی کیا کہنا چاہیں گے؟
چندر بھان خیال: میری پیدایش کے وقت بابئ Babai کی آبادی ڈھائی تین ہزار سے زیادہ نہیں تھی . بستی میں ہندو مسلم جین اور دیگر مزاہب و عقاید کے افراد مل جل کر امن و محبت سے رہتے تھے . کبھی کوئی دنگا فساد نہیں ہوا .تقسیمِ ہند کے دوران بھی کسی طرح کی بےچینی یا کشیدگی نہیں تھی . کوئی ہجرت کرکے پاکستان نہیں گہا .اُن دنوں بستی میں آٹھ دس ہندو مندر, دو جین مندر اور ان سے گھری ایک مسجد تھی . شنگھوں, گھنٹوں کی صداؤں کے بیچ اذان کی آواز گونجا کرتی تھی . لوگ ایک دوسرے کے عقاید کا بڑا احترام کرتے تھے . سبھی تیوہار مل جل کر مناتے تھے . بڑا سکون تھا , پیار تھا , بھائی چارہ تھا . وہاں آج بھی ماحول پہلے جیسا ہی ہے .لیکن دلی اور ملک کے دیگر کچھ حصوَں میں جو دیکھنے سننے میں آ رہا ہے ان دنوں ,وہ سب جانتے ہیں .
علیزے نجف: آپ کی تعلیمی لیاقت کیا ہے آپ کا یہ تعلیمی سفر کس تعلیمی درسگاہ سے شروع ہوا اور کہاں پہ جا کے منتج ہوا تعلیم نے آپ کی شخصیت میں کون سی قابل ذکر نمایاں تبدیلی پیدا کی؟
چندر بھان خیال: بابئ میں ہی ہندی میڈیم سے ہایر سیکینڈری کیا .اس کے بعد ہوشنگ آباد کے نرمدا کالج میں داخلہ لیا .جہاں تک اردو زبان کا سوال پے تو یہ پورا علاقہ ہندی کا ہے . بندیلی بولی جاتی ہے . اردو تعلیم کا کوئی بند و بست نہیں . میں نے 16 برس کی عمر میں بنا کسی استاد ہندی اردو ٹیچر نامی ایک چھوٹی سی کتاب کی مدد سے اردو لکھنا پڑھنا سیکھا ہے .
تعلیم ہر شخص کے لئے ُلازمی ہے . تعلیم نے ہی مجھے سوچنے سمجھنے اور مشاہدہ کرنے کی صلاحیت عطا کی ہے . آدمی سے انسان بننے کا راستہ دکھایا ہے . مجھے شاعر بنا دیا . صحافی بنا دیا اور صحافت کے زریعہ خدمتِ خلق کی ترغیب و تحریک دی . جہاں تک شخصیت کی بات ہے تو اسے خود ستائی نہ سمجھئے , دلی شہر میں آدھی صدی گزار دینے کے بعد بھی میں آج تک فریب کاریوں, چالاکیوں , خود غرضیوں اور سازشوں کی دنیا سے دور گاؤں کا ایک سیدھا سادہ فرد ہوں . مجھے اپنی نظم کا ایک بند یاد آ گیا …..
فریب کھائے ہیں ہم نے , فریب کھاتے ہیں
فریب دے نہ سکے ہم مگر زمانے کو
ہمیں تو فکر یہی ہے کہ کون آئے ُگا
ہمارے بعد لہو کے دئے جلانے کو
علیزے نجف: میرے علم کے مطابق آپ کی زندگی کثیر ثقافتی ماحول میں گذری ہے جہاں آپ کو اپنے خاندان کی طرف سے ملنے والے نظریات و خیالات کے علاوہ دوسری تہذیبوں کو بھی قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے میرا سوال یہ ہے کہ ہندوستان کا یہ کثیر ثقافتی ورثہ کیوں زوال پزیر ہے اور اس کی حفاظت کیسے کی جا سکتی ہے ؟
چندر بھان خیال: میں آپ کے اس سوال سے اتفاق نہیں کرتا کہ ہندستان کی کثیر ثقافتی روایت زوال پزیر ہے . کثرت میں وحدت ہماری تہزیب کی اہم ترین خصوصیت یعنی شناخت ہے .یہ بےحد قیمتی وراثت ہماری صدیوں کی کمائی ہے جسے کوئی بھی طاقت ہم سے چھین نہیں سکتی .عالمی سطح پر تہذیبوں میں تصادم بہت پہلے سے جاری ہےلیکن ہندستان کی آب و ہوا اور مٹیَ کو اس قسم کا تصادم منظور نہیں . آج ملک میں جو کچھ دکھائ دے رہا ہے کوئی نئ بات نہیں . ایسا پہلے بھی ہوتا رہا ہے . ہماری ثقافتی زندگی میں اس طرح کے نشیب و فراز آتے جاتے رہے ہیں لیکن ملک و قوم کی ایکتا اور اکھنڈتا کو کوئی توڑ نہیں سکا ہے . مختلف رنگوں, نسلوں ,مزاہب اور زبانوں کے باوجود اتحاد اور یکجہتی ہم ہندستانیوں کی رگوں میں لہو کی مانند گردش کرتی ہے .یہی سبب ہے کہ …..
کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری
صدیوں رہا ہے دشمن دورِ زماں ہمارا
آپ فکر مت کیجئے . یہ دور بھی گزر جائے ُگا. ہندستان کی کثیر ثقافتی روایت کو پہلے سے زیادہ اسحکام حاصل ہوگا . میں قطعی مایوس نہیں . ہماری آئندہ نسلیں بہت ز نکلہین ہونگی اور تمام تعصبات اور اختلافات کو طاق پر رکھ دیں گی . ایک مثالی معاشرہ تیار ہونے والا ہے .
علیزے نجف: اس دنیا میں ہر انسان طویل خوش و خرم زندگی کا خواہاں ہوتا ہے اور ہر کسی کے زندگی کے تئیں اپنے نظریات ہوتے ہیں میرا سوال یہ ہے کہ زندگی کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے اور آپ کی زندگی کے تجربات و مشاہدات کا لب و لباب کیا ہوگا؟
چندر بھان خیال: میں تو یہی کہوں گا کہ ہمارے بزرگ پہلے ہی بہت ساری نصیحتیں کر گئے ہیں . ان پر ثابت قدمی سے عمل کرکے ہی ہم اپنی زندگی کو خوشحال, پر سکون اور مثالی بنا سکتے ہیں . نیکی, سچائی, ایمانداری اور محنت ہی انسان کو اصل مسرت, آسودگی اور اطمینان دے سکتی پے . میرا تجربہ اور مشاہدہ بھی یہی ہے . انسانی زندگی بڑی مشکل سے ملتی ہے …
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان. نکلتے ہیں
علیزے نجف: ادب و صحافت سے آپ کا رشتہ چولی دامن جیسا ہے آپ نے اس میدان میں برسہا برس گذارے ہیں اور اپنی بیش بہا خدمت سے اس کے مستقبل کو روشن کیا ہے میرا سوال یہ ہے ادب و صحافت سے آپ کے تعلق کا آغاز کیسے ہوا اور پھر کس طرح کے مراحل سے گذر کر آج ہمارے سامنے سنگ میل کی طرح کھڑے ہیں یہ ادبی و صحافتی سفر آپ کے لئے کیسا رہا؟
چندر بھان خیال: دلی میں میری زندگی کا آغاز ایک پیٹرول پمپ پر ملازمت سے ہوا تھا .صحافت نہ تو مجھے وراثت میں ملی اور نہ ہی میں نے اس کے لئے کوئی کوشش کی . بس اتفاق یا یوں کہیں کہ بائیُ چانس صحافی بن گیا .پیٹرول پمپ پر ملازمت کے دوران شہر میں اردو کے کئی ادیبوں اور شاعروں سے ملنا جلنا ہوتا تھا . کچھ احباب کو میری پیٹرول پمپ کی ملازمت پسند نہیں تھی .فکر تونسوی, کمار پاشی , حیات لکھنوی اور پروانہ رودولوی مجھ پر خاص طور سے مہربان رہتے تھے اور میرے مستقبل کے بارے میں بہت فکر تھے . ان حضرات کی لگاتار ترغیب و تحریک اور سفارش سے اس وقت کے مقبول اردو روزنامہ "سویرا” میں سب ایڈیٹر ہو گیا . بعد میں روزنامہ "تیج ” سے وابستہ رہا . 1980 میں نئی دلی سے روزنامہ "قومی آواز ” کی اشاعت شروع کی تو یشپال کپور صاب نے مجھے وہاں بلا لیا . اور پھر قومی آواز میں رہ کر لگاتار 25 برس صحافتی خدمات انجام دیں . میں نے فکر تونسوی, پنڈت رام کشن مضطر, جمناداس اختر اور عشرت علی صدیقی جیسے عظیم صحافیوں کے قدموں میں بیٹھ کر صحافت سیکھی اور کی ہے . ان بزرگوں کے لئے صحافت ایک مشن تھا , مقصد خدمتِ خلق تھا . میں نے بھی انہیں کے راستے پر چلنے کی کوشش کی ہے .
علیزے نجف: آپ کی شخصیت گنگا جمنی تہذیب کی آئینہ دار ہے اردو آپ کے لئے تمغہء امتیاز کی حیثیت رکھتی ہے آپ نے اردو کا عروج بھی دیکھا اور آج کے وقت میں اس کی متزلزل حالت بھی آپ کے سامنے ہے میرا سوال یہ ہے کہ اردو کی اس حالت کا ذمےدار کون ہے اور اس کو مستحکم بنانے کے لئے کس طرح کی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے؟
چندر بھان خیال: اس سوال سے ہندستان کی اردو دنیا برسوں سے الجھ رہی ہے لیکن ابھی تک کوئی حل نہیں نکل سکا ہے . لگاتار بحث و مباحث کا سلسلہ جاری ہے .ہر سال ملک بھر میں کئی کئی سیمینار اور ورکشاپ ہو رہے ہیں . عالمی اور قومی کانفرنسیس ہو رہی ہیں . سرکاری اور غیر سرکاری اردو ادارے , اکادمیاں, تنظیمیں دن رات جی توڑ محنت کر رہی ہیں . کروڑوں روپیہ پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے لیکن اردو زبان کی صحت روز بروز گرتی ہی جا رہی ہے . خاص طور سے شمالی ہند میں حالات زیادہ تشویشناک ہیں . اس سب کے لئے اہلِ زبان اور ملک کی سیاست کے سوا اور کون ذمہ دار ہو سکتا ہے .
دیکھئے اردو ہندستانی زبان ہے .اس کا کردار سو فی صد سیکولر ہے . یہ کردار بنا رہنا لازمی ہے . دوسری بات یہ کہ اردو والے اپنے نجی مفادات کی دلدل سے باہر نکلیں اور حکومت اور سیاسی پارٹیاں اردو کے نام پر سیاست کرنا ترک کریں . ایسا ہو تو زبان کی اس کے رسمِ خط کے ساتھ تعمیر و ترقی کی راہیں یقینا وا ہو سکتی ہیں . ویسے اردو بڑی سخت جان ہے . رومن, ناگری اور دیگر رسم خط کے زریعہ یہ زبان ساری دنیا میں پھیل اور پھل پھول رہی ہے .
علیزے نجف: آپ نے اردو صحافت میں اہم عہدوں پہ رہتے ہوئے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں جیسے روزنامہ قومی آواز ، روزنامہ سویرا، وغیرہ میرا سوال یہ ہے کہ اردو صحافت میں پچھلے بیس سالوں میں کس طرح کی تبدیلیاں واقع ہوئیں اور آپ ان تبدیلیوں کے متعلق کیا رائے رکھتے ہیں اور اس حوالے سے اردو صحافت کا مستقبل آپ کیسا دیکھتے ہیں؟
چندر بھان خیال: صحافت کے کردار میں آجکل بڑی تیزی سے تبدیلی آئی ہے . ان دنوں ملک کی صحافت پوری طرح کاروبای صورت اختیار کر چکی ہے .آپ جانتی ہیں کاروبار کا سیدھا رشتہ منافع یا مفادات سے ہوتا ہے .اور عوامی معاملات پر توجہ کم ہو جاتی ہے . اردو صحافت بھی اس کاروباری سوچ یا زہنیت سے اچھوتی نہیں رہی .اردو اخبارات و رسایل پڑھنے والے افراد اب ایک مخصوص فرقہ تک ہی سمٹتے جا رہے ہیں . صورتِ حال یہ ہو گئی ہے کہ مسائل و مصائب اور دلچسپی کا مواد اس فرقہ تک محدود ہوتا جا رہا ہے . کچھ اخبارات ضرور ابھی بھی اردو صحافت کے سیکولر کردار کو زندہ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اردو صحافت کا چہرہ اب مسلم صحافت میں تبدیل ہو رہا ہے . جہاں تک اس کے مستقبل کا سوال ہے تو وہ اردو زبان کے مستقبل سے جڑا ہوا ہے . اگر اردو اپنے اصل کردار اور رسم خط کے ساتھ زندہ رہےگی تو اردو صحافت کو بھی فروغ و استحکام حاصل ہوگا .
علیزے نجف: آپ کی پہچان بنانے میں شاعری نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے آپ کی شاعری ادب کے لئے ایک سرمایہ کی حیثیت رکھتی ہے میرا سوال یہ ہے کہ آپ کا رجحان شاعری کی طرف کیسے ہوا کیا آپ کے خاندان میں آپ سے پہلے کوئی شاعر گذرا ہے اور آپ نے شاعری میں کس کی شاگردی اختیار کی تھی؟
چندر بھان خیال: میرے دادا دادی ناخواندہ تھے .والدین اردو نہیں جانتے تھے . میرے خاندان میں شاعر یا ادیب ہونا تو دور کی بات ہے شاید ہی کوئی اردو پڑھا لکھا ہوا ہو . ہمارے گھر کے سامنے ایک لائبریری تھی جاہاں بیٹھ کر میں ہندی میں اردو شاعروں اور ادیبوں کو پڑھا کرتا تھا. فلمی گانے سننے کا بھی شوق تھا . اس دوران اچانک ہی تک بندی کرنے لگا . آگے چل کر شاعری شروع ہو گئی. دلی آیا تو معروف شاعر پنڈت رام کشن مضطر کا شاگرد ہو گیا جو فارسی کے بھی بڑے عالم تھے .اردو فارسی اور انگرہزی کے ہزاروں اشعار ان کی نوکِ زبان پر رہتے تھے . انہیں چلتی پھرتی لایبریری کہا جاتا تھا . خیال تخلص محترم فراق گورکھ پوری صاحب کا دیا ہوا ہے جو مضطر صاحب کے استاد تھے .
علیزے نجف: آپ کی اب تک ایک درجن سے زائد کتابیں منظر عام پہ آ چکی ہیں جن میں زیادہ تر آپ کی شاعری کا مجموعہ ہے میں یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ آپ کا پہلا مجموعہ کلام کس سنہ میں شائع ہوا اور کن کن مجموعہ کلام کو اعزازات سے نوازا جا چکا ہے اور اتنی کامیابی ملنے پر آپ کے جذبات کیا ہیں؟
چندر بھان خیال: میرا پہلا شعری مجموعہ "شعولوں کا شجر ” 1979 میں منظر عام پر آیا تھا جسے یو پی اردو اکادمی سے ایوارڈ ملا تھا. حال ہی میں ساہتیہ اکاڈمی ایوارڈ 2021 مجموعہ کلام "تازہ ہوا کی تابشیں ” پر ملا ہے . طویل نظم ” لولاک ” کے لئے ایران حکومت نے خصوص ایوارڈ سے نوازہ . اور بھی کئی ایورڈ ملے ہیں . خوشی ہوتی ہے اور آگے بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش جاری رہتی ہے .
علیزے نجف: مشاعروں میں آپ کی شرکت مشاعروں کی کامیابی کی دلیل ہوتی ہے آپ نے اب تک قومی اور بین الاقوامی سطح پہ بےشمار مشاعروں میں شرکت کی ہے ان میں سے کسی مشاعرے سے وابستہ کوئی خوبصورت یاد کیا ہم سے شیئر کرنا چاہیں گے؟
چندر بھان خیال: غالبا” 1993-94 کی بات ہے .26 جنوری پر جشنِ جمہوریہ کے موقع پر لال قلع میں منعقد ہونے والے آل انڈیا مشاعرے میں بحثیت شاعر میں بھی شریک تھا . ان دنوں ایک فرقہ پرست ہندو لیڈر کے مسلم مخلف زہریلے بیان سے تمام ملک میں اضطراب تھا . میں نے اس وقت اپنی نظم ” زرا سنبھل کر زبان کھولو ” پڑھی جسے اسٹیج اور سننے والوں سے خوب داد ملی . مشاعرے کی صدارت دلی کے وزیرِاعلی جناب مدن لال کھرانا فرما رہے تھے اور مہمانِ خصوصی بی جے پی کے بڑے لیڈر جناب سکندر بخت تھے .اس وقت ان حضرات نے بھی داد دی لیکن دوسرے دن سے ہی مجھے بلیک لسٹ کر دیا گیا . اس کے بعد جب تک دلی میں بی جے پی کی حکومت رہی مجھے دلی اردو اکادمی کے کس بھی پروگرام میں نہیں بلایا گیا .
علیزے نجف: شعر کہنے کے لئے کیا آپ کے لئے مخصوص ماحول یا موڈ کا ہونا ضروری ہوتا ہے اور آپ شعر کہنے کے لئے اپنے جذبات کا زیادہ خیال رکھتے ہیں یا اپنے قارئین کے جذبات و احساسات کو مد نظر رکھتے ہوئے شعر کہتے ہیں؟
چندر بھان خیال: مجھے شعر کہنے کے لئے کسی مخصوص ماحول کی ضرورت نہیں پڑتی اور نہ ہی اس کے لئے کسی طرح کا موڈ بنانے کی کوشش کرتا ہوں .بس جب شعر کی آمد ہوتی ہے تو لکھ لیتا ہوں . میرے اشعار میں صرف میرے جذبات و مشاہدات کی عکاسی ہوتی ہے یا لوگوں کےمحسوسات و جذبات کی جھلک بھی ملتی ہے تو یہ پڑھنے سننے والے یا آپ ہی بتا سکتی ہیں
علیزے نجف: آپ کے اشعار یوں تو ہم رسائل و جرائد میں پڑھتے ہی رہتے ہیں آج آپ سے انٹرویو لیتے ہوئے میرے پاس یہ موقع ہے کہ میں آپ سے ان شعروں کی فرمائش کروں جو آپ کو بہت پسند ہیں کیا اپنے پسندیدہ اشعار ہمیں سنانا چاہیں گے؟
چندر بھان خیال: مجھے اپنی ہر نظم اور ہر غزل پسند ہے . پھر بھی کچھ اشعار سن لیجیےُ ….
جستجو کے پاؤں اب آرام سا پانے لگے
اب ہمارے پاس بھی کچھ راستے آنے لگے.
وقت اور حالات پر کیا تبصرہ کیجے کہ جب
ایک الجھن دوسری الجھن کو سلجھانے لگے .
نظر میں شوخ شبیہیں لئے ہوئے ہے سحر
ابھی نہ کوئی ادھر سے دھواں دھواں گزرے.
کوئی دانا کوئی دیوانہ ملا
شہر میں ہر شخص بیگانہ ملا .
وہ جہاں چاہے چلا جائے یہ اس کا اختیار
سوچنا یہ ہے کہ میں خود کو کہاں لے جاؤں گا.
علیزے نجف: نظم سے آپ کی وابستگی کمال کی ہے نثر سے آپ کا تعلق کیسا ہے اور آپ نے اب تک نثر میں کیا کچھ لکھا ہے ؟
چندر بھان خیال: برسوں سے صحافت کے پیشے سے وابستہ ہوں .اس دوران مختلف موضوعات پر کئی مضامین بھی لکھے ہیں . ان سب کو اکٹھا کر رہا ہوں .
علیزے نجف: آپ کو اب تک مختلف اکادمیوں کی جانب سے درجن بھر ایوارڈز سے نوازا جا چکا ہے میرا سوال یہ ہے کہ ان میں سے کون سا ایوارڈ ایسا تھا جس کی آپ نے کبھی توقع ہی نہیں کی تھی اور ملنے کی صورت میں آپ نے اپنے احساسات کا اظہار کیسے کیا کیا یہ ایوارڈز انسان کی زمہ داریوں کو مزید بڑھا بھی دیتے ہیں؟
چندر بھان خیال: میں اپنے کام سے ہی مطلب رکھتا ہوں . انعامات کے لئے کوشش یا جوڑ توڑ میں میرا یقین نہیں اور نہ ہی کبھی اس طرف دھیان گیا . جب بھی کوئی ایوارڈ ملا بڑی خوشی ہوئی , حوصلہ بڑھا .
علیزے نجف: عہد حاضر کے نوجوان ادباء و شعراء کی طرز نگارش پہ بھی آپ کی گہری نگاہ ہے اور بدلتے دور کے تقاضے بھی آپ کے سامنے ہیں ان نوآموز تخلیقات کے معیار سے آپ کس حد تک مطمئن ہیں اور آپ انھیں کس طرح کا مشورہ دینا چاہیں گے؟
چندر بھان خیال :نئے لوگ بہت ذہین ہیں , ہوشیار ہیں .اچھاَ سوچ رہے ہیں , اچھاَ لکھ بھی رہے ہیں . پابند نظموں پر دھیان کم ہے . جلد بازی سے شہرت نہیں ملتی .ٹھہراؤ اور سنجیدگی سے کام کیا جائے تو شہرت خود پیچھے بھاگتی ہے .
علیزے نجف: آپ کا تعلق ہندوستان کے اکثریتی طبقہ سے ہے جہاں اردو کے تئیں پائے جانے والے رجحانات منفی سطح پہ ہی ہیں آپ وہ گوہر ہیں جو ہندوستان کی آزادی سے قبل ظہور پزیر ہوئے جب اردو کا کوئی مذہب نہیں تھا یوں اردو اور ہندی دونوں ہی آپ کے لئے ایک جیسی رہی میرا سوال یہ ہے کہ کیا آپ کے بعد آپ کے گھر میں اردو زندہ رہے گی آپ کے اہل خانہ میں اردو کے تئیں کیا جذبات پائے جاتے ہیں؟
چندر بھان خیال: اردو ہندستان کی واحد زبان ہے جو تمام ملک میں یکساں طور پر مقبول ہے . ہر مذہب, ہر زبان , ہر عقیدہ , ہر علاقہ اور ہر رنگ و نسل کے عوام نہ صرف اردو کو پسند کرتے ہیں بلکہ اس کی تعمیر و ترقی اور فروغ کے حمایتی بھی ہیں . اگر اردو سیکھنے کی سہولت اور تعلیم کا مناسب بندوبست ہو تو ملک کے 70 فیصد سے زیادہ عوام اردو پڑھنا چاہیں گے لیکن ایسا نہیں ہے . وجہ سب پر عیاں پے . آپ کا یہ سوچنا غلط ہے کہ ملک کی اکثریت اردو کے تئیں منفی رویہ رکھتی ہے . ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو والے تنگ نظری کے حصار سے باہر نکلیں .
دیکھئے اگر ملک کے تین چار فیصد لوگ اردو کا پرچم اٹھائے اس کے حق میں آواز اٹھائیں یا شور مچاتے پھریں تو کوئی سننے والا نہیں . جمہوری دور ہے , ووٹوں کی سیاست کا غلبہ ہے . ایسے حالات میں اسی کی آواز ایوانِ اقتدار تک پہنچ پاتی ہے جس کے پاس سیاسی قوّت ہو . اردو ایک سیکولر زبان ہے . اسے مسلمانوں کی زبان سمجھنے یا بنانے کی بجائے تمام سیکولر اور اردو کے حامیوں کی حمایت حاصل کرکے آواز اٹھائی جائے , تحریک چلائی جائے تو انصاف ضرور ہوگا , اردو کو اس حق مل سکے گا . اردو زبان ضرور زندہ رہے گی . میرے گھر میں بھی اور آپ گھر میں بھی .
علیزے نجف: ہر انسان معاشرتی زندگی کے ساتھ اپنی ذاتی زندگی بھی رکھتا ہے جس میں اس کے اپنے خیالات ہوتے ہیں اور مزاج بھی میرا سوال یہ ہے کہ آپ اپنی ذاتی زندگی کو کن اصول کے تحت گذار رہے ہیں اور آپ کی طبیعت خلوت پسند ہے یا جلوت پسندی کی طرف مائل ہے؟
چندر بھان خیال: گھر ہو یا باہر میرا نجی کبھی کچھ بھی نہیں رہا . زندگی ایک کھلی کتاب کی طرح رہی پے . سکھ ہویا دکھ سب کے ساتھ سانجھا کیا ہے .ہر حال میں رشتے پوری ایماداری سے نبھاےُ ہیں . دوست احباب کے ساتھ بھی برسوں ہنگامہ آرایوں میں گزری پے . کسی کو شکایت کا موقع نہیں دیا اور نہ ہی کسی سے کویُ شکایت کی . آجکل کچھ برسوں سے خلوت پسند ہو گیا ہوں لیکن خلوت میں بھی خیالوں کی محفل جمتی رہتے ہے . بقول غالب ..
ہے آدمی بجائے خود اک محشرِ خیال
ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو .
علیزے نجف: یہ انٹرویو دیتے ہوئے آپ کے احساسات کیا تھے اور اس کے سوالات سے کس حد تک مطمئن تھے ؟
چندر بھان خیال: آپ کے تمام سوالات بہت اچھے اور اہم تھے۔ مجھے یہ انٹرویو دیتے ہوئے بہت خوشی محسوس ہوئی اس کے ذریعے میں نے اپنے خیالات کو بیان کرنے کی ایک چھوٹی سی کوشش کی ہے۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page