شفقت خالد
ایم۔فل اسکالر ،شعبہ اُردو
یونیورسٹی آف سیالکوٹ،پاکستان
تدریس کے شعبے میں تحقیق کو تعلیم کی بنیادی اکائی تصور کیا جاتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری ثقافت کے پوشیدہ حقائق اور نئی سچائیوں کو تحقیق ہی کے ذریعے تلاش کیا گیا ہے۔اس ضمن میں ادب کی نامور شخصیات نے گراں قدر خدمات سر انجام دیں اور نئے آنے والے محققین کے لیے نئی راہوں کو روشناس کروایا۔تاکہ تحقیق کی ترویج ہوسکے ۔اسی حوالے سے آج مجھے جس شخصیت کا مذاکرہ کرنے کا موقع ملاہے وہ اپنی ذات میں ایک درخشندہ ستارے کی مانند ہیں۔طویل مسافت کے باعث میراان سے انٹرویوموبائل فون کے ذریعے ایک کال پر طے پایا۔جس کے ذریعے میرے ان سے 29جولائی 2023ء بروز جمعہ کو گفتگو کا موقع میسر آیا۔جس میں ایک طویل بحث کے بعد اس انٹرویوکو پایۂ تکمیل تک پہنچایا ۔
احوال وآثار:
زیبا گلزار ان کا اصلی و قلمی نام ہے ۔ان کے والد کا نام سیدعنصر گلزار شاہ ہے۔زیبا گلزار کا تعلق ایک سیدگھرانے سے ہے۔وہ 27ستمبر 1998ء میں تحصیل سمبڑیال کے ملحقہ گاؤں میراں پنڈی میں پیدا ہوئیں۔انہوں نے ابتدائی تعلیم گاؤں کے پرائمری سکول سے حاصل کی۔اس کے بعد میٹرک کا امتحان 2014ء میں اپنے آبائی گاؤں کے ساتھ منسلک گورنمنٹ گرلز ہائی سکول ماجرہ کلاں سےپاس کیا ۔2016ء میں ایف۔ایس سی کا امتحان گورنمنٹ ڈگری کالج برائےخواتین سمبڑیال(موجودہ گورنمنٹ ایسوسی ایٹ کالج برائے خواتین سمبڑیال)سے پاس کیا۔اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے انہوں نے شہرِ اقبال یعنی سیالکوٹ کارخ کیا۔2020ء میں جی سی ویمن یونیورسٹی سیالکوٹ سے بی۔ایس اردو کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا اس کے بعد یہیں سے 2022ء میں ایم۔ایس اردو کی سندحاصل کی ۔زیبا گلزار کو اردو ادب سے خاصا شغف ہے وہ ہمہ وقت اپنے آپ کو مطالعے میں مشغول رکھتی ہیں۔اردو ادب کا دائرہ کار بنیادی طور پر وسعت کا حامل ہے۔اس ضمن میں ان کا اردو ادب میں رحجان کلاسیکی اور جدید اردو شاعری،اقبالیات ،فکشن کے حوالے سے ہے۔یہی رحجان آگے چل کر ان کا ایم۔ایس کی سطح پر تحقیقی مقالہ لکھنے کا سبب بھی بنا اور اردو شاعری پر اپنی گرفت کو مضبوط رکھتے ہوئے انہوں نے عرفان صدیقی اور افتخار عارف کی شاعری میں کربلا بطور استعارہ پر اپنا ایک منفرد اور انوکھا مقالہ لکھا جو کہ اپنی آپ میں ایک قابلِ تحسین کام ہے۔زیبا گلزار کو اردو،پنجابی ،انگریزی بولنے اور لکھنے اور پڑھنے پر مکمل عبور حاصل ہے۔
درس و تدریس کے فرائض:
تعلیمی دورانیے سے سبکدوش ہونے کے بعد (بی۔ایس اردو 2020ء میں پاس کرنے کے فوراً بعد ہی )انہوں نے درس و تدریس کے شعبے میں قدم رکھا۔ انہوں نے مختلف اداروں میں نہایت جانفشانی کے ساتھ تدریسی خدمات انجام دیں۔زیبا گلزار نے 2020ءسے 2021 ءجی سی ویمن یونیورسٹی سیالکوٹ میں بطور کالج ٹیچنگ انٹرنی اپنے عملی اور پیشہ ورانہ کرئیر کا آغاز کیا۔اس کے علاوہ 2021ء سے تاحال 2023ءمیں وہ گورنمنٹ ایسوسی ایٹ کالج برائے خواتین سمبڑیال میں بطور کالج ٹیچنگ انٹرنی خدمات سرانجام دےرہی ہیں۔اس ضمن میں وہ طالب علموں کے لیے ایک سایہ دار درخت اور مثالی استاد ثابت ہوئی ہیں۔
تحقیقی و ادبی خدمات:
زیبا گلزار نے اردو ادب کے حوالے سے تحقیقی و ادبی خدمات بھی سرانجام دیں ہیں ۔جن کی فہرست درج ذیل ہے۔
اردو اور پشتوافسانوں میں پشتون حجرے کا جائزہ انٹرنیشنل جرنل آف پختونخواہ، عبدالولی خا ں یونیورسٹی آف مردان جولائی دسمبر2022ء
یہ مضمون انہوں نے ڈاکٹر انور علی ،ڈاکٹر طاہر عباس طیب،کے اشتراک سے مکمل کیا۔
فکرِ اقبال کی ترویج و اشاعت میں ڈاکٹر اسلم انصاری کا حصہ جرنل آف ریسرچ (اردو)،بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان،30جون 2023ء
یہ مقالہ انہوں نے ڈاکٹر طاہر عباس طیب ،ڈاکٹر محمد افضال بٹ کے اشتراک سے شائع کروایا۔
بین الاقوامی تحقیقی بپلیکیشنز :
ڈاکٹر افشاں ملک کے افسانوں کا موضوعاتی و علامتی تجزیہ عالمی ادبستان معاصر اردو افسانہ (نئے سال کے حوالے سے)جولائی 2022ء
اقبال عہد ساز شاعر اور مفکر ترجیحات آن لائن ادبی جرنل مئی 2022ء
انور سجاد کی علامتوں میں ترجیحات آن لائن ادبی جرنل،فروری 2022ء
جدید غزل کی توانا آواز: قمر رضا شہزاد ترجیحات آن لائن ادبی جرنل،جنوری 2022ء
ڈاکٹر جمیل جالبی بطور مترجم ترجیحات آن لائن ادبی جرنل،نومبر 2021ء
ابابیلیں لوٹ آئیں گی کا تجزیاتی مطالعہ عالمی ادبستان : رفتگاں کی یاد میں ،جولائی ۔دسمبر2021ء
اس کے علاوہ زیباگلزار مختلف بین الاقوامی ،قومی سیمینارز اور ویبینارز میں بھی شرکت کرچکی ہیں۔انہوں نے تربیتی کورس اور ورکشاپ میں بھی حصہ لیا ہے۔ ”غمِ جاوداں“( دی ہاؤس آف رائٹرز فیصل آباد 2022ء میں شائع شدہ) روزینہ روبی کی کتاب ہے۔اس کا دیباچہ بقلم زیبا لکھا گیا ہے جو ان کا روزینہ کی شاعری کے حوالے سے پہلا جائزہ ہے۔اس میں انہوں نے کتاب میں شامل شاعری کا مثالوں کے ساتھ تجزیہ کیا ہے۔
ایوارڈز اور کامیابی:
اپنے پورے تعلیمی دورانیے کو زیبا گلزار نے بہت اچھے طریقے سے پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔اس لحاظ سے انہیں مختلف ایوارڈز اور کامیابیوں سے نوازا گیا۔جس نے ان کی شخصیت کو چار چاند لگادئیے۔
گولڈ میڈلسٹ ایم۔ایس اردو
تیسری پوزیشن ،اور رول آف آنرز بی۔ایس اردو
پرائم منسٹر سکیم سے لیپ ٹاپ،احساس اسکالرشپ،میٹرک میں سولر پینل جیسی کامیابیوں سے نوازا گیا۔اس کے علاوہ مختلف سیمینارز اور ورکشاپ میں شمولیت پر ان کو اسناد سے بھی نوازا گیا۔جن میں سے چند یہ ہیں
کاروانِ پاکستان 2020ء Creative writing competition
بیادِ اقبال سیمینار،کشمیر ڈے ،خصوصی تحریر پراور دیگر کئی اسناد حاصل کی ہیں۔
تدوینی خدمات:
میں زیبا گلزار کی سب سے پہلی کاوش ”سال بھر کی نفلی عبادات اور ان کا ثواب“ ایک مختصر کتاب ہے۔جو 2019ء میں شائع ہوئی ۔ اس کتاب کی طباعت اور کتابت میں انہوں نے نہایت عرق ریزی سے کام لیاہے تاکہ کہیں بھی احادیث اور راوین کا حوالہ غلط درج نہ ہونے پائے۔
زیبا گلزار کی ناموری کا بنیادی سبب ان کا تحقیقی مقالہ ہے۔جس میں انہوں نے نہایت مشاقی اور محنت سے کام کیا ہے۔ کربلا اگرچہ اردو شاعری میں ایک مذہبی حوالہ ہے۔ لیکن زیباگلزار نے اس مذہبی حوالے کو معاشرے کے حالات و واقعات کے تناظر میں اس موضوع کو بنیاد بناکر معاشی و سیاسی استعارے کی طرف رجوع کروایا ہے ۔ اس حکمت عملی اور طریقہ کار میں شاعری کو بنیاد بناکر پہلے معاصری صورت حال کو منعکس کرنا ہے ۔جس میں عوامی و سماجی رویے باعثِ کربلا ہیں اور ظلم کو چپ چاپ سہتے رہنا بھی اسے تسلیم کر لینے اور بڑھاوا دینے کے مترادف ہے ۔ایسی صورت میں آواز کو بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ ذیل میں کچھ اہم سوالات کے جوابات ملاحظہ ہوں:
مس زیبا آپ کے مقالے کا عنوان کیا ہے؟
میرے ایم۔ایس کے مقالہ کا عنوان ”عرفان صدیقی اور افتخار عارف کی شاعری میں کربلا بطور استعارہ“ ہے۔
مقالے کے لیے اس عنوان کا انتخاب کیوں کیا اس کی خاص وجہ؟
مقالے کے انتخاب کی بات کریں تو یہ ہر طالب علم (محقق )جو ایم۔ایس اور پی ۔ایچ ڈی کررہا ہے اس کے لیے ایک کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔اس ضمن میں اپنے صدر شعبہ اردو ڈاکٹر محمد افضال بٹ کی ممنون ہوں کہ انہوں نے ہمیں بار ہا یہ تلقین کی کہ مقالے کا عنوان سوچ کررکھیں تاکہ بعد میں دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔شروع میں بہت سے موضوعات میرے ذہن میں تھے میرا یہ خیال تھا کہ سکول میں پرائمری یا کالج کی سطح تک اردو پڑھائے اور بولے جانے کا معیار کیسا ہے اس موضوع پر تحقیق کی جائے۔صدرِ شعبہ کو اس سے قبل اور بعد ازاں استادِ محترم کو بتایا تو انہوں نے سراہا بھی۔لیکن وقت کی رفتار کے ساتھ یہ دلچسپی گرد کا شکار ہوگئی کیوں کہ شاعری کہیں نہ کہیں میرے اندر موجود تھی اس کو پڑھنا ،حافظہ میں رکھنا،اشعار کو یاد کرنا میرا مشغلہ رہا ہے۔اور افتخار عارف تو میرے مطالعے کا خاص حصہ ہیں۔بی۔ایس میقات پنجم سے لے کر ایم۔ایس تک میں ان کی کتب کا مطالعہ کرتی رہی۔نگران مقالہ کے انتخاب کے بعد میں نے ڈاکٹر طاہر عباس طیب کی مشاورت سے اس عنوان کو منتخب کیا۔
دورانِ تحقیق کن اساتذہ سے پڑھا؟
میں نے ڈاکٹر محمد افضال بٹ، ڈاکٹر طاہر عباس طیب ،ڈاکٹر شگفتہ فردوس،ڈاکٹر سبینہ اویس اعوان سے پڑھا۔
استاد ایک شجرِ سایہ دار کی مانند ہے آپ کو کس استاد نے متاثر کیا؟
یونیورسٹی میں اور اس کے علاوہ بھی آج تک جن سے بھی کچھ سیکھا ہر استاد میرے لیے قابلِ احترام ہے۔اور میں کسی ایک شخص کی نہیں بلکہ ہر استاد سے کچھ نہ کچھ سیکھنے اور اپنے آپ میں بہتری لانے کی کوشش کرتی ہوں۔لیکن اگر ایک نام لینا ہوتو وہ بلاشبہ ڈاکٹر طاہر عباس طیب، میں کہہ سکتی ہوں کہ وہ اپنے آپ میں ایک مکمل اور مثالی شخصیت اور عہد ہیں۔ان کی خدمات بہت زیادہ ہیں۔وہ ہمیشہ منفرد اور جدیدیت کے حامل ادبی نظریہ کو اہمیت دیتے ہیں۔وہ بچوں کو بھی اسی کام کی ترغیب دیتے ہیں۔جو انوکھا،منفرد اور ادبی نقطۂ نظر سے مفیدہو۔وہ اپنی باریک اور نکتہ رس نگاہ سے اپنے شاگردوں میں بھی محنت ،لگن اور ادبی تشنگی کو مزید جِلاتے ہیں۔مزید یہ کہ وہ کسی بھی طالب علم کی عزتِ نفس کو مجروح نہیں ہونے دیتے،جس سے ان کی شخصیت کی مجھ پر گہری چھاپ رہی ہے۔اتنے بڑے عہدے اور مرتبے کے باوجود ان میں غرور و تکبر دیکھنے کو بھی نہیں ملتا ۔یہی چیز سب کے لیے مثال بنتی ہے۔ ان کی شاگرد ہونا میرے لیے خوش قسمتی اور فخر کا باعث ہے۔
مس زیبا آپ نے مقالے کے لیے اس عنوان کا انتخاب کیوں کیا؟
سب سے پہلی بات یہ کہ مجھے افسانہ ،ناول نگاری پر کام کرنے کے بجائے شاعری پر کام کرنا پسند تھا۔قدرتی اور فطری طور پر میرا شاعری کی طرف میلانِ طبع زیادہ تھا۔میری ہمیشہ سے کوشش یہی رہی ہے کہ منفرد اور انوکھا یعنی جدت کا حامل کام کیا جائے۔اپنی رائے کا اظہار جب میں نے نگرانِ و استادِ محترم کے روبرو کیا تو وہ بھی بہت متاثر ہوئے اور انہوں نے اس چیز کو سراہا۔کہ اس پر ضرور کام کرناچاہیے۔اس طرح یہ موضوع طے پایا۔اس موضوع کو لینے کا مقصد یہ تھا کہ افسانہ ،ناول یا شاعری میں ہم کسی شخصیت کے مجموعوں ،کتب پر بات کرتے ہیں لیکن اس عنوان کے تحت ہم دو شخصیات کے توسط سے پورے عہد کو کھنگالنے کی کوشش کریں گے۔
یہ مقالہ آئندہ لکھنے والے محققین کے لیے کس طرح فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے؟
میں تحقیق کررہی تھی تو ”اردو شاعری میں کربلا بطور استعارہ“ پر کام نہیں ہوا تھا۔جب اس موضوع پر مزید تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ پی ۔ایچ ڈی کی سطح کا مقالہ ہے۔میں اس کو ایم۔ایس کی سطح پر مکمل نہیں کرسکتی تو اس ضمن میں اس موضوع کی تحدید کردی گئی۔کیوں کہ یہ ایک مشکل امر تھا میرے لیے لیکن آئند گانِ ادب و محققین کے لیے اس موضوع کے ذریعے نئی راہی ہموار ہوئیں۔وہ اس کے ذریعے سے نئی روایت یا عہد کا منظرِ عام پر لاسکیں گے۔
آپ نے اپنے مقالے کے مواد کی تخصیص کیسے کی؟
بنیادی طور پر یہ میرے لیے کافی مشکل کام رہا ہے۔کیوں کہ میرا کام بیانیہ ،تجزیاتی،تصنیفاتی نوعیت کا تھا۔ان سب کو ملا کر ایک کام تھا ۔پہلا کام بنیادی ماخذات میں ان دونوں مذکورہ شعراء کی کتب کو ازسرِ نو پڑھا گیا۔پہلا باب ”اردو شاعری میں واقعہ کربلا اور مرثیہ نگاری“تحقیق پر مشتمل ہے۔اس میں کوشش کی گئی ہے کہ ان مرثیہ نگاروں کو بنیاد بنایا جائے جن میں سیاسی و سماجی شعور اجاگر ہے۔دوسرا باب ”جدید اردو شاعری میں کربلا بطور استعارہ“ہے۔اس کے پہلے حصے میں بیسویں صدی کے مرثیہ نگار اور ان کے کلام کا وہ حصہ شامل ہے جس سے اس دور کی سیاسی و سماجی صورتحال منعکس ہوتی ہے۔جدید شاعری میں چوں کہ کربلا ئی استعارہ کا رحجان اٹھا تو اس کا ذکر شعراء کے کلام کے نمونے کے ساتھ کیا گیا ہے۔جو کہ ایک محنت طلب کام ہے اس میں ہمیں شعراء کی مستند کتب کی جانچ پڑتال کی گئی۔آخری دوباب عرفان صدیقی اور افتخار عارف کی شاعری میں کربلائی استعارے کے تنقید و تجزیہ پر مشتمل ہیں۔جن میں ان دو شعراء کی اس ضمن میں شاعری سے عصری حسیت اور مزاحمتی عناصر کی نشاندہی بطور خاص کی گئی ہے۔بنیادی امر یہ ہے کہ شعراء کے کلسم کا جتنا بھی تجزیہ کیا گیا ہےوہ بذاتِ خود پڑھ کر کیا گیا ہے۔اس حوالے سے ان کے اشعار کے حل شدہ معانی مطالب مجھے دستیاب نہیں ہوئے۔
مستقبل میں محققین کو آپ کیا مشورہ دینا چاہیں گی؟
میرا یہی مشورہ ہے کہ ہمیشہ اس موضوع کو منتخب کریں جو آپ کا پسندیدہ ہو یہ میری آئندہ آنے والے محققین کے لیے نصیحت ہے۔کم از کم اس بات کا دھیان ضرور رکھیں کہ کل اگر کہیں انتخاب کے لیے مقالے کو پیش کیا جائے تو وہ آپ کے نام کا ایک حوالہ ثابت ہو۔اس ضمن میں نہایت عرق ریزی سے کام لیں یہ کہ کان سے مکھی نہ اڑائیں۔موضوع کے انتخاب میں اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ آئندہ آنے والوں کو کتنا فائدہ پہنچے گا۔
اس ضمن میں ادب کو کھنگالیں اس میں مشکلات کا سامنا تو کرنا پڑے گا لیکن آپ نے صبر سے کام لیتے ہوئے اسی تحقیق کو اپنی زندگی کا محور سمجھتے ہوئے پورے وقت کو استعمال کریں۔باقاعدگی کو عادت بنائیں اور تدوین کے کام کو آخر پر مت چھوڑیں بلکہ اس کو ساتھ ساتھ کرتے جائیں تاکہ وقت ضائع نہ ہو اور نہ ہی آخر میں کوئی مشکل۔
آپ کا پسندیدہ مشغلہ کونسا ہے؟
کتب بینی،کتب خریدنا،باغبانی،پڑھنا ،لکھنا،اور ہمیشہ کچھ نہ کچھ ادبی ،تخلیقی اور نیا کرنا ۔تخلیق کرتے اور سوچتے رہنا میرا مشغلہ ہے۔تخلیق اور ادبی تخلیق ہی میری تسکین کا واحد ذریعہ ہے۔
آپ کی پسندیدہ ادبی شخصیت کونسی ہے؟
ایک نہیں کافی ساری ہیں۔شاعروں میں کلاسیک میں چلے جائیں تو میر،غالب،فیض ،اقبال شعراء۔جدید میں ناصرکاظمی ،امجد اسلام امجد،سید مبارک شاہ،گلزار،قمر رضا شہزدا،ظفر اقبال،وغیرہ۔۔لیکن اگر ایک نام کہیں تو وہ بلاشبہ افتخار عارف کا ہوگا۔
ناول یا نثر نگاروں میں بھی کافی نام لیے جاسکتے ہیں جن میں سرِ فہرست،قدرت اللہ شہاب،ممتاز مفتی،اشفاق احمد،امرتا پریتم،ترنم ریاض،انور سجاد،افشاں ملک،صلاح الدین پرویز،شمس الرحمان فاروقی وغیرہ کئی نام ہیں۔لیکن افسانہ نگاری میں فی الحال میری پسندیدہ شخصیت رشید امجد ہیں۔ان کے کافی افسانے میرے مطالعہ سے گزر چکے ہیں اور کئی ابھی زیرِ مطالعہ ہیں۔
تحقیق کے ضمن میں آپ میری کیا رہنمائی کریں گی؟
اس ضمن میں سب سے پہلے آپ کو یہ نصیحت کروں گی جو موضوع لیں وہ ہو جس پر آپکو بات کرنے کی دلچسپی ہو۔اسی موضوع کو اپنے مقالے کا موضوع بنائیں تاکہ آگے چل کر آپ کو کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔بہتر تحقیق میں ضروری ہے کہ روزانہ بنیادوں پر کام کیا جائےاس کو پس ِ پشت مت ڈالیں ۔اس سے آپ ہی کو دقت کا سامنا ہوگا۔اور وہ کام کریں جس کا مستقبل کے ساتھ کوئی عمل دخل ہو۔اور وہ ادب میں ایک اہم اضافے کی حیثیت رکھتا ہو۔
بہرحال اس سے قبل اردو شاعری میں کربلا بطور استعارہ کے حوالے سے طبع آزمائی کی گئی لیکن اس مناسبت کا کام ابھی تک کسی محقق نے نہیں کیا ۔لہٰذا دور حاضر کے المیہ کے حوالہ سے یہ ایک منفرد کام جو مقبولیت کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہے ۔ زیبا گلزار نے اس ضمن میں نئے آنے والے محقیقین کو نئی جہت سے روشناس کروایا ہے اس حوالے سے ان کی اس کاوش کو جس قدر احسن انداز میں سراہا جائے وہ کم ہے میرا اس مذاکرہ کا مقصد انفرادی ہے جس کے تحت میں ان کی اس تحقیقی کاوش کو ادبی مراحل کو سر کرنے کے متقاضی جانچتی ہوں تاکہ نئے آنے والوں کے لئے فکر اور تحقیق کے نئے دریچوں کو وا کیا جا سکے ۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |