انٹرویو نگار: علیزے نجف
سرائے میر اعظم گڈھ
اردو ادب کی دنیا کے فکشن تنقید نگاروں میں ایک معتبر نام شہاب ظفر اعظمی کا ہے، وہ منفرد اسلوب کی حامل تنقید نگاری کی وجہ سے اپنے معاصر تنقید نگاروں میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں ان کی کتاب ’’اردو ناول کے اسالیب‘‘ ان کی تحقیقی و تنقیدی صلاحیت کا بین ثبوت ہے ، جس میں پہلی بار اردو ناولوں کی تاریخ کا مطالعہ زبان، اسلوب اور طرز اظہار کی روشنی میں کیا گیا ہے۔ اس کتاب نے بہت کم عرصے میں قبولیت ہائے عام حاصل کر لی۔ اس کتاب کی تخلیقی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے اس کو دو اعزازات سے نوازا گیا۔
ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی یکم اپریل 1972 کو صوبہ بہار کے گیا شہر میں پیدا ہوئے۔ ان کے آباؤ اجداد کا تعلق اعظم گڑھ ضلع مبارک پور سے تھا۔ اپنے والد کی سرپرستی میںجامعہ شرفیہ رفیع گنج میں اور کچھ برس جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں ابتدائی تعلیم کے بعد ان کا بی اے سے پی ایچ ڈی تک کا تعلیمی سفر مگدھ یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی تک جاری رہا۔ اس دوران انہوں نے سات سال تک ایک سرکاری ہائی سکول میں اردو ٹیچر کے طور پر بھی فرائض سرانجام دیے۔ جون 2003ء میں، وہ بہار یونیورسٹی پٹنہ کے، جو صوبہ بہار کی بہترین یونیورسٹی ہے، شعبہ اردو برائے پوسٹ گریجوایشن میں اردو میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر مقرر ہوئے، جہاں وہ ترقی کرتےہوئے شعبہ کے سربراہ کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ وہ تقریباً 21 سال تک اسی یونیورسٹی کے شعبہ اردو و جرنلزم میں تدریسی اور انتظامی خدمات بھی انجام دے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ۔ ایک چھوٹے سے مدرسے سے پٹنہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی صدارت تک کا سفر میرے لئے ناقابل یقین رہا ہے۔ اللہ کا بے پایاں احسان و کرم ہے کہ اس نے مجھے اس مقام تک پہنچایا اور معاشرے میں عزت و اہمیت بخشی۔‘‘ انہوں نے اگست 2007ء سے جون 2011 ءتک پٹنہ یونیورسٹی میں اردو صحافت اور ابلاغ عامہ میں پی جی ڈپلومہ کے کورس کوآرڈینیٹر کے طور پر بھی خدمات سر انجام دیں اور پٹنہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے تحقیقی جریدے ’’اردو جرنل‘‘ کے ایڈیٹر ہیں۔ ان کی غیر افسانوی (ادبی تنقید) کی آٹھ کتابیں شائع ہو چکی ہیں: کلیم الدین احمد (مونوگراف)، مطالعاتِ فکشن، صالحہ عابد حسین فکری اور فنی جہات، متن اور معنی، جہانِ فکشن، اردو ناول کے اسالیب، فرات۔ : مطالعہ محاسبہ، اور اردو کے نثری اسالیب، ایک تحقیقی مقالہ: اردو افسانوں میں دلت مسائل کی عکاسی بھی یوجی سی پروجکٹ کے تحت مکمل ہو چکاہے۔
انہیں اب تک بہت سے اعزازات سے نوازا جا چکا ہے : 1999ء میں یو جی سی کی طرف سے جونیئر ریسرچ فیلوشپ ایوارڈ؛ 1996ء میں ’’اردو ناول کے اسالیب‘‘ کے لیے یو پی اردو اکیڈمی کی طرف سے پہلا انعام؛ 1996 میں اسی کتاب پر بہار اردو اکادمی کی جانب سے پہلا انعام؛ بہار اردو اکادمی کی طرف سے 2013 میں ’’جہانِ فکشن‘‘ کے لیے پہلا انعام؛ 2013 میں بہار اردو اکادمی سے اردو میں تنقید کے لیے ’’کلیم الدین احمد ایوارڈ‘‘ اور 2013 میں علمی مجلس بہار کی جانب سے اردو میں تنقید کے لیے مختص ’’عبدالمغنی ایوارڈ‘‘۔2018 میں شعبہ اردو میرٹھ یونیورسٹی کی جانب سے منظر کاظمی نیشنل اوارڈ اور ۲۰۱۹ میںالمنصور ٹرسٹ دربھنگہ کی جانب سے الطاف حسین اوارڈ۔
اس وقت میں بطور انٹرویو نگار ان کے سامنے ہوں ہمیشہ کی طرح میرے پاس سوالات کی ایک لمبی فہرست ہے آئیے مزید ان کے بارے میں انھیں سے جانتے ہیں۔
علیزے نجف: اردو فکشن پر آپ گہری نظر رکھتے ہیں۔ آپ موجودہ دور میں لکھے جانے والے فکشن سے کس حد تک مطمئن ہیں۔ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ نوجوان قلمکار اپنی انفرادیت کو دریافت کرنے کے بجائے انجانے میں تقلیدی رویے کی طرف بڑھ رہے ہیں؟
شہاب ظفر اعظمی: سب سے پہلی بات تو یہ کہ میں فکشن پر کوئی گہری تنقیدی نظر نہیں رکھتا۔ فکشن کا ایک عام قاری ہوں۔ فکشن میری پسندیدہ اصناف میں شامل ہے۔ اسلئے جو کچھ پڑھتا ہوں اس پر اپنے تاثرات پیش کرکے مطمئن ہوجاتا ہوں۔ جہاں تک نوجوان قلمکاروں یعنی نئی نسل کے فکشن کا تعلق ہے۔ میری نظر میں شاید ہی کوئی نوجوان فکشن نگار ہے جو تقلیدی رویہ اختیار کررہا ہے۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ آج ہر فکشن نگار آزادانہ طور پر لکھنا پسند کرتا ہے۔ وہ نہ کسی ازم کا حامی ہے اور نہ کسی نظریے کا مبلغ۔ اس نے خود کو ادب کے اماموں سے دور رکھا ہے، اس لئے تقلید اس کی سرشت ہی میں نہیں ہے۔ فکشن نگاروں نے اسے محسوس کرلیا ہے کہ اب فکشن محض جمالیاتی ارتقا یا ذاتی اظہار کے لئے نہیں پڑھا جاتا، بلکہ انسان اور کائنات کے متعلق نئی بصیرتوں کی جستجو کے لئے پڑھا جاتا ہے۔ فکشن نگار فکشن کی حسیت میں شعوری طور پر تبدیلی لانے کی کوشش کررہے ہیں۔ انہوں نے تھیم، ہیئت اور محاورے کا ایک بڑا حلقہ پیدا کیا ہے، جو اردو فکشن کو ثروت مند اور مختلف بنا رہا ہے۔ ان کا لکھا ہوا فکشن محض تفنن طبع کا ذریعہ نہیں بلکہ اعلیٰ فن پاروں کی طرح زندگی ، معاشرے اور کائنات کے راز ہائے سربستہ کی بصیرت افروزی کا موثر وسیلہ ثابت ہورہا ہے۔ جدید فکشن کا یہ دور اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ کہانی کا کینوس تمام براعظموں تک پھیل گیا ہے، جس سے ہمارا نوجوان فکشن نگار عالمی انسانی برداری کو ایک اکائی کے روپ میں دیکھنے، دکھانے، پرکھنے اور تجربہ کرنے پر قادر ہوگیا ہے۔ اور اس عمل میں اسے کسی کی تقلید کی قطعی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔
علیزے نجف: کیا ایک فکشن نگار کے لئے بھی تنقیدی شعور رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے یا صرف یہ ایک ناقد کا کام ہے۔ اور آپ فکشن پہ تنقید کرتے ہوئے کن پہلوؤں پر خصوصی توجہ دیتے ہیں؟
شہاب ظفر اعظمی: فکشن ہی کیوں؟ کسی بھی صنف کے تخلیق کار کے لئے تنقیدی شعور کا حامل ہونا ضروری ہے۔ تخلیق کار جب تک اپنے مشاہدے، مطالعے اور اسلوب و تکنیک کے انتخاب میں تنقیدی شعور سے کام نہیں لے گا وہ اچھا فن پارہ پیش نہیں کرسکتا یعنی ادب کی تخلیق کا کوئی تصور قدر شناسی کے شعور کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا۔ ہر تخلیق کار کے اندر ایک ناقد چھپا ہوتا ہے جو نہ صرف ماضی اور حال کے ادب پر تنقیدی نگاہ ڈالتا ہے بلکہ اپنی تخلیق کو نسبتاً بہتر صورت میں پیش کرنے کی کوشش کررتا ہے۔
میری نظر میں فکشن کی تنقید صبر طلب اور نسبتاً مشکل کام ہے۔ کیوں کہ یہ ناقد سے متعدد تقاضے کرتی ہے۔ مثلاً پوری کہانی پر نظر ہونا، کہانی جزئیات، زبان، قصہ پن اور فن، قصہ نگاری سے واقفیت، اسلوب اور موضوع میں ہم آہنگی وغیرہ فکشن کی تنقید کے اہم اجزا ہیں جو ناقد سے گہرے اور مسلسل توجہ کا تقاضا کرتے ہیں۔ کسی فکشن نگار کی قدر سنجی کے لئے اس کی جملہ تصانیف کے علاوہ پورے افسانوی ادب کا مطالعہ بھی خاصا وقت طلب اور پیچیدہ عمل ہے۔ میں سمجھتا ہوں فکشن تنقید کا اصل مقصد یہ جاننا ہے کہ افسانہ یا ناول کن لسانی و ہیئتی وسائل کو کام میں لے کر تخلیق کا درجہ حاصل کرسکا ہے۔ فکشن کے مطالعے کے ضمن میں کرداروں، واقعات، تہذیب و معاشرے اور سماجی و نفسیاتی عوامل کے ساتھ کلیدی اہمیت اس لسانی برتاؤ کو حاصل ہے جو کہانی کی تشکیل کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہانی کا ہر جملہ اور ہر لفظ اور اس کا محل استعمال اور اس کے سیاقی تلازمات تخلیقی تجربے کو متشکل کرتے ہیں۔ میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ ادب کو غیر ادب سے جو چیز امتیاز بخشتی ہے وہ اسلوب ہے۔ یہ بات فکشن پر سب سے زیادہ صادق اس لئے آتی ہے کہ فکشن نگار کا مقصد قاری تک صرف کہانی، کردار، فضا اور معاشرتی، بشریاتی اور ثقافتی معلومات پہنچانا نہیں بلکہ کہانی کے لسانی برتاؤ سے کرداروں کے اندرونی تضادات، جذباتی تہ داریوں اور حیات و کائنات کی پیچیدہ اور مشکل سے مشکل آگہی سے اسے باقاعدہ متعارف کرانا بھی ہے۔ چنانچہ میرے لئے بحیثیت ناقد یہ ضروری ہوتا ہے کہ میں کہانی کا اسلوبیاتی ولسانی تجزیہ کرکے اس تجربے کو بھی پہچاننے کی کوشش کروں جس نے افسانے یا ناول کو تخلیقی شناخت عطا کی ہے اور جس نے کہانی میں طلسمی کیف و اثر پیدا کردیا ہے۔ فکشن کی اسلوبیاتی و لسانی ساخت کا ایسا ہی مطالعہ تنقید کے تفاعل کو متعین کرتا ہے۔ میں نے اپنی تحریروں میں حتی الامکان کوشش کی ہے کہ اسی طرز فکر سے کام لوں اور فن پارے کے واقعات، کردار، ماحول اور زبان کی امتزاجی صورت حال کا تجزیہ کرسکوں۔
علیزے نجف: آپ کا تعلق اردو زبان و ادب سے ہے اور پٹنہ یونیورسٹی کے صدر شعبہ اردو رہ چکے ہیں۔ اس ضمن میں پہلا سوال یہ ہے کہ آپ اردو کی حالیہ حالت اور مستقبل کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟
شہاب ظفر اعظمی: اردو ہماری مادری زبان ہے جس میں ہمارا علمی ورثہ محفوظ ہے اور جس سے ہماری تہذیب ومعاشرت کی تاریں جڑیں ہوئی ہیں۔ اس زبان کا اعجاز ہے کہ اس کی دلکشی نہ صرف اپنے مولد زمین میں قائم ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اس نے لوگوں کو اپنا گرویدہ بناکر نئی نئی زمینیں پیدا کرلی ہیں۔ اس نے نہ صرف مختلف ممالک کی سرحدوں کو جوڑنے میں تعاون کیا ہے بلکہ دلوں کو جوڑنے کا بھی فریضہ انجام دیا ہے۔ بہت افسوس کا مقام یہ ہے کہ ماضی میں مشترکہ تہذیب کی علامت اس زبان کو صرف مسلمانوں سے جوڑ کر اس کی توہین کی جاتی رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بلا تفریق مذہب و ملت سبھی نے اسے اپنایا ہے اور سب نے دل کھول کر اس کی ترویج و ترقی میں حصہ لیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ جن کی مادری زبان اردو نہیں ہے وہ بھی اس کی دلکشی کے قائل ہیں اور اعتراف کرتے ہیں کہ
جب سے اردو سے محبت ہوگئی ہے
میری ہندی خوب صورت ہوگئی ہے
خوش آئند بات یہ ہے کہ اب لوگوں کو یہ احساس ہونے لگا ہے کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں ہے۔ جہاں اردو کی نئی بستیاں آباد ہورہی ہیں وہیں اپنے ملک ہی میں یونیورسٹی کے شعبے اردو کے غیر مسلم طلبہ یا اساتذہ سے روشن ہیں۔ شمالی ہند میں اردو اداروں، اسکولوں اور کالجوں کے حالات بہت اچھے نہیں ہیں، مگر ایسے بھی نہیں کہ ناامید ہوا جائے۔ اس کا مستقبل تاریک نہیں، روشن ہے۔ انٹرنیٹ اور جدید ٹیکنالوجی نے اس کی ترویج و اشاعت میں اہم رول ادا کیا ہے۔ کتابوں کی اشاعت، سیمیناروں، مشاعروں اور ادبی جلسوں سے بالکل اندازہ نہیں ہوتا ہے کہ اردو کے حالات اچھے نہیں ہیں۔ مگر میری نگاہ میں یہ پتیوں پر چھڑکاؤ جیسی صورت ہے۔ اردو کی جڑیں یقیناً کمزور ہورہی ہیں، جب تک اردو کی جڑیں مضبوط نہیں ہوں گی ، اردو کے روشن مستقبل کی کوئی یقینی بشارت نہیں دی جاسکتی۔ بنیادی سطح پر اردو کے چراغ کی مدھم ہوتی ہوئی لو کو جلا بخشنے کے لئے ہمیں کئی اہم کام کرنے ہوں گے۔ مثلاً
۱: انگریزی اور کانونٹ اسکولوں میں اردو تعلیم کا نظم کیا جائے۔ اردو اکادمیاں، کونسل اور دیگر ادارے اپنے فنڈ کا آدھا حصہ انگریزی اسکولوں میں اساتذہ مہیا کرانے کے لئے مختص کردیں۔
۲: پرائمری سطح کے تمام اسکولوں میں اردو اساتذہ کی تقرری یقینی بنائی جائے۔
۳: بچوں کے ہاتھوں میں قلم و کتاب کے بجائے Gadgets زیادہ پائے جاتے ہیں۔ ان Gadgets کو بچوں تک اردو پہنچانے کا ذریعہ بنایا جائے۔ ویڈیو گیمس اور کارٹون وغیرہ اردو میں تیار کروائے جائیں جو انہیں اس زبان کی جانب راغب کرسکیں۔
۴: ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کی سطح پر نصاب میں درسی کتب کے ساتھ عملی طور پر تمثیلی مشاعرے، محفل بیت بازی، تحسین غزل، افسانہ خوانی، شام ظرافت اور تحریری و تقریری مقابلے جیسے پروگرام شامل کروائے جائیں تاکہ طلبہ خود کو اس زبان وادب سے عملی طور پر وابستہ کرسکیں اور ان میں دلچسپی پیدا ہو۔
۵: مدارس، اسکول اور کالجوں کی سطح پر اردو سے وابستہ بہتر نتائج پیش کرنے والے اساتذہ اور طلبہ کو انعامات اور وظیفے دے کر ان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
۶: اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے نصاب کو Skill Based بنانے کی ضرورت ہے۔ ورکشاپ کے ذریعہ پتا لگایا جاسکتا ہے کہ موجودہ نصاب میں ایسے کن علوم کو شامل کیا جاسکتا ہے، جو طلبہ کو روزگار فراہم کرنے میں معاون ہوں۔
علیزے نجف: اردو زبان کی نشو ونما اور فروغ دینے کی ذمہ داری کو صرف اردو ادب و صحافت تک محدود رکھنا کیسا ہے؟ کیا یہ ضروری نہیں کہ اس زبان میں دیگر علوم کی منتقلی یا تخلیق کی رفتار کو بڑھایا جائے؟
شہاب ظفر اعظمی: اردو ہم سب کی زبان ہے، پورے ہندوستان کی زبان ہے۔ اس لئے یہ قطعی نہیں کہا جاسکتا کہ اردو زبان کی فروغ کی ذمہ داری صرف ادیبوں اور صحافیوں کی ہے۔ اردو زبان کو زندگی اور رفتار عطا کرنے میں ہر شخص کا یکساں رول ہے۔ جو جس جگہ ہے وہاں سے وہ اس کی نشو ونما کے لئے کام کرسکتا ہے۔ بلاشبہ ہمارے صحافی اور ادیب اپنی تحریروں سےاسے جلا بخش رہے ہیں۔ مگر میں پھر کہوں گا کہ اساتذہ اور تدریس سے وابستہ افراد کی ذمہ داری کہیں زیادہ ہے۔ میں نے ابھی کہا کہ نصاب تعلیم میں دیگر علوم کی منتقلی اور شمولیت طلبہ کو دلچسپی اور روزگار دونوں فراہم کرنے میں معاون ثابت ہوں گی۔ مثلاً طباعت، ڈیزائننگ، انفارمیشن ٹیکنالوجی، ترجمہ نگاری، کمپیوٹر تعلیم، میڈیا، صحافت، اردو ویب سائٹ میکنگ، اردو بلاگنگ اور مقابلہ جاتی امتحانوں کی تیاری میں معاون کورسزکو اردو نصاب کا حصہ بنایا جاسکتا ہے۔ طویل منصوبہ بندی، انتہائی دلچسپی اور سخت فیصلوں کے بغیر اردو تعلیم و تعلم اور فروغ کے لئے کوئی بڑی اور مثبت کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی۔ جو لوگ ترجمہ کے ذریعہ اردو میں دیگر زبانوں کا ادب منتقل کررہے ہیں یا دیگر علوم سے اس کا رشتہ جوڑنے کی کوشش کررہے ہیں وہ قابل مبارکباد ہیں کہ وہ اس طرح اردو زبان کے فروغ و نشو ونما میں بڑا تعاون کررہے ہیں۔
علیزے نجف: آپ کی اردو زبان و ادب کی خدمت کے حوالے سے کی جانے والی کوششوں میں سے وہ کون سی تین نمایاں کوششیں ہیں، جس نے اردو ادب کو مہمیز دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے؟
شہاب ظفر اعظمی: میں نے اسکول کی پہلی ملازمت اپنے والد کی سرپرستی میں جوائن کی تھی۔ جوائن کرنے کے بعد واپسی کے سفر میں انہوں نے مجھے ایک نصیحت کی تھی کہ ’’بیٹا ملازمت بھی عبادت ہے۔ کوشش کرنا کہ اسے عبادت کی طرح ہی سنجیدگی اور ایمانداری سے کرو‘‘۔ میں نے یہ بات گرہ باندھ لی تھی، اس لئے الحمد للہ اب تک اس پر کاربند ہوں۔ میں نے شعبۂ اردو پٹنہ یونیورسٹی سے وابستگی کے بعد ہر پل یہی کوشش کی ہے کہ طلبہ کی نہ صرف نصابی ضرورتوں کی تکمیل میں معاون بنوں بلکہ ان کی شخصیت کی ہمہ جہت نشو و نما میں بھی اہم کردار ادا کرسکوں۔ اس لئے میں نے نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کو شعبے کا لازمی حصہ بنایا۔ ان سرگرمیوں میں تین شمار کروانے ہوں تو یہ ہوں گے۔ اول ’’اردو جرنل کی اشاعت‘‘ شعبۂ اردو کے قیام کو پچھتر سال مکمل ہوئے تو یہ پروگرام بنایا گیا کہ اب تک اس شعبے سے کسی رسالے کی اشاعت نہیں ہوسکی ہے۔ اس لئے کم از کم سالانہ مجلہ شائع ہونا چاہئے۔ سن ۲۰۱۰ء میں ’’اردو جرنل‘‘ کے نام سے ایک تحقیقی مجلہ کی اشاعت شروع ہوئی جو الحمد للہ اب تک جاری ہے۔ اس کے ۱۴؍ شمارے اب تک شائع ہوچکے ہیں۔ اس کی نمایاں شناخت یہ ہے کہ اس کا ہر شمارہ کسی نہ کسی خاص گوشے پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ یوجی سی سے منظور شدہ مجلات کی فہرست میں بھی شامل ہے۔
دوم: تسلسل کے ساتھ قومی اور بین الاقوامی سمیناروں اور کانفرنسوں کا انعقاد۔ میں نے کوشش کی کہ شعبے میں وقتاً فوقتاً سمینار اور ورک شاپ منعقد کئے جائیں تاکہ نہ صرف شعبے کی شناخت قائم ہو بلکہ طلبہ اور ریسرچ اسکالرز کی بھی تقریری، تحریری اور انتظامی تربیت کی جاسکے۔ اس سلسلے میں میں نے ماہانہ ’’مکالمہ‘‘ سیریز بھی شروع کیا جس میں توسیعی و تربیتی خطبات کے ذریعہ طلبہ کو استفادہ کا موقع فرام کیا گیا۔
سوم: یونیورسٹی میں اردو صحافت کا کوئی کورس اب تک شروع نہیں کیا گیا تھا۔ ۲۰۰۷ء میں شعبے کی درخواست پر ’’صحافت اور میڈیا کا ایک سالہ کورس‘‘ پی جی ڈپلو ماان اردو جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن‘‘ کی منظوری حاصل ہوئی۔ اسی سال اس کورس کا آغاز ہوا، جس کا کورآرڈینیٹر مجھے بنایا گیا۔ اس کورس کا افتتاح ممتاز فکشن نگار انتظار حسین کے ہاتھوں عمل میں آیا تھا۔ اس کے علاوہ میرے کوآرڈینیٹر شپ میں دو مرتبہ اردو فارسی و عربی اساتذہ کے ریفریشر کورسیز بھی بحسن و خوبی مکمل ہوئے۔ مجھے ان خدمات کے لئے ۲۰۲۳ء میں الحمد للہ یونیورسٹی کی جانب سے بیسٹ ٹیچر ایوارڈ سے نوازا گیا۔
علیزے نجف: آپ کے نام کے ساتھ اعظمی کے لاحقے کی نسبت کیا ہے، جبکہ آپ کا تعلق بہار سے ہے؟
شہاب ظفر اعظمی: میرا مکمل نام محمد شہاب ظفر اعظمی اور والد کا نام مولانا عبد البر اعظمی ابن حافظ عبد الرب مبارکپوری ہے۔ سرٹیفکیٹ کے مطابق میری پیدائش صوبہ بہار کے شہر گیا میں یکم اپریل ۱۹۷۲ء کو ہوئی، جبکہ آبائی وطن قصبہ مبارک پور ضلع اعظم گڑھ ہے۔ اسی مناسبت سے نام کے ساتھ اعظمی کا لاحقہ لگا ہوا ہے۔ میرے آبا و اجداد کا شمار قصبہ مبارکپور کے اہم علماء میں ہوتا ہے، جن کا ذکر ’’تذکرہ علماء مبارک پور‘‘ میں موجود ہے۔ دادا حافظ عبد الرب اشرفی مبارکپوری ملازمت اور تجارت کے سلسلے میں پلاموں ضلع کے قصبہ گڑھوا میں ہجرت کرگئے۔ اس لئے فیض آباد اور الہ آباد وغیرہ میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد والد مولانا عبد البر اعظمی بھی دادا کے پاس گڑھوا آگئے۔ میرے والد کی سرکاری ملازمت شہر گیا کے قریب قصبہ رفیع گنج میں واقع ’’جامعہ شرفیہ‘‘ میں صدر المدرسین کی حیثیت سے ہوئی اور ان کی شادی گیا کے ایک معزز تاجر حافظ حبیب احمدکے گھرانے میں ہوئی۔ اس طرح صوبہ بہار کا شہر’’گیا ‘‘ہمارا وطن ثانی قرار پایا۔
علیزے نجف: آپ کی پرورش کس طرح کے ماحول میں ہوئی۔ اس ماحول کے وہ کیا اقدار تھے، جس نے آپ کی شخصیت سازی میں نمایاںکردار ادا کیا؟
شہاب ظفر اعظمی: میری ابتدائی پرورش و پرداخت خالص مشرقی اور مذہبی ماحول میں ہوئی۔ جیسا کہ ذکر کیا گیا ابتدائی تعلیم میں نے والد کی سرپرستی میں رہ کر ان کے ہی مدرسے میں حاصل کی، اس لئے مدرسے کے نظام تعلیم اور والد کی تربیت کا میری شخصیت کی نشو ونما میں بڑا اہم رول رہا ہے۔ میں نے رفیع گنج اور مبارک پور (اعظم گڑھ) کے مدارس میں اپنے اساتذہ علما سے دینی، ملی اور اخلاقی اقدار سیکھے اور ان مدارس کی ادبی واصلاحی انجمنوں میں شرکت کرکے تحریری و تقریری صلاحیتوں سے بہرہ ور ہوا۔ میرا دادیہالی خاندان مکمل طور پر مشرقی علوم کا دلدادہ و نمائندہ رہا ہے، جبکہ نانیہال میں جدید عصری و انگریزی تعلیم کا ماحول رہا ہے۔ میں نے اپنے ماموں کے مشورے کے مطابق تعلیم کا سلسلہ کالج و یونیورسٹی سے جوڑا اور بالآخر جواہر لال نہرو یونیورسٹی تک پہنچا۔ جہاں ایک ایسا ماحول میسر آیا جو کم از کم میری نگاہ میں دوسری کسی یونیورسٹی میں نہیں ہے۔ حالانکہ میں وہاں زیادہ دنوں تک نہیں رہا، مگر وہاں مجھے وسیع المشربی، وسعت فکری اور ذہنی آزادی کا جو شعور حاصل ہوا اس نے میری شخصیت کو بدل کر رکھ دیا۔ وہاں مجھے پروفیسر صدیق الرحمٰن قدوائی، پروفیسر شارب رودولوی، پروفیسر اسلم پرویز،پروفیسر نصیر احمد خان ، پروفیسر انور پاشا، پروفیسر شاہد حسین اور پروفیسر مظہر مہدی جیسے اساتذہ کے سامنے زانوئے ادب تہہ کرنے کا موقع ملا، جن کی تعلیم و تربیت نے نہ صرف ادب، تہذیب، ثقافت، تاریخ اور تمدن کے معنی سمجھائے بلکہ شعر و ادب کی تفہیم اور اس کی ترسیل کے راز سے بھی آشنا کیا۔ میں نے مذہبی و اخلاقی مضامین مدرسے کی تعلیم کے دوران ہی لکھنا شروع کردیا تھا، مگر جامعہ اور جے این یو سے شعرو ادب پر اظہار خیال کا آغاز ہوا۔ اس طرح میں کہہ سکتا ہوں کہ میری شخصیت سازی میں مدرسے اور یونیورسٹی دونوں کا اہم رول رہا ہے۔ اور میرا خیال ہے کہ دونوں کے امتزاج سے ہی ایک اچھی اور کامیاب شخصیت کی تعمیر ہوسکتی ہے۔
علیزے نجف: آپ کے طالب علمی کے زمانے میں تعلیمی اداروں کا معیار آج کے معیار سے کس قدر مختلف رہا ہے۔ یہ تبدیلی انحطاط ہے یا ارتقائی تبدیلی کی ایک شکل ہے؟
شہاب ظفر اعظمی: یہ ایک مشکل سوال ہے جس کا جواب ہر شخص کی نگاہ میں الگ ہوسکتا ہے۔ تعلیم کے ذرائع، تعلیمی اداروں کی تعداد اور ظاہری خوب صورتی کو معیار سمجھا جائے تو اس میں آج خاصا اضافہ ہوا ہے۔ جو سہولیات آج دستیاب ہیں وہ ہمارے زمانۂ طالب علمی میں نہیں تھیں، مگر فکری اور اقداری سطح پر غور کیا جائے تو تعلیم کے مقصد میں ہی نمایاں تبدیلی دکھائی دے گی۔ ماضی میں تعلیم کا مقصود اول کردار سازی اور مقصود ثانی حصول روزگار تھا، جبکہ آج صورت حال اس کے برعکس ہے۔ اب تعلیمی ادارے اقتصادی ادارے بنتے جارہے ہیں، جہاں پیشہ ورانہ کورسیزکو ترجیح حاصل ہے۔ اہل اقتدار کے اثر ورسوخ ان اداروں پر تیزی سے مرتب ہورہے ہیں۔ پرائیویٹائزیشن کے سبب اہل ثروت اپنے بچوں کو بہ آسانی وہاں داخل کرسکتے ہیں، جبکہ باصلاحیت اور اہل طلبہ غربت کی وجہ سے محرورم رہ جاتے ہیں۔ صارفیت نے آج تعلیمی اداروں کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ آج تعلیمی اداروں میں نصابی سطح پر اس قدر تیز رفتاری سے تجربات کئے جارہے ہیں کہ طلبہ کا کیا کہاجائے، اساتذہ بھی محو حیرت ہیں۔ بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں کامعیار بہتر بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں، مگر حقیقت میں ایسا کچھ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ ہوسکتا ہے کہ ان تجربات کے نتائج مستقبل میں مثبت طور پر سامنے آئیں۔
علیزے نجف: اس وقت آپ خود ایک یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں۔ اس تدریسی سفر میں آپ نے طلبہ کے اندر کس طرح کے رجحان کو پنپتے ہوئے محسوس کیا ہے۔ ایسی کیا وجہ ہے کہ وہ اساتذہ سے جذباتی سطح پر جڑنے میں ناکام ہیں؟
شہاب ظفر اعظمی: میں اسکول سے یونیورسٹی تک تقریباً ۲۸؍ سال تک تدریسی فرائض انجام دے چکا ہوں۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ طلبہ بھی اس صارفی سماج سے بہت تیزی کے ساتھ متاثر ہوئے ہیں۔ تعلیم محض حصول زر اور روزگار کا ذریعہ بن چکی ہے اور نوکری کا مقصد حصول تنخواہ۔ اساتذہ پروفیشنل ہوچکے ہیں۔ جو اچھی تنخواہ کے علاوہ ٹیوشن، کوچنگ اور دیگر ذرائع سے اپنی معاشی حالت مضبوط اور بہتر بنانا زیادہ ضروری سمجھتے ہیں۔ اس لئے اساتذہ اور طلبہ کے درمیان وہ رشتہ نہیں رہا جو ہمارے زمانہ طالب علمی میں صرف خلوص، احترام اور محبت پر مبنی ہوتا تھا۔ میری ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ میں اردو زبان و ادب سے وابستہ اپنے طلبہ کو زبان و ادب، تہذیب اور تاریخ کے حقائق سے روشناس کرسکوں۔ میں انہیں بتاتا ہوں کہ زبان، لباس اور تاریخ کسی بھی قوم کی قومیت، اجتماعیت اور تہذیب و تمدن کی شناخت ہوتی ہے۔ جو قوم اپنی زبان کی حفاظت نہیں کرسکتی وہ تہذیبی تاریخ سے ہمیشہ کے لئے مٹا دی جاتی ہے۔ اردو بحیثیت مادری زبان ہماری تہذیب کی علامت ہے۔ اس نے روز اول سے ہی اپنے دامن میں بلا تفریق مذہب و ملت تمام لوگوں کو جگہ دی اور قومی یک جہتی کو فروغ دیا ہے۔ اردو زبان و ادب کی سادگی، شائستگی اور تنوع نے اسے وہ بلندی، عظمت اور انفرادیت عطا کی ہے کہ اپنے اور غیر سبھی اس کے گرویدہ ہوگئے۔ اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ نئی نسل اس سے دور ہورہی ہے۔ اردو کے سنجیدہ اساتذہ اس حقیقت کا کھلے دل سے اعتراف کرتے ہیں کہ پرائمری سے اعلیٰ تعلیم کی سطح تک ہر جگہ زبان و ادب کی تعلیم پر برا وقت آن پڑا ہے۔ اولا تو نئی نسل زبان وادب کی طرف کم راغب ہورہی ہے اور کچھ طلبہ اس جانب رخ بھی کررہے ہیں تو وہ سنجیدگی اور دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کرپارہے ہیں۔ میری نظر میں اس کے تین اسباب ہیں۔ اول ’’احساس کمتری‘‘ یعنی اردو طلبہ کے ذہن میں یہ ثبت ہوتا ہے کہ وہ سائنس یا انگریزی زبان کے طالب علموں کے مقابلے میں کمزور ہیں۔ وہ خود کو دوسرے یا تیسرے درجے کا طالب علم سمجھتے ہیں۔ دوم ’’قلم اور کتاب سے رشتے کا خاتمہ‘‘ کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون بلا شبہ کارآمد ایجادات ہیں مگر انہوں نے طلبہ کو کتابوں اور قلم سے دور کردیا ہے۔ اردو زبان و ادب سے دلچسپی اور اس پر قدرت حاصل کرنے کے لئے قلم کا ہاتھوں سے اور کتاب کا آنکھوں سے رشتہ بہت ضروری ہے۔ یہ ہم عموماً دیکھتے ہیں کہ طلبہ کلاس روم میں کتابوں ، کاپیوں کے بجائے موبائل فون سے درس حاصل کرتے ہیں اور موبائل پر ہی اہم نکات ٹائپ کرکے کام چلا لیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ان کی تحریر و تقریر میں زبان کی غلطیاں عمومی طور پر راہ پاجاتی ہیں۔ سوم ’’محدود مطالعہ‘‘ اردو کے طلبہ صرف اپنی زبان اور ادب کے مطالعہ تک محدود رہتے ہیں۔ نصاب کی کمی ہو یا ہمارے طریقہ تدریس کی، بہرحال وہ دیگر علوم اور دنیا میں ہورہی تبدیلیوں کی طرف عموماً متوجہ نہیں ہوپاتے اور نہ ہی ان میں مقابلے اور جدوجہد کی بھوک پیدا ہوپاتی ہے۔ ان وجوہات سے ان کا جذباتی تعلق صرف اساتذہ سے ہی نہیں زبان وادب کی تعلیم سے بھی کمزور ہورہا ہے۔
علیزے نجف: کورونا کے وبائی دور کے بعد سے آن لائن طرز تعلیم کو کافی فروغ ملا ہے۔ آن لائن طرز تعلیم کو آپ کس حد تک اردو طلبہ کے لئے سودمندپاتے ہیں۔ کیا اس سے آف لائن طرز تعلیم کو مستقبل میں کوئی خطرہ لاحق ہونے کا اندیشہ آپ محسوس کرتے ہیں؟
شہاب ظفر اعظمی: کورونا وبا کے دور میں دنیا ایک ایسے انقلاب سے دوچار ہوئی جس کی توقع کسی نے نہیں کی تھی۔ اردو تدریس بھی اس سے متاثر ہوئی۔ مگر اساتذہ نے ہمت و حوصلہ سے کام لیا اورزبان وادب کے تحفظ کے ساتھ اس کی تدریس و تبلیغ کی ذمہ داری قبول کرلی۔ داصل اساتذہ نے یہ سمجھ لیا کہ زبان وادب کی بقا اور ترویج کے لئے ضروری ہے کہ وقت کے تقاضے کے مطابق خود کو ڈھال لیا جائے اور ساتھ ساتھ طلبہ و طالبات کی پوری ٹیم کو ان تبدیلیوں سے ہم آہنگ کردیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ لاک ڈاؤن جیسی صورت حال میں بغیر تاخیر کئے ہوئے آن لائن ویبینار، جلسے، مشاعرے، میٹنگوں اور کلاسیز کا ایک ایسا سلسلہ شروع کردیا گیا، جس نے ثابت کردیا کہ اردو ایک ایسی زبان ہے جو خستہ سے خستہ حالات میں بھی خود کو زندہ رکھنے کی قوت رکھتی ہے۔ حکومت کی طرف سے آن لائن تدریس کے جو احکامات جاری ہوئے اس نے اردو اساتذہ کو مزید استحکام بخشا اور ادبی جلسوں کے ساتھ تدریسی امور بھی تیزی سے انجام دیئے گئے۔ ہندوستان کی بیشتر یونیورسٹیوں کے اردو شعبوں نے اپنی اپنی استطاعت اور سہولیت کے مطابق طلبہ کو نہ صرف آن لائن تدریس سے منسلک کیا بلکہ انہیں مختلف ادبی پروگراموں سے جوڑ کر ادبی مطالعات سے بھی وابستہ رکھا۔
ہمارے ملک ہندوستان میں کم و بیش ایک ہزار یونیورسٹیاں اور پچپن ہزار کالجز ہیں۔ ان تمام اداروں میں یوجی سی کی ہدایت کے مطابق آن لائن طریقہ تدریس کو اپنایا گیا۔ چونکہ پہلے ایسے حالات نہیں تھے اس لئے کسی یونیورسٹی میں پوری طرح سے آن لائن تعلیم فراہم کرانے کا باضابطہ اور مکمل بنیادی ڈھانچہ موجود نہیں تھا۔ اگر یہ ڈھانچہ موجود ہوتا تو نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی مختلف مقابلہ جاتی امتحانات کی آن لائن ٹیسٹ کے لئے پرائیویٹ کمپنیوں کی محتاج نہیں ہوتی۔ بڑے شہروں میں تو بجلی، انٹرنیٹ اور فور جی کی سہولیات کی وجہ سے کم مسائل سامنے آئے، مگر قصبوں، دیہاتوں اور گاؤں میں فور جی کنکشن اور ہمہ وقت بجلی سے محروم کالجز کے لئے یہ تجربہ بہت کارآمد ثابت نہیں ہوسکا۔ آف لائن تدریس مشکل وقت میں ایک تجربہ کی صورت میں کچھ حد تک کامیاب تو ضرور ہوئی مگر یہ کلاس روم تدریس کا متبادل نہیں بن سکی۔
دراصل آن لائن تدریس میں اردو زبان کے طلبہ کو شامل کرنا بہت آسان نہیں ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ۱: اردو طلبہ میں اکثریت معاشی طور پر کمزور طلبہ کی ہوتی ہے، جو اسمارٹ فون یا لیپ ٹاپ وغیرہ سے لیس نہیں ہوتے۔ ۲: ہندوستان کے زیادہ تر علاقوں میں بجلی کی صورتحال اطمینان بخش نہیں ہے۔ ۳: اردو اساتذہ کی ایک بڑی تعداد جدید ترین آلات، کمپیوٹر اور آن لائن سسٹم میں مہارت نہیں رکھتی۔ ۴:یہ معذور یعنی handicapped طلبہ کے لئے بہت سی دشواریوں کا باعث ہے۔ ایسے کمزور اور معذور طلبہ آف لائن پڑھنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ ۵:ایک شماریاتی ادارہ Indian Statistical Institute کا کہنا ہے کہ ملک میں صرف ۲۷؍ فیصد خاندانوں کی انٹرنیٹ تک رسائی ہے۔ کویک ایلی سمنڈس (QS)نامی ایک ادارے کا کہنا ہے کہ ملک میں انٹرنیٹ کی کنیکٹویٹی اور سگنل ایسا مسئلہ ہے جس سے طلبہ کو عام دنوں میں بھی جوجھنا پڑتا ہے۔
ان دشواریوں کے باوجود آن لائن تدریس کو ایک متبادل کے طور رکھا جاسکتا ہے اور بحرانی دور کی ضرورت کے سبب ہی سہی، اسے رائج کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ مگر اس سے قبل جو مشکلات درپیش ہیں ان پر قابو پانا ضروری ہوگا۔ ورنہ آف لائن طریقہ تدریس سے بہتر یہ کبھی ثابت نہیں ہوسکتا اور نہ ہی کلاس روم تدریس کو اس سے کوئی خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔
علیزے نجف: کیا آج کے دور میں تخلیق کیا جانے والا فکشن آنے والے وقت میں کلاسیکیت کےمعیار پر پورا اترے گا۔ آپ کی نظر میں ایسی تخلیق کا فیصدی تناسب تقریباًکتنا ہوگا؟
شہاب ظفر اعظمی: علیزے نجف صاحبہ یہ آپ کا بڑا سوال ہے۔ آپ کے اس سوال کا جواب اتنا آسان نہیں۔ مستقبل میں کس ناول کو کون سی اہمیت حاصل ہوگی ، اس کا فیصلہ تو وقت کرے گا، مگر اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اردو میں آج بہت معیاری اور اچھے ناول لکھے جارہے ہیں۔ معاصر اردو ناول کی دنیا تخلیق کے لحاظ سے بھری پُری ہے۔ ہم کسی لحاظ سے تہی دامنی کی شکایت نہیں کرسکتے۔ یہ ناول مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کے عکاس اور پاسبان ہیں۔ یہ صرف وقت گزارنے کی چیز نہیں ہیں۔ ان میں ہم صدیوں سے جوجھتے، جدوجہد کرتے انسانوں کی پوری تاریخ دیکھ سکتے ہیں۔ گویا ایک نئی تاریخ ان ناولوں میں محفوظ ہورہی ہے۔ ان میں تکنیک، ہیئت، موضوعات کے ساتھ ساتھ اظہار واسلوب کے بھی تجربے ہورہے ہیں۔ مجھے یقین ہے ان میں سے ہی کچھ ناول ایسے ضرور نکلیں گے جو نہ صرف تاریخ کا ناگزیر حصہ بنیں گے بلکہ کلاسیکیت کا معیار بھی حاصل کریں گے۔
علیزے نجف: کئی ساری تبدیلیوں کی وجہ سے اب لوگوں کا Attention Span کم ہوتا جارہا ہے۔ لوگ پڑھنے سے زیادہ بصری و سمعی ذرائع کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اس تبدیلی کا اثر ناولز کے قارئین پہ کس حد تک پڑا ہے۔ کیا یہ افسانوں و افسانچوں کے فروغ کی وجہ بنے گا؟
شہاب ظفر اعظمی: میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ نئی ٹیکنالوجی نے ہمارے ہاتھوں سے قلم اور آنکھوں سے کتابوں کا رشتہ کمزور کردیا ہے۔ اب کتابیں بھی آڈیو اور ویزول صورتوں میں دستیاب ہیں۔ اس سہولت نے قاری کو بدذوق بناکر رکھ دیا ہے۔ کتابوں کا لمس اور بین السطور بہت کچھ تلاش کرنے کا جذبہ قاری کو بہت کچھ دے جاتا تھا، وہ بصری و سمعی ذرائع میں مفقود ہے۔ قاری کی ذہنی تربیت، زبان و ادب سے شیفتگی اور فن پاروں کی قدر و قیمت کا تعین ایسا کچھ بھی نہیں ہوپاتا ہے۔ بصری وسمعی ذرائع نے قاری کو سہل پسند اور سطحی ذوق کا حامل بنا دیا ہے۔ وہ فکشن میں فلسفے، فکر اور تخلیقی رمزیت کو پسند نہیں کرتا۔اسے رانو، مسافر کے عوامی ناول اور انتظار حسین یا خالد جاوید کے ادبی ناول میں فرق ہی محسوس نہیں ہوپاتا۔ وہ ناول ہی نہیں افسانوں اور افسانچوں میں بھی ویسی سطحی مسرت تلاش کرتا ہے جو اسے ٹی وی اور او ٹی ٹی سے دستیاب ہے۔
علیزے نجف: اکیسویں صدی میں اردو ادب کی تخلیقی بساط پر فکشن نگار خواتین کے مجموعی کردار کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ کن ناموں کو آپ سرفہرست پاتے ہیں۔ نئی نسل کی خواتین سے آپ کیا توقع رکھتے ہیں؟
شہاب ظفر اعظمی: اردو افسانہ کو خواتین نے جو وسعت بخشی ہے اور جن وسیع تر انسانی تجربات سے اسے آشنا کیا ہے، اس کی بیش بہا قیمت ہے۔ اکیسویں صدی میں جو خواتین نمایاں طور پر لکھ رہی ہیں ان کے یہاں تانیثی فکر و احساس کی شدت زیادہ نظر آتی ہے۔ اسالیب کا تنوع، تجربات کا ازدحام اور اظہار کی جرأت ہماری نئی خواتین فکشن نگاروں کے یہاں فن کے روشن نشانات بن کر موجود ہیں۔ ان کے یہاں مرد اساس معاشرے سے بغاوت کا لہجہ آہستہ آہستہ تیز تر ہوتا جارہا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اک عمر کی وفا شعاری کے تجربے نے جو داغ دیئے ہیں وہ اسے کسی صورت فراموش نہیں کر پارہی ہیں۔ انہیں ان مراعات سے کد ہے جن سے رحم اور ترس کی بو آتی ہے۔ وہ معاشرہ جس کی کم وبیش نصف آبادی عورت پر مشتمل ہے محض اس لئے اسے آزادی سے محروم نہیں رکھا جاسکتا کہ وہ عورت ہے۔اس کے لئے اختیار وخواتین کا معیار جدا کیوں؟ یہ سوال بار بار ہماری افسانہ نگار خواتین نے اٹھائے ہیں۔ آج کی خواتین افسانہ نگاروں کے یہاں اس صورت حال کا رد عمل تو یکساں ہے مگر اظہار کے پیرایوں اور شدتوں میں امتیاز کی سطحیں مختلف ہیں۔ بعض خواتین کی آواز بے حد بلند ہے تو بعض کی تائیدی و اقراری۔ بعض ادیباؤں کے لہجے میں دھیماپن اور تفکر کا رنگ گہرا ہے، تو بعض کی تحریر میں طنز اور جوش کے ساتھ فکر بھی برقرار ہے۔ ہاں ان کے فکر واظہار، سوچ اور بیان کے درمیان پوری یگانگت ہے۔ اسی طرح ان جذبوں کے اظہار میں بھی یہ کھری اور سچی ہیں، جنہیں اب تک لب گویا نہ ملے تھے۔ ذکیہ مشہدی، نگار عظیم، ثروت خان، شائستہ فاخری، غزال ضیغم، صادقہ نواب سحر، لالی چودھری، نسترن فتیحی، غزالہ قمر اعجاز، سلمیٰ صنم، عنبری رحمان، نصرت شمسی اور بالکل نئی لکھنے والیوں میں شہناز رحمان، قمر جہاں، سفینہ بیگم کے فکشن کو پڑھ ڈالئے۔ ان میں تنوع بھی ہے اور تازگی بھی۔ یہ وہ فکشن ہے جن سے ہماری روایات بے بہرہ تھیں اور سماعتیں نا آشنا۔ ان خواتین کی کہانیوں میں صرف عورتوں کے دکھ درد نہیں، عصری مسائل کا خوب صورت اور فنکارانہ
بیان بھی ہوا ہے۔ نکسلی تحریک، چائلڈ لیبر، اولڈ ایج ہوم اور سیکس جیسے موضوعات پر بھی یہ کہانیاں لکھ رہی ہیں۔ توقع ہے کہ جلد ہی وہ عالمی واقعات اور انقلابات کو بھی اپنے فکشن کا حصہ بنائیں گی
علیزے نجف: آپ کی اب تک نو کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں اور کئی کتابیں زیر طبع ہیں۔ ان کتابوں میں وہ کون سی کتاب ہے جس پر قلم اٹھانا آپ کے لئے سب سے مشکل رہا اور کیوں؟
شہاب ظفر اعظمی: ’’اردو ناول کے اسالیب‘‘ میری سب سے زیادہ مشہور و مقبول تحقیقی کتاب ہے، جس میں پہلی بار اردو ناولوں کی تاریخ کا مطالعہ زبان، اسلوب اور طرز اظہار کی روشنی میں کیا گیا ہے۔ یہ ایک نیا زاویۂ مطالعہ تھا اس لئے مجھے اس کی تکمیل میں محنت اور وقت کے ساتھ صبر و تحمل کا مظاہرہ بھی کرنا پڑا۔ ناول، ناول نگار کے تجزیے، مشاہدے اور نظر کی گہرائی کا نچوڑ ہوتا ہے۔ جس کرب سے وہ گزرتا ہے، اس سے قاری کو بھی گزارنا چاہتا ہے۔ جو اس مرحلہ سے گزر گیا سمجھئے اس نے قاری کو ایسا ناول دیا ہے، جو اس کے شعور کو متحرک کرسکتا ہے۔ اس عمل میں زبان اور اسلوب کا انتخاب و استعمال سب سے اہم رول ادا کرتا ہے۔ ناول کے تناظر میں خالص اسلوبیاتی نقطۂ نگاہ سے ناول کی زبان و اسلوب کا مطالعہ جہاں اس کی فنی ساخت اور ادبی قدر وقیمت کی تفہیم اور تعین میں معاون ہوتا ہے وہیں الفاظ کی معنوی کیفیتوں اور تلازموں اور اس سے بھی زیادہ تخلیق زبان کے تخییلی پہلوؤں کا مطالعہ ناول کی اندرونی ہیئت اور معنویت کو سمجھنے میں رہنمائی کرتا ہے۔
میں نے دوران تحقیق یہ پایا کہ اسلوبیاتی مطالعے کی ایک بڑی کمزوری یہ بتائی جاتی رہی ہے کہ یہ بسیط فن پاروں مثلاً ناول وغیرہ کے لئے زیادہ موزوں نہیں ہوتا، کیوں کہ جامع اسلوبیاتی تجزیہ کے لئے مواد کا مختصر اور محدود ہونا ضروری ہے۔ میں نے یہ نتیجہ نکالا کہ یہ کمزوری اس وقت پیدا ہوتی ہے جب اسلوبیات کو لسانیات کا متبادل یا مترادف سمجھ لیا جائے اور فن پارے کے لسانی خصائص کے اضافی تواتر اور تناسب کو معلوم کرنے کے لئے کمیتی اعداد و شمار کو بنیاد بنایا جائے۔ ایسا سائنسی، تکنیکی اور ریاضیاتی مطالعہ بسیط فن پارے کے لئے یقیناً موزوں نہیں ہوسکتا۔ جبکہ اسلوبیات صرف زبان کے مطالعے کا نام ہرگز نہیں۔ اسلوبیات زبان کے ساتھ ادب کے مطالعے کا بھی نام ہے اور ادب صرف زبان، صوت، کلمہ، مصوتہ اور مصمتہ تو نہیں۔ اگر ناول میں محض حروف، الفاظ اور کلمات کی خوبیوں کو تلاش کی جائے تو اسے ناول کی ظاہری صورتوں کا مطالعہ کہا جائے گا اور ناول کی تزئین و آرائش پر بات ختم ہوجائے گی۔ نہ تو ناول نگار کے اسلوب کی انفرادیت سامنے آپائے گی اور نہ ہی ناول کا کوئی معیار قائم ہوپائے گا۔ ٹھیک ویسے ہی جیسے تاج محل کے حسن ملکوتی اور اس کے تاثر کو جاننے کے لئے پتھر وغیرہ کی ظاہری معلومات کافی نہیں۔ اس کے لئے تاریخ، تہذیب اور کرداروں کا کھنگالنا ضروری ہوگا اور اس کے لئے تاج محل سے وابستہ جذبات و احساسات اور تاثرات کو بھی محسوس کرنا ہوگا۔ اسی طرح کسی ناول نگار کے اسلوب کو سمجھنے کے لئے ناول میں موجود تاثرانہ کیفیت، بدلتی ہوئی زندگی کے مختلف جہات، غم اور خوشی کے محرکات، تجسس اور دلچسپی کی کیفیتیں جو ناول میں کشش پیدا کرتی ہیں، اہم ہیں۔ قاری کو صرف ناول نگار کی زبان متاثر نہیں کرتی، اس زبان سے لپٹی ہوئی زندگی، کردار، تعمیمات، شدت اور واقعات کا پھیلاؤ بھی اس پر اثر قائم کرتے ہیں۔ اس لئے میں نے اس کتاب میں ثابت کیا ہے کہ ناول کے اسلوبیاتی مطالعے کا فارمولا بھی ’’لسانی تجزیہ +اسلوبی خصائص‘‘ ہوگا، مگر اسلوبی خصائص کا دائرہ لسانیات سے بڑھ کر ان تمام عناصر تک پھیل جائے گا جن سے ناول کی فضا، واقعہ اور فکر کی تشکیل ہوئی ہے۔ اس مطالعے کو ہم ’’ادبی اسلوبیات‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔
علیزے نجف: تدریسی مصرفیات کے علاوہ آپ کے اور کیا مشاغل ہیں۔ ان مشاغل کے لئے آپ کیسے وقت نکالتے ہیں۔ خود کے لئے اور فیملی کے ساتھ وقت گزارنے کے لئے کیا کوئی خاص اہتمام کرتے ہیں؟
شہاب ظفر اعظمی: مرزا غالب نے کسی خط میں لکھا تھا کہ شوق اور ذریعہ معاش کا ایک ساتھ جمع ہوجانا عیش ہے۔ درس و تدریس میرا شوق ہے اور ذریعہ معاش بھی۔ سو تدریسی مشاغل ہی میرے لئے کافی ہیں۔ تدریس سے وابستہ تحریر و تقریر کے کام بھی ہیں جو مجھے پسند آتے ہیں۔ میں شعبۂ اردو میں سمینار، سمپوزیم وغیرہ کا انعقاد تواتر سے کرتا ہوں اور شعبے سے باہر بھی شرکت کرتا رہتا ہوں۔ صحافت سے بھی کچھ حد تک دلچسپی ہے، جس کا اظہار صحافت و میڈیا کورس اور اردو جرنل کی ادارت سے ہوتا ہے۔ ان تمام مصرفیات کے ساتھ ساتھ فیملی کے لئے وقت نکالنا مشکل ضرور ہوتا ہے مگر ناممکن نہیں۔ میری شامیں زیادہ تر فیملی کے ساتھ گزرتی ہیں۔ سال میں ایک یا دو سفر اہل خانہ کے ساتھ ایسی جگہوں کا کرتا ہوں جن کا شمار تفریحی اور سیاحتی مقامات میں ہوتا ہے۔ ہفتے کا ایک دن ’’اتوار‘‘ مکمل طور پر فیملی کے لئے ہی وقف ہوتا ہے۔ جو کبھی گھر میں، کبھی بازار میں اور کبھی دوست احباب کے ساتھ گزرتا ہے۔
علیزے نجف: بطور انسان زندگی کے متعلق آپ کیا رائے رکھتے ہیں۔ وہ کون سی اقدار ہیں جو انسان کو انسان بنائے رکھنے کے لئے ضروری ہیں؟
شہاب ظفر اعظمی: زندگی اللہ کی عطا کردہ ایک نعمت ہے۔ اس کا شکر ادا کرتے ہوئے یہ غور کرنا چاہئے کہ اس نے آپ کو اس دنیا میں کس لئے بھیجا ہے۔ اللہ نے ہر انسان کو کوئی خاص صلاحیت ودیعت کی ہے۔ ہمیں اس صلاحیت کا استعمال انسانیت، سماج اور ملک کی فلاح و بہبود کے لئے کرنا چاہئے۔ رواداری، محبت اور انسانیت وہ اقدار ہیں جو انسان کو انسان بناتی ہیں اور دوسری تمام مخلوقات سے اسے ممتاز کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ انسان کے لئے صاحب ایمان اور صاحب کردار ہونا بھی ضروری ہے، جس کے کردار اور اخلاق کا مظاہرہ اس کے فکر و عمل دونوں سے واضح ہو۔
علیزے نجف: زندگی کی ابتدائی عمر میں جو خواب دیکھے تھے کیا وہ سارے خواب پورے ہوچکے ہیں۔ مستقبل کے لئے کیا کوئی ہدف رکھتے ہیں؟
شہاب ظفر اعظمی: میرے خیال سے ہر عمر کے خواب الگ ہوتے ہیں۔ ابتدائی عمر کے خواب وہ نہیں تھے جو آج تعبیر کی شکل میں موجود ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے مجھے خواب سے زیادہ عزت و وقار عطا کیا ہے۔ میں نے تعلیم کی ابتدا مدرسے سے کی تھی اور جو ماحول میرے آس پاس تھا اس کے پیش نظر ملک کی ایک اہم یونیورسٹی میں تدریس کا خواب تو بالکل نہیں دیکھا جاسکتا تھا۔ میرے والد عالم دین تھے اور ان کی خواہش یہی تھی کہ میں بھی عالم دین بنوں۔ اس کے لئے انہوں نے رفیع گنج سے مبارک پور کے مدارس تک میرا تعلیمی سفر بھی کروایا۔ مگر بعد میں کچھ ایسے حالات پیدا ہوئے کہ میں اس میدان سے نکل کر کالج کی طرف آگیا۔ کالج اور یونیورسٹی میں امتیازی نمبروں سے کامیابی ملی تو حوصلہ بڑھا اور بالآخر موجودہ مقام و منصب تک رسائی ہوئی۔ خوب سے خوب تر کی تلاش مجھے ہمیشہ رہی ہے۔ اس لئے میں نے ملازمت کے بعد بھی خواب دیکھنا بند نہیں کیا۔ کبھی شعبے کی ترقی کا خواب، کبھی ادبی و اخلاقی ذمہ داری کا خواب اور کبھی اپنے طلبہ کی کامیابی کا خواب۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ مجھے جس چھوٹے سے منصب سے نوازا گیا ہے اس کے فرائض بحسن و خوبی انجام دوں اور ملی، علمی، ادبی، تدریسی ذمہ داریوں کو نبھانے میں کامیاب رہوں۔ اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مستقبل میں بھی ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کا اہل بناکر رکھے۔
علیزے نجف: اردو ادب میں ملنے والے اعزازات کی نامزدگی پر اب برملا طرف داری کا الزام لگایا جاتا ہے۔ اس بارے میں آپ کی کیا رائے۔ اس کے منفی اثرات اردو ادب کو کس طرح متاثر کررہے ہیں؟
شہاب ظفر اعظمی: دیکھئے! پہلی بات تو یہ ہے کہ اعزازات و انعامات سے ادب کا معیار طے نہیں ہوتا۔ ادب کا معیار وقت طے کرتا ہے۔ بہت بڑے بڑے فن کار بغیر کسی اعزاز و انعام کے ادب کی تاریخ میں زندہ ہیں بلکہ سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور بعض درجنوں اعزازات حاصل کرکے بھی گمشدگی کے اندھیرے میں کھوچکے ہیں۔ جہاں تک اعزازات پر طرف داری کا الزام ہے تو یہ بھی کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔ ماضی کی جانب نظر دوڑائیں تو دیکھیں گی کہ بہت سے ملکی اور غیر ملکی اعزازات ایسے رہے ہیں جو اعتراض یا تنقید کا نشانہ بنے ہیں۔ ان سے نہ تو اعزاز و انعام پر کوئی فرق پڑا اور نہ ہی اس تصنیف پر، جسے وہ انعام حاصل ہوا
علیزے نجف: اس انٹرویو کے ذریعہ آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
شہاب ظفر اعظمی: اردو صرف زبان نہیں، ہماری تہذیب اور شناخت بھی ہے۔ اس کی بقا اور تحفظ کے لئے ضروری ہے کہ اس کے رسم الخط کے ساتھ ہم اسے اپنائیں۔ لسانی نقطہ نظر سے وہی زبان زندہ رہتی ہے جو استعمال میں ہو۔ ہم اس کے استعمال کو عام کریں۔ اردو ادب تو بہت لکھا جارہا ہے مگر اردو زبان پڑھنے والے کم ہورہے ہیں۔ ہمیں اپنے بچوں کو اردو زبان کی ابتدائی تعلیم ضرور دینی چاہئے۔ اپنے گھروں میں اردو اخبارات، رسائل منگوائیں تاکہ گھر کے ماحول میں اردو شامل رہے۔ اس صارفی دور میں تہذیبی اور لسانی شناخت بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ ایسے میں دنیا کی تمام قومیں اپنی اپنی زبان کے تحفظ کی کوششیں کررہی ہیں۔ ہم اردو والوں کو بھی اس سمت سنجیدگی کے ساتھ عملی طور پر کوشاں رہنے کی ضرورت ہے۔
علیزے نجف: بہت بہت شکریہ سر کہ آپ نے مجھے اپنا قیمتی وقت دیا
شہاب ظفر اعظمی: علیزے، آپ کا بھی بہت شکریہ، اللہ آپ کو ہمیشہ خوش رکھے آمین
…………………………………………………………………………………….
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page