انٹرویو نگار علیزےنجف
اعظم گڈھ کی سرزمین میں واقع شبلی نیشنل کالج اپنی تعلیمی خدمات کی وجہ سے پورے ضلع اور اطراف میں ایک نمایاں نام و مقام رکھتا ہے، یہ نام بھی اپنی ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے، معروف مصنف و مؤرخ و سیرت نگار اور عالم دین علامہ شبلی نعمانی نے اعظم گڈھ کو علمی روشنی سے مزین کرنے کے لئے اس ادارے کی بنیاد رکھی تھی، اعظم گڈھ اردو ادب کی خدمات کے حوالے سے بھی اپنی ایک پہچان رکھتا ہے، شبلی نیشنل کالج کا بھی اس میں ایک بڑا حصہ ہے اس وقت شبلی کالج میں شعبہء اردو کے صدر پروفیسر محمد طاہر صاحب ہیں، جو کہ ایک ادیب ہیں اور کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں، اردو زبان و ادب کے حوالے سے کی جانے والی ان کی کوششوں سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا، کالج کے طلبہ میں اردو سے لگاؤ پیدا کرنے کے لئے یہ پروگرامز بھی کرواتے رہتے ہیں، اس وقت اردو زبان کو جس طرح مسائل اور خدشات لاحق ہیں ان پہ ان کی گہری نظر ہے، اس وقت پروفیسر محمد طاہر صاحب میرے سامنے ہیں میں ان سے بحیثیت انٹرویو نگار کے مخاطب ہوں میں ان سے ان کا ذاتی تعارف حاصل کرتے ہوئے ان کے نظریات و خیالات کو جاننے کی کوشش کروں گی۔
علیزے نجف: سب سے پہلے آپ ہمیں خود سے متعارف کروائیں اور یہ بھی بتائیں کہ آپ کی جائے پیدائش کہاں ہے اور اس وقت کہاں مقیم ہیں؟
پروفیسر محمد طاہر: میں محمد طاہر ، اترپردیش کے ضلع اعظم گڑھ (اب مئو)کے ایک گاؤں بندی کلاں میں سرکاری اسناد کے مطابق یکم جولائی ۱۹۶۸ء کو میری ولادت ہوئی۔ فی الحال شہراعظم گڑھ میں مقیم ہوں۔ بھائیوں بہنوں میں سب سے بڑا تھا (محمدطیب، نشاط بانو، محمدطالب، محمدطارق، نفیس بانو اور نائلہ بانو)یعنی ہم لوگ چار بھائی اور چار بہن تھے۔ تعلیم یافتہ معزز اور زمین دار گھرانے سے تعلق تھا۔ اچھی طرح یاد ہے پورے گاؤں میں صرف ہمارا گھر پختہ اور دو منزلہ تھا گھر کے سامنے گلی تنگ تھی لیکن آنگن بہت وسیع و عریض تھا۔ گاؤں کے مشرق میں کوئی آبادی نہ تھی اور تاحدنگاہ نیلگوں آسماں کی رونقیں اور زمین کی بیکراں وسعتیں خدا کی عظمت کا احساس دلاتی تھیں۔ گاؤں کے پورب میں ہی کئی بڑے بڑے پوکھرے اور ایک بڑا تالاب تھا۔گاؤں والوں کے لئے مچھلیوں کے علاوہ پرندوں کا شکار سب سے آسان اور مرغوب غذا تھی۔ کوئی ایک دن ایسا نہ ہوتا کہ کچن میں مچھلی یا چڑیے کا گوشت نہ رہا ہو۔ گاؤں میں ایک جامع مسجد تھی جو نمازیوں کی بڑی تعداد سے بھری رہتی تھی ۔ فجر کے بعد سونے اور عشاء کے بعد جاگنے کا کوئی تصور ہی نہ تھا۔ ہر گھر سے تلاوت کی آوازیں آتیں اور عجیب طرح کی برکتوں کا احساس ہوتا۔ خود والد محترم ایک مولوی تھے جو بغیر کسی اجرت کے گاؤں کے بچوں کو پڑھاتے اور ان کی سخت تربیت کرتے تھے۔ شہر کے شور وغل اور ہنگاموں ، کثافتوں سے محفوظ صاف ستھرا یہ گاؤں اپنے دامن میں معصومیت ، پاکیزگی اور تقدس کے موتی سمیٹے کسی نعمت سے کم نہ تھا حالانکہ اب گاؤں کی فضا بھی شہر کی طرح مسموم ہونے لگی ہے ۔
علیزے نجف: آپ کی پرورش کس طرح کے ماحول میں ہوئی؟ اس ماحول نے آپ کی شخصیت پر جو سب سے گہرا اثرمرتب کیا وہ کیا ہے ؟
پروفیسر محمد طاہر: میری تعلیم کی ابتدا گھر کے قریب واقع ایک مکتب سے ہوئی۔ مکتب میں کوئی فیس نہ تھی ۔ جمعرات کو ہم لوگ پورے محلے میں گھوم کر چندا جمع کرتے جسے چٹکی کہا جاتا تھا۔ فرش پہ بیٹھنے کے لئے گھر سے بوریا ، تختی ، قلم اور دوات لے کر جانا پڑتا تھا۔ مکتب میں صرف دینی تعلیم دی جاتی تھی جس کے انمٹ نقوش دل پر ثبت ہیں درجہ چہارم تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد چھٹی کلاس میں قصبے کے نیشنل اسکول میں داخلہ لے لیا اس وقت تک یہ نہیں پتا تھا کہ انگریزی زبان دائیں جانب سے لکھی جاتی ہے یا بائیں جانب سے ۔ ہائی اسکول میں فرسٹ کلاس پاس ہوا تو گھر والوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ کرادیا وہیں سے انٹرمیڈیٹ، بی اے آنرس، بی لب ایس سی ، بی ایڈ، ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی اسناد حاصل کی ۔ ایک معمولی سے گاؤں سے جاکر علی گڑھ مسلم یونیوسٹی جیسے ادارے سے ایم اے میں گولڈ میڈل حاصل کرکے گھر لوٹا تو دادا اور والد دونوں کی آنکھوں میں ایسی چمک دیکھی جو سونے سے زیادہ تیز اور بیش قیمتی تھی۔ اکثرلوگ الزام لگاتے ہیں کہ میں انتہا پسند اور کٹرمسلمان ہوں۔ اگر یہ سچ ہے تو میں خود کو بڑا خوش نصیب سمجھتا ہوں۔ جب سے ہوش سنبھالا گناہوں سے دور رہنے کی کوشش کی ہے ۔الحمدللہ بچپن سے صوم و صلاۃ کی پابندی میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔
علیزے نجف: آپ نے ابتدائی تعلیم کس اسکول سے حاصل کی ؟ اس کے بعد کے تعلیمی سفر میں نامساعد حالات کا بھی آپ نے سامنا کیا؟
پروفیسر محمد طاہر: مکتب کے بعد نیشنل اسکول محمد آباد سے ہائی اسکول پاس کیا ، بقیہ ساری اعلیٰ تعلیم کی ڈگریاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے حاصل کیں ۔ تقریباًسترہ سال تک وہاں قیام رہا۔ والد محترم کے ذریعہ معاش کا انحصار ایک چھوٹی سی دوکان پر تھا ۔ اسی محدود آمدنی سے آٹھ اولادوں کی پرورش ایک سخت امتحان تھا لیکن انھوں نے کبھی اس کا احساس نہیں ہونے دیا۔ اس زمانے میں والد صرف دو سو روپئے مہینہ بھیجتے تھے اور اسی سے میں سارے اخراجات پورے کرتا تھا ۔ جب ایم اے میں پہلی دفعہ میں ہی جے آر ایف کوالیفائی کیا تو خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ اس زمانے میں اٹھارہ سو روپئے اسکالرشپ کے ملتے تھے جو ایک بڑی رقم تھی۔
علیزے نجف: آپ کے پروفیشنل سفرکا آغاز کہاں سے ہوا؟ اس سفر میں فکری سطح پر آپ کے اندر کس طرح کی تبدیلی واقع ہوئی؟
پروفیسر محمد طاہر: کسی طالب علم کے لئے یہ بڑے اعزاز کی بات ہے کہ اس کا استاد اس سے ذاتی طور پر واقف ہو ، میں ان معنوں میں اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ میرے تمام اساتذہ مجھے عزیز رکھتے تھے ، خاص طور سے علی گڑھ میں پروفیسر قاضی عبدالستار ، پروفیسرقاضی افضال حسین ،پروفیسر قاضی جمال حسین، پروفیسرشہر یار،پروفیسر اصغرعباس، پروفیسر عقیل احمد،پروفیسر ابوالکلام قاسمی جیسے اساتذہ نے میری رہنمائی کی ۔ ایک دفعہ قاضی جمال صاحب نے کہا تھا کہ بیٹا تعلیم مکمل کرنے کے بعد یہیں ٹھہرنا تمہارا تقرر اسی شعبہ میں ہو جائے گا ، میں نے مسکرا کر جواب دیا تھا کہ سر آپ کی شفقت کا شکریہ۔ لیکن یہ دنیا شعبۂ اردو کی گیلری سے کہیں بڑی ہے۔
چوبیس دسمبر۱۹۹۵ء کو پاس کے ایک گاؤں غالب پور میں میری شادی ہوئی ابھی خوشیوں کے پھول خشک بھی نہ ہوتے تھے کہ ناگہاں ۱۵؍مارچ ۱۹۹۶ء کو سب کو روتا بلکتا چھوڑکر والد محترم اس دنیا سے روٹھ کر چلے گئے ،اس غم مفارقت سے اب بھی خون رستاہے۔ ان کی یاد آتی ہے تو آنکھیں اشک بار ہوجاتی ہیں۔ ان کے انتقال کے بعد میرے نازک کندھوں پر ذمہ داریوں کا ایک ایسا بوجھ رکھ دیاگیا کہ میں پریشان ہوگیا ۔ ۱۹۹۷ء میں پی ایچ ڈی کے وایوا کے دو سال بعد بمبئی کا رخ کیا۔ کلیان اسٹیشن پر انقلاب اخبار خریدا۔ اس اخبار میں رئیس ہائی اسکول بھیونڈی میں اردو ٹیچر کی تقرری کا ایک اشتہار تھا ، میں نے دئے گئے فون نمبرپر فوراً رابطہ کیا۔ انھوں نے اسی دن اپنے پاس بلوایا اور ایک درخواست لکھنے کو کہا۔ درخواست پڑھنے کے بعد وہاں کے صدر نے کہاکہ اس سے پہلے تین اور لوگ آئے تھے جنھوں نے درخواست لکھی تھی لیکن یہ پہلی درخواست ہے جس میں کوئی غلطی نہیں ہے ۔ اس لئے آپ کا نصف تقرر ہوچکا ہے پھر میرا ایک طویل انٹرویو ہوا ۔ قصہ مختصر وہاں میرا تقرر ہوگیا اور پورے ایک سال رئیس جونیر اسکول بھیونڈی میں میں نے پڑھایا ، سال مکمل ہونے کے بعد تنخواہ ایک مشت ملی لیکن اس دوران میں بہت پریشان رہا کرتا تھا گھر میں سب سے بڑا تھا اس لئے کسی سے پیسے نہیں مانگ سکتا تھا ، جیب مکمل طور پر خالی تھی ، وہ حالات یاد آتے ہیں تو آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کارساز ہے ، اسی سال چھٹیوں میں میں گھر آیا ، شبلی نیشنل کالج میں اردو کے ایک استاد کی جگہ خالی تھی ، انٹرویو دیا، اللہ کا شکر ہے کہ تقرر ہوگیا۔ تب سے یعنی سات جون ۲۰۰۰ سے اس کالج میں درس و تدریس سے وابستہ ہوں اور اب پروفیسر اور صدر شعبہ اردو کی حیثیت سے اردو زبان و ادب کی ٹوٹی پھوٹی خدمت کررہا ہوں۔
علیزے نجف: آپ شعبۂ تدریس سے منسلک ہیں ، موجودہ تعلیمی نظام پر آپ کی گہری نظر ہے ، سوال یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں طلبہ میں کیریکٹر پیدا کرنے سے زیادہ محض انفارمیشن فراہم کرنے پر توجہ دی جارہی ہے ۔ اس تربیتی خلا کے پیدا ہونے کی بنیادی وجہ کیا ہے؟
پروفیسر محمد طاہر: آپ نے درست فرمایا ، تعلیمی اداروں میں طلبہ کی کردار سازی کے بجائے اس کو نوٹ گننے والی مشین اور کام کرنے والا روبوٹ بنایا جارہا ہے۔ طلبہ کے دل و دماغ میں دنیا پرستی کا نشہ چھا رہا ہے۔ ہمدردی ، انسانیت، محبت، خدمت وغیرہ جیسے جذبات معدوم ہوتے جارہے ہیں جس سے طرح طرح کی پیچیدگیاں اور سماجی مسائل کا پیدا ہونا فطری ہے۔ آج کا سماج پوری طرح مادیت پسندی کے جال میں الجھ چکا ہے ، صرف پیسوں کی قدر ہے۔ ضروریات زندگی بڑھتی جارہی ہیں ، فیشن اور تعیش پسندی کی دوڑ میں سب شامل ہیں ۔ دنیاوی شان و شوکت اور جھوٹی چمک دمک کے پیچھے بھاگتے ہوئے یہ احساس نہیں رہتا کہ ہم سے اپنے چھوٹتے جارہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں یہ صورت اور بھی سنگین ہوگی ۔ ادب ہی ایک ایسا شعبہ ہے جو آدمی کے انسان بننے کے عمل میں معاون ہے ورنہ آج ہر شخص خود غرضی،تکبر اور مفاد پرستی کا ایسا مصنوعی بوجھ اٹھائے ہوئے ہے کہ اس کے تلے کئی سگے رشتے بھی کچل دئے جارہے ہیں۔
علیزے نجف: تبدیلی اس کائنات کا حصہ ہے ، اس وقت کے طلبہ کی نفسیات بھی بیسویں صدی کے طلبہ سے بہت مختلف ہوچکی ہے ۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ اب بھی بیش تر تعلیمی اداروں میں تدریس کی سطح پہ اس تبدیلی کو قبول کرنے میں سستی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے ۔ اس رویے کو کیسے بہتر کیا جا سکتا ہے؟
علیزے نجف: آج کے طلباء بیسویں صدی کے طلباء سے بہت مختلف ہیں یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ آج کے طلباء زیادہ اسمارٹ ہیں۔ موبائل اور نیٹ کی سہولت کے باعث تعلیم کے میدان میں بڑی تبدیلی آئی ہے ۔ اس لئے وہ اساتذہ جو لکیر کے فقیر تھے ان کی مشکلات بڑھ گئی ہیں ، اب ہر وقت اپ ڈیٹ رہنا پڑتا ہے ویسے بھی شعبہ تعلیم سے وابستہ لوگوں کو ہر وقت سوچنا اور مطالعہ کرنا پڑتا ہے اور ایسا نہ کرنا بددیانتی ہے ، یہ افسوس ہے کہ آ ج بھی کچھ اساتذہ اپنی کمزوری چھپانے کے لئے کلاس روم میں ادھر ادھر کی بات کرکے ٹائم پاس کرتے ہیں۔ اچھے استاد کو طلباء سے زیادہ مطالعہ کرنا لازمی ہے ۔ تاکہ وہ ہر سوال کا جواب دے سکیں اور مطمئن کر سکیں، تعلیمی نظام بھی اب چاک ڈسٹر کے فرسودہ طریقے سے آگے بڑھ چکا ہے ۔ پروجیکٹر، پاورپوائنٹ اور اسمارٹ کلاسز کے نظام میں اساتذہ کو ڈھلنا پڑے گا اور ہر چیلنج کو قبول کرنا پڑے گا۔ درس و تدریس ایک ایسا پیشہ ہے جس میں کاہلی اور تساہلی حرام ہے ۔
علیزے نجف: آپ موجودہ وقت کے اساتذہ کے مجموعی کردار کے بارے میں کیارائے رکھتے ہیں؟
پروفیسر محمد طاہر: موجودہ وقت کے اساتذہ کی کارکردگی بہت زیادہ تشفی بخش نہیں ہے۔ جس وقت میں علی گڑھ میں طالب علم تھا اس زمانے میں پروفیسر شہریار، منظرعباس نقوی، ابوالکلام قاسمی ، قاضی افضال حسین، قاضی جمال حسین، صغیرافراہیم، طارق چھتاری جیسے اساتذہ موجود تھے۔ ہر شخص اپنے آپ میں عجوبۂ روزگار تھا اور اپنی علاحدہ شان و شناخت رکھتا تھا۔ ایسے بڑے چہرے اب نظر نہیں آتے۔ یہ صورت حال صرف علی گڑھ کی نہیں ہے بلکہ جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی یونیورسٹی ، جے این یو، الٰہ آباد یونیورسٹی، بنارس ہندویونیورسٹی، بہار بنگال ہرجگہ خاموشی سی ہے یا ایسے بڑے چہرے نظر نہیں آ رہے ہیں جن کا مقام و مرتبہ بہت بلند تھا۔ اساتذہ کی تقرری صلاحیت کے بجائے سفارش سے ہوتی ہے ۔ تعلیمی معیار میں گراوٹ کا سب سے بڑا سبب یہی ہے۔
علیزے نجف: نئی تعلیمی پالیسی کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ آپ کو کیالگتاہے جس مقصد کے تحت تعلیمی پالیسی میں تبدیلی کی گئی ہے اس سے تعلیمی نظام میں کس طرح کی تبدیلی پیداہونے کا امکان ہے؟
پروفیسر محمد طاہر: نئی تعلیمی پالیسی کے متعلق نہ صرف طلبہ بلکہ اساتذہ بھی کنفیوژن کا شکار ہیں ۔ زمینی سطح پہ جو حقائق ہیں اس سے اس پالیسی کے نفاذ میں بڑی دشواریاں پیش آرہی ہیں ، اساتذہ کی بہت کمی ہے ، طلبہ کی تعداد سیلاب کی طرح بڑھتی جارہی ہے۔ وسائل نہیں کے برابر ہیں، اس لئے اس نئی تعلیمی پالیسی کے بہت مثبت نتائج برآمد ہونے کے امکانات کم ہیں لیکن اس پر کوئی حتمی رائے دینا ابھی جلد بازی ہوگی۔ نئی تعلیمی پالیسی کا مطلع فی الحال ابر آلود اور گرد آلود ہے۔
علیزے نجف: آپ شبلی نیشنل کالج میں شعبہ اردو کے صدر ہیں کہتے ہیں کہ اردو اس وقت نظر انداز ہورہی ہے ۔ آپ کے ادارے میں پچھلے پانچ سالوں میں اردو طلباء کے اندر کمی آئی ہے یا اضافہ ہوا ہے؟
پروفیسر محمد طاہر: اردو طلباء کی تعداد بہت کم نہیں ہوئی ہے لیکن بعض حقائق تشویشناک ہیں ۔ اردو زبان کی ترقی کی رفتار تشفی بخش نہیں ہے۔ اعظم گڑھ کے ہم سایہ ضلع جونپور جسے کسی زمانہ میں شیرازِ ہند کہا جاتا تھا اس ضلع کے کسی بھی ڈگری کالج میں آج اردو کاایک بھی مستقل ٹیچر نہیں ہے ، یہی حال غازی پور، بلیا، دیوریا، کشی نگر، چندولی اور دوسرے اضلاع کا بھی ہے ۔ بنارس کاشی ودیاپیٹھ کے شعبہ اردو میں کئی سالوں سے تالا لٹک رہا ہے اور اردو والوں کو منھ چڑا رہا ہے۔ رجوبھیا الٰہ آباد یونیورسٹی میں کسی بھی اردوٹیچر کا تقرر نہیں ہو اہے۔ الٰہ آباد سینٹرل یونیورسٹی میں بھی برائے نام اردو ٹیچر ہیں اور اعظم گڑھ میں میں اکیلا ہوں۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اردو کا خاتمہ کس طرح ہو رہا ہے۔ اس میں کچھ تو حکومت کا سوتیلا رویہ ہے کچھ اردو دشمن حضرات کی سازش اور کچھ ہماری غفلت ۔ افسوس کہ آج اس زبان کی حالت بہت خستہ ہے۔
علیزے نجف: بحیثیت اردو کے پروفیسر اور صدر بننے کے بعد آپ نے اردو ادب کی نشوونماکو مزید فروغ دینے کے لئے کیاکیا کوششیں کی ہیں اور اس کے نتائج کیا رہے ہیں؟
پروفیسر محمد طاہر: کالج کی سطح پر طلبہ کے اندر تقریری اور تحریری صلاحیتوں کو نکھارنے کی خاطر مستقل پروگرام آرگنائز کراتا رہتا ہوں ، ہفتے میں ایک دن ادبی پروگرام ہوتا ہے جس میں طلباء کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی ہے ۔ اردو کے فروغ کے لئے طلباء کی ایک انجمن بھی قائم ہے ، ان کی الگ سے کونسلنگ بھی کرتا رہتا ہوں اور اردو کی افادیت و اہمیت پر لکچر بھی دیتا رہتا ہوں۔ اس کے علاوہ آج کے سب سے موثر ذریعہ یعنی سوشل میڈیا پر میں اس تعلق سے مستقل لکھتا رہتا ہوں۔ انٹرنیشنل اور قومی سطح کے کئی ایک سمینار بھی کرایا ہے۔
علیزے نجف: آپ نے مختلف یونیورسٹیوں میں نصاب سازی کے فرائض انجام دئے ہیں۔ آپ نصاب سازی کرتے ہوئے کن دو بنیادی باتوں کا ہمیشہ خیال رکھتے ہیں اور طلبہ کی کس نفسیات کو ہمیشہ اہمیت دیتے ہیں؟
پروفیسر محمد طاہر: نصاب تیار کرتے وقت عصری تقاضوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے ساتھ ہی کلاسیکی ادب سے واقفیت لازم ہے۔ ایسا نصاب تیار کیا جاتا ہے جس میں زبان و ادب کی تاریخ اور عہد بہ عہد ارتقاء کی پوری تصویر سامنے آجائے اور طلبہ کے اندر تخلیقی ، تحقیقی اور تنقیدی شعور پیدا ہوسکے۔
علیزے نجف: آپ کے زیر نگرانی کئی لوگوں نے پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا اور کئی لوگ لکھ رہے ہیں۔ اس دوران پی ایچ ڈی کرنے والوں کا فکری معیار کیسارہا۔ وہ پی ایچ ڈی اپنی صلاحیت کو مد نظررکھتے ہوئے کرتے ہیں یا محض جاب کے لئے؟
پروفیسر محمد طاہر: عام طور سے پی ایچ ڈی لوگ ڈگری کے حصول کی خاطر کرتے ہیں۔ لیکن میں نے ہمیشہ ایسے طلباء کا انتخاب کیا جو باصلاحیت تھے۔ ریسرچ کا کام بہت محنت مشقت جانفشانی اور عرق ریزی کا ہے اس میں کئی صبرآزما لمحات آتے ہیں۔ میر ی نگرانی یں جن لوگوں نے ریسرچ کیا وہ آج کئی اہم اداروں میں بہ طور استاد اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں یہ میرے لئے بھی اطمینان کی بات ہے ۔
علیزے نجف: آپ نے مشتاق احمد یوسفی کی ادبی خدمات پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھاہے۔ سوال یہ ہے کہ آپ نے ان کا ہی انتخاب کیوں کیا؟ اس ریسرچ کے ذریعہ آپ نے ان کی شخصیت کے کن پہلوؤں کو زیر بحث لائے ہیں جو اس سے پہلے پردۂ خفامیں تھے؟
پروفیسر محمد طاہر: مشتاق احمد یوسفی اردو کے سب سے بڑے طنز و مزاح نگار تھے۔ بعض ناقدین نے ان کے زمانے کو عہد یوسفی کے نام سے وابستہ کیا تھا۔ ان کے جیسی صاف، سلیس، دل نشیں، شگفتہ ، پرمزاح، ادبی اور معیاری اردو نثر لکھنے والے اتنے بھی نہیں ہیں کہ ان کو انگلیوں پر شمار کیا جا سکت۔ ہندوستان پاکستان کے علاوہ کئی ممالک میں ان کے چاہنے والے موجود ہیں اور کوئی ایسی یونیورسٹی نہیں جس کے نصاب میں وہ شامل نہ ہوں۔ مجھے خوشی ہے کہ میں نے ایسے ادیب پر مقالہ لکھا اور آج بھی ان کی شخصیت اور فن پر میرے علاوہ کسی اور کی قابل ذکر کتاب موجود نہیں۔ مشتاق احمدیوسفی کی ادبی خدمات کے علاوہ بھی میں نے ان کے اسلوب اور فن پر کئی اہم مضامین لکھے ہیں۔ یہ بات البتہ افسوس کی ہے کہ شدید خواہش کے باوجود کبھی ان سے ملاقات نہ کرسکا۔ سرحد کے علاوہ دو ملکوں کی منافرت کی دیوار درمیان میں حائل تھی جسے میں عبور نہ کرسکا۔
علیزے نجف: آپ پروفیسر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ادیب بھی ہیں آپ کو کب محسوس ہوا کہ آپ میں ایک قلم کار بستاہے پھر اس قلم کی نشوونماکیسے ہوئی؟
پروفیسر محمد طاہر: میں بہت کم عمر غالباً آٹھویں جماعت میں تھا کہ بنارس سے شائع ہونے والے اردو اخبار آوازِ ملک میں ایک مضمون بھیجاجب وہ شائع ہوا تو خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا ۔ وہ اخبار والدمحترم روزپڑھتے تھے۔ نہ جانے کیوں ان کی نظرمیرے مضمون پرنہ پڑی پھرمیں نے ان کوبتلایا تو بے حد خوش ہوئے ۔ یہ میرا پہلا مضمون تھا جو اس وقت لکھا تھا۔ اس کے بعد دوسرا مضمون اس وقت لکھاجب میں لوکل ٹرین سے شاہ گنج جا رہا تھا۔ اچانک ایک عورت ٹرین کے سامنے کود گئی۔ ٹرین رک گئی۔ اس کی لاش سامنے پڑی تھی ۔ سر کے دو ٹکڑے ہوگئے تھے اور میرا دل بھی اس وقت دو لخت ہو گیا تھا۔ اس حادثے نے عورت کی مظلومیت کی جو کہانی دل کے اوراق پر لکھی اس کی روشنائی آج بھی خشک نہیں ہوئی ہے۔ اس کے بعد اکثر اخبار وں اور رسالوں میں میرے مضامین شائع ہونے لگے۔ الحمدللہ آج قلم رواں ہے۔
علیزے نجف: ملکی سطح پر اردو کی حالت زار کیا ہے؟ آپ کے خیال میں اردو کی اس حالت کی ذمہ داری کن پہ عائد ہوتی ہے؟
پروفیسر محمد طاہر: ایک واقعہ سن لیجئے، گجرات کے شہر سورت میں ایک خادمہ کسی شخص کے گھر صاف صفائی کے لئے آتی تھی ، اس کے ہاتھ میں روزانہ ایک گجراتی زبان کا اخبار بھی ہوتا تھا۔ گھر کے مالک نے اس سے پوچھا تم تو پڑھی لکھی نہیں ہو پھر یہ اخبار کس کے لئے خریدتی ہو ۔ اس نے جواب دیا: صاحب میں پڑھی لکھی نہیں ہوں لیکن اخبار اس لئے خریدتی ہوں تاکہ یہ اخبار چھپتا رہے اور ہماری زبان زندہ رہے۔ کوئی بھی زبان ترقی تبھی کرتی ہے جب اس کو خون دل سے سینچا جائے۔ آج اردو زبان سے سے محبت کا زبانی دعویٰ تو سب کرتے ہیں لیکن نہ تو کوئی اردو اخبار خریدتا ہے نہ اردو میگزین نہ اردو کتابیں ۔ پانچ سو روپئے کاہر ماہ موبائل ریچارج کرالیں گے لیکن سو روپئے کی اردو کتاب نہیں خریدیں گے۔ جب گھر میں اردو اخبار رسائل اور کتابیں نہ ہوں گی تو انھیں پڑھے گا کون؟اور زبان کیسے ترقی کرے گی؟
علیزے نجف: آپ کی اب تک اٹھارہ کتابیں منظرعام پر آچکی ہیں ان میں کئی کتابیں امہات المومنین اور مقدس مائیں کی شخصیات کا احاطہ کررہی ہیں ۔ کیا وجہ ہے کہ آپ نے اس موضوع پہ اتنی ساری کتابیں لکھیں؟ یہ محض اتفاقیہ کاوش ہے یا طے شدہ سوچ کے تحت لکھی گئی ہیں؟
پروفیسر محمد طاہر: امہات المومنین کی حیاتِ مبارکہ کو متعارف کرانا میری زندگی کا مقصد ہے ۔ سماج میں جو برائیاں پھیل رہی ہیں اس کے لئے ذمہ دار مرد اور عورت دونوں ہیں۔ لیکن میرا ماننا ہے کہ خواتین کی تربیت پہ توجہ کی آج خاص اورسخت ضرورت ہے ، گھر کا سارا نظام انھیں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے، اس لئے اگر وہ بچے بچیوں کی صحیح تربیت دیں اور گھر میں دینی ماحول کی فضا کو برقرار رکھیں ، حرام و حلال کی تمیز، صوم و صلاۃ کی پابندی، صحیح غلط کا امتیاز،اور اپنے بچوں کی نگہ داشت پہ مکمل توجہ دیں تو بہت کچھ بدل سکتا ہے۔ ہمارے نبی ﷺ کی گیارہ بیویاں تھیں۔ ان میں سے ہر ایک کی زندگی ایسی ہے جو آئیڈیل کہی جائے ۔ مسلم خواتین اس کی خوشبو پالیں تو گھر ، سماج اور یہ دنیا جنت بن جائے ۔ افسوس کی بات ہے کہ ہماری بچیاں دینی ماحول سے دور رہتی ہیں، اس لئے وہ آسانی سے شکار ہوجاتی ہیں، کچھ قصور ہمارا بھی ہے ، ہم پندرہ سو سال گزرنے کے بعد بھی فیصلہ نہیں کرپائے کہ بچیوں کو تعلیم یافتہ بنانا ہے یا جہالت کے اندھیرے میں رکھنا ہے؟ علم کی بے قدری دین سے دوری کا باعث ہے ۔یہ قوم شادی بیاہ کی رسمیں، فضول خرچی ، خرافات اور فخرو مباحات میں مبتلا طرح طرح کے مسائل میں جکڑ گئی ہے، اسی کے پیش نظر میں نے چھ سال مسلسل اپنے کالج گراؤنڈ میں سیرت امہات المومنین کے موضوع پر انٹرنیشنل سیمینار کروائے اور کئی کتابیں شائع کروائیں تاکہ لوگوں میں بیدار ی آئے۔ یہی میری زندگی کی سب سے بڑی آرزو ہے کہ سیرتِ صحابیات کو مسلم خواتین اپنا لیں اور میری یہ کوشش تحریک کی شکل اختیار کرلے۔
علیزے نجف: ہر دور میں قلم کار جنم لیتے رہے ہیں، موجودہ دور کے قلم کاروں بالخصوص اردو زبان کے قلم کاروں میں انفرادی و ذاتی نظریات کے بجائے نقالی اور تقلید کا عنصر غالب نظر آتا ہے۔ اس ذہنیت کے پروان چڑھنے کی بنیادی وجہ کیا ہے؟
پروفیسر محمد طاہر: لوگوں کا عام طور سے رویہ یہ ہے کہ دو چار کتابیں سامنے رکھ کر زبان میں تھوڑی ہیر پھیر کرکے ایک نیا مضمون تیار کرلیتے ہیں جسے ہم کٹ پیسٹ کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ یہ بہت بڑی بددیانتی ہے ۔ بعض لوگ ٹرین میں سفر کرتے ہوئے پورا مضمون لکھ لیتے ہیں۔ ضرورت سے زیادہ ہونے والے سیمیناروں ، تعلقات کی بنا پر مدعو کئے جانے والے مضمون نگاروں، پست ذوق سامعین اور کم علم محققین و ناقدین نے یہ سارا تماشا کر رکھا ہے ۔ ایک اچھا مضمون لکھنے کے لئے کم از کم تین چار ماہ کی مہلت ومشقت در کار ہوتی ہے ۔ لیکن جو مضامین لکھے جارہے ہیں وہ صرف خانہ پری اور سیمینار کی ضرورتوں کے لئے ہوتے ہیں۔ اس لئے اس کا غیر معیاری ہونا فطری ہے ۔ جب مطالعہ محدود ہوگا فکر محصور ہوگی اور کوئی صلاحیت نہیں ہوگی تو سطحی اور غیر معیاری مضامین ہی لکھے جائیں گے۔
علیزے نجف: میں نے پچھلے دنوں کہیں پڑھا تھا کہ اردو ادب میں اب اعزازات خدمات کے تحت نہیں بلکہ تعلقات کے باعث ملتے ہیں۔ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
پروفیسر محمد طاہر: اس میں صداقت ہے کہ اعزازات کا رشتہ خدمات کے بجائے تعلقات سے زیادہ ہے ، انھیں لوگوں انعامات ملتے ہیں جو کسی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں یا جس کی پہنچ ہو یا جو چاپلوس اور خوشامد پسند ہوں یا جاہل مطلق ہوں۔ انعامات کے لئے نہ کوئی اصول ہے نہ ضابطہ اور نہ ہی معیار ۔ اصل قلم کار تخلیق کار ، محقق اور ناقد گمنامی کی ردا اوڑھے اپنے کام میں مصروف رہتے ہیں۔
علیزے نجف: اس وقت آپ زندگی کی پچپن بہاریں دیکھ چکے ہیں۔ اب تک کی گزری ہوئی زندگی کی روشنی میں گر آپ کو زندگی کی تعریف کرنی پڑے تو وہ کیا ہوگی؟ آپ کی اب تک کی زندگی کا مقصد کیا رہا؟
پروفیسر محمد طاہر: زندگی کا ہر پل ایک نعمت ہے اور بیش قیمتی ہے جس کی قد ر ہونی چاہئے۔ زندگی کا کوئی پل یونہی نہیں گزرنا چاہئے بلکہ روزانہ اس کا احتساب ہونا چاہئے کہ آج ہم نے کیا کھویا کیا پایا۔ کہا جاتا ہے کہ خواب وہ نہیں ہوتے جو سونے کے بعد دیکھے جاتے ہیں بلکہ اصل خواب وہ ہوتے ہیں جو آپ کو سونے نہ دیں ۔ کھلی آنکھ سے خواب دیکھنا اور پھر اس کی تعبیر میں جٹ جانا یہی زندگی کا مقصد ہے ، خود بیدار رہنا اور دوسروں کو بیدار رکھنے کی کوشش کرنا بھی زندگی کے مقاصد میں سے ہے ، نیکیاں اتنی کریں کہ بائیں کندھے پر بیٹھے ہوئے فرشتے کو بھی نیند آنے لگے، بے داغ کردار ، بہترین اخلاق اور لبوں پہ تبسم کے ساتھ زندگی کے ہر لمحے کااستقبال کرناچاہئے یہی زندگی کا مقصد ہے۔
علیزے نجف: ہر انسان کی شخصیت کا کچھ ایسا گوشہ ہوتا ہے جو عام لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوتاہے ۔ آپ اپنے بارے میں کوئی ایسی بات بتائیں جو اب تک شاید ہی کسی کو معلوم ہو وہ کوئی عادت یا واقعہ بھی ہوسکتاہے؟
پروفیسر محمد طاہر: میں نے بہت زیادہ سفر کئے ہیں۔ ہر سفرمیں کچھ نہ کچھ نیا سیکھنے کو ملا ہے ، ایک سال رمضان المبارک میں عمرہ کرنے گیا، اس نیت سے کہ حرم میں اعتکاف میں بیٹھوں گا ،بیس رمضان کی دوپہر میں حرم کے اندر داخل ہوا تو پورا حرم اعتکاف کرنے والوں سے بھر چکا تھا مجبوراً ایک جگہ راستے میں اپنا مختصرساسامان رکھ کر جس میں بلڈپریشر کی دوا بھی تھی طواف کرنے چلاگیا واپس آیا تو پتہ چلا کہ صفائی کرنے والے سب سامان اٹھاکرلے گئے اس وقت کچھ خوف سا محسوس ہواکہ بغیر دوا کے رہ نہیں سکتا تھا۔ دل پہ مایوسی بھی چھارہی تھی جولوگ وہاں موجود تھے وہ میری زبان سے واقف نہ تھے بہرحال اشاروں سے پوچھا تو معلوم ہواکہ ابھی سامان لے کر گئے ہیں۔ بھاگتا ہوا گیا ۔ اللہ کا شکر کہ سامان مل گیا۔ وہ دس دن میری زندگی کے بہت یادگار ہیں کہ ایک ایسے مقام پر گزرے جہاں میرا کوئی بھی ہم زباں نہ تھا۔اس وقت کا ہرلمحہ ایک عجیب سی کیفیت میں گزرا جس کا لفظوں میں بیان آسان نہیں۔
علیزے نجف: اس انٹرویو کے ذریعہ اردو کے طلبہ کو کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟
پروفیسر محمد طاہر: اردو طلبہ کو میرا یہی پیغام ہے کہ وہ احساس کمتری میں مبتلا نہ ہوں، وقت کا مثبت استعمال کریں،اردو پڑھنے کے بعد جو وقت بچے اس میں اور بھی مطالعہ کریں ، پڑھنے کے متعلق عبدالماجد در یا آبادی کے اس قول کو ذہن میں رکھیں کہ میں نے پڑھنے کے معاملے میں اپنے سے زیادہ حریص کسی کو نہیں دیکھا۔ مطالعہ کبھی محدود نہیں ہوتا اور بیکار نہیں ہوتا۔ یہ چیز سمجھنے کی ہے ۔
دوسرا اہم پیغام یہ ہے کہ ار دو طلباء کی شناخت ان کی رفتار و گفتار سے ہوتی ہے ۔ ہمیشہ یہ ذہن نشین رہنا چاہئے کہ وہ زبان و ادب کے طالب علم ہیں اس لئے بے ادبی اور بدزبانی ان کی شخصیت کے منافی ہے ۔ کسی نے بڑی اچھی بات کہی تھی کہ اگر کسی پلیٹ میں کتا یشاب کردے تو ہم اس میں کھانا نہیں کھا سکتے پھر یہ کیسے پسند کرتے ہیں کہ جس زبان سے ہم گالی دیں اسی گندی اور غلیظ زبان سے اللہ کا نام بھی لیں۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |