انٹرویو نگار علیزےنجف
انسان اپنے اندر علمی تجسس کا ایک جہان رکھتا ہے جس کی رہنمائی عقل کرتی ہے وہ اپنے ارد گرد موجود حقائق کو جاننے و سمجھنے کی کوشش شعوری و لاشعوری سطح پر کرتا رہتا ہے، کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کچھ انھیں بتایا جائے وہ اسے بنا کسی ردوکدح کے قبول کر لیتے ہیں اور وہیں کچھ لوگ ہر حقیقت کو دلیل کی روشنی میں سمجھنے کے عادی ہوتے ہیں کیوں کہ انسانی معاشرے میں شخصیتوں کے ساتھ عقیدت کے جذبے کو اس طرح بھی پروان چڑھایا جاتا ہے کہ وہ اس کے عیب کو بھی ہنر میں تبدیل کر دیتے ہیں، انسان کبھی خطاؤں سے مبرا نہیں ہو سکتا ۔ پاکستان کے بانی محمد علی جناح کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہوا کہ پاکستانیوں کی ایک بڑی جماعت انھیں نجات دہندہ کے طور پر دیکھتی ہے جنھوں نے ایک مسیحا کے طور پر پاکستان کے قیام کے لئے اپنی زندگی وقف کردی ان کا ہر قدم قوم کی بھلائی و ترقی کے لئے تھا، وہیں ایک قلیل تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو اس تصویر کے دوسرے رخ سے واقفیت رکھتی ہے ،پروفیسر اشتیاق احمد جو ایک پاکستانی نژاد سویڈش ماہر سیاسیات ہیں ان کا تعلق دوسرے آخر الذکر قبیلے سے ہے، انھوں نے جب پاکستان کی سیاسی تاریخ میں دو طرح کے نظریات دیکھے مثلا یہ کہ جناح پاکستان کا بٹوارہ چاہتے ہی نہیں تھے دوسری طرف ان کی تقریریں جس میں انھوں نے برملا پاکستان کے قیام اور ملک کی تقسیم پر زور دیا، پروفیسر اشتیاق صاحب نے جب اس کی حقیقت کو جاننے کے لئے پوری تاریخ کو کھنگالا تب معلوم ہوا کہ محمد علی جناح کا اصل مقصد و موقف کیا تھا انھوں نے تاریخ اور سیاسیات پر ریسرچ کرتے ہوئے کئی کتابیں لکھیں Jinnah: his successes and failures and role in history , Pakistan the garrison state, The Punjab bloodied partitioned and cleansed , State nation and ethnicity in contemporary south india اس طرح کے موضوعات پر تقریبا دس کتابیں لکھیں، اشتیاق احمد اسٹاک ہوم یونیورسٹی میں پروفیسر رہے ہیں 2010 میں ریٹائرمنٹ کے بعد انھیں پروفیسر ایمیریٹس کے اعزاز سے نوازا گیا، اس وقت وہ مکمل طور تحقیقی کاموں کے لئے خود کو وقف کیا ہوا ہے، میں نے ان سے انٹرویو لیا ان سے ان کے بارے میں پوچھتے ہوئے پاکستان کے قیام میں محمد علی جناح کا کردار، ہندوستان و پاکستان کے تعلقات، پاکستان میں امریکہ کے ساتھ چین کا بڑھتا اثر و رسوخ، اردو زبان کی پستی، جیسے کئی اہم سوالات کئے جن کا انھوں نے مختصر لیکن واضح الفاظ میں جوابات دئے اب اس انٹرویو کا ماحصل آپ کے سامنے ہے جو یقینا آپ کی معلومات میں اضافہ کرے گا
علیزے نجف: سب سے پہلے میں چاہتی ہوں کہ آپ ہمیں خود سے متعارف کروائیں اور یہ بھی بتائیں کہ آپ کا بنیادی تعلق کس خطے سے ہے اور اس وقت آپ کہاں مقیم ہیں؟
پروفیسر اشتیاق احمد : میرا بنیادی تعلق پاکستان سے ہے پچاس سال سے زائد عرصے سے میں سویڈن میں مقیم ہوں، میری پیدائش پاکستان کے پنجاب لاہور میں 24 فروری 1947 کو ہوئی، میری بنیادی تعلیم بھی یہیں سے ہوئی St. Anthony’s high scool Lahore اور F.C. college Lahore سے پڑھائی کی یہاں میں نے ہر سال ممتاز نمبروں سے کامیابی حاصل کی، بی۔ اے مین انگلش اور تاریخ میں سب سے زیادہ نمبر حاصل ہونے پر Chunni Lal Gold Medal سے نوازا گیا یہاں سے گریجویشن مکمل کرنے کے بعد میں نے پنجاب یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں ایم اے فرسٹ پوزیشن کے ساتھ پاس کیا، اس کے بعد میں نے ڈیڑھ سال گارڈن کالج راولپنڈی میں پڑھایا، پھر 1973 میں میں سویڈن آ گیا اور وہاں سے میں نے پی ایچ ڈی کی، میرے پی۔ ایچ۔ ڈی کا تھیسس Political science was on the concept of an islamic state تھا، اس کے بعد میں بطور پروفیسر اسٹاک ہوم یونیورسٹی سویڈن میں پڑھانے لگا پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر کے طور پر 2010 میں 63 سال کی عمر میں ریٹائرمنٹ لی، ریٹائرمنٹ کے بعد پروفیسر ایمیریٹس کا ٹائٹل دے دیا گیا جس کا دراصل کوئی خاص مقصد تو نہیں بس یہ ایک طرح کا recognition تھا کہ یہ بندہ پروفیسر ہے اور کچھ نہیں، پڑھانے کے ساتھ ساتھ میں کتابیں بھی لکھتا رہا کچھ کتابیں ریٹائرمنٹ سے پہلے اور کچھ اس کے بعد لکھیں جیسے Jinnah: his successes and failures and role in history , Pakistan the garrison state, The Punjab bloodied partitioned and cleansed , State nation and ethnicity in contemporary south india، Pre- partition Punjab’s contribution to Indian cinema وغیرہ وغیرہ میری یہ تحقیقی کتابیں میری شہرت کی وجہ بنیں آج کل مختلف پلیٹ فارم پر لکھنے کا سلسلہ جاری ہے۔
علیزے نجف: آپ کو ہندوستان کی تقسیم اور اس میں محمد علی جناح کے ذریعے ادا کئے جانے والے کردار میں کیسے دلچسپی پیدا ہوئی اس ریسرچ سے پہلے پاکستان کے قیام کے پس منظر سے متعلق آپ کی کیا رائے تھی؟
پروفیسر اشتیاق احمد: ریسرچ سے پہلے میرے بھی وہی خیالات تھے جو اس وقت دوسروں پاکستانیوں کے تھے اس وقت دو نظریات پائے جاتے تھے جو میں نے اس وقت کے لٹریچر میں پڑھا، جناح کی سب سے مشہور بایوگرافی Jinnah of Pakistan جس کو Stanley wolpert نے لکھا ہے اس نے اس کتاب میں کہا کہ دنیا کے جو لیڈر ہوتے ہیں وہ تاریخ بدلتے ہیں وغیرہ وغیرہ لیکن جناح نے نہ صرف تاریخ کو بدلا بلکہ جغرافیہ بھی بدل دیا ایک نئی نیشن کو پیدا کیا۔ دوسری طرف عائشہ جلال جو کہ Historian ہیں انھوں نے کہا کہ جناح صاحب تو پارٹیشن چاہتے ہی نہیں تھے، یہ تو جواہر لعل نہرو اور کانگریس پارٹی نے ان پر تھوپا تھا۔ اب یہ دونوں ہی نظریے ایک ساتھ تو صحیح نہیں ہو سکتے نا ، میرے ذہن میں بھی یہ سوال پیدا ہوا پھر میں نے ریسرچ کرنا شروع کیا کہ اس کی حقیقت کیا ہے خود جناح نے اس موضوع پر کیا کہا ہے اس کوشش میں یہ بات سامنے آئی کہ 22 مارچ کو جب انھوں نے لاہور میں اپنا صدارتی خطبہ دیا اس میں انھوں نے بار بار کہا کہ ہندو اور مسلمان ایک ساتھ کبھی چین اور امن سے نہیں رہ سکتے اس لیے ان کو الگ الگ کر دیا جائے ورنہ civil war ہو جائے گی اور سنگین مسائل کھڑے ہو جائیں گے وغیرہ وغیرہ۔ مسلمانوں سے کہا کہ اگر پاکستان نہ بنا تو نہ اسلام رہے گا اور نہ مسلمان رہیں گے اس طرح کی باتیں انھوں نے اپنے خطبوں اور دوسرے مواقع پر کہیں جو کہ انتہا پسندی پہ مبنی تھیں، دوسری طرف جناح نے انگریزوں کی دوسری عالمی جنگ میں مدد کی جب کہ کانگریس نے ان کی مخالفت کی۔ جب جنگ ختم ہوئی اس وقت جناح صاحب کی پوزیشن بہت مضبوط ہو گئی تھی وہ قومی لیڈر کے طور پر ابھرے۔ مسلمانوں کو صبح و شام یہ بتایا گیا کہ پاکستان آ جاؤ فلاں فلاں مراعات ملیں گی، آپ کے پرانے قرضے ختم ہو جائیں گے ریاست مدینہ کی طرح اس میں انصاف کیا جائے گا انھوں نے یہ ذمےداری مذہبی طبقے کو سونپی ہوئی تھی کہ آپ عوام میں یہ سب کچھ کہتے رہیں اس کا صلہ آخرت میں ملے گا وغیرہ وغیرہ ان تمام کوششوں کے ذریعے انھوں نے ووٹ بھی حاصل کر لیے ، سب سے تعجب کی بات یہ ہے ان کو ان مسلمانوں کے بھی ووٹ ملے جنہیں یہ بات بہت اچھی طرح معلوم تھی کہ ان کے علاقے کبھی پاکستان میں نہیں آئیں گے، ایسے میں یہ سوال تو اٹھتا ہی ہے کہ انھوں نے عقل سے کام کیوں نہیں لیا، جناح کی ان کوششوں سے صرف مسلمان تقسیم ہوئے پہلے دو حصوں میں اور اب تین حصوں میں تقسیم ہو چکے ہیں۔
علیزے نجف: اس وقت پاکستان میں صرف سات فیصد لوگوں کی زبان اردو ہے لیکن اسے ملکی سطح پہ مادری زبان کا درجہ حاصل ہے اس کو زبردستی تھوپنے کے نتائج کیسے رہے؟
پروفیسر اشتیاق احمد: یہ سچ ہے کہ پاکستان کے صرف سات فیصد لوگوں کی مادری زبان اردو ہے، اس کے پس منظر میں ایک طویل تاریخ موجود ہے، 1928 میں موتی لال نہرو رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ہندوستان کی قومی زبان ہندوستانی ہوگی جس کے دو رسم الخط ہوں گے ایک دیو ناگری دوسرا نستعلیق جو اردو فارسی کا رسم الخط ہے، اسی خیال کو کانگریس نے کئی موقعوں پر دہرایا لیکن مسلم لیگ کا موقف یہ تھا کہ جس کا اقتباس میں نے اپنی کتاب Jinnah: his successes and failures and role in history میں نقل کیا ہے ” یہ کانگریس کا پروپیگنڈہ ہے کہ اردو مسلمانوں کی مادری زبان ہے” پاکستان کے بننے کے بعد اردو کو اسٹیٹ اور ملک کی مادری زبان بنایا گیا جناح نے پاکستان بننے کے بعد مارچ 1948 میں پہلی مرتبہ جب ایسٹ پاکستان گئے تو انھوں نے کہہ دیا کہ اردو ہندوستان کی واحد سرکاری زبان ہوگی جب حقیقت یہ تھی کہ اس کے بولنے والوں کی تعداد پنجابی و سرائیکی سے بہت کم تھی، آپ اندازہ لگائیں کہ بنگالیوں کو کیسا محسوس ہوا ہوگا انھوں نے فوری طور پر ردعمل ظاہر کیا ایک کے بعد ایک احتجاج وہ درج کراتے رہے بالآخر 1971 میں وہ پاکستان سے الگ ہو گئے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انگریز اپنے دور حکومت میں جب اردو پنجاب میں لے کر آئے تھے اس پر بہت بحث ہوئی تھی کچھ ڈپٹی کمشنر اس کے حق میں تھے اور کچھ اس کے خلاف تھے آخر میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ شہروں میں جو پنجابی بولی جاتی ہے وہ اردو کی خاصی قریب ہے اور انگریز اپنی فوج کے لئے ایک زبان چاہتے تھے جو ساری troops کو ایک دوسرے سے جوڑ سکے اس لیے اردو کے حق میں فیصلہ کیا گیا اور پنجاب سے ایک بڑی تعداد میں لوگ فوج میں بھرتی ہوئے ۔ اس کے علاوہ جو سندھی بلوچ اور پختون علیگڈھ مسلم یونیورسٹی میں جا کر پڑھے انھوں نے بھی اردو سیکھ لی، اردو جس کو کہ میں ہندوستانی کہتا ہوں وہ مختلف صوبوں کو جوڑنے والی زبان ہے، سرکاری زبان ہونے کی وجہ سے ہمیں اردو زبان سیکھنی پڑتی ہے کیوں کہ پنجابی کو کبھی قبول نہیں کیا گیا جب کہ اس کو بولنے والوں کی تعداد اردو والوں سے زیادہ ہے، یو۔ این۔ اور یونیسکو کی یہ ریسرچ اسٹڈی ہے کہ مادری زبان میں علم سب سے جلدی سمجھ میں آتا ہے، پاکستان میں اردو کی پسماندگی کے حوالے سے کوئی دو رائے نہیں، اس کی وجہ سے پنجابی اور سرائیکی بھی متاثر ہوئی ہے ، جب ہم لوکل کلچر کو نظر انداز کر دیتے ہیں تو پھر ایک طرح کی مصنوعی فضا پیدا ہوجاتی ہے، جب کہ یہ بھی سچ ہے کہ مسلم نیشنلزم اور اردو کا رشتہ بہت گہرا ہے۔
علیزے نجف: جناح نے پاکستان کے قیام کے بعد اس کے سماجی، سیاسی، معاشی ارتقاء کا واضح تصور پیش کرنے میں ناکام کیوں ہوئے ؟
پروفیسر اشتیاق احمد: اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ جناح کی ساری کوششیں بس پاکستان کے قیام کے لئے تھیں، انھوں نے جو کچھ بھی کیا وہ بس مسلمانوں کو اپنا ہم نوا بنانے کے لیے کیا تھا۔ جناح نے مولویوں خاص طور سے بریلویوں کو یہ سبز باغ دکھایا کہ یہ مسلمانوں کا ملک ہوگا ان کا اپنا نظام ہوگا، پڑھے لکھے مسلمانوں نے کہا کہ نہیں ہم اس کو نہیں مانتے کیوں کہ ہم جمہوریت پسند ہیں جناح نے پھر بعد میں یہ کہا کہ نہیں پاکستان ایک سیکولر ملک ہو گا، جناح صاحب کے پاس کوئی واضح خاکہ یا سوچ نہیں تھی اگر ہم اس بات کو آج کی تقریروں کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کریں تو ان کا یہ خیال سامنے آتا ہے کہ پاکستان ایک حد تک سیکولر بھی ہوگا اور ایک اسلامک اسٹیٹ بھی لیکن پاکستان کے مستقبل کا نظام یہ ان کے لئے کبھی سنجیدہ مسئلہ نہیں بنا ان کی ساری کوشش بس اس چیز کے لئے تھی کہ بس کسی طرح پارٹیشن کے لیے اپنے موقف کو مضبوط کیا جائے، جناح کی کوئی واضح پالیسی نہیں تھی وہ مبہم تھی کوئی اس سے کچھ بھی اخذ کر سکتا ہے، صاحبزادہ یعقوب جو ک ملٹری میں تھے بعد میں فارن منسٹر بنے اور سید احسان جو کہ نیوی میں تھے وہ دونوں پاکستان بننے کے چند مہینوں کے بعد محمد علی جناح سے ملنے کے لئے گئے اور کہا کہ ہندوستان اپنے کانسٹیٹیوشن کو لے کر ہر روز کوئی نہ کوئی پیش رفت کررہا ہے لیکن ہمارے یہاں ابھی تک اس پہ کوئی بات ہی نہیں ہوئی جناح صاحب نے کہا look boys i have been giving different commitment to different sects of Pakistan اس لئے یہ مسئلہ تو ہوگا اس کو حل کرنے کے لئے Pakistan constituent assembly کو یہ ذمےداری سونپتا ہوں اس طرح انھوں نے آئین کے حوالے اپنی ذمےداریوں سے پیچھا چھڑا لیا کہ پاکستان کا سماجی و آئینی نظام اور اس کا مستقبل constituent assembly کے ہاتھوں میں ہے۔
علیزے نجف: جب آپ نے تقسیم ملک میں جناح کے کردار کو ثبوت و خواہد کے ساتھ بیان کیا تو پاکستانی عوام کی طرف سے آپ کو کس طرح کا ردعمل موصول ہوا؟
پروفیسر اشتیاق احمد: آپ نے یہ بہت دلچسپ سوال کیا ہے میں نے اپنے موقف کو پورے ثبوت و شواہد کے ساتھ بیان کیا ہے اس کے جو بھی مواد ہیں وہ میں نے پاکستان سے ہی حاصل کئے ہیں جیسے جناح کی نوے فیصد تقاریر وہ بزم اقبال لاہور نے چار جلدوں میں پبلش کی ہوئی ہیں اب میرے مخالفین یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ جو میں اقتباس پیش کر رہا ہوں وہ جناح نے نہیں کہا اس لئے وہ چاہتے ہوئے بھی میری تحقیق کی مخالفت میں کچھ نہیں بول سکتے۔ ایک طرف اگر کچھ لوگوں نے مخالفت کی نظر سے ہمیں دیکھا تو وہیں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جن کا ہمیں سپورٹ بھی ملا انھوں نے برملا کہا کہ سر آپ نے ہمیں سب کچھ تفصیل کے ساتھ سمجھا دیا کہ اس وقت ہوا کیا تھا، ہم آپ کے بہت مشکور ہیں کہ آپ کی اس ریسرچ نے ہماری آنکھیں کھول دی ہیں۔ یہ لوگ اکثریت میں نہیں ہیں کیوں کہ پاکستان کی اکثریتی آبادی آج بھی ان سارے حقائق سے ناواقف ہے لیکن یونیورسٹی کے پروفیسران میری ریسرچ کے سامنے بلکل دم سادھ چکے ہیں، بےشک وہ دل میں میرے خلاف بغض رکھتے ہیں یہ مجھے معلوم ہے لیکن میری بیان کردہ جناح کی حقیقت کو اب تک کوئی چیلنج نہیں کر سکا کیوں کہ وہ ان ثبوتوں کو مٹا نہیں سکتے جو میں نے پیش کیا ہے۔
علیزے نجف: ہندوستان کی تقسیم کے موقع پر ہونے والے پرتشدد فسادات سے نمٹنے کے لئے کیا محمد علی جناح نے مؤثر اقدامات کئے تھے کیا انھیں ان کا اندازہ پہلے سے تھا ؟
پروفیسر اشتیاق احمد: جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ جناح صاحب کا پورا زور بس پارٹیشن پر تھا کہ کس طرح اس کی راہ ہموار کی جائے اس کے لئے تو انھیں باتوں کا سہارا لیا جا سکتا ہے جو ہندوؤں اور مسلمانوں میں مختلف ہے ان کے بیچ کیا کامن ہیں اس پر بات کر کے تو اس کو ممکن بنایا نہیں جا سکتا تھا، ان کے درمیان کامن چیزوں کو بھی خدشات کی نذر کر کے ان سات سالوں میں بس نفرت کو ہی اجاگر کیا گیا، مارچ 1947 میں ہی ہندوؤں اور سکھوں پر حملے ہونے شروع ہو گئے تھے لاہور، ملتان، راولپنڈی اور امرت سر میں بھی ایسے حملے ہوئے۔ اس کے بعد جولائی میں پنجاب میں حملے ہونے شروع ہوئے ابتدائی تین چار مہینوں میں مسلم اکثریتی علاقوں میں یہ سب کچھ ہوتا رہا۔ پاکستان کے قیام کے بعد جناح نے اپنی تقریروں میں کہا کہ یہ سب کچھ جو ہو رہا ہے وہ اسلام کی عین روح کے منافی ہے ہمیں اقلیتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہیے، لیکن یہ سب کچھ محض باتوں تک ہی محدود تھا اس سے نمٹنے کے لئے انھوں نے کوئی حکمت عملی نہیں بنائی تھی، اس وقت ہونے والی لوٹ مار میں پولیس اور عوام کے ساتھ مقامی سیاسی لیڈران سبھی انوالو تھے، جناح صاحب نے پتہ نہیں دل سے کہا یا رسما کہا وہ کہتے رہے لیکن کسی نے ان کی ایک نہیں سنی، انھوں نے بس ملک کی تقسیم کرانے پر اپنی توجہ مرکوز رکھی بعد میں پیدا ہونے والے حالات کو لے کر ان کی کوئی منصوبہ بندی نہیں تھی۔
علیزے نجف: ملک کی تقسیم کو کیا آپ ایک المیہ سمجھتے ہیں ؟
پروفیسر اشتیاق احمد: جی ہاں! میرے خیال سے نا صرف تقسیم نہیں ہونی چاہیئے تھی بلکہ پنجاب کی تقسیم کو انسانی تاریخ کے سب سے بڑے سانحات میں سے ایک خیال کیا جانا چاہیے۔ مارچ 1947 سے قتل و غارت کا آغاز ہوا، اگست میں تقسیم ہوئی اور تقسیم کے بعد دونوں جانب کی حکومتوں نے اَن وانٹڈ کمیونٹیز کو ہجرت پہ مجبور کیا۔ میں نے اپنی ریسرچ کے لئے جب سینکڑوں انٹرویوز کئے تو انٹرویوز دینے والے زیادہ تر بزرگوں کا کہنا تھا کہ وہ تقسیم سے پہلے امن اور محبت سے صدیوں سے ایک ہی گاؤں میں رہتے چلے آ رہے تھے۔ پاکستان میں تقسیم کو اچھا سمجھا جاتا ہے لوگ سمجھتے ہیں اگر پاکستان نہ بنتا تو ہندو اور سکھ ہم پہ چھائے رہتے کیونکہ مالی اور عددی طور پر وہ ہم سے زیادہ ایڈوانس تھے۔ البتہ انڈیا میں ابتدا ہی سے تقسیم کو ٹریجڈی سمجھا گیا ہے جس کی دو وجوہات ہیں ایک تو ملک کے دو ٹکڑے ہونا اور دوسرا صدیوں سے قائم محبت اور بھائی چارے کا خاتمہ۔ انتہا پسند ہندو سمجھتے ہیں جناح مسلمانوں کا نہیں ہمارا لیڈر تھا جس نے یہاں سے مسلمانوں کی شرح گھٹا دی۔ لیکن جو لوگ انسانیت پہ یقین رکھتے ہیں دونوں طرف ان کا خیال ہے کہ اگر ہم ایک ہزار برس سے اکھٹے رہ رہے تھے تو اگلے ایک ہزار سال تک اکھٹے رہنا بھی کوئی مشکل بات نہیں تھی۔
علیزے نجف: اس وقت پاکستانی نظام کا بیشتر حصہ فوجی تسلط کے زیر اثر ہے اس کے تحت پاکستان کے سیاسی و اقتصادی شعبے میں استحکام لانا کیا کسی طرح ممکن ہے اگر نہیں تو پھر جمہوری نظام کو کیسے تقویت دی جا سکتی ہے؟
پروفیسر اشتیاق احمد: دیکھیں پاکستان کے اندر ابھی الیکشن ہوا تھا سب جانتے ہیں کہ عمران خان جیت گیا تھا لیکن جو اسٹیبلشمنٹ چاہتی تھی وہ اسی طرح کی ایک حکومت لے آئی جس سے کہ پاکستان کی پستی میں ہی اضافہ ہو رہا ہے، فوجی تسلط ہونے پر بھلا کسے شک ہے، ہماری سوسائٹی پہ فوج کا جو بہت بڑا ہولڈ ہے اس نے پاکستان کو ایک قلعے میں تبدیل کر دیا ہے۔ رہا سوال یہ کہ سب کچھ کیسے بہتر ہو تو بنیادی طریقہ یہی ہے کہ پرانی غلطیوں سے سبق لے اور ان سے پرہیز کرتے ہوئے ایک نئے طریقے سے پاکستان کی حکومت کام کرے لیکن ایسا ہوتا مجھے دور دور تک دکھائی نہیں دے رہا کیوں کہ وہ اپنے پرانے ہی طریقوں پر بضد ہیں تبدیلی قبول کرنے کو تیار نہیں۔ پچھلے سال جب جنوری میں پاکستان گیا تو پاکستان حکومت یا آئی۔ ایس۔ آئی۔ یا فوج نے مجھے جناح پر کی جانے والی تنقیدوں کی وجہ سے بلکل تنگ نہیں کیا میں نے ہر جگہ اس موضوع پر لیکچر دیے اور لوگوں نے سنا تو مجھے لگا شاید اب تبدیلی آئے گی لیکن ایسا ہوا نہیں، جب تک انڈیا تجارتی تعلقات اچھے نہیں ہوں گے، کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوگا تب تک شاید یہ ممکن نہیں انھوں نے اندرونی سطح پر ایسا کچھ نہیں کیا جس سے عوام کو فائدہ پہنچے اگر انڈیا سے تجارت شروع ہو تو روزمرہ کی اشیاء سستی ہو سکتی ہیں جس سے مہنگائی کم ہوگی فوج پر خرچ ہونے والے پیسوں کا زیاں رکے گا جس سے معیشت اچھی ہوگی، لیکن ایسا کچھ ہو نہیں رہا اگر پاکستان کے حالات بہتر کرنے ہیں تو انڈیا کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر کرتے ہوئے فوج کو ڈیفینس آف پاکستان کی طرف لگانا پڑے گا ، الیکشن فری ہوں جو بھی حکومت آتی ہے آئے وہ لوگوں کی خدمت کو ہی اپنا فرض منصبی سمجھے، لیکن یہ سب محض کہنے کی ہی باتیں ہیں جس سے دل ہی بہلایا جا سکتا ہے کیوں کہ حقیقت اس سے بہت مختلف رخ پر سفر کر رہی یے۔
علیزے نجف: پاکستان کی سیاست اور اقتصادی معاملات میں امریکہ اور چین کی مداخلت اس کو دراصل سہارا دے رہی ہے یا اسے مزید paralyzed کر رہی ہے آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟
پروفیسر اشتیاق احمد: چین کی بڑھتی طاقت کو روکنے کے لئے امریکہ نے کئی اقدامات کئے ہیں امریکہ اور چین کے اختلافات اور تصادم کی وجہ سے پاکستان کی جو ترقی ہونی تھی وہ بھی رک گئی ہے، پاکستان بےشک چین کے ساتھ ہے لیکن وہ امریکہ کو ناراض بھی نہیں کر سکتا کیوں کہ پاکستان امریکہ پر سب سے زیادہ انحصار کرتا رہا ہے وہیں سے ڈالر آتے رہے ہیں، لیکن اس وقت وہ چین کے ساتھ ہے کیوں کہ اس کے علاوہ پاکستان کے ساتھ اور کوئی بھی نہیں ہے، دوسری طرف امریکہ وہ پاکستان کو بلکل کھونا بھی نہیں چاہتا وہ اس لئے کسی نہ کسی طرح سے اس کے ساتھ جڑے رہنے کی کوشش میں ہے، امریکہ اور چین کی جو جنگ ہے وہ پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے اس میں پاکستان کا صرف نقصان ہی ہے وہ امریکہ اور چین دونوں کو ہی نہیں چھوڑ سکتا ایک مدت سے امریکہ پاکستان کی پشت پناہی کرتا رہا ہے اور پاکستان کا مقتدر طبقہ اپنی دولت امریکہ منتقل کرتا رہا ہے ان کے بنگلے اور آسائشیں وہی پہ ہی ہیں اس لئے یہ طبقہ امریکہ سے اپنے تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتا دوسری طرف اس کے چین کے ساتھ بھی معاہدے ہوئے ہیں اس حوالے سے آگے کیا ہوگا کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔
علیزے نجف: کیا مستقبل میں ہندوستان اور پاکستان میں موجود کشیدگی کے ختم ہونے کے امکانات آپ کو نظر آرہے ہیں ؟
پروفیسر اشتیاق احمد: اپ کے اس سوال کے جواب میں میں بھلا کیا کہہ سکتا ہوں میں صرف خواہش ہی کر سکتا ہوں یا اندازے لگا سکتا ہوں، وہ شاید تعلقات اچھے کرنا چاہ رہے ہوں یا شاید نہیں کرنا چاہ رہے ہوں موجودہ حکومت انڈیا کے خلاف اپنے موقف کے ساتھ کھڑی ہے، بیچ میں ہم نے سنا کہ کچھ باتیں ہو رہی ہیں اس حوالے سے لیکن یہ تو ہم کئی سالوں سے سنتے آ رہے ہیں اس لئے حتمی طور سے کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا، اگر پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات نہیں اچھے ہوں گے تو اس کا نقصان صرف پاکستان کو ہوگا
علیزے نجف: اس وقت آپ کس موضوع پر ریسرچ کرنے مین دلچسپی لے رہے ہیں ؟
پروفیسر اشتیاق احمد: اس وقت ایک کتاب ہے partition of India Punjab and Bengal اس پر ریسرچ کر رہا ہوں اس میں جو مختلف controversies ہیں اس پر ریسرچ کر کے ان تینوں کے درمیان جو لنک ہے اس کو سامنے لانا ہے اس میں ارادہ ہے کہ دوسری عالمی جنگ سے شروع کر کے بنگال کے تعلق سے حقائق کو سامنے لاؤں ، انڈیا اور پنجاب کے حوالے سے میری تحقیقی کتاب پہلے ہی آ چکی ہے۔ اس کے علاوہ میں کوشش کررہا ہوں کہ ایک اور کتاب لکھوں جو میں نے پچھلے کچھ سالوں کے دوران پاکستان اور انڈیا کا سفر کیا ہے اس کے تجربات و روداد کو میں ایک کتاب کی صورت میں بیان کروں، یہ بعد کا ہدف ہے فی الحال ابھی میری پوری توجہ پہلی کتاب The partition of India Punjab and Bengal پر ہی ہے اس پر میں کام کر رہا ہوں
علیزے نجف: آپ خود ایک reliable writer لوگ آپ کو پڑھنا پسند کرتے ہیں خود آپ کن مصنفین کو پڑھنا پسند کرتے ہیں؟
پروفیسر اشتیاق احمد: اپنی زندگی کے ابتدائی سالوں میں میں نے بہت کتابیں پڑھی ہیں لٹریچر میں کرشن چندر، منٹو، عصمت چغتائی ، پریم چند جیسے ترقی پسندوں کا لٹریچر پڑھا ہے، ساحر لدھیانوی میرے پسندیدہ شاعر ہیں اس کے علاوہ رشین اور فرنچ ادب بھی پڑھا ہے۔ اس وقت بس اپنے موضوع سے متعلق ہی کتابیں پڑھنا پسند کرتا ہوں اس لئے کس ایک خاص مصنف کو میں مینشن نہیں کر سکتا ہاں اس سے متعلق جتنے بھی مصنفین ہوتے ہیں سبھی کو میں پڑھتا ہوں ۔
علیزے نجف: تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے طلبہ کو آپ اس انٹرویو کے ذریعے کیا کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟
پروفیسر اشتیاق احمد: دیکھئے یہ جو distinction between history and politics ہے ایک حد تک مناسب ہے لیکن اس ضمن میں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ تاریخ کیا ہے تاریخ میں کتنے ہی پیچھے کیوں نہ چلے جائیں بات تو سیاست کی ہی ہوتی ہے کہ اس وقت کس کی حکومت تھی اور اس نے کیا کیا؟ پولیٹیکل سائنس اور ہسٹری مل کر چلتے ہیں پولیٹیکل سائنس کو اب اسٹیٹ کی اسٹڈی بھی کہا جاتا ہے۔ تاریخ کے جو طالب علم ہیں اس کے لئے میرا بس یہ پیغام ہے کہ دنیا کی تاریخ پر نظر رکھیں صرف اپنے علاقے کو نہ اسٹڈی کریں بلکہ اس سے جڑے سبھی علاقوں کی تاریخ کو سمجھنے کی کوشش کریں پھر جس علاقے کی تاریخ میں آپ دلچسپی لے رہے ہیں اس پر فوکسڈ ہو کر پڑھیں جو کچھ بھی پڑھیں اس پر براڈ بیسڈ ریڈنگ ہونی چاہئے اور ہمیشہ تقابلی مطالعہ کریں کیوں کہ سوشل سائنسز میں ہم صرف تقابلی مطالعہ کر کے ہی اصول ڈھونڈ سکتے ہیں کیوں کہ اس میں کوئی لیبارٹری تو ہوتی نہیں، تاریخ میں جتنے سارے ایونٹس ہوتے ہیں ان سب کا جائزہ لیں۔ آج کل بےتحاشہ تاریخ لکھی جا رہی ہے جو کہ questionable ہے اس میں کہیں کہیں اپنی پسند کی سورسز استعمال کر لی جاتی ہیں کئی دفعہ وہ مکمل جھوٹ پر مبنی سورس ہوتا ہے ان سب چیزوں کا تجزیہ کرتے ہوئے مطالعہ کرنا چاہئے۔ اس کے علاوہ تاریخ سے سیکھنا بھی چاہئے کہ خون خرابے کے بجائے امن کے ساتھ رہنے میں ہی عافیت ہے۔ تحمل و رواداری کے ساتھ ہی انسانی معاشرہ ترقی کر سکتا ہے۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page