ڈاکٹر خوشتر زریں ملک
نئی دہلی۔
اردو میں غزلیہ شعری روایت کی باقاعدہ ابتدا ولی سے ہوتی ہے،جنھوں نے ریختہ (یعنی اردو غزل) کو فارسی غزل کے ہم پلہ قائم کرنے کا اہم کارنامہ انجام دیا۔ایسا نہیں ہے کہ ولی سے قبل اردو میں غزلیہ شاعری کے نمونے نہیں ملتے۔ولی سے قبل دکن میں غزلیہ شاعری ضرور پائی جاتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ولی سے قبل کی شعری روایت میں غزلیہ شاعری کو مرکزی صنف کی حیثیت حاصل نہ تھی۔اس عہد میں دکن میں مثنویوں کو جس قدر رواج حاصل ہوا،وہ صورت غزل کے ساتھ نہ تھی۔ولی سے پہلے تک دکنی شعری روایت میں مثنوی،مرثیہ،قصیدہ خاص طور سے مرکزی اصناف شمار کی جاتی تھیں۔
دکنی غزل میں عشق ہی نہیں،بلکہ عاشق و معشوق کابھی وہ تصورذرا کم کم نظر آتا ہے، جو فارسی کے زیر اثر ریختہ کی شاعری میں ولی کے ذریعہ مروج ہوا ۔دکنی غزل کے بارے میں بڑی حد تک صحیح کہا جاتا ہے کہ اس میں فارسی اور مقامی اثرات ملے جلے ہیں۔کسی شاعر کے یہاں فارسی اثرات بہ نسبت مقامی اثرات کے زیادہ پائے جاتے ہیں تو،کسی شاعر کے یہاں فارسی کے مقابل مقامی اثرات کی فراوانی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ فارسی اور مقامی اثرات کا یہ ملا جلا رنگ ولی کے عہد تک قائم رہتاہے۔ولی سے قبل ہاشمی اور نصرتی جیسے شعرا گذر چکے تھے۔ہاشمی کی شاعری مقامیت سے بھر پور ہے، جبکہ نصرتی کے یہاں فارسی طرز کے اثرات زیادہ پائے جاتے ہیں۔
فارسی اوردکنی کے درمیان امتزاج کی دوسطحیں ہیں؛ ایک سطح زبان اور لفظیات سے علاقہ رکھتی ہے اور دوسری سطح کا تعلق غزل کی شعریات یااصولِ شاعری سے ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ دکنی غزل میں غزل کا وہ تصور جو بعد کی اردو غزل کی پہچان بنا،اس صورت میں نہیں نظر آتاجس کی روشنی میں دکنی غزل کو باقاعدہ غزل کا نام دیا جا سکے۔پروفیسر احمد محفوظ نے غزل کی رسومیات سے متعلق بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ غزل کے عشقیہ اشعار میں عاشق کا کردار ہی عام طور سے متکلم ہوتا ہے:
”غزل کے شعر میں اگر عشقیہ مضمون بیان ہو تو اس میں بولنے والا شخص یا متکلم عموماً عاشق ہوتا ہے،یا کوئی اور شخص ہوتا ہے۔مثلاً عاشق کا دوست،ساتھی وغیرہ یا کوئی عام شخص۔یعنی غزل کا متکلم اور غزل کا شاعر یہ دونوں الگ الگ ہستیاں ہیں۔”(۱)
اس رسومیاتی حقیقت کے پیش نظر ہم دیکھتے ہیں کہ ولی کے بعد کی غزل کی جو صورت سامنے آئی،اس میں قدیم دکنی صورت کے برخلاف عاشق کے روپ میں عورت نظر نہیں آتی ہے۔ولی نے غزل کے متکلم کی جنس کو مبہم رکھ کر فارسی غزل کے سانچے کو قبول کیا،اور اردو غزل کے لئے ایک معیار متعین کیا۔اسی لئے جب پروفیسر احمد محفوظ یہ لکھتے ہیں کہ غزل کا متکلم عاشق ہوتا ہے،تو اس سے یہی سمجھا جاتا ہے کہ عاشق عورت نہیں،بلکہ مرد ہے۔جب کہ فیروز بیدری سے لے کر ولی تک کی غزل کو جب ہم دیکھتے ہیں تو اس میں بطور عاشق صیغۂ تانیث کا استعمال ہی دکھائی دیتاہے۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ صیغۂ تانیث کا بطور عاشق استعمال ہندوستانی شعری روایتوں کا خاصہ رہا ہے۔یعنی ہندوستانی شعری دنیا میں عورت معشوق کے بجائے عاشق کے کردار میں سامنے آتی ہے۔چونکہ عاشق نسائی کردار ہے، یہی وجہ ہے کہ صیغۂ تانیث کا استعمال بھی مقامی روایت میں شامل رہا۔ہندوستانی شعری روایت میں اس قسم کی شاعری کے لئے گیت کی صنف مخصوص رہی ہے،جس میں عورت اپنی محبت کا اظہار والہانہ انداز میں کرتی ہے۔وہ برہ اور جدائی کے کرب سے گزرتی ہے اور وصال کی تمنا کرتی ہے۔گیتوں میں متکلم یعنی عاشق کے عورت ہونے کے سبب لہجہ اور لفظیات میں بھی تبدیلی فطری ہے،اورجو غزلیہ شاعری میں متکلم یعنی مرد عاشق کے لہجے اور لفظیات سے مختلف ہیں۔اس بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ دکنی غزلوں پرہندوستانی گیتوں کا بہت گہرااثر پڑا ہے۔ان غزلوں میں متکلم کی جنس کا کبھی مبہم ہونا اور کبھی مخصوص نسائی لہجے کے ساتھ ہوناہندوستانی گیتوں اور فارسی غزلوں کے اثرات کے سبب ہے۔ان دکنی شعراکے یہاںصیغہ ٔتانیث کا استعمال بہت زیادہ ہوا ہے۔وجہی ہوں یا شاہی،یہاں تک کہ ہاشمی کی بیشتر شاعری اسی نوع کی ہے۔وجہی کی شاعری میں صیغہ ٔ تانیث کوسکھی،سہیلی وغیرہ کے کردار میں دیکھا جا سکتا ہے۔وجہی کی شاعری میں ہمیں دو رنگ نظر آتے ہیں،مثلاً
جاتا ہے جیو پیارے ٹک بیگ آرحم کر
تج درس دیکھنے کوں انکھیاں میں دم رکھیاں ہوں
اس شعر میں ظاہر ہے، صیغہ ٔتانیث کا استعمال نہیں کیا گیا ہے۔آگے کا شعر دیکھیں :
برہ میں بھید یا سب تن مروں گی پیو بن جیو کھن
درد ہے عشق کا مجھ کن بھلاتا ہوے طبیباں تے
اس شعر میں ہم واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ وجہی نے متکلم کو صیغۂ تانیث میں استعمال کیا ہے۔
محمد قلی قطب شاہ کی غزلیہ شاعری بھی اس نوع کی نہیں کہی جا سکتی جس میں صیغہ ٔتانیث کا استعمال نہ ہوا ہو۔محمد قلی قطب شاہ کا متکلم اور مخاطب مبہم نہیں رہتے۔وہاں عورت کے کردار کا برملا اظہار سانولی،پیاری،چھبیلی جیسے الفاظ کے ساتھ بہت عام ہے۔محمد قلی قطب شاہ کی شاعری میں عورت کے کردار کی تینوں صورتیں ملتی ہیں۔یعنی متکلم عاشق تو ہے لیکن مخاطب مبہم ہے،یا مخاطب واضح طور پر عورت ہے یا عاشق یعنی متکلم کے کردار میں عورت کا واضح ہونا۔ان تینوں صورتوں کو محمد قلی قطب کی شاعری میں دیکھا جا سکتا ہے۔
پیا باج پیالہ پیا جائے نا
پیا باج یک تل جیا جائے نا
سکی باتاں شکر کرتی ولے میٹھائی آسے نا
دوانی نیشکر میں کوئی کدہیں نا بات باسے نا
نہ بچھڑوں سائیں تھے یک تل سہیلی
پیا کی رنگ سوں میں ہوں یکیلی
دکنی شعرا کے یہاں سے کچھ اور مثالیں دیکھیں۔فیروز بیدری کا شعر ہے:
خوباں منے در ساز توں خوش شکل خوش آواز توں
بہو رنگ کرتی ناز توں چنچل سلکھن چھند بھری
شاہی کا شعر دیکھیں:
پہلیں سکھی کے انگ کے میں یوں ارت کہوں
تس کے نین کٹاچھ کوں ساری پرت کہوں
دکن کی قدیم شاعری میں غزل کا کوئی ایک معیاری پیمانہ نہیں ملتا ۔ہم دیکھ سکتے ہیں کہ فیروز بیدری،مشتاق بیدری،حافظ دکنی، لطفی،شاہی،قلی قطب شاہ،وجہی وغیرہ کی غزلوں میں عشق اور اس کے کرادروں کی مختلف النوع صورتیں پائی جاتی ہیں۔ وہاں عاشق کے کردار میں عورت اور مرد دونوں نظر آتے ہیں، اور مخاطب یعنی محبوب کے کردار میں بھی عورت مرد دونوں دکھائی دیتے ہیں۔ یہ کردارایسے مبہم نہیں ہیں کہ ہم وہاں جو جنس چاہیں،فرض کر لیں،بلکہ یہ شعراباقاعدہ صیغۂ تانیث کا استعمال کرتے ہیں یا کوئی ایسا لفظ جیسے سہیلی،پیاری،سکھی وغیرہ رکھتے ہیں جس سے کردار کی جنس پوری طرح واضح ہو جاتی ہے۔
حسن شوقی دکن کا استاد شاعر تسلیم کیا جاتا ہے۔ ولی نے اپنے پیش روؤں میں سوائے حسن شوقی کے کسی اردو شاعر کا ذکر نہیں کیا ہے۔ولی نے حسن شوقی سے کسب فیض کی طرف بھی اشارہ کیا ہے،یعنی شاعری کے باب میں ولی کی نگاہیں اگر کسی پیش رو شاعرکی طرف اٹھتی ہیں، تو وہ حسن شوقی ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ حسن شوقی اور ولی کی غزلوں کا تقابل کیا جائے تو حسن شوقی کی پرچھائیاں ولی پر صاف طور سے محسوس کی جا سکتی ہیں۔طرز غزل گوئی کے ساتھ ساتھ حسن شوقی کی لفظیات،استعارات اور ردیف کے علاوہ بحر و اوزان کے اثرات ولی کی شاعری پر مرتسم دیکھے جا سکتے ہیں۔دکنی شاعری میں صیغہ ٔتانیث کی مبہم یا واضح صورت جو بہت عام تھی، اس کا اثر حسن شوقی کی شاعری پر بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے ۔حسن شوقی کی بیشتر شاعری عاشق و معشوق کا ایک واضح تصور رکھتی ہے۔ان کی غزلوں میں عورت متکلم کی صورت میں بہت کم نظر آتی ہے۔حسن شوقی کی شاعری کے متعلق جمیل جالبی رقم طراز ہیں:
”حسن شوقی کی غزلیں اسی روایت کا ایک حصہ ہیں جس کے فراز پر ولی دکنی کی غزل کھڑی ہے۔ان غزلوں کو جدید معیار سے نہیں دیکھا جا سکتا۔لیکن یہ غزلیں اپنے مزاج کے اعتبار سے جدید غزل کی ابتدائی روایت اور رنگ روپ کا ایک حصہ ہیں۔حسن شوقی کے ذہن میں غزل کا واضح تصور تھا۔وہ غزل کو عورتوں سے باتیں کرنے اور عورتوں کی باتیں کرنے کا ذریعۂ اظہار سمجھتا ہے۔سب غزلوں میں بنیادی تصور یہی ہے۔اسی لیے اپنی غزلوں میں وہ جذبات عشق کا اظہار کرتا ہے۔محبوب کے حسن و جمال کی تعریف کرتا ہے اور عشقیہ جذبات کے مختلف رنگوں اور کیفیات کو غزل کے مزاج میں گھلاتا ملاتا نظر آتا ہے۔اس کے یہاں غزل کے خیال،اسلوب، لہجہ اور طرز ادا پر فارسی غزل کا اثر نمایا ں ہے۔”(۲)
حسن شوقی کی تقریبا ًدو غزلیں ایسی ہیں جن میں متکلم عورت ہے۔ان کی غزلوں سے کچھ شعر دیکھیں:
ھیا مندھر کری اپنا پیا مہماں بلائی میں
میا سوں تخت پر دلکے سجن کوں بیسلائی میں
نین سو پھول نرگس کے کلی نا سکھ سو چمپے کے
گلالاں موز گلشن میں سریجن کوں لجائی میں
اگن پانی تے بجتی ہے ولے یو سوز بجسی نا
اگر دریائے قلزم میں سدا اٹھ کوئی نھلاوے مجہ
حسن شوقی کی شاعری میں غزلیہ شاعری کے وہ ابتدائی عناصر دیکھے جا سکتے ہیں، جو ولی اور ان کے بعد کے شعرا کے یہاں نظر آتے ہیں اور جن کے سبب اردو غزلیہ شاعری نے اپنا ایک معیار وضع کیا۔حسن شوقی کی شاعری ہندوستانی عشقیہ روایت کی بہ نسبت فارسی عشقیہ روایت کے زیادہ قریب ہے۔
اس پورے پس منظرمیں جب ہم ولی کی شاعری کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ولی کی غزل میں عاشق کی حیثیت سے عورت کا کردار بہت کم نظر آتا ہے۔چنانچہ ان کی کچھ غزلوں میں یہاں کے مقامی اثرات کے سبب مقامی محبوب یعنی عورت کی جھلک بہت واضح ہے۔ولی جس ادبی سماج میں شاعری کر رہے تھے، اس کا فطری تقاضاتھا کہ ان کی شاعری پر اس ادبی معاشرے کے اثرات مرتب ہوتے۔یہی وجہ ہے کہ ہم ولی کی شاعری پراس دکنی ادبی معاشرے کا گہرا اثر دیکھتے ہیں،جس پر خود سنسکرت مقامی شعری روایت کے اثرات تھے۔ اس لئے ہمیں ولی کے یہاں بھی اس قسم کی شاعری کے کچھ نمونے مل جاتے ہیں،جن میں سنسکرت کی قدیم روایت اور دکھنی شاعری کی مقامی اثرات کے تحت عورت کا مخصوص نسائی کردار نظر آتا ہے۔یہاں عورت عاشق ہے،جو اپنے محبوب کے فراق میں غم ورنج کا اظہار کرتی ہے۔ولی کی غزلوں سے اس کی کچھ مثالیں دیکھئے:
اگے جب سوں نہ آنے کی تھی منسا من میں تمنا کے
تو مجھ سے دکھ بھری سوں پھر جھوٹا اقرار کرناں کیا
پرت کی کنٹھا جو پہنے اسے گھر بار کرناں کیا
ہوئی جوگن جو کئی پی کی اسے سنسار کرناں کیا
سکھی تمنا کوں ارزانی یہ کسوت اور رزینہ سب
ووہے جو جیوں سوں بیزار است سنگھار کرناں کیا
دوسری صورت ولی کے یہاں یہ ہے کہ مخاطب یعنی محبوب کے جنس کو مبہم نہ رکھ کر واضح طور پر صیغۂ تانیث کا استعمال کیا گیا ہے:
اس رات اندھاری میں مت بھول پڑوں تجھ سوں
ٹک پاؤں کے جھانجھر کی جھنکار سناتی جا
تجھ مکھ کی پرستش میں گئی عمر مری ساری
اے بت کی پجن ہاری ٹک اس کو پجاتی جا
ولی کی شاعری میں مخاطب اور متکلم کے کردار کے بارے میں وزیر آغا لکھتے ہیں:
’’ولی نے فارسی غزل کی روایت کے زیر اثر تذکیر و تانیث سے اوپر اٹھنے کی کوشش کی ہے اور بالعموم تخاطب کے انداز سے یہ ظاہر نہیں ہونے دیا کہ اس کا مخاطب کون ہے؟البتہ ولی کے ہاں خطاب کرنے والے کی جنس کے بارے میں کوئی الجھن موجود نہیں۔یعنی صاف محسوس ہوتا ہے کہ بات کرنے والا مرد ہے،عورت نہیں (جیسا کہ ہندی گیت میں عام ہے)تاہم ولی کے ہاں زیادہ سے زیادہ خطاب کرنے کا منصب ہی مرد کو ودیعت ہوا ہے۔‘‘(۳)
وزیر آغا کی بات بالکل درست ہے کہ ولی نے تذکیر و تانیث سے اوپر اٹھنے کی کوشش کی ہے،بلکہ میرا تو یہ کہنا ہے کہ ولی نے فارسی غزل کو سامنے رکھ کر شعوری طور پر یہ کوشش کی ہے۔ولی کی شاعری میں خطاب کا منصب بیشتر مرد کو ہی حاصل ہے۔البتہ یہ ضرور ہے کہ ولی اپنے ادبی سماج سے متاثر بھی ہوئے ہیں اور ان کی شاعری میں دکنی روایت کا اثر انداز ہونافطری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ولی کی غزلیں تخاطب کے لئے تذکیر و تانیث کے مرحلوں سے بھی گذریں۔ولی کے پورے کلام کو دیکھیں تو یہ انداز شعر یعنی صیغۂ تانیث کا استعمال ان کے یہاں بے حد کم ہے۔ولی کی شاعری کاحاوی طرز فارسی کا ہی ہے۔
ولی کی کچھ غزلوں میں محبوب بالکل مقامی اثرات کا حامل نظر آتا ہے۔ یعنی فارسی غزل کا تصوراتی محبوب یہاں نہیں ہے، بلکہ حقیقی اور جیتے جاگتے محبوب کی صورت نظر آتی ہے۔ایسی غزلوں میں عشق کے کھلے اظہار کا بیان ہے،جس میں یہ احساس بھی ہے کہ مخاطب یعنی محبوب سامنے موجود ہے۔اسے ارضی محبوب کی صورت کہا جا سکتا ہے۔
فارسی تصور عشق کے ساتھ ہی ولی کی شاعری میں ہندوستانی اورمقامی تصور عشق بھی ملتا ہے۔ولی کی غزلوں میں مقامی اثرات کی نوعیت زبان کے تعامل کی سطح پر دو قسم کی ہے،ایک ایسے الفاظ جو مقامی ہیں،لیکن وہ الفاظ استعارہ یا تلمیح کی حیثیت نہیں رکھتے مثلاًپیو،پیا،چنچل، نگھرگھٹ،موہن وغیرہ؛ اورکچھ ہندوستانی الفاظ ایسے بھی ہیں جن کا استعمال شعر میں محض لغوی معنی کی سطح پر ہوا ہے جیسے محبوب یا معشوق کی جگہ ایسے مقامی لفظ کا استعمال جسے محبوب کے مترادف کے طور پر لایا گیا ہے۔
زبان کا تعامل تہذیبی تصورات سے مل کر وجود پذیر ہوتا ہے۔کسی ادبی فن پارے میں تہذیبی تصور پر مبنی استعارہ جب استعمال میں آتا ہے تو فن پار ے کو اسی تہذیبی تصور کی روشنی میں ہی سمجھا جا سکتا ہے۔زبان میں تہذیبی اثرات کا تعامل کئی طریقوں سے ہوتا ہے،لفظ کی سطح پر،محاوروں اورضرب الامثال کی سطح پر،استعارہ اورتلمیح وغیرہ کی سطح پر۔کسی زبان پر کسی اور زبان کے اثرات لفظی سطح پر پڑ سکتے ہیں اور پڑتے ہیں لیکن الفاظ کا دساور کسی تہذیبی تصور کو تبدیلی کے مراحل سے نہیں گذارتے۔استعارہ اورتلمیح دراصل زبان میں تہذیبی اثرات پیدا کرنے کے لئے بہت کارگرہوتے ہیں۔ہم ولی کے یہاں دیکھتے ہیں کہ وہ ہندی یا سنسکرت الفاظ بار بار استعمال کرتے ہیں، لیکن ان کا یہ استعمال زیادہ تر لغوی سطح پر ہوا ہے۔مثلا
پی کے ہوتے نہ کر توں مہ کی ثنا
معتبر نئیں ہے حسن دور نما
لیا ہے جس سوں موہن نے طریقہ خودنمائی کا
چڑھیاں ہے آرسی پر تب سوں رنگ حیرت فزائی کا
سجن کی انجمن میں ہوئے تب ہر یک طبع روشن
ولی چرچا اچھے مجلس میں جب طبع آزمائی کا
ان اشعار میں پیو،موہن،سجن ہندی الفاظ ہیں اور مقامی شاعری کے مخاطب یعنی معشوق ہیں۔لیکن قابل ذکر امر یہ ہے کہ درج بالا اشعار میں ان الفاظ سے مقامی شاعری کے معشوق کا تصور نہیں ابھرتا،کیوں کہ یہاں یہ محض مترادف کے طور پر برتے گئے ہیں۔اگرچہ فارسی شعرا کے لئے یہ الفاظ نئے ہوں گے، لیکن اگر انہیں اس کے معنی سے آگاہی ہوجائے تو اس کے لئے انہیں کسی تہذیبی یا ثقافتی عنصر کی دریافت کی ضرورت نہ پڑے گی۔اس کے برعکس ولی کی شاعری میں ایسے الفاظ اور ترکیبیں بھی ملتی ہیں جن کے تہذیبی سیاق کو جانے بغیر اس کے مفہوم تک نہیں پہنچا جا سکتا۔مثلاً گج گامنی یعنی ہاتھی جیسی چال والا، چونکہ سنسکرت میں محبوب کی چال کو ہاتھی کی چال سے تشبیہ دیتے ہیں،اور مستانہ چال کو ہاتھی کی چال سے متصف کیا جاتا ہے، اس لئے محبوب کے لئے گج گامنی کی تشبیہ لاتے ہیں۔ظاہر ہے،سنسکرت شاعری میں گج گامنی محبوب کی صفت ٹھہرے گی۔اس تصور کو جانے بغیر کسی دوسری تہذیب کا فرد اسے نہیں سمجھ سکتا۔اسی طرح کنول کے پھول کو آنکھ سے تشبیہ دی جاتی ہے،یا جوگی کا تصور جو خالص ہندوستانی کردار ہے۔ولی نے ایسے تہذیبی استعاروں کے حامل الفاظ کو بھی اپنے کلام میں برتا ہے،لیکن ان کی تعداد فارسی استعاروں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ولی کے یہاں سے مثال دیکھیں:
کھڑا ہے راستی کے دم میں یک پگ پر سوجیوں جوگی
ترے قد سوں لگا ہے دھیان سرو جوئباری کا
اس شعر میں جب تک جوگی کے خاص کردار سے واقفیت نہ ہو شعر پوری طرح نہیں واضح ہو سکتا۔یہ شعر سنسکرت شعریات سے اثر پذیری،مقامی اثرات اور فارسی غزل کی رسومیات تینوں کو اپنے اندر بڑی خوبی کے ساتھ سمیٹے ہوئے ہے۔اس شعر میں محبوب کی بلند قامتی کا مضمون باندھا گیا ہے۔محبوب کے قد بلند کا تصور فارسی غزل سے ہمارے یہاں آیاہے کہ فارسی میں محبوب کا بلند قامت ہونا اس کی خوبی میں شمار کیا جاتا ہے۔ سرو چونکہ سیدھا اور لمبا ہوتا ہے، اس لیے قامت محبوب کو شعرا سرو سے تشبیہ دیتے ہیں ۔جوگی ہندوستانی تہذیب کا مذہبی کردار ہے۔جو شخص جوگ اختیار کرتا ہے وہ دنیا سے الگ تھلگ ہو کر سنیاسی بن جاتا ہے،اور موکچھ، نجات اور حق و راستی کی تلاش کے لئے ایک پیر پر دم سادھے دھیان لگائے کھڑا رہتا ہے۔ یہاںقابل غور بات یہ ہے کہ ولی نے قامتِ محبوب کو سرو سے تشبیہ نہ دے کر خود سرو کو محبوب کی قامت کی چاہ میں جوگی کی طرح ایک پیر پر دم سادھے دھیان لگائے کھڑا دکھایاہے۔ترے قد سوں لگا ہے دھیان،یعنی جوگی راستی کی تلاش میں دھیان لگائے اور دم سادھے کھڑا ہوتا ہے،اور سرونے تیری قامت سے دھیان لگا رکھاہے،تاکہ وہ تیر ی قامت تک پہنچ سکے۔’راستی’کے لفظ میں ایہام ہے،کیوں کہ راستی میں جوگی کے دھیان کا مقصود بھی پنہاں ہے اور راستی بمعنی راست اورسیدھا ہونا سرو کی صفت ہے۔
نین دیول میں پتلی یو ہے یا کعبہ میں اسود ہے
ہرن کا ہے یو نافہ یا کنول بھیتر بھنور دستا
جودھا جگت کے کیوں نہ ڈریں تجھ سے اے صنم
ترکش میں تجھ نین کے ہیں ارجن کے بان آج
کفر کوں توڑ دل سوں دل میں رکھ کر نیت خالص
ہواہے رام بن حسرت سوں جا لکھمن سورام اس کا
ان اشعار میں آپ واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ یہاں آنکھ کو مندر اور کنول سے تشبیہ دینا،نگاہوں کے تیر کو ارجن کے بان کہنا، اور رام،لکھمن،جیسے کردار وں کے استعمال کے ذریعہ مقامی تہذیبی تصورات کو تشبیہ و استعارہ اور تلمیح میں ڈھال دیا گیا ہے۔
قدیم ہندوستانی روایت اور تہذیب کے عناصر اردو کی دکنی روایت میں شروع سے موجود رہے ہیں۔یہ صفات صرف ولی سے مخصوص نہیں ہیں۔لیکن ولی کا امتیاز یہ ہے کہ وہ اردو غزل میں پہلی بار اور باقاعدہ طور پر ان عناصر کو فارسی تصور عشق سے وابستہ پہلووؤں کے تابع رکھتے ہیں۔ولی کی غزل کامحبوب دکنی شاعری کے محبوب سے بڑی حد تک اس لئے مختلف ہے کہ ولی اپنی غزل کو فارسی شعری روایت بالخصوص فارسی غزل کے سانچے میں رکھ کر اس کی صورت گری کر رہے تھے۔ولی کے یہاں اگر کچھ غزلوں میں مقامی اثرات کے تحت دکنی شاعری کے چند عناصر دکھائی دیتے ہیں تو اس کا اصل سبب وہی ہے جس کا اس مضمون میں پہلے ذکر کیا گیا،یعنی مقامی روایت کا فطری طور پر اثر انداز ہونا۔لیکن یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ہے کہ یہ اثرات ولی کی محض چند غزلوں تک ہی محدود ہیں، جن میں وہ دکنی شعرا کی پیروی کرتے نظرآتے ہیں۔
حواشی:
۱۔کلاسیکی غزل کی تصوراتی دنیا۔پروفیسر احمد محفوظ۔ماہنامہ،کتاب نما۔نومبر ۵۱۰۲،ص۷۱
۲۔دیوان حسن شوقی۔مرتبہ:جمیل جالبی۔ انجمن ترقی اردو پاکستان کراچی،اشاعت اول ۱۷۹۱، ص،۰۳
۳۔ وزیر آغا۔ ولی کی غزل،مشمولہ؛ولی تحقیقی و تنقیدی مطالعہ۔مرتب:محمد خاں اشرف ۔ مکتبہ میری لائبریری لاہور۔ اشاعت اول ۱۹۵۶۔ ص۷۴
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page