"رسالہ ” عربی لفظ ہے ۔جس کا معنی ترسیل کا آلہ ہے ۔ اردو رسائل نے اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی میں گراں قدر خدمات سر انجام دی ہیں ۔ ادبی رسالہ میں ادب کی مختلف ادبی جہات مثلاً شاعری،ناول ،افسانہ کو موضوع بنایا گیا ہے ۔ زمانہ قدیم سے عہد جدید تک اردوادبی رسائل کی اہمیت سے انحراف نہیں کیا جاسکتا ۔دنیا کےکسی بھی زبان کے ادب کے فروغ میں رسائل اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ جہاں اردو رسائل نے ہماریروایات و اقدار،تہذیب وتمدن،کلچر،ثقافت میں اہم کردار ادا کیا ہے وہیں ادب کے فروغ میں بھی کلیدی حثیت رکھتے ہیں ۔ اردو ادبی رسائل ہمارےتنقیدی نظریات و معیاری تخلیقات اور فکر و فن کو موضوع سخن بناتے ہیں اور ادب کی ترویج و ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ اردو رسائل نےادب کے مختلف موضوعات کو اپنے دامن میں جگہ دی ہے۔اورادبی رسائل مخصوص ادبی شمارے یا ادبی رسائل نمبرز بھی شائع کرتے ہیں جن میں افسانہ نمبر ، ناول نمبر ، غالب نمبر ، شاعری نمبر ، اقبال نمبر ، غزل نمبر،مرثیہ نمبر ،نعت نمبر اور ناولٹ نمبراور خصوصی شخصیت نمبر بھی جاری کئے ہیں ۔ اردو رسائل و جرائدادب کے ترجمان ہیں اردو ادبیاخبارات ورسائل وجرائد انسانی جذبات و احساسات کی بھر پور عکاسی کرتے ہیں۔ ادبی رسائل ادبی صحافت کے میدان میں بھی بہت اہمیت کے حاملہیں ۔ان ادبی رسائل میں ہفتہ وار، ماہنامہ ، سہ ماہی ، ششماہی ، اور سالانہ مجلے بھی ہوتے ہیں کیوں کہ ان کی اشاعت کی مدت مختلف ہوتی ہے ۔ یہ ۔سیاسی ، سماجی ،مذہبی اور ادبی شعور کو اجاگر کرتے ہیں ۔
برصغیر پاک وہندمیں ادبی رسائل و جرائد کی اک توانا روایت موجود ہے،،جس کی وجہ سے ادب پھیلنے پھولنے لگ گیا۔ ان رسائل نے اپنے عہد کی ترجمانی کی اورادب و ادبی مباحث کھل کر سامنے آئے اور ان ادبی رسائل کی وجہ سےمختلف شعرا و ادبا کے کلام سے واقفیت حاصل ہوئی ۔بیسویں صدی نئے رجحانات،نئے امکانات ،نئے جذبات و احساسات،نئے انکشافات اور نئے تقاضوں ،اور ایجادات، نئےکی صدی ہے۔ اس صدی میں علم و ادب کی ترقی کے لئے رسائل و جرائد نے اہم خدمات سر انجام دیں۔دور حاضر میں جہاں اُردو رسائل کی جگہ انٹرنیٹ، فیس بک اور ٹیکنالوجی نے لے لی ہے،لیکن اس کے باوجود اس بات پر یقین کرلینا کہ رسائل وجرائد کی اہمیت آج کے عہد کے لیے ضروری نہیں تو درست نہ ہوگا ۔اس ترقی سے رسائل و جرائد مواد نئے طریقوں سے قاری تک پہنچانے کے امکانات پیدا ہوتے ہیں ۔
بے شک مادی ضروریات نے انسان کو جکڑ لیا ہے مگر ذہنی سکون اور پرورش کے لیے اردو رسائل تیز اور موثر ذریعہ ہیں۔ انٹر نیٹ ،اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلاب ہونے کے باوجود اردو رسائل میں اضافہ ہوا ہے ۔ کچھ رسائل سرکاری ہیں ،اور کچھ غیر سرکاری ۔
اگر غیر سرکاری رسالوں کی بات کی جائے تو ان کی تعداد سرکاری رسالوں سے بہت زیادہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ان کی تعداد سوا دو سو کے قریب ہے۔ جن میں ایسے بھی ہیں جن کی ادبی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے ،کہ اردو کے مختلف رسائل پر زوال بھی آیا ان کی اشاعت پر پابندی بھی لگا دی گئی مگر اس کے باوجود یہ بات مسلم ہے کہ نئے رسائل اب بھی جنم لے رہے ہیں ۔ جو رسائل سماجی ضرورت اور ذہنی ارتقاءکی پیش رفت رکھتے ہیں وہ جلد ہی مقبولیت عام حاصل کر لیتے ہیں ادب کے مختلف رجحانات و ادوار سے متاثر، متنوع قسم کے قارئین موجود ہیں جو ان رسائل سے مستفید ہو سکتے ہیں۔
آج بھی نئے ادبا و شعرا کی کھیپ پیدا ہورہی ہے اور نئے نئے اسالیب اور ہیئتکے تجر بات کررہی ہے اور خوش قسمتی یہ ہے کہ اردو رسائل و جرائدان سے ہمیں متعارف بھی کروارہے ہیں۔ ابتداء میں ہفتہ وار اخبارات ہی ادبی مضامین اور ادب کے لیے استعمال ہوتے تھے ۔ اردو رسائل و جرائد کی ابتداء کے بارے میں جاننا ہو تو مشکل ہی کہ اس ان کی دستیابی ہوسکے ۔ برصغیر میں انیسوی صدی کی وسط میں ادب کے فروغ کے لیے گل دستہ با عنوان "گلِ رعنا” پانی پتی کریم الدین نے نکا لا وہ اپنی مثال آپ تھا۔ ۔ جس میں مختلف شعرا کے کلام کو یکجا کرکے پیش کیا جاتا تھا ۔ 1857 ء کی جنگ کے بعد اہم اردرسائل وجرائد جیسے "اودھ پنج”،”تہذیب الاخلاق”وغیرہ نے ادبی خدمات سرانجام دیں تھیں ۔ تقسیم سے قبل کی بات کی جائے تو ایسے بہت سے جرائد تھے جن کی گونج پورے برصغیر میں گونجتی تھی ۔
ان کے نام درج ذیل ہیں :
مخزن ، ہمایوں ، الناظر ، نظام ،معارف ، اردوئے معلی ، ، عصمت ، اردو ، نگار ، ادبی دنیا ، نیرنگِ خیال ، شاعر ، ساقی ، شاہکار ، الہلال ، سب رس ، آج کل ، کتاب ، افکار ، نیا دور ، فنون ، وغیرہ تھے ان رسائل کی مجموعی تعداد لگ بھگ70 تھی اور دوسری بات تقسیم کے بعد بھی ان میں سے رسائل کی اشاعت ہوتی رہتی تھی۔ان میں ادب اور تاریخ و اسالیب وغیرہ پر تنقیدی مضامین شائع ہونے کے ساتھ ساتھدیگر فنون لطیفہ کے بارے بھی مضامین شائع ہوتے تھے آج کل بھی کئی ادبی حوالے سے گراں قدر مواد فراہم کر رہے ہیں۔ہندوستا ن میں صحافت کی انیسویں صدی میں داغ بیل پڑ گئی ۔ اس وقت برصغیر میں چھاپے خانے بن چکے تھے برصغیر میں صحافت کا مقصد لوگوں تک خبریں پہنچا نا تھا اور علم وفنون کو فرو غ دینا تھا۔ ڈاکٹر عبدالسلام خورشید کہتے ہیں کہ:
"علم کے فروغ سے مراد یہ تھی کہ قارئین کو سائنس اور مغری علوم کی قیادت سے آشنا کیا جائے”۔ (1)
- اُردوزبان کا پہلا اخبار "جام جہاں نما”:
"جام جہاں نما” اردو کا پہلا اخبار ہے، لیکن بعد میں اس کی زبان فارسی کر دی گئی۔خوش قسمتی سے اردو میں ادبی صحافت کو ابتدائی دور میں ہی سر سید جیسا بالغ نظر مل گیا جس نے ” تہذیب الاخلاق” جیسا رسالہ جاری کر کے علمی ، مذہبی ، سیاسی ، اور ادبی جرائد کی صحافت کو ایک ہی رسالے کے ذریعہ فروغ دیا۔
- مرات الاخبار:
"جام جہاں نما "کے ساتھ 20 اپریل 1822 کو فارسی زبان میں راجہ رام موہن رائے نے کلکتہ سے ہفت روزہ "مرات الاخبار” جاری کیا .وہ بہت ہی روشن خیال مدیر تھے۔ سماجی اور ادبی اصلاح کے لئے انہوں نے معلوماتی تحریریں چھاپی۔ ابتدا میں اردو اخبار کے بجائے فارسی اخبارات کو زیادہ فروغ ملا کیونکہ اس وقت زیادہ تر رجحان فارسی کی طرف تھا ۔
- دہلی اردو اخبار:
یہ اخبار مولانا محمد باقر نے جاری کیا تھے۔ بعد میں اس کی ادارت ان کے فرزندمحمد حسین آزاد نے سنبھالی تھی ۔ بقول ڈاکٹر عبدالسلام خورشید:
"آزاد کی آمد سے یہ اخبار فنی لحاظ سے پہلے سے کہیں بہتر ہوگیا ۔ زبان نکھرکر سامنے آگئی۔تحریر کے اسلوب اور بے ساختگی کے عناصر نے اخبار کو قارئین کے لیے زیادہ پرکشش بنا دیا” ۔ (2)
ادبی رسائل کا سب سے بڑا مقصد زمانے کے ادبی وثقافتی رجحانات کی عکاسی کرنا ہے۔ ادبیرجحانات کی پیش کش میں ہر رسالے کے مدیر کی خاص انداز تفکر موجود ہوتی ہے۔
اردو کا پہلا ماہانہ جریدہ گل دستہ :
ابتدا میں اُردو رسائل و اخبارات میں فرق نہ تھا بلکہ شعر و ادب کے فروغ کے لیے اخبارات ہی کام کرتے تھے تاہم انیسویں صدی میں رسائل و اخبارات میں فرق واضح کر دیا گیا پہلا ادبی جریدہگل دستہ "گل رعنا "کے نام سے تھا جو، کریم الدین پانی پتی نے 1845 میں دہلی سے نکالا تھا جس کا مقصد شعر و شاعری کو فروغ دینا تھا ۔اس میں مختلف شعرا کے کلام کو یکجا کیا جاتا پھر اس پر ایک ادبی نشت میں مشاعرے کروائے جاتے ۔ یہ رسالہ باقاعدہ اخبار سے الگ تھا ۔
1857ء سے پہلے کی ادبی جریدہ نگاری:
1857ء کی جنگ ایک سانحہ تھا۔ انگریزوں کا پھیلایاگیا جال تھا۔ مسلمانوں کو ہر لحاظ سے اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دور کا ادیب یا شاعر اگرانگریزوں کے خلاف آواز اٹھاتا تو باغی کہلاتا تھا۔ دوسری بات اس دور میں ادب کے ساتھ ساتھ اردو اخبارات پر بھی مشکل وقت تھا ۔
اودھ اخبار۔۔۔۔۔۔۔لکھنو:
اودھ اخبار”ہفتہ وار رسالہ تھا جو 1873 ء میں لکھنؤ سے نکالا گیا تھا ۔ اس رسالے میں رتن ناتھ سرشار کا ناول "فسانہ آزاد” قسط وار شائع ہوتا تھا ۔اس رسالے کی خاص خوبی یہ ہے کہ اس میں مزاحیہ ادب بھی شامل تھا۔ اشارے کنایے میں اس میں انگریزوں کی حکومت اور ان کی تہذیب پر طنز کیا جاتا تھا ۔مولانا امداد صابری کہتے ہے:
"یہ اخبار اپنے عہد کی ادبی ،تمدنی معاشرتی اور سیاسی تاریخ کی مستند اور با وقار دستاویزکی حیثیت رکھتا ہے”۔3
سر سید احمد خان نے سائنسی اور علمی مسائل کو بہت اہمیت دی ہے۔ وہ وسیع انظر انسان تھے ۔ انہوں نے ادب میں نئے موضوعات کا احاطہ کیا اور اس کے فروغ کے لیے مختلف ادارے قائم کیے۔ ادب کے فروغ کے لیے انہوں نے اردو رسائل کی نہ کہ حوصلہ افزا ئی کی بلکہ خود بھی رسالہ نکالا ۔
سر سید احمد خان کے رفقا نے بھی رسائل میں اپنا حصہ ڈالا، اور وقت کے ضرورت محسوس کرتے ہوئے ان رسائل کا اجراء بھی کیا۔ سر سید احمد خان نے جب 1870 ء میں انگلستان کا سفر کیا تو واپسی پران کو احساس ہوا ،کہ انگریزی طرز کے رسائل برصغیر میں بھی شائع ہونے چاہئے ،تاہم انہوں نے بر وقت انگریز ی رسائل سے متاثر ہوکر "تہذیب الاخلاق کی بنیاد رکھی ۔
تہذیب الاخلاق:
اس رسالے کا بنیادی مقصد معاشرے کی تہذیبی اصلاح تھا۔ رسالہ "تہذیب اخلاق” کا مقصد تہذیب کی اصلاح کے ساتھ ساتھ اردو ادب کے موضوعا ت میں وسعت لانا تھا ۔ ۔اس رسالے میں جس طرح مضامین شائع ہو ے تھے، اس سے علمی سطح بلند ہوئی تھی ۔ مسلمانوں کو نامیدی سے باہر نکا لنا تھا۔”تہذیب الاخلاق "سے نشرو اشاعت میں اضافہ ہوا ۔سرسید احمد خان اس رسالے کے اجراء پر خود کہتے ہیں:
"اس پرچے کے اجرا کا مقصد یہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو کامل درجے کی سویلزلشن یعنی تہذیب اختیار کرنے پر راغب کیا جائے تاکہ جس حقارت سے سویلائزڈ یعنی مہذب قومیں ان دیکھتی ہیں وہ رفع ہو اور وہ بھی دنیا میں معزز و مہذب قومیں کہلائیں ” (4)
انجمن پنجاب اور صحافت:
جب قدیم دہلی کالج کا شیرازہبکھرا تھا تو انہوں نے اس کالج کو گورنمنٹ کی تحویل میں دے دیا۔انجمن پنجاب کا قیام لاہور میں ہوا تو جہاں ادب کے نئے قلم کار ابھر کر سامنے آئے ۔ لارڈمیکالے نے” انجمن اشاعت مطالب مفیدہ پنجاب” کی داغ بیل ڈالی جس کا مقصد سما ج کی ادبی اور علمی اصلاح تھی۔
"انجمن پنجاب” کی آواز دوسرے صوبوںتک پہنچانےکے لیے رسائل جاری کرنے کا پروگرام وضع ہوا اور سماجی تہذیبی ،ثقافتی،علمی، اور ادبی، موضو عات پر تبادلہ خیالات کے لیے جلسوں کا بندوبست کیا گیا۔انجمن پنجاب کی بدولت بہت سےادباروشناس ہوئے۔انجمن پنجاب ایک جامع سماجی اور ادبی تحریک تھی، جس نے ادبی اصناف کو فروغ دیا تھا ۔۔ عبدالحلیم شرر نے بھی صحافت میں اپنا حصہ ڈالا اور "دل گداز”رسالہ نکال کر ناولوں کے فروغ میں اہم کردار اداکیا۔
ماہنا مہ تیرھویں صدی :
یہ ایک ماہانہ رسالہ ہے،جس کو میر ناصر علی نے 1879ء کو جاری کیا تھا ۔ میر ناصر علی اس کے مدیر تھے۔ بنیادی طور پر میر ناصر علی تحریک علی گڑھ کے مخالف تھے ۔
محمڈن اینگلو اوریئنٹل کالج میگزین
یہ رسالہ بھی علی گڑ ھ تحریک کے زیر اثر جاری ہوا۔ جس کے مدیر مولانا شبلی نعمانی تھے ۔جس میں علوم وفنون کی قلم کشائی ہوئی تھی۔یہ دوزبانوں میں شائع ہوتا تھا ایک حصہ انگریزی جبکہ دوسرا حصہ اردو کا ہوتا تھا۔
دیگر رسائل :
اس کے علاوہ رسالہ افسر (حیدرآباد دکن) جس کی ادارت مولوی عبدالحق نے کی۔اس میں جن مضمون نگاروں نے اپنا حصہ ڈالا، ان میں مولانا حالی، ،مرزا چراغ علی، ذکاء اللہ ا،کبر خان ،ظفر علی خان عمادالملک ،مولانا گرامی وغیرہ تھے۔
بیسویں صدی کے ادبی رسائل:
اردو ادب وصحافت کی عمر ڈیڑھ سو سال سے زیادہ ہے لیکن جیسے کے ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ ، سر سید احمد خان نے جو صحافت کے فروغ کے لیے کوششیں کیں،وہ ناقابلفراموش ہیں۔سر سید احمد خان کا رسالہ "تہذیب الاخلاق”ادبی افق پر منفردحیثیت رکھتا ہے۔ بیسوی صدی انقلاب کی صدی ہے ۔ اسصدی میں جوتبدیلیاں رونما ہوئیں،ان تبدیلیوں نے ادب کو بھی بہت مثا تر کیا ۔بیسویں صدی شعور کی صدی ہے،عوام میں ادب کے بارے بھی فکری شعور آنا شروع ہوگیا ہے۔ اس صدی میں جو رسائل جاری ہوئے ان کا اجمالی جائزہ پیش کیا جائے گا
مخزن :
اس کے مدیر شیخ عبدالقادر تھے۔ جنہوں نے اپریل 1901 کو لاہور میں اس رسالے کا اجرا کیا تھا ۔ مخزن رسالے کا مقصد اردو زبان وادب کو فروغ دینا تھا ۔یہ رسالہ ادبی ،تقافتی، وعلمی، لحاظ سے ایک مکمل رسالہ تھا ۔ بنیادی طور پر یہ رسالہ رومانوی تھا ،مادیت پرستی کا توڑ یہ رسالہ تھا ۔۔بیسویں صدی میں برصغیر میں چہار سوں رومانیت کی ہوا کے ٹھنڈے جھونکے آنے لگے۔اس تازہ ہوا کے مخصوص جھونکوں سے نوجوان مخزن کے درخت کی ہوا کھا نے لگے۔مخزن کے درخت نے حوپھل اُگائے ان میں اقبال، ابوا الکلام آزاد، سجاد حیدر یلدرم،آغا شاعر قزلباش،ظفر علی خان مرزا محمد سعید ،خوشی محمد ناظر، غلام بھیک نیرنگ،مہدی افادی، اور شیخ عبدالقادر وغیرہ شامل ہیں ان ادباکے ذریعے رومانی خیالات کو فروغ ملا۔
"زمانہ”:
"زمانہ "ایک ماہنامہ رسالہ تھا،جس کے مدیرمنشی دیا نرائن نگم تھے۔ اس رسالے نے سرسید احمد خان کی نشر کو عام کرنے میں اہم کردار اداکیا۔اس رسالے میں جن مضمون نگاروں نے اپنے فن کے جوہر دکھائے،ان میں منشی ذکا اللہ، اکبر الہٰ آبادی ، ڈپٹی نذیر احمد،شبلی نعمانی، پر یم چند، تلوک چند محروم ،علامہ اقبال، پیارے لال شاکر، وغیرہ شامل ہیں۔
اُردوئے معلی :
مولانا حسرت موہانی نے جولائی 1903ء میں علی گڑھ سے ماہنامہ” اردوئے معلی "جاری کیا ۔جس میں بیک وقت ادب اور سیاست کو پیش کیا گیا۔
بیسویں صدی کے نصف اول میں "مخزن”،”زمانہ” اور "اردوے معلیٰ”نے علمی و ادبی میدان میں اہم خدمات سر انجام دیں،جو کہ بہت قابل رشک ہیں ۔ مولانا حسرت موہانی چونکہ سیاست سے وابستہ تھے۔اس وجہ سے”اردوےمعلی” پر اس کا کافی اثر پڑاتھا ۔ لیکن ابتدا میں اس کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔ بقول ڈاکٹر مسکین حجازی :
"اُردوے معلیٰ "کا مزاج کلاسیکی تھا حسرت نے روزنامہ کے صحافی انداز کو ” اردوے معلی "میں ادبی سطح پر پیش کیا اور یہ اپنی نوعیت کا پہلا کامیاب تجربہ تھا”۔(5)
چنانچہ کچھ عرصہ کے باقاعدہ اس کی اشاعت بند ہوگی۔
"آفتاب اردو”:
بیسویں صدی میں مولانا تا جورنجیب آبادی نے رسالہ "آفتاب اردو” جاری کیا تھا،اس رسالے کی بدولت مشرقی علوم کو فروغ ملاتھا۔ بہت سے شعرا ء ادبا نکھر کر سامنے آئے تھے۔ بقول مولانا صابری:
"علامہ نے پنجاب میں اردو شاعری اردو انشا پرادبی ا کچھ اس شان سے صور پھولکانے تعلیم یا فتہ نوجوانوں لکھنو اور ذیلی میں ادبیوں کی تحریروں کا جو رنگ تھا اس کے برسانے عین پنجاب کے ادیبوں کی تحریریں کو کھلنے لگیں”۔ (6)
"الہلال”:
"الہلال "مولانا ابوالکلا م آزاد نے جاری کیا تھا ۔ اس کا مقصد ادبی و مذہبی علم کو فروغ دینا تھا۔اس میں علمی مضامین ہوتے تھے،جو اردو ادب کے فروغ میں معاون ثابت ہوئے ۔
"ہمدرد”:
"ہمدرد ” رسالے کےمدیر مو لانا محمد علی جوہر تھے. یہ روزنامہ اخبار تھا جو کلکتہ سے شائع ہوتا تھا. اس رسالے کی بدولت اردو کے بلند پایہ کے ادیب نکھر کر سامنے آئے
علاج کی غرض سے 1928ء میں مولانا محمد علی جوہر یورپ گئے واپس پر اخبار کی حالت کو ٹھیک نہ پایا ور صحت کی نا سازی کی وجہ سے وہ اس اخبار پر پوری توجہ نہ دے سکے تو یہ اخبار بھی بند ہوگیا۔
پاکستان میں ادبی رسائل کی تاریخ :
پاکستان جب معرض وجود میں آیاتو ہجرت کے مسائل، آبادی کی زیادتی ،نسلو ں کا انتشا ر، وغیرہ جیسے مسائل برصغیر کے دولخت ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کے حصے میں آئے۔
پاکستان میں کراچی جیسے شہر کو ادبی مرکز کی حثیت حاصل تھی۔ روزمرہ زندگی کے معاملات کے ساتھ ادبا نے ادب سے غفلت برتنے کے بجائے اس کے فروغ کے لیے نئے سرےسے بنیادیں بنا نا شروع کردیں۔اردو ادب کے فروغ کے لیے بر صغیر میں ادبی شعرا و ادبا نے رسائل کی ضرورت کو محسوس کی اور اس کی اشاعت کے لیے ہمہ تن سرگرم رہے۔
چونکہ ادبی صحافت کا پہلو پاکستان میں کمزور ہوگیا، کیونکہ ہجرت کے اثرات صدیوں تک رہتے ہیں۔ لاہور جیسے تاریخی شہر کو ادب کا گہوارہ بنایا،اور یہاں سے ادب کے فروغ کے لیے رسائل بھی نکالے گئے۔اب ہم اس طرف توجہ دلانا چاہیے ہیں کہ لاہور کے علاوہ اور کون سے شہر تھے جن سے ادبی رسائل شائع ہوتے تھے ان کا ہم اجمالی جائزہ لیں گے۔
"اُردو ":
یہ سہ ماہی رسالہ تھا جس کا اجرا ء مولوی عبدالحق نے جنوری 1961ء میں کراچی سے کیا تھا ۔ اس رسالے کا مقصد اردو زبان کے گمنام طبع کتب کا سراغ لگانا تھا، اردو زبان کے روزمرہ محاوروں اور اصطلاحات کی بہتری لانا تھا۔ مولوی عبدالحق نے تنقید کے میدان میں بہت اہم کردار ادا کیا ۔ اس کے متعلق خود مولوی عبدالحق لکھتے ہیں:
"میں چاہتا ہوں کہ یہ رسالہ "اردو زبان وادب کی مفید اور محققانہ بحتبوں سے مالا مال ہتا کہ شائقین ادب اسے غوروشوق سے پڑھیں اور اہل ملک کے ذوق پر اس کا اچھا اثر ہو ہم اپنی لسباط کے موافق کو شیش کریں گئے کہ زبان کی حصوصیت کو ہاتھ سے نہ جانے دیں پاک صاف اور شائستہ زبان استعمال کریں اور ذوق سلیم کے پیدا کرنے میں طرح طرح سے مد د دیں۔ "(7)
ابتدا میں یہ اورنگ آباد سے چھپتا تھا۔ اس رسالے میں جنہوںنے اپنے قلم کے جواہر دکھائے ,ان میں عبدارحمن بحنوری فرحت اللہ بیگ، شیخ محمد اسمعیل، خواجہ احمد فاروقی، اور ظہیر الدین قدری شامل ہیں۔
"ہمایوں” :
"ہمایوں” رسالے کا اجر ا کرنے والے میا ں بشیر احمد تھے۔ جنہوں نے جنوری 1966ء کو”ہمایوں ” رسالہ لاہور سے جاری کیا۔اس رسالے نے اخلاقی ضابطے کی بڑی پابندی کی اس کی اہمیت کے بارے خود میا ں بشیر احمد رقم طراز ہیں کہ:
"مدیر ہمایوں ” کا نقطہ نگاہ بالطیع قدامت پسند انہ ہے لیکن حقیقت سے آنکھیں پھیرنا ہوگا اگر وہ نئی دنیا کے مفہوم کو سمجھنے سے انکار کرتے نوجوانوں کی انتہا پسندی ہمیں کبھی پسند نہ آئے گی اس کی روک ہمارا فرض ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ جدید ادب کی گئی اور اچھوتی جدتوں سے منہ پھیرنا تنگ نظری ہے یہ ایک نیاتجر بہ ہے ۔ نئے ادیب مین اگر پانچ فی صد بھی کام کی چیزیں نکل آئیں تو وہ کا ر آمد ثابت ہوگا۔ (8)
مختلف اوقات میں منصور احمد، مولانا حامد علی خان یوسف ظفر، شیر محمد اختر ،مظہر انصاری اور ناصر کاظمی اس پر چے کی ادارت سے منسلک رہے.جنوری 1958 ء کا سالنامہ ہمایوں کی آخری یادگار اشاعت ہے ۔انور سدید لکھتے ہیں کہ :
"آزادی کے بعد ہمایوں نے اسلام اور اردو زبان کو پاکستان کے استحکام کے لیے لازمی قراردیا اور بلند اخلاقی نصب یقین کے لیے ہمایوں کی جیت تبدیل کردی آزادی کے تقدس نے نئے مکل کے قومی تقاضو ں کو فوقیت دی اور شعرا اور ادبا کو ایسا ادب تخلیق کرنے کی ترغیب دی جس میں نظریہ تحلیق کی بنت پاکستا ن میں ادبی وسائل کی شامل ہوں”۔ (9)
نگار:
اس رسالے کو نیاز فتح پوری نے فروری 1922 ء میں بھوپال سے جاری کیا تھا۔ نیاز فتح پوری نے 1922ء سے لے کر 1966ء تک اس کی ترقی کے لیے من دھن سے خدمات سر انجام دیں بعدازاں اس کی ادارتفرمان فتح پوری نے سنبھال لی ۔ اصناف شاعری نمبر، مسائل ادب نمبر 1968 غالب نمبر 1969ء رسالہ "نگار” کی تو سط منظر عام پر آئیں۔
"نگار” رسالے کی اولین ترغیت اردو ادب کی تاریخ اور علوم نو کی اشاعت تھی. اس نےمعیاری مواد اور پھر شخصیات پر خاص نمبر جاری کیے تھے, جن میں بہادر شاہ ظفر، نظیر اکبر آبادی ،ریا ض خیر ، غالب نمبر وغیرہ شامل ہیں . "نگار” کی یہ خوش بختی ہے کہ اس کو جو بھی مدیر ملے انہوں نے دل وجان سے خدمات سر انجام دیں ۔اس رسالے نے قاریکے ذہن کو پختہ اور ادبی تربیت کو پروان چڑھایا۔ اس رسالے کے توسط جو مضمون نگار ابھر کے سامنے آئے ، ان میں ڈاکٹر سید معین الرحمن ،بلراج کومل ،صدیق الرحمن قدوائی،پروفیسر سہیل اختر ،ا سجاد باقر رضوی، وقار احمد رضوی، غلام حسین اظہر ،شہزاد منظر، ریا ض صدیقی، اور سعادت نظیر قابل ذکر ہیں۔ڈاکٹر امیر عارفی کہتے ہیں کہ:
"نظیر مصحفی، ریاض، داغ حسرت کو نگار بدولت ہی نئے سرے سے جانا پہچا اور بھا گیا”۔(10)
- ماہنا مہ "نیرنگ خیال ":
یہ حکیم یوسف حسن کی ادارت میں جولائی 1924ء میں جاری ہوا, بعد میں یہ لاہور اور راولپنڈی میں منتقل کردیا گیا۔ مصر نمبر، افغانستان نمبر، ایڈیٹر نمبر،رام نمبر،اقبال نمبر،مشرق نمبر،فلم نمبر،افسانہ نمبروغیرہ اہم اشاعتیں تھیں۔”نیرنگ خیال” کی خوشبو کوسو پھیلی ہوئی تھی۔مگر افسوس اس کی مقبولیت محض 1947 ء تک قائم رہی۔ اس کے بعد اس کی وہ حثیت برقرار نہ رہ سکی۔1981 ء میں حکیم یو سف دنیا سے رخصت ہوگئے ۔اس کی عظمت کا اعتراف علامہ اقبال نے بھی کیا ہے:
” اس کے مضامین میں پختگی اور متانت پائی جاتی ہے مجھے یقین ہے کہ یہ رسالہ پنجاب میں صحیح ادبی ذوق پیدا کرنے میں مفید ثابت ہو گا ” جناب عبدالرحمٰن چغتائی” کی تحفی لیلیٰ” بہت خوب ہے دیکھ کر مسرت ہوئی۔ دیکھئے اب تخفی قیس کب نکلتا ہے”۔(11)
"نیرنگ خیال” ہندوستان کا کثیر الا اشاعت رسالہ تھا۔ اس نے ادبی ذوق کی آبیاری کی۔
- "ادبی دنیا”:
"ادبی دنیا” کو مولانا تاجور نجیب آبادی نے 1929ء میں جاری کیا تھا بعد ازاں 1932ء میں اس کو مولانا صلاح الدین احمد نے اپنے دوست منصور احمد کے لیے خرید لیا۔ منصور احمد کی وفات کے بعد حفیظ ہوشیار پوری اور عاشق بٹالوی نے اس کے مدیر بن گئے۔
1938ء کو مولانا صلاح الدین احمد نے "ادبی دنیا "کی ادارت سنبھال لی۔ اس کے شریک مدیر میرا جی بھی تھے۔ تقسیم ہند کے بعد اس کی ڈور قیوم نظر کے ہاتھوں میں آ گئی۔ جب تشکیل پاکستان کا خواب آخری مراحلوں پر تھا اس رسالے نے ایک تحریک نکالی جس کا نام ” اردو بولو” تحریک تھا۔ 1947ء کے فسادات کی پاداش میں مولانا صلاح الدین کے گھر اور کتب خانے کو جلا دیا تھا۔ اس ساری صورتحال کے بعد مولانا صلاح الدین کا ہاتھ وزیر آغا نے بٹایا۔ اس کی اشاعت میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔ ڈاکٹر وزیر آغا کی انتھک کوششوں کی وجہ سے جن شعراء نے اس رسالے میں اپنے جوہر دکھائے ان میں مجید، امجد، بشیر نواز، کماریاشی، بلراج کومل، شہریار، قاضی سلیم، عزیز تمنائی، شکیب جلالی وغیرہ شامل تھے۔
مولانا کی وفات کے بعد اس کے مدیر حامد علی خان بنے اس کے بعد محمد عبداللہ قریشی مدیر بنے۔ تینوں نے 1974ء تک اقبال نمبر ، وحشت کلکتوی نمبر، کشمیر نمبر، جیسے خاص شمارے جاری کیے تھے۔ ڈاکٹر انور سدید اس پرچے کے بارے کہتے ہیں کہ
"مولانا صلاح الدین احمد کے نزدیک ادب تعمیر حیات بھی تھا اور زندگی کی تفسیر بھی۔ یہ روشنی اور توانائی بھی فراہم کرتا تھا اور لطافت، ہجت اور مسرت بھی، انہوں نے ادبی دنیا کو اپنے انہی تصورات کا نقیب بنایا اور پختگی کردار نے اسے زندہ رکھا”۔(12)
- "ادب لطیف”
"ادبلطیف” یہ رسالہ ترقی پسند تحریک کا نمائندہ رسالہ تھا۔ اس کو جاری کرنے والے چوہدری برکت علی تھے۔ جنہوں نے 1936ء میں لاہور سے نکالا تھا۔ اس کا پہلا پرچہ طالب انصاری نے ترتیب دیا تھا۔ مرزا ادیب اس کے وقتی مدیر تھے۔ وہ 1941ء میں اس ذمہ داری سے سبکدوش ہو گئے تھے۔ فیض احمد فیض، راجندر سنگھ بیدی، ممتاز مفتی، قتیل شفائی، فکر تونسوی، احمد ندیم قاسمی جیسے لوگ وقفے وقفے سے اس رسالے کے مدیررہے۔
بعد ازاں یہ رسالہ ترقی پسندوں کی انتہا پسندی کی زد میں آ گیا، جس کی وجہ سے اس پر پابندی بھی لگ گئی تھی۔ 1962ء میں مرزا ادیب” ادب لطیف” سے الگ ہوئے تو انتظار حسین نے اس کے فرائض سنبھال لیے ۔لیکن وہ بھی اس سے علیحدہ ہو گئے ۔یوں یہ رسالہ سید قاسم محمود، ذکا الرحمٰن، ناصر زیدی اظہر جاوید کے ہاتھوں آتا گیا۔ اس کی دو اشاعتیں بہت یادگار ہیں جن میں "گولڈن جوبلی نمبر” اور "فیض نمبر” ہیں۔
ادب لطیف کے چوتھے دور کی ادارت جب انتظار حسین نے سنبھالی تو انہوں نے لکھا کہ:
"ادب لطیف” کو ایک معیاری ادبی پرچہ بنانے بنائے رکھنے کا میں وعدہ نہیں کروں گا۔ معیاری ادبی رسالے اردو میں اس وقت بہتت نکل رہے ہیں جو رسالے ہمیں چاہیے اور نہیں ملتا وہ ایک غیر معیاری ادبی رسالے ہے۔”(13)
- "سویرا”:
"سویرا” رسالہ جنوری 1947ء میں چوہدری نظیر احمد نے لاہور سے جاری کیا تھا۔ احمد ندیم قاسمی فکر تونسوی، اور نزیر احمد "سویرا”کے مرتبین تھے۔ آزادی کے پہلے”سویرا” کے دو شمارے منظر عام پر آئے تھے۔ جب کہ اس کا تیسرا شمارہ آزادی کے بعد شائع ہوا تھا۔
"سویرا” رسالے نے ترقی پسندوں کی خوب نمائندگی کی تھی۔ جس کی پاداش میں "سویرا” پر چھ ماہ پابندی لگا دی گئی۔ "سویرا” کا یہ رویہ جارحانہ تھا۔ "سویرا” نے فنون لطیفہ کو بھی فروغ دیا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس رسالے کے مدیر بدلتے رہے۔جس کی وجہ سے اس رسالے کی استقامت قائم نہ رہ سکی۔ اس کے ابتدائی مدیران نے اس رسالے کو خود مختار بنانے کی بھرپور کوشش کی تھی۔ بعد میں اس رسالے نے علامتی اور تجریری ادب کے اثر کو بھی مقبول کیا۔
- "نیا دور”:
"نیا دور ” کا پہلاشمارہ 1946ء میں ممتاز شیریں اور احمد شاہین نے بنگلور سے نکالا۔ آزادی کے بعد اس کا دفتر مقام کراچی میں منتقل ہو گیا۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے اس کی بھرپور حمایت کی اور شمیم احمد اس کے مدیر مقرر ہو گئے تھے۔ اس پرچے نے مغربی افکار کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ترقی پسندوں کے خلاف یہ رسالہ تھا۔ ممتاز شیریں دلبرداشتہ ہو کر اس کی اشاعت منقطع کر دی تھی۔
"رسالے نکالنے کی خواہش اور وہ بھی اچھا رسالہ نکالنے کی خواہش اس بچے کی خواہش سے کم نہیں ہوئی جو بضد ہوتا ہے کہ مجھے چندا مامو ں لادو اور پھر ایسا ہی رسالہ نکالنا اتنا ہی دشوار ہے، جتنا بچے کو چندا ماموں لا دینا۔۔۔ اتنی جگر کاری کرنی پڑتی ہے جتنی فرہاد کو جوئے شیر لانے میں نہ کرنی پڑی ہو گی۔”(14)
جس دور میں یہ رسالہ نکلتا تھا اس دور میں یہ بھی تحریک چلی کہ ادب پر جمود طاری ہو گیا ہے ،ادب میں جمود کو توڑا جائے لہذا ادبا نے اپنے تخلیقی عمل کو تیز کر دیا ۔” نیا دور” ایک ایسا پلیٹ فارم تھا جس میں جمیل جالبی نے ہر نقطہ نظر پر بحث کی اجازت دے رکھی تھی۔ لہذا اردو ادب میں "نیا دور” کا آنا بہار سے کم نہیں۔
- "سحر ” :
"سحر” رسالہ ستمبر 1947ء میں الطاف پرواز نے لاہور سے جاری کیا تھا۔ اس کی شریک ادارت ان کی بیگم نسیم سحر تھیں ۔یہ ایک ترقی پسند جریدہ تھا۔ لیکن جب اس رسالے کو مالی مشکلات نے گھیر لیا تو ترقی پسند ادبا نے اس کو اپنی پناہ میں لے لیا۔ لیکن ہوا یہ کہ اس رسالے نے ترقی پسندانہ رویہ کے خلاف لکھنا شروع کر دیا جس کی وجہ سے ترقی پسند ادبا نے اس سے بائیکاٹ کر دیا بالاآخر یہ پرچہ بھی بند ہو گیا۔
- "فانوس”:
1947ء میں ریاض جاوید نے یہ رسالہ جاری کیا تھا۔ بعد میں اس کی ادارت نسیم ایم۔ اے نے سنبھال لی۔انہوں نے فانوس کا "آزادی نمبر جاری کیا تھا۔ ” غالب نمبر” بھی ایک یادگار اشاعت تھی۔
- "سب رس”:
"سب رس ” رسالہ 1938 میں کراچی سے جاری ہو تھا۔ یہ رسالہ ادبیات اردو نے متعارف کروایا تھا۔ ڈاکٹر محی الدین قادری زور اس کے نگران مقرر ہوئے تھے۔ اس رسالے کا مزاج کلاسیکی تھا۔ اس نے دو جلدوں میں ” یاد رفتگاں نمبر” اقبال نمبر” اور ممتاز حسن نمبر، متعاروف کروائے۔
- "چراغ راہ”
"چراغ راہ "رسالہ جنوری 1947ء میں جاری ہوا۔ اس کا مقصد اسلامی اقدار کوانقلاب کو فروغ دینا تھا۔ ان کے ابتدائی مدیران میں نعیم صدیقی ، غلام محمد اور جیلانی صاحب تھے۔
یہ ایک ایسا رسالہ تھا۔ جس کی روشنی میں لوگ اسلام اور ادب کو آپس میں جوڑ کر اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے تھے۔ جولوگ اس کے سایے کے نیچے پروان ہوئے ان میں محمد عثمان ؒ ا بن فرید، لالہ صحرائی، نعیم صدیقی ، صدیق الحسن گیلانی، عبداللہ خاور، اور طالب حجازی وغیرہ شامل تھے۔ اس نے اسلامی ادب کو فروغ دیا اور اس کو لوگوں سے روشناس کروایا۔ امتحاج نمبر 1953ء اور سوشلزم نمبر 1967 اس کی خاص اشاعتیں ہیں۔
- "تخلیق”:
"تخلیق ” کو 1969 کو اظہر جاوید نے لاہور سے جاری کیا تھا ۔ اس رسالے نے نئےلکھنے والوں کے لیے باقاعدہ ایک پلیٹ فارم مہیا کیا خواتین کے اردو ادب میں اس رسالے نے بہت پذیرائی دی تھی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پروین عاطف راحت سخی، عذرا اصغر اس رسالے کی مدیر بھی رہی تھیں۔ جن خواتین نے اس رسالے کی مدد سے خود کو روشناس کروایا ان میں عنایہ بخاری، امینہ عنبرین، شاہد نواز، اجمند شاہین ام لیلی، زہادہ ناز، طاہرہ زمان، نوشابہ خاتون عذرا مسعود شگفتہ نازلی جیسے نام نمایاں ہیں۔
1984ء میں اس رسالے نے ” کہانی نمبر” جاری کیا۔ جس میں فرقہ وارانہ فضا کو مٹانے کی کوشش کی تھی۔ مخصوص علاقائی ادب و ثقافت کو پروان چڑھایا۔ اس زمرے میں انور سدید کی رائے قابل فہم ہے کہ:
"وہ تخلیق کا بنیادی مقصد اس روشنی کو پھیلانا ہے۔ جو ادب کے لفظوں سے پھوٹتی ہے اور چاندنی کی طرح دل و جان کو راحت بخشی ہے۔ اس مقصد کے لیے اطہر جاوید نے ممتاز ادب کا تعاون حاصل کیا اور تخلیق کو ایسی نرسری بنیاد یا جنس میں ادب کی نئی پور پروان چڑھتی ہے۔ تخلیق اپنے مخصوص متوازن اور معتدل اسلوب میں ادب کی شبانہ روز خدمت میں مصروف ہے اور اظہر جاوید اس کے لیے تن من دھن سب کچھ وقف کر رہے ہیں”۔(16)
- "جریدہ”:
"جریدہ ” رسالہ تاج سعید نے پشاور سے 1983ء میں شائع کیا اس کی مدیر اعلیٰ معروف افسانہ نگار بیگم بانو تھیں۔ اس رسالے کا مقصد شعر ادب کی اشاعت کے ساتھ فلمی تھیٹر، ریڈیو اور ٹی وی کو فروغ دینا تھا ۔ ا سرسالے کی شہرت کو بہ کو پھیل گی کے ذریعےبہت سے تخلیق کاروں نے خود کو روشناس کیا۔
- "دستاویز”:
"دستاویز” کا اجرا 1971ء میں راولپنڈی سے ہوا۔اس رسالے کو نکالنے والے رشید امجد تھے۔ اس میں ابرار امجد احمد جاوید نے رشید امجد کے ساتھ تعاون کیا۔ اس نے اردو ادب میں عالمی ادب کی بھرپور نمائندگی کی۔ اس میں اخلاقی، معاشرتی ،ادبی، مضامین و مقالات شائع ہوتےتھے ۔اس کے ساتھ ساتھ انشا پردازی کا خوب عمدہ نمونہ پیش کیا تھا۔ آزادانہ اظہار خیال کا حق بھی دیا۔
- "سیپ”:
"سیپ "رسالے نے فکر نو کی ترجمانی کی۔ اس کو جاری کرنے والے نسیم درانی ہیں۔ جنہوں نے ستمبر 1964ء کو جاری کیا۔ اس رسالے نے ہر صنف ادب کو فروغ دیا ہر مکتب فکر نے اپنی آواز کو بلند کیا۔ نسیم درانی اس رسالے کے متعلق رقمطراز ہیں کہ:
"پُر احساس لغیت کے مؤثر اظہار کے لیے ایک لہجہ کی ضرورت ہے۔ لہجہ اس وقت بنتا ہے جب ادیب کی ہر لففظ کے ساتھ گہری وابستگی ہو۔ ہر لفظ کی بناوٹ مائیت اور اس لفظ کے ساتھ منسلک دیگر کیفیات سے وہ پوری طرح آشنا ہو۔ الفاظ جب اس وابستگی اور آشنائی کے ساتھ کسی تحریر میں مرتب ہوں گے تو ان میں خود بخود مطلوبہ شعر کے ساتھ خوبصورتی، روانی، بہاؤ، ترنم اور نغمگی پیدا ہو جائے گی۔(17)
نسیم درانی ادبی ذوق کے مالک تھے۔ انہوں نے ایسے مضامین شائع کیے جو شاعری کے لیے بہت عمدہ اور کار آمد ثابت ہوئے۔
” اگر نقاد اپنا فرض منصبی صحیح طور پر ادا نہیں کرتے تو تخلیق کار کو اس طرف متوجہ ہونا چاہیے”۔(18)
"سیپ”نظم و نثر کا ایک عمدہ جریدہ ہے، جس میں نئے ابھرنے والے شعرا اور ادبا کامعیاری مطالعہ چھپتا ہے۔ "ناولٹ نمبر” اور ” میر انیس نمبر” اس کی یادگار اشاعتیں ہیں۔
- "سہ ماہی” صحیفہ”:
یہ جریدہ مجلس ترقی ادب کے زیر اہتمام لاہور سے جون 1957ء میں منظر عام پر آیا۔ اس رسالے میں ہر مکتب فکر کواپنی فن آزمانی کا موقع ملا۔ پریہ ایک سرکاری رسالہ تھا جس کی وجہ یہ مختلف مسائل سے دو چار ہوتا رہا بعد ازاںعابد علی عابد نے اس کی بھاگ دوڑ اپنے ہاتھوں میں لے لی۔
صحت کی ناسازی کی وجہ سے عابد علی عابد جلد ہی اس سے الگ ہو گئے ۔اس کی نشست ڈاکٹر وحید قریشی نے سنبھال لی۔ ڈاکٹر وحید قریشی نے بھرپور طریقے سے اپنی ذمہ داریوں کو نبھایا اور ان ہی کی ادارت میں مرزا غالب پر جو تحقیقی و تنقیدی کام ہوئے وہ قابل داد ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے دس سالہ قومی ترقی نمبر، تاج نمبر، ادبیات فارسی نمبر، حالی نمبر اور اقبال نمبر منظر عام پر لائے۔ ان کے بعد اس رسالے کی صدارت احمد ندیم قاسمی 1976ء میں کی۔
"صحیفہ” اب بھی شائع ہوتا ہے باقی ادبی رسالوں کی نسبت اس کا معیار بہت بلند ہے۔ اس رسالے میں فنون لطیفہ ،مصوری، خطاطی، موسیقی اور فوٹو گرافری کو بھی فروغ ملا۔ پاک و ہند میں یہ ایک معیاری جریدہ تھا۔ اس نے ادب کی جو پیش کش کی وہ بہت اعلیٰ اور معیاری تھی۔بقول ڈاکٹر سید عبداللہ:
"مدت کے بعد اردو کا ایک پورا رسالہ دیکھنے میں آیا۔ ۔۔ یوں ملک مٰں بلند پایہ یہ رسالے اور بھی ہیں ان کو بھی پڑھ کر اطمینان ہوتا ہے مگر فنون رنگ و بوئے دیگر رکھتا ہے”۔(19)
- سہ ماہی ” فنون”
اس رسالے کا اجرا کرنے والے احمد ندیم قاسمی ہیں۔ جنہوں نے 1963ء میں اس کو منظر عام پر لے آئے۔ بنیادی طور پر احمد ندیم قاسمی ترقی پسند ادیب تھے ۔احمدندیم قاسمی کی زیر صدارت ” قاعد اعظم نمبر” اور اقبال نمبر اور آزادی نمبر” شائع ہوئے۔
احمد ندیم قاسمی شاعر اور افسانہ نگار ہونے کے ساتھ صحافی بھی تھے۔اس لیے وہ صحافت کی باریک بینی سے واقف تھے۔انہو ں نے ” پھول”،” تہذیب نسواں”،”ادب لطیف”، "سحر”، "نقوش”اور”سویرا”جیسے رسالوں کو نکھارا تھا۔ فنون کو ان سب کی نسبت زیادہ پذیرائی ملی تھی۔ اردو شاعری میں فنون کی خدمات لازوال ہیں۔ اس نے لکھنے والوں کی بھرپور حمایت اور حوصلہ افزائی کی۔ اس رسالے نے خاص نمبر بھی شائع کیے تھے۔ ” جدید غزل نمبر” 1969ء جیسا شمارہ کبھی تاریخ میں شائع نہیں ہوا۔ اس میں ڈھائی سو شعر کا مجموعہ کلام ہے۔ حمید احمد خان نے احمد ندیم قاسمی کو لکھا:
"آپ نے کس کس طرح سات دریا فراہم کئے۔ ہوں گے تب کہیں نئی غزل کی یہ رنگا رنگی اور نئی تنقید کی یہ دقیقہ سجی قرطاس پر جلوہ گر ہوتی۔ ہو گی۔ نئی غزلوں کا یہ عظیم الشان ذخیرہ ارباب ذوق کو برسوں تک دعوت نقد و تبصرہ دے گا۔ سبحان اللہ”۔ (20)
غزل نمبر کے علاوہ ” اقبال نمبر” اور "خدیجہ مستور نمبر”بھی فنون یادگار شاعتیں ہیں۔
- "ماہ نور”:
"ماہ نور ” رسالے کے مدیر سید وقار عظیم تھے. اس کے علاوہ محمد حسن عسکری رفیق خاور چراغ حسن حسرت وغیرہ وقتاً فوقتاً مدیر رہے۔اس رسالے میں عالمی سطح کے تراجم میں ہوتے تھے۔ جس کی وجہ سے بہت مسائل نے جنم لیا کیونکہ حسن عسکری کی اولین ترجیح اردو تراجم تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کے مسائل میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔ لیکن اس رسالے نے خاص شمارے شائع کروائے ہیں ا” سیر نمبر” انقلاب نمبر مرزا ادیب نمبر، غالب نمبر، اقبال نمبر اور سارک نمبر شامل ہیں۔ آج اگر دیکھا جائے تو” ماہ نو” نے فنون لطیفہ موسیقی، سنگ تراشی، آثار قدیمہ وغیرہ پر مضامین شائع کیے۔
- "نئی تحریریں”:
"نئی تحریریں” ماہانہ رسالہ ہے،جو 1955ء میں اختر انصاری نے حیدر آباد سے جاری کیا تھا۔ اس کا مقصد اُردو ادب کو فروغ دینا تھا اور اس نے مروجہ اضاف سخن کو نئے طرزمیں ڈھال لیا تھا۔اس کا مقصدقارئین کونت نئی تحریروں اور مضامین سے روشناس کروانا تھا۔ اس رسالے نے کچھ مشہور اور مخصوص نمبر کے شمارے بھی جاری کیے تھے۔ جس میں ” مشرقی پاکستان نمبر” نئی شاعری نمبر، سلور جوبلی نمبر، شاہ بھٹائی نمبر وغیرہ شامل ہیں ۔
- "نئی نسلیں”:
"نئی نسلیں ” اس کا پہلا شمارہ کراچی سے 1978ء میں جاری ہوا ان کے مدیران میں ذکا الرحمٰن اور نگار یاسمین تھیں۔ اس نے اردو ادب کے فروغ کے لیے بہت کوشش کی مگر خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی اور جلد ہی رسالہ بند ہو گیا۔
- "ماہنامہ کتاب”:
"ماہنامہ کتاب ” رسالے کو جاری کرنے والے محمد سرور جامعی تھے جنہوں نے 1942ء میں جاری کیا تھا۔ لیکن تقسیم ہند کے بعد جب مسلما ن اپنا سازو سامان لے کر پاکستان منتقل ہوئے تو اس کے بعد اس کی ادارت عبد السلام خورشید نے سنبھال لی۔ اگر اس پرچے کی بات کی جائے تو اس نے مخصوص علاقوں کی زبانوں اور علاقائیادب و ثقافت کو فروغ دیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کے مدیر بدلتے رہے لیکن اس نے اردو ادب کو جو نوازا اس میں ” بچوں کا ادب نمبر” دیوان غالب نمبر وغیرہ شامل ہیں۔ بعد میں اس رسالے نے عالمی سطح کے تراجم بھی کیے اور لوگوں کے ذہنوں کی آبیاری کی کہ وہ اپنا رجحان مطالعہ کی طرف کر دیں۔
- "علامت”:
"علامت ” ایک ماہنامہ رسالہ تھا جو اکتوبر 1989ء میں لاہور سے جاری ہوا۔ سعید شیخ اس کے مدیر تھے ۔۔۔۔۔ امجد الطاف بھی مدیر رہے لیکن ان کی وفات کے بعد ریاض احمد نے ادارت سنبھال لی۔ یہ ابتدا سے اب تک اپنی اشاعت کو لے کر چل رہا ہے۔
1989ء سے 1997ء تک 95 اشاعتیں منظر عام تک آ چکی ہیں۔ یہ خالص ادبی جریدہ ہے۔ جس میں ادب کے معیار کو پرکھا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ جریدہ علامتی و تجریدیادب کے فروغ کے لیے کام کرتا رہا۔ شاعری کے علاوہ افسانہ ،ناول،اور آپ بیتی کا تجزیاتی مطالعہ کرنے کی سعی کی ہے۔ اس رسالے کو یہ اعزاز ہی حاصل ہے کہ اس نے کچھ ادبی خود نوشت کی صورت میں سلسلہ وار مضامین شائع کیے۔ جن کے نام درج ذیل ہیں:
- ناممکن کی جستجو ( حمید نسیم)
- یادوں کی خوشبو( غلام رسول)
- ٹوک خار
- ریڈیو برادری ( داؤ درہبر)
- خدو خال ( آغا بابر )
- "سہ ماہی غالب”:
"سہ ماہی ” رسالہ کراچی سے مرزا ظفر الحسین نے” ادارہ یادگار غالب” کے زیر اہتمام جنوری 1975ء میں شائع کیا۔ بنیادی طور پر یہ پرچہ غالبیات پر تھا ۔جس پر حیات غالب اور ان کے نمونہ کلام کو سمجھنا تھا۔ طنز و مزاح کا بھی حصہ اس میں موجود تھا۔ ایکحد تک اقبالیات کو بھی اہمیت دی گئی تھی۔ فیض احمد فیض اس کے مدیر اعلیٰ تھے۔ ان کی وفات کے بعد اس کی صدارت مشفق خواجہ نے سنبھال لی ۔ اقبال نمبر اس کا یادگار شمارہ ہے۔
- "ماہنامہ عالمگیر”:
"ماہنامہ عالمگیر” رسالہ 1924ء میں لاہور سے جاری ہوا تھا ۔اس کے مدیر حافظ محمد عالم تھے۔ اس رسالے نے تاریخی ناول نگاری کو بہت فروغ دیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس پر بھی اونچ نیچ آتی رہی، آزادی سے پہلے تو یہ اردو ادب کے افق پر خوب چمکا لیکن تقسیم ہند کے بعد اس کی تابناکی برقرار نہ رہ سکی۔
اگر بات کی جائے عبدالرحیم شبلی کے کام کی تو انہوں نے اس رسالے کو فعال بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ نجمی نگینوی بھی اس کے مدیر رہے۔ ” جوبلی نمبر” اس کی آخری یادگار اشاعت ہے۔
- "شاہراہ”:
“شاہراہ ” رسالہ ترقی پسند ادب کا نمائندہ تھا۔ اس کا پہلا شمارہ جنوری 1949ء میں ساحر لدھیانوی کی ادارت میں نئی دہلی سے شائع ہوا۔ اس رسالے میں جن لوگوں کی تخلیقات شائع ہوتی تھیں۔ ان میں فیض احمد فیض، علی سرور جعفری، معین احسن جذبی، سعادت حسن منٹو راجندر سنگھ بیدی اور احمد ندیم قاسمی شامل ہیں۔
بقول ساحر لدھیانوی:
"ہمارے اغراض و مقاصد ہی ہیں جس کا اعادہ انجمن ترقی پسند مصنفین بار بار کر چکی ہے۔ ہم اپنے تمام رسالہ زندگی میں طلسم اور تشدد کا شکار ہونا پڑا۔ شاہراہ ان کا ترجمان ہے اور یقین دلاتا ہے کہ وہ ہر حالت میں اپنے آپ کو ان سے وابستہ رکھے گا”۔(21)
- "اُردو زبان”:
"اُردو زبان ” جنوری 1966ء میں عصمت اللہ نے سرگودھا سے جاری کیا تھا۔ اس رسالے میں منتخب فن پاروں پر مضامین لکھے جاتے تھے۔ اردو زبان و ادب میں اس رسالے کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ اس کی کاوش یہ رہی کہ یہ اختلاف رائے کا حق دے وقت کی اونچ نیچ کی وجہ سے یہ رسالہ بھی زوال کا شکار ہو گیا۔
اس رسالے کے بارے میں ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں:
"مجموعی طور پر اردو زبان شدید رد عمل کا پرچہ ہے یہ ا ن کی معاشرے کے مصائب اور ناہمواریوں کو آشکار کرنے میں گہری دلچسپی لیتا ہے۔ ادیب کو قومی افتخار شمار کرتا ہے اور اس سے اعلیٰ اخلاق اور کردار کی توقع رکھتا ہے چنانچہ جب کوئی ادیب اپنے بلند منصب سے گر جاتا ہے تو احتجاج کی پہلی آواز” اردو زبان” کے صحیفات سے ابھرتی ہے اور پورے برصغیر میں سنی جاتی ہے۔ (22)
- "ماہنامہ احساس”:
"ماہنامہ احساس ” مسرت غزنوی نے 1975ء میں پشاور سے جاری کیا تھا۔ اس رسالے کا اولین ترجیح ان شعراء کو متعارف کروانا تھا جو پشاور یا اس کے ارد گرد کے علاقوں میں اپنے شاعری کے جوہر دکھا رہے تھے۔ خاطر غزنوی نے بعد میں اس کی صدارت سنبھالی لیکن ان کیعدم توجہی کی وجہ سے یہ رسالہ نہ چل سکا۔
اس رسالے نے جو اردو ادب کو دیا ہے ان میں جنگ نمبر، سوزے تنگ نمبر، کہانی نمبر، "اقبال نمبر”، رقص و موسیقی نمبر اور عالمی کہانی نمبر وغیرہ شامل ہیں۔
- "کامران”:
"کامران ” ایک ماہانہ رسالہ تھا ۔جس کو انور گوئندی نے جولائی 1955ء میں سرگودھا سے جاری کیا تھا۔ یہ ایک ادبی پلیٹ فارم کی حیثیت رکھتا تھا۔ جب اس کو مالی مسائل نے آ گھیرا تو اس کے بعد ڈاکٹر وزیر آغا، ڈاکٹر انور سدید اور پروفیسر سجاد نقوی نے اس کی ادارت سنبھالی۔ اس نے اردو ادب کے فروغ کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ انور گوئندی کی وفات کے بعد ان کی بیٹی منزہ گوئندی نے اداررت سنبھالی اور اس کے فروغ کے لیے اہم کردار ادا کیا۔
- "ماہنامہ تلاش”:
"ماہنامہ تلاش ” ڈاکٹر ایس آئی سرور نے جنوری 1970ء میں جاری کیا تھا، معاشرتی راہ وری کو پھیلنے سے روکنا اس رسالے کا مقصد تھا۔ بالکل اسی کا ہم نام رسالہ لاہور سے ڈاکٹر طارق عزیز نے بھی شائع کیا تھا۔ بہت جلد ہی اس رسالے کو بھی بند کر دیا گیا۔
ادبی جرائد و رسائل کی اہمیت سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا جب ادب کو اگلی نسلوں تک پہچانا ہو تو ادبی رسائل و جرائد ہی مفید ہوتے ہیں۔ بیسویں صدی میں جتنی ترقی اردو رسائل کو ملی ہے اتنی کسی کم ہی صدی میں ملی ہے۔ ادب میں جو بھی تحریک یا رجحان جنم لیتا ہے تو اس کی خبریا اس کا علم ہمیں اخبار یا رسالے سے ہی ملتا ہے۔
مشہور و معروف ادبا و شعرا اردو رسائل و جرائد کی ہی بدولت اردو دنیا میں متعارف ہوئے ہیں۔ یہ بجا ہے کہ کرشن چند، پریم چند سردار جعفری، قراۃ العین حیدر وغیرہ معروف تخلیق کاروں میں سے ہیں لیکن اگر ان کی تخلیقات کو ادبی رسائل اگر متعارف نہ کرواتے تو تو یہ حضرات گم نامی کا ہی شکار رہتے۔
اُردو رسائل خود کفیل تو نہیں ہوتے بلکہ اس کی ترقی اردو بقا کے لیے ادبا اور ورکر مالی معاونت کرتے ہیں۔ مدیر کے لیے اردو رسائل ہی آمدنی کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ اگر اس کی اپنی ضروریات زندگی پوری نہ ہو تو وہ اخبارات و رسائل کو بھلا کیوں کرچلا سکتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اردو رسائل کم ہی مستقل مزاجی کے ساتھ شائع ہوئے۔
- "اوراق”:
"اوراق ” جنوری 1966ء میں وزیر آغا نے لاہور سے جاری کیا تھا۔ ڈاکٹر وزیر آغاکافی عرصے سے مولانا صلاح الدین احمد کے ساتھ رہے۔اس وجہ سے وزیر آغا کو صحافت کی جان قدری تھی۔ ” ادبی دنیا” میں بھی ان کے ساتھ تعاون کرتے رہے۔ ” ادبی دنیا” نے اردو ادب کے نئے خیالات و اقدارات کو بخوبی منظر عام پر لے آیا ۔وزیر آغا نے یہ ضرورت محسوس کی کہ یہ رسالہ اب فقدان کا شکار ہو گیا ہے۔ لہذا اردو ادب کے فروغ کے لیے مزید کام ہونا چاہیے۔ بس یہ ہی وجہ تھی کہ وزیر آغا نے "اوراق” رسالہ لاہور سے جاری کیا۔
"اوراق” کے اجراء کی وجہ قوم کے ذہنی شعور کی بیداری کرنا تھا اور نت نئے مباحث کو سامنے لانا تھا۔
"پاکستان میں ادبی رسائل کی تاریخ”میں انور سدید کہتے ہیں کہ:
” اوراق” کو عہد ساز کہنا اس لیے مناسب ہے کہ ان کے مدیران نے اردو ادب کو ایک مخصوص جیت دینے کی کوشش کی اپنے رسالے کو فکر و نظر کا نصیب بنایا۔ ادب کے ہم موضوعات پر مباحث پیدا کئے نئے سوال اور نئے تجربات کو اہمیت دی” ۔(23)
متنوع علمی اور ادبی مسئلوں پر غور فکر کرنا اوراق کی خصوصیات میں سے ہے۔اوراق کی وجہ سے بہت قلم کار نکھر کر سامنے آئے اور اپنے فن کو پیش کیا ان کی خدمات ان تھک ہیں۔ اس نے شاعری افسانہ نگگاری اور ناول نگاری اور آزاد نظم کو فروغ دیا۔
- "تعمیر ملت”:
"تعمیر ملت ” ایک ہفتہ وار رسالہ تھا۔ جس کو سید سجاد انبالوی نے 1965ء میں جاری کیا تھا۔ اس کا صدر مقام منڈی بہاؤالدین ضلع گجرات تھا۔ اس رسالے کا اولین مقصد علاقائی ادب کی اشاعت تھا۔
- "سورج”:
"سورج ” ایک ماہنامہ رسالہ ہے،جس کو 1971ء میں تسلیم احمد نے لاہور سے جاری کیا تھا، جن لوگوں نے اس رسالے کی ادارت کی ان میں عابدہ گل،شیریں فاروقی اور جمیل انجم شامل تھے ۔یہ محض تخلیقات کا تجزیاتی مطالعہ کرتا تھا اس میں کوئی ادبی متحرک نہیں تھا جن لوگوں کی اس رسالے میں تخلیقات شائع ہوئی تھیں ان میں کشور ناہید ، احمد ندیم قاسمی، سلیم طاہر، جیلانی کامران شامل ہیں۔
- "نئی نسلیں”:
مئی 1978ء میں ذکا الرحمٰن نے کراچی سے جاری کیا تھا۔ اس کی مدیر نگار یاسمین تھیں۔ ذکا الرحمٰن نے لکھا ہے کہ:
"نئی نسلیں ” دوسرے بے شمار ادبی جریدوں کی طرح محض ایک ادبی جریدہ نہیں ہے اور نہ ہی معروف ادبی نظریوں کے ان گنت مبلغوں میں سے ایک مبلغ ہے۔۔۔ اس کی پشت پر نظریہ اور عملے سے تشکیل پائی ہوئی ایک پوری ما بعد الطبیعات ہے۔” (24)
اس رسالے کا مقصد جدید ادب کا فروغ تھا۔ جن لوگوں نے اس رسالے میں لکھا ان میں افضال احمد سید، زاہدہ حنا، ثروت حسین، سمیع آہوجہ، نسرین انجم بھٹی اور افتخار جالب تھے جنہوں نے خوب امتزاج کے ساتھ قلم کشائی کی لیکن جلد ہی اس کی مانگ کم پڑ گئی۔
- "معاصر ” :
"معاصر "رسالے کو اکتوبر 1979ء میں حبیب اللہ خان نے لاہور سے جاری کیا تھا۔ اس کے مدیران میں عطاء الحق قاسمی اور سراج منیر تھے۔ اس کے آغاز میں درج ہے کہ:
” یہ مجموعہ نظم و نثر مدیر کہلانے کے شوق میں مرتب نہیں کیا گیا بلکہ اپنے نظریات کو عملی شکل میں دیکھنے کی خواہش اس کا محرک بنی ہے”۔(25)
یہ ادب میں فکر و نظریہ کا قائل جریدہ تھا۔ جس میں علمی بحث ہوتی تھی اس نے کسی ایک مکتب فکر کی اہمیت نہیں کی بلکہ فلسفہ ، اردو جدیدیت کو پروان چڑھایا۔ اس رسالے نے عالمی تراجم بھی کیے۔جس کی اچھی خاصی شہرت ہوئی لوگوں کو اد ب کے وسیع پیمانے پر پڑھنے کو بہت کچھ مل گیا۔
"معاصر”نے جدید شعراء سے بھی متعارف کروایا جن میں اختر حسین جعفری، صلاح الدین محمد امجد اسلام امجد حسین رضوی،اختر امان افتخار عارف، خورشید رضوی اور ظفر اقبال وغیرہ شامل ہیں۔
- "خیابان” :
یہ رسالہ نومبر 1980ء میں حسن عباس رضا اور محمودیہ نمازیہ نے لاہور سے جاری کیا۔ اس کا بنیادی مقصد روشن خیال ادب کا فروغ تھا۔ اس پرچے کا جب اجراء ہوا تو اس کا پہلا انتساب فیض احمد فیض کے نام ہوا۔ لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس رسالے کا بنیادی مقصد ترقی پسند ادب کا فروغ بھی رہا۔ اس رسالے کے بار ےمدیران خود لکھتے ہیں کہ:
"آج ہم جن اندرونی اور بیرونی حالات سے دو چار ہیں ان میں ضروری ہے کہ ہم اپنے تشخیص کو نہ صرف برقرار رکھیں بلکہ اسے صحیح سمت میں نمایاں کرنے اور قابل رشک بنانے کی سعی پیہم بھی کرینِ پاکستان ہماری پہچان ہے جب تک ہم اپنی زمین سے اپنی محبت کا بے پایاں اظہار اور اس کا عملی ثبوت نہیں دیں گے ہم کسی اور چیز سے چاہت کا خواب تو دیکھ سکتے ہیں اس کی جاتی اور ہنستی تعبیر کو گلے نہیں لگا سکتے”۔(26)
جن ممتاز ادبا اور شعراء نے اس رسالے میں قلم کشائی کی ان میں فیض احمد فیض، منیر نیازی، جمیل ملک، شاہین مفتی، وزیر آغا آفتاب اقبال، زاہد ڈار، ایوب مرزا، رشید امجد، مسعود اشعر، جوگندریال اور ممتاز مفتی شامل ہیں۔
- "روایت”:
"روایت” رسالہ 1983ء میں محمد سہیل عمر نے لاہور سے جاری کیا تھا۔”روایت "رسالہ کا مقصد اردو ادب کے بند دریچوں کو کھولنا تھا ۔ ۔ہمارے ادب میں نت نئےتجربات کی کمی ہے۔ بنے بنائے اصولوں کو توڑنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہ ذہن کو متحرک کرنے کے لیے ایک اہم جریدہ ہے۔ اس رسالے میں ایسے مقالات شائع ہوئے جو قابل تحسین ہیں۔
"روایت” نے لکھا کہ عقل و خرد کو جملہ سطحوں پر اور تمام حیات سے مخاطب کرنا اور اس ذریعے سے آج انسان کے تمام جائز سوالات اور اشکلات کا جواب دینا ہمارا مقصد ہے” (27)
مختلف مضمون نگاروں کے مضامین بھی اس رسالے میں چھپے جو قابل تحسین ہیں۔
- ” کتاب شناسی” :
"کتاب شناسی ” رسالہ اسلام آباد سے چھپتا تھا۔ یہ بنیادی طور پر تخلیق کاروں کو متعارف کروانے کے لیے اہمیت کا حامل رہا۔ اس کی ادارت اختر راہی اور عارف نوشاہی نے کی۔ اس رسالے میں مقالات بھی شائع ہوتے تھے ۔اس کے علاوہ تحقیق شناسی کے بارے یہ رسالہ اہم کردار ادا کرتا رہا۔ محققین کو منظر عام پر لے کر آیا۔ جیسے نام سے ہی ظاہر ہے یہ کتاب کو اور اس کے متن کو سمجھنے کے لیے یہ رسالہ بہت کار آمد رہا۔
- "ابلاغ”:
"ابلاغ”رسالہ 1986ءمیں سیدہ حنا اور نسرین سروش نے جاری کیا تھا۔ ابتداء میں اس رسالے نے صرف پشاور اور اس کے اردگرد کے علاقائی ادب کو فروغ دیا لیکن جلد ہی ان کے مدیران کو احساس ہو گیا کہ اردو ادب پر کسی خاص طبقے کی اجارہ داری نہیں ہے۔ لہذا اس رسالے نے اردو ادب میں توسیع کی اور بھارت کی فضاؤں میں بھی اس کی خوشبو کو محسوس کیا جانے لگا ۔نامور محقق مثلاً سید عبداللہ وزیر آغا جوگندر پال، اختر ہوشیارپوری، فرخندہ لودھی اور انوار فیروز کا تعاون بھی رہا۔ اس رسالے نے پاکستان کے ادب کے فروغ کے لیے اہم کام کیا اور پھر اس کے کام کو سراہا بھی گیا۔
- "فردوس”:
"فردوس” جنوری 1948ء میں مُلا واحدی نے کراچی سے جاری کیا تھا۔ اس رسالے نے تہذیب اور ثقافتی ادب کو فروغ دیا اس رسالے نے ادبی مزاج کو پروان چڑھایا۔اس رسالے میں جن لوگوں نے اردو اددب کے مختلف موضوعات پر اپنے فن کو آزمایا ان میں خواجہ حسن نظامی پنڈت کیفی، احمد مشتاق ، ماہر القادری اور اکبر شاہ نجیب آبادی شامل ہیں۔ لیکن اس رسالے کو بھی بہت سے مسائل کا سامنا رہا اور مالی کمی کی وجہ سے زیادہ دیر نہ چل سکا اور بند ہو گیا .
- "کاروان”
1948″کاروان "ء کو بیگم کوکب شادانی نے کراچی سے جاری کیا تھا۔ اس کی پیشانی پر یہ شعر کنندہ تھا۔
” نگہ بلند، سخن دلنواز، جان پر سوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے”
اس رسالے نے اردو ادب کے فروغ میں اپنا حصہ ڈالا۔
اس رسالے کے توسط جو لوگ ابھر کر سامنے آئے۔ ان میں سراج الدین ظفر، سلام مچھلی ، ہنری، سیف الدین سیف، فراق اور حجاز الحق شامل ہیں۔
- "جدو جہد”:
"جدوجہد” رسالہ 1948 کو اختر واصفی نے لاہور سے شائع کیا۔ اختر واٖصفی کا مزاج کٹر تنقیدی تھا ۔زرا بھر غلطی کی گنجائش نہ دیتے ۔چھوٹے موٹے شعرا کو وہ شاعر تسلیم نہیں کرتے تھے۔ جہاں تک کہ نامور شعرا کی شاعری یعنی کلام پر بھی تنقیدی نگاہ رکھتے تھے۔ اور اس رسالے میں جن لوگوں نے اصلاح کا بیڑا اٹھایا ان میں حاجی لق لق مولانا سالک، فراق گورکھپوری وغیرہ تھے، جن کے مضامین باقاعدگی سے چھپتے بھی تھے۔ دوسرے رسائل کی طرح اس رسالے کی ادبی ساکھ کم پڑ گئی اور 1961ء میں یہ رسالہ بھی بند ہو گیا۔
- "صادق” :
"صادق ” رسالہ 1956ء میں سید عابد علی عابد اور قاسم محمود نے جاری کیا۔ ” یہ ہفت روزہ تھا ۔ بنیادی طور پر اس کا مقصد کلاسیکی ادب کا فروغ تھا۔ کلاسیکی ادب جو اعلیٰ معیار رکھتا ہو بالکل اس رسالے نے معیاری ادب کی پیش کش کو پروان چڑھایا۔ جن لوگوں کو اس رسالے میں اپنے جوہر دکھانے کا موقع ملا ان میں قیوم نظر، انجم رومانی، یوسف ظفر، بشیر احمد ڈار،، آغا صادق اور عامر علی عابد شامل تھے۔ لیکن افسوس یہ رسالہ بھی ایک سال سے زیادہ کی عمرنہ پا سکا اور جلد ہی اس کے نقوش اردو ادب سے ختم ہو گئے۔
بقیہ یہ بات قابل رشک ہے کہ اس رسالے نے کچھ نمبر جاری کیے جن میں ” اقبال نمبر” قابل ذکر ہے۔
- "نقیب” :
یہ رسالہ 1958ء میں لاہور سے زریں صاحب نے جاری کیا تھا ۔اس کا خالص مقصد صرف اور صرف مشرقی ادب کا فروغ تھا کہ جو مشرقی ادب پروان چڑھ رہا ہے۔ اس کو ہی اس اخبار میں جگہ ملی، لیکن یہ رسالہ بھی ایک سال سے زیادہ نہ چل سکا۔
- "افکار نو” :
یہ رسالہ جون 1960 میں محمد ارشد خان بھٹی نے لاہور سے جاری کیا تھا۔ اس نے اخلاقی ادب کو موضوع سخن بنایا ملکی ثقافت اور دین کے رموز کی پیش کش بھی اسی رسالے میں کی گئی ۔ ان کے لکھنے والوں میں فرمان فتح پوری احسان دانش مولانا ابو الا علیٰ مودودی اور خالد بزمی شامل ہیں۔ یہ رسالہ بھی جلد ہی ادبی افق سے غائب ہو گیا۔
- "شعور”:
"شعور” 1988ء میں ناصر بشیر اور اکبر ملک نے ملتان سے جاری کیا تھا۔ یہ رسالہ اب بھی جاری ہوتا ہے۔ یہ خالص شاعری کو جا نچنے کا رسالہ ہے۔ رضی الدین رضی بیدل حیدری اور انور جمال کی تخلیقات اس رسالے میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ وزیر آغا ، ڈاکٹر اے بی اشرف، ریاض، مجید شامل ہیں اس کے اب تک دو شمارے شائع ہوچکے ہیں۔
بھارت سے شائع ہونے والے رسائل:
رسالے قوم کا ایک اہم اثاثہ اور ترجمان ہوتے ہیں۔ جو اعلیٰ ادبی و تہذیبی ، و سیاسی و اخلاقی موضوعات پر بحث کرتے ہیں۔ ہر مکتب فکر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ادبی رسائل و جرائد قوم کے معیار کو بڑھاتے ہیں۔ رسائل میں تحقیقی و تنقیدی مضامین شائع ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے تخلیق کار کا معیار معلوم ہوتا ہے۔ کہ وہ کون سی سطح کا تخلیق کار ہے۔
کسی بھی ادیب ,شاعر, یا موضوع کو تلاش کرنا ہو تو وہ باآسانی رسائل سے کیا جا سکتا ہے۔ اس چیز کی جانکاری کے لیے رسائل کا اشاریہ ہی کافی ہوتا ہے۔ اشاریہ کے گوشوارے سے ہمیں تخلیق کار کی تخلیق کا با آسانی لی
علم ہوجاتا ہے ۔پاک و ہند کی ادب میں خدمات ان مٹ میں جس طرح پاکستان میں ادب کے فروغ کے لیے ادبی رسائل لکھے جا رہے ہیں۔ بالکل اسی طرح بھارت میں بھی یہ سلسلہ بتدریج رواں دواں ہے۔ ہم مختصر ان رسائل کا جائزہ لیں گے جو رسائل و جرائد بھارت سے شائع ہوتے رہے ہیں۔
- "زمانہ ":
"زمانہ” کا اجرا فروری 1903ء میں ہوا تھا۔ اس کے مدیر منشی دیا نرائن نگم تھا۔ اس رسالے نے بھی اردو ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا جن قلم کاروں کے مخصوص طور پر اس رسالے کے لیے لکھا ان میں علامہ اقبال چکبست ، دتاتریہ کیفی، ڈپٹی نذیر احمد، مولانا شبلی نعمانی ، پریم چند، جوش، فراق اور اکبر الہ آبادی، شامل ہیں۔ اس رسالے نے کچھ خاص نمبرز بھی جاری کیے جن کو مقبولیت ملی اور وہ جلد ہی ارردو ادب میں اپنی جگہ بنا گئے۔
اس تحقیق ، تنقید اور اعلیٰ ادب چھپتا تھا، ” زمانہ” دیا نرائین نگم کی وفات تک چھپتا رہا۔
- "لسان الصدق”:
"لسان الصدق” رسالہ 1903ء میں مولانا ابو الکلام آزاد کی زیر صدارت نکلتا تھا۔ یہ ایسا معیاری پرچہ تھا جو زبان و ادب کا خاص خیال رکھتا تھا۔ یہ انقلابی نوعیت کا رسالہ تھا۔ لیکن مالی دشواریوں کی وجہ سے یہ رسالہ بھی جلد بند ہو گیا۔ اس کے مقابل مولانا ابو الکلام آزاد، نے ہفت روزہ ” الہلال” نکالا جس نے ادبی حلقوں کو فروغ دیا۔ اور اس رسالے کی مانگ بہت زیادہ تھا۔ معیاری ادب کی پیش کش کی جاتی تھی۔
- "دکن ریویو” :
"دکن ریویو” جنوری 1904ء میں مولانا ظفر علی خان نے حیدر آباد دکن سے جاری کیا تھا۔ جن لوگوں نے اس رسالے میں قلم چلاے ان میں مولوی، عبدالحق، عبدالحلیم شرر، مولانا شبلی نعمانی اور حکیم اجمل جان وغیرہ شامل تھے۔ اس رسالے نے جو نمبرز نکالے ان کو بہت مقبولیت ملی تھی۔ جن میں ‘ اسلام نمبر اور ہندو نمبر” شامل ہیں۔ مولانا ظفر علی خان نے جب ” ہندو نمبر” نکالا تو یہ ان کو بہت مہنگا پڑا مسلم ریاست ان کے خلاف ہو گئی اور ان کو ریاست بدر کر دیا گیا۔ 1909ء میں یہ رسالہ بند ہو گیا لہذا یہ رسالہ بھی زیادہ عمر نہ پا سکا۔
- "زبان” :
خواجہ فہمید حسن نازک، المعروف رقم اکبر آبادی نے 1905ء میں دہلی سے "زبان” رسالہ نکالا۔ اس رسالے میں بھی زبان و بیان کا خاص خیال رکھا جاتا تھا۔ رقم صاحب خود اہل زبان تھے کہ آپ تخلیقی ادب معیار پر اترتا ہی نہیں۔ بنیادی طور پ یہ ایک تحقیقی مجلہ تھا۔ جیسے کہ بتایا گیا ہے کہ رقم صاحب خود بھی کاتب تھے۔ وہ غلطیوں کو درگزر نہیں کرتے تھے۔
- "یدِ بیضا”:
"ید بیضا” رسالہ حکیم سید محمد سعید المعروف خنجر سکندر آبادی نے ریاست حیدر آباد دکن سے 1906 میں جاری کیا تھا۔ ” ید بیضا” رسالہ بھی معیاری پرچہ تھا ۔جو اردو ادب کے فروغ کے لیے ہمہ تن کوشاں رہا کہ معایری ادب پیش کیا جائے۔
- "شمس بنگالہ”:
مولوی بدر الزماں نے 1907ء میں کلکتہ سے "شمس بنگالہ” رسالہ نکالا جس کو شائع کروانے والوں میں آغا شاعر قزلباش ، خواجہ حسن نظامی، برق دہلوی اور ذاکر حسین شامل ہیں۔ اس رسالے سے متاثر ہو کر علامہ راشد الخیری نے رسالہ "عصمت” نکالا جو خالصتاً نسوانی رسالہ تھا۔ جس میں عورت کے حقوق پر بات کی جای تھی۔ اس رسالے کے معاون مدیر شیخ محمد اکرام تھے۔ یہ آزادی نسواں کا ترجمان تھا۔ یہ آج بھی باقاعدگی سے جاری ہوتا ہے۔ اس کی اشاعت کے 105 سال مکمل ہونے کو ہیں۔
- "ادیب”:
منشی نوبت رائے ظفر نے یکم جنوری 1916ء میں ماہ نامہ ادبی رسالہ ” ادیب” کا اجراء کیا اس میں صرف ان کی تخلیقات شائع کی جاتی تھیں۔ جو اس وقت لکھی جا رہی تھیںَ ابتدا میں اس رسالے کی پیشانی پر یہ الفاظ کندن تھے ” ادب اردو کا با تصویر ماہ وار رسالہ” یہ ہفتہ وار رسالے کی اشاعت پر آ گیا۔ اس رسالے کے بھی مدیر بدلتے رہے۔
مدیر اول: منشی نوبت رائے ظفر 1910۔ 1911تک
مدیر دوئم: پیارے لعل شاکر میرٹھی 1911 تا 1912
مدیر سوئم: میر حصیر عظیم آبادی1913 تا جون 1913ء
یہ رسالہ بھی 1913ء میں بند ہو گیا۔
- "تمدن” :
شیخ محمد اکرام اور محمد عبدالراشد خیری نے اپریل 1911ء میں شائع کیا تھا۔ یہ ادبی سیاسی سماجی، و تہذیبی کے علاوہ حقوق نسواں کا بھی رسالہ تھا۔ اس رسالے میں سیاسی مضامین بھی شائع ہوتے تھے۔ اس میں ایک نظم چھپی تھی جس کی پاداش میں اس رسالے کو دھمکی ملی تھی کہ وہ اس رسالے کو بند کر دیں۔ آخر کار تنگ آ کر مدیران کو یہ رسالہ قاری عباس حسین کے ہاتھوں فروخت کرنا پڑا۔ بنیادی طور پر یہ کافی مہنگا رسالہ تھا کیونکہ یہ معیاری صحفے پر پیش کیا تھا۔ مالی تنگی کی وجہ سے بھی یہ رسالہ زیادہ نہ چل سکا۔ 1926ء میں یہ رسالہ بند ہو گیا۔
- "کشاف” :
"کشاف ” محمد غریب نے 1924ء میں یہ علمی رسالہ امر تسر سے جاری کیا تھا۔ اس رسالے نے مشری پنجاب کے فروغ کے لیے کام کیا لہذا یہ اس طرح مکمل ادبی رسالہ نہیں تھا۔
اس رسالے نے مشرقی پنجاب میں جو ادیب کے لیے اپنے جواہر دکھائے اس رسالے نے بتدریج بیان کیا۔ اس کے ہی توسط سے 1925ء میں حکیم نور الحسن صدیقی نے جے پور سے ” شادمان” سید احمد صدیقی نے علی گڑھ سے ” سہیل” شہاب اکبر آبادی نے آگرہ سے نشتر محمد عزیز اللہ نے رام پور سے ” نیرنگ” جاری کئے۔ لہذا ہم کہہ سکتے ہیں اس رسالے نے اردو اب میں اپنا حصہ ڈالا تھا۔
- ” سہیل” :
سید احمد صدیقی نے 1925ء میں علی گڑھ سے "سہیل ” رسالہ جاری کیا تھا۔ یہ ایک طویل المعیاد ادبی رسالہ تھا۔ جس نے ادب میں نمایاں نقوش چھوڑے تھے اس رسالے نے متعدد تخلیق کاروں سے روشناس کروایا علی گڑھ اردو ادب کا گہوارہ تھا۔ اس شہر کو ہندوستان میں اہمیت حاصل تھی۔ اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ علی گڑھ سے اور بھی متعدد ادبی رسائل جاری ہوتے تھے۔ زیادہ تر یہ شہر Sir Syed School of thoughts کا حامل تھا۔ اور تو اور اس شہر میں سر سید کے مخالفین بھی بڑی تعداد میں تھے۔ اگر یہ کیا جائے کہ سر سید احمد خاں نے ادبی شعور کا چراغ جلایا تھا تو بجا نہ ہو۔ یہ رسالہ بھی اردو ادب میں اپنی اہمیت کا آپ حامل ہے۔
- ” شاعر”:
بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں ادبی رسائل کو بڑی اہمیت حاصل رہی اگر ہم یہ کہیں کہ اس دہائی میں سو سے زائد ادبی رسائل منظر عام پر آئے تو کوئی مضائقہ نہیں ۔ اس رسالے "شاعر "کے مدیر سیماب اکبر آبادی تھے۔ جو اس رسالے سے 18 سال وابستہ رہے۔ پاکستان ہجرت کے بعد ” شاعر” کے مدیران بیٹے اعجاز حسین صدیقی بن گئے۔ جنہوں نے بخوبی اس رسالے میں اپنے جواہر دکھائے۔ اعجاز حسین صدیقی کی وفات کے بعد ان کے بیٹے افتخار امام صدیقی اس رسالے سے منسلک ہو گئے۔ جنہوں نے اپنی ذمہ داریوں سے ذرا بھی انحراف نہ کیا۔ ” شاعر” نے متعدد گوشے شائع کیے تھے۔ "شاعر” آج بھی پوری شان و شوکت کے ساتھ ادبی افق پر روشن ستارے کے طرح چمک رہے ہیں۔
- "شب خون” :
” شب خون” کا اجرا 1966ء میں شمس الرحمٰن فاروقی نے کیا۔ شمس الرحمان فاروقی خود تو مدیر کے منصب نہ نبھا سکے کیونکہ وہ ایک سرکاری ملازم تھے۔ اس لیے اس کے مدیر اول ڈاکٹر سید اعجاز حسین تھے۔ جو لوگ اس رسالے کے مدیران رہے ان میں جعفر رضا، پروفیسر سید احتشام ڈاکٹر صیح الزماں، جمیلہ فاروقی، اور حامد حسین حامد شامل تھے۔
وقت گزرنے کے ساتھ سب مدیر "شب خون”سے علیحدہ ہو گئے، ا س لیے شمس الرحمٰن فاروقی تن و تنہا اس کے ساتھ جڑے رہے۔ بنیادی طور پر شمس الرحمٰن فاروقی ترقی پسند کے مخالف تھے۔ وہ ” شب خون” میں ایسی تحریروں کو جگہ نہیں دیتے تھے۔ جو ترقی پسندانہ جذبے کی وجہ سے لکھی گئی ہوں، یہی وجہ ہے کہ شمس الرحمٰن فاروقی کے کیفی اعظمی کے ساتھ اختلاف تھے۔ وہ ان کو اپنا دوست تو سمجھتے تھے پر ان کی شاعری میں ان کو ذرا دلچسپی نہیں تھی۔ جہاں تک کہ وہ ان کو شاعر بھی تسلیم نہیں کرتے تھے۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ اس رسالے میں فیض احمد فیض، ممتاز مفتی، عبداللہ حسین، شوکت صدیقی، بانو قدسیہ اور خواجہ احمد عباس کو جگہ نہ مل سکی۔
حوالہ جات
- انور سدید، ڈاکٹر، پاکستان میں ادبی رسائل کی تاریخ، (اسلام آباد: اکادمی ادبیات پاکستان، 1993ء)، ص: 21
- انور سدید، ڈاکٹر، پاکستان میں ادبی رسائل کی تاریخ،ص: 25
- ایضاً، ص: 36
- ایضاً، ص: 287
- مسکین حجازی، ڈاکٹر، تاریخ ادبیات پاک و ہند، جلد: چہارم، ص: 569
- انور سدید، ڈاکٹر، پاکستان میں ادبی رسائل کی تاریخ،ص: 52
- ایضاً، ص: 70
- ایضاً، ص: 76
- ایضاً، ص: 79
- ایضاً، ص: 83
- ایضاً، ص: 87
- بحوالہ: اوراق کی ادبی خدمات، ص: 17
- انور سدید، ڈاکٹر، پاکستان میں ادبی رسائل کی تاریخ،ص: 108
- ایضاً، ص: 123
- ایضاً، ص: 126
- بحوالہ: اوراق کی ادبی خدمات، ص: 22
- ایضاً، ص: 26
- ایضاً، ص: 26
- ایضاً، ص: 29
- ایضاً، ص: 30
- اداریہ رہنما، "ساحر لدھیانوی”، جنوری 1999ء
- بحوالہ: اوراق کی ادبی خدمات، ص: 19
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page