اردو صحافت ایک ایسا لفظ ہے جو ایک قوم کی نمائندگی اور اس کے حالات کی عکاسی کرتا ہے ان کے خیالات و نظریات کی تشییع و ترسیل کو آسان بناتا ہے ۔حال ہی میں اردو صحافت نے اپنا دو سو سالہ جشن بڑے جوش و خروش کے ساتھ منایا ہے اور اردو صحافت کی تاریخ کو ایک دستاویز کی صورت میں نئی نسل کے قارئین و صحافیوں کے سامنے پیش کیا ہے۔ اس موقع پر نہ صرف اس کے آغاز سفر پر روشنی ڈالی گئی بلکہ اس دور کو بھی زیر بحث لایا گیا جب اردو صحافت کو نمایاں عروج حاصل تھا اور پھر اس کو درپیش مسائل کو موضوع بنایا گیا ۔ اس سے یہ ایک پہلو بھی زیر غور آتا ہے کہ کسی بھی سفر میں نشیب و فراز کا آنا ایک فطری عمل ہے نشیب کے ہونے پہ یہ بات قطعی طور پر نہیں سمجھنی چاہئے کہ راستے مسدود ہو چکے ہیں۔ اب ٹھہر کر فنا ہو جانا ہی ہمارا مقدر ہے۔ صحیح رخ پر اگر مثبت کوششیں سرانجام دی جاتی رہیں تو راستے خودبخود ہموار ہوتے چلے جاتے ہیں اور منزل بعد منزل سفر جاری رہتا ہے اور یہ چلتے رہنا ہی زندگی کی علامت ہے ۔ میرے خیال میں اردو صحافت کی روایت و اقدار کو وقت کے ساتھ ہم آہنگ کر کے جدت پسندی کے ساتھ صحافت کی بساط پر ایک طاقتور مہرے کی طرح استعمال کیا جا سکتا ہے۔
صحافت کی اپنی ایک قدیم تاریخ ہے۔ انسانی مفاد اور بدلتے وقت کے ساتھ تہذیب و ثقافت کو مستحکم بنانے میں صحافت نے جس طرح کا کردار ادا کیا ہے اس کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔ صحافت نے جمہوری حقوق ِ ، مساوات ، امن قانون کی بالادستی اور انسانی حقوق کے حصول کے لئے ایک کلیدی کردار ادا کیا ہے ۔ غرضیکہ صحافت نے ہمیشہ ہی ایک فعال انقلابی رول ادا کیا ہے۔
اس صحافتی خدمات کو فروغ دینے میں اخبارات کی اہمیت سے نظریں چرانا سب سے بڑی خطا ثابت ہو گی۔ موجودہ وقت میں ٹکنالوجی کی اس قدر ترقی کے باوجود پرنٹ میڈیا کی شناخت کو دھندلایا نہیں جا سکا ہے۔ ہندی اور انگریزی زبانوں کے ساتھ اردو کا دامن بھی اعلی صحافتی خدمات انجام دینے کے شرف سے خالی نہیں رہا ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں ایسا حادثہ ہونے کا کوئی امکان ہے۔
اردو صحافت کے اخباری صفحات نے قوموں کی تعمیر و ترقی میں قابل ذکر کردار ادا کیا ہے۔ یوں تو بےشمار ہی اخبارات اس فہرست میں اپنا نام درج کرا چکے ہیں ۔ میرا موضوع گفتگو ماضی کے تاریخی اخبارات نہیں بلکہ حالیہ دنوں میں اردو صحافت میں نمایاں خدمات انجام دینے والا اخبار انقلاب کو موضوع بنانا ہے جس کی گیارہویں سالگرہ بڑے ہی خوشگوار ماحول میں 9 جون کو منائی گئی ہے انقلاب اس وقت ہندوستان میں اردو اخبارات کی صف میں اول مقام رکھنے والا کثیر الاشاعت اخبار ہے جس کا سب سے پہلا ایڈیشن بمبئی سے عبد الحمید انصاری نے 1938ء میں نکالا تھا یہ اپنے نام اور خدمات دونوں ہی پہلو سے اس وقت کے قارئین کے لئے توجہ کا مرکز تھا اور آج بھی ہے ۔ ظ انصاری، فضیل جعفری، حسن کمال، اور ہارون رشید اپنی صحافتی صلاحیتوں سے اس کی نشوونما کرنے میں پیش پیش تھے ۔ 2011ء میں جاگرن گروپ نے انقلاب کو اس کے پورے گروپ کے ساتھ خرید لیا جس میں کئی زبانوں کے ساتھ شائع ہونے والا مقبول شام نامہ مڈڈے بھی شامل تھا پھر اس کی اشاعت بمبئ کے ساتھ ساتھ شمالی ہند علاقوں سے ہونے لگی اس طرح انقلاب کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا اس نے دہلی یوپی اور بہار کے قارئین کی ذہنی تسکین اس طرح کی کہ وہ ان کا محبوب اخبار بن گیا اور اس طرح اپنی کی مقبولیت آغاز سفر میں ہی تشفی بخش تھی۔ اور موجودہ منظرنامے میں تو اس کی ارتقائی تصویر جگ ظاہر ہے۔
اس کو اس مقام تک پہنچانے کے لئے انقلاب کے سابق مدیر شکیل شمسی صاحب نے بڑی جانفشانی کے ساتھ اپنی خدمات انجام دیں انھوں نے شب و روز اس کے معیار کو بہتر سے بہتر تر کرنے میں جس طرح اپنے آپ کو وقف کیا بطور قاری ہم ان کے معترف و احسان مند ہیں شکیل شمسی صاحب کے بعد موجودہ ایڈیٹر ودود ساجد صاحب نے بھی اس مختصر مدت میں اپنے لمبے صحافتی تجربے کے پس منظر میں اور اپنی ادارتی صلاحیت سے انقلاب کی بلندی کو مستحکم بنائے رکھا ہے اس کے ساتھ ساتھ انقلاب کی پوری ٹیم بھی اس ارتقائی سفر میں برابر کی شریک و معاون رہی ہے۔ ہر فرد کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے اس میں سے کسی کی بھی نفی نہیں کی جا سکتی۔
انقلاب نے ہمیشہ ہی اپنی صحافتی خدمات کو اس طرح سر انجام دیا ہے کہ لوگوں نے بیشتر اوقات میں اس کی آواز کو اپنی آواز خیال کیا ہے کیوں کہ اعلی صحافت عوام کے جذبات و احساسات کی ہی ترجمان ہوتی ہے کسی تحریک ، جماعت یا حکومت کی پالیسی کو کامیاب و ناکام بنانے میں صحافت ایک اہم کردار ادا کرتی ہے جس کا مشاہدہ ہم روز مرہ کی زندگی میں بآسانی کر سکتے ہیں ۔ صحافت ہمیشہ واضح سیاسی و سماجی نقطہء نظر کے ساتھ ہی پروان چڑھتی ہے ابتدا میں صحافت صرف خبروں تک ہی محدود ہوا کرتی تھی لیکن بدلتے وقت کے ساتھ اور دور جدید کی صحافت کے تقاضوں کے تحت تبصرے ، تجاویز ، اور تجزیے و آرا کو بھی اہمیت دی جانے لگی ہے انقلاب ان سارے تقاضوں کی ادائیگی میں سرفہرست ہے ۔
صحافت چوں کہ کہیں نہ کہیں اپنے ملک کی بھی نمائندگی کرتی ہے اس لئے انقلاب کو ہندوستان کی صحافتی پس منظر سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا ہے انقلاب پر ہندوستانی ثقافت کے اثرات کو حب الوطنی سے تعبیر کیا جاتا ہے وطن کی محبت ہر انسان کے اندر اس گہرائی سے رچی بسی ہوتی ہے کہ وہ شعوری و غیرشعوری طور پر اپنے ملک کی ثقافت کی نمائندگی کر رہا ہوتا ہے ۔
انقلاب نے نہ صرف ملکی تناظر میں خبریں پہنچانے کی ذمےداری کو ادا کیا ہے بلکہ اس نے حسن معاشرت کی تشکیل اور قاری کے اذہان کی تربیت بھی کی ہے حالات و واقعات کی صورتحال کی غیر جانبدارانہ صداقت سے عوام کو آگاہ کیا ہے اور ملکی عوام کے احساسات کی بھرپور نمائندگی بھی کی ہے ہر طبقے کے عوام کے اندر سماجی و سیاسی شعور پیدا کرتے ہوئے انھیں یہ بھی سکھایا ہے کہ رائے عامہ کی تشکیل کرتے وقت ضابطہ ء اخلاق کی پیروی کتنی ضروری ہے اور یہ کس طرح کی جا سکتی ہے۔
انقلاب کے اس مختلف النوع ترقی کے باعث ہی اسے اس قدر مقبولیت حاصل ہوئی ہے کہ اسے کثیر الاشاعت اخبار ہونے کا اعزاز ملا ہے اس نے نہ صرف صحافتی اخلاقیات کی بہتری کے ضمن میں کام کیا ہے بلکہ اس نے اردو کے فروغ میں بھی قابل قدر کوشش سرانجام دی ہے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے سابق ڈائریکٹر ارتضیٰ کریم صاحب نے ایک موقع پہ لکھا تھا "صحافت دراصل کسی زبان کے فروغ میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے کیوں کہ عوام سے اس کا براہ راست تعلق ہوتا ہے ” بےشک انھوں نے سچ کہا ہے کیوں کہ جب روزمرہ اردو اخبارات پڑھنا معمول کا حصہ بن جائے تو صحافت کے ساتھ ساتھ زبان کی بھی ارتقاء کا سفر چل رہا ہوتا ہے
ہم انقلاب کی اس گیارہویں سالگرہ کے اس موقع پہ انقلاب کے ایڈیٹر اور پورے اسٹاف کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتے ہوئے خوشی محسوس کر رہے ہیں کہ واقعی اس نے اپنے گیارہ سالہ اشاعت کی مدت میں اردو صحافت کے شیدائیوں کے دلوں میں اپنی ایک منفرد اور جدا شناخت بنا لی ہے اور جس طرح سے انقلاب نے قوم و ملت کے سرکردہ شخصیات کے خیالات کی نمائندگی کی ہے یہ ناقابل فراموش ہے ہم اس خوشی کے موقع پہ بارگاہِ خداوندی میں دعا گو ہیں کہ خداوند انقلاب کے مستقبل کو تا ابد یوں ہی سوا روشن رکھے امین۔
اردو ادب کی قاری اور لکھاری ہونے کی حیثیت سے میرے مطالعے میں کئی اخبار رہے ہیں ان تمام اخباروں میں میں نے انقلاب کو ہمیشہ نمایاں مقام پہ ایستادہ پایا۔ یہ اپنے آغاز سفر سے ہی اپنے معیار کو ہمیشہ بہتر سے بہتر تر کرتا رہا ہے۔ جس کے قائل ہم سب ہیں ۔ انقلاب کی سب سے پہلی خوبی یہ ہے کہ یہ اپنے قارئین کے جذبات کا صد فیصد خیال رکھتا ہے ان تک مستند خبروں کی ترسیل کو یقینی بنانے کے لئے وہ ہر ممکن جدوجہد کرتا ہے وہ ہر طرح کا ذوق رکھنے والے قارئین کی پسند و ناپسند کو مد نظر رکھ کر گوشوارہ طئے کرتا ہے قومی خبریں ہوں یا بین الاقوامی سیاست سب پر وہ اس تفصیل سے روشنی ڈالتا ہے کہ کوئی بھی تشنگی کا پہلو باقی نہیں رہتا ۔ جب ملک کی فضا میں کوئی خاص محاذ آرائی چل رہی ہوتی ہے یا کوئی لابی سرگرم ہوتی ہے تو انقلاب ایسی صورتحال میں اپنے کالم نگاروں اور صحافیوں کے ساتھ ساتھ ‘اپ کی رائے ‘ کے تحت اپنے قارئین کی رائے کو شائع کر کے ان کی رائے سے دوسروں کو متعارف کرواتا ہے اس طرح نہ صرف ان کے خیالات و نظریات کو اہمیت حاصل ہوتی ہے بلکہ ان کے اندر لکھنے کی صلاحیت کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے وہ اس بات کو عملی طور پر تسلیم کرتا ہے کہ آج کی نئی نسل کے قلمکار کے کندھوں پر کل کو ملت کی قیادت کی ذمےداری انی ہے اگر آج ان کی صلاحیتوں کو نشوونما دینے کی ذمےداری کو نظر انداز کیا گیا تو کل اردو کو ایک ناقابل تلافی خسارہ پہنچنے سے کوئی بھی نہیں روک پائے گا یہ ایک ایسا قدم ہے جس کا ہر قاری معترف ہے ۔
اوڑھنی کے صفحے پہ شائع ہونے والے مضامین اور گھریلو ٹوٹکے افسانے وغیرہ ہر شعبے سے تعلق رکھنے والی خواتین کے لئے دلچسپی کا مرکز ہیں اس میں صحت کے حوالے سے بیداری، فیشن سینس پہ مبنی تحاریر ہر عمر کے قاری کی توجہ کا باعث ہیں ۔بچوں کی تربیت ہو یا سماجی نفسیاتی مسائل سبھی موضوع کو اوڑھنی کے صفحات پر جس طرح جگہ دی جاتی ہے یہ انقلاب کی خود کو زمانے کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی ایک قابل ذکر کوشش ہے ۔جو اس کی شناخت کو مزید مقبول بناتا ہے
اگر بات سنڈے میگزین کی کی جائے تو بےشک اس میں متنوع پہلوؤں پر جس تفصیل کے ساتھ مضامین شائع ہوتے ہیں وہ اپنے موضوع سے متعلق اتنا واضح اور سادہ زبان میں ہوتا ہے کہ کوئی بھی ابہام باقی نہیں رہتا اس کے علاوہ جمعہ میگزین میں بھی وہ دن کی مناسبت سے مضامین کا انتخاب اسی خوبصورتی سے کرتا ہے کہ اس اخبار کا قاری مسلسل اس کے مطالعہ سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے دینی اور عصری تقاضوں کو بآسانی سمجھ سکتا ہے اور اپنے مسائل کو مستند عالم دین کے قرآن و حدیث کے علم کی روشنی میں سمجھ سکتا ہے ۔
اگر انقلاب کی چیدہ چیدہ خصوصیات کا ذکر جائے تو شاید پورا کالم انھیں توصیفی لفظوں میں مکمل ہو جائے گا ۔
انقلاب کی صحافت کے شعبے میں سر انجام دینے والی خدمات ایک مستند مقام رکھتی ہیں اس پہلو میں انقلاب نے اردو صحافت کی عالمی سطح پہ نمائندگی کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے اس وقت اگر اردو صحافت کا ذکر کیا جائے تو بےشک اس کا سفر دو سو سال پر محیط ہے اس نے عروج و زوال ہر طرح کا دور دیکھا ہے لیکن افسوس فی الوقت اردو اخبارات کا دائرہ محدود ہوتا ہی جا رہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کو خرید کر پڑھنے والے کم ہوتے جا رہے ہیں اس کی ذمےداری بھی کہیں نہ کہیں ہم پر ہی عائد ہوتی ہے کیوں کہ ہم نے اردو کے انتخاب کو خود ثانوی و ثالثی انتخاب بنا دیا ظے۔ جب کہ اب سے دس سال پہلے اردو کے اخبارات و رسائل کی تعداد اس وقت کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھے اور خریدنے اور پڑھنے والے بھی کثیر تعداد میں موجود تھے اس وقت تو ادبی صحافت جس طرح نشیب میں اترتی دکھ رہی ہے یہ کسی لمحہء فکریہ سے کم نہیں موجودہ وقت میں اردو زبان کو ثانوی مقام دینے کی وجہ سے اردو اخبارات پر بھی اس کی ضربیں پڑی ہیں جس سے کہ ہم انکار نہیں کر سکتے لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ایسے وقت میں انقلاب نے اپنے معیار کو بلند بنائے رکھنے کی ہر ممکن جدوجہد کی ہے کسی بھی اخبار کا زوال اسی وقت ہوا جب اس کو وقت کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے بجائے مخصوص طرز پہ ہی نکالے جانے کی کوشش جاری رہی اور بدلتے زمانے کے تقاضوں کو نظر انداز کردیا گیا انقلاب کی یہ دوراندیشی ہے کہ اس نے نشیب و فراز کے کسی بھی پہلو کو نظر انداز کرنے کی غلطی نہیں کی۔
انقلاب اس پہلو سے بھی قابل ستائش ہے کہ اس نے وقت کی تبدیلیوں کو قبول کیا اعلی پائے کے صحافیوں کو اپنے اخبار سے جوڑا اس نے کسی مخصوص شعبہ ہائے زندگی تک ہی اپنی تحریروں کو محدود نہیں رکھا بلکہ ہر شعبے سے متعلق مثلاً خواہ وہ فلمی صنعت ہو معیشت ہو یا سانئس و ادب ہو یا تہذیب و ثقافت مذہب ہو یا معاشرت سب کے لئے ہی اس نے ایک گوشہ متعین کر رکھا ہے ہر ہفتے پابندی کے ساتھ جس طرح ان گوشوں میں نت نئے پہلوؤں کا انکشاف کرتے والے مضامین شائع ہوتے ہیں وہ نہ صرف اردو ادب و صحافت کا معیار بلند کر رہا ہے بلکہ قاری کے ذوق کی بھی تربیت میں ایک کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔
چند مہینوں پہلے ایک نیا صفحہ پیش رفت نوجوان نسل کے لئے کافی سود مند ثابت ہو رہا ہے جس میں جاب اور کیریئر سے متعلق ایسے مواد شائع ہوتے ہیں جو اردو زبان میں شاید ہی کسی اخبار میں شائع ہوتے ہوں گے میرے علم کے مطابق انقلاب ہی کی پیش رفت ہے جس نے انقلاب کو متنوع بنانے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے
انقلاب کی ایک بڑی خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ مذہب اور مسلک سے بلند ہو کے رپورٹنگ کرتا ہے اور امن عامہ کو پیش نظر رکھ کر ایسے مضامین کی اشاعت سے گریز کرتا ہے جو کہ کسی کی شخصی آزادی کو سلب کرتا ہو یا کسی کے جذبات کو مجروح کرتا ہو ۔
انقلاب اپنی اشاعت کے گیارہ سال مکمل کر چکا ہے اور جس طرح سے اس کے قارئین ہر دن بڑھتے جارہے ہیں اس کے پیش نظر ہم یہ دعا کرتے ہیں کہ یہ مقبولیت و محبوبیت کا سلسلہ ہمیشہ دراز ہوتا رہے اور ملک کے گوشے گوشے میں اردو کا چراغ جلتا رہے آمین
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page