ڈاکٹر مشیر احمد
شعبۂ اردو ،جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی
اردو رسائل و جرائد میں خطوط/ مراسلات کی روایت ابتدا سے رہی ہے ۔ یہ صرف اردو زبان کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ دیگر زبانوں میں بھی اس کا سلسلہ ملتاہے۔ مہاتما گاندھی کا اخبار ـ” ہریجن ” اس کی بہترین مثال ہے۔یہ اخبار انگریزی میں ہریجن، گجراتی میں ہریجن بندو، اور ہندی میں ہریجن سیوک کے نام سے نکلتا تھا۔ اس اخبار میں سماجی اور اقتصادی مسائل کے ساتھ ساتھ زبان وادب پربھی زوردیا جاتا تھا۔
جب ہم اردو کے معروف رسائل پر نگاہ ڈالتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ بعض رسائل / اخبار/ میگزین خطوط کو کسی خاص موضوع / عنوان کے تحت بڑے تزک و احتشام کے ساتھ شائع کرتے ہیں مثلاً ،دارالمصنفین، شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ سے نکلنے والا معروف رسالہ معارف میں’ معارف کی ڈاک‘ کے نام سے، شمس الرحمن فاروقی کا رسالہ شب خون، جو جدیدیت کا علم بردار ہے،’ کہتی ہے خلق خدا‘، اور دیگر رسائل اور میگزین میں قارئین کے خطوط،آپ کی بات، گرامی نامے وغیرہ عنوان کے تحت شائع کیے جاتے ہیں۔
خطوط کا اصل مقصد خیروعافیت دریافت کرنا یا اپنی خیریت سے مکتوب الیہ کو آگاہ کرنا ہوتا ہے۔ لیکن غالب کی جدت پسند طبیعت نے اس میدان میں بھی نئے نئے راستے تلاش کیے اور خط کے اندر ایسی ایسی چیزیں شامل کردیں کہ خطوط اب صرف خیروعافیت کا ذریعہ ہی نہیں، بلکہ علمی، ادبی، تاریخی، سیاسی، سماجی اور معاشی حالات کے آئینہ دار بھی ہوتے ہیں۔ جہاں تک رسائل و جرائد میں خطوط کی اہمیت ہے، تو اس کی نوعیت مختلف ہے، ہم انھیں تبصرے یاتبصراتی خط کا نام دے سکتے ہیں۔ کیونکہ ان خطوط میں رسالہ موصول ہونے کی تاریخ/ سنہ اور خط لکھنے کا مہینہ، تاریخ اور سنہ کے علاوہ دو ایک جملے روایتی قسم کے لکھ کر باضابطہ اس رسالے کے مشمولات پر تبصرہ پیش کیا جاتا ہے۔ مدیر،ان خطوط کو جو اکثر اختلاف رائے کی بنیاد پر لکھے ہوئے ہوتے ہیں، شائع کردیتے ہیں۔ یہ خطوط رسائل و جرائد کے لیے ایک طرح کی غذا کا کام کرتے ہیں ،جو آنے والے شماروں کو خوب سے خوب تر بناتی ہے۔
مذکورہ مضمون میں انھی حوالوں سے گفتگو کی جائے گی، تاکہ اندازہ ہو سکے کہ ان خطوط میں کس طرح کے تنقیدی اور تحقیقی عناصر موجود ہیں۔ یہ بات کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ رسائل و جرائد میں شائع ہونے والے بعض خطوط اہم تحقیقی مضمون کا درجہ رکھتے ہیں، جن سے رہنما اصول مرتب کیے جاسکتے ہیں۔ اس ضمن میں جو اہم مکتوب نگار ہمارے سامنے آتے ہیں، ان میں پروفیسر مختارالدین آرزو، پروفیسر ریاض الرحمن خاں شروانی، اجمل ایوب اصلاحی اوردیگرحضرات قابل ذکر ہیں۔
زیر نظر مضمون میں جن رسائل/ میگزین کے حوالے سے گفتگو کی جائے گی، ان میں معارف، شب خون، شاعر، آج کل، اردو دنیا، ایوان اردو وغیرہ شامل ہیں۔طوالت کے پیش نظرصرف چندرسائل اوران کے ایک آدھ خط کاہی انتخاب کیا گیاہے،تاکہ اندازہ ہو سکے کہ ان خطوط کا مزاج کیا اور کیسا ہے۔
اس سلسلے میں سب سے پہلے معارف کا ذکرکیاجائے گا۔معارف میں ابتدا ہی سے(جولائی۱۹۱۶)خطوط شائع کرنے کی روایت رہی ہے۔ معارف نومبر ۲۰۲۱ کے شمارے میں معروف اسکا لر خواجہ محمد شاہد کا ایک طویل خط معارف کی ڈاک کے ذیل میں ـــــ’’ معارف کی زبان‘‘ کے عنوان سے شائع ہواہے۔ اس خط میں انھوں نے معارف میں شائع شدہ مضامین کی زبان کے حوالے سے بعض اہم نکات کی جانب مدیر کی توجہ مبذول کرائی ہے مثلاً:
۱۔ زیادہ تر معزز اور معتبر مضمون نگار ایسی اردو استعمال کرتے ہیں کہ بغیر ڈکشنری/ لغت کی مدد کے سمجھنا مشکل ہوتاہے۔
۲۔ عربی فارسی کے الفاظ کی بہتات ہوتی ہے، جوکہ اردو کے ساتھ ناانصافی ہے۔
۳۔ آج کل کی بول چال کی اردو زبان میں مضامین لکھے جائیں، یا لکھوائے جائیں، سر سید اور حالی کے ذریعے استعمال ہونے والی اردو مستعمل ہو تو اردو کو فائدہ پہنچے گا۔
۴۔ زبان اتنی مرقع ہوتی ہے کہ کبھی کبھی مضمون و مفہوم ہی دب جاتاہے۔
خط کا ماحصل یہ ہے کہ مضامین آسان اور سلیس زبان میں لکھے جائیں تاکہ اس میں جو علمیت ہے یا جو اس کا مقصد ہے وہاں تک بآسانی رسائی ہو سکے، ورنہ قاری زبان کی چاشنی میں الجھ کر رہ جائے گا۔
خواجہ محمد شاہد کا یہ خط بہت طویل ہے، مناسب معلوم ہوتاہے کہ اس خط میں مذکورہ مباحث کا جوحصہ ہے اسے یہاں نقل کردیا جائے۔ ملاحظہ ہو:
"۔۔۔۔۔ آپ کے زیادہ تر معزز اور معتبر مضمون نگار کی اردو ایسی ہے کہ کم از کم مجھ کو تو بغیر ڈکشنری کے آسانی سے پڑھنا اور سمجھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ عربی و فارسی کے الفاظ کی بہتات ہوتی ہے۔ یہ اردو کے ساتھ نا انصافی ہے۔ جس طرح حال بعید میں ہندی لکھنے والوں نے سنسکرت کے الفاظوں (الفاظ) کو ٹھونس کر ہندی کو سنسکرت کے قریب لانے کی کوشش میں اتنے آگے بڑھ گئے کہ بقول پروفیسر نامورسنگھ کے ہندی کو سنسکرت آمیز کردیا اور ہندی کو ختم کردیا۔ اس کے علاوہ ڈکشنری کی مدد سے پڑھنے میں وقت بھی زیادہ لگتاہے۔ کیا ہی اچھاہوتا کہ آج کل کی بول چال کی اردوزبان میں مضامین لکھے جائیں یالکھواے جائیں۔ آپ تو مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ سر سیداحمد خاں اور الطاف حسین حالی کے ذریعے استعمال ہونے والی اردو مستعمل ہوتو اردو کو فائدہ پہنچے گا۔
ایک اور پہلو کی طرف آپ کی توجہ مبذول کراؤں گا۔مضمون نگاروں کی زبان اتنی مرقع ہوتی ہے، کبھی کبھی مضمون و مفہوم ہی دب جاتا ہے۔ تشبیہات، القاب، مدح سرائی وغیرہ کی اتنی یلغار ہوتی ہے کہ پتہ نہیں چلتا کہ فاضل مضمون نگار اپنے پڑھنے والے سے کوئی کمیونیکیشن کرنا چاہتے ہیں یا اپنی علمی اور لسانی قابلیت کا اظہار کرکے اپنی برتری کا احساس دلانا چاہ رہے ہیں۔ میرا مسئلہ تو صرف اتنا ہے کہ مضامین میں جو اچھی باتیں،علمیت اور پیغام موجود ہوتاہے ان تک پہنچ جاؤں نہ کہ زبان کی عمیق گہرائیوں میں کھوجاؤں۔
کچھ عرصہ تک تو میں یہ سوچتارہا کہ بھئی ہر لکھنے والے کا اپنا انداز ہوتاہے، اپنی اپنی انشاپردازی ہوتی ہے، لیکن پھر یہ محسوس ہونے لگاکہ تقریباً ہر مضمون کا یہ یہی انداز ہے اور یہ یہی زبان ہے۔ یہاں تک کہ شذرات کی زبان اور انداز بھی یہی ہے، تو یہ سوال ذہن میں آیا کہ کہیں یہ ادارے اور ” معارف” کی پالیسی تو نہیں ہے کہ ایسی بھاری بھرکم زبان کا استعمال ہی ہونا چاہیے۔ یہ سوچ کر میں متفکر ہوگیا اور اس لیے آپ کی خدمت میں یہ عرضداشت بھیج رہاہوں کہ معارف کی اردو کی طرف توجہ کریں اور ہم جیسے پڑھنے والوں کا خیال کریں۔”(معارف نومبر ۲۰۲۱ ص ۳۹۸- ۳۹۷)
اس خط کے آخر میں خواجہ محمد شاہد نے زبان کااطلاق مضامین کے ساتھ ساتھ معارف کے شذرات پر بھی کیا ہے، جو کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے۔ جہاں تک ظلی صاحب کی زبان کا معاملہ ہے تو ان کی نثر کے بارے میں یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ ان کی نثر کو ثروتسنیم میں دھلی ہوئی ہے۔ خواجہ محمد شاہد نے معارف کے شذرات کا جوذکر کیا ہے، یہ بات عام قاری بھی سمجھتا ہے کہ پروفیسر ظلی نے جو شذرات لکھے ہیں ،وہ ایک طرح سے ہماری تاریخ کے ساتھ ساتھ عام انسان کے مسائل اور ان کی زبان کو پیش کیاہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ معارف کے مضمون نگاروں کی فہرست پر اگر نظر ڈالی جائے تو بیشتر مضمون نگار یا تو بڑے مدارس کے استاذ ہیں یا پھر دنیا بھر کی جامعات کے مختلف شعبوں کے پروفیسران ہیں، جن میں بیشتر عربی اور فارسی شعبے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص جو جامعہ ازہریا ترکی کی کسی یونیور سیٹی میں استاد ہو اور مضمون لکھتے وقت عوامی زبان کا خیال رکھے ۔ بعض جملے یا بعض الفاظ وہ اردو میں اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ ان کے لاشعور میں یہ بات پنہا ہے کہ یہ جملے یا الفاظ عوامی سطح پر اسی طرح بولے جاتے ہیں، جب کہ یہ بات کسی طرح مناسب نہیں ہے۔ عوامی بول چال کی زبان کا اپنا مزاج ہے، لیکن تقریر اور تحریر میں بہت سی جگہوں پر مماثلتیں نظر نہیں آتی ہیں۔ غالباً خواجہ محمد شاہد نے انھی نکات کی جانب اشارہ کیاہے۔
معارف میں شائع خطوط کا مطالعہ کرتے وقت اندازہ ہوتاہے کہ معارف کے قارئین تسامحات کی جس طرح گرفت کرتے ہیں، اس سے واضح ہوتا ہے کہ تحقیق کے معیار میں روزبروز اضافہ ہوتاجارہاہے۔ ان خطوط کوپڑھ کر بعض موضوع کے حوالے سے بنیادی مآخذ کا بھی علم ہوتا ہے۔
فروری ۱۹۹۷ کے شمارے میں معارف میں شامل ایک دوسرا خط جس میں سبط محمد نقوی (چیف ایڈیٹر ہماری توحید، لکھنؤ) نے تذکیرو تانیث کے تعلق سے گفتگو کی ہے۔ ساتھ ہی بعض تسامحات کی جانب بھی اشارے کیے ہیں،لیکن اصل بحث مذکرو مؤنث ہی ہے۔ مثلاً مدیر معارف نے حاشیے میں کہیں یہ لکھ دیا کہ ” مقالہ نگاری کے تذکیرو تانیث کے اپنے خاص مرجحات / ترجیحات ہیں۔” اس ضمن میں سبط محمد نقوی نے اعتراض کیا ہے کہ یہ میرے نج کے مختارات نہیں ہیں۔ دبستانی تقلید کے تابع ہیں۔ سبط محمد نقوی کے خط کا وہ حصہ ملاحظہ فرمائیں ،جس میں تذکیر و تانیث کا مسئلہ زیر بحث آیاہے:
” دوسری گزارش آپ کے تحشیے سے متعلق ہے۔ آپ نے دادی اور لفظ پر حاشیہ تحریر فرمایاہے” مقالہ نگارکے تذکیروتانیث کے اپنے خاص مرجحات / ترجیحات ہیں۔ـ” مجھے اس بات پر زور دینا ہے کہ یہ میرے نج کے مختارات نہیں ہیں۔ دبستانی تقلید کے تابع ہیں۔ ہر چند لکھنؤ اب خاموش بلکہ گنگ ہوچکاہے، پھر بھی ہمارے وہ اصحاب جو ابھی کالجوں یا یونیورسیٹیوں میں داخل نہیں ہوئے ہیں اور وہاں کی بولی بولنے کے پابند نہیں ہیں وہ لفظ کو برسرمنبر مؤنث بولتے ہیں اور ہدف اعتراض بنتے ہیں۔”(معارف فروری ۱۹۹۷، ص ۱۴۶)
مذکورہ خط سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ معارف میں جو خطوط شائع ہوتے ہیں، ان میں کس قدر ادبی نکات و مباحث کا اہتمام ہوتاہے۔ اس خط کا دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ دبستانی تقلید کا کوئی اصول منضبط یا طے شدہ نہیں ہے۔ غالب کے یہاں بھی ایک خط میں اس کا ذکر ہے، مناسب معلوم ہوتاہے کہ اسے یہاں نقل کردیاجائے۔ غالب نے یہ خط یوسف علی خاں عزیز کو لکھا ہے جو ” لفظـ ـ” کے ذیل میں ہی ہے۔ ملاحظہ ہو:
” تانیث و تذکیر ہرگز متفق علیہ جمہور نہیں ۔ اے لو! ” لفظ” اس ملک کے لوگوں کے نزدیک مذکر ہے۔ اہل یورپ اس کو مؤنث بولتے ہیں۔ خیر جو میری زبان پر ہے وہ میں لکھ دیتاہوں۔ اس باب میں کسی کلام حجت اور برہان نہیں ہے۔ ایک گروہ نے کچھ مان لیا، ایک جماعت نے کچھ جان لیا، اس کا قاعدہ منضبط نہیں ہے۔”
( غالب کے خطوط مرتبہ خلیق انجم ص ۸۰۳ ج دوم۔ غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی ۱۹۸۳)
غالب کے اس خط سے معلوم ہوتاہے کہ تذکیرو تانیث کا مسئلہ عوام کا متفقہ مسئلہ نہیں ہے۔ اس میں بہت اختلاف ہے۔ غالب نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس کا کوئی قاعدہ منضبط نہیں ہے۔ صاحب نوراللغات نے "لفظ” کی وضاحت کرتے ہوئے لکھاہے:
” دہلی میں مذکر، لکھنؤ میں مذکر و مؤنث دونوں طرح بولتے ہیں کثرت استعمال تذکیر کے ساتھ ہے۔” (نوراللغات ج ۴، ص ۴۰۳)
اہل پورب سے غالب کی مراد لکھنؤ ہے۔
ان مباحث کی روشنی میں یہ نتیجہ بآ سانی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ سبط محمد نقوی کا اعتراض بے بنیاد ہے۔
معارف میں شائع شدہ بعض خطوط ایسے بھی ہیں جن میں غلطیوں / تسامحات کی جانب معارف کے مدیرکی توجہ مبذول کرائی گئی ہے۔ عبداللطیف اعظمی نے دسمبر ۱۹۹۴ کے شمارے میں پروفیسر ضیاء الحسن فاروقی کے سوانح سے متعلق بعض باتیں تحریر کی تھیں، جن میں کچھ غلطیاں راہ پاگئی ہیں۔ ان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پروفیسر ریاض الرحمن شروانی جنوری ۱۹۹۷ کے معارف میں ایک خط لکھاہے:
” دسمبر ۱۹۹۶ کے معارف میں پروفیسر ضیاء الرحمن فاروقی مرحوم سے متعلق عبد اللطیف اعظمی صاحب کے مضمون میں بعض تسامحات جگہ پاگئے ہیں۔
۱۔ ضیاء صاحب نے ۱۹۴۸ میں علی گڑھ مسلم یونیور سیٹی سے ایم۔ اے نہیں، بی۔اے کیا تھا۔ ایم۔اے انھوں نے ۱۹۵۰ میں الہ آباد یونیورسٹی سے کیا اور ڈپلومیسی اور بین الاقوامی سیاسیات وہیں ان کے مضامین تھے۔
۲۔جب جامعہ ملیہ اسلامیہ میں عبدالغفار خان چیر اور ذاکر حسین چیر قائم ہوئیں تو ضیاء صاحب کا تقرر ذاکر حسین چیر پر ہوا اور وہ دو سال اس پر فائز رہے۔ عبدالغفار خاں چیر پر محترمہ قرۃالعین حیدر کا تقرر ہوا تھا۔
۳۔ ضیاء صاحب نے انگریزی میں مولانا ابوالکلام آزاد کی جو سوانح لکھی ہے اور اس وقت زیر اشاعت ہے وہ مکمل نہیں ہے۔ بلکہ پہلی جلد، جو مولانا کی ۱۹۴۰ تک کی زندگی کا احاطہ کرتی ہے۔ دوسری جلد لکھنے سے قبل افسوس ہے کہ ضیاء صاحب کی وفات ہوگئی۔” (معارف جنوری ۱۹۹۷، ص ۶۳)
جدیدیت کا نمائندہ رسالہ / میگزین شب خون جسے شمس الرحمن فاروقی نے الہ آباد سے ۱۹۶۶ میں جاری کیاتھا۔ یہ رسالہ ۲۰۰۶ تک جاری رہا۔ اس رسالے میں ۱۹۶۰ کی دہائی سے لے کر ۲۰۰۶ تک جدید قلم کاروں کی تحریریں شائع ہوتی رہیں۔ کہتی ہے خلق خدا ، کے عنوان سے قارئین کے خطوط پابندی سے شب خون میں شائع ہوا کرتے تھے۔ اس رسالے کی خاص بات یہ ہے کہ اس نے کبھی معیار سے سمجھوتہ نہیں کیا ، اگر کبھی غیر معیاری مضامین / شاعری وغیرہ شائع ہوتی تھیںتوقارئین فوراََ متنبہ کردیاکرتے تھے اور بلا خوف و خطرحق بات کہنے میںدریغ نہیںکرتے تھے۔مضمون کے ابتدائی سطور میں اس بات کا ذکر کیا جاچکا ہے کہ مدیران، ان خطوط کو بھی شائع کردیتے تھے، جو اختاف راے کی بنیاد پر لکھے گئے ہوں۔ اسی قسم کا ایک خط شب خون کے فروری ۲۰۰۵ کے شمارے میں ظفراقبال نے لکھا ہے۔ ان کا خط ملاحظہ ہو:
ـ ” میں یہ کہنے سے بازنہیں رہ سکتا کہ بھارت میں تو غزل کا خانہ ویسے ہی خالی چلاآرہا ہے، جن پاکستانی شعرا کی غزلیں آپ باقاعدگی سے شائع کرتے ہیں،محض روٹین کی غزلیں ہیں، جن میں میرے نزدیک نہ تو کوئی تازگی ہوتی ہے، نہ جان۔ وہ ابرار احمد ہوں ، غلام حسین ساجد ہوں یا عرفان ستار۔ احمد مشتاق اور آفتاب حسین البتہ مستثنیات ہیں۔میرے اس طرح کے خیالات کوئی نئے نہیں ہیں،بلکہ میری ایسی خرافات آپ پہلے بھی چھاپ چکے ہیں اور یہ بات ایسی ہے جس پر کوئی بھی مصلحت اثر انداز نہیں ہوسکتی۔ ادھر کئی لوگ بہت عمدہ غزل کہہ رہے ہیں اور میں اپنی حدتک انھیں” شب خون ” میں اپنا کلام بھجوانے پر اکساتا بھی رہتاہوں۔ مثلاً اکبر معصوم، انعام ندیم،اور شاہین عباس۔ بہر حال آپ کی کچھ ادارتی مجبوریاں بھی ہوسکتی ہیں اور اگر آپ موجودہ صورتِ حال پر خوش اور مطمئن ہیں تومیںاپنے سے یہی کہوں گا ؎
گداے گوشہ نشینی تو حافظا مخروش‘‘
(شب خون ، فروری ۲۰۰۵ ۔ظفراقبال،لاہور ص ۷۹)
اس خط میں ظفر اقبال نے بہت خوبصورتی سے حقیقت بیان کردی ہے اور آخر میں اپنی بات کو مدیر کی ادارتی مجبوریوں پر محمول کرتے ہوئے بات مکمل کی ہے۔
شب خون کے اسی شمارے میں فضیل جعفری کا بھی ایک خط شائع ہواہے۔جس میں انھوں نے متعددناقدین کاذکرکرتے ہوئے اچھی اور معیاری تنقید کاپیمانہ متعین کیا ہے۔فضیل جعفری کا خط ملاحظہ ہو:
’’خوشی اور اطمینان کی بات ہے کہ تم آج بھی شب خون کی ترتیب و تہذیب پر بہت محنت کرتے ہو۔ خیال خاطر احباب، کے نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ مرزا حامد بیگ کو شکایت ہے کہ ۱۹۷۵ والی دہائی میں جہاں بہت سے اچھے افسانہ نگار سامنے آئے وہیں اس کے حصے میں صرف ایک نقاد (مہدی جعفر) آیا۔ ۱۹۶۵ کے بعد جو نئے نقاد جدید تنقید کے مرکزی دھارے میں شامل ہوئے ان میں تمہارے علاوہ سلیم احمد، وارث علوی، گوپی چند نارنگ، شمیم حنفی، افتخار جالب، باقر مہدی اور جیلانی کامران جیسے نام شامل ہیں۔ اس وقت کلیم الدین احمد ، محمد حسن عسکری، احتشام حسین، آل احمد سرور، ممتاز حسین، مجتبیٰ حسین جیسے جیدناقد ہمارے درمیان موجود تھے۔ بعض نظریاتی اختلافات کے باوجود ان لوگوں نے جدید نقادوں کا، کم یا زیادہ، لیکن بہر حال اعتراف کیا۔ عسکری اور کلیم الدین احمد تو تمہاری بہت قدر کرتے تھے۔ یہی حال سرور صاحب کا تھا۔ علاوہ ازیں تم نے اور تمہارے ساتھیوں نے نئے قارئین کی ذہنی تربیت بھی کی۔ یہ سب کچھ محض اتفاق نہیں تھا۔ اچھی اور معیاری تنقید کے لیے اعلیٰ تعلیم اور گہرے مطالعے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے یہاں یہ روایت ختم ہوتی جارہی ہے۔(شب خون فروری۲۰۰۵ شمارہ ۲۸۹، ص ۷۷)
رسائل و جرائد میں اس طرح کے خطوط شائع ہونے سے قارئین اور نئے لکھنے والوں کو تحریک ملتی ہے اور انھیں ایک راستہ مل جاتا ہے کہ ہمیں کس نہج پر کام کرنا چاہیے۔
ماہنامہ شاعربمبئی کا شمار اردوکے قدیم ترین رسائل میں ہوتا ہے۔اس کاآغازآگرہ میں سیماب اکبرآبادی نے کیا تھا۔تقسیم ہند کے بعدسیماب اکبرآبادی پاکستان چلے گئے۔اعجازصدیقی جو ان کے فرزند تھے،انھوں نے اس رسالے کی ذمہ داری اپنے ہاتھوں میں لی۔۱۹۵۱میں وہ بمبئی چلے گئے اور شاعر بھی وہیں سے نکلنے لگا۔ماہنامہ شاعر میںمکتوبات کے عنوان سے قارئین کے خطوط شائع ہوتے ہیں۔ اس رسالے کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں اختلافی مضامین؍خطوط شائع ہونے کے ساتھ ہی ادبی مباحث؍معرکے کا سلسلہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔فروری ۱۹۴۴ کے شمارے میںکنورپریمی کاایک خط شائع ہوا ہے جو ادبی مباحث ؍کا نمونہ ہے۔خط ملاحظہ ہو:
’’سردست مجھے محترمہ ہاجرہ مسرورکی اداے برہمی پر چندسطورلکھنی ہے۔جس کااظہارموصوفہ نے اپنے مکتوب مورخہ۲۳؍نومبر۴۳ ء مطبوعہ شاعر بابت ماہ جنوری ۴۴ ء میں میرے ڈرامہ ’’ہاراکون‘‘کو پڑھ کر کیا ہے اور نہ صرف مجھ پر سہام تنقید سے بوچھار کی ہے بلکہ آپ کو بھی نشانہ بنایا ہے۔۔۔میں موصوفہ کے قیمتی مشورہ کا شکر گزار ہوں،ان کی موجودہ حیثیت صرف ایک جانب دار فسانہ نگار خاتون کی سی ہے۔۔۔میں موصوفہ کے افسانوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں،لیکن اسی کے ساتھ ساتھ جہاں تک تنقیدوتبصرہ کا تعلق ہے مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی تکلف نہیں کہ موصوفہ’’ اندھیرے میں ‘‘بھٹک گئی ہیں،جس طرح موصوفہ نے میرے ڈرامہ پرتنقید فرمائی ہے اس کو دیکھ کر مجھے حیرت بھی ہے اور افسوس بھی۔حیرت اس بات پر کہ اگر موصوفہ میرے ڈرامہ ’ہاراکون‘ کے افراد کی خصوصیات پر غورفرما لیتیں توشاید مجھ پراور اعجاز بھائی پر’چوٹیں ‘کرنے کی نوبت نہ آتی اور نہ ہی موصوفہ کومجھے اور میرے ساتھ دیگر ادیبوں کو عورت کی نفسیات کامطالعہ کرنے کامشورہ دینا پڑتااور افسوس اس امر کا ہے کہ ایک بے بنیاد مفروضہ پر موصوفہ اس قدرآتش زیر پا ہو گئیں۔موصوفہ کومعلوم ہونا چاہیے کہ’ہاراکون‘کے افراد جیتے جاگتے کردار ہیں،ایک ’مخصوص ماحول‘کے افراد کی ذہنیت کو اجاگرکرنا ،اپنی معاشرت کے حسن وقبح کا خاکہ پیش کرنا اورلاابالی قسم کے انسانوں کا خاکہ اڑانااگرموصوفہ کی نظر میں’کچوکے‘دینا ہے تواِس حسنِ نظر،حسن مذاق اور حسن تنقیدکے صدقے میراڈرامہ اگر ذاتیات سے ملوث ہے یامیں نے جانب داری سے کام کیا ہے یا اس میں عام معاشرت سے ہٹ کر کوئی قابل اعتراض و گرفت چیز پیش کی ہے تو ’اہل نظر‘خوداس کامحاکمہ کر لیں گے۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ’ہاراکون‘ کی اشاعت سے صنف نازک کی کسی ’نمائندہ‘ کے ’حس لطیف‘ کوٹھیس پہنچے گی۔موصوفہ خود ایک افسانہ نگار خاتون ہیں۔کیا میں پوچھ سکتاہوں کہ اگرموصوفہ کو اپنے افسانوں میںحقائق کو عریاں کرنے کا ’ادعا‘ ہے تو ’ہاراکون‘میں موصوفہ کو ’اپنی ہار‘ کا شدیداحساس کیوں ہے؟ہمیں زندہ اورحقیقت پسندادب کی ضرورت ہے،موصوفہ کو یقین رکھنا چاہیے کہ فن کا گلا مجھ جیسے’ گمنام ادیب‘نہیں کاٹیں گے بلکہ اس کا گلا گھوٹنے والے وہ لوگ ہوں گے جو ’مغلوبانہ ذہنیت‘ رکھتے ہیں۔‘‘(شاعر آگرہ۔۔۔فروری ۱۹۴۴ ،۳۵)
موجودہ دور کے اہم رسالوں میں ماہنامہ آجکل ہے۔مراسلات کے نام سے اس رسالے میں قارئین کے خطوط شائع ہوتے ہیں۔عہدحاضر میں مراسلات؍خطوط میں کافی گراوٹ آئی ہے۔ادبی مباحث؍نکات ؍معرکے اور کارآمدتحریریںکم نظر آتی ہیں۔توصیفی کلمات غالب ہوتے ہیں ،لیکن بعض رسائل ایسے ہیں جہاں یہ معیار کچھ حدتک باقی ہے۔توصیفی کلمات پرمشتمل آجکل اپریل ۲۰۱۶میں شامل ایک خط ملاحظہ ہو،یہ خط ارشدقمر(جھارکھنڈ)نے لکھا ہے:
’’آجکل ماہ فروری کاشمارہ سرورق پرمرزاغالب کی خوبصورت تصویر کے ساتھ موصول ہوا۔مرزاغالب سے متعلق اس شمارے میںجتنے بھی مضامین شامل ہوئے ہیںاپنی نوعیت کے اعتبار سے سبھی منفرداورلائق مطالعہ ہیں۔مولانا حالی پرقلم بند کیے گئے تینوں مضامین بھی بے حدعمدہ اور معلوماتی ہیں۔آجکل کی یہی خصوصیت ہے کہ اس کاہرشمارہ منفرد اورجداگانہ ہوتا ہے،جس کی حیثیت بلاشبہ دستاویزی ہوتی ہے۔تبھی تو اس کے قارئین کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔آپ نے اپنے اداریے میںاردورسائل؍ادبی مسائل پر جو سیرحاصل گفتگو کی ہے وہ بھی کم اہمیت کا حامل نہیں ۔آپ نے جس منظرنامے کو پیش کیا ہے اس کی حیثیت تاریخی ہے۔پڑھ کر مزہ آگیا۔شمس الرحمٰن فاروقی نے’ محبوب میاں کی یاد میں‘کھل کر گفتگو کی ہے۔راج نرائن راز پرقلم بندکیا گیا مضمون بھی بڑا پرلطف ہے۔اس کے مطالعے سے راز صاحب کے بہت سارے راز عیاں ہو گئے۔خاص طور سے گوپی چندنارنگ سے ان کے تعلقات چونکا دینے والے ہیں۔بیٹی بچائو بیٹی پڑھائوعنوان کے تحت لکھے گئے منظومات کاحصہ بھی بے حد عمدہ ہے۔اس عنوان پر لکھی گئیں عمدہ نظمیں پڑھنے کو ملیں۔کتابوں پر تبصرے بھی پسندآئے بالخصوص قرون وسطیٰ کے مسلمانوں کے سائنسی کارنامے نہ صرف پڑھنے کی بلکہ اس کتاب کو گھرمیں رکھنے کی ضرورت ہے،تاکہ نئی نسل کومسلم موجد کے کارہاے نمایاں کاعلم ہو۔بلاشبہ یہ شمارہ جامع اور معلومات سے پر ہے۔‘‘
(آجکل اپریل ۲۰۱۶، ص ۵۳)
ماہنامہ اردو دنیا میں قارئین کے خطوط’’آپ کی بات‘‘کے عنوان سے شائع ہوتے ہیں۔اس رسالے کے قارئین کے خطوط کا مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوتاہے کہ وہ مضامین کابہت باریک بینی اور محققانہ نقطۂ نظر سے مطالعہ کرتے ہیں۔مضامین کی خوبیوں کو بیان کرنے کے بعداس کی کمیوں اور فروگذاشتوں کی جانب بھی مدیر کی توجہ مبذول کراتے ہیں۔اسی نوعیت کا ایک خط جو ڈاکٹر سراج الدین قادری نے لکھا ہے، ملاحظہ ہو۔یہ خط اردودنیا کے نومبر۲۰۱۵ کے شمارہ میں شائع ہوا ہے:
’’ماہنامہ اردو دنیا شمارہ اکتوبر۲۰۱۵ اپنی ظاہری اور باطنی خوبیوں سے متصف ہے۔ہر ایک کا ماہنامہ یا کتاب پڑھنے اسے دیکھنے کااپنا ایک اندازاور طریقہ ہے۔میں ماہنامے کو کتابوں پر تبصرے کے موضوع سے شروع کرتاہوں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے نئی کتابوں اور مجلوں کی جستجو رہتی ہے۔میری التجا ہے کہ اس میں کچھ تبدیلی ہونی چاہیے۔جیسے مصنف ،مؤلف یامترجم کی تفصیلی معلومات،ایڈریس،ای میل اور ناشرایڈریس،فون نمبر،موبائل نمبر وغیرہ معلومات درج ہونی چاہیے،جس سے قاری اپنے ذوق و جستجوکے اعتبار سے کتاب یا میگزین کو حاصل کر سکے۔ماہنامہ اکتوبر ۲۰۱۵کاشمارہ مطالعہ کر رہاتھا۔عالی جناب رتن سنگھ صاحب سے ڈاکٹر ریحانہ سلطانہ کالیاگیاانٹرویومطالعہ کیا مگراس میں تشنگی کا احساس ہوا۔ ان کی زندگی کے حوالے سے کچھ باتیں بھی آنی چاہیے تھیں جونہیں آسکیں۔باقی مشمولات قابل ستائش ہیں۔‘‘
(اردودنیا نومبر ۲۰۱۵، ص ۵)
ایوان اردو میں’گرامی نامے‘کے عنوان سے قارئین کے خطوط جگہ پاتے ہیں ۔مارچ ۲۰۱۵ کے شمارے میںپروفیسر علی احمدفاطمی کا خط پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ایک قاری پورے رسالے پرکیسی گہری نظر رکھتاہے،اورسب پراپنی رائے بھی پیش کرتا ہے۔خط ملاحظہ ہو:
’’ایوان اردو فروری ۲۰۱۵کاشمارہ کئی اعتبار سے اہمیت رکھتا ہے۔ڈاکٹر یحیٰ نشیط نے خواجہ احمد عباس کا ناول تلاش کیا یہ بڑی بات ہے لیکن اگر یہ مکمل ناول دستیاب ہو سکے تواور بھی بڑی بات ہوگی۔ اچھانکتہ یہ ہے کہ عباس نے یہ ناول ’’انگارے ‘‘سے متأثرہوکرلکھا ہے۔اسی طرح صفدرامام قادری اورنورالحسنین کے مضامین بھی پڑھے جانے کے لائق ہیں۔نورالحسنین نے کرشن چندرکے ایک غیر اہم سمجھے جانے والے ناول پرعمدہ گفتگو کی ہے۔جونکات اٹھائے ہیںوہ ایک تخلیق کار ہی اٹھا سکتا ہے۔ان دونوں کو مبارکباد۔فضل حسنین کا انشائیہ پسندآیا،وہ پرانے اور منجھے ہوئے انشائیہ نگار ہیں۔اس انشائیہ میں پختگی ظاہر ہوتی ہے،ان کو بطور خاص مبارکباد۔اس بار شعری حصہ افسانوی حصہ سے زیادہ جاندار ہے۔بہرحال ایوان اردو نے اپنا ایک اہم مقام بنا لیا ہے،اب اس رسالہ کاانتظاررہتا ہے۔‘‘
(ایوان اردو ۔۔مارچ ۲۰۱۵،ص۷۲)
مختصر طور پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ صحافت کے دو سو برس کا مطالعہ باور کراتا ہے کہ اردو رسائل و جرائد نے خطوط نگاری کی روایت کو نہ صرف مستحکم کیا، بلکہ اس کی حیثیت کو بھی ایک دوسرے انداز میں پیش کیا۔ خطوط کا ایک رخ وہ ہے جو خالص ذاتی نوعیت کے ہوتے ہیں، لیکن رسائل و جرائد میں شائع شدہ خطوط پر سرسری نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ، ان خطوط کہ نوعیت خالص علمی، ادبی، تحقیقی اور تنقیدی ہے۔ اس لیے یہ بات کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ اردو رسائل و جرائد نے خطوط نگاری کی روایت کو استحکام بخشنے میں غیر معمولی کردار ادا کیا۔ موجودہ وقت میں خطوط، رسائل وجرائد تک ہی محدود ہیں۔ اردو صحافت ہی اس روایت کو آگے بڑھا رہی ہے۔ اردو صحافت میں خطوط کی اہمیت کے بارے میں سطور بالا میں ذکر کیاگیا، ان خطوط میں کیسے کیسے نادر ذخیرے موجود ہیں، یہ موضوع بھی تحقیق کا متقاضی ہے۔
٭٭٭٭
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page