’سحرسامری‘ اودھ کاایک بے باک، بے لاگ اورمقبول عام اخبارتھا۔ لکھنؤ سے یہ ہفتہ وار اخبار 17 نومبر 1856مطابق 1273ھ کوجاری ہوا۔ 1 مالک اور مہتمم پنڈت بیج ناتھ تھے جوپنڈت صاحب کے مطبع سرائے معالی خاں کے پاس بال کرشن کے چھتے سے متصل واقع تھا، چھپ کرشائع ہوتا تھا۔2 اس کے پہلے چارنمبر امیر مینائی نے مرتب کیے تھے اور پانچویں نمبر سے اس کی ادارت رگھبرنرائن عیاش کی طرف منتقل ہوئی۔3 جواخبارکے آخیر تک اس کی ادارت کے فرائض انجام دیتے رہے اوراخبارخوش اسلوبی کے ساتھ برابروقت پرشائع ہوتا رہا۔ 4 کچھ عرصے کے بعد عیاش صاحب بھی رخصت ہوئے اور پنڈت بیج ناتھ نے خود ادارت سنبھالی لیکن یہ باران سے نہ اٹھ سکا اورمنشی شنکر دیال فرحت کو انھوں نے ادارتی ذمے داری سونپ دی۔فرحت صاحب کے زمانہ ٔ ادارت میں اخبار اورمطبع کے جملہ ذمے داروں کے نام پرنٹ لائن میں شائع ہوتے تھے۔5 ماہانہ چندہ 12 آنے، سالانہ پیشگی 7 روپے 8آنے اورسال گزرنے کے بعد 10روپے8 آنے تھا۔6
’’مالک پنڈت بیج ناتھ،مہتمم منشی بہاری لال، پرنٹرمنشی درگا پرشاد، ایڈیٹرمنشی دیال شنکرفرخت، کاتب کنور چندی سہائے نیال، پریس مین رجن لال، مطبع ثمر ہند، لکھنؤ۔‘‘
اخبار’سحرسامری‘کی ظاہری ساخت طلسم، لکھنؤ سے بہت مشابہت تھی۔ اس کاسرورق بیل بوٹوں سے آراستہ ہوتا تھا۔ لوح کے اوپری سرے پرچاند کا نشان ہوتا تھا اور چاروں طرف اشعاردرج ہوتے تھے۔ اس کی ظاہری وضع سے لگتاتھاکہ دونوں اخبار ایک ہی مدیر نکال رہا ہو۔ پہلاصفحہ اخبارکے منظوم اشتہار سے پُرہوتا تھا، جو اخبار کا مکمل تعارف نامہ تھا ۔7 عام طور پر آٹھ صفحات پر مشتمل دوکالم ہوتے تھے۔ خبریں دوسرے صفحے سے شروع ہوتی تھیں۔ لکھنؤ کی تازہ خبریں ملنے پر ضمیمہ بھی شائع ہوتا تھا،کبھی ضرورت کے مطابق صفحات کی تعداد بھی بڑھادی جاتی تھی۔اخبارکے پہلے کالم میں لکھنؤ، واجد علی شاہ اوران کے مقدمے کی خبروں کوخاص جگہ دی جاتی تھی۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے لطیفے اور پہیلیاں وغیرہ بھی چھاپ دیے جاتے تھے۔ دوسرے کالم میں ہندستان کے دیگر مقامات اوربیرونی ہندکی خبریں اردو، فارسی اور انگریزی اخبارات سے اخذ کی جاتی تھیں۔ان اخباروں میں صادق الاخباردہلی، دہلی اردو اخبار، سلطان الاخبار، کشف الاخبار، گلشن نوبہار، تاج الاخبار، اخبار مرتضائی، حبیب الاخبار، مفید خلائق، جام جہاں نما کے علاوہ انگریزی اخبار سرکاری گزٹ اور سینٹرل اسٹار، وغیرہ شامل ہیں۔ اخبارکے اپنے نامہ نگارتھے۔ خبرکی صحت کا خاص خیال رکھا جاتا تھا۔ اخبار کا اسلوب مرصع،مقفی اورحکائی انداز میں ہوتا تھا جو خصوصیت سے لکھنؤ میں پسند کیا جاتا تھا۔ ترتیب بھی اچھی ہوتی تھی، خبروں کو مختلف عنوانات کے تحت سلیقے سے ترتیب دیا جاتا تھا۔
محمدعتیق صدیقی نے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ’سحرسامری‘ کاآخری شمارہ 18مئی 1857 (جلد1، نمبر 23,27 شہررمضان المبارک 1273ھ)کا دستیاب ہوا ہے۔ ممکن ہے اس کے اورشمارے نکلے ہوں گے جوہم تک نہ پہنچے ہوں۔ اسی بیچ پورے ہندوستان میں بغاوت شروع ہوگئی۔ لکھنؤ کی زندگی پر بھی اس کے اثرات پڑے اور اخبار بندہو گیا ۔
موضوعات کے اعتبارسے سحرسامری بہت اہمیت کاحامل اخبار ہے۔ ان کے صفحات میں آزادی کھونے کا دکھ، غلامی کے شدید احساس، انگریز اور انگریزی نظام سے بیزاری کے ساتھ ساتھ اس دورکے لکھنؤ کی اقتصادی زبوں حالی اور سماجی بے اطمینانی کی چلتی پھرتی تصویریں ہم کو نظر آتی ہیں۔ انقلاب حکومت جو تبدیلیاں اپنے جلو میں لایا تھا اور اس کے جواثرات لکھنؤ اور اہالیانِ لکھنؤ پر مرتب ہوئے تھے ان کے پورے پورے اورمستند نقشے بھی ان اخباروں میں ہم کو ملتے ہیں۔سحرسامری کی ناقص فائل علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی لائبریری میں محفوظ ہے۔8
اخبارسحر سامری اس دور میں جب کہ اخبار سن طفولیت سے گزرہا تھا اور سرکارکمپنی کا اثر وسطوت ہندوستانی آفتاب کو گہنا رہا تھا اس کا ایڈیٹر بے جھجک بے باک ہو کر سرکارکمپنی بہادر پر تنقیدکرتا تھا۔سلطان واجد علی شاہ کا صرف ثناخواں ہی نہیں تھا بلکہ ان کی آمد کا سخت منتظربھی تھا اور سرکارکمپنی بہادر کو نہ صرف غاصب اور بدعہد تصور کرتا تھا بلکہ اس کوظالم اور دغاباز، حیلہ جو اورفریب کاربھی سمجھتا تھا۔ لیکن یہ سب تصورات ذہن میں پوشیدہ ہی نہیں تھے بلکہ صفحات قرطاس پرحقائق بن کرعوام میں مشتہر ہوتے تھے۔ وہ سرکار کمپنی کی ملازمت کوبھی اپنے سلطان کے ساتھ بے وفائی پر محمول کرتا تھا۔ اس کے بیانات نہایت اشتعال انگیزاورشورش خیز ہوتے تھے۔ انگریز دشمنی کا لاوا اس کے ہرجملے سے ابل رہاتھا۔9
اخبار ’سحرسامری‘ کا جب اجرا ہوا تھاتو پورا ہندوستان بالخصوص لکھنؤ نہایت بحرانی دورسے گزر رہا تھا۔ ہر طرف طوائف الملوکی پھیلی تھی۔ قتل، خون ریزی، چوریاں اور آتش زنی کی واردات عام سی بات تھی، انسانی زندگی سخت کشمکش میں مبتلا تھی۔کمپنی سرکار کی غیرمعمولی سختیاں، غیر متوقع بے ایمانیاں عوام و خواص کے حوصلے پست کررہی تھیں۔ یہ اخبار اپنے عہدکے لکھنؤ کی سیاسی افراتفری، معاشی بدحالی اوربے انتظامی کا عکاس تھا۔اس اخبار میں بارک پور میں چربی والے کارتوسوں پر دیسی سپاہ کی بغاوت، ایرانی فوج کی پیش قدمی اور انگریزوں کے خلاف ملک میں چاروں طرف پھیلنے والی بے چینی اور شورش کی خبریں تواتر کے ساتھ شائع ہوتی تھیں۔
اخبار ’سحرسامری‘ میں ہمیں معزول واجدعلی شاہ کے قیام کلکتہ کے کوائف،ان کے مقدمے کی خبریں، جن کی پیروی کے لیے ان کی والدہ اوران کے ولی عہدلندن گئے تھے، اورواجدعلی شاہ کے متعلقین و متوسلین سے متعلق خبریں تفصیل سے ملتی ہیں۔ان خبروں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاہ اودھ واجد علی شاہ کے ساتھ انگریزی حکومت نے بڑی زیادتی اورناانصافی کی ہے۔ دوسرے یہ کہ برطانوی انصاف پر بہ ظاہرہرشخص کوبھروسہ تھااوراسی کی بناپراس کابھی یقین تھاکہ واجدعلی شاہ کوان کا کھویا ہوا اقبال اور اودھ والوں کو ان کاکھویا ہوا بادشاہ واپس مل جائے گا۔ ہرخبرکی تہ میں امیدکی یہی فسوں کاری کارفرما نظر آتی ہے۔10اخبار ’سحرسامری‘ کو واجد علی شاہ سے بڑی عقیدت تھی۔ اخبارکو بھی یقین تھاکہ واجدعلی شاہ کی دوبارہ حکومت قائم ہوجائے گی۔چنانچہ ملکہ انگلستان سے اپیل کے لیے واجدعلی شاہ کی والدہ اورولی عہدبہادرکے انگلستان پہنچنے اور وہاں کی تفصیلات کو ’خبر فرحت اثر‘کے عنوان سے یکم دسمبر 1856کے اخبار میں شائع کیاتھا:
خبرفرحت اثر: ’’مرزاباقر صاحب، مرزاولی عہد بہادر کے مصاحب ،سفر ولایت میں ولی نعمت کے ہمراہ تھے۔ اقبال کی طرح مقبول بارگاہ تھے۔ وہاں پہنچ کرولی نعمت نے نامہ بری کا منصب عنایت کیا،حضرت سلطانی عالم کے پاس رخصت کیا۔ انگریزی ڈاک کے جہازپر سوار ہوئے۔ 16؍ربیع الاول 1273ھ کو دریا سے پار ہوئے۔ حضرت کے نام اپنے حضورکی تحریر لائے۔ گھڑی وغیرہ اوربہت سے تحائف دل پذیر لائے۔ان کی زبانی ہے دل چسپ کہانی ہے۔ ابھی تک ملکۂ فرنگ مصروف سیر و شکار ہیں، مسافران لندن محو انتظار ہیں۔ مگر تیر مدعا نشانے کے قریب تر ہے۔ ملکۂ فرنگ کی شکارسے جلد پلٹنے کی خبرہے۔بڑے بڑے انگریز جلیل الشان، اونچی اونچی کچہری، پارلیمنٹ کے ارکان ہم زبان ہیں کہ دادگستر کے آنے تک تیغ انصاف کے جوہر نہاں ہیں۔ ادھر ملکہ شکارسے پھریں ادھر برگشتہ طالعوں کے دن پھر جائیں گے، جتنے ستارے گردش میں ہیں رشک ندامت کی طرح چشم فلک سے گر جائیں گے۔ پھر وہی باد شاہ اودھ کا دور دورہ ہوگا۔ وہی حشمت کا انداز،وہی سلطنت کا ظہور ہوگا۔ شکستہ خاطروں کو تسلی دیتے ہیں۔ اراکین دولت کوتشفی دیتے ہیں کہ گھبرانے کی بات نہیں، دنیاکی کسی بات کوثبات نہیں، ان ہی حکام پارلیمنٹ نے اپنے اپنے مکانات خالی کر دیے۔ ایک ایک کو آنکھوں میں جگہ دی، دلوں گھر دیے، ملکۂ فرنگ نے پرچہ پیام بھیجا، جناب عالیہ (والدہ واجدعلی شاہ) کے نام بھیجاکہ بادشاہی کوٹھی میں اتر لیجیے۔ ہرطرح کاسامان آرام سرکارسے بے خطر لیجیے… اضطراب کامقام نہیں، گھبرانے کاہنگام نہیں، ڈیڑھ مہینے میں ہم آتے ہیں،تمھیں مراد کو پہنچاتے ہیں…‘‘ 11
اودھ کی ضبطی کے بعدیہ عام خیال ہوگیاتھاکہ ہندوستان کی باقی تمام ریاستوں کابھی ایک ایک کرکے خاتمہ ہو جائے گا اور اس طرح ساری ریاستیں ایسٹ انڈیا کمپنی کے زیرنگیں ہوجائیں گی۔اس سلسلے کی یکم دسمبر 1856 سحرسامری میں ’متفرقات‘ کے عنوان سے ایک خبرملتی ہے:
’’اخبارسے مختل ہے کہ سارا راجپوتانہ ممالک انگلیشیہ میں شامل ہوگا،حیطہ ٔ تصرت کمپنی انگریزبہادر میں داخل ہوگا۔ لیکن زمانہ اس کے ظہور کا کسی پرظاہر نہیں،کوئی اچھی طرح اس سے ماہرنہیں، جتنا عیاں ہے برملابیاں ہے، حیدر آباد، کشمیر اور گوالیار میں بدانتظامی سے بڑافتور ہے، پہلے ان ہی ملکوں کاانتظام منظور ہے۔‘‘12
اودھ پرکمپنی انگریز بہادر کا تسلط ہوتے ہی تقریباً سات آٹھ لاکھ آدمی بے روزگار ہوگئے۔ ہر طرح کی تباہی کے ساتھ گاؤں کے گاؤں ویران ہوتے چلے گئے۔ سید خورشیدمصطفی رضوی نے ایک انگریز رنٹزریز کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’ہزاروں شرفا، امرا اورحکام جو شاہی زمانے میں بڑے عہدوں پر فائز تھے، اورعیش و عشرت کی زندگی گزارتے تھے، مفلسی اور محتاجی کی زندگی بسر کررہے ہیں اور ان کے ماتحت ملازم اور مصائب بے روزگاری کا شکارہیں۔13 اودھ کی شاہی فوج کوبھی برخاست کر دیا گیا جوستر ہزار پرمشتمل تھی۔جس کے نتیجے خوفناک بن کر سامنے آئے۔ سرسید احمد خاں نے بھی لکھا ہے کہ ’’جب افغانستان سرکارنے فتح کیا، لوگوں کو بڑا غم ہوا، جب گوالیار فتح ہوا، پنجاب فتح ہوا، اودھ لیاگیا، لوگوں کو کمال رنج ہوا،کیوں ہوا؟ اس لیے کہ ان کے پاس کی ہندوستانی عملداریوں سے ہندوستانیوں کو بہت آسودگی تھی۔ نوکریاں اکثرہاتھ آتی تھیں، ہرقسم کی ہندوستانی اشیا کی تجارت بہ کثرت تھی۔ان عملداریوں کے خراب ہونے سے زیادہ افلاس اور محتاجی ہوتی تھی۔‘‘14
11دسمبر1856کے اخبار سحر سامری کی اس خبرسے اندازہ ہوتاہے:
’’7فروری سے 25اگست 1856تک بحکم نواب گورنرصاحب بہادربعضے افسران افواج کی تقسیم (تنخواہ) کے لیے خزانہ ٔ کمپنی بہادر سے احکام جاری ہوئے۔علی بخش خاںرسالہ دار، اور نادرحسین خاںکمیدان پٹالن اصغری، دو دو سو روپئے کی ماہواری(مقرر) ہوئی۔ جو لوگ توپ خانوں کے داروغہ، یاتلنگوں کے کپتان تھے۔ بڑی بڑی عمارت کے سامان تھے۔ ان کے لیے سوسو روپے تنخواہ ٹھہری۔ نجیبوں کے افسروں کواسّی اسّی روپے دینے کی ماہ بہ ماہ ٹھہری۔ بخشی مریٹ صاحب کے نام پھاگن میں پنشن کی تقسیم کاحکم آیا، سرکار نے افسروں (فوج) کو توخوب مطمئن فرمایا۔ خداکرے کہ ملا زمین شاہی کی بھی پرورش ہوجائے۔ ہزار آدمی خزانے کا نوکر بے معاشی سے تڑپ رہاہے، ان کی بھی باری آئے، رعیت پروری دور و نزدیک مشہور ہوجائے….. امید کی کوفت بے معاشوں کے دلوں سے دورہو جائے۔‘‘ 15
اسی شمارے میں بے عنوان سے ایک خبرملتی ہے جس میں لکھنؤ کے تاجروں نے سرکارکمپنی کے خلاف احتجاجاً اپنی دکانیںبند کردی تھیں۔یہ احتجاج ایک ہڑتال کی شکل اختیارکرگئی تھی۔ اس کو دیکھتے ہوئے سرکارکمپنی نے ایک اشتہار جاری کرکے قانون واپس لے لیا۔تب ساری دکانیں کھلیں:
’’شرف الدولہ بہادر، گنجیاتِ مستاجر نے، دوکانداران یحییٰ گنج پران دنوں کڑی کی،سب دوکانداروں نے دوکانیں بند کرکے تاروالی کوٹھی کی راہ لی، ڈپٹی کمشنر بہادر کی پناہ لی، بے دادکی داد چاہی، اپنی مرادچاہی، کئی دن تک بازار بند رہا، خرید و فروخت کا کاروبار بند رہا، آخر ڈپٹی کمشنر بہادر کا مزاج انصاف پرآیا،مستاجرکے نام ایک مضمون کا پروانہ جاری فرمایاکہ اگردستورکے خلاف نیا سیاق نکالو گے، آپ کوآفت میں ڈالو گے، دوسرے کویہ مستاجری عطا ہوجائے گی، آزاررسانی تمہارے حق میں بَلا ہوجائے گی،جب جاری یہ پروانہ ہوا،فریادی اپنے گھرکوروانہ ہوا،ناشادگئے تھے شاد آئے۔‘‘16
لکھنؤ پرجب سرکارکمپنی کاپورا تسلط ہوگیاتو لکھنؤ کی معاشی حالت بہت خراب ہوگئی، ضروریات زندگی کی قلت سے لوگ نان ِشبینہ کے محتاج ہوگئے۔ اجناس کی قیمتیں آسمان کوچھونے لگیں۔ اس مہنگائی کا اثر عوام پر گہرا پڑا۔ اخبار سحر سامری نے 15دسمبر 1856کے شمارے میں ’لکھنؤ میں غلہ کی نایابی‘کے عنوان سے اس دور کے حالات اور حکمرانوں کی بداعمالیوں اور بدانتظامیوں کا انکشاف اپنے لکھنوی اسلوب میں یوں کیا ہے:
’’ان دنوں غلے کی گرانی ہے،گرانیِ خاطرکی ارزانی ہے۔ اس قدرمہنگا اناج ہے (کہ) آسیائے فلک بھی دانے کو محتاج ہے۔ فاقہ کشوں کی برق آہ شرربارسے قرص ماہ جل گیا۔ گردہ ٔنان خورشید لشکرغم پاؤں کے نیچے کچل گیا۔ جو رفاقہ سے افاقت نہیں۔ کون ہے جسے درد شاقہ سے رفاقت نہیں۔ بے معاشی نے ہرقماش کے آدمی کا اطمینان کھو دیا، جس دانانے حال بربادیٔ سلطنت سنا، رو دیا۔ دور عہد شاہی کیامٹا، گویا گیہوں گھن لگا۔ ایک تو معاش نہیں، جائے تلاش نہیں۔ دوسرے وفور غم سے گندمی رنگ ہربشرنیلا ہوا۔ گویامفلسی میں آٹاگیلاہوا۔ یہ مثل ہے ایک دوست کی زبانی۔’چاربلائے چودہ آئے۔ دے دال میں پانی‘۔ میزبان مہمان کو کیا بلائیں، نہ خود کھائیں، نہ ان کو کھلائیں۔ خونِ دل بجائے شراب ہے۔ لخت جگر کباب ہے۔بدحواسی سے زوال اعتدالِ مزاج ہوا۔ ہرغریب روٹی کے ٹکڑے کو محتاج ہوا …… ایک روپیہ کاسولہ سیرآٹاہے۔ بنیوں کی بن آئی۔گوخریداروں کو گھاٹا ہے۔ تیل مہنگا، گھی سستا ہے۔ محتاج روتا ہے، توانگر ہنستا ہے۔ چکنی چپڑی باتوں سے تدبیرنہیں چلتی ، بہت سرپٹکتے ہیں دال نہیں گلتی،حاکم اس طرف عنان توجہ موڑتا نہیں، بس کیاکریں،اکیلاچنابھاڑ پھوڑتانہیں…..‘‘17
اخبارسحرسامری کے مطالعے سے اس عہدکے اودھ کا پورا منظرآنکھوں کے سامنے آجاتاہے۔ سیاسی بحران، بے انتظامی، عوام کی زبوں حالی، لوٹ مار اورصنعتوں کی بربادی کواخبارنے بہت ہی دردانگیز انداز میں پیش کیاہے جس کوپڑھ کر روح کانپ اٹھتی ہے اورشاہی رعیتوں کے ساتھ جو کچھ ہوا، آنکھیں خون کے آنسورونے لگتی ہیں۔ اسی طرح کی ایک خبر ملاحظہ ہو:
’’زہے خط لکھنؤ: افسوس ہے کہ بے معاشی نے سب کو مجبور کردیا، بڑے بڑے طبیعت داروں کو معذور کردیا، ورنہ یہاں کے صناع توایسی ایسی صنعتیں دکھاتے کہ دیکھنے والوں کے ہوش جاتے، ہیہات کہ یہ خط اب بالکل بے چراغ ہوگیا، دست نیرنگی روزگار سے تاراج یہ باغ ہوگیا۔ فلک نے سہارا معاش کابگاڑدیا،سہاگھرتلاش کامٹادیا، ہزاروں گھبرا کر شہر سے نکل گئے ہزاروں سسکتے ہیں، بے مائیگی سے جانوں پر ابنی ہے۔سرٹپکتے ہیں الرحم الرحمین رحم فرمائے توپناہ ہے نہیں تو اب یہ شہر چند ہی روزمیں تباہ ہے۔‘‘ 18(نادری،ص400)
’سحرسامری‘ سرکار کمپنی کی ملازمت کو اپنے سلطان شاہ کے ساتھ غداری اور بے وفائی پرمحمول کرتاتھا۔ اگرچہ معاشی بدحالی اورفاقہ کشی کی وجہ سے ہرکوئی دوچارتھا۔ اس کے باوجودکوئی شاہی ملازمت چھوڑکر سرکار کمپنی بہادرکا نوکر یا پنشن خوار ہونا بہت معیوب سمجھتا تھا۔ اگرکوئی اتفاقاً یا بہ حالت مجبوری اسے قبول کربھی لیتا تھا تو اسے طعنہ دیاجاتا تھا اوراسے سماج میں ذلیل کیاجاتا تھا۔ اس کی ایک مثال دیکھیے:
’’حیدرعلی کپتان پلٹن نادری کے حضرت کے ملازم قدیم تھے، حق نمک ولی نعمت سے خوب ادا ہوئے یعنی باوجود اس کے کہ حضرت سلطان عالم نے ان کو بدستور ملازم رکھا تھا، نمک پروردہ قدیم کاخیال پرورش لازم رکھا تھا باعث خام طبعی سے پینشن سرکارانگریزی لی۔ عنایت شاہی پرمطلق نظرنہ کی خدائے کریم ہمارے شاہ جہاں پناہ کوجلد کامیاب فرمائے آئینہ مرادسے شاہد مقصود جلوہ دکھائے۔ ‘‘ 19
1857کی جنگ آزادی سے قبل ہر اخبار میں یہ خبر اس قدرعام تھی کہ شاہ ایران فوج لے کرہندوستان آرہا ہے اورانگریزوں سے جنگ کرے گا۔ سحرسامری میں بھی اس عنوان کے تحت خبریں ملتی ہیں۔ اس سے انگریزوں کے خلاف ہندوستانیوں کی بے بسی اورمفلوج ذہنیت کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ شاہزادہ شیرازکی آمدکے بارے میں اخبار نے لکھاکہ
’’ایک شیراز کا شہزادہ مع دس ہزارسپاہ جرار اور پندرہ ضرب توپ رعدخروش قدم بڑھائے چلا آتا ہے۔ ہمت مردانہ وجرأت… بہادران بیشہ دلاوران جسارت کو دکھاتا ہے، قریب پہنچ کے سرکاری فوج سے بے شک دست وگریباں ہوگا۔ خداجانے کس کس کاجامہ حیات چاک دامان ہوگا۔‘‘20
اٹھارہ سوستاون کی جنگ کاآغاز تومئی کے مہینے میں ہوا مگر 1857 کے اوائل ہی سے بغاوت کے بادل ہندوستان کے آسمان پر منڈلانے لگے تھے۔اس سلسلے کی ان گنت خبریںسحرسامری میں ملتی ہیں۔لکھنؤ میں جب کار توسوں کا معاملہ سامنے آیاتو سحر سامری بھی پیچھے نہ تھا۔ اس اخبار نے بھی دبی ہوئی چنگاریوں کو اور ہوادی جس سے ملک میں انگریزدشمنی اور بغاوت کاماحول گرم ہوگیا۔ اس سلسلے کی ایک خبراخبار’سحر سامری‘ میں شائع ہوئی تھی:
’’سابق صحائف اخبارسے معلوم ہواتھاکہ سپاہیان بارک پورعرف اچانک کے واسطے حکم سرکار ہوا ہے کہ ہندوؤں کو ایسے کارتوس ملیں جن کا منھ چربی سے بند ہو اور اہل اسلام کووہ دیے جائیں جن کا منھ خوک کی چربی سے پیوند ہو یہی باعث ہنگامہ وفسادبے شمارہے۔ چنانچہ وہ حکم سپاہیوں نے نہ مانا ہرایک حفظ دین وایمان مناسب جانا۔ اب صاحب سلطان الاخبارفینکس سے ناقل ہے انداز دخل اندازی ملت حاصل ہے کہ دوبارہ وہی حکم برم پور کے سپاہیوں کے واسطے صادر ہوا اورافسرپلٹن کے اطلاع دینے پرہرفرد وبشرپرظاہر ہوا۔ چنانچہ سپاہیان ہنودو اسلام نے اپنے اپنے مذہب کاپاس کیا ،سب نے متفق اللسان جواب دیاکہ احکام سرکارہمارے سر آنکھوں پر مگراس حکم کی تعمیل میں فتور ہیں بیشترجان جائے یارہے مگرایمان نہ چھوڑیں گے صرف شکم پروری کے واسطے راہ دین مبین سے رخ نہ موڑیں گے۔ جب افسرنے جواب ان سے صاف پایا اوران کامحض نظر آیا فوراً چندضرب توپیں اور سواران جنگی طلب کیے۔سپاہیان جنگ سب درست کیا۔ لڑنے بھڑنے پرہرایک کمرکو چست کیاتمام شب بیدار ہے۔ سعی و کوشش سے ہرطرح ہوشیار رہے کہ مبادا گوروں کی پلٹن بے خبر پاکرحملہ آورہو اور غفلت قوم میں سب انتظام ابتر ہو ۔غرض کئی روزتک بڑاشورشغف ہوا۔ سرفروشاں راہ دین وایمان کویہ امرمنظورنہ ہوا۔ اکثر مردم قرب و جوارمال و متاع ْخانگی زیرزمین دفن کرکے خوف جان سے فرار ہوئے اور مشہور ہے کہ انیس رجمنٹ کے سپاہی اس قدر شور و شرپر تیار ہیں کہ اپنے افسرسے بے اطلاع کلکتہ کی طرف چلے گئے۔اسلحہ حرب وضرب سب اپنے ساتھ لے گئے۔ ہمارے نزدیک سرکارعالی وقارکی دانائی سے یہ نہایت بعیدہے کہ رعیت و سپاہ اس قدرحکم شدیدہے ۔ خصوص اس زمانے میں کہ ہرطرف سے آتش ہنگامہ جنگ وجدل شعلہ بارہے، چارجانب سے معرکہ کارزار نمودار ہے۔‘‘ 21
کارتوس کی یہ چنگاری جوبرم پوراوربارک پورکی چھاؤنیوں سے اٹھی تھی۔ آہستہ آہستہ پورے ہندوستان میں آگ کی طرح پھیل جاتی ہے۔ لکھنؤ جہاں کے لوگ انگریزی سرکارسے پہلے ہی سے نالہ تھے اور خارکھائے بیٹھے تھے۔ ہندوستان کے دیگرشہروں کی طرح لکھنؤ فوجی چھاؤنی میں بھی اس کی شروعات ہوگئی تھی۔ جو ’لکھنؤ‘ کے زیر عنوان سحر سامری نے لکھاتھاکہ
’’لکھنؤ:……ان دنوں نیاگل موسیٰ باغ میں شگفتہ ہوا۔ مانندبوئے گل افشائے رازن ہفتہ ہوا۔چھ سوجوانان پلٹن منیگنس صاحب جوفی الحال ملازم سرکارکمپنی بہادر تھے، کارتوس کاٹنے پریہاں سے باہرہوگئے، عدول حکمی پر کمر باندھ کر کشادہ پیشانی سے آمادہ فساد و شر ہوئے۔ ایک چٹھی اس پلٹن سے نزدیک افسران فوج میڈیانوں روانہ ہوئی۔ آخر کاریہ بات افسانہ ہوئی سرکارکو تدارک مد نظر ہوا، منظوردفعیہ آتش شرہوا، وہ لوگ نافرمانی کے باعث راہ فرمانبرداری سے پھرگئے، فوج جنگی سرکاری ان کے سروں پر سردست آپہنچی، نرغے میں گھرگئے، کچھ تدبیر بن نہ آئی دست وپاچہ ہوئے منھ کی کھائی،رنگ چہروں کاخوف سے دھواں ہوا، ہوش چھوٹ گئے، دل ہراساں ہوا، مقابلہ سے منھ پھر گیا،پیٹھ دی بغلیں جھانکنے لگے۔‘‘22 (11؍مئی 1857)
اسی طرح18؍مئی1857کے اخبارسحرسامری میں ’خبربنگالہ‘کے عنوان سے ایک خبرقران السعدین سے نقل کی گئی ہے۔ اس وقت سرکارکمپنی کوبغاوت کااندازہ ہوگیا تھا۔ انھوں نے بنگال کے تمام نواب لفٹنٹ گورنرکوخطوط کے ذریعے اطلاع دی گئی تھی کہ وہ ہوشیاررہیں اوراپنے علاقوں کی حفاظت کریں:
’’اخبارکلکتہ سے روایت ہے۔ دوراندیشی کی حکایت ہے کہ ان دنوںنواب لفٹنٹ گورنربہادرکی طرف سے اس مضمون کی سرکلر چٹھیاں زیب قلم ہوئی ہیں۔ بنگالہ کے سب محشریوں(مجسٹریٹوں؟) کے نام رقم ہوئی ہیں کہ اپنے اپنے علاقوں کی خبرداری وحفاظت کریں، ہوشیاری کادم بھریں۔یہ خیال صبح و شام ہے۔ نہایت اندیشے کامقام ہے کہ انیسویں رجمنٹ کے سپاہی جو نوکری سے یک قلم موقوف ہوئے ہے،بغض وعناد میں مصروف ہوئے ہیں……‘‘23
اخبارسحرسامری میں مولوی احمداللہ شاہ کے متعلق بھی خبریں ملتی ہیں، جب فروری1857 میں وہ لکھنؤسے فیض آبادچلے آئے توفیض آباد پر ایک مجاہدانہ رنگ آگیا اور ان میں فرنگیوں اور عمالِ کمپنی سے انتقام لینے کی آگ بھڑکنے لگی۔ آپ کے پاس ہزار ہافداکارجمع ہونے لگے اور ہر ایک اسلحہ سے آراستہ تھا، اس کے ساتھ ہی ان کو باضابطہ جنگی تربیت اور قواعدکی تعلیم دی جانے لگی۔یہ خبریں حکام تک پہنچیں،انہوں نے کوتوال شہرکوآپ کے پاس بھیجا کہ قواعد اور اسلحہ بندی کیا معنی رکھتی ہے۔24 فیض آباد کے ڈپٹی کمشنریہاں کی جورپورٹ 17 فروری 1857 کو لکھی اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ 16 فروری کو شام کے وقت لفٹنٹ تھرمس بورن کو اطلاع ملی کہ ایک فقیر مع اپنے چند مریدوں کے شہر کی سرائے میں مقیم ہے۔ لوگ جوق درجوق اس کی زیارت کو آتے ہیں۔ فقیر کا کھلا ارادہ ہے کہ وہ لوگوں میں بغاوت پھیلا کر ان کوبلوہ کے لیے آمادہ کرے۔ چنانچہ تھرمس بورن مع چندسپاہیوں کے وہاں پہنچا اور دیکھا کہ سڑک اوردروازے کے علاوہ سرائے کے اندربھی لوگوں کا بے حدہجوم ہے۔مولانااس وقت نمازکے لیے (غالباًمغرب کی) تشریف لے گئے تھے۔واپسی تھرمس بورن نے ان سے بات کی اورکہاکہ وہ ہتھیارجمع کردیں۔جب فیض آبادچھوڑیں گے تو ہتھیار واپس مل جائیں گے۔اس پرمولانا احمداللہ نے جوفقیرانہ لباس میں تھے، مردانہ وار جواب دیاکہ ’’ہم ہتھیار نہیں دیں گے کیونکہ یہ ہمیں اپنے پیر سے ملے ہیں‘‘اس جواب اور تکرارپرسول گارڈکے سپاہی بلائے گئے۔پھردرخواست کی گئی کہ’’ہتھیارواپس کر دواورآزادی سے شہرکے باہر جاسکتے ہو۔‘‘جواب پھردوٹوک پایاکہ’’فقیراپنی مرضی سے شہر چھوڑے گا‘‘اس جواب پر سپاہیوں کوحملے کاحکم دیاگیا۔ ادھرسے مولاناکے ہمراہیوں نے (بموجب رپورٹ تقریباً دس تھے) مقابلے کی ٹھان لی۔ مولانانے اسپیشل اسسٹنٹ (لفٹنٹ)پرتلوارسونت لی مگرلفٹنٹ مذکورنے مقابلے کی ہمت نہ کی،وہاں سے ہٹ گیا اور پہرہ بٹھادیا تاکہ وہ مجمع منتشر ہو جائے جو جامع مسجدکے قریب جمع ہو گیاتھا۔اس کے بعد اس نے مزیدفوجی کمک طلب کر لی اورڈپٹی کمشنر فوربس کواطلاع کردی جو دورے پرگیا ہوا تھا۔ 17فروری کوفوربس مع چند افسروں کے مولاناکے پاس گیا۔اس کی فہمائش اور سوالات کے جواب بھی اسی دلیری اوربے باکی سے ملے۔ اس پرطے کیا گیا کہ ان فقیروں، پر اچانک حملہ کیا جائے۔پہرداردستہ ، مدگار دستہ، جو رائفل اور سنگینوں سے مسلح تھا۔اور دیگر سپاہ حملہ آور ہو۔ مگرمولاناکے ساتھیوں نے یہ اشارہ سمجھ لیااوروہ سب تلواریں سونت کرسپاہیوں پر ٹوٹ پڑے۔ لفٹنٹ ٹامس بری طرح زخمی ہواجس کو مولانانے گھائل کیا۔ مولاناکے تین ہمراہی شہیدہوئے خودمع چند جاں نثاروں کے زخمی ہو کر گرفتار ہوئے اور این۔آئی ہسپتال میں زیر علاج رہے۔25اس کی تائید 9 مارچ 1857 کے اخبار ’سحر سامری‘ کی اس خبرسے بھی ہوتی ہے۔
’’فیض آبادسے ایک آشنائے ہمدم کاخط آیا۔ یہ حال صاف لکھا پایاکہ ایک شخص مسلمان رئیس زادگان ملک دکن سے، سات آٹھ آدمی ہمراہ لے کے سرائے فیض آباد میں مقیم تھے۔آپ کو فقیر قرار دے کے انگریزوں سے مستعدجہادبے خوف وبیم تھے۔ہرگلی کوچے میں مع ہمراہیان خاص ہتھیار باندھے پھرتے تھے کہ شہرمردمانِ پولس یہ حال دیکھ کربراہِ تعرض گھیرتے تھے۔ رفتہ رفتہ خبر ہوئی کہ بلوے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ سپاہیان ِسرکارنے تگ و دو بے شمارکی، ہتھیارلے لینے میں تکرار کی۔ کہا کہ یا’’سب ہتھیار دے دو یا اسی وقت اپنا راستہ لو‘‘ جواب دیا ’’کہ نہ ہم ہتھیاردیں گے نہ کسی سے جھگڑا فسادمول لیں گے۔‘‘الغرض کوتوال صاحب اورتھرمس بورن کمشنر نے سنا،استفسار حال کے واسطے طلب کیا۔ان کو انکار ہوا۔نہ جانے میں اصرار ہوا۔ آخر صاحب ِموصوف (کمشنر)خودتشریف فرما ہوئے بہت فہمائش کی وہ ایک نہ شنوا ہوئے۔ ناچار ایک کمپنی بلاکے حفاظت کاکام کیا۔ رپورٹ اس مضمون کابہ مقام بھدرسہ کہ فیض آباد سے پانچ کوس ہے، ڈپٹی کمشنربہادرکے نام کیا، صاحب بہادر یہ حال سنتے ہی سوار ہوئے، مقام واردات پروارد وہ عالی مقام ہوئے۔ ہنگامِ طلوع آفتاب جمیع صاحبان والا جناب رونق افزا ہوئے۔ حاکمانہ،بلکہ ناصحانہ سمجھایا مگروہ کج فہم برسرِراستی نہ ذرہ ہوئے۔حاکم سے مقابلہ آسان جانا،اس شعر کامضمون نہ پہچانا ؎
ہر کہ بافولاد و بازو پنجہ کرد
ساعد مسکین خود را رنجہ کرد
افسرپلٹن نے سرائے میں جس دم قدم بڑھایا۔ شاہ صاحب کی طرف سے ایسی ایک تلوار استقبال کی چلی کہ افسر کا ہاتھ جھوٹا ہوا،زخم کاری کھایا۔ڈپٹی کمشنربہادرنے حکم دیاکہ لینا،ایک ایک کوجانے نہ دینا۔پلٹن کے تلنگے مسلح تھے۔ اسی دم چارآدمی گولیوں کی ضرب سے بے جان کیے ، اورشاہ صاحب مع چار آدمی زخمی ہوئے، گرفتار بلاد بے رحمی ہوئے۔‘‘26
ایک خبرگورنرجنرل لارڈڈلہوزی سے متعلق ہے۔ یہ خبراپنے اندازبیان اورمواد کے اعتبارکے بہت اہم ہے۔ اس کامطالعہ دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔1857 قبل ویلزلی کے بعد جنھیں جوش غصب والحاق میں خاص شہرت حاصل ہوئی وہ لارڈ ڈلہوزی کی ہے۔ جب ڈلہوزی گورنر جنرل بن کر ہندوستان آیا تو اس نے جھاڑو اٹھالیا اور ہر علاقے کو کوڑے کرکٹ کی طرح سمیٹ کر انگریزی اقتدار میں ڈالنا شروع کردیا۔ دیسی حکمرانوں کے احساسات کو نظرانداز کرتے ہوئے اندھادھند کمپنی کے مقبوضات بڑھانے میں مصروف ہوگیا۔ ہندوستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک کمپنی کے قبضے میں آگیا۔ ایک ایک کرکے سارے تخت ٹوٹ گئے۔ جو سلامت رہے وہ کمپنی کادم بھرنے لگے۔ لارڈڈلہوزی پر طنزکرتے ہوئے اخبار سحرسامری لکھتاہے:
’’اخبار مورودہ لندن سے مبرہن ہوا کہ لارڈ ڈلہوزی خیرخواہ ہند، ترقی طلب سرکارکمپنی انگریز بہادر مبتلائے رنج محن ہوا۔ یعنی پشت راہوار سے گرکر مانند تیمور لنگ ہوا۔ بے راہ چلنے سے دل تنگ ہوا۔مہتم ’گلشن نوبہار‘ فرماتے ہیں کہ شاید دودِآہ دل درویشان ہند کا یہ اثر ہے۔ بمزلہ زہرہلاہل قند مکرر ہے لیکن زہے نصیت کہ زیادہ عروج پایا، یعنی ان دنوں وزیر مہمات کاعہدہ ہاتھ آیا۔ خدامعلوم ہے کہے آئندہ کیامرتبہ حاصل ہو۔ پیغام دل آزاری ہے کہ لارڈ ڈلہوزی کو (ہندوستان کا گورنر جنرل بننے کی) ہوس دوبارہ ہوئی۔ یہ تجویز آشکار ہوئی کہ خرمہرہ ہائے باقی بنگالہ وہند آکے پھر چنے۔ ہر ایک مالدار تونگر محتاج ہوکر اپنا اپناسردھنے اس حسن نیت سے ارباب پارلیمنٹ کے حضور میں سوال دیا اور انھوں نے نیک کرداری سمجھ کر منظور کیا۔ کس واسطے کہ ہندوستان میں بھی دو چار ریاستیں باقی ہیں اور وہ اس شکاربازی نامور مشاقی ہیں۔جس وقت ان ریاستوں کا(لارڈ ڈلہوزی کو)خیال آتاہے ان کے دل میں ضبط نہ ہونے سے ملال آتا ہے۔‘‘27
یکم دسمبر1856کی ہی اشاعت میں تاربرقی کے ایجاد کی ایک خبرملتی ہے کہ اہل فرنگ کے طرز پر ایک ہندوستانی نے بھی تاربرقی ایجادکی ہے لیکن پیسے کی مجبوری اورسامان کی کمی کی وجہ سے اپنے کام کوانجام دینے سے قاصر ہے۔خبرمیں پہلے مغربی ایجادات پرروشنی ڈالی گئی ہے اس کے بعدتاربرقی کی ایجاد کا ذکر کیا ہے:
’’اہل فرنگ جو ایجاد کرتے ہیں،نئی باتیں نکالنے پر مرتے ہیں۔ غورکیجیے کیسا فروغ خاطرانھیں حاصل ہے، کیسا اطمینان کامل ہے۔ نہ معاش کی فکرہے نہ مفاد کا ذکر ہے۔ اگراس پربھی کسب کمال نہ کریں جائے تعجب ہے۔ ہاں اگرہم میں سے کوئی کوئی طرح کااختراع بھی کرجائے تعجب بالائے تعجب ہے۔ کیونکہ جوذی کمال ہے، پریشان حال ہے جوصاحب ہنرہے،دربہ درہے…
یہاں مفتی گنج میں ایک بزرگ ہیں، مقبول انام، میر منور علی نام، ہنرشناس ہنرور،وضع دارنیک سیر۔ ان کے خلف الرشید ذہین اورسعید۔نام ان کا میرمحمدنقی عرف میرنبی صاحب۔طبیعت ان کی ہرفن کے ساتھ مناسب۔ انھوں نے بہ زور طبع وقار تار برقی بنالیا۔ سیکڑوں آدمیوں کو دکھایا۔ بے سامانی سے مجبور ہیں۔بے زری سے معذور ہیں۔ طول نہیں دی جاسکی۔ سامان اس کانہیں لی جاسکتی۔ صرف اس قدربھی حیرت افزائی ناظرین بنادیاہے کہ ایک سر اتارکا گھرکے اندر لگا دیاہے دوسرا سراگھرسے باہر ڈیوڑھی کے اندر۔‘‘28
بہرحال اخبار ’سحر سامری‘ اس دورکے باشندگان لکھنؤ کے حالات وجذبات کاصحیح عکاس اور آئینہ دار تھا جس میں اس دور کے لکھنؤ کے عوام کی جیتی جاگتی تصویریں اور انگریزکمپنی بہادر کی ستم ظریفیاں اور سفاکیاں، دغا بازیاں اور بدعہدی سبھی دیکھی جاسکتی ہیں۔29
حواشی
1 امدادصابری، تاریخ صحافت اردو، جلداول، ص513، چوڑی والان، دہلی1953
2 نادر علی خاں: اردو صحافت کی تاریخ (1822-57)، ص 397-98، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، 1987
3 اخبارسحرسامری،یکم دسمبر1856 جلداول، نمبر3، بحوالہ مضمون محمدعتیق صدیقی، سحرسامری، نیادور، لکھنؤ،مئی 1960
4 نادر علی خاں: اردو صحافت کی تاریخ (1822-57)، ص 398، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، 1987
5 ڈاکٹر طاہر مسعود: ارد وصحافت انیسویں صدی میں، ص 312-13، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،دہلی2009
6 نادر علی خاں: اردو صحافت کی تاریخ (1822-57)، ص 399، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، 1987
7 ڈاکٹر طاہر مسعود: اردوصحافت انیسویں صدی میں، ص313، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،دہلی2009
8 اخبارسحرسامری، یکم دسمبر1856جلداول،نمبر3،بحوالہ مضمون محمدعتیق صدیقی،سحرسامری، نیادور، لکھنؤ،مئی 1960
9 نادر علی خاں: اردو صحافت کی تاریخ (1822-57)، ص 407-8، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، 1987
10 اخبارسحرسامری، یکم دسمبر1856، جلداول،نمبر3،بحوالہ مضمون محمد عتیق صدیقی،سحرسامری، نیادور، لکھنؤ،مئی1960
11 ایضاً
12 ایضاً
13 سید خورشیدمصطفی رضوی، تاریخ جنگ آزادی ہند 1857، ص 131، یوپبلشرز،اردوبازار،لاہور2007
14 سرسیداحمدخان،اسباب بغاوت ہند،ص29
15 اخبارسحرسامری،یکم دسمبر1856، جلداول،نمبر3،بحوالہ مضمون، محمدعتیق صدیقی،سحرسامری، نیادور، لکھنؤ،مئی 1960
16 سحر سامری، 2 شہر ربیع الثانی 1273 ھ، مطابق 11 ماہ دسمبر 1856، روز دوشنبہ، جلد 3، بحوالہ مضمون محمد عتیق صدیقی، سحر سامری، نیا دور لکھنؤ، مئی 1960)
17 ایضاً، (اخبارسحرسامری،15 دسمبر1856،بحوالہ مضمون محمدعتیق صدیقی، سحرسامری، نیادور، لکھنؤ، مئی 1960،بحوالہ صابری، تاریخ صحافت اردو،جلداول، ص514-515
18 نادر علی خاں: اردو صحافت کی تاریخ (1822-57)، ص 400، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، 1987
19 ایضاً،ص401
20 ایضاً،ص406
21 ایضاً،ص404-5
22 خبارسحرسامری، یکم دسمبر1856، جلداول، نمبر3، بحوالہ مضمون بحوالہ محمدعتیق صدیقی،سحرسامری، نیادور، لکھنؤ،مئی 1960
23 اخبارسحرسامری، 18مئی1857، جلداول، نمبر27، بحوالہ مضمون بحوالہ محمدعتیق صدیقی،سحرسامری، نیادور، لکھنؤ،مئی 1960
24 مفتی انتظام اللہ شہابی، ایسٹ انڈیاکمپنی اور باغی علما، ص77، زایہ پبلشرز ، لاہور
25 سید خورشید مصطفی رضوی: تاریخ جنگ آزادی ہند، 1857، ص 425-26، یوپبلشرز، اردو بازار، لاہور 2007
26 اخبارسحرسامری،یکم دسمبر1856، جلداول، نمبر3، بحوالہ مضمون محمدعتیق صدیقی،سحرسامری، نیادور، لکھنؤ،مئی 1960
27 20 اپریل ،اخبارسحرسامری1856، بحوالہ اردوصحافت اورجنگ آزادی1857، معصوم مرادآبادی، ص170، خبردار پبلی کیشنز، دریاگنج، دہلی 2008
28 اخبار سحر سامری، یکم دسمبر 1856، بحوالہ ڈاکٹر طاہر مسعود، اردو صحافت انیسویں صدی میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی 2009
29 نادر علی خاں: اردو صحافت کی تاریخ (1822-57)، ص 407-8، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، 1987
Dr. Md. Makhmoor Sadri
Research Associate, Dept of Urdu
Faculty of Arts
Delhi University
Delhi – 110007
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page