محمد اکرام
9654882771
’کوثرمظہری کا زاویہ تنقید‘ کےبعد ان کی تنقیدی کتابوں کا اجمالی جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔ تاکہ قارئین کوثر مظہری کے تنقیدی نظریات و افکار کو صحیح معنوںمیں سمجھ سکیں۔
’جرأت افکار‘ کوثر مظہری کی پہلی تنقیدی کاوش ہے، جو 2002 میں استعارہ پبلی کیشنز دہلی سے شائع ہوئی ہے۔ اس میں کل 21مضامین شامل ہیں۔ ان میں ادب، تہذیب اور سماج، مسئلہ نقاد پیدا کرنے کا، جدید ادبی نسل: رجحانات و مسائل، جواز 80 کے بعد کی غزل، شبلی اپنے عہد کے پس منظر میں، اسمٰعیل میرٹھی کی نظم، آثار سلف، غالب کا المیہ کردار خطوط میں، قاضی عبدالودود پر ایک نوٹ، کلیم الدین احمد کی تنقید: ایک تاثر، عملی تنقید اور تفہیم شعر و شاعری، مجاز کے بارے میں، جوش کی فکری کشمکش، فراق کی دو نظمیں، خلیل سیمابی، 1994 کا ساہتیہ اکادمی انعام مظہرامام، عنوان چشتی کا زاویہ تنقید، میراث ہنر (تبصرہ)، شہپر رسول کی شعری کائنات، خالد محمود کا جہانِ شعر، بھنور میں ایلس: ایک جائزہ، گردش پا (تبصرہ) کے نام لیے جاسکتے ہیں۔
کوثر صاحب کے اس تنقیدی مجموعے پر اتنی گفتگو نہیں ہوئی جتنا ان کے ناول’ آنکھ جو سوچتی ہے‘ پر ہوئی ہے۔ شاید ابھی تک قارئین کوثر صاحب کو ایک تخلیق کار کے طور پر ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ اب ان کے تعلق اب یہ نظریہ بدل چکا ہے۔ اب وہ ایک عمدہ تنقید نگار کے طور پر اردو ادب میں جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ ’جرأت افکار‘ میں کئی ایسے مضامین ہیں جو چونکانے کے ساتھ ذہن و دل پر نیا نقش مرتب کرتے ہیں۔ انھوں نے کچھ مضامین میں ایسے مباحث قائم کیے ہیں جس سے سرسری طور پر گزرنا شاید ناانصافی ہوگی۔ ’جرأت افکار‘ کے ان مضامین ’مسئلہ نقاد پیدا کرنے کا‘، ’جدید ادبی نسل: رجحانات و مسائل‘، ’جواز 80 اور بعد کی غزل‘، ’غالب کا المیہ کردار خطوط میں‘، ’جوش کی فکری کشمکش‘ وغیرہ کے مطالعے کے بعد ہی کوثر صاحب کے تنقیدی افکار کو صحیح طور پر سمجھا جاسکتا ہے۔ اس کتاب میں شامل ’مسئلہ نقاد پیدا کرنے کا‘ یوں بھی بہت اہم مضمون ہے کہ اس کے ذریعے انھوں نے اس عہد کے نامور ناقد اور محقق شمس الرحمن فاروقی کے کچھ نظریات کو جس عمدہ طریقے سے رد کیا ہے، وہ لائق ستائش ہے۔
’جدید نظم: حالی سے میراجی تک‘ (تہذبی تناظر میں منتخب نظموں کا تجزیہ) کوثر مظہری صاحب کی یہ بہت اہم تحقیقی و تنقیدی کتاب ہے ۔ یہ کتاب مظہر پبلی کیشن کے زیر اہتمام 2005 میں شائع ہوئی تھی۔ اس کی اشاعت میں قومی اردو کونسل کی مالی معاونت بھی شامل تھی۔ اس کا دوسرا ایڈیشن 2008 میں منظرعام پر آیا۔ اس کتاب کا انتساب مشہور دانشور و ادیب شمس الرحمن فاروقی کے نام ہے۔ کتاب کے داہنے فلیپ پر پروفیسر قمر رئیس اور بائیں فلیپ پر پروفیسر حامدی کاشمیری اورڈاکٹر مولابخش کی قیمتی آرا شامل ہیں۔ کتاب کے بیک کور پر کوثر صاحب کے پی ایچ ڈی کے سپروائزر شمیم حنفی صاحب کی بیش قیمت رائے شامل ہے۔ یہ کتاب دراصل ان کے پی ڈی ایچ ڈی کا مقالہ ہے جسے انھوں نے کتابی صورت میں شائع کرایا ہے۔ اس کا شمار حوالہ جاتی کتاب کے طور پر ہوتا ہے۔ جدید نظم اور نظم نگاروں کے حوالے سے ہند و پاک میں یہ کتاب بنیادی حیثیت کی حامل ہے۔ اس کتاب کو دو ابواب میں منقسم کیا گیا ہے۔ پہلا ’نمائندہ نظم نگار شعرا‘ اور دوسرا ’دو متوازی میلانات‘ اس باب کے تحت دو ذیلی عناوین بھی شامل ہیں: پہلا ترقی پسند ادبی تحریک اور دوسرا حلقۂ ارباب ذوق۔ دونوں ابواب سے پہلے پیش آہنگ کے علاوہ دو مضامین ’شعر و ادب اور تہذیبی تناظر‘ اور ’انیسویں صدی کی نظم: تہذیبی تناظر میں‘ جیسے مضامین شامل ہیں۔
’نظم‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں ’لڑی میں پرونا‘۔ ترتیب ، تزئین ، تنظیم،انصرام ،انتظام ، اہتمام ، قاعدہ ، اصول ، ضابطہ ، بندش بھی نظم ہی کے معانی ہیں۔ اپنے معانی و مفاہیم کی وسعت کے اعتبار سے نظم کا دائرہ بھی کافی وسیع ہے۔اردو میں نظم نگاری کے بنیاد گزار اردو کے پہلے صاحب دیوان قلی قطب شاہ کو مانا جاتا ہے۔ 1874 میں مولانا محمد حسین آزاد نے بزمِ مناظمہ کی بنیاد ڈالی تو نظم میں جدید رجحانات اور موضوعات سامنے آئے۔ اسی زمانے میں ’مقدمہ شعر و شاعری‘ کے ذریعے حالی نے شاعری کے اصول و ضوابط پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ اس طرح جدیدنظم کے آغاز کا سہرا الطاف حسین حالی اور مولانا آزاد کے سر باندھا جاتا ہے۔ ترقی پسند تحریک نے نظم جدید کو نیا آہنگ اور لب و لہجہ عطا کیا۔ جب ہم جدید نظم کے پس منظر کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اردو میں جدید نظم کیتشکیل و تعمیر میں انجمن پنجاب لاہور کا قیام، مغربی نظموں کے اردو تراجم، 1957 کی ناکام جنگ آزادی، وغیرہ کا کلیدی رول رہا ہے۔
مصنف نے کتاب کے نام میں نظم کے ساتھ تہذیبی تناظر کا ذکر کیا ہے۔ اصل میں ادب کا رشتہ انسان کی سماجی اور معاشرتی زندگی سے جڑا ہوتا ہے۔ کوئی بھی صنف اس رشتے سے عاری نہیں ہوتی۔ نظم کا رشتہ بھی انسانی تہذیب و معاشرت سے بہت قریب کا ہے۔ کسی ادیب کے شعری اثاثے کو اپنے مطالعے کا حصہ بنانے سے پہلے اس شاعر کے عہد کے سیاسی، سماجی اور تہذیبی پس منظر کو جاننا ضروری ہے۔ بغیر اس کے ہم صحیح طریقے سے اس شاعر کی تخلیقات کو نہیں سمجھ سکتے۔ جس طرح سماج میں تبدیلیاں ناگزیر ہیں اسی طرح ادب میں بھی تبدیلیاں رونما ہوتی رہی ہیں اورادب سماج کی تبدیلیوں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ لہٰذا ادب میں اتنی طاقت اور اثر انگیزی ہے کہ سماج میں شعوری انقلاب برپا کر دے۔ بشرطیکہ اس سطح کا ادب تخلیق ہو رہا ہو اور پھر سماج بھی اس سے اثر لینے کے لیے سنجیدہ ہو۔ادب، سماج کے پرکھنے کا ایک بہترین معیار اور پیمانہ ہے۔ کسی بھی سماج کی تہذیب و تمدن اور ان کی اعلیٰ قدروں کو معلوم کرنا مقصود ہو تو اس سماج کے مطالعۂ ادب سے آپ کو بخوبی معلوم ہو جائے گا کہ یہ سماج کس قدر مہذب رہا ہے اور اس سماج کی اعلیٰ قدروں کے کیا پیمانے اور اصول رہے ہیں۔
انسانی سانسوں میں جس طرح یہاں کی مٹی کی سگندھ رچی بسی ہوتی ہے، اسی طرح اردو نظم میں انسانی تہذیب و معاشرت کی جھلکیاں موجود ہوتی ہیں۔ شاعرکی یہ اہم ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ سماج کے حقائق اور تہذیبی اقدار کی پاسداری کرے۔ادب اور سماج کے رشتے پر بہت کچھ لکھا بھی جاچکا ہے۔ ترقی پسند ادیبوں نے تو ادب اور سماج کو ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم سمجھا۔ گویا پورا ادب انسانی تہذیب و معاشرت کے ارد گرد گھومتا ہے۔ کوثر صاحب نے تہذیب و ثقافت اور تہذیب تمدن کی اصطلاحات کو اپنے مطالعے کا حصہ بنایا ہے ۔ کتاب کے پہلے مضمون’شعر و ادب اور تہذیبی تناظر‘ میں تہذیب و معاشرت اور تہذیب و ثقافت کے حوالے سے ہندوستان کے کچھ قدیم شعر ا اور ان کی تصنیفات کا ذکر کیا ہے کہ انھوں نے اس دور میں اپنی شاعری میں ان کا استعمال کس طرح کیا ہے۔ ’کمار سمبھو‘ اور ’رگھوونش‘ جیسی تصانیف کا اس حوالے سے انھوں نے بطور خاص ذکر کیا ہے۔ تہذیب و معاشرت یا ثقافت کے حوالے سے انھوں نے بعض انگریز اور یورپین مورخین کا بھی ذکر کیا ہے۔ میکائیور، شیکسپیئر، اسپنسر، ملٹن البرخت وغیرہ اس حوالے سے قابل ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ ان مضامین میں عہد بہ عہد نظم گو شعرا اور ان کی شاعری کے حوالے سے گفتگو بھی ملتی ہے۔ تہذیب و معاشرت کے ضمن میں ’شعر و ادب اور تہذیبی تناظر‘ میں کوثر صاحب لکھتے ہیں:
’’اردو شعر و ادب کی صحیح تفہیم اور سمت و رفتا رکو سمجھنے کے لیے تہذیبی و ثقافتی پس منظرکو سمجھنا ضروری ہے۔ دوسری طرف یہ بھی خیال رہے کہ ہر دورکا ادب اپنے دوسر ے تہذیبی و ثقافتی عناصر و عوامل سے معمور ہوتا ہے اس لیے شعر و ادب کے مطالعے سے اس عہد کے میلان فکر کو بھی بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔ یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ سماج، تہذیب و ثقافت، روایات و اقدار کا سب سے بڑا اور سچا مبصر و ناقد شاعر یا ادیب ہی ہوتا ہے۔‘‘ (نظم جدید: حالی سے میرا جی تک، ص 31)
’انیسویں صدی کی نظم: تہذیبی تناظر میں‘ میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہر عہد کی شاعری اپنا تاریخی اور زمانی پس منظر رکھتی ہے۔ مثلاً 1857 کی انگریزوں کے خلاف ناکام بغاوت کو ہی لے لیں۔ اس سانحے کے نتیجے میں ہندوستانیوں کی سوچ میں کافی تبدیلی آچکی تھی۔ ایسے میں ادب میں اس کے اثرات کا پایا جانا ضروری تھا۔اس لیے کہا جاتا ہے کہ ہر عہد کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں، جنھیں ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے۔اس مضمون میں ادب اور سماج کے رشتے کے علاوہ جدید نظم نگاری کی ابتدا اور اس کے وجود میں آنے کے پس منظرپر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ کئی شعرا کی شاعری کے موضوعات اور خصوصیات پر بھی گفتگو ہے۔ ساتھ ہی کچھ شعرا کی نظموں کے نمونے بھی اس مضمون کا حصہ بنے ہیں۔ انگریزی سے استفادے کی صورت میں کئی نظموں کے اردو تراجم کا ذکر بھی اس مضمون میں موجود ہے۔ مضمون کے آخر میں ان مشاعروں کا اور ان میں اپنا کلام پیش کرنے والے شعرا کا بھی ذکر ہے جو ’انجمن پنجاب‘ کے قیام کے بعداس کا حصہ بنے۔ ان کے تحت کل دس مشاعرے ہوئے تھے۔ ان مشاعروں میں موضوعاتی نظمیں پیش کی جاتی تھیں۔ ان کا سہرا آزاد، سرسید،حالی وغیرہ کے سر جاتا ہے۔ جدید نظم نگاری کی تحریک کے تعلق سے آزاد اور حالی کی کاوشوں کی تعریف کرتے ہوئے کوثر صاحب لکھتے ہیں:
’’آزاد اور حالی نے چونکہ باضابطہ موضوعاتی نظموں کے دس مشاعرے تواتر کے ساتھ کرائے تھے اور ان کی تحریک تھی جس کا ایک خاص مقصد بھی تھا۔ اس تحریک کے محرکات کے ضمن میں تہذیبی، سماجی اور فکری انتشار کا خاص عمل دخل رہا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی بھی تحریک کا چہرہ کئی ارتقائی مدارج طے کرنے کے بعد صاف ہوتا ہے۔ یہاں یہ بات تسلیم کی جانی چاہیے کہ آزاد، سرسید اور حالی وغیرہ نے اگر یہ اجتہادی پیش رفت نہ کی ہوتی تو اردو نظم نگاری وقیع سرمایہ سے محروم ہوتی۔ اس کا روپ جو آج نکھرا ہوا نظر آرہا ہے اگر اس کا آغاز انیسویں صدی میں نہ ہوا ہوتا تو شاید یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اردو شاعری آج بھی اسی پرانی فرسودہ ڈگر پر قائم ہوتی۔‘‘ (ایضاً، ص 59)
ان مضامین کے علاوہ کتاب کا پہلا باب ’ نمائندہ نظم نگارشعرا‘ ہے۔ اس باب میں کوثر صاحب نے الطاف حسین حالی، محمد حسین آزاد، اسماعیل میرٹھی، اکبر الہ آبادی، شبلی، سرور جہان آبادی، محمد اقبال، عظمت اللہ خاں، چکبست، جوش ملیح آبادی ، حفیظ جالندھری، اختر شیرانی، جمیل مظہری، احسان دانش جیسے جیسے نمائندہ نظم نگار شعرا کی خدمات کا مفصل اور مبسوط جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ جگہ جگہ ان شعرا کی شاعری کے نمونے اور ان کے مفاہیم سے روشناس کرایا گیا ہے۔ دوسرا باب ’دو متوازی میلانات‘ ہے۔ اس کے تحت ترقی پسند تحریک اور حلقۂ ارباب ذوق سے تعلق رکھنے والے کچھ شعرا، مثلاً مخدوم محی الدین، فیض احمد فیض، اسرار الحق مجاز، علی سردار جعفری، اخترالایمان، کیفی اعظمی، ساحر لدھیانوی، سلام مچھلی شہری ،ن م راشد، میرا جی، یوسف ظفر، قیوم نظر، مختار صدیقی، ضیا جالندھری وغیرہ کی نظم نگاری اور ان کی نمایاں خصوصیات پر بھی بحث کی گئی ہے۔ ان شاعروں پر بحث سے پہلے دونوں تحریکوں کے پس منظرپر مختصراً روشنی ڈالی گئی ہے۔ ساتھ ہی مذکورہ شعرا کی کچھ اہم نظموں کے تجزیے بھی پیش کیے گئے ہیں۔ جدید نظم کے حوالے سے یہ کتاب بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ بالخصوص جامعات کے طلبہ، ریسرچ اسکالرز کے لیے تو یہ کتاب بہت معاون و مددگار ہے۔
’قرأت اور مکالمہ‘ کوثر مظہری صاحب کی بہت اہم کتاب ہے جس کی 2010 میں اشاعت ہوئی ہے۔ یہ یک موضوعی کتاب نہیں ہے اس لیے اس میں نظمیہ، اقبالیہ، غزلیہ، ہم عصریہ، کتابیہ، دیگریہ کے تحت کل 27 مضامین شامل ہیں۔ کتاب کی اشاعت کے جواز کے بارے میں کوثر مظہری لکھتے ہیں :
’’ …میں نے شاعری (نظم اور غزل) کے حوالے سے جو مضامین ادھر چند برسوں میں تحریر کیے تھے، ان میں ’قرأت‘ سے کام لیا گیا ہے۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ متن سے میرا مکالمہ ہواہے۔ خصوصاً وہ مضامین جن میں تجزیاتی عمل کی کارفرمائی ہے، ان میں متن کی قرأت اور Close Reading کی صفات آپ محسوس کرسکتے ہیں۔ میرے پہلے مجموعۂ مضامین ’جرأتِ افکار‘ میں مختلف نوعیت کے مضامین تھے، لیکن اس کتاب میں اس بات کا میں نے لحاظ رکھا ہے کہ مضامین، متن یا متن بنانے والے، وہ بھی شاعر یا شاعری کے حوالے سے ہوں۔ اس لحاظ سے ان مضامین کے منظرعام پر لائے جانے کا ایک جواز بھی پیدا ہوجاتا ہے۔‘‘(قرأت اور مکالمہ، 2010، ص7)
اس کتاب کا پہلا مضمون ’عملی تنقید اور تفہیم شعروشاعری‘ ہے۔ اس مضمون میں کوثر صاحب نے نظریہ سازی کیا ہے اور ’عملی تنقید‘ و ’تاثراتی تنقید‘کے مفاہیم، اس کی اہمیت و ضرورت اور اس حوالے سے کتنے کام ہوئے ہیں ان پر تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ اس بابت انھوں نے انگریزی اور کچھ دوسری زبانوں کے مفکرین کے حوالے بھی دیے ہیں۔ نظریہ سازی کا عمل تو تقریباً تمام زبانوں میں پایا جاتا ہے مگر اردو میں کچھ زیادہ ہے۔ نظریہ سازی کے عمل کو کوثر صاحب نے تنقید کے لیے مہلک قرار دیا ہے۔ انھوں نے عملی طور پر ادب پارے کو پرکھنے کا مشورہ دیا ہے۔ عملی تنقیدپر اور تقابلی تنقید سے کچھ حد تک خبر رکھنے والوں میں امداد امام اثر کے علاوہ شبلی، کلیم الدین احمد، گوپی چندنارنگ اور شمس الرحمن فاروقی کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ اس مضمون کا پہلا جملہ ہی چونکانے والا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’میرے مضمون کے پہلے جملہ سے بہت زیادہ دل برداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ عملی تنقید بھی دراصل نظریہ سازی ہی کا تتمہ ہے۔ کسی بھی عمل کے لیے پہلے تھیوری کا ہونا ضروری ہے۔ بغیر کسی تھیوری کے کوئی سائنٹسٹ دارالعمل میں بیکر، فلاسک، ایسڈ یا کسی دھات کو چھوتا تک نہیں۔ یہ اردو ادب جس کی عمر بہت کم ہے (دوسری کئی زبانوں کے مقابلے میں) وہاں نظریہ سازی ہی نظریہ سازی ہے، عملی طور پر کچھ کرنے اور ادب پارے کو پرکھنے کی کاوشیں کم ہوئی ہیں۔ میں نے جہاں تک غور کیا ہے،اس کی بنیاد پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اردو لسانیات اور عملی تنقید سے بہت کم شغف دیکھا گیا ہے۔ پروفیسر کلیم الدین احمد نے اس طرف توجہ کی، مگر ان کا خاکہ بھی نامکمل ہی رہا۔‘‘ (ایضاً، ص 27)
دوسرا مضمون ’اردو غزل اور ہندوستانی ذہن و تہذیب‘ ہے۔ پروفیسر کوثر مظہری کو پروفیسر گوپی چند نارنگ اور ان کی تحریروں سے انسیت ضرور ہے مگر ایسا نہیں ہے کہ وہ ہر جگہ ان کی شان میں رطب اللسان ہیں۔ جہاں گنجائش قدر و تحسین کی ہو وہ بلا کسی تعصب کے کسی کی بھی تعریف میں قصیدے پڑھنے میں کوئی کوتائی نہیں کرتے، مگر جہاں مواخذے کی ضرورت ہو ، اس موقعے پر خاموش بھی نہیں رہتے۔ نارنگ صاحب کے تعلق سے بھی کوثر مظہری یہی سوچ رکھتے ہیں۔ ان کی ایک کتاب ’غالب، معنی آفرینی، جدلیاتی وضع، شونیتا اور شعریات‘ کے نام سے آئی تھی اس کتاب کے نام پر کوثر مظہری صاحب نے سخت احتجاج درج کرایا تھا۔اس کی جانکاری نارنگ صاحب کو بھی کسی ذریعے سے ہوگئی تھی۔ بہرحال نارنگ صاحب کی ایک کتاب ’اردو غزل اور ہندوستانی ذہن و تہذیب‘ ہے۔ پوری کتاب غزل کے حوالے سے ہندستانی ذہن اور تہذیب کی جستجو کرتی ہے۔یہ ضخیم کتاب ہے، اس حوالے سے کافی لکھا بھی گیا ہے۔ بعض لوگوں نے مثبت اور بعض نے منفی باتیں بھی لکھی ہیں، مگر کومظہری اس کتاب کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’پروفیسر نارنگ کے احساس اور سائیکی میں تہذیب کے نقوش مرتسم ہیں۔ تہذیبی رویّوں اور اس کی مختلف جہتوں پر گفتگو کرنا سب کے بس کا نہیں۔ لیکن ہم بہت سے کام کرتے ہیں جو ہمارے بس کے ہوتے نہیں۔ اس کتاب پر گفتگو کرنے کا اہل میں خود بھی اپنے آپ کو نہیں سمجھتا لیکن دوسرے اردو والوں کی طرح میں بھی اس میدان میں لام قاف کرنے کے لیے آگیا ہوں۔‘‘ (قرأت اور مکالمہ، ص 347)
کوثر صاحب کی ایک کتاب ’بازدید اور تبصرے‘ ہے۔ یہ کتاب 2013میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کی نوعیت مذکورہ کتابوں سے الگ ہے۔ اس کتاب میں کوثر صاحب کے طویل مقدمے کے علاوہ 14تنقیدی مضامین اور 44تبصرے شامل ہیں۔ یہ تبصرے تمام اصناف پر مبنی کتابوں کے ساتھ کچھ رسائل پربھی مشتمل ہیں۔ 14 تبصراتی مضامین (تنقیدی مضامین) کو کوثر صاحب نے بازدید کا نام دیا ہے۔ لفظ ’باز دید‘ کی کوئی حتمی یا جامع تعریف نہیں ہے کیونکہ ایک ہی لفظ کے موقع اور محل کی مناسبت سے معانی بدلتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں لاہور کے ایک طباعتی ادارے نے ڈاکٹر خورشید رضوی کے بکھرے ہوئے خاکوں کو یکجا کرکے’بازدید‘ کے نام سے شائع کیا ہے۔ ڈاکٹر قیصر زماں نے اپنے ایک مضمون ’لطف الرحمن کی تنقید: ایک بازدید‘ میں بازدید کا لفظ استعمال کیا ہے۔ البتہ کوثر مظہری صاحب نے اس کتاب میں شامل ’مقدمے ‘ میں انھوں اس اصطلاح کو اپنے طور پر سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’میرے خیال سے ’بازدید‘ کا اطلاق اس نوع کے مطالعے پر ہونا چاہیے جس کی بنیاد پرانے مضامین یا کتابوں پر ہو۔ یہ نہیں کہ ابھی کوئی کتاب یا کوئی مضمون چھپا اور اس کی ’بازید‘ شروع کردی۔ تبصرے میں تو گنجائش ہو تی ہے کہ بہت سرسری تعارف سے بھی کام چل جاتا ہے، کئی بار مبصر تبصرے میں ہی اپنی پوری تنقیدی بصیرت خرچ کردیتا ہے۔ یہ بھی چلن رہا ہے کہ کسی کتاب پر تبصراتی مضمون (Review Article) لکھا جاتا ہے۔ اسی طرح بازدید میں بھی طوالت آجاتی ہے بلکہ اس کا تقاضا ہے کہ مضمون یا کتاب کی بازدید بہت سرسری نہ ہو۔ بازدید سے کتاب یا مضمون کا پورا نچوڑسامنے آجاتا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہ کسی مضمون یا کتاب کی اہمیت و معنویت ایک زمانے کے بعد کسی خاص عہد میں کیا رہ جاتی ہے، اس کا بھی اندازہ ہوجاتا ہے۔ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو میری اس کتاب میں تلاش حق (گاندھی جی)، تذکرہ (مولانا آزاد)، من آنم (فراق)، روشنائی (سجاد ظہیر)، اردو تنقید پر ایک نظر (کلیم الدین احمد) پر لکھے گئے مضامین اسی زمرے میں آتے ہیں۔ ‘‘ (ص 9)
ان مضامین کے علاوہ بازدید کے تحت شامل مضامین میں ، ایک بھاشا دو لکھاوٹ، اردو غزل اور ہندوستانی ذہن و تہذیب، مرزاغالب اور ہند مغل جمالیات، احمد ندیم قاسمی ایک لجنڈ، کوثرنیازی کی خودنوشت نقش رہگزر، اسلم بدر کی حمدیہ سائنسی مثنوی ’کن فیکون‘ جیسے مضامین کو کوثر صاحب نے طویل تبصرے یا تبصراتی مضمون کا نام دیا ہے۔ ان کے علاوہ محمد حسن کے مضمون سچی جدیدیت، نئی ترقی پسندی اور شمس الرحمن فاروقی کے مضمون کیا نظریاتی تنقید ممکن ہے (مشمولہ تنقیدی افکار) کا کوثر صاحب نے ’بازدید‘ کے طور پر ایک تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے۔بازدید کا صحیح مفہوم سمجھنے کے لیے کوثر صاحب کے بازدید کے تحت شامل تمام مضامین کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ ان مضامین کے مطالعے کے بعد قارئین کو طویل تبصرے اور تبصراتی مضمون کے مابین جو بنیادی فرق ہیں ان کا ادراک ہوجائے گا۔
’تبصرہ‘ کے تعلق سے کوثر صاحب نے مقدمے میں بہت کارآمد باتیں لکھی ہیں۔ تبصرہ کسے کہتے ہیں، تبصرہ کیوں ضروری ہے، تبصرہ کس نوعیت کا ہونا چاہیے، تبصرہ اور تنقید کا آپس میں کیا رشتہ ہے، ان کے جوابات کے ساتھ کچھ ناقدین کی آرا کو بھی شامل کیا ہے۔ تبصرہ کوئی آسان کام نہیں ہے، مقدمے کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ بہت سے سینئر اور مشہور ناقدین نے بھی تبصرے کیے ہیں۔تبصرے کی اہمیت کے پیش نظر بہت سے مضامین اور کتابیں بھی لکھی گئی ہیں۔ اس حوالے سے کوثر صاحب کے پورے مقدمے کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔
تبصرہ دراصل کسی کتاب کی تشہیر کا دوسرا نام ہے۔ تبصرے کے کئی مقاصد ہوتے ہیں، مگر سب سے ضروری اور اہم مقصد اس کتاب سے قارئین کو متعارف کرانا ہوتا ہے۔ اس کے ذریعے اس کے اچھے اور برے پہلوؤں سے بھی آگاہی ہوجاتی ہے۔ مبصر کے لیے ضروری یہ ہوتا ہے اس موقعے پر وہ بلا کسی تعصب کے کتاب کی اچھائی اور برائی کو اجاگر کرے۔ اس کتاب میں بھی شامل تبصروں پر بھی یہ باتیں صادق آتی ہیں۔ ’بازدید اور تبصرے‘ میں شامل کتابوں پر تبصرے کا مطالعہ یوں بھی ضروری ہے کہ اس میں کچھ کتابیں بہت اہم ہیں، ضروری نہیں کہ یہ ساری کتابیں ہر کسی کے مطالعے کا حصہ بنیں، کچھ قارئین شاعری کو پسند کرتے ہیں، تو کچھ ناول اور افسانے کو، کچھ تنقیدی مضامین کو تو کچھ تحقیق سے متعلق کتابوں کو، لیکن ان چھوٹے چھوٹے تبصروں سے قارئین کو مختلف اصناف کے تحت بہت سی کتابوں کے اندر مواد کی جانکاری مل جاتی ہے۔ بعض اہم رسائل پر بھی تبصرے شامل ہیں۔ ان میں کچھ رسالے تو اب بند بھی ہوچکے ہیں، ان کے مطالعے سے قارئین کو نہ صرف رسالوں کا علم ہوگا بلکہ ان کے علم میں اضافہ بھی ہوگا۔ یہاں پر سہ ماہی ’ذہن جدید‘ کا ذکر بہت ضروری ہے۔ اس کے مدیر مشہور شاعر اور ادیب زبیر رضوی تھے۔ زبیر رضوی کی وفات کے ساتھ ہی اس رسالے کی بھی سانسیں تھم گئیں۔ کافی برسوں تک یہ رسالہ عوام کی توجہ کا مرکز رہا۔ اس رسالے میں کچھ ایسے مباحث ہوتے ہیں جو قارئین کو چونکانے کے ساتھ مہمیز بھی کرتے تھے۔ ’ذہن جدید‘ کے ٹائٹل پر اوپر لکھی یہ عبارت ’بڑی زبان کا زندہ رسالہ‘ آج بھی لوگوں کے ذہن و دل پر نقش ہے۔ صاحب مدیر نے بہت سوچ سمجھ کر یہ نام رکھا ہوگا۔ ہم نے کچھ لوگوں کو طنزاً تو کچھ کو مزاحیہ طور پر زبیر صاحب سے اس تعلق سے سوال کرتے ہوئے بھی سنا۔ زبیر صاحب مسکرا کر رہ جاتے اور کہتے کہ آپ ذہن جدیدکا مطالعہ کیجیے، خود بخود اس جملے کی ضرورت او ر معنویت سے روشناس ہوجائیں گے۔
’ارتسام‘ کوثر صاحب کے مضامین کا تیسرا مجموعہ ہے۔ اس کے اب تک دو ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ پہلا ایڈیشن 2017 میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس اور دوسرا ایڈیشن عرشیہ پبلی کیشنز سے 2021 میں شائع ہوا ہے۔ 444 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں تین ذیلی عناوین قائم کیے گئے ہیں۔ ’رنگ نثر‘ کے تحت 9 مضامین، ’رنگ شاعری‘ کے تحت24 اور ’رنگ فکشن‘ کے تحت 8 مضامین شامل ہیں۔
کوثرمظہری کے طریقِ نقد کے کئی زاویے ہیں۔ کبھی وہ اپنی رائے قائم کرتے ہیں توکبھی وہ سوال بھی کھڑے کرتے ہیں کہ آیا جومیں نے سوالات قائم کیے ہیں وہ کس حد تک درست ہیں، وہ خود کو حرف آخر سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کرتے ہیں کیونکہ سوال و جواب کے دَر ہمیشہ وا رہتے ہیں۔ کوثر صاحب ’پیش نامہ‘ میں لکھتے ہیں:
’’رنگِ نثر‘ کے تحت کچھ ثقہ ادیبوں کی کتب یا مضامین پر میں نے اپنی حقیر آرا پیش کرنے کی جرأت کی ہے۔ ان مضامین میں سے کچھ ایک میں پیش کیے گئے میرے موقف سے قارئین اختلاف بھی کرسکتے ہیں، کیوں کہ ادب فہمی کے دروازے ہمیشہ کُھلے رہتے ہیں۔ اس لیے کسی طرح کی ادعائیت کامیں قائل بھی نہیں۔‘‘(ارتسام، ص 9)
اس مجموعے میں ’رنگ نثر‘ کے تحت بزرگ اور سینئر حضرات پر مضامین شامل ہیں۔ ان میں کوثر صاحب کہیں اپنا موقف قائم کرتے ہیں، کہیں سوال بھی کھڑے کرتے ہیں، خامیوں کی نشاندہی کے ساتھ موازنے کی صورت بھی اپنائی ہے۔ کتاب کا پہلا مضمون’یادگارِ غالب‘ پر ایک قاری کا نوٹ‘ ہے۔ اس میں کوثر صاحب نے حالی کی تصنیفات سرسید احمد خان اور اور غالب پر موازنے کی صورت نکال لی ہے۔ وہ کہتے ہیں:
’یادگارِ غالب‘ حالی کی ایک ایسی تصنیف ہے جو ہمیں غالب کی شخصیت اور شاعری، دونوں سے متعارف کراتی ہے۔ حالی نے سرسید کی زندگی کو بھی دیکھا اور سمجھا تھا اور غالب کی زندگی کو بھی۔ ظاہر ہے کہ زندگی کی جزیات کو جس طرح شرح و بسط کے ساتھ ’حیاتِ جاوید‘ میں پیش کیا گیا، یادگارِ غالب میں اس کا فقدان نظر آتا ہے۔‘‘ (ایضاً، ص 11)
’رنگ شاعری‘ کے تحت 24 مضامین شامل کتاب ہیں، جس میں سینئر اور بزرگ حضرات کے ساتھ کچھ معاصرین اور دوست بھی شامل ہیں۔ اس باب میں ایک مضمون ’شجاع خاور کا طرز تغزل‘ ہے۔ شجاع خاور پولیس محکمے سے وابستہ تھے، لیکن ان کو ادب سے گہری دلچسپی تھی۔ انھوں نے شاعری میں ہر موضوع کو برتا ہے۔ ان کی شاعری میں ان کی اناپرستی حاوی ہے۔ انھوں نے زندگی کو جس ناہمواری کے ساتھ گزارا، ان کی شاعری میں بھی وہ اندازدیکھنے کو ملتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’…کسی بھی موضوع کے برتنے میں ذرا بھی پس و پیش نہیں کیا ہے۔ یہی وہ بے محابا پن ہے جس سے ان کی شاعری میں بے ساختہ پن اور اوبڑکھابڑ راستے پر چل رہے معشوق کے الھڑپن کا سا انداز پیدا ہوجاتا ہے۔ نہ موضوعات کے تئیں تحفظات اور نہ لفظیات کو لے کر تعصبات۔ یہ وہی طرزِاظہار ہے جسے آل احمد سرور نے کھلنڈراپن اور قلندری سے موسوم کیا تھا۔ اس طرز ادا کی بھی شجاع کو جلدی تھی:
دل جل رہا ہو تو میاں آہ و فغاں جلدی کرو
کل تک بدل جائے گا یہ طرز بیاں جلدی کرو
آخرکار واقعی طرز بیان بدل گیا اور شجاع خاور ہمیں آہ و فغاں میں چھوڑ کر خود دوسری دنیا میں چلے گئے جہاں نہ کوئی طرز بیاں ہے اور نہ وہ آہ فغاں۔‘‘ (ایضاً، ص 294)
’رنگِ فکشن‘ اس کتاب کا تیسرا حصہ ہے ، جس میں کل آٹھ مضامین شامل ہیں۔ اس حصے میں بھی بزرگ، سینئر اور ان کے کچھ معاصرین و احباب پر مضامین ہیں۔ اگر سہیل عظیم آبادی کے ناولٹ ’بے جڑ کے پودے‘ پر مضمون ہے تو خالد جاوید اور طارق چھتاری پر بھی مضمون شامل ہے۔ اس باب میں ایک مضمون ’خالد جاوید کا افسانہ تفریح کی ایک دوپہر‘ شامل ہے جس میں کوثر صاحب نے خالد جاوید کے افسانہ کا تجزیہ کیا ہے۔ یہ مضمون انھوں نے اس وقت لکھا تھا جب فکشن کی دنیا میں خالد جاوید کی ویسی دھوم نہیں تھی جیسی آج ہے۔ شعبے میں ساتھ رہتے ہوئے بھی کوثر صاحب ان کی تحریروں سے زیادہ واقف تھے۔ عموماً آج یہی ہورہا ہے کہ زیادہ تر لوگ کسی کے بارے میں بغیر کسی جانکاری کے رائے قائم کردیتے ہیں۔ کوثر صاحب کے ذہن میں خالد جاوید اور ان کی تحریروں کے تعلق سے دھندلے نقوش تھے، وہ لکھتے ہیں:
’’سچی بات تو یہی ہے کہ میں خالد جاوید کی کہانیوں کو لائق اعتنا سمجھتا ہی نہیں تھا۔ میں ایسا سمجھنے میں حق بجانب تھا کیوں کہ میں نے ان کی کہانیاں پڑھی نہیں تھیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ بغیر پڑھے ہوئے ہم کسی کے حوالے سے کچھ بھی رائے زنی کرنے کے لیے آزاد ہیں۔ میں نے جب ان کی کہانیاں پڑھنا شروع کیں تو جیسے خود کو Trapہوتا ہوا محسوس کیا بلکہ میں تو کہوں گا خالدجاوید کے پاس Hypnosis ٹائپ کا کوئی عمل ہے جس کے سبب میں اب حصارجاوید میں آچکا ہوں جہاں سے خود کو باہر نکالنا آسان نہیں۔‘‘ (ارتسام، ص 455)
خالد جاوید خاموش طبیعت کے مالک ہیں، گفتگو کے وقت وہ بے تکلف کم ہی ہوتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمیشہ ان کا ذہن کسی نہ کسی موضوع کے تعلق سے کام کرتا رہتا ہے۔ انھیں مغربی ادب سے خاص شغف ہے، باتیں بھی ان کی منطق اور فلسفے سے بھرپور ہوتی ہیں۔ جو ان کی تحریروں سے واقف نہیں ہیں وہ ان کی شخصیت سے ان کی تحریروں کو بھی جوڑ دیتے ہیں۔ بہرحال کوثر صاحب نے ان کے افسانے کا فنی اور فکری دونوں اعتبار سے بہت عمدہ تجزیہ کیا ہے۔
کوثر صاحب کی کتاب ’موج ادب‘ کا ذکر یوں بھی ضروری ہے کہ یہ کتاب ایم کے نوٹس پر مشتمل ہے۔ اس کا پہلا ایڈیشن 1991 میں شائع ہوا تھا۔ یو جی سی، یوپی ایس سی، بی پی ایس سی، جے پی ایس سی، یوپی پی ایس سی، عالم آنرز، بی اے، ایم اے کی تیاری میں یہ کتاب بہت معاون ہے۔ بہار میں تو اس کتاب کی مقبولیت کچھ زیادہ ہی ہے۔ 2017 میں کچھ ترمیم و اضافے کے بعد اس کتاب کا چودہواں ایڈیشن شائع ہوا تھا۔ اس تعلق سے ’موج ادب‘ کے علاوہ بھی اب کئی کتابیں بازار میں دستیاب ہیں۔ بعض لوگوں نے تو صرف ان امتحانات کی خاطر ہی کتابیں تیار کی ہیں۔ باوجودیکہ ’موج ادب‘ کی مقبولیت اب بھی وہی ہے جو پہلے ایڈیشن کے وقت تھی۔
’موج ادب‘ کل 8ابواب پر مشتمل ہے: پہلا باب ’اردو زبان: آغاز، گہوارہ، ارتقا‘، دوسرا باب ’نثری اصناف ادب‘، تیسرا باب ’شخصیات اور اصناف نثر‘، چوتھا باب ’شعری اصناف ادب‘، پانچواں باب ’شخصیات اور اصناف شاعری‘، چھٹا باب ’تحریک اور دبستان‘، ساتواں باب ’منتخب کلاسکی کتب‘ اور آخری باب متفرقات ہے۔ فہرست پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے اس کتاب میں ان تمام اصناف کو شامل کردیا ہے جو ان امتحانات کے لیے ضروری ہیں۔
کوثرمظہری کے تنقیدی زاویوں سے آشنائی کے لیے اتنی مثالیں کافی ہیں، مجھے امید ہے کہ مستقبل میں کوثر مظہری کا نام تنقید کے باب میں نمایاں حرفوں میں لکھا جائے گا۔
ll
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page