غالب اکیڈمی کے زیرِ اہتمام ڈاکٹر مشتاق صدف کی مرتبہ کتاب ’’کوثر مظہری: اسرار و آثار‘‘ کا اجرا
نئی دہلی (۱۹ نومبر): پروفیسر کوثر مظہری سے میرا رشتہ فکر و نظر ہی نہیں بلکہ مٹی کا بھی ہے۔ علم و ادب کے آسمان پر ان کی تابانی اور بلندی سے مجھے فطری خوشی اور فخر کا احساس ہوتا ہے، کیوں کہ ان کا تعلق میری مٹی اور میرے گاؤں سے ہے۔ ان خیالات کا اظہار غالب اکیڈمی، نئی دہلی کے زیرِ اہتمام ڈاکٹر مشتاق صدف کی مرتبہ کتاب ’’کوثر مظہری: اسرار و آثار‘‘ کی تقریبِ رسمِ اجرا میں وائس چانسلر جامعہ ملیہ اسلامیہ پروفیسر مظہر آصف نے بحیثیت مہمان خصوصی کیا۔ انھوں نے علاقائی زبان میں پروفیسر کوثر مظہری کے ساتھ غیرمعمولی اپنائیت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے دلکش بھوجپوری لب و لہجے سے محفل کو لالہ زار بنا دیا۔ اس موقع پر انھوں نے پروفیسر کوثر مظہری کی شال پوشی کی۔ صدارتی خطاب کرتے ہوئے بزرگ ادیب و شاعر اور سابق وائس چیئرمین دہلی اردو اکادمی پروفیسر خالد محمود نے کہا کہ پروفیسر کوثر مظہری کی غیرمعمولی علمی و ادبی صلاحیتوں اور انتظامی استعداد کو دیکھتے ہوئے مجھے قوی توقع ہے کہ مستقبل قریب میں شیخ الجامعہ پروفیسر مظہر آصف کی سرپرستی میں وہ بحیثیت صدر شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کو مزید علمی سربلندی عطا کریں گے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ڈاکٹر مشتاق صدف نے پروفیسر کوثر مظہری کی شخصیت اور خدمات پر یہ اہم کتاب مرتب کرکے اردو دنیا اور بالخصوص ہم جامعہ والوں کو ایک بیش قیمت تحفے سے نوازا ہے۔ اس کے لیے ہم ان کے ہمیشہ احسان مند رہیں گے۔ پروفیسر خالد محمود نے ڈاکٹر مشتاق صدف کی شال پوشی کی۔ مہمان اعزازی سابق چیئرمین سی آئی ایل، جے این یو اور معروف ادیب پروفیسر انور پاشا نے کہا کہ پروفیسر کوثر مظہری کی شخصیت اقبال کے اس شعر کی مصداق ہے کہ ’’آئینِ جواں مرداں حق گوئی و بیباکی/اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی‘‘۔ انھوں نے کہا کہ پروفیسر کوثر مظہری کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ خود بھی اختلاف کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی اختلاف کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ سابق صدر شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور مشہور ادیب پروفیسر شہزاد انجم نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر کوثر مظہری کی شخصیت اور تحریر دونوں ہی بے لاگ اور بے باک ہے۔ ان کا دائرہ شاعری، فکشن تحقیق اور تنقید پر محیط ہے۔ عہدِ حاضر کے ممتاز فکشن نگار پروفیسر خالد جاوید نے پروفیسر کوثر مظہری کو مزاحمت، بغاوت اور صداقت پسندی کا استعارہ قرار دیا۔ صدر شعبۂ اردو، دہلی یونیورسٹی اور معروف نقاد پروفیسر ابوبکر عباد نے کہا کہ کوثرمظہری کی تحریر ان کی شخصیت ہی کا آئینہ ہے۔ وہ اپنی تخلیق، تنقید اور تحقیق کو مذہب، اخلاق اور تہذیبی اقدار کے محور سے وابستہ رکھتے ہیں۔ پروفیسر کوثر مظہری کے صاحبزادے نوجوان عالمِ دین مولانا سعد اللہ احسان ندوی نے پروفیسر کوثر مظہری کی شخصیت اور ان کے طریقۂ تربیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ انھوں نے ہمیں مقلد محض بنانے کے بجائے ہمارے علمی و تنقیدی شعور کی افزائش کی ہے۔ بزرگ شاعر متین امروہوی نے اس موقع پر پروفیسر کوثر مظہری کی خدمت میں تہنیتی قطعہ بھی پیش کیا۔ تقریب کی نظامت کے فرائض مشہور شاعر اور ناظم معین شاداب نے انجام دیے۔ پروگرام کا اختتام غالب اکیڈمی کے سکریٹری ڈاکٹر عقیل احمد کے اظہارِ تشکر پر ہوا۔
اس موقع پر صاحبِ کتاب ڈاکٹر مشتاق صدف نے کتاب کے مشمولات کا تعارف پیش کرتے ہوئے اس کی ضرورت و اہمیت پر روشنی ڈالی۔ پروفیسر کوثر مظہری نے اپنے اعزاز میں منعقد کی گئی اس تقریب پر اپنے جذباتِ تشکر کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ میری زندگی کا ایک جذباتی، یادگار اور ناقابل فراموش لمحہ ہے۔ اس کتاب میں پروفیسر عتیق اللہ، پروفیسر قاضی عبیدالرحمن ہاشمی، پروفیسر ممتاز احمد خاں، پروفیسر قدوس جاوید، پروفیسر انیس الرحمن، پروفیسر شافع قدوائی، پروفیسر علی احمد فاطمی، پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین، پروفیسر خالد جاوید، پروفیسر شہزاد انجم، مرحوم پروفیسر مولا بخش سمیت درجنوں نئے پرانے ادیبوں کے مفصل مضامین شامل ہیں۔ اس کے علاوہ مشاہیر کے افکار و آرا میں پروفیسر گوپی چند نارنگ، پروفیسر شکیل الرحمن، پروفیسر حامدی کاشمیری، پروفیسر قمر رئیس، پروفیسر شمیم حنفی، کمال احمد صدیقی ، فرحت احساس، پروفیسر شہپر رسول، پروفیسر عین تابش اور حقانی القاسمی کے تاثرات بھی موجود ہیں۔
غالب اکیڈمی کی اس تقریبِ اجرا میں جامعہ ملیہ اسلامیہ، جے این یو اور ڈی یو سمیت دہلی کے معزز ادیب، شعرا اور اسکالرز موجود تھے، جن میںثروت عثمانی، مظہر محمود، سیارہ خاتون، نگار عظیم، تسنیم کوثر،شاداں تخیل، انوارالحق تبسم، اے نصیب خان،حقانی القاسمی، سہیل انجم، شعیب رضا فاطمی،توحید خاں، سرورالہدیٰ،خالد مبشر، سید تنویر حسین، مشیر احمد،امتیاز وحید، ابوظہیر ربانی، عادل حیات، شاداب تبسم،علاء الدین خاں، جاوید حسن، محمد آدم، محمد اکرام، نوشاد منظرمحمد مرتضیٰ، محمد انظار، قرۃالعین، زاہد ندیم احسن، سلمان فیصل، ثاقب عمران، تبسم حیات، صبا نگار، عامر حسین، عبدالباری، اکرم ظفیر، خان محمد رضوان،شہزاد ابراہیمی، حامد علی اختر، سمیہ محمدی،ساجدہ علیگ، ہما، عظمت النساء، غلام علی اخضر،اسعد اللہ، شاہد حبیب فلاحی، وسیمہ اختر، سفیر صدیقی محمد ارمان، وغیرہ شامل ہیں۔
نوٹ: (تصویر میں دائیں سے) خالد جاوید، ابوبکر عباد، مشتاق صدف، انور پاشا، خالد محمود، مظہر آصف، کوثر مظہری، معین شاداب، متین امروہوی اور شہزاد انجم۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page