شعبہ انگریزی مانو لکھنؤ کیمپس میں’’ادب اور زبان:بدلتی جہتیں اوررجحانات‘‘ کے موضوع پر قومی کانفرنس کا انعقاد
لکھنؤ 24فروری 2025
ادب کوئی مشینی عمل نہیں ہے ،یہ انسانیت کو فروغ دیتا ہے۔ہمیں ادب کی مرکزیت کے بجائے علاقائی ، مقامی زبانوں اور بولیوں پر توجہ دینی ہوگی۔ان خیالات کا اظہار مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی کی افسر بہ کار خاص (OSD1)پروفیسر شگفتہ شاہین نے یہاں لکھنؤ کیمپس میں شعبہ انگریزی کے تحت منعقد دوروزہ قومی کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں صدارتی خطبہ کے دوران میں کیا ۔ ’’ادب اور زبان:بدلتی جہتیں اوررجحانات ‘‘کے موضوع پر منعقد کانفرنس کا کلیدی خطبہ پروفیسرنشی پانڈے نے پیش کیا جبکہ کیمپس کی انچارج پروفیسر ہما یعقوب نے مہمانوں کا خیر مقدم کیا۔کانفرنس کے کوارڈی نیٹر ڈاکٹر شاہ محمد فائز نے افتتاحی اجلاس کی نظامت کی۔کیمپس کے طالب علم محمد اجمل حسین نے قرآن پاک کی تلاوت اور اس کا ترجمہ پیش کیا۔ابتدا میں ڈاکٹر شاہ محمد فائز نے مہمانوں کا تعارف پیش کیا اور ان کی شال پوشی کی گئی ۔
سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے پروفیسر شگفتہ شاہین نے کہا کہ ٹکنالوجی کے اس عہد میں بہت کچھ اس پر منحصر ہے لیکن اس کے باوجود اساتذہ نے ہر عہد میں چیلنجز کو قبول کیا ہے ۔وہ اپنا تعمیری کردار ادا کررہے ہیں ۔
کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے پروفیسر نشی پانڈے (پروفیسر ایمرٹس لکھنؤ یونی ورسٹی )نے کہا کہ ٹکنالوجی کے عہد میں ادب کی تصویر بدل گئی ہے ۔جبکہ ادب انسانی تہذیب کا ضروری حصہ ہے جو عہد بہ عہد ترقی کرکے ہم تک پہنچا ہے ۔انھوں نے کہا کہ ٹکنالوجی کو عقلمندی سے ادبی فائدہ کے لیے استعمال کرنا چاہیے ۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ اب نئی نسل کا تخلیقی ادب سے پہلے جیسا سرگرم رشتہ نہیں رہا۔انھوں نے کہا کہ اس کے بہت سے اسباب ہیں ۔روایتی ادب کی جگہ اب سائبر لٹریچر نے لے لی ہے آج کا قاری کتاب کی جگہ ای بک اور کنڈل کو ترجیح دیتا ہے ۔پروفیسر نشی پانڈے نے اس بات پر زور دیا کہ آج کا دور زبان کے رشتوں کو سمجھنے کا ہے ۔ہم ایک زبان تک اپنے آپ کو محدود نہیں رکھ سکتے ۔
پروفیسر رجنیش اروڑا (ڈ ائریکٹر افلو لکھنؤ)نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مصنوعی ذہانت کو ضروری قرار دیا اور کہا کہ لینگویج لرنگ کے لیے ایک اہم چیز ہے انھوں نے کہا کہ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اب زبان شناسی /سیکھنے کا کوئی ایک طریقہ نہیں ہے بلکہ اس کے متعدد طریقے ہیں ۔اس موقع پر انھوں نے مختلف زبانوں خصو صاً انگریزی کے ہندستانی طریقہ تلفظ کی وکالت کی اور کہا کہ ہمیں علاقائی زبانوں اور مقامی بولیوں کے ادبی اظہار پر اصرار کرنا چاہیے ۔
دوپہر بعد پہلا تکنیکی اجلاس ہوا جس کی صدارت پروفیسر شگفتہ شاہین نے فرمائی ۔اس اجلاس میں کلیدی گفتگو پروفیسر سحر رحمان (صدر شعبہ انگریزی ویمنس کالج پٹنہ)نے کی ۔اس کے بعد ڈ اکٹر سومیا شرما،ڈاکٹر آکانشا پانڈے،ڈاکٹر نندنی گپتا،ڈاکٹر ثنا فاطمہ،ڈاکٹر نزہت اختر،ڈاکٹر عظمی خان،ڈاکٹر جہاں گیر راشد،ثنائلہ غفران،منجیش کمار اور اشفاق بابا نے مقالے پڑھے ۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page