کوثرمظہری: ذات و جہات
محمد اکرام
9654882771
کوثرمظہری (محمداحسان الحق) سے ہماری پہلی ملاقات غالباً 2001 میں ہوئی تھی۔ اس وقت وہ ابوالفضل ای بلاک میں مقیم تھے۔ ایک دن آفس (استعارہ پبلی کیشنز) سے گھر لوٹتے وقت حقانی القاسمی صاحب نے کہا کہ چلیے آج کوثر صاحب سے آپ کی ملاقات کراتے ہیں۔ میں نے کوثر مظہری صاحب کے بارے میں دریافت کیا، تو حقانی صاحب نے کہا کہ کوثر صاحب جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اردو میں لیکچرار ہیں،بہت مخلص، اور ملنسار ہیں۔ آپ کو ان سے مل کر بہت اچھا لگے گا۔ کوثر صاحب کے گھر پہنچنے کے بعد درمیان گفتگو حقانی صاحب نے میرا ان سے تعارف کرایا، کوثر مظہری صاحب نے مجھ سے سوال کیا کہ اکرام صاحب آپ کہاں کے رہنے والے ہیں اور آپ کی تعلیم کیا ہے؟ میں نے انھیں اپنے ضلع کا نام بتایا اور جہاں سے تعلیم حاصل کی تھی اس ادارے کا نام بتایا۔ مرکزی دارالعلوم جامعہ سلفیہ وارانسی کا نام سن کر کوثر صاحب کے لبو ں پر ہلکی سی مسکراہٹ آگئی۔ وہ اس ادارے سے بہت پہلے سے واقف ہیں! بہرحال! کوثر صاحب نے مہمان نوازی کا عمدہ ثبوت پیش کیا۔ جتنی دیر ہم ان کے گھر رہے اس میں اپنائیت کا احساس ہوا۔ واپسی پر کوثر صاحب نے کہا کہ آپ نے تو میرا گھر دیکھ ہی لیا ہے، اب آتے رہیے گا۔ پھر کوثر صاحب سے ملاقاتوں کا سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا گیا۔ کبھی میں ان کے گھر تو کبھی وہ میرے آفس (استعارہ پبلی کیشنز) میں آتے رہے۔ استعارہ کا دفتر ادیبوں کے لیے جائے سکون تھا جہاں کچھ لوگ صلاح الدین پرویز سے ملاقات تو کچھ ادبی تشنگی بجھانے آتے تھے۔ صلاح الدین پرویز بھی دفتر میں سبھی آنے والوں کی قدرافزائی کرتے تھے۔ بالخصوص نئی نسل جو لکھنے پڑھنے اور چھپنے چھپانے کی خواہش رکھتے، ان پر خاص توجہ ہوتی۔ صلاح الدین پرویز کا دفتر کسی لائبریری سے کم نہیں تھا جہاں بہت سی نادر و نایاب کتابیں موجودتھیں، خاص کرپاکستانی رسائل اور وہاں کے مشہور ادبا و شعرا کی کثیر تعداد میں کتابیں صلاح الدین پرویز کے دفتر کی زینت تھیں۔ بہت سے شائقین علم و ادب ان کتابوں اور رسائل سے حتی الامکان مستفید بھی ہوتے۔ کوثرمظہری ان میں سے ایک نام ہیں، یہ جب بھی استعارہ کے دفتر آتے تو دعا سلام کے بعدپہلی نظر کتابوں پر مرکوز ہوجاتی۔ ان کے علمی شغف، اور وسیع المطالعہ ہونے کا صلاح بھائی کو بخوبی علم تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کوثر صاحب سے صلاح الدین پرویز کی قربت روز بروز بڑھتی گئی۔ اس درمیان کوثر صاحب کے کئی مضامین بھی سہ ماہی استعارہ کی زینت بنے، خاص کر آشفتہ چنگیزی پر ان کا لکھا ہوا مضمون آج بھی میرے ذہن و دماغ پر تازہ ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ آشفتہ چنگیزی کی پُرشخصیت اور شاعری پر اس سے بہتر کسی نے مضمون تحریر کیا ہوگا۔ کوثر صاحب نے اس مضمون میں آشفتہ چنگیزی کی شاعری کی آشفتہ بیانی اور ان کی شخصیت کی جاذبیت کوجس جذباتی انداز میں تحریر کیا ہے اس سے ہر کسی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ کوثر مظہری لکھتے ہیں:
’’علی گڑھ کی محفلیں سونی ہیں۔ منظور بھائی، رئیس الدین رئیس، مہتاب حیدر نقوی، اسعد بدایونی، یہ سب یاد کرتے ہیں۔ دہلی میں شہپررسول ذکر کرتے رہتے ہیں۔ ہمیں ’شہرگماں‘ کا یہ شعر پڑھ کر سفر سوچ کی تدویر کا یقین ہوگیا ہے۔ بس آجاؤ آشفتہ بھائی تمہیں اب راستہ مل گیا ہے، دھند چھٹ گئی ہے:
ابھی تلک تو کوئی واپسی کی راہ نہ تھی
کل ایک راہ گزر کا پتہ لگا ہے مجھے‘‘
)سہ ماہی استعارہ، دہلی 2001(
یہاں میرانیس اور حضرت خنسا کے ذکر کا مقصد موازنہ نہیں بلکہ کوثر صاحب کے اس مضمون پر خصوصی توجہ دلانا تھا۔ مرحوم آشفتہ چنگیزی علی گڑھ کے رہنے والے تھے، غالباً رشتے میں صلاح الدین پرویز کے پھوپھی زاد بھائی تھے۔ انھیں شعر و شاعری سے خاصا شغف تھا۔ آشفتہ چنگیزی کی شاعری کے جو بھی نمونے ملتے ہیں اس سے ان کو عمدہ شاعر کہنے میں ذرا بھی جھجک نہیں ہوتی۔ ایک دن تجارت کے تعلق سے ان کا دوسرے شہر جانا ہوا۔ یہ کیسا اندوہناک سفر تھا کہ اس کے بعد وہ دوبارہ علی گڑھ واپس نہ آسکے۔ ان کی گمشدگی کے تعلق سے مختلف روایتیں ہیں۔ بہرحال آج آشفتہ چنگیزی کو ان کے اہل و عیال اور رشتے تو یاد کرتے ہی ہیں۔ اردو شعر و ادب میں بھی ان کا نام زندہ و تابندہ ہے۔
پروفیسر کوثرمظہری اور صلاح الدین پرویز دونوں کے لیے ہی 2002 بہت خوش آئند ثابت ہوا جب استعارہ پبلی کیشنز سے کوثر مظہری کی تنقیدی مضامین پر مشتمل کتاب ’جرأت افکار‘ کی اشاعت ہوئی۔ اس ادارے سے شائع ہونے والی کتابوں میں یہ بہت اہم کتاب تھی جس کی ادبی حلقوں میں خاطرخواہ پذیرائی بھی ہوئی۔ یہ اور بات کہ وقت گزرنے کے ساتھ استعارہ اور پبلی کیشنزدونوں کی عمر گھٹتی چلی گئی۔ غالباً استعارہ کا آخری شمارہ 2006 میں شائع ہوا تھا۔ پھر اس کے بعد یہ سلسلہ ہمیشہ کے لیے مسدود ہوگیا۔ البتہ میگزین کے کچھ اور کام تھے جس کی وجہ سے حسب معمول آفس کھلتا رہا، لیکن یہ سفر بھی جلد ہی اپنے اختتام تک پہنچ گیا۔ اکتوبر 2008 میں استعارہ کا دفتر ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔ جب تک استعارہ کی سانسیں چلتی رہیں، کوثر مظہری کسی نہ کسی بہانے استعارہ کے دفتر میں تشریف لاتے رہے۔ یہ ان کی اردو ادب نوازی اور صلاح الدین پرویز سے محبت کا ثبوت تھا۔ نہ جانے کتنے ایسے احباب تھے جو صلاح الدین پرویز کی دن بہ دن کمزور مالی حالت کو دیکھتے ہوئے ان سے رشتہ منقطع کرچکے تھے۔
استعارہ کا دفتر بند ہونے کے بعد میں نے ملازمت کے بجائے آزادانہ طور پر کام کرنے کو ترجیح دی۔ اس دوران میرے پاس وقت کی کمی نہیں تھی۔ میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ ان ایام میں ایم اے کرلینا شاید بہتر ہوگا۔ بہرحال 2008میں ہی میں نے جامعہ میں ایم اے کا فارم پُر کیا۔ اب میری ملاقات کوثر صاحب سے جامعہ کے شعبۂ اردو میں تواتر سے ہونے لگی۔ اس دوران میں نے ان سے کافی استفادہ کیا۔ میری کوشش تو یہ بھی تھی کہ کسی طرح سے میں کوثر صاحب کے درس میں شامل ہوسکوں، مگر اس مشکل کام کے لیے خصوصی اجازت کی ضرورت تھی،اس لیے میری یہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔ ان سب کے باوجود میں نے بیشتر سبجیکٹ کے مشکل مباحث کو انہی سے سمجھا۔ اس دورانیے میں کوثر صاحب نے اپنے دو لائق شاگردوں سلمان فیصل اور ثاقب عمران سے میری ملاقات کرائی۔سلمان فیصل ابھی ایم اے فرسٹ ایئر کا اکزام ہی پاس کیا تھا کہ انھوں نے بی ایڈ میں ایڈمیشن لے لیا۔ مگر ثاقب عمران آخر تک میرے ساتھ رہے۔ یہ پروفیسر عثمانی صاحب کے ہیڈ شپ کا زمانہ تھا۔ عثمانی صاحب اصول کے اس قدر پابند تھے کہ کبھی کبھار لاپروا طالب علموں کو بھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ رزلٹ آنے کے بعد پرائیوٹ کے ساتھ ریگولر بچے بھی بڑی تعداد میں ناکام رہے۔ میری خوش قسمتی کہیے یا ان دونوں کا تعاون کہ میں فرسٹ ڈویژن سے پاس ہوگیا۔ ثاقب عمران اور سلمان فیصل کے خلوص اور محبت کو میں کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔
کوثر مظہری صاحب کی سادگی میں بھی کتنی کشش اور جاذبیت ہے کہ ان کے بہت سے احباب، شاگردوں اور عزیزوں کی طرح میں بھی کھنچتا چلا گیا۔ 2001 سے 2024 کے درمیان فاصلے بہت ہیں، مگر کوثر صاحب کے خلوص اور ایثار نے ان فاصلوں کو کبھی حائل نہیں ہونے دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی جب کوثر صاحب کے گھر جاتا ہوں، تو ان کے گھر کا سنہرا ماحول اور بچوں کی بہترین تربیت کو دیکھ کر دلی سکون محسوس ہوتا ہے، ایک پل کو بھی نہیں لگتا کہ ہم کسی پروفیسر کے گھر پر موجود ہیں۔ کوثر صاحب کا یہ برتاؤ صرف میرے ساتھ نہیں ہے، وہ اپنے تمام مخلص دوست و احباب کو اسی طرح چاہتے ہیں۔ کوثرمظہری جب کسی سے دوستی کرتے ہیں تو اس کے گھر کے افراد کو بھی اپنے گھر کا فرد سمجھتے ہیں اور ان کی خوشیوں یا غم میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ ان کے محبوب اور مخلص دوستوں میں عبیدالرحمن ، پروفیسر مولا بخش اور راشد انور راشد صاحبان ، جو اب اس دنیا میں نہیں ہیں، مگر ان کی یادیں کوثر صاحب کے ذہن میں ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔ کسی محفل میں جب ان کا ذکر آتا ہے تو نہ جانے کن خواب و خیالات میں چلے جاتے ہیں، کچھ وقت کے لیے بالکل خاموشی اختیار کرلیتے ہیں، جب ان کیفیات سے دوبارہ اپنی دنیا میں لوٹتے ہیں تو ان کی آنکھیں بھی نم دیدہ ہوجاتی ہیں۔ دوست و احباب سے اس طرح کا خلوص بہت کم لوگوں کے یہاں دیکھنے کو ملتا ہے۔ آج بھی کوثرصاحب اپنے کسی بھی خوشی یا غم کے موقعے پر ان مرحومین کے فیملی ممبران کو یاد کرنا نہیں بھولتے ہیں۔
کوثر مظہری صاحب مہمان نوازی کے لیے خاصے مشہور ہیں۔ شاید اسی لیے ان سے ملنے جلنے والوں کا حلقہ بھی بہت وسیع ہے۔ ان کے گھر پر کوئی بھی پہنچ جائے، اسے ایک مہمان کی طرح سمجھتے ہیں۔ ایک ادنیٰ شخص کو بھی وہی عزت دیتے ہیں جو وہ ایک پروفیسر کو دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی خوشی یا غم میں ان سے ملنے والوں کی کثیر تعداد ہوجاتی ہے۔ بسا اوقات انھیں کچھ لوگوں کو یہ کہنا پڑتا ہے کہ آپ کسی دوسرے دن آجائیں۔ کوثر صاحب کی یہ خوش بختی ہے کہ اس بناؤٹی ریاکارانہ و منافقانہ دور میں بھی ان کے اتنے چاہنے والے موجود ہیں۔ہو بھی کیوں نہ وہ خود بھی ایک نیک صفت اور ہمدرد انسان ہیں۔ کسی کے دکھ درد کو دیکھ کر وہ برداشت نہیں کرپاتے، وہ دوسروں کے غم کو بھی اپنا غم سمجھنے لگتے ہیں۔ کسی بیمار کی مزاج پرسی یا کسی شناسا کی تعزیت پر حاضری ضروری سمجھتے ہیں۔
کوثرمظہری صاحب میں تصنع نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ وہ جو باہر سے دکھتے ہیں، اندرون میں بھی وہی ہیں۔ کوثر صاحب اپنے اصولوں پر زندگی گزارتے ہیں۔ کسی مفاد کی خاطر اصولوں سے انحراف کو وہ جرم عظیم سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کسی بااثر شخصیت سے کبھی مرعوب نہیں ہوئے۔کہیں کچھ غلط ہوتا دیکھ کر ان کی زبان گنگ نہیں ہوتی، اس پر اپنے تاثر کا اظہار ضرور کرتے ہیں۔ کسی ادارے یا تنظیم کی لاپروائی اور کوتاہی پر بھی وہ خاموش نہیں رہتے، کوئی ان کا ساتھ دے یا نہ دے، مگر ان اداروں اور تنظیموں کی کوتاہیوں پر وہ قلم ضرور اٹھاتے ہیں، ممکن ہے اسی وجہ سے انھیں اپنی غلطیوں کا احسا س ہوجائے۔ اندھیرے میں روشنی کا چراغ جلانے کا ہنر کوئی کوثر صاحب سے سیکھے۔ دراصل اصول پسند ہونا اور اس پر قائم رہنا دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔ کتنے اصول پسندوں کو موقع آنے پر اپنے اصول سے منحرف ہوتے بھی دیکھا جاتا ہے۔ مگر کوثر صاحب کا اصول پسند دکھاوے کا نہیں ہے۔ یہ ان کے باطن کی آواز ہے، جسے ہر کوئی نہ سن سکتا ہے اور نہ دیکھ سکتا ہے۔ بہرحال کوثر صاحب کے بہت سارے احباب ایسے بھی ہیں جو انھیں صمٌّ بکمٌ عُمیٌ پر عمل کرنے کو کہتے ہیں، مگر ایک باضمیر، حساس اور زندہ شخص غلط ہوتے کیسے دیکھ سکتا ہے۔ غلط سسٹم کے خلاف کسی نہ کسی کو تو پہل کرنی ہی پڑتی ہے۔ کسی نہ کسی کو تو اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دینا ہی پڑتا ہے۔ کوثر مظہری پر وسیم بریلوی کا یہ شعر صد فیصد صادق آتا ہے :
اصولوں پر جہاں آنچ آئے ٹکرانا ضروری ہے
جو زندہ ہو تو پھر زندہ نظر آنا ضروری ہے
یہ کوثر صاحب کی حق گوئی اور جرأت مندی ہے کہ ایسے بزدلانہ، منافقانہ اور ریاکارانہ دور میں بھی وہ اپنی آواز بلند کرکے اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ کوثر صاحب کے ان اوصاف کی بہت سارے لوگ ستائش بھی کرتے ہیں مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اسے کوثر صاحب کی شخصیت کا کمزور پہلو مانتے ہیں۔ان کی حق گوئی، اصول پسندی اور بیباکانہ رائے پر خاکہ تحریر کرتے ہوئے عتیق اللہ صاحب لکھتے ہیں:
’’کوثر صاحب! آپ کے کچھ شخصی اوصاف Personality traits ایسے ہیں جن سے آپ کی شخصیت اور کردار کی مستقل خصوصیات کی شناخت شاید ممکن ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا آپ یا آپ کے مزاج میں کبھی کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی یا واقع بھی ہوئی ہو تو اسے آپ نے ازخود محسوس نہیں کیا۔
’’عتیق صاحب،بات یہ ہے کہ مجھ میں کچھ کجی ہے؟‘‘
’’کجی؟ ارے بھائی نہ تو آپ کی پیٹھ میں کوئی خم ہے نہ کمر میں کوئی ٹیڑھ ہے۔ یہ کجی کہاں سے آگئی؟‘‘
’’ارے سر! آپ تو مذاق کرنے لگے۔ دراصل میرے مزاج میں کجی ہے اور یہ شروع سے ہے۔ کجی کے معنی غرور، سرکشی یا Personalism کے بھی نہیں ہیں کہ میں اپنی شخصیت یا اپنی ذات یا اپنے اخلاقی نقطۂ نظر کو اہم ترین خیال کرتا ہوں۔ مجھے کسی کی بدکلامی اور ریاکاری برداشت نہیں ہوتی۔‘‘
)کچھ یاد رہا کچھ بھول گئے، مرتب: ڈاکٹر محمد سلیم، ص 134(
بہرحال دنیا کوثر صاحب کے بارے میں کیا سوچتی ہے، اس سے انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا! وہ اپنے ارادے کے پکے انسان ہیں۔وہ وہی کرتے ہیں جو ان کے دل کی آواز ہوتی ہے۔ اور ہمارے مذہب نے بھی ہمیں یہی باتیں سکھائی ہیں جو کوثر صاحب اپنے عمل کے ذریعے لوگوں کو بتاتے ہیں۔
کوثرمظہری کا تعلق مشرقی چمپارن بہار کے چندن بارہ گاؤں سے ہے۔ ان کی پیدائش 5؍ اگست 1964 کو اسی چندن بارہ میں ہوئی۔ ان کے والد ایک عالم تھے، اسی نسبت سے وہ مولانامحمد مظہرالحق کے نام سے گاؤں اور علاقے میں جانے جاتے تھے۔ کوثر صاحب کا پورا بچپن گاؤں میں گزرا، جہاں بچے تمام ذمے داریوں سے فارغ البال اپنے بچپن کو بھرپور انجوائے کرتے ہیں۔ کوثر صاحب بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ انھوں نے بھی عام بچے کی طرح اپنے بچپن کو بھرپور جیا ہے۔ اپنی بھینسوں کو چارہ دینا، اسے ندی میں نہلانا، اس کی پیٹھ پر بیٹھ کر چراتے ہوئے گھر لوٹنا آج بھی کوثر صاحب کو یاد ہیں۔ اس کے علاوہ باغ بغیچے، کھیت کھلیان، ندی نالے، لہلہاتی فصلیں، سرسوں کے پھول، گاؤں کے کنویں جہاں بزرگ بیٹھ کر حکمت و دانائی کی باتیں کرتے تھے وغیرہ وغیرہ۔ گاؤں کی بھولی بسری اور سنہری یادیں آج بھی ان کے ذہن پر نقش ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ کوثر صاحب کی گاؤں سے وابستہ ساری یادیں خوش کن ہیں، بہت سے حادثات اور واقعات بھی ہیں۔ ان سے بڑے بھائی جو ڈاکٹر تھے، گاؤں کی ناپاک ذہنیت اور سازشوں کا شکار ہوئے۔ انھیں ان کے کلینک ہی میں قتل کردیا گیا، بعد میں ایک اور بھائی کا بھی انتقال، ان کے دو بچوں کا کمسنی میں انتقال ، ایسے دردناک حادثے شاید ہی کوئی انسان بھول سکتا ہے۔ ایسے حادثے جن پر گزرتے ہیں، حقیقت میں وہی اسے محسوس کرسکتا ہے۔ آج بھی کوثر صاحب ان حادثوں کو اپنے ساتھ لیے جیتے ہیں۔ ان کی زندگی اور صحت پر ان حادثوں کے کتنے اثرات ہیں، یہ کوثر صاحب کو جو صحیح معنوں میں جانتے اور سمجھتے ہیں، وہی محسوس کرسکتے ہیں۔ بعضـ لوگ کسی کی بیماری یا کسی پر رنج و الم، یا مصائب کو ان کے اعمال کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں، ایسے لوگ شاید نبی کریمؐ اور ان کے صحابہ کی زندگی اوران کے احوال سے واقف نہیں ہیں۔ خدائے کریم ہمیشہ نیک لوگوں کو ہی آزماتا ہے۔ کوثر صاحب کی ذات و صفات کی ان کیفیات کو مشہور ناول نگاراور کئی ایوارڈ سے سرفراز پروفیسر خالد جاوید لکھتے ہیں:
کوثر مظہری نے کم عمری سے ہی بہت دکھ اٹھائے ہیں مگر انھوں نے ان ’دکھوں‘ کو عام انسانی سطح پر قبول کرکے انھیں رد نہیں کیا بلکہ انھیں وجودی سطح پر آشکار کرتے ہوئے اپنی شخصیت کے ایک لطیف اور گہرے عنصر میں بدل دیا۔ انھوں نے اپنے دو دو معصوم بچوں کی موت کا صدمہ برداشت کیا۔ ایک بھائی کی موت کے غم کو سہا۔ لگاتار بیمار رہے۔ بیماری انسان کو خدا کے قریب کردیتی ہے اور وہ محض عقلی سطح پر نہ رہ کر ’عقیدے‘ کی سطح پر آ کر جینے لگتا ہے۔‘‘ (پیش لفظ، آنکھ جو سوچتی ہے، اشاعت دوم 2020(
پروفیسر خالد جاوید کو فلسفے اور نفسیات کا بخوبی علم ہے۔ انھوں نے کو ثر مظہری کے اندرون کے کرب اور بے چینی کو مفکرین کیرکے گارڈ اور سوزن سوتانگ کے نظریے سے دیکھنے کی کوشش کی ہے، جنھوں نے ان آلام کو سچی مذہبیت سے تعبیر کیا ہے۔
کوثر مظہری یا ان کے اہل و عیال کو دہلی کی گھٹن بھری زندگی اور یہاں کی آب و ہوا بالکل بھی راس نہیں آتی ہے۔ اس لیے اپنے حقیقی گاؤں کے کبھی نہ بھولنے والے حادثات کو بھول کر، کچھخوش کن یادوں کے سہارے وہاں کی کھلی فضا اور تازہ و آلودگی سے پاک و صاف ہواؤں میں زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یونیورسٹی میں چھوٹی یا بڑی تعطیل کے ایام کو وہ اپنے آبائی گاؤں میں ہی گزارنا چاہتے ہیں۔ کوثر مظہری صاحب کی گاؤں سے انسیت اور بے پناہ لگاؤ پر پروفیسر عتیق اللہ نے اپنے مضمون ’کوثرمظہری کے باطن کی سیاحت‘ میں لکھتے ہیں:
’’اکثر وہ کیلنڈر کے مطالعے میں غرق رہتے ہیں کہ کون سا تہوا رکب آرہا ہے اور سنیچر اتوار ملا کر کتنے دنوں کے لیے اپنی بستی (چندن بارہ ضلع مشرقی چمپارن، موتیہاری) کی طرف روانگی ڈالی جاسکتی ہے۔ وہ ہمیشہ اپنے گھر اور بستی کی خوشبو سے سرشار رہتے ہیں۔ یہ بستیاں معصومیت اور شفافیت کی پرورش کرتی ہیں، قناعت کا درس دیتی ہیں، بزرگوں کے احترام کے جذبوں کی کاشت کرتی ہے، پرانے چھوٹے بڑے شہروں اور بستیوں میں انسانی ہم دردیوں کے چشمے ہر طرف پھوٹتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کہیں کہیں وہ بھی سوکھ گئے ہیں لیکن کوثرمظہری کا کہنا کہ ہماری بستی کے چشموں کا پانی اب بھی اپنی رفتارپر قائم ہے۔ ہم سب اس سے ہنوز سیراب ہوتے ہیں اور مالک دو جہاں کا شکر ادا کرتے ہیں۔‘‘ (ایضاً، ص 133(
کوثرمظہری کی ابتدائی تعلیم گاؤں میں ہوئی، جہاں انھوں نے ساتویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ پھر میٹرک کے لیے انھو ںنے دوسرے گاؤں (مولانا آزاد اردو ہائی اسکول، خیروا) کا رخ کیا۔ ایم ایس کالج موتیہاری سے انھوں نے آئی ایس سی اور بی ایس سی (علم نباتات) کی تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے بی اے آنرز اردو کی ڈگری مظفرپور یونیورسٹی سے پوری یونیورسٹی میں پہلی پوزیشن کے ساتھ حاصل کی۔ ایم اے کے لیے کوثر صاحب نے پٹنہ یونیورسٹی کا رخ کیا۔ اسی دوران انھوں نے JRF (یو جی سی) بھی کوالیفائی کرلیا، لیکن رزلٹ میں تاخیر کو دیکھتے ہوئے انھوں نے ایک سال کے بعد ہی شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پی ایچ ڈی میں داخلہ کو ترجیح دی۔ یہاں ان کے نگراں پروفیسر شمیم حنفی تھے۔ کوثر صاحب نے دہلی آنے سے پہلے ہی ذہن بنا لیا تھا کہ مجھے پی ایچ ڈی پروفیسر شمیم حنفی صاحب کی نگرانی میں کرنا ہے۔ اس کے لیے وہ پٹنہ سے شمیم حنفی کے نام پروفیسر عبدالمغنی کا سفارشی خط بھی لے کر آئے تھے۔ ایک موقعے پر شمیم صاحب کے اس سوال کہ ’’مان لیجیے اگر میں آپ کا نگراں مقرر نہ ہوسکا تو‘‘ کوثر مظہری صاحب کا نہایت بیباکانہ جواب تھا کہ’’سر یہاں کے لیے میں کوئی آپشن لے کر آیا ہی نہیں ہوں، پھر تو میں بہار لوٹ جاؤں ‘‘گا۔ شعبے میں انٹرویو ہوا اور کوثر صاحب کینگراںشمیم صاحب ہی متعین ہوئے۔
کوثرصاحب پی ایچ ڈی کا کام ادھورا چھوڑ کر وہ 1996 میں بلورہائی اسکول منی گاچھی، دربھنگہ میں ملازمت کے لیے چلے گئے۔ کچھ مہینے انھوں نے وہاں ملازمت بھی کی، مگرمزاج سے میل نہ کھانے کی وجہ سے وہ ریزائن کرکے دوبارہ پھر دہلی واپس آگئے اور پی ایچ ڈی کا مقالہ مکمل کیا۔ اس درمیان وہ 1997 میں شعبۂ اردو جامعہ ملیہ میں ایڈہاک اور پھر اگست 1998 میں ریگولر استاد کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔ 2000 میں انھیں پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض ہوئی۔ ان کے پی ایچ ڈی کا زبانی امتحان لینے پروفیسر عتیق گاللہ آئے تھے۔ ابھی وہ پروفیسر کی حیثیت سے شعبۂ اردو جامعہ ملیہ سے وابستہ ہیں۔
کوثر مظہری صاحب ایک عمدہ استادکے ساتھ اچھے ادیب بھی ہیں۔ ان کا شمار موجودہ عہد کے کچھ چنندہ تنقید نگاروں میں ہوتا ہے۔ ایک تخلیق کار کی حیثیت سے بھی انھوں نے اپنی منفرد شناخت بنائی ہے۔ ان کا ناول ’آنکھ جو سوچتی ہے‘ اور دو شعری مجموعے اس بات کے مکمل شاہد ہیں۔ کوثر صاحب تواتر کے ساتھ لکھتے رہے ہیں۔ مختلف رسائل و جرائد میں ان کے مضامین چھپتے رہتے ہیں۔ کوثر صاحب نے تنقید، شاعری، ناول اور ترجمے پر دو درجن سے زائد کتابیں تحریر کی ہیں۔
کوثر مظہری نے اپنے ادبی کیریئر کا آغاز شاعری سے کیا تھا۔ 1979میں جب وہ دسویں جماعت میں تھے تو ایک معریٰ نظم (آٹھ یا نو مصرعوں پر مشتمل) کہی تھی۔ ان کی پہلی تخلیق ایک نعت ’البدر‘ کاکوری، لکھنؤ میں شائع ہوئی۔ مسز اندراگاندھی کے قتل سے متاثر ہوکر 72 مسدس 1984 ہی میں کہے تھے جسے 1987 میں ان کے علاقے کے ایم ایل اے جناب مطیع الرحمن صاحب (مرحوم) نے شائع کرایا تھا۔ پٹنہ آنے کے بعد ان کی طویل پابند موضوعاتی نظمیں، قومی تنظیم، سنگم اور پندار میں شائع ہوتی رہیں۔ اسی دوران انھو ںنے مضامین بھی لکھنے شروع کردیے۔ فی الحال وہ ایک تنقید نگار کی حیثیت سے زیادہ جانے جاتے ہیں۔ ان کی تنقیدی کتابوں کی تعداد بھی شاید اسی جانب اشارہ کرتی ہے۔ان کی مشہور تنقیدی کتابوں میں جرأت افکار، قرأت اور مکالمہ، ارتسام، جدید نظم: حالی سے میراجی تک،جواز و انتخاب، بازدید اور تبصرے کے نام لیے جاسکتے ہیں۔
کوثر صاحب اپنی تحریروں کے ذریعے بھی اپنی حق گوئی اور اصول پسندی کا ثبوت دیتے رہے ہیں۔ تنقید لکھتے ہیں تو تنقید کے اصولوں کی مکمل پاسداری کرتے ہیں، بغیر فن پارے کے مطالعے کے وہ تنقید کو معیوب سمجھتے ہیں۔ فن پارے کے جو مقتضیات ہیں، انھیں وہ ملحوظ خاطر رکھتے ہیں۔ کسی بڑی شخصیت سے بھی وہ مرعوب نہیں ہوتے۔یہاں بھی وہ انصاف کا ترازو ساتھ رکھتے ہیں۔ شاعری کرتے ہیں تو بھی اس میں اپنی آواز بلند رکھتے ہیں۔ سیاسی انتشار، بے اطمینانی، محرومی، نامرادی، بے بسی، بے روزگاری، مایوسی جیسے موضوعات ان کی شاعری میں جگہ جگہ مل جائیں گے۔ ان کے کچھ اشعار ملاحظہ کریں:
کیا بتاؤں کتنا شرمندہ ہوں میں
محو حیرت ہوں کہ کیوں زندہ ہوں میں
حال میرا ٹوٹ کر بکھرا ہوا
جانے کس ماضی کا آئندہ ہوں
ساعتِ موہوم سا جیسے وجود
وقت کا جیسے کہ کارندہ ہوں میں
اک سکوت شب نے سب کچھ دے دیا
اب خموشی ہی کا سازندہ ہوں میں
بھلا کوثرمظہری کی نظم’ہمیں گھراپنے جانے دو‘ کو کون بھول سکتا ہے۔ انھوں نے اس نظم میں مجبور و مظلوم انسانوں کی بے کسی اور لاچارگی کو بہت ہی عمدہ انداز میں پیش کیا ہے۔ کورونا کے زمانے میں تو انسانیت جس طرح سے شرمسار ہوئی تھی، اسے برسوں تک یاد رکھا جائے گا۔ مزدوروں اور مجبور انسانوں کے تعلق سے کوثر مظہری کے جذبات و احساسات کو سمجھنے کے لیے اس نظم کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ بطور نمونہ کچھ سطریں پیش کی جارہی ہیں:
ہمارا نام کوثرمظہری ہے
ہمیں مزدور کہتے ہیں، ہمیں گھر اپنے جانے دو
یہاں شہروں میں ہم بھوکے مریں گے
ہمیں روکو نہیں ٹوکو نہیں، جانے دو اپنے گھر
ہمارا نام کوثرمظہری ہے، ہمیں مزدور کہتے ہیں
یہ کچھ سامان سر پر بوریوںمیں، دوش پر بچّے
ہمارے ساتھ چلتی اور گھِسٹتی گھر کی عزت، یعنی بیوی
نہیں طاقت ہے چلنے کی مگر سڑکوں پہ آئے ہیں
کہیں کوئی سواری مل گئی تو ٹھیک ہے ورنہ
یونہی پیدل چلے جائیں گے اپنے گھر،
وہیں گاؤں میں گیہوں، دھان، سبزی
سب اگائیں گے، مزے لے لے کے کھائیں گے
یہاں شہروں میں مالک نے کہا ہے، ’’اب تمھاراکام ہی کیا
یہاں تو کاروبارِ زندگی بالکل معطّل ہے
تم اپنا راستہ دیکھو‘‘ (رات سمندر، خواب، ص 100)
ناول لکھتے ہیں تو بھی سماج کے کمزور پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی حتی الوسع کوشش کرتے ہیں۔ اس کی مثال ان کا اکلوتا ناول ’آنکھ جو سوچتی ہے‘ ہے۔ اس ناول میں کچھ کردار رضوان ،ظفر، زیبا، راجیش، درگاہی بہت مشہور ہوئے تھے۔ خاص کر ناول میں رضوان کا کردار بہت متاثر کرتا ہے۔ یہ کردار زندہ جاوید ہے۔ بعض تنقید نگاروں نے لکھا ہے کہ اس ناول میں تخلیق کار نے ہی خود کو رضوان کے کردار میں پیش کیا ہے۔
ترجمے میں بھی کوثر صاحب اپنی ذاتی صفات کو سامنے رکھتے ہیں۔ انھوں نے ایک ایسے ناول کا انتخاب کیا ہے جس میں سماج سے جڑے بہت سے مسائل ہیں۔ کوثر صاحب کے ترجمہ کردہ ناول کا نام ہے’شکستہ پر‘۔ یہ خلیل جبران (جبران خلیل جبران) کے مشہور ناول The Broken Wings کا ترجمہ ہے۔ جبران نے یہ ناول عربی زبان میں ’الأَجْنِحَۃُ المُتکسِّرہ‘ کے نام سے لکھا تھا، جس کی اشاعت نیویارک سے 1912 میں ہوئی تھی۔ بعد میں Anthony R. Ferris نے اسے عربی سے انگلش میں ‘The Broken Wings’ کے نام سے منتقل کیا۔اس کتاب میں دو محبت کرنے والے دلوں کی غم انگیز کہانی ہے۔ ساتھ ہی سماج کے بااثر لوگوں بالخصوص پادریوں اور مذہبی پیشواؤں پر تیکھا طنز ہے۔
کوثر صاحب کی تحریروں میں فرد، سماج اور معاشرے کا ذکر بہت نمایاں طور پر ملتا ہے۔ کیونکہ سماج فرد سے بنتا ہے۔ سماج میں جو بھی تبدیلیاں یا انقلاب برپا ہوتے ہیں، اس کا سہرا وہاں کے باسیوں کے سر جاتا ہے، تو سماج میں خامیوں اور خرابیوں کی ذمے داری بھی انہی سماج کے افراد کے ذمے ہوتی ہے۔ اس لیے کوثر مظہری سماجی اور معاشرتی زندگی میں فرد کے ذات، صفات، عوامل و محرکات اور اس کے تحفظات پر بہت زور دیتے ہیں۔ ذمے دار اشخاص کی خوبیوں اور خرابیوں کی نشان دہی بھی کرتے ہیں، کوئی فرد سماج اور معاشرے کے لیے مفید اور کارآمد کیسے ہوسکتا ہے اسے وہ قولاً فعلاً اور عملاً ثابت کرتے ہیں۔ کوثر صاحب، گھر، کلاس اور سماج کی ذمے داریوں سے کما حقہٗ واقف ہیں اور اسے نبھانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔
کوثر صاحب کی سادہ لوحی، خوش طبعی، خوش گفتاری، نرم مزاجی اور وضع داری کے یہ چند نمایاں پہلو ہیں جو میں نے اپنے اس مضمون میں بیان کیے ہیں۔ ورنہ ان کی ذات کے نہ جانے کتنے ایسے اوصاف و کمالات ہیں، جن پر مزید گفتگو ہوسکتی تھی۔ مزید ان کی شخصیت کی خوبیوں کو احمد فراز کے اس شعر کے حوالے کرکے اپنی بات ختم کرتا ہوں ؎
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page