مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ
جامعہ رحیمیہ مہدیان دہلی کے شیخ الحدیث، مدرسہ احیاء العلوم مبارک پور اعظم گڈھ، مدرسہ عرفانیہ لکھنؤ،جامعہ حسینیہ لال دروازہ جون پور، جامعۃ الرشاد اعظم گڈھ، مدرسہ ریاض العلوم شاہدرہ دہلی کے سابق استاذ، شاہی جامع مسجد رویت ہلال کمیٹی دہلی کے رکن مولانا مفتی عزیز الرحمن چمپارنی کا 20؍ مارچ 2024ء مطابق ۹؍ رمضان ۱۴۴۵ھ بروز بدھ شام کے چار بجکر تین منٹ پر انتقال پر ملال ہو گیا ، وہ عرصہ سے مختلف امراض کے شکار تھے اور تنفس سے پریشان رہتے تھے، وہ کئی روز سے ایل این جے پی اسپتال میں زیر علاج تھے ،وینٹی لیٹر پر تھے، پس ماندگان میں اہلیہ ایک بھائی ، ایک بہن اور ایک متبنٰی محمد عمران عزیز کو چھوڑا، جنازہ کی نماز دوسرے دن بعد نماز ظہرادا کی گئی ، امامت کے فرائض ولی عہد شاہی امام شعبان بخاری نے پڑھائی اور علماء ، صلحاء کی سر زمین مہدیان جہاں انہوں نے زندگی کا بیش تر حصہ گذارا تھا ، وہیں سپرد خاک ہوئے۔
مولانا مفتی عزیز الرحمن بن محمد صدیق بن شیخ قدرت اللہ بن شیخ مولی بن شیخ بُدھائی کی ولادت 1954ء میں کالنگ پولنگ دارجلنگ میں ہوئی تھی، جہاں ان کے والد کی بسکٹ فیکٹری تھی، حالاں کہ ان کا آبائی گاؤں گمہریا، ڈھاکہ مشرقی چمپارن تھا، مفتی صاحب کی نانی ہال کُروا، سیتامڑھی تھی، ناناکا نام شیخ عنایت حسین تھا، شادی مشرقی چمپارن کے ایک گاؤں محمد پور میں شیخ عبد الرحیم بن عبد المبین کی دختر نیک اختر سے ہوئی تھی، جنہوں نے دم واپسیں تک ان کا ساتھ دیا۔
مفتی صاحب کے والد دارجلنگ بسلسلۂ کاروبار مقیم تھے، اس لیے سن شعور تک وہیں قیام رہا، ابتدائی تعلیم وہیں پائی اس کے بعد مفتاح العلوم مئو ، جامعہ حسینیہ لال دروازہ جون پور میں درجات وسطیٰ تک تعلیم حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کے لیے دار العلوم دیو بند تشریف لے گئے، فراغت کے بعد افتاء بھی وہیں سے کیا، تدریسی زندگی کا آغاز مدرسہ احیاء العلوم مبارک پور اعظم گڈھ سے کیا، مدرسہ عالیہ عرفانیہ لکھنؤ ، مدرسہ زید پور بارہ بنکی ، مدرسہ حسینیہ لال دروازہ جون پور، جامعۃ الرشاد اعظم گڈھ اور جامعہ اثریہ مئو میں بھی درس وتدریس کے فرائض انجام دیے ، کئی سال ڈاکٹر عبد الرحمن صاحب موتی ہاری کے رحمن کلینک میں بھی گذارا اور بالآخر جامعہ رحیمیہ مہدیان آکر فروکش ہو گیے، مختلف درجات کی کتابیں ان سے متعلق رہیں، بعد میں وہ شیخ الحدیث ہو گیے تھے، مفتی صاحب تین دہائیوں تک یہاں سے وابستہ رہے،کروناکے بعد جامعہ تعلیمی انحطاط کے آخری پائیدان پر پہونچ گیا ، عربی درجات بھی ٹوٹ گیے تو بس نیچے کی کتابیں رہ گئی تھیں اس میں بھی لڑکے ندارد تھے اور سارا نظام درہم برہم ہو گیا تھا۔
مولانا نفسیاتی اعتبار سے جواں سالی سیمابی کیفیت کا شکار تھے، اس لیے بہت دنوں تک ایک جگہ ٹکنے کا مزاج نہیں تھا، مزاج میں سختی بھی تھی، اس لیے ان کو کم لوگ جھیل پاتے تھے، اپنی مخصوص افتاد طبع کی وجہ سے ان کے ملنے والوں کا حلقہ بھی بڑا مختصر تھا، وہ مجلسی آدمی بھی نہیں تھے، نمود ونمائش اور تصنع سے دور رہا کرتے تھے، تقویٰ والی زندگی گذارتے تھے، کتابوں سے شغف تھا، سارا وقت مطالعہ اور تصنیف وتالیف میں لگا تے، قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒکے مشورہ پر انہوں نے دہلی کو اپنا مستقر بنایا تھا، اسلامک فقہ اکیڈمی کے لیے مقالے بھی لکھا کرتے تھے اور صحت ساتھ دیتی تو کبھی شریک بھی ہو جایا کرتے ان کے فقہی مقالات کا مجموعہ شائع ہو چکا ہے۔ان کی کتاب’’ اصلاحی تقریریں‘‘ بہت مقبول ہوئی ، انہوں نے علامہ ناصر الدین البانی کے ذریعہ احناف کے بعض مسائل پر اشکالات کا تعاقب کیا اور عربی زبان میں ’’القول المستحسن فی دفع السنن‘‘ لکھی۔
میری ان کی ملاقات غالبا 1973ء کی تھی جب میں دا رالعلوم مئو سے حفص کی تکمیل کے لیے جامعہ مفتاح العلوم مئو میں داخل ہو گیا تھا، وہ بھی ان دنوں وہیں کے طالب علم تھے اور مدرسہ کے طلبہ کی انجمن کے ذمہ دار بھی، لکھنے پڑھنے کا مزاج دو ر طالب علمی ہی سے تھا، مفتاح العلوم مئو سے طلبہ کی انجمن کا سالانہ ترجمان ’’المفتاح‘‘ نکلا کرتا تھا، وہ اس کے ایڈیٹرتھے، میں بھی قلم چلا نا سیکھ رہا تھا، اس لیے ان کی حوصلہ افزائی پر پہلا مضمون ’’خدا کی لاٹھی میں آواز نہیں‘‘ لکھا تھا، یہ افسانے کی ہیئت میں تھا، جو انہوں نے ’’المفتاح‘‘ میں چھایا اور یقینا اپنی تحریر کو کالی روشنائی میں چھپی دیکھ کرمجھے بے انتہا خوشی ہوئی تھی، یاد آتا ہے کہ ’’المفتاح‘‘ میں ہی روزہ کی حقیقت پر مکالماتی انداز میں دوسرا مضمون میرا چھپا تھا، مولانا عزیز الرحمن صاحب شاہد ؔ تخلص بھی کرتے تھے اور اس زمانہ میں کچھ شاعری سے بھی ان کو شغف رہا تھا۔
اس کے بعد ایک عرصہ تک ہم لوگ اپنی اپنی مصروفیات میں گم ہو گیے، میں نے بھی مئو کے بعد دیو بند کا رخ کیا اور اپنی تعلیمی مشغولیت اور طلبہ کی سیاست میں کھوگیا ، برسوں بعد جب وہ جامعۃ الرشاد اعظم گڈھ میں تھے ، تو انہوں نے اپنی روداد کے ساتھ علامہ نیموی پر میرے مضمون کی تحسین کرتے ہوئے لکھا : ’’بہت دنوں سے آپ سے رابطہ منقطع رہا، اس کی وجہ آپ کے پتہ سے ناواقفیت تھی، بحث ونظر میں آپ کا مقالہ علامہ ظہیر احسن شوق نیموی کے عنوان سے پڑھنے کا موقعہ ملا اور اسی کے ذریعہ آپ کا پتہ بھی معلوم ہوا، مضمون پڑھنے کے ساتھ ساتھ آپ کی تحقیق سے متاثر ہونے کے علاوہ ماضی کی یادیں تازہ ہو گئیں، آپ کو یاد ہوگا المفتاح، مفتاح العلوم مئو سے جاری کرنے کے سلسلہ میں دشواریوں اور دقتوں میں آپ کا تعاون دوستانہ اور ہمدردانہ رہا ، آپ کا مضمون بھی جو دلچسپ تھا شائع ہوا، اس کے بعد صد سالہ اجلاس کے موقع پر ہما ہمی میں آپ سے ملاقات دیو بند میں ہوئی، اس کے بعد پھر ملاقات نہ ہوسکی، خدا کا شکر ہے کہ بحث ونظر آپ سے ملاقات کا ذریعہ بن گیا، میں درمیان میں لکھنؤ تھا، اس کے بعد چار سال قبل جامعۃ الرشاد اعظم گڑھ آگیا تھا، کچھ کام کرنے کے جذبے سے لکھنؤ ترک کیا تھا اور وفاداری کی انتہائی حد تک کام کرتا رہا ، مگر نظریاتی اختلاف کی وجہ سے میں مطمئن نہیں ہوں، ۔ جس کی تفصیل انشاء اللہ بعد میں لکھوں گا‘‘، یہ خط انہوں نے 23؍ جون 1991ء کومدرسہ قاسمیہ گیا سے لکھا تھا ، جہاں وہ ایک جلسہ کے سلسلہ میں حاضر ہوئے تھے، اس کے بعد پوری زندگی تعلقات میں استواری رہی، جب دہلی جاتا مہدیان ضرورحاضری ہوتی، پہلے ملاقات کی خواہش مفتی صاحب کے ساتھ مولانا فضیل احمد قاسمی کی وجہ سے بھی پیدا ہوتی تھی، مولانا فضیل احمد قاسمی چلے گیے تومفتی صاحب سے ملنے کی للک سے مہدیان جایا کرتا تھا، میری ایک ملاقات اقبال مرحوم کے ساتھ مہدیان میں ہوتی تھی، ہمارا سماج کے عامر سلیم مرحوم کی تعزیت کے لیے مہدیان ان کے گھر جاناہواتھا، مفتی صاحب صحن میں دھوپ تاپ رہے تھے، حسب توقع تپاک سے ملے، جلدی سے ناشتہ منگا کر کرایا، احوال دریافت کیے، اپنی صحت کی خرابی کا رونا رویا ، ملاقات مختصر رہی، لیکن پُر اثر تھی۔
آخری ملاقات گذشتہ سال ہوئی تھی ، اقبال مرحوم کی خواہش پر ان کے گھر مہدیان ملاقات کے لیے گیا تھا، اقبال میری تحریر کے بڑے مداح تھے اور ہمارا سماج میں سینئر کمپوزر ہونے کے ساتھ گیسٹ کالم والا صفحہ بھی دیکھتے تھے، اور بڑی پابندی سے عموما ہر روز میرا مضمون شامل کیا کرتے تھے، وہ مہدیان ہی کے ایک کمرے میں رہتے تھے، خواہش حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے نامورپسران اور دیگر علماء کرام کی قبر پر فاتحہ پڑھنے کی بھی تھی ، اب کے حاضری مفتی صاحب کے گھر پر ہوئی سرجھکا کر بیٹھے ہوئے تھے اور وہی بیماری سے پریشان ، ناشتہ وغیرہ اقبال کرا چکے تھے اس لیے ان کی پیش کش قبول نہیں کر سکا، چلتے وقت ہر ایک نے دوسرے سے دعا کی درخواست کی انہوں نے اپنی کتابیں بھی ہدیہ کیں اور بس وہاں سے رخصت ہو کر چلا آیا، وہ معمول کے مطابق ہی تھے اور اندازہ نہیں تھا کہ بلاوا اس قدر قریب ہے، رمضان المبارک کا مبارک مہینہ، رحمت کاعشرہ، مغفرت بخشش کے کئی اشارے موجود ہیں، اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل دے ۔ آمین۔
مہدیان میں گنج ہائے گراں مایہ دفن ہیں، ان پر فاتحہ خوانی کے لیے جانا آنا ہوتا رہے گا، لیکن جن تین زندوں کی وجہ سے وہاں جاناہوتا تھا ان میں مرکزی جمعیۃ علماء کے مولانا فضیل احمدقاسمی ، جامعہ رحیمیہ مہدیان کے شیخ الحدیث حضرت مفتی صاحب، اور ہمارا سماج کے اقبال صاحب تھے، تینوں رخصت ہو گئے، اقبال صاحب نے بھی حال ہی میں کینسر کے مرض میں جان جاں آفریں کے سپرد کر دیا، جواں سال تھے، چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، مفتی صاحب کی اہلیہ کا بھی ظاہری سہارا کوئی نہیں ہے،لیکن جب سارے ظاہری سہارے چھن جاتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ اللہ سب سے بڑا سہا را ہے۔ احساس ہوتا ہے کہ
وہ مرگیے جو رونق بزم جہاں تھے
اب اٹھیے دردؔ، یاں سے کہ سب یار سو گیے
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page