محسن خالد محسن
(شعبہ اردو، گورنمنٹ شاہ حسین ایسوسی ایٹ کالج،لاہور)
علامہ محمد اقبال اردو زبان کے مشہور شاعر ہیں۔ان کی حیات کے جملہ کارہائے نمایاں کا توقیتی بیان معروضی انداز میں پیشِ خدمت ہے۔ علامہ محمد اقبال کی پیدایش سے وفات تک کے جملہ احوال سے متعلق آگاہی ان کے تخلیقی ذہن اور شعوری ادراک کی پختگی کا پتہ دیتی ہے۔
- اقبال کے آباؤ اجداد "سپرو”ہندو برہمن تھے۔
- اقبال کے جدِاعلیٰ "بابا لول حج” ہندو سے مسلمان ہوکر زراعت کا پیشہ اختیار کیا۔
- باب لول حج کی آنکھیں بھینگی اور پاؤں ٹیرھے ہونے سے مذاق اُڑا جس سے زِچ ہو کر سب کچھ چھوڑ کر گھر سے بھاگ گئے۔
- بارہ برس بعد بابا لول حج گھر واپس لوٹے۔
- کشمیر کے مشہور صوفی "بابا نصر الدین” کے ہاتھ پر بعیت کر کے ان کے نامور خلیفہ بنے۔
- بابا لول حج مرشد کی خدمت کرتے ہوئے "چرار شریف” کی درگاہ” شیخ العالم” میں دفن ہوئے۔
- شیخِ اکبر اقبال کے پڑدادا تھے جن کی شادی سادات گھرانے میں ہوئی اوریہ بھی بابا لوج حج کی طرح مرشد کے جانشین رہے۔
- شیخِ اکبر کی چوتھی پُشت میں ” شیخ محمد رفیق” کشمیر سے ہجرت کر کے سیالکوٹ آبسے۔
- شیخ محمد رفیق(اقبال کے دادا) کے بیٹے "عبداللہ” نے ریاستِ حیدر آباد دکن ہجرت کی او ر زراعت کے شعبے سے وابستہ ہوئے۔
- شیخ محمد رفیق کے ہاں گیارہ بیٹے پیدا ہوا جس میں پہلے دس شِیر خواری میں فوت ہوئے جبکہ آخری گیارہواں بیٹا زندہ رہا جس کا نام "نور محمد” رکھا گیا۔
- شیخ نور محمد 1873ء میں میں پیدا ہوا ۔یہ اقبال کے والدِ محترم ہیں۔
- شیخ نور محمد کو "نتھو” اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان کی پیدائش کے وقت ان کے ناک میں "نتھ” ڈال دی گئی تھی تاکہ موت کا فرشتہ لڑکی سمجھ کر ٹل جائے۔ بہ حکمت خدا شیخ نور محمد زندہ رہے اور "نتھو” عرفیت سے پُکارے جاتے رہے۔
- شیخ نور محمد نے قرآن کے علاوہ کچھ نہ پڑھا۔ سادہ مزاجی، حلیم الطبعی کی وجہ سے "ان پڑھ فلسفی” کے لقب سے ملقب کیے جاتے تھے۔
- شیخ نور محمد کی شادہ ضلع سیالکوٹ کے ایک کشمیری گھرانے واقع سمبڑیال میں "امام بی بی” سے ہوئی۔
- شیخ نور محمد "دُھسوں "اور”لوئیوں(شال)” بناتے تھے اور "برقعوں کی ٹوپیاں” سِیا کرتے تھے۔
- حُسنِ اخلاق،عالی ظرف اور صلح جوئی کی وجہ سے عوام الناس میں”میاں جی” مشہور ہوئے۔
- شیخ نور محمد کے ہاں 25 برس بعد پہلا بیٹا "شیخ عطا محمد(1895ء1940ء) پیدا جس نے "رُڑکی انجینئرنگ کالج”سے ڈپلومہ کیا اور اقبال کی تعلیم کے اخراجات برداشت کیے۔
- شیخ نور محمد نے ایک خواب دیکھا جس میں ایک خوبصورت کبوتر اُڑتے ہوئے اِن گود میں آگِرا۔ چند دن بعد 09۔نومبر 1877ء کو یہ خواب علامہ محمد اقبال کی صورت سچ ثابت ہوا۔
- اقبال کی والدہ امام بی بی عرف ” بے جی” ایک نیک اور پارسا خاتون تھیں جن کی عمر غریبوں اور محتاجوں کی مدد و اعانت کرتے گزر گئی۔
- مولوی غلام حسین سیالکوٹی(معروف جِیّد عالم۔امام:مسجد شوالہ تیجا سنگھ) سے سرِ راہ ملاقات کے دوران مولوی میر حسن کی نظر اقبال پر پڑی تو مولوی صاحب اقبال سے متاثر ہوئت بغیر نہ رہ سکے۔
- علامہ کی والدہ "امام بی بی” نے 78 برس کی عمر پائی ۔ان کا انتقال 1914ء میں ہوا۔
- مولوی میر حسن(1844ء۔1929ء) کے اصرار پر شیخ نور محمد نے اقبال کو اِ ن کے مکتب میں :ناظرہ قرآن” کے لیے بھجوا گیا تھا۔
- ناظرہ قرآن کی تحصیل کے بعد مولوی میر حسن”سکاچ مشن سکول” کے مدرس ہونے کی وجہ سے اقبال کو بھی اِسی سکول میں داخل کروا دیا گیا۔
- مولوی میر حسن ایک دن تاخیر سے آنے کی اقبال سے وجہ پوچھی تو فرمایا :”اقبال ہمیشہ دیر سے آتا ہے”۔اِس جملے سے مولوی صاحب بہت متاثر ہوئے تھے۔
- علامہ نے بچپن میں "گلستان و بوستان "کے علاوہ "سکندر نامہ”اور”انوار سہیلی” سلیبس کے طور پر پڑھیں۔
- مولوی میر حسن کے شاگردوں کو کبوتر پالنے کا شوق تھا۔ اقبال کے بچپن کے دوست "سید تقی شاہ” نے کبوتر جمع کیے جس پر اقبال نے غالباً پہلا "قطعہ” یعنی چند اشعار پر مشتمل "تُک بندی” کی تھی جو موزوں اور وزن میں تھی۔
- مولوی میر حسن خود کو مذہبی فرقے کے معاملے میں”میں مسلمان ہوں” کہہ کر جان چھڑا لیتے تھے۔
- سکاچ مشن سکول نے مولوی میر حسن کو ریٹار منٹ کے بعد تاحیات پوری تنخواہ دی۔
- اقبال نے مولوی میر حسن کے لیے یہ شعر بطورِ خاص کہا تھا:
- مجھے اقبال،اِس سید کے گھر سے فیض پہنچا ہے/پلے جو اِس کے دامن میں ہیں،وہ کچھ بن کے نکلے ہیں
- اقبال بچپن میں پنجابی قصے شوق سے سنتے اور خرید کر پڑھتے اور خوش الحانی سے سنایا کرتے تھے۔
- اقبال نے 1890ء میں تخلص”اقبال” اختیار کیا اور مقامی مشاعرے میں شرکت کی جب یہ آٹھویں کلاس میں تھے۔
- 1891ء میں اقبال نے مڈل کا امتحان بدرجہ اول پاس کیا اور آرٹس طلبہ میں اول رہے۔
- اپریل 1892ء میں اقبال نویں جماعت میں داخل ہوئے۔
- ستمبر 1983 ء کے دہلی کے رسالے "زبان” میں ان کی غزل چھپی ملی ہے۔جس کا مشہور شعر یہ ہے:
؎ ہاتھ دُھو بیٹھ آبِ حیواں سے خدا جانے کہاں/خضر نے اُس کو چھپا کر اے سکندر رکھ دیا
- اقبال نے داغ دہلوی کی شہرت سے متاثر ہو کر ان کی شاگردی اختیار کی ۔
- انٹر اور بی۔اے کے دوران ان پر داغؔ اور امیر مینائیؔ کے رنگِ سخن کا اثر غالب نظر آتا ہے۔
- نومبر ۔1893ء میں رسالہ”زبان” میں داغ کی شاگردی میں ان کی غزل چھپی ۔جس کے آخر میں ” تلمیذِ بلبلِ ہند حضرت داغ دہلوی” لکھا تھا۔
- کیا مزا بلبل کو آیا شیوہء بے داد کا/ڈھونڈتی پھرتی ہے اُڑ اُڑ کر جو گھر صیاد کا۔۔(لائقِ توجہ شعر)
- لڑکپن تک آتے آتے اقبال میں کتب بینی،کبوتر بازی، پتنگ بازی،ورزش اور اکھاڑہ دیکھنے کا شوق پیدا ہو گیا تھا۔
- اقبال نے گجرات کے قریب بنے امتحانی سنٹر میں مارچ 1893 میں پنجاب یونی ورسٹی کی طرف سے میٹرک کا سالانہ امتحان دیا ۔
- سفرِ گجرات کے دوران اقبال اپنے والد کے دوست سول سرجن ڈاکٹر شیخ عطا محمد(1855ء1922ء) سے مِلے جو اقبال سے اس قدر متاثر ہوئے کہ اپنی بیٹی "کریم بی بی(1874ء1947ء) سے اقبال سے شادی کر دی۔
- شادی کے وقت اقبال کی عمر 17 برس تھی۔بارات کے دن (مئی۔1893ء)اقبال کا میٹرک کا نتیجہ آیا جس میں اقبال نے 670 میں424 نمبر لے کر درجہ اول میں کامیاب ہوئے۔ اس کامیابی پر پنجاب یونی ورسٹی سے "بارہ روپے”ماہورا وظیفہ اور اسکول سے "تمغا”بطور انعام ملا۔
- اقبال جلد عمری کی شادی سے خوش نہ تھے تاہم رواج کے مطابق بقول جاوید اقبال اس شادی کو قبول کر لیا تھا۔
- اسکاچ مشن ہائی سکول کو کالج کا درجہ ملنے پر اقبال 05 مئی 1893 ء کو ایف ۔اے سال میں داخل ہو ئے۔
- ایف۔اے میں اقبال کے اختیاری مضامیں(انگریزی،ریاضی،عربی ،فلسفہ)تھے۔انگریزی اور فلسفہ پروفیسر واخ پڑھاتے تھے،ریاضی لالہ نرنجن اور عربی میر حسن پڑھاتے تھے۔
- اقبال نے ایف۔اے کا امتحان اپریل 1895ء میں درجہ دوم میں پاس کیا۔
- اقبال کےبڑے بھائی شیخ عطا کی نوکری لگ جانے سے اقبال کو لاہور میں مزید تعلیم کے لیے بھیجنے پر سب نے رضا مندی ظاہر کی تھی۔
- ایف۔اے کے بعد اقبال مزید تعلیم کے لیے ستمبر 1895ء کو لاہور پہنچے جہاں اندرون ِ بھاٹی دروزہ کے پاس مقیم دوست شیخ گلاب دین کے ہاں کچھ عرصہ قیام کیا۔
- گورنمنٹ کالج لاہور میں بے ۔اے میں داخلہ (1896)ملنے پر اقبال کو "اڈرینگل ہوٹل(موجودہ نام: اقبال ہوسٹل) میں کمرہ نمبر 01 الاٹ ہوا۔
- علامہ نے پہلے مشاعرے میں شرکت دسمبر 1895ء لاہور میں کی۔
- بی۔اے میں اقبال کے اختیاری مضامین(انگریزی۔فلسفہ۔عربی) تھے۔
- اقبال نے 1897ء میں درجہ دوم میں بی۔اے کا امتحان پاس کیا۔
- عربی مضمون میں اول آنے پر طلائی تمغا(منسوب: سید جمال الدین فقیر،خان بہادر) دیا تھا۔
- بی۔اے کے بعد اقبال نے فلسفہ میں ایم۔اے کے لیے گورنمنٹ کالج ہی میں داخلہ لیا۔
- 11۔فروری 1898ء کو پروفیسر آرنلڈ بہ حیثیت پروفیسر گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفے کے اُستاد مقرر ہوئے۔
- 1898ء میں ایم ۔اے فلسفہ میں داخلہ ہونے پر اقبال پروفیسر آرنلڈ کی شخصیت و علم و حِلم سے متاثر ہوئے اور انھیں کے ہو کر رہ گئے۔
- پروفیسر آرنلڈ نے اقبال کے بارے میں مشہورِ زمانہ جملہ کہا تھا کہ "ایسا شاگرد اُستاد کو محقق اور محقق کو محقق تر بنا دیتا ہے۔”
- پروفیسر آرنلڈ نے ہی اقبال کو اقتصادیات میں کتاب (علم الاقتصاد) لکھنے پر تحریک دی تھی۔
- پروفیسر آرنلڈ نے ہی اقبال کو شاعری ترک نہ کرنے کی تلقین کی تھی۔
- اقبال نے بانگِ درا میں اپنے محبوب اُستاد کے لیے "نالہ فراق” نظم لکھ کر ان کے احسانات و کرم فرمائی اور فِراق کی اذیت کا اظہار کیا ہے۔
- پروفیسر آرنلڈ کی بیٹی” نینسی” کو اقبال گود میں اُٹھا کر جھولے دیا کرتے تھے۔
- 22۔اپریل 1899ء کو اقبال نے ایم۔اے فلسفہ کا امتحان درجہ سوم میں پاس کیا۔ ایم ۔اے کا امتحان اکیلے پاس کرنے والے واحد طالب علم کی حیثیت سے پنجاب یونی ورسٹی نے اقبال کو "طلائی تمغا” سے نوازا تھا۔
- اقبال کے بڑے بھائی شیخ عطا چاہتے تھے کہ اقبال وکالت کی ڈگری حاصل کر کے اونچے عہدے پر ملاز مت حاصل کرے ۔
- 1899ء میں اقبال نے وکالت کا امتحان دیا تاہم پرچہ "فقہ” میں عدم دلچسپی سے فیل ہوئے۔8 سال بعد لندن کے "لنکز ان” ادارہ سے "بار ایٹ ” کی ڈگری لے کر یہ معرکہ بھی سر کر لیا۔
- وکالت کے امتحان کے دوران اقبال نے Extra Assistant Commissionerکا امتحان کی غرض سے معائنہ کروایا جس سے ان کی دائیں آنکھ(بچپن میں جونکیں لگوانے سے بینائی زائل ہو گی تھی)بینائی نہ ہونے کی وجہ سے میڈیکلی Disqualify کر دئیے گئے تھے۔
- ایم۔اے کرنے کے بعد اقبلا 13۔مئی 1899ء کو اورنینٹل کالج میں "میکلوڈ عربک ریڈر” مقرر ہوئے۔تنخواہ 72 روپے 04 آنے اور08 پائی تھی۔
- بطور "میکلوڈ عربک ریڈر” اقبال نے چار بر س کام کے دوران ایڈیشنل پروفیسر،اسٹنٹ پروفیسر کی عارضی آسامی پر بھی کام کیا۔
- اسی دوران اقبال نے گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی اور فلسفہ بھی پڑھایا۔
- 1899ء سے1905 تک اقبال نے متعدد تحریری کام بھی کیے جیسا کہ ایک تحقیقی مضمونThe Doctrine of Absolute Unity as Expounded لکھا جو ان کے پی ایچ ڈی مقالے میں شامل ہوا۔ایک انگریزی کتابPolitical Economy اور Early Plantagents کا ترجمہ و تلخیص کی۔
- 1904ء میں اقبال نے پہلی نثری تالیف "علم الاقتصاد” تالیف کی۔
- رام تیرتھ سوامی(1873ء1906ء)اقبال کے کلاس فیلو تھے جو سنسکر ت کے مشاق تھے۔ اقبال نے ان سے مولانا روم کی مثنوی کا مطالعہ کیا تھا۔رام تیرتھ کی مصاحبت میں اقبال شنکر اچاریہ کے ویدانتی فلسفے سے متاثر ہوئے تھے۔ بانگِ درا میں اقبال نے "سوامی رام تیرتھ” نظم میں را م تیرتھ سے رفاقتِ خاص کا ذکر کیا ہے۔
- نومبر 1896 میں حکیم شجاع الدین محمد لاہوری کے مکان پر منعقدہ مشاعرے میں شریک میر نظام حسین اور مرزا ارشد گورگانی نے اقبال کے بطور شرکت مشاعرہ اول میں ان کی غزل سُنی جس کے ذیلی شعر سُن کر مرزا شد گورگانی نے خوب داد دی اور اقبال کے ایک عظیم شاعر بننے کی پشین گوئی کی:
موتی سمجھ کر شان کریمی نے چُن لیے/قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے
- لاہور میں باہر جانے سے قبل اقبال نے "انجمن کشمیری مسلمان” کی سرگرمیوں میں حصہ لیا اور فروری 1896ء میں ایک مجلس میں "فلاحِ قوم” کے عنوان سے 27۔اشعار پر مشتمل نظم لکھ کر کشمیریانِلاہور کے عزم و مقصد جو توانا کیا۔
- لاہور کی ایک انجمن” آسمانِ ادب کے درخشاں ستاروں” کی وساطت سے اقبال 24۔فروری 1900 کو سر عبدالقادر، شاہ دین جسٹس ہمایوں،مولوی احمد دین اور منشی محمد دین فوق وغیرہ کی گزارش و فرمائش پر”انجمن حمایتِ اسلام”کے پلیٹ فارم پر اپنی طویل نظم” نالہ ء یتیم” پیش کی جسے سُن کر ڈپٹی نذیر احمد نے فرمایا:” میں نے ان کانوں سے انیس اور دیبر کے مرثیے سُنے،مگر جس پائے کی نظم آج سننے میں آئی اور جو اثر اِس نے میرے دل پر کیا،وہ اس سے پہلے کبھی نہ ہوا تھا”۔
- اس واقعے کے بعد اقبال بے بیشتر نظمیں (یتیم کا خواب ہلالِ عید سے[1901]،اسلامیہ کالج کا خطاب پنجاب سے[1902]،ابرِ گوہر بار یعنی فریادِ اُمت[1903] اور تصویرِ درد[1904]) انجمن حمایتِ اسلام میں تحت اللفظ پڑھ کر اپنی خوش الحانی اور ترنم کا سکہ بٹھا دیا۔
- 22۔جنوری 10901ء کو ملکہ وکٹوریہ کی وفا ت پر اقبال نے 110۔اشعار پر مشتمل نظم”اشکِ خوں” پڑھی تھی۔
- 1091ء میں سر عبدالقادر نے رسالہ”مخزن”جاری کیا جس میں اقبال کی نظم”ہمالہ” شائع کی جو اقبال کی شہرت کا نکتہ آغاز ثابت ہوئی۔
- زمانہ ملازمت کے آغاز یعنی مئی 1899ء سے انگلستان روانگی ستمبر 1905ء اقبال مختلف کرائے کے مکانات میں رہے۔
- 1896ء میں پہلی بیگم کریم بی بی سے معراج بیگم پیدا ہوئی۔
- 1898 میں آفتاب اقبال پیدا ہوئے جو 1979ء میں فوت ہوئے۔
- اقبال اور کریم بی بھی میں دلی قُربت اور ذہنی ہم آہنگی نہ ہوسکی ۔کریم بی بی بیشتر وقت اپنے میکے میں گزارانا پسند کرتی تھی۔
- مولوی میر حسن کے بیٹے سید تقی حسن اقبال کی خانگی زندگی کی تلخیوں سے بخوبی آگاہ تھے۔
- علامہ کی دوسری شادی 1910 ء میں کشمیری گھرانے کی لڑکی سردار بیگم سے ہوئی جو رخصتی سے قبل ٹوٹ گئی۔
- علامہ کی تیسری شادی1913ء میں لدھیانہ کی مختار بیگم سے ہوئی جن کا 1924 میں زچگی سے انتقال ہوا۔
- علامہ کی تین بیگمات سے یہ اُولاد ہوئیں:[کریم بی بی سے (آفتاب اقبال+معراج بی بی)۔مختار بیگم سے اُولاد نہیں ہوئی۔سردار بیگم سے (جاوید اقبال+منیرہ اقبال]
- خانگی ناہمواری کے پیشِ نظر اقبال لاہور میں بھاٹی دروازے سے متصل "بازارِ عیش(ہیرا منڈی) میں ایک "امیر ” نامی کی مغنیہ یعنی گلوکارہ کی آواز و شخصیت سے متاثر تھے اور ان کے ہاں جایا کرتے تھے۔اس بات کا تذکرہ مولو ی میر حسن کے بیٹے سید تقی شاہ سے اقبال نے خط کے ذریعے کیا ہے۔جاوید اقبال پِسر اقبال نے اِ س بات کی تصدیق "زندہ رود” میں بھی کی ہے۔
- اقبال کی چار بہنیں(فاطمہ بی۔طالع بی۔کریم بی۔زینب بی)ہیں۔ پہلی دو اقبال سے بڑی اور اواخر دو اقبال سے چھوٹی تھیں۔
- گرمیوں کی چھٹیوں میں پنجابی گھرانوں کی روایت کے پیشِ نظر کریم بی بی سُسرال آتی اور اقبال بھی گھر چلے جاتے اور سبھی بہن بھائی حلہ گُلہ کرتے۔
- اقبال اپنے سُسر سے ڈاکٹرشیخ عطا محمد کے ہاں اِن کے کتب خانے سے استفادہ کرنے کبھی کبھی جایا کرتے تھے۔
- 1904ء میں اقبال اپنے بڑے بھائی عطا محمد کے پاس ایبٹ آباد ملٹر ی ورکس بھی چھٹیوں میں گئے تھے۔
- اقبال نے بڑے بھائی عطا محمد کو بانگِ درا میں شامل نظم” التجائے مسافر” میں ” یوسفِ ثانی” لقب سے ملقب کیا ہے۔
- اقبال کے بھائی کو جھوٹے مقدے میں کسی پھنسوا دیا تھا جس پر اقبال نے لار ڈ کرزن وائسرائے کی سفارش سے مقدمہ ختم کرواکے رہائی دلوائی۔ اس واقعے کے دوران سفرِ کوئٹہ میں اقبال نے "بلبل کی فریاد” نظم لکھی تھی۔
- اقبال نے اِسی مقدمے کی خواری کی وجہ سے ولایت جاکر قانون پڑھنے کا ارادہ کیا تھا۔جسے ان کے بھائی نے اخراجات برداشت کرنے کی صورت سراہا تھا۔
- 1904ء میں پروفیسر آرنلڈ کی ہندستان سے واپسی نے اقبال کے لیے ولایت جانا ناگزیر کر دیا۔
- 1904ء میں ہی اقبال کے دوست سر عبدالقادر بھی انگلستان چلے گئے۔
- اقبال کے بھائی عطا محمد اقبال کو ولایت بھیجنے کے حق میں نہ تھے تاہم مولوی میر حسن کی سفارش سے وہ رضا مند ہو گئے۔
- یکم ستمبر1905ء کو اقبال ریل کے ذریعے ہندوستان کے لاہور سے دہلی روانہ ہوئے ۔
- 1905ء میں اقبال نے مسافر کی حیثیت سے دہلی میں حضرت نظام الدین اولیا کے مزار پر حاضری دی اور عالمِ تنہائی میں نظم”التجائے مسافر” لکھی۔
- 04۔ستمبر کو دہلی سے ممبئی پہنچے۔ممبئی شہر دیکھ کر دنگ رہ گئے ۔ممبئی سے بحری جہاز پر روانہ ہوئے۔
- اقبال نے ممبئی سے انگلستان تک بحری سفر کی روداد مولوی انشا اللہ خاں کے نام دو خطوط میں لکھی ہے۔
- 24۔ستمبر کو اقبال لندن پہنچے جہاں شیخ عبدالقادر نے اقبال کا پُر جوش استقبال کیا۔
- لندن دیکھ کر اقبال کی آنکھیں کُھلیں کی کُھیں رہ گئیں۔تین روز قیامِ لندن کے بعد اقبال کیمبرج چلے گئے۔
- 04۔نومبر 1905ء کو اقبال نے قانونی تعلیم کے لیے "لنکز اِن” میں داخلہ لیے لیا۔
- ٹرنٹی کالج میں اقبال نے پوسٹ گریجوایٹ سکالر کی حیثیت سے Advanced Student کے لیے مقالہ لکھنے کی اجازت طلب کی جو انھیں مِل گئی۔
- کیمبرج میں اقبال کو تجربہ کار اساتذہ ملے جن میں پروفیسر نِکلس ،ڈاکٹر براؤن اور پروفیسر میک ٹیگرٹ سے اقبال بہت متاثر ہوئے۔
- قانون کی تعلیم کے دوران کمیبرج میں قیام کے وقت اقبال کو پی ایچ ڈی کرنے کی تحریک پیدا ہوئی۔
- پروفیسر آرنلڈ کی مشاورت اور دیگر دوستو ں کی کرم فرمائی سے اقبال نے جرمنی سے پی ایچ ڈی کرنے کا ارادہ کیا۔
- لندن میں عطیہ فیضی سے اقبال کی پہلی ملاقات یکم اپریل 1907ء میں مس بیک کے ہاں ہوئی۔
- عطیہ فیضی ایک امیر گھرانے کی انتہائی ذہین لڑکی تھی جس سے اقبال کی ذہنی ہم آہنگی اوج پر رہی۔
- 1905ء تا1907ء دو سال کی سخت مشقت سے اقبال نے پروفیسر سورلی،ڈاکٹر رینولڈ نکلس کی ممتحنی میں اپنا مقالہ جمع کروایا تھا۔07۔مئی کو سپیشل بورڈ آف مارل سائنسز نے اقبال کا مقالہ منظور کیا اور انھیں 13۔جون 1907ء کو بے۔اے کی ڈگری مل گئی ۔یہ وہ ڈگری ہے جس نے اقبال کے لیے پی ایچ ڈی اور بارایٹ لا کے حصول کا سفر آسان کر دیا کیونکہ اس ڈگری کے بغیر پی ایچ ڈی اور بار ایٹ لا ممکن نہیں تھا۔
- بی اے کی ڈگری کےحصول کے بعد اقبال پی ایچ ڈی کے لیے جرمنی کی تیاری کر رہے تھے اور ساتھ لندن میں مقیم ہونے کی وجہ سے عطیہ فیضی کی دعوتوں میں شریک ہو کر ان کے مصاحبین سے ملاقات و گفتگو کا سلسلہ بھی جارے رکھے ہوئے تھے۔
- پی ایچ ڈی کے لیے انھیں جرمن زبان سیکھنا ضروری تھی جسے اقبال نے مقالے کی تدوین کے ساتھ سیکھنا شروع کر دیا تھا۔
- 20۔جولائی 1907ء کو اقبال لندن سے براہ راست میونح(جرمنی) پہنچے۔
- میونح کی "لُڈوِگ میک ملین یونی ورسٹی” میں The Development of Metaphysic in Persiaکےعنوان سے پی ایچ ڈی میں داخلہ کی درخواست دی۔جسے پروفیسر آرنلڈ کی سفارش سے منظور کر لیا تھا۔
- جرمن زبان سیکھنے کی غرض سے اقبال تین ماہ جرمنی مقیم رہ کر ہائیڈل برگ چلے گئے جہاں دریائے نیکر کے کنارے ایک نجی ہوٹل میں اقامت اختیار کی۔
- ہائیڈل برگ میں اقبال کی ملاقات "ایما وِیگے نوسٹ” لڑکی سے ہوئی جو میونح کی تعلیم یافتہ تھیں اور جرمن زبان کی ٹیوٹر تھیں۔ا قبال کا ایما سے تعلق اس کی ذہانت اور جمال و حُسن کی وجہ سے یادگار رہا۔
- ایما کے ساتھ ا گزرے وقت(ایک ماہ) نے اقبال کو عمر بھر بے قرار کیے رکھا ۔
- جب وقت اقبال عطیہ کے ساتھ دریائے نیکر کے کنارے زندگی کے سب سے حسیں پل گزار رہے تھے تب عطیہ بھی فیلوز کے ہمراہ ہائیڈل برگ آپہنچی اور خوب ہلہ گُلہ کیا ۔
- اقبال نے بانگِ درا میں نظم” ایک شام” دریائے نیکر کے کنارے” لکھ کر اپنے جذبات کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا ہے۔
- یکم جولائی 1908ء کو اقبال کو "لنکزاِن ” سے "بار ایٹ لاء” کی ڈگری ملی۔
- 04۔نومبر 1908ء کو پانچ رُکنی ریویو کمیٹی نے اقبال کے نگران پروفیسر فریڈر ش ہومل کی نگرانی میں اقبال کا زبانی امتحان(viva)لیا جس کا اقبال نے کامیابی سے دفاع کیا اور قابلِ عزت الفاظ کے ساتھ انھیں پی ایچ ڈی کی ڈگری جاری کر دی گئی۔
- ڈگری لے کر واپس ہندوستان آتے ہوئے براستہ پیرس جب جہاز بحرہء روم سے گزر رہا تھا تو اقبال کا دل بھر آیا اور مسلمانوں کی سِسلی جزیرے پر حجازی حکومت کے لیے انھوں نے نظم” صقیلہ” لکھی جو بانگِ درا میں شامل ہے۔
- اقبال آخری بار :ایمے” کو ملنا چاہتے تھے مگر ناکام رہے اور ساری باتیں دل میں حسرت بن کر رہ گئیں۔ایما کے نام اقبال کے 27۔خطوط اقبال اور ایما کے درمیان تعلق و قُرب کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔
- 25۔جولائی1908ء کو اقبال ممبئی کے ساحل پر اُترے اور ذریعہ ریل دہلی سے 27۔جولائی کو لاہور پہنچے جہاں شیخ گلاب دین کے آپ کے اعزاز میں استقبالیے کا اہتمام کیا تھا۔
- اقبال کے تین سالہ قیامِ یورپ میں اقبال کو پوری طرح بدل دیا گویا 1905ء سے پہلے والا اقبال کوئی تھا اور ولایت سے لوٹنے والا اقبال کوئی اور تھا۔
- اقبال نے قیامِ یورپ کے تین سالوں میں کُل 24 نظمیں اور چند غزلیں لکھی تھیں۔
- وطن واپسی کے بعد اقبال نے اگست1908ء میں وکالت کی پریکٹس سیالکوٹ(محلہ موہن لال [موجودہ ن:اُردو بازرا] شروع کر دی۔سیالکوٹ میں جی نہ لگا تو لاہور میں ضلع کچہری سے متصل پریکٹس کا آغاز کیا اور دفتری معاملات میں "چندر نامی”منشی ملازمت پر رکھ لیا۔
- اقبال اپنی شاعرانہ سوچ اور لا اُبالی طبیعت اور آزاد منش رجحان کی وجہ سے وکالت میں چل نہ سکے اور بہت جلد اس فیلڈ سے خود کو علاحدہ کر لیا۔
- ستمبر 1912ء کو اقبال کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد ملازمت سے سبکدوش ہوگئے تو اقبال پر گھریلو ذمہ داری آپڑی۔
- ملازمت کی تلاش میں اقبال مہاراجہ الور کے ہاں بھی گئے تھے مگر کم تنخواہ (چھے سو روپے)کی وجہ سے واپس لوٹ آئے تھے۔
- حیدر آباد دکن میں ججی کی خالی اسامی تھی جہاں ملازمت ممکن ہونے کے باوجود اقبال نے دلچسپی نہ لی۔
- جامعہ عثمانیہ میں قانون کی پروفیسری کی پیش کش ہوئی مگر اقبال وہاں بھی جانے کو رضا مند نہ ہوئے۔
- انارکلی میں موجود مکان میں اقبال بے روزگاری کے عالم میں رہے ۔چند مخلص دوست کی اعانت سے کاروبارِ زندگی کسی صورت چلتا رہا۔
- بے روزگاری کے اس عالم میں اقبال پر قسمت یوں مہربان ہوئی کہ گورنمنٹ کالج لاہور کے قائم مقام فلسفہ کے پروفیسر یاٹ جیمز یکم مئی 1909ء میں اچانک انتقال کر گئے۔پرنسپل کالج "رابسن” نے اقبال کو جزوقتی لیکچرار کی حیثیت سے ملازمت پر رکھ لیا۔
- اقبال کے دوست شاطر مدراسی نے موجود کلام کو چھپوانے کا ارادہ ظاہر کیا لیکن اقبال نے منع کر دیا۔
- آل انڈیا ممڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے سالانہ اجلاس دسمبر1910ء میں اقبال کو "انجمن کشمیری مسلمانان” کی صدراقت مل گئی۔
- 18۔مارچ1910ء کو اقبال نے نامور ادیب و شعرا کے ہمراہ حیدر آباد دکن میں سر اکبر حیدری کی دعوت پر سفر کیا جس میں اقبال کو بطور شاعر از حد تحسین ملی۔بانگِ درا میں شامل نظم” گورستانِ شاہی” اسی سفر کی یادگار ہے۔
- یورپ سے واپسی کے بعد اقبال کی پہلی بیگم کریم بی بی سے باوجود کوشش کے تعلقات خوشگوا ر نہ ہو سکے اور ہمیشہ کے لیے اپنے میکے چلی گئی۔
- اقبال نے مخلص دوستوں کی تجویز اور والدین کی رضامندی سے 1910ء میں لاہور میں مقیم ایک کشمیری گھرانے کی خاتون "سردار بیگم” سے نکاح کر لیا تاہم رخصتی سے قبل ایک گمنام خط(سردار بیگم کے کردار اور چال چلن کو مشکوک بتایا گیا تھا۔) کے ملنے سے اقبال نے پریشان ہو کر تنسیخِ نکاح کا سوچا ۔
- 1913ء میں اقبال نے لدھیانہ کی "مختار بیگم” سے نکاحِ کر لیا۔ اسی دوران اقبال نے سردار بیگم کو خط لکھ کر معاملے سے آگاہ کیا جس پر تحقیق سے پتہ چلا کہ اقبال کا کوئی حریف وکیل ہے جس نے یہ جھوٹا خط لکھ کر شادی رُکوانا چاہی تھی جبکہ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں تھا۔ اقبال بخوشی سردار بیگم کو گھر لے آئے جہاں سردار بیگم اور مختار بیگم دونوں ایک ساتھ رہنے لگی۔
- 1908ء سے 1913ء تک اقبال نے ملازمت کی خواری اور خانگی مسائل میں وقت گزارا۔
- اقبال نے 1911ءمیں معرکہ آرا نظم: شکوہ” لکھی جو انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں 11۔جولائی 1911ء کو پڑھی گئی۔
- نظم "شمع اور شاعر”(فروری۔1912ء) 16۔اپریل۔1912ء کو انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں پڑھی گئی۔
- اقبال نے 1908ء سے1914ء تک کُل 45 نظمیں لکھیں۔
- طرابلس پر اٹلی کے حملے نے ہندوستان کے مسلمانوں کو جذباتی کر دیا تھا۔ اقبال نے نظم” حضورِ رسالتِ مآب میں” لکھ کر مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کی ۔
- 09۔نومبر1914ء کو والدہ کی وفات نے اقبال کو شدید صدمے سے دوچار کیا جس سے تخلیقی صلاحیت جزوقتی ماند پڑ گڑی۔
- طرابلس کی لڑائی کے دوران شہید ہونے والی بچی فاطمہ پر قبال نے”فاطمہ بنتِ عبداللہ” نظم لکھی۔
- اقبال نے 1913ء میں "اسرارِخودی” لکھنا شروع کی جو ڈیڑھ برس میں مکمل ہو کر 1915ء میں چھپی۔
- 12۔ستمبر1915ء کو "اسرارِخودی” چھپ کر منظر ِ عام پر آئی ۔
- اسرارِخودی کی تخلیق کا محرک اقبال نے والدِ محترم شیخ نور محمد کو بقول خطِ عطیہ فیضی ٹھہرایا ہے۔
- اسرارِ خودی پر اقبال کے خلاف ایک محاذ کھڑا ہوا جس کے سرپرست خواجہ حسن نظامی تھے۔
- اقبال کے دفاعین میں مولانا ظفر علی خان، عبدالرحمن بجنوری، مولوی سراج الدین پال ایڈوکیٹ تھے۔
- اسرارِ خودی کے جواب میں کئی مثنویاں لکھی گئیں جن میں پیر زادہ مظفر الدین فضلی کی "رازِ بے خودی”معروف ہوئی۔
- اقبال کے دیرنہ دوست معروف شاعر اکبر الہٰ آبادی نے بھی "اسرارِ خودی” کی مخالفت میں قلم اُٹھایا۔
- اقبال نے اُردو کی تنگ دامانی کا ذکر کیا ہے کہ” اردو اشعار لکھنے سے دل برداشتہ ہوتا ہوں کہ دل کا غبار نہیں نکلتا اور طبیعت فارسی کی طرف مبذول ہوجاتی ہے”۔اسی میلان کے پیشِ نظر 1918ء میں "رموزِ بے خودی” اور 1923ء میں "پیامِ مشرق” کے لیے مواد جمع ہو گیا۔
- پنجاب کے گورنر سر مائیکل اوڈودائر کی جلیانوانہ باغ میں نہتے لوگوں پر سر ِ عام گولی چلوانے سے حالات بہت کشیدہ ہو گئے جس کا اثر اقبال کے افکار پر براہ راست پڑا۔
- 1920ء میں گاندھی کی ترکِ موالات کی تحریک نے رہی سہی کسر نکال دی۔
- اقبال ان حالات میں گوشہ نشین ہو کر رہ گئے۔
- 1922ء میں مسجد شب بھر کا واقعہ پیش آیا تھا۔ مسلمانوں نے شاہ عالمی دروازے کے باہر ڈیڑھ مرلہ سرکاری خالی جگہ پر رات بھر میں مسجد بنا کر ہندؤں کے مندر بنانے کی خواہش کو حسرت میں بدل دیا تھا۔
- 1922ء میں اقبال نے میکلوڈ روڑ لاہور(مکان نمبر116) پر واقع ایک خستہ کوٹھی خرید کر مستقل رہائش اختیار کر لی تھی۔
- 1923ء میں اقبال کو "سر” کا خطاب ملا جس پر شدید مخالفت ہوئی۔ عبدالمجید سالج نے اقبال کے نیاز مند ہونے کے باوجود حسداً ہجو لکھ ڈالی۔
کہتا تھا یہ کل ٹھنڈی سڑک پر کوئی گستاخ/سرکار کی دہلیز پہ سر ہو گئے اقبال
- عبد المجید سالک کے علاو ہ میر غلام بھیک نیرنگ اور مولانا عبدالماجد دریا آبادی مخالفت میں پیش پیش رہے۔”بندے ماترم” ہندو اخبار میں بھی تنقید کی گئی۔
- "سر” خطاب کی مخالفت کے دوران اقبال کی کتاب”پیامِ مشرق”1923ء میں شائع ہوئی۔
- 1924ء میں چورا چوری کے واقعے کو ڈھال بنا کر گاندھی نے تحریکِ ترکِ موالات ختم کرکے تحریکِ خلافت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیا۔
- 1924ء میں مصطفیٰ کمال پاشا نے سلطنتِ عثمانیہ کے حصے بخرے کر کے تُرکی کی بساط لپیٹ دی۔
- پیام مشرق کی اشاعت کے بعد قارئین کے اصرار پر کسی نے بغیر اجازت اقبال کا اُردو کلام جمع کر کے "کلیاتِ اقبال” کے نام سے چھاپ دیا جسے سر اکبری حدیری کی کوشش سے دکن تک محدود کیا گیا۔اس صورتحال کو دیکھتے ہوئےستمبر1924ء میں” بانگِ درا "باقاعدہ شائع ہوئی۔
- "بانگِ درا” کی اشاعت کے بعد شہرت کو نظر یوں لگی کہ اقبال کی تیسری زوجہ مختار بیگم کو زچگی کی حالت میں نمونیہ ہو گیا اور وہ جاں بر نہ ہو سکی اور 21۔اکتوبر1924ء کو دُنیا چھوڑ کر اقبال کو ایک عظیم سانحے سے دو چار کر گئیں۔
- 31۔جنوری 1924ء میں اقبال نے فارسی شعری مجموعہ” زبورِ عجم” مکمل کر لیا تھا۔
- 1925ء میں اقبال نے دوستوں کی تجویز پر پنجاب کی مجلس قانون ساز میں لاہور سے حصہ لیا ۔میاں عبد العزیز نے اپنا نام واپس لے کر اقبال کی رائید میں مہم چلانے کا اعلان کیا۔انتخاب کا نتیجہ 06 دسمبر 1926ء کو ضلع کچہری میں سنایا گیا۔ اقبال نے اپنے حریف ملک محمد دین کو 2177 وٹوں سے ہرا کر میدان مار لیا۔
- مئی 1927ء کی ہندو مُسلم فساد کی آگ کو ٹھنڈا کرنے میں اقبال نے اہم کردار ادا کیا۔
- یکم مئی1927ء کو مسلم لیگ کا ایک اجلاس برکت علی ممڈن ہال،لاہور میں منعقد ہوا جس میں میں مخلوط انتخاب کے خلاف اقبال کی پیش کردہ قرار داد منظور ہوئی۔
- جولائی 1929ء میں اقبال نے ہندو مُسلم تعلقات اور مسلمانوں کے مستقبل کے حوالے سے ایک خطبہ لکھنا شروع کیا جو 29۔دسمبر1929ء کو محلہ یاقوت گنج میں سامعین کے سامنے انگریزی میں پڑھا گیا اور ترجمہ شدہ کاپیاں سامعین میں تقسیم کی گئی۔
- اقبال مجلس قانون ساز کی رُکنیت سے خوش نہ تھے کہ مزاج میں سیاسی عُنصر مطلق نہ تھا۔1929ء کے انتخابات میں اقبال نے عدم دلچسپی کا اظہار کیا۔
- 1928ء میں مسلم ایجوکیشنل ایسوسی ایشن آف سدرن انڈیا نے اقبال کو علمی خطاب کی دعوت دی جس میں آپ نے بھر پور شرکت کی۔
- یکم جنوری 1929ء میں دہلی کی آل انڈیا پارٹیز مسلم کانفرس میں شریک ہوئے۔
- 1929ء میں اقبال نے تین خطبات مدراس یونی ورسٹی میں، ایک خطبہ میسور یونی ورسٹی اور تین علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں خطبے دئیے۔ان خطبات کو The Reconstruction of Religious Thougth in Islam کے نام چھاپا گیا۔اس تصنیف کا اُردو ترجمہ سید نذیر نیازی نے”جدید الٰہیات اسلامیہ” کے نام سے کیا۔
- 03۔اپریل 1931ء کو اقبال آل انڈیا مسلم کانفرس میں شرکت کے لیے دہلی گئے۔
- 10۔مئی 1929ء کو نواب بھوپال کی دعوت پر بھوپال گئے۔
- دوسری گول میز کانفرس میں شرکت کے لیے اقبال 12۔ستمبر 1931ء کو "ملوجا”نامی بحری جہاز سے انگلستان روانہ ہوئے۔اس سفر میں اقبال کے ہمراہ سید علی امام، نواب صاحب چھتاری، جسٹس سہروردی،مشیر حسین قدوائی وغیرہ شریکِ سفر تھے۔27۔ستمبر کو انگلستان پہنچے۔اقبال کی معیت میں یہ قافلہ 21۔نومبر تک لندن میں "سینٹ جمیز پیلس”لندن میں مقیم رہا۔
- اقبال 23 سال بعد لندن دوبارہا ٓئے تھے۔ بطور فلسفی مشہور تھے اس لیے سارا وقت دعوتوں ،ضیافتوں اور ملاقاتوں و تقاریر و گفتگو میں گزرا۔
- دوسری گول میز کانفرس انگریزوں اور ہندؤں کی باہمی منافقت اور ریشہ دوانیوںاور گاندھی کی غیر منصفانہ کڑی شرائط کی وجہ سے زیادہ سود مند ثابت نہ ہوئی۔
- 21۔نومبر کو اقبال غلام رسول مہر کے ہمراہ لندن سے روم روانہ ہوئے جہاں سے پیرس سے براستہ جرمنی ستائیس گھنٹے کا سفر ویگے ناسٹ سے ملنے کے لیے کرنا پڑنا تھا تاہم اقبال باوجود خواہش کے ویگے ناسٹ سے ملنے کی خواہش دل میں لیے سیدھا روم جا پہنچے جہاں پروفیسر جینٹلی(انسائیکلوپیڈیا اطالیانہ) سے ملاقات ہوئی۔
- سابق شاہ افغانستان امان اللہ خاں سے روم میں ملاقات کی ۔26۔ نومبر کو اقبال نے "رائل اکیڈمی” میں لیکشر دیا۔ عجائب گھر دیکھے اور شام کو”برنڈزی” روانہ ہو گئے۔
- اٹلی میں اقبال کی مطلق العنان حکمران مسولینی اور عظیم مفکر ِ اسلام عالم پرنس کیتانی سے ملاقاتیں یادگار ہیں۔
- 29۔نومبر کو اقبال غلام رسول کے ہمراہ اٹلی سے مصر کی طرف روانہ ہوئے۔
- یکم دسمبر1932ء کو اقبال اسکندریہ پہنچ گئے۔مصر میں پانچ دن قیام رہا اور مشاہیر سے ملاقاتیں کیں۔
- مصر میں پانچ دن قیام کے بعد اقبال مع دوستوں کے فلسطین جا پہنچے جہاں گرینڈ ہوٹل میں قیام کیا اور مفتی امین الحسینی سے ملاقات کی۔
- اقبال نے فلسطین میں دوسری موتمر کانفرس میں شرکت کے علاوہ پورا فلسطین گھوم پِھر کر دیکھا اور بہت کچھ اخذ کیا جسے بعد کو منظوم بھی کیا۔
- نظم "ذوق و شوق” سفرِ فلسطین کی روداد ہے۔
- فلسطین واپسی پر اقبال حجاز جاتے جاتے رہ گئے ۔30۔دسمبر 1931ء کو اقبال لاہور پہنچے جہاں بھر پور استقبال سے ان کی حوصلہ افزائی کی گئی۔
- تیسری گول میز کانفرس میں اقبال کی تردید کے باوجود انھیں لندن شرکت کے لیے بھیج دیا گیا۔اقبال ممبئی سے بذریعہ بحری جہاز وینس پہنچے ‘وہاں سے بذریعہ ریل پیرس گئے۔پیرس میں نپولین کے مقبرے میں گئے ۔بالِ جبرئیل میں نظم”نپولین کے مزار پر”اسی سفر کی یاد گار ہے۔اقبال پیرس سے بذریعہ ریل لندن پہنچے جہاں دو ماہ قیام کیا اور تیسری گول میز کانفرس میں شرکت بھی کی۔
- اب کے بار اقبال ویگے ناسٹ کودیکھنے اور ملنے کے لیے بے چین تھے اور اُسے خط لکھ کر اپنے آنے کی اطلاع دے چکے تھے کہ ہائیڈل برگ میں 18۔جنوری کو ملاقات ہو گی ۔اقبال کی سپین دیکھنے کی خواہش تھی ۔یہ خواہش ان کی پوری ہوئی ۔سپین کی یونی ورسٹی ” میڈر ڈ” میں پروفیسر میگول سن پلے چوائد کی زیر صدرات ایک لیکچر تھا۔اقبال نے سپین کے پانچ شہر( میڈرڈ،قرطبہ،غرناطہ،اشبیلہ،طلیطلہ) دیکھے۔بلاِ جبرئیل میں نظم” مسجدِ قرطبہ” اسی سفر کی یادگا ر ہے۔
- اقبال ویگے ناسٹ سے 26 برس بعد ملنے کی خواہش لیے سپن سے ہائیڈل برگ جانے کی بجائے پیرس سے بذریعہریل وین پہنچے اور 10۔فروری کو بحری جہاز سے ہندستان لوٹ آئے۔ اقبال ویگے ناسٹ کو کیوں نہیں مِلے۔یہ ایک معمہ ہے جو ہنوز حل نہیں ہوسکا۔
- وطن واپسی کے بعد اقبال نے یکم مارچ 1933ء کو اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ واقع ٹاؤن ہال لاہور میں ایک استقبالیے میں لیکچر دیا تھا ۔
- مارچ 1933ء میں اقبال جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بھی لیکچر دینے کے لیے گئے تھے۔
- اقبال نے پیامِ مشرق(1923ء) کا انتساب شاہ ِ افغانستان امیر امان اللہ حاں کے نام کیا ہے۔
- ستمبر 1933ء میں بچہ سقہ کا تخت گِرا کر جنرل نادر خاں بادشاہ بنا تو اس نے اقبال کو کابل آنے کی دعوت دی۔
- اقبال 20۔اکتوبر 1933ء کو لاہور سے پشاور پہنچے جہاں ڈین ہوٹل میں قیام کیا۔چند روز بعد کابل تشریف لے گئے۔اس سفر میں اقبال کے ہمراہ سر راس مسعود،پروفیسر ہادی حسین اور علی بخش اور غلام رسول خاں بیرسٹر بھی شریکِ سفر تھے۔
- سفرِ افغانستان کی روداد مثنوی” مسافر” میں منظوم کی گئی ہے۔سیاحتِ افغانستان کے دوران اقبال نے سلطان محمود غزنوی کا مقربہ دیکھا اور فاتحہ خوانی کی۔اقبال نے حکیم سنائی اور احمد شاہ ابدالی کی قبورپر بھی حاضری دی اور فاتحہ کی۔
- 04۔دسمبر1933ء کو پنجاب یونی ورسٹی نے اقبال کو "ڈی لٹ” کی اعزازی ڈگری سے نوازا۔
- نومبر 1933ء میں اقبال کو آکسفرڈ یونی ورسٹی نے لیکچر کی دعوت دی مگر طویل علالت کے باعث جا نہ سکے۔
- اقبال والد کی طرح سویوں میں دہی ڈال کر کھانے سے زکام میں پکڑے گئے ۔بہی دانہ کھانے سے زکان جاتا رہا لیکن گلہ ایسا بیٹھا کہ جان لیوا ثابت ہوا۔اقبال نے ہر طرح کی دوا استعمال کی لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔
- جون 1934ء کو دہلی سے دوا لینے کی غرض سے جاوید کو ساتھ لیے دہلی روانہ ہوئے ۔وہاں شیخ احمد سرہندی کے مزاد پر تادیر گریہ زاری کرتے رہے اور تلاوتِ قرآن میں محو رہے۔
- یکم جولائی 1934ء کو انجمن حمایت ِ اسلام نے اقبال کو صدر منتخب کر لیا۔
- اقبال کی شہرت کے پیش ِ نظر 1934ء میں ترکی اور جنوبی افریقہ سے بھی لیکچر کی دعوت ملی تاہم آپ نے جانے سے معذرت کر لی اور ارادہ ظاہر کیا کہ اب دُنیا سے جانے کو جی چاہتا ہے۔
- گلے کے علاج کے سلسلے میں اقبال ،دہلی ،بھوپال کے چکر کاٹتے رہے تاہم افاقہ نہ ہو سکا۔
- میکلوڈ روڑ والے مکان کو جاوید منزل کا نا م دے کر اس کی تعمیر کا کام شروع کروایا جو اپریل 1935ء میں مکمل ہوگااور انارکلی والے مکان کو چھوڑ کر مستقل یہی آبسے۔
- سردار بیگم کی صحت روز بروز ایسی بگڑی کہ کھانسی کے دوروں نے 23۔مئی 1935ء کو جان لے کر ہی چھوڑا۔
- اقبال کی دوسری اُردو تصنیف”بالِ جبرئیل” جنوری 1935ء میں چھپی جس کا نام انھوں نے "صورِا سرافیل” تجویز کیا تھا ۔
- اقبال نے قادیانیت کی تردید میں ایک طویل مضمونQadianism& Orthodox Muslim لکھ کر 14۔مئی 1935ء کو کلکتہ اخبارStatemanسے چھپوا کر قادیانیت کے خلاف بھر پور مخالفت کا آغاز کیا۔
- 1936ء میں اقبال نے "اسلام اور احمدیت”کے عنوان سے مضمن لکھ قادیانت کا قلع قمع کرنے کی کوشش کی۔
- 25۔اکتوبر 1935ء کو اقبال پانی پت روانہ ہوئے جہاں مولانا حالی کے جشن ِ ولادت میں شرکت کی۔
- 05۔فروری 1935ء کو اقبال نے بھوپال میں حمیدیہ ہسپتال میں طبی معائنہ کروایا اور گلے کے علاج کا کورشروع کیا۔
- اقبال چھے ماہ بعد تیسری بار علاج کے سلسلے میں 02۔مارچ 1936ء کو بھوپال گئے تھے۔
- اقبال کی مثنوی "پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق” پہلی بار اکتوبر1936ء میں شائع ہوئی۔
- 06۔مئی 1936ء کو اقبال سے قائد اعظم محمد علی جنان "جاوید منزل”لاہور میں ملنے گئے تھے۔
- 08۔مئی 1936ء کو پارلیمانی بورڈ نے اقبال کو صوبائی پارلیمانی بورڈ کا صدر منتخب کیا ۔
- 13۔جون 1937 کو اقبال نے سر اکبرحیدری کو خط لکھ کر زندگی کے مقصد کی تکمیل اور قریبِ مرگ کا اشارہ کیا تھا۔
- جولائی 1937ء میں اقبال کے انتہائی مخلص اور دیرنہ دوست سر راس مسعود کا انتقال ہونے سے اقبال پوری طرح ٹوٹ گئے۔
- اقبال کی صحت کے پیشِ نظر جولائی 1937ء میں مس ڈورس احمد(جرمن خاتون)علی گڑھ سے لاہور آکر "جاوید منزل” میں مقیم ہو کر گھر کی دیکھ بھال کرنے لگیں۔
- 07۔جنوری 1938ء کو ڈاکٹر عبدالطیف کی کاوش سے حیدر آباد دکن میں "یومِ اقبال”منایا گیا۔
- 09۔جنوری 1938ء کو پنجاب یونی ورسٹی نے اقبال کو لیکچر کی دعوت دی مگر باجوہ خرابی ِ صحت آپ شریک نہ ہو سکے۔
- مارچ 1938ء میں اقبال کی آنکھوں میں موتیا اُترنا شروع ہوا۔موتیے کا آپریشن دمے کی شکایت کے پیشِ نظر ممکن نہ ہوسکا۔
- اپریل 1938ء میں اقبال کی حالت اتنی بگڑ گئی کہ چلنا پھرنا اور کھانا پینا موقوف ہو گیا۔
- 20۔اپریل کی درمیانی شب ڈاکٹر قیوم نے ٹیکہ لگایا کہ حالت کچھ سنبھل جائے مگر بڑھتی چلی گئی ۔
- مس ڈورس احمد نے منیرہ دختر ِ اقبال کو بُلا کر والد سے ملاقات کروائی جو آخری ثابت ہوئی۔
- 21۔اپریل 1938کی شب بارہ بجے تک سبھی احباب ایک ایک کر کے چلے گئے البتہ ڈاکٹر قیوم موجود رہے ۔علی بخش اقبال کے پاس بیٹھے تھے کہ حالت متغیر ہونے پر علی بخش نے ڈاکٹر قیوم کو بلانے کے لیے باہر کی طرف دوڑے ۔ڈاکٹر قیوم کے آنے تک روحِ پرواز کر چکی تھی۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page