بہار کا موسم تھا ۔ خوش گوار ہوائیں چل رہی تھیں ۔ گھر کے تمام افراد عصرانہ پر چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے ایک دوسرے سے ہنسی مذاق کر رہے تھے۔ گھرکا مکھیا گھرکے تمام افراد کو ہنستا کھیلتا ، خوش وخرم دیکھ کر من ہی من میں مگن ہو رہا تھا کہ اس کی محنت رنگ لائی ۔ برسوں پہلے اس نے جس گلشن کو اپنے خون جگر سے سینچا تھا وہ اب ثمردار ہوجکا ہے۔
گھر کے تمام افراد مکھیا کی بہت عزت کرتے تھے ۔ مکھیا کو بھی اپنے گھر والوں پر بڑا نازواعتماد تھا کہ اگر خدانخواستہ اس پرکوئی مشکل وقت آن پڑا تو گھر کے تمام افراد اسے اس مشکل سے نکالنے کے لئے اپنی جان کی بازی لگادیں گے۔ وہ انہیں خیالوں میں کھویا ہوا تھا کہ ایک فقیر نے دروازہ پر دستک دی۔ مکھیا نے دروازہ کھولا ۔ فقیر نے صدا بلند کی” جو دیا سو اپنا باقی سب سپنا، یہ دنیا ہے یہاں کوئی کسی کا نہیں۔”
مکھیا کو فقیرکی صدا بڑی بے محل اور بے معنیٰ لگی۔ اس نے فقیر کامذاق اڑاتے ہوئے کہاکہ باغ کی قدروقیمت باغبان سے پوچھو۔ بے گھر کیا جانےگھر، خاندان اوراہل وعیال کی اہمیت اور اس کی قدر و منزلت۔ مکھیا کا جواب سن کر فقیر نے ایک زوردار کا قہقہہ لگایا اور یوں گویا ہوا ۔اے نادان ، دنیا و مافیہا کی حقیقت سے انجان, جس دن تجھ پران کی اصلیت واضح ہوگی اس دن تو بھی میرا ہم نوا ہوجائے گا۔
مکھیا نے کہا کہ یہ ناممکن ہے ۔ میرے گھر کا ایک ایک فرد میرے لیے اپنی جان دے سکتا ہے ۔ فقیر نے کہا کہ ٹھیک ہے تو پھران کا ایک امتحان ہوجائے۔ مکھیا پراعتماداندازمیں بولا، میں امتحان کے لئے تیارہوں۔
فقیر نے کہا کہ میرے پاس ایک ایسا علم ہے جس سے میں تمہاری سانسوں کوکچھ پل کے لئے روک سکتا ہوں ، ایسا کرنے سے تم لوگوں کے لئےمر چکےہو گے لیکن اصل میں تم زندہ ہو گےاوران کی ہر بات کو سن سکو گے۔ مکھیا نے کہا ٹھیک ہے۔ میں اس تجربے سے گزرنے کے لئے تیار ہوں۔
فقیر نے اپنےعلم کے زور سے مکھیا کو مردہ حالت میں پہنچا دیا جہاں وہ نہ تو بول سکتا تھا اور نہ ہی حرکت کرسکتا تھا ۔صرف ساکت وصامت لوگوں کی باتوں کو سن سکتا تھا۔
مکھیا کی موت کی خبر سن کر سب سے پہلے اس کی بوڑھی ماں روتی چلاتی آئی، بولی ہائے میرے مولا! تو نے میرے جواں سال بیٹے کوموت دے کر مجھ بڑھیا پر مصیبت کاپہاڑڈھادیاہے۔اس مصیبت سے توبہترتھا کہ اس کےبدلےتومجھ بڑھیا کو اٹھا لیا ہوتا، میں تو اپنی زندگی جی چکی ہوں ۔ بس دن گن رہی ہوں۔ ماں کے بعد بیوی اپنے بالوں کو نوچتی، چوڑیوں کو توڑتی اور چھاتیوں کو پیٹتی ہوئی آئی، وہ چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی کہ اے مولا ! تو نے یہ کیا غضب کیا مجھ کوبیوہ کردیا، میں باقی کی زندگی کس کے سہارے بسر کروں گی۔یہ دن دیکھنے سےتواچھا تھا کہ توان کے بدلے مجھے موت دیدیتا۔ اس کے بعد بچے دھاڑیں مار مار کربین کرنے لگے۔ ہرایک کی زبان پر یہی کلمہ تھااے اوپر والے، ہم یتیموں پر رحم کرہمارے والد کے بدلے ہمیں اٹھا لےاور ان کی جان بخشی کردے۔ مکھیا لوگوں کی باتیں سن کر بہت خوش ہورہاتھااور فقیر کی حرکت پرافسوس کررہاتھا۔ وہ فوراََ اپنی اصل حالت میں لوٹنے کے لئے بیقرار ہورہا تھا تاکہ وہ فقیرکو اپنے مقام ومرتبہ اور لوگوں کے دلوں میں اپنی عزت و محبت کو بتلا سکے۔
گھرماتم کدہ میں تبدیل ہوچکا تھا۔گھر کے اندر کہرام مچا تھا۔ ہر طرف سے آہ و بکا، رونے اور بین کی آوازیں آ رہی تھیں۔ تبھی اس فقیرکی صدا دوبارہ سنائی دی۔ جان کے بدلے جان بخشی۔ کوئی ہے جو اپنے عزیز کی جان بخشی کرائے ۔ فقیرکی بات سن گھروالوں کے اداس چہرے کھل اٹھے۔ سب نے حیرت سےکہا یہ کیسے ممکن ہےکہ کسی کی جان کے بدلے مردہ زندہ ہوجانے۔ فقیر نےجواب دیابالکل یہ ممکن ہے، یقین نہ ہو تو اپنی جان دے کر دیکھ لو۔ پوچھنے والا ڈر کے مارے دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔
زندگی بخشنےوالا فقیراب سب کو ملک الموت نظر آرہا تھا۔ گھرمیں سناٹاچھاگیاتھا۔ فقیر بولا جلدی کروورنہ یہ موقع بھی ہاتھ سے نکل جائےگا۔ گھر کے لوگ عجیب کشمکش میں پڑگئے ۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کریں۔ کس کی جان کے بدلے مکھیاکی جان بخشی کرائیں۔ سب بوڑھی ماں کی طرف ملتجی نظروں سے دیکھنے لگے۔ بوڑھی ماں لوگوں کے ارادوں کو بھانپ گئی اور فوراََ بولی, عزیزو! میرے تین بیٹے ہیں اورمیں نے اپنی پوری زندگی میں ان تینوں کے ساتھ کسی طرح کا کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا۔ ہمیشہ ان کے ساتھ انصاف اور مساوات کا برتاؤکیا۔آخری عمر میں اپنی جان کسی ایک بیٹے پرقربان کرکے میں امتیازی سلوک کےجرم کا ارتکاب نہیں کرسکتی ہوں۔ بوڑھی ماں کا جواب سن کر سب بیوی کی جانب بڑھے۔ بیوی موت کو اپنی جانب آتا دیکھ کربلا جھجک بولی، عزیزو! یہ سبھی جانتے ہیں کہ بچوں کی پرورش باپ کے بغیرتو ہو سکتی ہے لیکن ماں کےبغیرممکن نہیں اس لیے میں اپنے بچوں کی خاطراپنی جان نہیں دی سکتی ہوں۔ سب ناامیدومایوس بچوں کی طرف مڑے، بچے مصیبت کو اپنی طرف آتا دیکھ بیک زبان بولے، آپ لوگوں کے اندر ذرہ برابر بھی شرم وحیا نہیں ہے کیا جو آپ لوگ ہم معصوموں کی جان لینے پر تلے ہوئے ہیں۔ ہم نے تو ابھی زندگی کی ایک بھی بہار نہیں دیکھی ہے۔ پھول جیسے چہروں کو دیکھ کرآپ لوگوں کو ذرا بھی ترس اور رحم نہیں آیا کہ ان بچوں کی جان بخش دیں۔
فقیرتمام عزیزواقارب کا جواب سن کر مکھیا کی جانب بڑھااور کچھ پڑھ کر اس کے سینے پردم کیا۔ مکھیا اٹھ کھڑا ہوا اور فقیر کے جملے”جو دیا سو اپنا باقی سب سپنا، یہ دنیا ہے یہاں کوئی کسی کا نہیں” کوبلند آواز سے کہتا ہوافقیرکے ہم راہ ہولیا۔
ڈاکٹر ابرار احمد
اسسٹنٹ پروفیسر
پونا کالج آف آرٹس، سائنس اینڈ کامرس
کیمپ، پونے۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page
3 comments
نہایت عمدہ ، تمثیلی کہانی ہے ، آج کے معاشرے کا المیہ یہی ہے کہ مفادات پیش نظر ہوتے ہیں ، اور اپنوں کی ایثار و قربانی کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ۔ اس لحاظ سے اس کہانی کی جو روح ہے وہ در اصل ایک پیغام ہے کہ برے وقت میں اپنا سگہ بھی کام۔نہیں آتا ، البتہ کہانی مختصر ہے لیکن جامع ہے ، پیشکش اچھی ہے ، اس لحاظ سے اسے افسانچہ یا مختصر کہانی کہا جا سکتا ہے ۔
پروفیسر ابرار احمد صاحب مستقل بچوں کی کہانیاں لکھتے رہتے ہیں اور سچ تو یہ ہے انہیں کہانی لکھنے کا ہنر آتا ہے ۔ بہت خوب !
یہ کہانی "یہاں کوئی کسی کا نہیں” ایک بہت اثر انگیز اور سبق آموز افسانہ ہے۔ کہانی میں انسانی رشتوں کی حقیقت کو بہت خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر ابرار احمد نے بہت عمدگی سے اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ دنیا میں بظاہر جو محبت اور وفاداری دکھائی دیتی ہے، وہ حقیقت میں کتنی ناپائیدار اور خود غرض ہوسکتی ہے۔ کہانی کی خوبی یہ ہے کہ اسے ایک روایتی انداز میں پیش کیا گیا ہے، جو قارئین کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب رہتی ہے۔ کہانی کا پیغام بہت گہرا ہے اور قاری کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ ہمیں دنیا کی حقیقتوں کو سمجھنا چاہیے اور خود کو ان کی ناپائیداری سے آگاہ رکھنا چاہیے۔ مختصر یہ کہ یہ افسانہ نہ صرف ایک دلچسپ کہانی ہے بلکہ ایک اہم سبق بھی دیتی ہے کہ ہمیں اپنی زندگی میں کسی پر مکمل انحصار نہیں کرنا چاہیے اور اپنی حقیقتوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
اس افسانے سے ایک شعر میں عرض کرنا چاہوں گی۔۔۔
کس کواپنامیں کہوں کس کومنافق سمجھوں
جو بھی ملتا ہے وہ تصویر وفا لگتا ہے
ایک بہترین افسانہ "یہاں کوئی کسی کا نہیں” اس سے سب سے بڑا سبق ہمیں یہی ملتا ہے کہ اچھے وقت میں ہمارے اپنے ہم پر دل جان قربان کرتے ہیں لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ کوئی کسی کا نہیں ہوتا اور یہ بات تب خلوصا واضح ہو جاتی ہے جب ہم پر بُرا وقت آجائے۔سُکھ میں سب ساتھ ہوتے ہیں لیکن جب ہمارا وقت بُرا چل رہا ہوتا ہے تب کوئی کسی کا نہیں ہوتا۔ماشاء اللہ پروفیسر ڈاکٹر ابرار احمد سر بہت ہی بہترین افسانہ نگار ہے ۔اللہ آپ کی قدر و منزلت میں مزید اضافہ فرمائیں ۔آمین