ڈاکٹر فیصل نذیر
9818697294
faisalnzr40@gmail.com
تنویر، ببلو اور ٹھگن تینوں سائیکل رکشہ چلاتے تھے، تینوں کی دوستی بھی نوئیڈا میٹرو اسٹیشن کے پاس سے ہوئی، بعد میں پتہ چلا کہ تینوں ایک ہی علاقے سے ہیں. سب نے مل کر ایک چھوٹی سی جھونپڑی ایک نہایت ہی پچھڑے علاقے میں لے لیا. جہاں وہ رات کو جمع ہوتے، اور دن بھر کی کہانیاں سناتے، شراب پیتے، اپنے بال بچوں کی بات اور گھر کی پریشانی بتا کر سو جاتے. دن بھر میں سو دو سو تک کما پاتے، اکثر وہ مزار کے پاس موجود ہوٹل کے باہر بیٹھ جاتے ، جہاں لوگ ٹکٹ خرید کر باہر بیٹھے غریبوں اور مزدوروں کو دے دیتے ہیں تاکہ وہ کھانا کھا لیں.
وہ ہوٹل صرف ایک گھنٹے کے لئے مزدوروں اور محتاجوں کے لیے کھلتا تھا، جس دن یہ لوگ وہاں وقت پر نہیں پہنچ پاتے، وہ دن ان پر سخت گراں گزرتا. کیونکہ آدھی کمائی اس دن روٹی اور سالن کی نظر ہوجاتی. ٹھگن اکثر آ کر بڑائی مارتا کہ آج اس نے بازار سے میٹرو تک کا ایک عورت سے بیس کی جگہ پچاس روپے لے لیے. ایک دفعہ وہ جمعہ کے دن مسجد كے کنارے رکشہ کھڑی کر کے بھیک مانگنے لگا، اس دن اسے پیسے اچھے ملے. مگر وہاں پہلے سے موجود بھکاریوں نے اسے ڈرا دھمکا کر بھگا دیا. ٹھگن لوگوں کو ٹھگنے کی ساری داستاں بتاتا. اور آخر میں وہ اس بات کو بھی مانتا کہ سکون حلال کمائی میں ہی ہے، اس میں پولس کا خوف نہیں رہتا.
ان دوستوں میں غربت تھی؛ لاچاری تھی، مگر دوستی پکی تھی. ایک رات یہ لوگ بیٹھے تھے کہ اچانک کسی نے خبر دی کہ کرونا بیماری کی وجہ سے ملک میں دو ہفتے کا لوک ڈاؤن لگ گیا ہے. جو جہاں ہے اسے وہیں پر رہنے کو کہا جا رہا ہے. یہ لوگ ہڑبڑاہٹ میں سب کے ساتھ بازار کی طرف دوڑے، اور دال چاول خرید كر تینوں مطمئن ہوگئے، وقت گزارتا رہا، پونجی ختم ہوتی رہی. خیرات و دان کے ہوٹل بھی ویران پڑے تھے. دو ہفتے کا وعدہ، چار ہفتوں میں بدل گیا. اور آگے بھی امید کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی تھی. آس پڑوس سے بھی کہیں سے مدد کی امید نہیں تھی، ہر جگہ ہو کا عالم تھا. بھوک کے خوف نے اپنا خوفناک منہ کھولنا شروع کر دیا تھا. گاؤں کے لوگوں سے جب فون پر بات ہوتی تو پتا چلتا کہ گاؤں میں بڑا آرام ہے، سارے دوست و رشتہ دار گاؤں میں جمع ہوگئے ہیں. وہاں باہر گھومنے اور گھیت کھلیان جانے پر پابندی نہیں ہے، سب جمع ہیں اس لیے ایك جشن كا ماحول ہے، كبڈی اور میچ خوب ہو رہا ہے، مفت راشن بھی خوب مل رہا ہے.
شہر کی تنگ، تاریک گلیوں، بند اور دم گھٹا دینے والے تاریك کمروں، مچھروں اور چوہوں کے بیچ رہ رہے ان مزدوروں کو گاؤں ایک جنتِ عدن اور سنہرا خواب معلوم ہونے لگا. سب کا دل لمحہ بھر کے لیے بال بچوں اور ماں باپ سے ملنے کے خیال سے بے وجہ خوش ہونے لگا. سب نے تہیہ کیا کہ چلو گاؤں چلتے ہیں. کیونکہ اب دو ہی صورت ہے یا تو یہاں کھولی میں بھوک سے مرو، یا باہر نکلو اور پولیس کے ڈنڈے کھا کر مرو.
سب نے اپنی بچا کھچا پیسہ، پونجی اور سرمایہ حیات لیا اور نکل پڑے. آدھی رات کو نکلے تاکہ پولیس کی نگرانی کم ہو اور ان كے ظلم و ستم سے بچ سکیں. وہ چار پانچ گھنٹے چلتے رہے، پھر دھیرے دھیرے سورج کی تمازت ان کو پریشان کرنے لگی، اور ان کا گلا سوکھنے لگا. وہ ایک سایہ دار پیڑ کے نیچے لیٹ گئے. اور سفر کی طوالت پر بحث و مباحثہ کرنے لگے. ایک نے کہا کہ اگر اسی رفتار سے چلتے رہے تو دو مہینے میں بھی نہیں پہنچ پائیں گے. ہم سے غلطی ہوگئی، ہمیں دہلی میں ہی رکنا تھا. ٹھگن نے کہا کہ مجھے بھی بڑی نا امیدی نظر آرہی ہے، مگر اب واپس جانا اور بھی مشکل ہوگا. دھوپ بہت سخت ہے. وہ یہ سب بات کر ہی رہے تھے کہ دور سے ایک تیل لے جانے والا آئل ٹینکر نظر آیا. یہ لوگ دوڑ کر بیچ سڑک پر کھڑے ہو کر ٹینکر کو رکنے کا اشارہ کیا. ان کی حالت ٹینکر دیکھ کر ایسے ہی تھی جیسے تپتے ریت میں کسی کو پانی نظر آجائے، یا اندھیری رات میں کسی کو چمکتا راہ دکھاتا ستارہ. ٹینکر ان کے سامنے آ کر رکا، ڈرائیور نے کہا، کیوں بھئی کہاں جانا ہے؟ سب نے ایک لہجے میں اور آنکھوں میں رحم کی بھیک لے کر کہا، ہمیں مظفرپور جانا ہے، بڑی مہربانی ہوگی اگر آپ ہمیں لفٹ دے دیں.
ڈرائیور نے کہا، میں بھی وہیں سے گزروں گا، لیکن سب کے پیسے لگیں گے. پورے چھے ہزار، ایک آدمی پر دو ہزار کے حساب سے. دام سن كر ایک منٹ کے لئے سناٹا چھا گیا. تنویر نے عاجزانہ درخواست کرتے ہوئے کہا، بھائی ہم لوگ رکشا چلاتے ہیں، سائیکل رکشا. مزدور لوگ ہیں، پچھلے ایک مہینے سے کوئی کمائی نہیں ہوئی ہے. کچھ رحم کرو.
ڈرائیور اس موقع کو غنیمت سمجھ رہا تھا پیسہ کمانے کا، وہ کسی ہمدردی کے موڈ میں نہیں لگ رہا تھا. مغرور ڈرائیور نفی میں سر ہلاتا ہے. سب نے اپنے جیب میں ہاتھ ڈالا اور بچے کچے پیسے نکالے، سب ملانے کے بعد 870 رو پیے ہو رہے تھے. ان لوگوں نے اس پیسے کو ڈرائیور کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ بھائی ہمارے پاس صرف یہی روپیے ہیں. ڈرائیور یہ سن کر برا سا منہ بنایا اور چپ چاپ گاڑی شروع کر دیا. مگر ٹھگن گاڑی کے آگے کھڑا ہوگیا، اور سب گڑگڑانے لگے. اور سب نے جلدی سے اپنی گھڑی موبائل اس کے سامنے رکھ دیا. اور کہا کہ بھائی یہی سب ہے ہمارے پاس. ڈرائیور فرعونیت میں غرق تھا. اس نے پھر منہ بنا لیا، اور بولا جلدی بولو کیا کرنا ہے، اور مسافر ہیں رستے میں، کسی کو بھی لے لوں گا. اور گاڑی پھر شروع کر دی.
ٹھگن جلدی سے بولا ٹھیک ہے تم ہم تینوں كی گھڑی اور موبائل جب تك ركھ لو اور ہمارے گاؤں پہنچنے پر تم کو تین ہزار اور مل جائے گا. ہم فون پر انتظام کرتے ہیں. ڈرائیور کو کچھ تسلی ہوئی. اس نے کہا ٹھیک ہے. جب یہ لوگ آگے سیٹ پر بیٹھنے لگے تو اس نے کہا: ارے یہاں کہاں! پولس دیکھ لے گی تو بہت مارے گی اور میری نوکری بھی چلی جائے گی. سب کو پیچھے تیل کے ٹینک میں بیٹھنا ہوگا. اس میں تیل بھرا ہوا ہے، اسی ٹنکی میں تمہیں چھپ کر جانا ہوگا. ان لوگوں نے اوپر چڑھ کر جب ٹنکی کے اندر جھانکا تو وہ کسی ویران کنوے میں جھانکنے جیسا ڈراؤنا لگ رہا تھا. لیکن نہ چاہ کر بھی انہیں اس ’چاہ‘ میں اترنا ہی تھا. سب نے گھر والوں سے بات کی کہ تم لوگ فکر مت کرو، ہم لوگ ایک تیل کی ٹنکی میں گھس کر آ رہے ہیں، سب نے گھر والوں سے پورے تین ہزار رو پیے کا انتظام کرنے کو کہا. اور اسے لے کر مین روڈ پر کھڑے رہنے کو کہا، جہاں سے ہائیوے گزرتی ہے. اس ٹنکی میں گھسنا ان کے لیے بہت دشوار لگ رہا تھا، مگر باہر بھوک، پولس اور سفر کی طوالت کا خوف؛ مزید خوفناك اور جان کاہ تھا. سب کے گھر پر خوشی کا ماحول بن گیا، گاؤں کے بھی کچھ لوگوں کو معلوم ہوا وہ لوگ کس طرح بھری ہوئی تیل كی ٹنکی میں چھپ کر آرہے ہیں، تو گاؤں کے بھی کچھ لوگ ان کے استقبال اور یہ منظر دیکھنے کے لیے تیار تھے. ان کی بہادری کے چرچے ہونے لگے.
ڈرائیور نے تینوں سے کہا UP اسٹیٹ بورڈر پر بہت سخت چیکنگ ہوتی ہے، لیکن پانچ منٹ سے زیادہ نہیں لگے گا. اتنی دیر کے لیے میں ڈھکن بند کر دوں گا. اس بیچ آپ کو سانس لینے میں تھوڑی تکلیف ہوسکتی ہے. مگر میں روز کچھ لوگوں کو لے جاتا ہوں، سب خیریت سے پہنچ گئے ہیں. تم لوگ بس چیکنگ کے بیچ سنبھال لینا. پھر جیسے ہی چیک پوائنٹ سے آگے بڑھوں گا فورا ڈھكّن کھول دوں گا. یہ سن کر سب کو ڈر بھی لگا مگر سب نے سر ہلایا. اور اپنے اپنے خداؤں کا نام لے کر ٹنکی میں گھس گئے. تیل ان کے کندھے تک آرہا تھا، صرف منہ باہر کی طرف تھا. اوپر کا ڈھکن کھلا ہونے کے باوجود بدن میں جلن، بے چینی، اور بدبو سے دماغ پھٹنے لگا تھا. مگر گاڑی آگے بڑھی.
ڈرائیور جب اسٹیٹ بورڈر چیک پوائنٹ پر پہونچنے والا تھا تو اس نے گاڑی روکی اور ٹنکی کا منہ بند کر دیا، جیسے ہی تھوڑا آگے بڑھا اس کی پریشانی اور بڑھ گئی اس نے دیکھا کہ چار پانچ ٹرک پہلے سے لائن میں لگا ہوا ہے. جبکہ اب تک راستہ بالکل صاف ہوتا تھا. وہ ہارن مارتے ہوئے آگے بڑھا، پندرہ منٹ بعد اس کا نمبر آیا، اور چیکنگ پر کافی وقت لگ گیا، رشوت، دستخط، تیل اور گاڑی کا لائسنس، مالک کا نام پتہ، ان چیزوں نے خاصا وقت لے لیا. ڈرائیور ٹنکی میں موجود اپنے گراہکو کے بارے میں فکر مند تھا مگر ایسی کوئی حرکت نہیں کر سکتا تھا کہ جس سے پولس کو شک ہوجائے، اور اس نے خود کبھی ٹنکی میں سفر نہیں کیا تھا کہ اس کو پریشانی کا اندازہ ہو سکے. ٹنکی کا ڈھکن بند ہوئے تقریباً چالیس منٹ ہوگئے. اس نے کاروائی سے فارغ ہو کر جلدی سے گاڑی بھگائی، اور جیسے ہی پولس کی نظروں سے اوجھل ہوا. گاڑی روک کر اس نے پھرتی سے ڈھکن کھولا. تو اس کی پریشان آنکھیں مزید حیرت میں ڈوب گئیں، تینوں کی لاشیں تیل کے اوپر تیر رہی تھیں. اور ان كے فون كی گھنٹی بج رہی تھی، جب كہ دوسری طرف ان کے گھر اور گاؤں والے استقبال لیے مین روڈ پر آ چکے تھے.
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page