ڈاکٹرابراراحمد
اسسٹنٹ پروفیسر، شعبۂ اردو
پوناکالج آف آرٹس، سائنس اینڈکامرس، کیمپ پونے
ٹی وی چینل پرگرماگرم بحث کے دوران ایک پینلسٹ نے مغموم لہجے میں کہاکہ اس مشکل گھڑی میں جب ملک کی عوام جس میں عورتیں ،بچے ،بزرگ ،معذورغرضیکہ ہرعمراورہرطبقےکےلوگ بھوکے پیاسے سڑکوں پر پیدل چلنے پرمجبورہیں۔مہاجرمزدورگرمی کی تپش ،بھوک ،پیاس اورزخموں کی تاب نہ لاکرلقمۂ اجل بن رہے ہیں ایسے میں ایک راجا کافرض بنتاہے کہ وہ اپناراج دھرم نباہےاوربے بس ولاچارعوام کوان کے گھروں تک پہنچانے کابندوبست کرے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس مشکل وقت میں بھی راجاعوام کے مسائل کوحل کرنے کے بجائے اپنی راج گدی کومضبوط کرنے میں لگاہے۔اس نے اپنی گردن کوایک جانب جھٹک کرکہاکہ تف ہے ایسے راجا،ایسی سیاست اورایسے لوگوں پرجوگلاپھاڑپھاڑکرراجاکی حمایت کررہے ہیں۔ان لوگوں کوبے بس،مجبور،مظلوم عوام پرذرابھی رحم نہیں آتا جو بزبان حال ان سے پوچھ رہے ہیں ۔
باہروباکاخوف ہے گھرمیں بلاکی بھوک
کس موت سے مروں میں ذرارائے دیجئے
میں نے ٹی وی اسکرین سے اپنی نظریں ہٹاکرمعصومیت سے پوچھا،دادا!راج دھرم کس بلاکانام ہے؟دادانے سنجیدگی ومتانت سے جواب دیا،بیٹا!تم نے بالکل درست سوال کیاہے ،راج دھرم ایک ابتلاہی ہے۔اس آزمائش میں وہی راجا کامیاب ہوتاہےجوشاہی باغ کے بندروں کے راجا کے راستےپرچلتاہے۔میں نے فرط مسرت میں چہک کر کہادادا!وہ کہانی سنائیے۔دادانے کہانی سنانی شروع کی۔
بیٹا!یہ کہانی بہت پرانی ہےاورسینہ بسینہ اسی طرح ہم تک پہنچی ہے۔کہتے ہیں کہ ایک باربنارس کی راج گدی پر ایک ایسا راجا براجمان ہوا جسے اپنی پرجاسے زیادہ اپنی راج گدی اورشاہی خزانے کی فکرلاحق رہتی تھی۔ایک روزآموں کےموسم میں راجا شاہی باغ میں آموں کی فصل کامعائنہ کرنے کے لیے آیا۔وہ بندروں کودیکھ کرغصے سے بھڑک اٹھاکہ بندرکچے پکے آموں کودانتوں سے کانٹ کربربادکررہے ہیں۔اس نے طیش میں آکرباغبانوں کوحکم دیاکہ باغ کے گردباڑباندھواورایسے بان چلاؤکہ کوئی بندربچ کے نہ نکل پائے۔
بندروں نےباغبانوں کی یہ سازش سن لی۔ وہ فوراًاپنے راجا کے پاس گئے اورپوچھاکہ ہے بندرراجا بتاؤ اب ہم کیاکریں ۔ راجا کے ظلم سے کیسے بچیں؟بندرراجا نے کہاکہ فکرمت کرو۔میں اس ظالم راجا سے بچنے کی کوئی ترکیب نکالتاہوں۔یہ کہہ وہ ایک ایسے درخت پرچڑھ گیاجس کی شاخیں گنگاکےگھاٹ پہ دورتک پھیلی ہوئی تھیں۔گھاٹ پہ پھیلی ہوئی آخری شاخ سے دوسرے کنارے چھلانگ لگاکرفاصلہ ناپااوراس لمبائی کاایک بانس توڑدریااس پارکی ایک جھاڑی سےباندھ کرآم کی شاخ تک لانے کی کوشش کی ۔مگرناپ میں تھوڑی سی چوک ہوگئی ۔ بانس اورآم کی ڈال کے بیچ میں بندرراجا کے جسم برابرفاصلہ رہ گیا۔راجانے اپناراج دھرم نباہتے ہوئے یہ کیاکہ بانس کے سرے سے اپنی ٹانگ باندھی اورہاتھ سے آم کی ڈالی پکڑی۔بندروں سے کہاکہ لومیں پل بن گیاہوں ۔تم میرے اوپرسے بانس پرجاؤاوربانس پرسے گنگاپارکودجاؤ۔
باغ میں پھنسے ہوئے ہزاروں بندرراجا کے جسم سے گزرکرگنگااس پارچلے گئے ۔ہزاروں بندروں کے چلنے کے باعث راجا کی پیٹھ زخمی ہوگئی ۔ وہ زخموں سے نڈھال ادھ مراہوگیا۔بنارس کاراجا اپنی باغ میں بیٹھایہ سارہ منظردیکھ رہاتھااس نے چھٹ پٹ بندرراجا کودرخت سے نیچے اتارا،گنگااشنان کرایااور جڑی بوٹیوں کودودھ میں گھول کرپلایا۔پھراس سے یوں گویاہواکہ ہے بندرراجا،تواپنی پرجاکے لیے پل بناپرتیری پرجانے تیرے ساتھ کیاکیا۔ بندرراجابولاکہ اے بنارس کے مہاراج اس میں تمہارے لیے ایک نصیحت ہے۔راجا کوچاہیئے کہ پرجاکودکھی نہ ہونے دے چاہے راجا کو اس کے لیے اپنی جان ہی کیوں نادینی پڑے۔یہ کہہ کربندرراجا چھلانگ لگاتاہوانظروں سے اوجھل ہوگیا۔دادا نے کہانی ختم کرتے ہوئے ہنکاری بھرائی ،بیٹا! اب سمجھے راج دھرم کیاہوتاہے۔میں نےکہا، ہاں داداجی ،سمجھ میں آگیا۔راج دھرم،احساس ذمہ داری اورجوابدہی کانام ہے۔ہرراجااپنے پرجا کے تئیں جوابدہ ہے کہ اس نے اپنا فرض پورا کیا،اپنے پرجا کی جان ومال کی حفاظت کی یاصرف اپنی راج گدی کومضبوظ کرنے میں لگارہا۔لیکن ٹی وی چینلوں کے مالکان اوراینکروں کو کب سمجھ میں آئے گا۔ میں نے چینل بدلناشروع کیا،ایک چینل ،دوسراچینل جوچینل بھی سامنے آتااس سے یہی احساس ہوتاکہ سب چنگاہے ۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page
3 comments
ڈاکٹر ابرار احمد کے قلم سے لکھا گیا یہ افسانہ”راج دھرم” کے موضوع پر ایک اخلاقی کہانی پیش کرتا ہے۔ کہانی میں ایک راجا اور بندر راجا کے درمیان ایک تمثیلی واقعہ بیان کیا گیا ہے جس کے ذریعے مصنف نے راجا کے فرائض اور عوام کے تئیں اس کی ذمہ داریوں کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔
افسانے کا مرکزی خیال یہ ہے کہ ایک حقیقی راجا وہ ہے جو اپنی عوام کے تحفظ اور خوشحالی کو اولین ترجیح دے، چاہے اس کے لیے اسے اپنی جان ہی کیوں نہ قربان کرنی پڑے۔ بندر راجا کی مثال دیتے ہوئے، مصنف نے دکھایا کہ راجا کو اپنے عوام کے لئے قربانی دینے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ کہ راجا کا "راج دھرم” اپنی پرجا کی بھلائی اور فلاح کے لئے ہوتا ہے، نہ کہ صرف اپنی سلطنت کو مضبوط کرنے کے لئے۔
افسانہ موجودہ حالات کی تنقید بھی کرتا ہے، جہاں بعض حکمران اپنے فرائض کی بجائے اپنی حکمرانی کو مضبوط بنانے میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں، جبکہ عوام مشکلات کا سامنا کر رہی ہوتی ہے۔ اس تحریر میں مصنف نے اخلاقی سبق دینے کے ساتھ ساتھ موجودہ سماجی اور سیاسی حالات پر طنزیہ تبصرہ بھی کیا ہے۔
افسانہ میں میڈیا کے کردار پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ مصنف نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ ٹی وی چینلز اور اینکرز اکثر حقیقی مسائل کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور ایسی خبریں پیش کرتے ہیں جو صرف یہ دکھاتی ہیں کہ سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ یہ میڈیا کی غیر ذمہ دارانہ روش اور عوام کے مسائل سے ان کی بے اعتنائی پر ایک سخت تنقید ہے۔
آخر میں، "راج دھرم” ایک ایسا سبق ہے جو ہر حکمران کو یاد دلاتا ہے کہ وہ اپنی رعایا کے تئیں جوابدہ ہے، اور اسے اپنے فرائض کو ایمانداری سے نبھانا چاہیے، ورنہ وہ ایک ناکام حکمران تصور کیا جائے گا۔ یہ کہانی عوام کو بھی اس بات کا شعور دیتی ہے کہ انہیں اپنے حکمرانوں سے جوابدہی کا مطالبہ کرنا چاہیے اور ان کے فرائض کی یاد دہانی کرانی چاہیے۔
انفرادی طور پر میں یہ کہنا چاہوں گی کہ پروفیسر ڈاکٹر ابرار احمد سر سے میں بہت متاثر ہوں۔ جس طرح سے انہوں نے میری رہنمائی کی ہے میں سر کی بہت شکر گزار ہوں۔ مجھے ابرار احمد سر جیسے با صلاحیت پروفیسر سے تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا جس کی میں تہ دل سے ممنون ہوں۔
کہانی مختصر ہونے کے باوجود جامع اور سبق آموز ہے ، یہ سچ ہے کہ آج کے سربراہان مملکت کا رویہ عوام کے مسائل و ذات سے بالکل لا تعلق کا ہے ، ایوانوں میں بڑے بڑے وعدے کئے جاتے ہیں ، ملک کی تعمیر و ترقی سے لے کر عوامی فلاح و بہبود اور تحفظ ان کے ایجنڈے کا حصہ ہوتے ہیں ، لیکن یہ محض سبز باغ دکھانے کے حربے اور سیاسی شکنجے ہیں ، جس کا شکار عوام ہوتی ہے ، بھوک ، روزگار ، تعلیم ، صحت اور دیگر بنیادی مسائل کے مطالبے کو لے کر عوام سڑکوں ، چوراہوں ، گلی کوچوں اور ایوانوں کے گلیاروں میں نعرے لگا کر تھک جاتی ہے لیکن حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ، کیوں کہ حکمرانوں کو اپنا منصب ، کرسی اور ذاتی مفاد عزیز ہوتا ہے اس سے کچھ غرض نہیں کہ ملکی مسائل کیا ہیں ، کہانی کار نے اس کہانی میں تضادات کو ابھارنے کی غیر معمولی سعی کی ہے ، کیوں دوسری طرف بندروں کے راجہ کا کردار اس کے فرائض کے تئیں احساس ذمہ داری اور اپنی رعایا کے مسائل سے غیر معمولی دلچسپی نے ایک اہم نکتہ پیدا کر دیا ہے ، جو انسان اور حیوان کے مابین بعد المشرقین صنفی تخالف کے باوجود قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ ہم ان بندروں سے بھی فرو تر ہیں جس کے دل میں اپنی رعیت کے نفع و ضرر کی فکر مندی اور ہمدردی کا جذبہ پایا جاتا ہے ۔
کہانی بڑی اہم اور فکر انگیز ہے ، اسے آج کی سیاست کا آئینہ کہا جا سکتا ہے، انداز نگارش اور پیشکش خوب سے خوب تر ہے ۔
محمد مرسلین اصلاحی
افسانہ موجودہ دور کو دیکھتے ہوئے لکھا گیا ہے اور ایک راجہ کو اس کے پرجا کے ساتھ کس طریقے کا سلوک کرنا چاہیے اس کی طرف بھی روشنی ڈالی گئ ہے لوگوں کو روزگار فراہم کرنا ان کے علاج معالجہ کے لئے اچھے ہسپتال قائم کرنا ان کی پریشانیوں کو اپنی پریشانی سمجھنا
مگر ہو یہ رہا ہے کہ ایوانوں میں اس طرف توجہ ہی نہیں دی جا رہی ہے جو کچھ لوگ پارلیمنٹ کے اندر اس طرف توجہ مبذول کراتے ہیں ان کو خاموش کر دیا جاتا ہے یا پھر ان کی رکنیت ختم کر دی جاتی ہے
آج کے دور میں ایک خاص قوم کے لوگوں کو بھی ٹارگٹ کیا جاتاہے مگر سیکولر کے علمبردار خاموش نظر آتے ہیں اور جو تھوڑے بہت بولتے ہے تو ان کو خاموش کر دیا جاتا ہے