ڈھلانوں پر کھڑے مکان سہمے ہوئے تھے۔ ۔۔ کہ ان کے جھنڈ میں سب سے بلندی پر بنے مکان کی جڑوں سے بھر بھر کرتی مٹی سرکنے لگی تھی۔ ان اطراف کے مکانوں کے عقبی حصے ڈھلان کی طرف پڑتے تھے۔ان کے ارد گرد اور پھر دور نیچے تک دیودار، چیڑاور شاہ بلوت کے سر سبز و شاداب سلسلے تھے۔۔۔ اور بہت نیچے۔۔۔ گہرائی میں ۔۔۔اوپر سے آنے والے پانیوں کا نالا۔
وہ مکان میرے گھر کی بالکنی سے کچھ ایسے زاوئیے پر واقع تھا کہ پیڑوں کے درمیان سے اس کا پچھلا حصہ صا ف دکھائی دیتا تھااور ابھی میری نظر اس سمت اتفاقاًً نہیں اٹھی تھی۔۔۔بلکہ میرے من میں اس کے لئے تجسس کی لہریں پے در پے اٹھتی ہی رہتی تھیں اور یہ تب سے تھا ،جب سے اس مکان کا نیا مالک وہاں مکین ہوا تھا۔
سب سے بلندی پر واقع اس مکان کے سامنے سے گذرتی ہوئی سڑک اوپر کی طرف جاتی تھی اور ذرا آگے جاکر ایک وسیع و عریض، مسطح،پختہ اور سجے سجائے۔۔۔ میدان نما خطے میں تبدیل ہو جاتی تھی۔اس کے ڈھلان والے کنارے پر اسٹیل کی بیحد چمکدار دوہری ریلنگ لگی تھی،جہاں سے لوگ بے خطرپوری وادی کا نظارہ کرتے تھے اور رات کی روشنیاں یوں لگتیں جیسے تمام وادی نے جگنئوؤں کی چادر اوڑھ رکھی ہو۔ یہاں بیشتر سیلانی اور مقامی باشندے تفریح کی غرض سے ٓاتے اور خوشگوار شاموں،چمکتی دھوپ والے دن یا مست مست ہوتی برف باری سے لطف اندوز ہوتے۔
۔۔۔ پوری رات جم کر برسنے کے بعد،جانے کس بات پر بادلوں میں نا چاقی ہوگئی تھی اور وہ ایک دوسرے سے بد گمان ہو کر دور دور ہوگئے تھے ۔ کم سِن سورج اپنی معصوم شعاعیں بکھیر رہا تھا۔ مجھے بالکنی میں کھڑا۔۔۔نازک نازک دھوپ میں لپٹا دیکھ، میری بیوی اسی طرف چلی آئی اوراپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی چائے کی پیالی میری طرف بڑھاتے ہوئے بولی ۔ـــــ’’ اس گھر کے کچھ راز باہر آئے؟‘‘
’’ َراز تو ابھی راز ہے۔یہ دیکھو، کیا باہر آ رہا ہے۔‘‘میںنے اس مکان کی بنیادوںسے پھسلتی مٹی کی طرف اشارہ کیا۔ وہ یکدم چونک پڑی۔
’’ یہ تو اس کے لئے۔۔۔ہمارے لئے۔۔۔سمجھو تو، ساری گھاٹی کے لئے مضر ہے۔ اسے بتانا ہوگا۔شاید اسے اس کا پتہ نہ ہو۔‘‘ وہ خاموش ہوگئی پھر فکرمند لہجے میںبولی۔’’ مگرپہلے وہ ملے اور بات مانے!‘‘
’’میںدیکھتا ہوں اور ساتھ ہی پوچھتا ہوںکہ اسے میرے گھر کی بنیادوں میں بھی کوئی ہلچل دکھائی دیتی ہے کیا! ‘‘میں نے کہا اور گھر سے باہر نکل آیا۔اوپر اٹھتی ِ۔۔۔نصف دائرہ نما سڑک سے ہوتے ہوئے میں اس مکان تک پہنچا۔کال بیل بجائی لیکن کوئی جواب نہ پاکر،دروازے کے بازو میں واقع دکان کے مالک کو حقیقت حال کی خبر دی اور آگے ۔۔۔مقام تفریح کی جانب بڑھ گیا۔ شاید وہ وہیں ملے۔ میں نے آس پاس نظر دوڑائی ۔ وہاں چہل قدمی کرتے۔۔۔ بنچوں پر بیٹھے۔۔۔ اور خوش گپیوں میں مشغول لوگوں کے چہروں کا بغور جائزہ لیا۔دراصل اسے پہچاننا مشکل تھا کیونکہ وہ اکثر و بیشترمختلف علاقائی ملبوسات اور نت نئے چھَب میں رہتا تھا۔کئی بار تو اس نے لوگوں کی تفریح کرنے والے جوکرکا روپ دھار لیا۔۔۔ اور ایک شام تو ایسا ہوا کہ وہ سنہر ی ہیٹ، سوٹ، ٹائی، دستانے اور جوتے پہنے۔۔۔ چہرے پر سنہری پینٹ اور ناک پر ایک لمبی مصنوئی سنہری ناک لگائے ۔۔۔ غرض پورے کا پورا سونا بن کر ۔۔تفریح گاہ کے وسط میں ایک مجسمے کی صورت کھڑا ہو گیا۔ سو اسے پہچاننا بہت مشکل تھا۔
خاصی کوششوں کے بعدآخر وہ مجھے مل ہی گیا۔شاید وہی بنچ پر تنہا بیٹھا تھا اور انگلیوں پر کچھ اعداد و شمار میں مصروف تھا۔ آج بھی اس کی وضع مختلف تھی ۔ میں اس کے قریب بیٹھ گیا اور یقین ہو جانے کے بعد کہ ہاں یہ وہی ہے۔۔۔ اس سے مخاطب ہوا ’’ کیا آپ کو پتہ ہے کہ آپ کے مکان تلے کی زمین کھسک رہی ہے؟‘‘
اس نے ایک پل کو میری جانب دیکھا۔اس کی آنکھوں میں الجھن کے آثار تھے۔ جیسے اس کا کچھ کھو گیا ہو۔ پھر وہ دوبارہ انگلیوں پر اعداد و شمار کرنے میں منہمک ہو گیا۔ میں اس کے رد عمل کا انتظار کر تا رہا مگر وہ میری طرف متوجہ نہیں ہوا۔کچھ دیر بعد میں اٹھا اورواپس چل دیا۔ راستے میں ملنے والے شناسا لوگوں کو میں اس خطرے سے آگاہ کرتا رہا ۔۔۔اور ساتھ ہی اس کے بارے میں سوچتا رہا۔ ۔۔
مجھے وہ دن یاد آیا جب وہ پہلی بار یہاں آیا تھا۔اس روز اس نے مقامی باشندوں سا لباس پہن رکھا تھا۔اس نے ایک ہاتھ میں ایک بڑی سی ٹرالی اور دوسرے میں عجیب قسم کی۔۔۔سیدھے کھڑے ڈھول جیسی۔۔۔ چھوٹے چھوٹے پہئے لگی ٹوکری سنبھال رکھی تھی،جس کا ڈھکن رہ رہ کر خود بخود اٹھنے لگتا اورجسے وہ بہت تیزی کے ساتھ دبا دیتا۔ جن لوگوں نے جانا کہ وہ نیا مالک مکان ہے، انہوں نے اسے خوش آمدید کہا اور ہ بھی ان سے بڑے اخلاق و محبت سے ملتا گیا۔
اس کی آمدکے چند دنوں بعدکچھ مزدور کانچ کی چھوٹی بڑی چادریں سنبھالے اس گھر میں داخل ہوئے۔گھر کی ساری کھڑکیوں میں لگی شفاف کانچ ہٹا کر ان کی جگہ نئی کانچ لگا دی گئی۔اب ان کھڑکیوں کی باہری صورت ایسی۔۔۔ جیسے آئینہ۔
جتنی خاموشی سے وہ مزدور آئے تھے اتنی ہی خاموشی سے لوٹ گئے۔ کچھ ہی دن بیتے کہ لکڑی کے کاریگر آئے اور اس مکان کی پشت پر چلے گئے۔ انہوں نے وہاں اگے دیودار کے ایک پیڑکوکاٹ گرایا پھر اس کے تنے کے نچلے موٹے حصے کو علیحدہ کر کے گھر کے اندر لے آئے۔چند دنوں تک اندر سے لکڑی کی تراش خراش کی آوازیں آتی رہیں۔۔۔ اور ایک دن اس لکڑی سے بنے نصف آدم قدمجسمے کو چھت کے اوپر کچن کی چمنی سے ذرا ہٹ کر نصب کر دیا گیا۔ ۔۔ایک چوکور، چھوٹے صندوق جیسے چبوترے پر ۔۔۔ اپنے داہنے پنجے کے سہارے کھڑی ایک چیل۔۔۔ اس کا دوسرا ہاتھ اٹھا اور مڑا ہوا۔۔۔ دونوں پنکھ پورے پھیلے ہوئے ، جیسے پرواز کے لئے پوری طرح تیار۔
ابھی کاریگر اترے اور گھر سے باہر گئے ہی تھے کہ جانے کہاں سے آکر۔۔۔ ایک سانپ اس چیل کے ڈینوں سے پوری طرح لپٹ گیا۔ دیکھنے والے جو اس مجسمے کی تنصیب پر حیران اور پریشان تھے، سانپ کے اس طرح نمودار ہونے پر مضطرب ہو اٹھے۔ لوگوںنے اس کے دروازے پر دستک دی کہ اسے حالات سے آگاہ کر دیا جائے۔ ایک لمبے توقف کے بعد دروازہ کھلااور وہ سامنے آیا تو دیکھنے والے اس کا چہرہ نہیں دیکھ پائے کہ اس نے اپنی سوئیٹ شرٹ کا ہوڈ پوری طرح سے اپنے چہرے پر جھکا رکھا تھا۔ لوگوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور ایک نے اسے سارا ماجرہ کہہ سنایا۔ وہ کھڑا۔۔۔ خاموشی سے ساری باتیں سنتا رہا پھر ایک قدم پیچھے ہٹ کر۔۔۔ اس نے آہستہ سے دروازہ بند کر لیا۔ لوگ پیچھے ہٹ کر سڑک کے اس پار چلے آئے تاکہ اس سانپ پر مکان مالک کے اقدام کو دیکھ سکیں لیکن کافی انتظار کے بعد بھی کوئی کارروائی سامنے نہیں آئی تو اپنے دلوں کی ٹوکری میں اس سانپ کا خوف لئے ۔۔۔ وہاں سے منتشر ہو گئے۔ اس روز جب لکڑی کے کاریگر گھر سے نکل کر واپس جا رہے تھے تو پڑوس کی دکان کا مالک ان کے پیچھے لگ گیا تھا۔ یہ بات اس نے خود مجھے بتائی اور بولا ۔۔۔۔۔
’’ میں نے ان سے اندر کا حال جاننے کی بہت کوششیں کیں۔ انہیں لالچ بھی دیا مگر جیسے انہیں سانپ سونگھ گیا تھا۔ ‘‘
۔۔۔سوچتے سوچتے میں اس مکان کے سامنے آگیا۔میری نظریں غیر ارادی طور پراس کی ڈھلواں چھت کی طرف اٹھ گئیں۔۔۔
چیل بے بس کھڑی تھی۔ اس کے ڈینوں کو سانپ نے کس رکھا تھا۔
میں نے گھر آ کر ساری باتیں اور اس کی بے پروائی کی روداد اپنی بیوی کے سامنے رکھ دیں۔ بستر کی چادر درست کرتے کرتے وہ میری طرف مڑ کر بولی۔۔۔’’ میں نے کہا تھا نا کہ پہلے وہ ملے اور بات مانے۔ ‘‘
کئی دن بیتے۔ میری بیوی کے من میں یہ مسئلہ کنڈلی مار کر بیٹھ گیا تھا۔وہ دن میںکئی بار بالکنی میں کھڑی ہوکر اس پریشان کن منظر کو دیکھتی رہتی۔ اس دوران تردد کے کئی رنگ اس کے چہرے پر آتے جاتے رہتے۔ ایک بار وہ مجھ سے بولی ۔۔۔
’’ یہ بات مگر بہت الجھن والی ہے۔اس کا پتہ یہاں کے ذمہ دار لوگوں کو ہونا چاہئے۔‘‘
’’ میں نے بتایا تھا نا کہ لوگ تھانے گئے تھے مگر وہاں بے رخی کا راج تھا ۔ تب کلکٹرکے ہاں گئے اور بہت کہنے سننے کے بعد، اگلے دن تھانے کا ایک اہلکار اس کے گھر آیا۔اس نے دستک دی ۔ ایک مدت کے بعد دروازہ کھلا۔وہ اندر داخل ہوا اور ذرا ہی دیر میں باہر آگیا۔۔۔ خاموش۔۔۔ چہرہ فق۔۔۔ اورخاموشی کے ساتھ ہی و اپس چلا گیا۔ ‘‘
’’ہاں ،ہاں، یاد آیا۔اس الجھن نے مجھے بھلکڑ بنا دیا ہے۔‘‘
’’ اب یہی الجھن۔۔۔ہر ایک کے دل و دماغ میں پھن کاڑھے بیٹھی ہے۔آپس میں جب ملتے ہیں، اسی کی باتیں کرتے ہیں مگر سیلانیوں کو اس کی بھنک نہیں لگنے دی گئی ہے۔ ‘‘
وہ بغورسامنے دیکھتی ہوئی بولی ’’ اگر کچھ ہوتا ہے تو وہ بھی۔۔۔۔ دیکھو، کبھی کبھی جب ایک جگہ سے ڈھیر ساری مٹی ،ایک ساتھ بھرکتی ہے تو لگتا ہے جیسے کوئی اژدہا تیزی سے نیچے بھاگا جا رہا ہے۔ ‘‘ چند لمحوں کی خاموشی کے بعد وہ پھر بولی۔’’ اس کی چھت پر جو سانپ چڑھ آیا تھا، اس کا کیا ہوا؟ ‘‘
’’ اس کا یہ ہوا کہ وہ ابھی بھی چیل کی پیٹھ پر سوار۔۔۔ اس کے ڈینوں کے گرد کنڈلی مارے بیٹھا ہے۔ ۔۔ اور تم دیکھو، شاید تم نے چولہے پر دودھ چڑھا رکھا ہے۔ اس کے گر کر جلنے کی بو آرہی ہے۔‘‘
جلنے کی بو شاید اس نے بھی محسوس کر لی تھی۔ وہ تیزی سے کچن کی طرف بھاگی اور میں نے آج کا اخبار اٹھا لیا۔اس اخبار میں ہمارے علاقے میں ہونے والی ان حیران کن اور تشویش ناک واردات کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ پھر میں نے ٹیلی ویژن آن کیا۔ اس میں غیر متعلق اور پرائے علاقوں کی کہانیاں بھری پڑی تھیں۔میں نے غصے میں ریموٹ کا سرخ بٹن دبا دیا۔
کہانیاں۔۔۔سچی کچھ جھوٹی۔۔۔ علاقے میں گردش کرنے لگیں۔سیلانیوں کی نظریں بھی اس چھت کی طرف گئیں اور یہ منظر ان کی دلچسپی کا مرکز بن گیا مگر یہ دلچسپی دھیرے دھیرے ایک انجانے خوف میں تبدیل ہونے لگی۔سیر و تفریح کے دوران ایک دوسرے سے مانوس ہوئے سیلانیوں نے بھی ان مسئلوں پر گفتگو کی اور واپسی کی تیاریاں کرنے لگے۔
۔۔۔ میں دفتر جانے کی تیاریوں میں مصروف تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے آج بادلوں میں پھر سے مفاہمت ہو گئی تھی اور ان کے تعلقات دوستانہ ہونے کے صاف آثار تھے،اس لئے میں بالکنی کی ریلنگ میں جھولتی چھتری لینے ادھر گیا۔چھتری نکالتے نکالتے میں نے ایک نظر اس مکان پر ڈالی اور چونک اٹھا۔ میں نے بیوی کو آواز دی۔’’ ادھر سنو۱‘‘
میری گھٹی گھٹی سی آواز سن کر وہ لپکی آئی۔میں بولا’’ ادھر دیکھو۱‘‘
اس نے ادھر غور سے دیکھا ۔جیسے کسی نے اسے دونوں بازوؤں سے پکڑکر دھکا دیا ہو، وہ لڑکھڑاتی ہوئی دو قدم پیچھے ہٹ آئی اور خوف بھری نظروں سے مجھے دیکھنے لگی۔ ’’ یہ کیا۔۔۔؟‘‘
’’ کل جو بھرم تھے۔ آج وہ حقیقت ہیں اور اس مکان کی بنیادوں سے نکل نکل کر گھوم رہے ہیں۔ ‘‘
’’ اور کیا پتہ کہ وہ ہمارے گھر کا بھی رخ کر لیں۔ ‘‘
’’ ہاں، سب سے پہلے ہم سارے کھڑکی دروازے بند کر لیں۔ پھر میں باہر جا کر دیکھتا ہوںکہ کیا ہو سکتا ہے اور دوسرے کیا کر رہے ہیں۔‘‘
میں نے ہاتھ میں پکڑی چھتری وہیں چھوڑی اور باہر نکل آیا۔ جو بھی راستے میں ملا۔۔۔ اسے یہ خبر سنائی۔ جنہوں نے پہلی بار سنا وہ بوکھلائے ہوئے اپنے گھر کی جانب بھاگے۔اور کچھ جو پہلے سے واقف تھے ، اس مکان کی طرف جارہے تھے۔ میں بھی ان کے ساتھ ہو لیا۔
وہاں لوگوں کی بھیڑ تھی اور شاید ہر کوئی کچھ نہ کچھ بول رہا تھا۔ گھر کا دروازہ بند تھا۔کچھ لوگ متواتر کال بیل بجائے جا رہے تھے اور کچھ دروازہ پیٹ رہے تھے۔ اس دروازے میں ایسا تالا لگا تھا جسے اندر باہر دونوں طرف سے استعمال کیا جا سکتا تھا۔ اس لئے یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ وہ اندر ہے یا نہیں۔اس ہنگامے کے دوران لوگوں کا دھیان، چھت پر موجود سانپ کی طرف بھی تھا ۔۔۔ مبادا و ہ حملہ کر بیٹھے اور ایسا ہی ہوا بھی کہ اچانک اس صندوق نما چبوترے کے نیچے سے نکل کر دو سانپ رینگتے ہوئے چھت کے کنارے کی طرف بڑھنے لگے۔ اس خوف سے کہ کہیں وہ ان پر کود نہ جائیں، وہ پیچھے ہٹ کر سڑک کے اس پار چلے آئے۔
بھیڑ میں چہ مگوئیاں ہوتی رہیں۔ایسے میں کسی نے سامنے پڑوس کے دکان دار سے پکار کر پوچھا ’’ وہ گھر پر ہے یا نہیں ؟‘‘
’’ اس کا گھر سے اتنی بار باہرجانا آنا ہوتا ہے کہ اس پر نظر رکھنا بہت مشکل ہے۔‘‘
تبھی کسی کی آواز ابھری ’’ جب اتنی دستکوں کے بعد بھی دروازہ نہیں کھلا توکیوں نا اسے تفریح گاہ میں تلاش کیا جائے۔‘‘
دفعتاًً مجمع سے نکل کر تین لوگ مشینی انداز میں مقام تفریح کی طرف چل دئے۔پھر کچھ دیر بعد واپس آئے۔۔۔ ہلکان۔۔۔۔ آتے ہی ان
میں سے ایک گویا ہوا۔ ۔۔۔’’ ہم کسے تلاش کرتے؟۔۔۔ ہمیں کس کی تلاش تھی ؟! ‘‘
لوگ انہیں حیران نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ تبھی ایک بلند آواز ابھری۔ وہ دکاندار سے مخاطب تھی۔’’ تمہیں اس کا حلیہ یاد ہے؟‘‘
دکاندار کے لپجے میں جھلاہٹ تھی۔ وہ چیخ رہا تھا ’’ میں نے کہا نا کہ اس کا اتنی بار باہر جانا آنا ہوتا ہے کہ اس پر نظر رکھنا مشکل ہے۔ ۔۔ اور ہر بار وہ ایک نئے بھیس میں ہوتا ہے، اس لئے یہ بتانا بھی کٹھن ہے کہ وہ ابھی۔۔۔ اس گھڑی۔۔۔ کس حلیے میں ہوگا۔ ‘‘ وہ خاموش ہو گیا پھر اچانک بولا۔۔۔’’ کیا پتہ وہ اندر ہی ہو ۔۔۔اور یہ بھی ممکن ہے ۔۔۔ وہ تمہارے بیچ ہو۔۔۔ تم میں سے ہی کوئی ایک ! ‘‘
اس کی اس بات نے جیسے ان پر بجلی گرا دی۔ وہ چند ساعت یونہی سکتے کے عالم میں رہے۔ ۔۔ پھر بھنبھناہٹیں فضا میں پھیلنے لگیں۔۔۔۔۔ ۔۔۔ــ’’ ہم میں سے کوئی ایک!!‘‘
ان کی سوالیہ نگاہیں ایک دوجے کے گرد چکرانے لگیں۔
آسمان پر بادلوں کی دوستی گہری ہونے لگی تھی۔ ۔۔ پھر وہ جھوم جھوم کر برسنے لگے۔
۔۔۔۔بادل گرج رہے تھے، برس رہے تھے۔۔۔ بجلیاں چمک رہی تھیں۔ ۔۔ سامنے دروازہ بند تھا۔ اوپر دو ناگ پھن پھیلائے کھڑے تھے۔۔۔
نیچے۔۔۔ وہ کھڑے بھیگ رہے تھے اور ان کی مشکوک نظریں ایک دوسرے کو چھید رہی تھیں۔۔ ۔
(تمام شد )
اسلم سلازار
Aslam Salazaar
c/o Md Aslam Jehangir
New Millat Colony, sector-1
Opp– Sabazpura More
PO — Khagaul
PATNA 801105 ( INDIA)
e.mail: aslamsalazaar@gmail.com
mob: 09830582747
09771083747
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page