قیُوّم خالد (شکاگو ، امریکہ)
تین دِن سے سارے شہر پر قبرستان کا سا سنّاٹا ہے۔ سارے گلی کُوچے سُنسان ہیں۔ سُورج کی حِدّت سے میں جلاجارہا ہوں۔ سُورج جو اپنی گرم کِرنوں سے سارے لوگوں کو جھلسائے رکھتا تھا۔ اب کسی کو بھی نہ پاکر اپنی ساری توانائی مُجھ پر صرف کررہا ہے لیکن جو آگ میرے اندر ہی اندر جل رہی ہے اُس کے سامنے سُورج کی حِدّت کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ میں اِس اندرونی آگ میں نہ جانے کب سے جل رہا ہوں مجھے تو ایسا محسُوس ہوتا ہے کہ میں اِس آگ میں کئی صدیوں سے جل رہا ہوں۔ ہاں جب کوئی مُسلسِل جلتا ہے تو سال بھی صدیاں محسوس ہونے لگتی ہیں۔ یہ آگ یہ اندرونی سُوزش مجھے تڑپاتی رہتی ہے۔ کبھی دھیمی ہوجاتی ہے اور کبھی تیز ہوجاتی ہے۔ آج یہ آگ پھر تیز ہوگئی ہے۔ تین دِن سے میں تنہا کھڑا سُورج کا مُقابلہ کررہا ہوں۔ اور سارا شہر سویا ہوا ہے۔ یہ شہر صرف تین دِن سے نہیں بلکہ صدیوں سے سویا ہوا ہے۔ یہ وقتی سنّا ٹا اور یہ خاموشی تو صرف ایک ظاہری اِظہار ہے اُس نیند کا جو اُن پر ایک عرصہ سے طاری ہے۔ کاش یہ شہر اِسی طرح سدا کے لئے سوتا رہے۔ ایسا ہی خاموش اور ویران تاکہ میں اپنے اندر کے دھکتے ہوئے لاوے کو اِس کی سڑکوں پر بہا کر کائی کی طرح ٹھنڈا ہوجاؤں لیکن کیا یہ سڑکیں اِتنی ساری آگ کا درد سہہ لیں گی۔ شائد سہ لیں۔ جب وہ سارے شہر کی لاشوں کا بوجھ سہہ سکتی ہیں تو اس کے لئے میری آگ کا درد سہنا کیا مُشکل ہے۔
اب کی بار جو آگ بھڑکی ہے اس کا موجِب ایک گائے ہے لیکن اس میں گائے کا قصور کوئی نہیں ہے۔ ایک انسان کی غلطی ہے جو ایک معصوم بچّے کوبچانے کی کوشش میں گائے کو نہیں بچاسکا۔
یہاں ایسے کئی خُونی رقص چِنگاریوں پر کثیف خیالات کی پُھوس ڈال کر بھڑکائی ہوئی آگ کے اطراف کئے جاتے ہیں اور جب لوگ رقص کرتے کرتے تھک جاتے ہیں تو آگ بھڑکانے والے کو تلاش کیاجاتا ہے۔ ایک دُوسرے کو شک کی نِگاہ سے دیکھا جاتا ہے ایک دُوسرے پر الزامات لگائے جاتے ہیں اور اِس عرصہ میں کوئی چپکے سے آگ بھڑکادیتا ہے اور پھر سب رقص کرنے لگتے ہیں اوریہ چکّر یُونہی چلتا رہتا ہے۔ دائرے دائروں میں مدغم ہوتے رہتے ہیں۔ دائروں سے دائرے جنم لیتے ہیں اور یہ اندھےدائروں کا کھیل یُونہی چلتا رہتا ہے اور مُجھے چُپ چاپ یہ سب کچھ دیکھنا پڑتا ہے۔ میرے سارے وجود میں تلخی گُھل جاتی ہے۔ مُجھے معلوم رہتا ہے کہ آگ بھڑکانے والا کون ہوتا ہے۔ مگر میں کہہ نہیں سکتا۔ میں صِرف دیکھ سکتا ہُوں محسوس کرسکتا ہُوں۔ میرا سارا درد سارا کرب میرے چہرے پر سِمٹ آتا ہے۔ میں ہر ایک کی طرف اِلتجا بھری نگاہوں سے دیکھتا ہُوں۔ مُجھے دیکھو، مُجھے پڑھو میرے درد کو سمجھو لیکن لاحاصل جولوگ ایک دُوسرے کی زبان نہیں سمجھ پاتے ہیں وہ دِلوں کا کرب چہروں سے کیا پڑھ سکیں گے۔
میرے قدموں میں ایک سڑی ہوئی لاش ہے۔ کوئی نہیں جانتا یہ کس کی لاش ہے کیونکہ اس کا سر کٹا ہوا ہے۔ اگر سر ہوتا بھی تو کیا فرق پڑجاتا۔ کوئی بھی اُس کو نام دینا پسند نہیں کرتا۔ کوئی نہیں جانتا یہ کس کی لاش ہے مگر ہر کوئی اسے خُوبصورت بنانے کے لئے خُون کی تہیں چڑھاتا ہے۔ آج ہر انسان ایسے ہی بے کار کام کرنے لگا ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ وہ کیا کررہا ہے۔ تو کیا میں بھی اُن جیسا روّیہ اختیار کرلوں۔ میں بُھول جاؤں کہ میرے دل میں اِس لاش کو اُٹھاکر سینے سے لگا لینے کی تمّنا ہے لیکن خالی تمّنا اور آرزو سے کیا ہوتا ہے۔ یہ لاش میرے قدموں سے بہت نیچے پڑی ہوئی ہے۔ مُجھے ایک اُونچے مقام پر کھڑا کرکے سب کچھ دیکھنے پر مجبور کردیا گیا ہے اورمجھے وقفہ وقفہ سے پُھول مالائیں پہنائی جاتی ہیں۔ اِس بات پر کہ میں کِتنے صبر سے یہ سب کچھ دیکھتا ہوں۔ یہ لوگ دوہی کام کرتے ہیں۔ ایک تو خُونی رقص کرتے ہیں اور جب خُونی رقص نہیں کرتے ہیں تو مجھے پُھول مالائیں پہناتے ہیں۔
میں یہ منظر دیکھتے دیکھتے تنگ آگیا ہوں۔ میں آنکھوں کو ڈھانپ لینا چاہتا ہوں لیکن میرے ہاتھوں میں سکت نہیں ہے۔ میں یہاں سے بھاگ جانا چاہتا ہوں لیکن میرے پاؤں میں دم نہیں ہے۔ یہاں کے سارے لوگوں نے اپنی اپنی منزلیں گُم کردی ہیں اور راستے کے پڑاؤ کو منزل سمجھنے لگے ہیں اوران پڑاؤں میں آرام سے بیٹھ کر بدیسی پھل کھارہے ہیں۔ ہاں یہ پھل بدیسی ہے لیکن اسے بو یا اپنی زمین میں گیا ہے۔ اب تو اِس کی جڑیں اتنی گہری ہوگئی ہیں کہ یہ اِن کے رگ و پے میں داخل ہوگئیں ہیں۔ پہلی بار ہمیں یہ پھل زنجیروں میں جکڑ کر کِھلایا گیا تھا۔ ہم اُن زنجیروں سے تو آزاد ہوگئے ہیں مگراُن کی پرچھائیاں جِسموں پر نقش ہوگئی ہیں اور ہم سب اِنہی پرچھائیوں میں قید ہوگئے ہیں۔ اب تو یہ پرچھائیاں اِتنی بھلی لگنے لگی ہیں کہ ہم اِنہیں منزل سمجھنے لگے ہیں اور پیروں میں سکت رکھتے ہوئے بھی جذبہ سفر سے بے نِیاز ہوگئے ہیں۔ میں یہاں سے بھاگ جانا چاہتا ہوں لیکن میرے پیروں میں سکت نہیں ہے۔ میرے قدم گڑے ہوئے ہیں۔ زمین نے مُجھے جکڑ لیا ہے کیونکہ میں اس پر بوجھ نہیں ہُوں۔
کبھی کبھی مجھے اپنے خالق پر بہت غصّہ آتا ہے جِس نے مُجھے جِسمانی پیراہن تو بخشا ہے لیکن زبان نہ دے سکا۔ جِس کی وجہ سے جِسم مجھے قید خانہ لگنے لگا ہے۔ اگرمجھے زبان دے دیتا تو میں اپنا سارا درد و کرب اُگل دیتا۔ اِتنی کھری کھری سنُاتا کہ الفاظ تک اُن کا بوجھ نہ سہہ پاتے۔
”جاؤ! جاؤ!! بیکار باتیں مت سونچو اگر تُمہیں زبان دی بھی جاتی تو تُم کچھ بھی نہیں کہتے۔ اپنے خالِق کا شُکر ادا کرو کہ زبان کے نہ ہونے سے ہی تُم ریاکاری سے بچ گئے۔ کہنے والوں نے کیا کہا۔ جب لوگ کہتے ہیں تو چاہتے ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اُن کی ہاں میں ہاں ملائیں۔ یہی تو ہماری ذات کا المیہ ہے کہ ہم وہ نہیں کہتے جو ہم کہنا چاہتے ہیں بلکہ وہی کہتے ہیں جو لوگ سُننا پسند کرتے ہیں۔ ہماری زبان دوسروں کی سماعت کے تابع ہوتی ہے۔
میرا ضمیر مُجھے احتساب کی زنجیر میں جکڑ دیتا ہے۔ میرا ضمیر جو سب سے زیادہ زندہ ہے طاقتور ہے کیونکہ کوئی بھی مُجھ سے بات نہیں کرتا کوئی بھی بہکاتا نہیں ہے۔ نہیں نہیں کم از کم میں تو سچ کہتا۔ دِل ناتواں ان زنجیروں کو توڑنے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔
”اگر لوگ تُمہاری بات سُننے سے انکار کردیتے تو تُم کیا کرتے“۔میرا ضمیر مُجھ سے پُوچھتا ہے۔
تو میں اُن ہی سے پُوچھ لیتا کہ مُجھے صلیب پر تو لٹکادیا گیا ہے پھر کیلے گاڑنے میں دیر کِس بات کی ہے۔ جو پُھول مالائیں مجھے پہنائی جاتی ہیں اُن سے میرا گلہ کیوں نہیں گھونٹ دیتے۔
کِسی نے چُپکے سے بُت کے کان میں کہا ”اِتنا واویلا مت مچاؤ‘ تُمہیں ١٩٤٨ء میں قتل کِیا جاچُکا ہے
٭٭٭
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page