طفیل احمد مصباحی
مستقل پتہ : سبحان پور کٹوریہ ٬ تھانا عمر پور ٬ ضلع بانکا ٬ بہار ۔ پن کوڈ : 813101
Mob : 8416960925
شاعرِ مشرق ڈاکٹر محمد اقبال کی تہہ دار فکر و شخصیت میں بڑی کشش اور جامعیت و معنویت پائی جاتی ہے ۔ وہ ایک عظیم فلسفی شاعر ، مصلحِ امت ، داعیِ قوم ، ماہرِ اقتصادیات اور ماہرِ تعلیم تھے ۔ ان کے تعلیمی افکار و نظریات میں قدیم صالح اور جدید نافع کا حسین امتزاج پایا آتا ہے ۔ وہ خود مغربی نظامِ تعلیم کی آغوش کے پروردہ اور انگریزی علوم کے ممتاز اسکالر تھے ۔ بایں ہمہ ان کے نظریۂ تعلیم میں مشرقیت کی پرچھائیاں اور قرآن و سنت کی جھلکیاں پائی جاتی ہیں ۔ وہ اپنے دور میں رائج روایتی مشرقی نظامِ تعلیم سے مطمئن نہیں تھے ۔ وہ اپنی قوم میں ایسا نظامِ تعلیم برپا کرنے کے خواہش مند تھے ، جو افرادِ قوم کو زاہدِ خشک ، متشدد اور حکومت کی کٹھ پتلی نہ بنائے ، بلکہ ان میں قوم و ملت کے تئیں ہمدردانہ رویہ پیدا کرے اور انسانیت کی خدمت کا پاکیزہ جذبہ بیدار کرے ۔ ان کا تعلیمی نظریہ قرآن و حدیث سے ماخوذ ہے جو اسلامی تعلیمات اور سنتِ نبوی کے عین مطابق ہے ۔ علامہ اقبالؔ کے دور میں دو طرح کے تعلیمی نظام رائج تھے ۔ ایک وہ جو طویل مدت سے مدارس اور خانقاہوں میں مروج و متداول تھا ، جو حالات کے پیشِ نظر کافی حد تک دقیانوسی اور غیر اطمینان بخش تھا ۔ اس نظامِ تعلیم کی حیثیت محض دینی تعلیم فراہم کرنا اور طلبہ کے اندر کورانہ تقلید کا جذبہ پیدا کرنا تھا اور اس سلسلے میں اہلِ مدارس کسی قسم کی تعلیمی تبدیلی اور اس میں لچک پیدا کرنے کے روا دار نہیں تھے ۔ دوسرا وہ انگریزی نظامِ تعلیم تھا جو ” لارڈ میکالے ” کا وضع کردہ الحادی فکر پر مبنی تھا اور جو بالعموم اسکول ، کالج اور عصری دانش گاہوں میں رائج و نافذ تھا ۔ اس طریقۂ تعلیم کے مضر اثرات اور ہول ناکیوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کا اس کا مقصدِ اصلی حکومتی مشنری کے لیے کلرک اور منشی پیدا کرنا اور مسلمانوں کو فکری محکومی اور ذہنی غلامی میں مبتلا کرنا تھا ۔ یعنی ان کو فکرِ معاش دے کر ان کی دینی روح قبض کرنا تھا ، جو اقبالؔ جیسے اسلام پسند مفکر کے لیے ناقابلِ برداشت تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس طریقۂ تعلیم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے صاف لفظوں میں کہتے ہیں :
عصرِ حاضر ملک الموت ہے تیرا جس نے
قبض کی روح تری دے کے تجھے فکرِ معاش
اور یہ اہلِ کلیسا کا ” نظامِ تعلیم ”
اک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف
علامہ اقبالؔ برِ صغیر پاک و ہند کی ان باکمال اور مقتدر شخصیات میں سے ایک تھے ، جنہوں نے اپنی ذہانت و طباعی اور فطری لیاقت سے امتِ مسلمہ کے اذہان و قلوب کو ایک خاص مقصد کی طرف راغب کیا اور وہ ہے : ” اسلام و قرآن اور پیغمبرِ اسلام سے شدید قلبی وابستگی ” ۔ یہ جو انہوں نے کہا ہے کہ ” بھٹکے ہوئے آہو پھر سوئے حرم لے چل ” یہ پیغام در اصل اسی مقصد اور مشن کا اشاریہ ہے ۔ اقبالؔ اس بات کے متمنی تھے کہ امتِ مسلمہ ( جو ان کے دور میں فکری و عملی اعتبار سے زوال و انحطاط کی شکار تھی ) کو اس کا کھویا ہوا وقار دوبارہ مل جائے اور اس کی عظمتِ رفتہ کی بازیابی کے راستے پھر سے ہموار ہو جائے ۔ ان کی پیغمبرانہ شاعری ، فکر انگیز خطبات اور صداقت پر مبنی ان کے نظریۂ تعلیم میں مسلمانوں کی ہمہ جہت ترقی اور ان کی صلاح و فلاح کے بیشمار پہلو نمایاں ہیں ۔ وہ مسلمانوں کے فکر و نظر کا قبلہ درست کر کے ان کو اس مقام پر لے جانا چاہتے تھے ، جس مقام پر کبھی ان کے اسلاف و اکابر فائز تھے اور اس کی بدولت انفس و آفاق ان کے زیرِ نگیں تھے ۔ شاعرِ مشرق ( اقبال ) نے اہلِ ایمان کو ” مشرقیات ” یا بلفظِ دیگر اسلامیات سے قریب کرنے کی بے پناہ کوشش کی ہے اور وہ کافی حد تک اپنے مقصد میں کامیاب بھی رہے ہیں ۔ اقبالؔ اس حقیقت سے بخوبی واقف تھے کہ کسی قوم کی تعمیر و ترقی کا انحصار اس کے مضبوط اور صاف و شفاف نظامِ تعلیم پر ہے ۔ کیوں کہ تعلیم ہی وہ کلید اور اساس ہے ، جس کے سہارے قومیں عروج و ارتقا کے مراحل طے کرتی ہیں ۔ انہوں نے اپنی ایمانی فراست ، بیدار مغزی اور بصیرت و دانائی سے قومِ مسلم کے اندر نتیجہ خیز اور نفع بخش تعلیم و تربیت کا احساس بیدار کیا اور قوم کو بتایا کہ اس کے حق میں کون سا علم کار آمد اور کس نوعیت کا نظامِ تعلیم مفید ہے ۔ انہوں نے ماضی و حال کے عمیق مشاہدے سے ایک ایسا تعلیمی خاکہ مرتب کیا ، جو قدیم صالح اور جدید نافع کا حامل ہو اور مسلمانوں کے روشن مستقبل کا ضامن ہو ۔ انہوں نے مسلمانوں کے روشن مستقبل کے لیے جو گراں قدر خطوط اور فکر انگیز لائحۂ عمل تیار کیا ، اس میں تعلیم و تربیت کو امتیازی حیثیت حاصل ہے ۔ یہ سچ ہے کہ انہوں نے عام ماہرینِ تعلیم کی طرح تعلیم و تربیت کے موضوع پر کوئی منظم و مرتب فکر کتابی شکل میں پیش نہیں کیا ، لیکن ان کے بیش قیمت خطبات اور مختلف شعری مجموعوں میں ان کے تعلیمی افکار و نظریات پر اتنا کثیر مواد موجود ہے کہ اس کی روشنی میں ایک مدلل کتاب تیار ہو سکتی ہے ۔
*مختلف تعلیمی نظریات* :
علامہ اقبالؔ کے تعلیمی نظریات پر گفتگو سے قبل موضوع کی مناسبت سے یہاں مختلف تعلیمی نظریات کا ایک سرسری تعارف پیش کر دینا مناسب سمجھتا ہوں ۔ تاکہ اس تناظر میں اقبالؔ کی فکر و فہم کو سمجھنے میں آسانی ہو اور ان کے پیش کردہ تعلیمی نظریات کی عصری معنویت اجاگر ہو سکے ۔ زندگی کے دوسرے تمام شعبوں کی طرح دنیا میں تعلیم کے حوالے سے بھی مختلف نظریات پائے ہیں ، جن میں سے تین نظریات کافی اہم ہیں اور عالمی سطح پر ان نظریات کی نمائندگی کرنے والے اقوام و مذاہب موجود ہیں :
*اشتراکی نظریۂ تعلیم* :
مادی لحاظ سے اس وقت دنیا کے سوپر پاور ( Super Power ) ممالک میں امریکؔہ اور روسؔ کا مقام کافی بلند ہے ۔ عالمی قیادت و سربراہی اس وقت انہیں دونوں ملکوں کے ہاتھوں میں ہے ۔ مختلف شعبۂ حیات سے متعلق نظریات کے میدان میں بھی یہی دونوں پیش پیش ہیں ۔ کسی بھی شعبۂ حیات سے کوئی نظریہ یا ضابطہ امریکہ و روس مرتب ہوتا ہے ، دیکھتے ہی دیکھتے دیگر ممالک میں فکری و عملی اعتبار سے نافذ العمل ہو جاتا ہے ۔ امریکہ جمہوریت کا علم بردار ہے ، جب کہ روس اشتراکیت کی نمائندگی کرتا ہے ۔ دنیا کے وہ اقوام و ممالک جو امریکہ سے مرعوب و متاثر ہیں ، وہ قوم پرستانہ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور اسی ( جمہوریت ) کے مطابق اپنا نظامِ تعلیم بھی مرتب کرتے ہیں اور جو ممالک یا افراد روس سے فکری طور پر متاثر ہیں ، وہ اشتراکیت کو معراجِ حیات تصور کرتے ہیں اور اپنے یہاں اسی نظامِ تعلیم و سیاست یعنی اشتراکیت کو نافذ العمل گردانتے ہیں ۔ اشتراکیت ایک مادہ پرستانہ نظامِ حیات ہے جو مذہب دشمنی اور اخلاق و روحانیت کی بیخ کنی لیے مشہور ہے ۔ خدا اور خدائی قانون سے بغاوت اس کی فطرت میں شامل ہے ۔ اسٹیٹ میں بسنے والے مختلف رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے افراد کی انفرادیت کو کچلنا اور طبقاتی کشمکش کو چھیڑ کر اپنا الّو سیدھا کرنا ہی اس کا اصل مقصد ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہے ” اشتراکی نظریۂ تعلیم ” اپنی بعض خوبیوں کے ساتھ مجموعی طور پر بیشمار خامیوں کا مجموعہ ہے ، جسے جمہوریت اور جمہوریت پسند عوام کسی بھی قیمت پر قبول نہیں کرتی ۔ اشتراکیت کے علم بردار دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم تعلیم و تربیت کے ذریعے اسٹیٹ کے افراد کو سماج کا خادم اور انسانیت کا خیر خواہ بناتے ہیں ، جو سراسر جھوٹ ، فریب اور زمینی سچائی کے خلاف ہے ۔ اشتراکی نظامِ تعلیم اپنی درس گاہوں سے در اصل ایسے طلبہ کی کھیپ تیار کرتی ہے جو اپنی فطری صلاحیتوں اور انفرادی خصوصیتوں کو اجتماعی مفاد پر قربان کر دے اور اپنی انفرادیت کو اجتماعیت میں گم کر دے ۔ یہ نظامِ تعلیم طلبہ کو مادہ پرست ، روحانیت بیزار اور خدا کا باغی بناتے ہیں ۔ اشتراکی نظامِ تعلیم میں حصولِ علم سب کے لیے عام اور لازمی ہوتا ہے ، تاکہ افرادِ ملک کے اذہان و قلوب پر اشتراکیت کی گہری چھاپ پڑ سکے ۔ اشتراکی ملکوں میں نصابِ تعلیم حکومت کی طرف سے مرتب کیا جاتا ہے اور اسی کی روشنی میں ہر ایک کو جبری تعلیم دی جاتی ہے ۔ ذاتی اور پرائیویٹ اداروں کے قیام کی یہاں اجازت نہیں دی جاتی ، تاکہ طلبہ کے کانوں میں اشتراکی حکومت کے خلاف کوئی بات نہ پڑنے پائے اور طلبہ بغاوت کے لیے آمادہ نہ ہوں ۔ بلا لحاظ مذہب و ملت اور رنگ و نسل ، ہر ایک کو ایک جیسی تعلیم دی جاتی ہے ۔ ذہنی اور جسمانی کام کرنے والوں میں بھی تفریق نہیں کی جاتی ہے ۔ گویا ایک ہی ڈنڈے سے ہر ایک کو زبردستی ہانکا جاتا ہے ۔ مذہب ، اخلاق اور روحانی قدروں سے متعلق اس نظامِ تعلیم میں کوئی جگہ نہیں ہے ۔ یہاں وہی کچھ پڑھایا اور لکھایا جاتا ہے جس سے ملک کو مادی فائدہ پہنچے اور ملکی پیداوار اور قومی دولت میں اضافہ ہو ۔
*جمہوری نظامِ تعلیم* :
آمریت یا ملوکیت کے برخلاف حقیقی ” جمہوریت ” اپنے اندر بڑی کشش اور جاذبیت رکھتی ہے ، جس میں عوام کو غیر معمولی طاقت حاصل ہوتی ہے اور حکومت و اقتدار کی کنجیاں ان کے ہاتھوں میں ہوا کرتی ہیں ۔ افراد کی آزادی ، قانونِ مساوات اور اجتماعیت پر یقین اس طرزِ حکومت کا خاصہ ہے ۔ چوں کہ جمہوری نظام میں زیادہ تر دار و مدار مملکت کے شہریوں کی صلاحیتوں پر ہوتا ہے ، اس لیے ” جمہوری نظامِ تعلیم ” کا مقصد افرادِ ملک کو ” ایک اچھا شہری بنانا ہے اور بہتر سے بہتر تعلیم دے کر ان کو ہمہ جہت ترقیوں اور خوش حالیوں سے ہمکنار کرنا ہے ” ۔ جمہوری نظامِ تعلیم کی مندرجہ ذیل خصوصیات ہیں :
( ۱ ) ابتدائی تعلیم عمومی اور لازمی ہوتی ہے اور اس امر کی کوشش کی جاتی ہے کہ تمام باشندگانِ شہر زیورِ تعلیم سے آراستہ ہوں ۔ ( ۲ ) ابتدائی تعلیم مفت دینے کی کوشش کی جاتی ہے ، تاکہ کوئی شہری وسائل کی قلت کے سبب بنیادی تعلیم سے محروم نہ رہ سکے ۔ ( ۳ ) مذہب و ملت اور رنگ و نسل کی تفریق کے بغیر ہر ایک اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے اور اپنے اپنے مذہب کے مطابق تعلیم حاصل کرنے کی آزادی ہوتی ہے ( ۴ ) معلم اور متعلم دونوں کی آزادی کا احترام کیا جاتا ہے ۔ کسی قسم کے جبر اور خارجی دباؤ کے بغیر تعلیم کا معقول انتظام کیا جاتا ہے اور آزادی کی فضا میں تعلیم دی جاتی ہے ( ۵ ) مادی اور افادی نقطۂ نظر کو غیر معمولی اہمیت دی جاتی ہے ، لیکن زندگی کی اعلیٰ قدروں کو نظر نہیں کیا جاتا ہے ( ۶ ) مذہب کو افرادِ وطن کا پرائیویٹ معاملہ سمجھا جاتا ہے اور اس سلسلے میں کوئی زور زبردستی روا نہیں رکھی جاتی ہے ( ۷ ) اس نظامِ تعلیم میں فرد اور سماج دونوں کو اہمیت دی جاتی ہے ۔ وغیرہ وغیرہ ۔
*اسلامی نظریۂ تعلیم* :
اسلام وہ دینِ فطرت اور ہمہ گیر مذہب ہے ، جس میں روزِ اول سے تعلیم و تربیت کو غیر معمولی اہمیت دی گئی ہے ۔ پیغمبرِ اسلام ، معلمِ کائنات جناب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جو پہلی وحی نازل ہوئی تھی ، وہ ” اقراْ ” ہے ، جو در اصل تعلیم و تعلم کی اہمیت و افادیت کی طرف مشیر ہے ۔ ” اسلامی نظامِ تعلیم ” کا مقصد عالم حاصل کرنے والوں کو ” اللہ کا نیک اور صالح بندہ بنانا ہے اور ان کو علم کے ساتھ عمل اور اخلاص کا خوگر بنانا ہے ” ۔ اس نظامِ تعلیم کی چند اہم خصوصیات درجِ ذیل ہیں :
( ۱ ) اسلامی نقطۂ نظر علم سیکھنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض اور ضروری ہے ( ۲ ) اس میں نافع علم سکھایا جاتا ہے ۔ غیر مفید اور ضرر رساں علوم سیکھنے سے روکا جاتا ہے ۔ ( ۳ ) ہر متعلم کو اپنے علم پر عمل کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے اور تعلیم کے ساتھ تربیت پر زور دیا جاتا ہے ۔ ( ۴ ) حسبِ ضرورت مفت تعلیم دی جاتا ہے اور غریب و نادار طلبہ کے تعلیمی اخراجات بیت المال سے ادا کیے جاتے ہیں ( ۵ ) معلم و متعلم دونوں کی شخصیت کا احترام کیا جاتا ہے ( ۶ ) پاکیزہ فضا میں تعلیم دی جاتی ہے ( ۷ ) انفرادی ، عائلی اور اجتماعی ذمہ داریوں کی خصوصی تعلیم اور ٹریننگ دی جاتی ہے ( ۸ ) دینی ، اخلاقی اور روحانی اقدار کے فروغ و استحکام کو مستقل حیثیت اور غیر معمولی اہمیت دی جاتی ہے ۔
مجموعی طور پر اقبالؔ کی فکر اسلامی اور قرآنی تھی ، اس لیے وہ اسلامی طرزِ تعلیم کے قائل تھے ۔ جدید و قدیم کے مابین فرق و امتیاز کیے بغیر وہ اس نظامِ تعلیم کے حامی تھے جو طلبہ کو اللہ کا صالح بندہ ، مہذب انسان ، انسانیت کا مسیحا اور ان کو ملک و ملت کا بے لوث خادم بنائے ۔ ان کے نزدیک تعلیم یا علم کی حقیقت و ماہیت ، اس کا مقام و منصب اور بلند معیار یہ ہے کہ وہ دین و مذہب کے ما تحت رہے اور علم کا فیصلہ دین و شریعت کے خلاف نہ ہو ۔ چنانچہ اس حوالے سے خواجہ غلام حسین کے نام اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں :
علم سے میری مراد وہ علم ہے جس کا دار و مدار حواس پر ہے ۔ عام طور پر میں نے علم کا لفظ انہیں معنوں میں استعمال کیا ہے ۔ اس علم سے ایک طبعی قوت ہاتھ آتی ہے ، جس کو دین کے ماتحت رہنا چاہیے ۔ اگر علم ، دین کے ماتحت نہ رہے تو محض شیطانیت ہے ۔
اب رہا یہ دعویٰ کہ اقبالؔ کی تعلیمی فکر سراسر قرآنی و اسلامی فکر ہے ۔ تو اس کا جواب ڈاکٹر جاوید اقبال کے الفاظ میں کچھ اس طرح سے دیا جا سکتا ہے کہ :
علامہ اقبالؔ گو اپنے آپ کو فلسفی نہیں سمجھتے تھے مگر وہ بعض ایسے مسائل میں دلچسپی ضرور رکھتے تھے جن کا تعلق بنیادی طور پر فلسفے سے ہے ۔ آپ کے نزدیک فلسفے کے مطالعے کا مقصد یہ ہے کہ فکر کی سمت درست کی جائے تا کہ انسانی سیرت و کردار کو اس کے تحت صحیح عمل کی ترغیب دی جا سکے ۔ فکر و عمل لازم و ملزوم ہیں ۔ اگر فکر کو عملی جامہ نہ پہنایا جاسکے تو وہ مجرد خیال بن کر رہ جاتا ہے ۔ اس طرح اگر عمل کی پشت پر فکر نہ ہوتو ایسا عمل دیوانگی کہلاۓ گا ۔ اقبالؔ کے نزدیک فلسفے اور مذہب میں فرق یہ ہے کہ فلسفہ حقیقت کے وجود کی کے تحقیق کرتا ہے ، جب کہ مذہب کی اساس غیب پر ایمان ہے ۔ اسلامی فلسفے سے مراد فلسفے کے مسلمہ اصولوں کے ذریعے قرآنی حقائق کی تعبیر و توجیہ ہے ۔ اقبال کا یہ دعویٰ ہے کہ ان کے تمام فلسفیانہ خیالات کا منبع قرآن مجید ہے ۔ علامہ ” اسرار و رموز ” کے آخر میں اپنی نظم ” عرضِ حالِ مصنف بہ حضور رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ” میں واضح کرتے ہیں کہ میرے تمام افکار کی بنیاد قر آنی تعلیمات پر ہے ۔ اگر ان میں کہیں بھی غیر قرآنی فکر پوشیدہ ہے تو علامہ خود اپنی سزا تجویز کرتے ہیں :
پردۂ ناموسِ فکرم چاک کن
ایں خیاباں را ز خارم پاک کن
( افکارِ اقبال ، ص : ۱۱ ، مطبوعہ : سنگ میل پبلیکیشنز ، لاہور )
اقبالؔ بیک وقت دینی و عصری تعلیم کو ضروری خیال کرتے ہیں ۔ ان کے نزدیک دینی تعلیم بھی اتنا ہی ضروری ہے جس قدر دنیاوی تعلیم اور پھر دونوں کے درمیان اعتدال و توازن بھی لازمی ہے ۔ اُن کے نزدیک تعلیم کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ وہ انسان کو صحیح معنوں میں انسان بنا دے اور اس کو انسانیت کا نجات دہندہ بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرے ۔ توحید و رسالت ، امورِ آخرت ، عشق و دانائی ، بلند ہمتی ، اولو العزمی ، جفا کشی ، سخت کوشی ، عفت و پارسائی ، طہارت و پاک دامنی ، فقر و قناعت ، صبر و شکر ، عزتِ نفس ، خود داری ، خیر خواہی ، غربا پروری ، مصالحت ، شجاعت و صداقت ، عدالت و شرافت ، خلق و مروت ، انسانی رواداری اور قلندری و درویشی جیسی صفاتِ عالیہ و اخلاقِ حسنہ پیدا کرے اور طلبہ کو ایک مثالی انسان بنا دے ۔
علم از سامان حفظِ زندگی است
علم از اسبابِ تقویم خودی است
علامہ اقبالؔ نے ” ضربِ کلیم ” میں ایک چیپٹر Chapter تعلیم و تربیت سے مختص کیا ہے ، جس میں ” خودی کی تربیت ” ، ” آزادیِ فکر ” ، ” اجتہاد ” ، ” تربیت ” ، ” علم و عشق ” اور ” زمانۂ حاضر ” جیسے عناوین کے تحت اپنے تعلیمی نظریات کو اپنے مخصوص فلسفیانہ رنگ میں پیش کیا ہے ۔ تعلیم و تربیت کے حوالے سے ” ضربِ کلیم ” میں اقبال کے بیان کردہ تعلیمی نظریہ کے مطابق سب سے پہلی خودی کی تربیت ضروری ہے ۔ اس کے بغیر تعلیم کا جو ڈھانچہ تیار ہوگا ، وہ کمزور ، کھوکھلا اور غیر مستحکم ہوگا ۔ اس لیے وہ تعلیم و تعلم کے علاوہ سارے شعبہائے حیات میں ” خودی ” کے اندراج و شمولیت کو ضروری قرار دیتے ہیں ۔ ان کا ماننا ہے کہ نہ صرف فکری بلکہ عملی طور پر بھی خودی کو اپنی زندگی میں نافذ کرنے کی ضرورت ہے ۔ خودی جتنی مضبوط و مستحکم ہوگی ، اس کی بنیاد پر تعمیر کردہ دیگر نظام ہائے حیات اسی قدر مضبوط ہوں گے ۔ خودی کی بلندی انسانیت کی بلندی کا استعارہ ہے ۔ خودی میں خدائی اور خود ” خدا ” کی معرفت پوشیدہ ہے ۔ شاعرِ مشرق کے بقول جب تک خودی کی تعمیر نہیں ہو جاتی ، انسان آسمانوں کو مسخر کر سکتا ہے اور نہ فضاؤں میں کمندیں ڈال سکتا ہے ۔ خودی بلندیِ تقدیر کا سبب ہے ۔ خودی کو بیچنا گویا زندگی کی دنیا و آخرت کی سرفرازیوں سے محروم ہونا ہے ۔ خودی ایک ایسا بحرِ نا پیدا کنار ہے ، جس کی وسعتوں اور پہنائیوں کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا ۔ خودی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے اور ان کی ترقیوں کی ضامن ہے ۔ اس لیے علامہ اقبال تعلیم و تعلم کے سلسلے سے سب سے پہلے ” خودی کی تربیت ” کو ضروری سمجھتے ہیں ۔ ان کی عقابی نگاہوں میں خودی کی پرورش و تربیت کے بغیر ” مشتِ خاک میں آتشِ ہمہ سوز ” پیدا نہیں ہو سکتی ہے ۔ اسی طرح وہ موجودہ نظامِ تعلیم میں ” آزادیِ افکار ” کو جو انسان کو فکری آوارگی اور مذہب بیزاری کی طرف لے جائے ، ان کو زہرِ ہلاہل اور حیوانیت سمجھتے ہیں ۔ چنانچہ وہ ” ضربِ کلیم ” میں ” تعلیم و تربیت ” کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں :
خودی کی پرورش و تربیت پہ ہے موقوف
کہ مشتِ خاک میں پیدا ہو آتشِ ہمہ سوز
یہی ہے سرِ کلیمی ہر اک زمانے میں
ہوائے دشتِ شعیب و شبانیِ شب روز
” آزادیِ افکار ” سے ہے ان کی تباہی
رکھتے نہیں جو فکر و تدبر کا سلیقہ
ہو فکر اگر خام تو ” آزادیِ افکار ”
انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ
یعنی اقبالؔ ایسی تعلیم کے حامی و مؤید ہیں جو ” خودی ” کی بنیاد پر استوار ہو اور جو خودی کی تربیت کرے اور اسے استحکام بخشے اور جو تعلیم اس وصف سے متصف نہ ہو ، وہ ان کے نزدیک نہ صرف بیکار ہے بلکہ ضرر رساں ہے ۔ اس لیے وہ تعلیم کے تیزاب میں ” خودی ” کی آمیزش کو شرط قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو تعلیم اور عشق ” خودی ” سے مستحکم ہو ، وہ صورِ اسرافیل اور غیرتِ جبریل بن جایا کرتی ہے اور اپنی بھرپور قوتوں سے کائنات کو مسخر کر دیتی ہے ۔
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے اُسے پھیر
خودی ہو علم سے محکم تو غیرتِ جبریل
خودی ہو عشق سے محکم تو صورِ اسرافیل
اقبالؔ کو دورِ حاضر کے نظامِ تعلیم سے اس لیے بھی شکایت تھی کہ دینی و عصری دانش گاہوں کے فضلا نفع و ضرر کی معرفت کی استعداد سے نا واقف تھے اور وہ زندگی کی شبِ تاریک کو سحر کرنے کی صلاحیتوں سے محروم تھے ۔ ان کے پاس محض ڈگریاں تھیں اور وہ زندگی و بندگی کے بلند ترین مقاصد کی تکمیل میں بری طرح ناکام تھے ۔ اہلِ علم حکمت ( علم و تعلیم ) کے پیچ و خم میں اس طرح الجھے ہوتے تھے کہ نفع و ضرر کے مابین فرق و امتیاز کرنے سے عاجز و قاصر تھے ۔۔ علمِ تھا ، مگر عمل کا فقدان تھا اور عمل تھا تو اخلاص کا دور دور تک نام و نشان نہ تھا ۔ مادیت کی حکمرانی تھی اور روحانیت محض نام کو باقی تھی ۔ اربابِ علم و دانش ، عقل کو تابعِ فرمانِ خداوندی کرنے کے بجائے اپنے نفس کی فرماں برداری میں زندگی گذار رہے تھے ۔ اس لیے یہ مردِ قلندر نہایت افسوس کے ساتھ کہتا ہے :
” عشقِ ناپید و خرد می گذوش صورتِ مار ”
عقلِ کو تابعِ فرمانِ نظر کر نہ سکا
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گذر گاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا
آج تک فیصلۂ نفع و ضرر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا
( ضربِ کلیم ، ص : ۶۷ )
اقبال کی فلسفہ طرازیاں اور مفکرانہ رشحاتِ قلم ہمارے افکار و اعمال کی اصلاح کے لیے ” خضرِ راہ ” اور ” مشعلِ ہدایت ” کا درجہ رکھتے ہیں ، جن کی روشنی میں امتِ مسلمہ صلاح و فلاح کا راستہ طے کرتی رہے گی ۔ بس عمل اور جد و جہد شرط ہے ۔ ان کے یہاں محض شاعرانہ نرمی و گرمی نہیں ، بلکہ رموزِ حیات ہے ، شعور و آگہی ہے ، بصیرت و دانائی ہے ۔ سامانِ فلاح و بہبود ہے اور ہمہ جہت تعمیر و ترقی کے لیے نسخۂ کیمیا ہے ۔ وہ یورپ کے قدیم و جدید فکر و فلسفہ سے متاثر ضرور ہیں ، لیکن اپنی مشرقی تہذیب کے دلدادہ ہیں ۔ مشرقی اقدار و روایات کے پیامبر ہیں اور اپنی ثقافت کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں ۔ وہ ایسے نظامِ تعلیم کا فروغ چاہتے ہیں ، جو قدیم صالح اور جدید نافع کا حامل ہو ۔ جس میں مذہب کا گلا نہ گھوٹا جاتا ہو ،
اخلاقیات و روحانیت کا خون نہ کیا جاتا ہو ۔ انسانیت کی لاش پر مادیت کی تجارت نہ کی جاتی ہو ۔ جس میں غریبوں اور مسکینوں کی خیر خواہی و خیر سگالی کا پاٹھ پڑھایا جاتا ہو ۔ ان کی نظر میں مدرسہ اسکول ، کالج اور دانش گاہوں سے ایسے طلبہ نکلیں جو انسانیت کا ہمدرد اور غریبوں کا مسیحا ہوں ، جن کی علمی چمک اور کردار کی روشنی سے انفس و آفاق میں اجالا پھیلے ۔ ” بانگِ درا ” کے یہ اشعار دیکھیں اور اندازہ لگائیں کہ اقبال کی نظر میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی خصوصیات کیا ہونی چاہئیں ۔
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
دور دنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہو جائے
ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے
ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا
مرے اللہ ! برائی سے بچانا مجھ کو
نیک جو راہ ہو اس رہ پہ چلانا مجھ کو
ضربِ کلیم میں اقبالؔ نے ” علم و عشق ” کا جو موازنہ کیا ہے ، اس سے بھی ان کے تعلیمی نظریات کھل کر سامنے آتے ہیں ۔ موصوف اگر چہ علم و عقل پر عشق کو ترجیح دیتے ہیں اور علم کو ” ظن و تخمین ، سراپا حجاب و مقامِ صفات ” گردانتے ہیں ، بایں ہمہ وہ علم کی فضیلت و برتری کے بھی قائل ہیں اور قوموں کی تعمیر و ترقی اور ان کی ہمہ جہت کامیابیوں اور سرفرازیوں کے لیے علمؔ کو ” بنیادی کلید ” تصور کرتے ہیں ۔ وہ علم کو ” ابنِ الکتاب ” اور عشق کو ” ام الکتاب ” کہتے ہیں اور علم کو دولت ، شہرت ، اقتدار و قدرت ، جاہ و منصب اور حصولِ لذت کا ذریعہ قرار دیتے ہیں ۔
علم میں دولت بھی ہے ، قدرت بھی ہے ، لذت بھی ہے
ایک مشکل ہے کہ ہاتھ آتا نہیں اپنا سراغ
امتدادِ ایام کے ساتھ اقبالؔ کے فکر و فن اور فلسفے میں معنویت اور گہرائی پیدا ہوتی گئی ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری کے پہلے اور دوسرے دور میں تعلیم کے حوالے سے کچھ نہیں لکھا ۔ ہاں ! جب وہ اپنی شاعری کے تیسری اور آخری دور کو پہنچے اور ان کی فکر میں خوب خوب بالیدگی پیدا ہو گئی تو انہوں نے ” تعلیم ” کو بھی موضوعِ سخن بنایا ۔ ” بانگِ درا ” جو اقبالؔ کا ایک اسم با مسمیٰ مجموعۂ نظم ہے ، اس میں انہوں نے کھل کر اپنے تعلیمی موقف کا اظہار کیا اور بتایا کہ موجودہ فرنگی تعلیم اگر چہ بہ ظاہر خوش نما اور جاذبِ قلب و نظر ہے ، لیکن اس کے اندر مفاسد ( خامیاں ، بگاڑ ) بھی پائے جاتے ہیں ۔ مغربی نظریۂ تعلیم قوم کے شاہینوں کو الحاد اور زندیقیت ( بے دینی ) کی طرف آمادہ کرتا ہے اور ان کے دینی ، اخلاقی اور روحانی اقدار کو ملیا میٹ کر دیتا ہے ، اس لیے اس نظریۂ تعلیم ، اس کے نصاب اور مندرجات پر کما حقہ اعتماد نہیں کیا جا سکتا ۔ جوانوں کی تعلیمی ترقی کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ عصری تعلیم کے زیور سے تو آراستہ ہو جائیں ، لیکن اپنے مذہبی کلچر ، دینی اقدار ، قومی اور اخلاقی سرمایہ سے ہاتھ دھو بیٹھیں ۔ اقبالؔ اس تعلیمی رویے کے سخت خلاف ہیں اور اس بارے میں اپنا احتجاجی بیان یوں درج کرتے ہیں :
خوش تو ہم بھی ہیں جوانوں کی ترقی سے مگر
لبِ خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ
ہم سجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
گھر میں پرویزؔ کے شیرؔیں تو ہوئی جلوہ نما
لے کے آئی ہے مگر تیشۂ فرہادؔ بھی ساتھ
تعلیمِ پیرِ فلسفۂ مغربی ہے یہ
ناداں ہیں جن کو ہستیِ غائب کی ہے تلاش
محسوس پر بِنا ہے ” علومِ جدید ” کی
اس دور میں ہے شیشہ عقائد کا پاش پاش
مذہب ہے جس کا نام ہے وہ اک جنونِ خام
ہے جس سے آدمی کے تخیل کو انتقاش
کہتا مگر ہے فلسفۂ زندگی کچھ اور
مجھ پر کیا یہ مرشدِ کامل نے راز فاش
باہر کمال اندکے آشفتگی خوش است
ہر چند کہ او کل شدۂ بے جنوں مباش
اقبالؔ اپنے دور میں برائے نام دی جانے والی اسلامی تعلیم ( جو مکتب اور مدرسہ میں دی جاتی تھی ) پر اس لیے بھی نکتہ چیں تھے کہ اس رسمی تعلیم سے مذہب و ملت کے وہ مقاصد پورے نہیں ہو رہے تھے ، جو اس کو مطلوب ہیں ۔ ان کا ماننا ہے کہ موجودہ طریقۂ تعلیم مسلمانوں کی قومی اور تاریخی زندگی سے مطابق نہیں رکھتا ۔ اس نظامِ تعلیم میں وہ جوش ، وہ ولولہ ، وہ امنگ اور وہ اولو العزمی نہیں ہے جو نئی نسلوں کو صفت شاہین بنا کر ان کو بلند ترین قومی و ملی مقاصد کے راستے پر گامزن کیا جا سکے ۔ وہ زمانۂ خیر القرون میں رائج اس نظامِ تعلیم کے خواہاں تھے ، جس کی بدولت عالم کی قیادت و سربراہی کا فریضہ انجام دیا جاتا تھا اور جس کے نصاب میں مذہب ، اخلاق ، روحانیت ، شریعت و طریقت ، سیاست و عدالت اور صداقت سارے اسباق موجود تھے ۔ وہ جو اقبالؔ نے کہا ہے :
سبق پھر پھر صداقت کا ، عدالت کا ، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
اس سے اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے ۔ ان کی دلی آرزو تھی کہ مسلمانوں میں تعلیم کا وہ سسٹم رائج ہو ، جس کی سنہری مثالیں اسلاف و اکابر کی تاریخ میں ہر جگہ ملتی ہیں ۔ اقبالؔ کو اربابِ مکتب اور خداوندانِ مدارس سے شکایت یہی تھی کہ وہ قوم کے شاہین بچوں کو بلند پروازی کے بجائے خاک بازی کا درس دے رے ہیں ۔ وہ اپنی قوم کے نوجوانوں کو ایسے علوم سے آراستہ دیکھنا چاہتے تھے ، جو ان کو شہباز صفت بنائیں ۔
مسلماں کے لہو میں ہے سلیقہ دل نوازی کا
مروت حسن عالم گیر ہے مردانِ غازی کا
شکایت ہے مجھے یا رب خداوندانِ مکتب سے
سبق شاہین بچوں کو دے رہے ہیں خاک بازی کا
بہت مدت کے نخچیروں کا اندازِ نگہ بدلا
کہ میں نے فاش کر ڈالا طریقہ شاہبازی کا
اقبالؔ تعلیم کے ساتھ تربیت اور سوزِ دماغ کے ساتھ سوزِ جگر کو بھی ضروری سمجھتے تھے ۔ ان کے دور میں تعلیم تو تھی ، لیکن کما حقہ تربیت کا فقدان تھا ۔ علمِ کے ذریعے سوزِ دماغ کا عمل تو جاری تھا ، لیکن تربیت کے سہارے سوزِ جگر ندارد ۔ وہ کہتے ہیں ، اگر چہ علم میں لذت ، دولت ، شوکت ، عزت و رفعت اور جاہ و منصب سب کچھ ہے ، لیکن ” زندگی کا سراغ ” نہیں ہے اور یہ سراغِ زندگی اعلیٰ تربیت سے حاصل ہوتا ہے ، محفلِ عشق میں بیٹھنے سے ملتا ہے اور آج یہی چیز نہیں ہے ۔ بس روایتی تعلیم یے ، خالی علم کا شہرہ ہے اور ڈگری کا چرچا ہے ۔ لیکن ایسے علم اور ایسی ڈگری سے کیا فائدہ جس سے انسان اپنے باطن کو نہ سنوار سکے ۔ اقبالؔ مزید کہتے ہیں کہ آج اہلِ علم کی تعداد کثیر ہے ، لیکن اہلِ نظر کمیاب ہیں اور یہ در اصل ہمارا تعلیمی نظام بہتر اور مؤثر نہ ہونے کی وجہ سے ہے ۔ ان کو شیخِ مکتب کے طریقۂ تعلیم میں کشادِ دل کا جوہر نظر نہیں آتا ، اس لیے اس دور میں کبریت سے بجلی کا چراغ روشن ہونا تقریباً نا ممکن دکھائی دیتا ہے ۔ اسی لیے تو کہتے ہیں :
زندگی کچھ اور شے ہے ، علم ہے کچھ اور شے
زندگی سوزِ جگر ہے ، علم ہے سوزِ دماغ
علم ميں دولت بھی ہے ، قدرت بھی ہے ، لذت بھی ہے
ايک مشکل ہے کہ ہاتھ آتا نہيں اپنا سراغ
اہل دانش عام ہيں ، کم ياب ہيں اہل نظر
کيا تعجب ہے کہ خالی رہ گيا تيرا اياغ
شيخِ مکتب کے طريقوں سے کشادِ دل کہاں
کس طرح کبريت سے روشن ہو بجلی کا چراغ
تعلیم و تعلم کے حوالے سے علامہ اقبالؔ کا موقف تقریباً وہی تھا جو اسلامی نظامِ تعلم کا طرۂ امتیاز ہے ۔ مذہبِ اسلام اپنے ماننے والوں کو بالخصوص اور پوری انسانی برادری کو بالعموم توحید و رسالت کا پیغام دیتا ہے اور الحاد و زندگی کی سخت تردید کرتا ہے ۔ اسلام دینِ رحمت اور دینِ امن ضرور ہے ، لیکن یہ الحاظ ، بے دینی اور مذہب بیزاری کو کسی طرح بھی برداشت نہیں کرتا ۔ اشتراکی نظامِ نظام اور اس کی نمائندگی کرنے والے ” مغربی نظامِ تعلیم ” میں الحاد کا فکری و عملی درس دیا جاتا ہے ، اس لیے اقبالؔ اس کے سخت نکتہ چیں ہیں اور مغربی نظامِ تعلیم و تعلم کو قومِ مسلم کے حق میں مضر تصور کرتے ہیں اور وہ اس الحاد و بے دینی کا ذمہ دار مغربی تعلیمی نظام کو ٹھہراتے ہوئے صاف طور پر کہتے ہیں :
خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر
لبِ خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
اقبالؔ خود مغربی دانش گاہوں کے طالبِ علم تھے ۔ جب وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کی غرض سے یورپ گئے اور ان کو مغربی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا تو ان کو جس چیز نے سب سے زیادہ افسوس ناک صورتِ حال سے دو چار کیا ، وہ یہی تھا کہ مغرب اور اہلِ مغرب کا نظامِ تعلیم مادیت پر استوار ہے ، جو در اصل ” اشتراکیت ” کی فکری و عملی شکل ہے ۔ علامہ نے جب مغربی تعلیمی نظام پر غور و فکر کیا تو پایا کہ یہاں تعلیم کا مقصد محض عیش و عشرت اور راحت و آسائش کا حصول ہے ۔ یہاں صرف مادہ ہے ، روح نام کی کوئی چیز ہے ۔ مادیت کا درس عام ہے اور روحانیت نصاب سے خارج ہے ۔ اس صورتِ حال کا جائزہ لینے کے بعد اقبالؔ تڑپ اٹھے اور زبانِ حال سے یوں گویا ہوئے :
یورپ میں بہت روشنیِ علم و ہُنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمۂ حیواں ہے یہ ظُلمات
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
وہ اندھیرا ہی بھلا تھا قدم راہ پہ تھے
روشنی لائی ہے منزل سے بہت دور ہمیں
مادیت پرستی ، پُر تعیش زندگی کا حصول ، جلبِ منفعت ، دنیا اور روٹی کمانے کا ہنر جس علم کا مقصد ٹھہرے ، اس علم سے جہالت بہتر ہے ۔ اقبالؔ ایسے علم اور ایسے نظامِ تعلیم کے سخت مخالف تھے جو صرف اور صرف پیٹ بھرنے اور دو وقت کی روٹی کمانے کا ذریعے بنے ۔ اس لیے تو کہتے ہیں :
وہ علم نہیں زہر ہے احرار کے حق میں
جس علم کا حاصل ہے فقط دو کفِ جو
یہ عِلم ، یہ حِکمت ، یہ تدبُّر ، یہ حکومت
پیتے ہیں لہُو ، دیتے ہیں تعلیمِ مساوات
بے کاری و عُریانی و مے خواری و اِفلاس
کیا کم ہیں فرنگی مَدنِیّت کے فتوحات
وہ قوم کہ فیضانِ سماوی سے ہو محروم
حد اُس کے کمالات کی ہے برق و بخارات
علامہ اقبالؔ کے دور میں دو قسم کی تعلیم رائج تھی ۔ ایک وہ جو مدارس ، مکاتب اور خانقاہوں میں رائج تھی اور دوسری وہ انگریزی تعلیم جو اسکول ، کالج اور یونیورسٹیوں میں دی جاتی تھی ۔ یہ دونوں نظامِ تعلیم اقبالؔ کی نظر غیر اطمینان بخش تھے ۔ کیوں کہ اول الذکر میں کافی حد تک انتہا پسندی پائی جاتی تھی اور اس میں دینی تصلب کے نام پر مذہبی تشدد پایا جاتا تھا اور آخر الذکر نظامِ تعلیم میں مادیت ، صرف دنیا کمانے کی چاہت ” اور ” آزادیِ افکار ” کے نام پر مذہب بیزاری اور الحاد و زندقہ کے اسباق پڑھائے جاتے تھے ۔ قلندر لاہوری نے ان دونوں نظاموں پر کڑی تنقید کی اور تعلیم کا ایک صاف و شفاف اور لچک دار نظریہ پیش کیا اور وہ یہ کہ ” تعلیم میں مذہب ، اخلاق اور روحانیت کا بولا بالا ہو ۔ علم ، مذہب کے ماتحت رہے ، نہ کہ مذہب پر حاوی ہونے کی کوشش کرے ۔ تعلیم کے معاملے میں قدیم و جدید کی تفریق نہ ہو ۔ فکری جمود نہ ہو ، مذہب مخالف ” آزادیِ فکر ” نہ ہو ۔ علم کے ساتھ عمل اور اخلاص ہو ” ۔ اقبالؔ فرنگی تعلیمی نظام پر نکتہ چینی کرنے کے علاوہ اہلِ مدارس کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں :
گلا تو گھونٹ دیا ” اہل مدرسہ ” نے ترا
کہاں سے آئے صدا ” لا الہٰ الا اللہ ”
دنیا ہے روایات کے پھندوں میں گرفتار
کیا مدرسہ ، کیا مدرسے والوں کی تگ و دو
کر سکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت
وہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پیرو
ڈاکٹر اقبالؔ کے بقول ” یہی وہ خودیؔ ہے جس کی تعلیم اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں نہیں دی جاتی ۔ بلکہ ان میں ایسی غلامانہ تعلیم دی جاتی ہے جس سے ” خودی ” کے تمام احوال و مقامات پوشیدہ رہ جاتے ہیں ، جو حد درجہ افسوس ناک ہے ۔ ” خودی ” کی تعلیم کا یہ اقبالیؔ انداز بھی دیکھیں :
اقبال یہاں نام نہ بے علم خودی کا
موزوں نہیں مکتب کے لیے ایسے مقالات
بہتر ہے کہ بیچارے ممولوں کی نظر سے
پوشیدہ رہیں باز کے احوال و مقامات
زندگی کچھ اور شے ہے علم ہے کچھ اور شے
زندگی سوز جگر ہے ، علم ہے سوزِ دماغ
علامہ اقبال ” مغربی تہذیب ” کے بالکلیہ مخالف نہیں تھے ۔ ہاں ! ان کے ایمان و عقیدہ ، عفت و شرافت اور عالمی سطح کی اخلاقی قدروں کے خلاف جو چیز انہیں نظر آتی تھی ، وہ اس کی کھلم کھلا مخالفت کرتے تھے ۔ صحرائے یورپ سے اٹھنے والی بظاہر خوش نما صدا ” آزادیِ نسواں و تحریک ِنسواں ” چوں کہ بہت سارے اخلاقی مفاسد کی حامل تھی ، اس لیے انہوں نے اس پر دو ٹوک تنقید کی اور اس پُر فریب تحریک سے امتِ مسلمہ کو آگاہ کیا اور بالخصوص اسلامی شہزادیوں کو اس سے دور و نفور رہنے کی تلقین کی ۔ انہوں نے خواتین کے لیے ” جدید مغربی تعلیم ” اور ” مخلوط نظامِ تعلیم ” کو مہلک اور زہرِ قاتل بتایا ۔ یہ تحریک در اصل عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے نام پر ان کی عصمتوں سے کھلواڑ کرنے کا ایک پُر فریب حربہ تھا ، جسے اقبالؔ جیسے دانائے روزگار اور حکیم الامت نے فوراً بھانپ لیا تھا ۔ چنانچہ انہوں نے اپنی حکیمانہ بصیرت سے کام لیتے ہوئے صنفِ نازک کو متنبہ کیا اور اس عظیم فتنے سے ہوشیار رہنے کو کہا ۔ آزادیِ نسواں یا تحریکِ حقوقِ نسواں کا ایک نعرہ یہ بھی تھا کہ عورتوں کو بھی مردوں کے برابر تعلیم حاصل کرنے کے مواقع فراہم کیے جائیں اور دیگر اداروں اور حکومتی شعبوں میں قانونِ مساوات کے نقطۂ نظر سے عورتوں کو نمائندگی دی جائی ۔ اقبالؔ عورتوں کی تعلیم کے مخالف نہیں ۔ لیکن مغربی طرز کی تعلیم اور مخلوط تعلیم کو عورتوں کے حق میں غایت درجہ ضرر رساں سمجھتے ہیں ۔ اسی زہرناکیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اقبالؔ کہتے ہیں :
جس علم کی تاثیر سے زَن ہوتی ہے نازَن
کہتے ہیں اُسی علم کو اربابِ ہنر موت
اس شعر میں انہوں نے بلیغ پیرائے میں سامراجی نظامِ تعلیم کے ذریعے پھیلائے جانے والے مفاسد اور اہلِ مغرب کی طرف سے برپا کیے جانے والے تحفظِ حقوقِ نسواں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے ۔ عوتوں کی تعلیم کے حوالے سے اقبالؔ اسلامی نظریۂ تعلیم کے حامی ہیں کہ پردے میں رہ کر عورتوں کی تعلیم و تربیت کا معقول انتظام کیا جائے ۔ وہ ” علمِ نافع ” کے قائل تھے ۔ وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف تھے کہ اسکول ، کالج اور یونیورسٹی کا رخ کرنے والی اسلام کی شہزادیاں جب کھلے بندوں مخلوط انگریزی تعلیم حاصل کریں گی تو ان کا قومی و ملی و صنفی تشخص مٹ جائے گا اور اس صورت میں وہ عورت نہیں رہ پائیں گی ، بلکہ ہوس پرستوں کا کھلونا بن جائیں گی ۔ آج عصری دانش گاہوں اور مغربی کلچر میں رہ کر مخلوط انگریزی تعلیم حاصل کرنے والی مسلم بچیوں اور عام لڑکیوں کی جو افسوس ناک صورتِ حال ہے ، وہ اربابِ نظر سے پوشیدہ نہیں ہے ۔
ڈاکٹر اقبال رسمی تعلیم پر یقین نہیں رکھتے اور نہ محض ڈگریاں رکھنے کو لیاقت کی دلیل گردانتے ہیں ۔ وہ تعلیم و تعلم کے معاملے میں اختصاص اور تحقیق و ریسرچ کو ضروری قرار دیتے ہیں ۔ وہ خود ایک عظیم اسکالر اور اعلیٰ درجہ کے محقق تھے ۔ مشرقیات و مغربیات اور بالخصوص ایرانی علوم و ادبیات پر ان کی نظر گہری تھی اور پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھتے تھے ۔ ان کی نظر میں رسمی تعلیم اور محض ڈگریوں کا حصول کوئی معنی نہیں رکھتا ۔ وہ اپنی قوم کے شاہینوں کو تحقیقی ذوق کا حامل دیکھنا چاہتے تھے ، جن میں عفتِ خیال ، حدتِ افکار اور اندیشۂ بیباک سب کچھ ہو ۔ اقبالؔ کے دور میں مسلمانوں پر جو اضمحلال و زوال طاری تھا ، اس کی ایک نوعیت تعلیمی بھی تھی ۔ مسلمانوں کے اندر وہ تعلیمی ذوق نہیں تھا ، جو ان کے اسلاف کا طرۂ امتیاز تھا اور تعلیم کا تھوڑا بہت رجحان تھا تو اس میں خالص علمی تحقیق کی آمیزش نہیں تھی ۔ صرف رسمی طور پر علم حاصل کرنا اور دنیا کمانے کی چاہت دلوں میں سرایت کی ہوئی تھی ۔ اس تناظر میں اقبالؔ کرب آگیں لہجے میں اپنی قوم کے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہیں :
آتی ہے دمِ صبح صدا عرشِ بریں سے
کھویا گیا کس طرح ترا جوہرِ ادراک
کس طرح ہُوا کُند ترا ” نشترِ تحقیق ”
ہوتے نہیں کیوں تجھ سے ستاروں کے جگر چاک
تُو ظاہر و باطن کی خلافت کا سزاوار
کیا شُعلہ بھی ہوتا ہے غلامِ خس و خاشاک
مِہر و مہ و انجم نہیں محکوم ترے کیوں
کیوں تیری نگاہوں سے لرزتے نہیں افلاک
اب تک ہے رواں گرچہ لہُو تیری رگوں میں
نے گرمیِ افکار ، نہ اندیشۂ بے باک
اقبالؔ کو اپنی قوم کے جوانوں ( جنہیں وہ شاہین کہتے تھے ) سے شکوہ صرف اس بات سے نہیں تھا کہ ان کا تحقیقی ذوق ماند پڑ چکا ہے اور شیر مردوں سے بیشۂ تحقیق خالی ہو چکا ہے ، بلکہ اس پر بھی تھا کہ ان کے علم کے ہاتھ نیام سے خالی ہیں :
شیر مردوں سے ہوا بیشۂ تحقیق تہی
رہ گئے صوفی و ملّا کے غلام اے ساقی
عشق کی تیغِ جگر دار اُڑا لی کس نے
عِلم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی
اقبالؔ کی نظر میں مسلمانوں کے ادبار و زوال کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ مسلمان مغربی تہذیب کی اندھا دھند تقلید کے عادی ہو چکے ہیں ۔ نفع و ضرر اور سود و زیاں میں امتیاز کیے بغیر وہ مغربی طرزِ حیات کو اپنانے میں مشغول ہیں اور اپنی قابلِ رشک تہذیب و ثقافت کو پسِ پشت ڈال چکے ہیں ، جس کے نتیجے میں وہ بیشمار اخلاقی بیماریوں میں مبتلا ہو چکے ہیں ۔ اقبال کے نزدیک وہی علم سود مند اور نفع بخش ہے ، جو انسان کو عمل و اخلاص کی ترغیب دے ۔ اس کے دماغ کو روشنی فراہم کرنے کے ساتھ اس کے بقعۂ قلب کو بھی منور کرے اور اسے تمدنی فرائض کی انجام دہی کا سلیقہ بخشے ۔ نفسانی خواہشات پر قابو پانا اور علم کو عمل کے سانچے میں ڈھالنا ہی کمالِ علم اور منشائے تعلیم ہے ۔ اگر یہ نہیں تو پھر علم و تعلیم کا حصول وقت گذاری کے سوا کچھ نہیں ۔ ان کے نزدیک حقیقی علم یہ ہے کہ وہ انسان کے ذہن و فکر کو روشنی بخشنے کے ساتھ انسان کو دلِ بینا کا مالک بنا دے ۔ علم کے ذریعے صرف آنکھ کا نور حاصل کرنا کافی نہیں ، بلکہ دل کا نور بھی ضروری ہے اور دل کا نور کالج اور یونیورسٹی میں پڑھائے جانے والے علم سے حاصل نہیں ہوتا ہے ، بلکہ اس کے لیے کسی عارفِ باللہ اور مردِ درویش کی علمی و روحانی صحبت و رفاقت ضروری ہے ۔ گویا اقبالؔ ظاہری علوم کے ساتھ باطنی علوم ( سلوک و معرفت ) کی تحصیل کو بھی لازمی سمجھتے تھے ۔ اس لیے تو کہتے ہیں :
سینہ روشن ہو تو ہے سوزِ سخن عین حیات
ہو نہ روشن تو سخن مرگِ دوام اے ساقی
دلِ بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں
کیا غضب ہے کہ اس زمانے میں
ایک بھی ” صاحبِ سرور ” نہیں
یہ بات پہلے بھی دوہرائی جا چکی ہے کہ مختلف امور سے متعلق اقبالؔ کے افکار و خیالات قرآن و سنت سے ماخوذ و مستنبط ہیں ۔ وہ اعلانیہ اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ اسلامی طرزِ زندگی گزارنے کے لیے قرآن کے دامن کو مضبوطی سے تھامنا اور اس سرچشمۂ فیض سے استفادہ کرنا ضروری ہے ۔ قرآن سے منہ موڑنا ہلاکت و ذلت اور ناکامی و رسوائی کا سبب ہے :
گر تو می خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جز بہ قرآں زیستن
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور ہم خوار ہوئے ” تارکِ قرآں ” ہو کر
قرآن نے علم و تعلیم کی اہمیت و فضیلت اور اس کی معنوی افادیت اجمالی طور پر بیان کی ہے ، جس کی توضیح و تشریح احادیثِ طیبہ میں موجود ہے ۔ انہیں احادیثِ سے اکتسابِ فیض کرتے ہوئے اقبالؔ نے اپنا تعلیمی نظریہ مرتب کر کے اپنی قوم کے سامنے پیش کیا ہے ، جس پر عمل در آمد قوم کی فلاح و ترقی کا ضامن ہے ۔ اقبالؔ سمیت دنیا کے تمام مفکرین اور ماہرینِ تعلیم اس امر پر متفق ہیں کہ علم وہ ہے جو انسان کو ” بلند افکار ” اور ” لذتِ کردار ” کا جوہر بخشے ۔ اقبالؔ اپنے دور میں رائج دینی تعلیم کی زبوں حالی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ بر صغیر پاک و ہند میں حکمتِ دین یعنی دینی تعلیم ممکن ہی نہیں ہے ، کیوں کہ ادارے جمود و تعطل کے شکار ہیں ۔ اساتذہ و معلمین وسیع افکار ، عمیق خیالات اور لذتِ کردار سے خالی ہیں ۔ ہر طرف ذہنی غلامی ، محکومی اور زوالِ تحقیق کا ماحول برپا ہے ۔ بے توفیق فقیہانِ حرم ( نام نہاد علما و حکما ) اپنی بے جا تاویلات سے قرآنی کے حقیقی معانی و مفاہیم کو بدل رہے ہیں اور قرآنی روح کو فنا کے گھاٹ اتارنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ خود تو نہیں بدلتے ، لیکن قرآن کو بدلنے میں مشغول ہیں ۔ کورانہ تقلید اور زوال آمادہ نظامِ تعلیم نے طلبہ کے ذہن و فکر پر غلامی مسلط کر دی ہے اور وہ ذہنی غلامی کے مرض میں مبتلا ہیں اور اسی مرض کے سبب وہ ام الکتاب ( قرآن ) کو ناقص خیال کرتے ہیں ۔ ذیل کے اشعار میں علامہ اقبالؔ نے انہیں زمینی حقائق کی طرف اشارہ کیا ہے ، جو مدارس و مکاتیب کی چہار دیواری پر مسلط تھے :
ہند میں حکمتِ دیں کوئی کہاں سے سیکھے
نہ کہیں لذتِ کردار ، نہ افکارِ عمیق
حلقۂ شوق میں وہ جرأتِ اندیشہ کہاں
آه ! محکومی و تقلید و زوالِ تحقیق
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق
ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب
کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق
مکتبوں میں کہیں رعنائیِ افکار بھی ہے
خانقاہوں میں کہیں لذتِ اسرار بھی ہے
بڑھ کے خیبر سے ہے یہ معرکۂ دین و وطن
اس زمانے میں کوئی حیدرِ کرار بھی ہے
علم کی حد سے پرے بندۂ مومن کے لیے
لذتِ شوق بھی ہے ، نعمتِ دیدار بھی ہے
اقبالؔ صحیح معنوں میں حکیم الامت تھے ۔ وہ اپنی حکمت و دانائی اور بالغ نظری سے ایسا تعلیمی نظام رائج کرنے کے خواہاں تھے جو طلبہ کے اندر انقلابی فکر اور تخلیقی ذہن و دماغ پیدا کر سکے اور آگے چل کر یہی جوہر ان کو عالمی قیادت و رہبری کے فرائض انجام دینے میں معین و مددگار ثابت ہو ۔ یہ جو انہوں نے ” صداقت و عدالت اور شجاعت کا سبق ” پڑھنے کی بات کہی ہے ، یہ در اصل ان کے اسی نظریۂ تعلیم کی طرف اشارہ ہے ۔ اقبالؔ صنعتی علوم و فنون کی تحصیل پر زور دیتے تھے اور انگریزی زبان کی تعلیم کو ” رابطۂ عالم ” کے طور پر اپنانے کے قائل تھے اور مسلمانوں کو نصیحت کرتے تھے کہ وہ اپنے بچوں کی سب سے پہلے دینی اور اسلامی تعلیم و تربیت پر توجہ دیں ۔ جیسا کہ ذیل کے اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے :
مسلمان طالبِ علم جو اپنی قوم کے عمرانی ، اخلاقی اور سیاسی تصورات سے نابلد ہے ، روحانی طور پر بمنزلۂ ایک روحانی لاش ہے اور اگر موجودہ صورت حال اور بیس سال تک قائم رہی تو وہ اسلامی روح ، جو قدیم اسلامی تہذیب کے چند علم برداروں کے فرسودہ قالب میں ابھی تک زندہ ہے ، ہماری جماعت کے جسم سے بالکل ہی نکل جائے گی ۔ وہ لوگ جنہوں نے تعلیم کا اصل اصول قائم کیا تھا کہ ہر مسلمان بچے کی تعلیم کا آغاز کلام مجید کی تعلیم سے ہونا چاہیے ۔ وہ ہمارے مقابلے میں ہمارے قوم کی ماہیت اور نوعیت سے زیادہ باخبر تھے ۔
( اقبال کا نظریۂ تعلیم ، ص : ۳۰ ، ناشر : مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز ، نئی دہلی )
اقبالؔ کے نزدیک علم و معرفت کا سرچشمہ اللہ رب العزت کی ذاتِ واجب الوجود ہے ۔ وحیِ الہیٰ علم کا سب سے اہم اور مضبوط ترین ذریعہ ہے ۔ قرآنی ارشاد کے مطابق ” یعلم یا تبدون و ما تکتبون ” یعنی ہر ظاہر و باطن کا علم اسی ذاتِ عالی صفات کے پاس ہے ۔ آدم و اور ان کی اولاد کو اسی نے علم و شعور کی دولت بخشی ، اس لیے دنیا میں جو نظامِ تعلیم بھی برپا کیا جائے ، اس میں رب کی معرفت ، وحیِ الہیٰ ، نبوت و رسالت ، امورِ آخرت اور اس کے دین کی سربلندی کو نصاب میں شامل کرنا ضروری ہے اور یہی چیز اسلامی نظامِ تعلیم کی بنیاد ہے ۔ علمِ کلام جو در اصل توحید و رسالت اور اس کے لوازمات و متعلقات کا علم ہے ، اس میں سب سے پہلے ” حقائقِ اشیا ” کے ثبوت و وجود پر بحث ہوتی ہے ، کیوں کہ اشیا کے وجود اور محسوسات کے ظہور و نمود سے ہی اللہ رب العزت کی الوہیت و ربوبیت پر استدلال کیا جاتا ہے ۔ اقبالؔ کہتے ہیں کہ جس نے محسوسات کا ادراک کر لیا اور ان کو مسخر کر لیا ، گویا اس نے عالم کی تعمیر و تسخیر کر لی ۔
ہر کہ محسوسات را تسخیر کرد
عالمے از ذرۂ تعمیر کرد
ڈاکٹر اقبالؔ تعلیم کے معاملے میں ” قدیم صالح اور جدید نافع ” کے اصول پر عمل پیرا تھے ۔ وہ دینی و عصری علوم میں سنہرے امتزاج کے قائل تھے ۔ وہ ایسا تعلیم ادارہ قائم کرنے کے متمنی تھے ، جس میں علومِ جدیدہ اور علومِ دینیہ کی تعلیم ماہر اساتذہ کی نگرانی میں دی جا سکے ۔ چنانچہ وہ شیخ الجامعہ ، جامع ازہر ، مصر کے علامہ مصطفیٰ المراغی کو ایک خط میں لکھتے ہیں :
ہم نے ارادہ کیا ہے کہ پنجاب کے ایک گاؤں میں ایک ایسا ادارہ قائم کریں ، جس کی نظیر آج تک یہاں وقوع میں نہیں آئی ۔ ہماری خواہش ہے کہ اس ادارے کو وہ شان حاصل ہو ، جو دوسرے دینی اور اسلامی اداروں کی شان سے بہت بڑھ چڑھ کر ہو ۔ ہم نے ارادہ کیا ہے کہ علوم جدیدہ کے فارغ التحصیل حضرات اور چند علوم دینیہ کے ماہرین کو یہاں جمع کریں ۔ ہم ان کے لیے تہذیبِ حاضر کے شور و شغب سے دور ایک کونے میں ہاسٹل بنانا چاہتے ہیں ۔ ہم ان کے لیے ایک لائبریری قائم کرنا چاہتے ہیں ، جس میں ہر قسم کی نئی اور پرانی کتابیں موجود ہوں اور ان کی رہ نمائی کے لیے ایک ایسا معلم ، جو کامل اور صالح ہو اور قرآن حکیم میں بصیرت تامہ رکھتا ہو اور دور حاضر کے انقلاب سے بھی واقف ہو ، مقرر کرنا چاہتے ہیں ۔ آپ از راہِ عنایت ایک روشن خیال مصری عالم کو جامع ازہر کے خرچ پر ہمارے پاس بھیج کر شکر گزاری کا موقع عنایت فرمائیں ۔ مجھے توقع ہے کہ دینِ حق کا نور اس مرکز سے ہندستان کے تمام اطراف و اکناف میں پھیلے گا ۔
( اقبال : سب کے لیے ، ص : ۱۰۷ ، مطبوعہ : اردو اکیڈمی ، سندھ ، کراچی )
مغربی دانش گاہوں سے اکتسابِ فیض کرنے والے اقبالؔ ” مغربی تعلیم ” کے مخالف نہیں تھے ، لیکن وہ انگریزی تعلیم سے پہلے دینی تعلیم و تربیت کو لازمی قرار دیتے تھے ۔ تاکہ مغربی دانش گاہوں میں داخل ہونے کے بعد مسلم طلبہ مغربی علوم و حضارت سے مرعوب ہو کر اپنے ایمان و عقیدہ سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ دانش گاہ چاہے فرنگی یا کچھ اور ، اس سے کیا فرق پڑتا ہے ۔ اگر بنیاد مضبوط ہو اور تمہارے جوہر میں ” لا الہٰ ” یعنی ایمانی حرارت اور اسلامی اقدار شامل ہوں تو ” فرنگی تعلیم یا مغربی نظامِ تعلیم ” ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔ ” جاوید نامہ ” کے یہ اشعار ” اقبالؔ کے تعلیمی موقف کو سمجھنے میں معاون ہو سکتے ہیں ۔
غارتِ گرِ دِین ہے زمانہ
ہے اس کی نہاد کافرانہ
دربارِ شہنشہی سے خوشتر
مردانِ خدا کا آستانہ
جوہر میں ہو لا الہٰ تو کیا خوف
تعلیم ہو گو فرنگیانہ
اقبالؔ نے اگرچہ اربابِ مدارس و خانقاہ پر سخت تنقید کی ہے ، لیکن اس سے یہ سمجھنا کہ وہ علم و فن یا دینی علوم کے مخالف تھے یا ان کی نظروں میں اساتذہ و معلمین یا اہلِ مدارس و خانقاہ کی قدر و قیمت نہیں تھی ، غلط ہے ۔ وہ علم کے شیدائی ، شرابِ علم و فن کے بادہ خوار ، مشرقی و مغربی علوم کے مایۂ ناز فاضل اور علم کی طلب میں کشاں کشاں بھٹکنے والے مردِ قلندر تھے ۔ ان سے بڑھ کر علم کا شیدائی اور علم کا داعی اس زمانے میں شاید ہی کوئی ہوگا ۔ وہ تعلیم کو ” مرضِ ملت کی دوا ” ، ” خونِ فاسد کے لیے مثلِ نشتر ” اور پژمردہ اقوام کے لیے نسخۂ شفا ” سمجھتے تھے ۔ ان کو مدارس و خانقاہ کے اساتذہ سے گلہ تھا تو بس اتنا کہ ان کی کوروانہ تقلید اور بے بصری نئی پود کی نگاہوں سے علم کے اصل مقام و منصب کو اوجھل کر رہی ہے ، اس لیے وہ ان پر تنقید بلکہ نشتر زنی کرتے تھے ۔ وہ اس حقیقت کو تسلیم کرتے تھے کہ اہلِ مدارس کے ذہن و دماغ علوم و افکار سے لبریز ہیں ، لیکن علمِ نافع و علمِ غیر نافع کی تمیز ختم ہو گئی ہے ۔ یہ لوگ روایات کے پھندوں میں جکڑے ہوئے ہیں ۔ ان کو فکرِ فردا کا اندیشہ نہیں ہے ۔ مسجد و مدرسہ و خانقاہ سب کے سب خاموش ہیں ۔ ان مقامات میں نہ زندگی ، نہ محبت ہے اور نہ بلند نگاہی ۔ محض رسمی تعلیم ہے اور عمل و اخلاص کا دور دور تک نشان نہیں ہے ۔
اس دور میں تعلیم ہے امراضِ ملت کی دوا
ہے خونِ فاسد کے لیے تعلیم مثلِ نیشتر
رہبر کے ایما سے ہوا تعلیم کا سودا مجھے
واجب ہے صحرا گرد پر تعمیلِ فرمانِ خضر
پُر ہے افکار سے ان مدرسہ والوں کا ضمیر
خوب و ناخوب کی اس دور میں ہے کس کو تمیز
دنیا ہے روایات کے پھندوں میں گرفتار
کیا مدرسہ کیا مدرسہ والوں کی تنگ و در
کس کو معلوم ہے ہنگامۂ فردا کا مقام
مسجد و مکتب و میخانہ ہیں مدت سے خموش
اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غم ناک
نہ زندگی نہ محبت نہ معرفت نہ نگاه
تعلیم کا مقصد اور علم کا منشا ، ذہن کی نشو و نما اور دماغ کی تربیت ہے ، تاکہ اس کے سہارے عملی میدان میں قدم رکھ کے قوم و ملت کی فلاح و بہبود کا کام انجام دیا جا سکے اور انسانیت کی عظیم خدمت کی جا سکے ۔ تعلیم کا مقصد زر اندوزی ، طلبِ جاہ و منصب اور مادیت کا پرستار بننا نہیں ہے ۔ اقبالؔ کو اس بات پر شدید افسوس اور غایت درجہ قلق ہے کہ مکتب کے گرم خون رکھنے والے جوانوں کو فرنگی تہذیب و ثقافت کا دلدادہ اور مغربی سحر کا بری طرح شکار بنایا جا رہا ہے ۔ مکتب و مدرسہ میں تعلیم حاصل کرنے طلبہ و اساتذہ جمود و تعطل کی گہری کھائی میں جا گرے ہیں ، بت کی مانند بے حس بنے بیٹھے ہیں اور ان میں حرکت و عمل کا جذبہ مفقود ہے ۔ ایسے میں افسوس ناک حالت میں ممکن ہی نہیں کہ ان سے کسی مثبت پیش رفت اور عظیم انقلاب کی امید رکھی جائے اور جہاں عصری اداروں کے طلبہ و اساتذہ کی بات ہے ، وہ مادیت پر فریفتہ ہیں اور روحانیت ان سے دور جا چکی ہے ۔ حالاں کہ یہ رشتہ و پیوند اور مال و دولت ( جو مادیت کا اصل مطمعِ نظر ہے ) بتانِ وہم و گماں سے زیادہ قدر و وقعت نہیں رکھتی ۔ ذیل کے تینوں اشعار اقبالؔ کے تعلیمی افکار کو سمجھنے میں ہمیں مدد دیتے ہیں :
یہ بتانِ عصرِ حاضر کہ بنے ہیں مدرسے میں
نہ ادائے کافرانہ ، نہ تراشِ آذرانہ
آہ مکتب کا جوانِ گرم خوں
ساحرِ افرنگ کا صیدِ زبوں
یہ مال و دولتِ دنیا ، یہ رشتہ و پیوند
بُتانِ وہم و گُماں ، لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ
خلاصۂ کلام یہ کہ اقبالؔ مدارس کے ماحول کو تقلید سے پاک ، خوف و ہراس سے مبرا ، حیات افروزی سے ہم کنار ، علم و فکر سے زیادہ جذب و شوق اور ظن و تخمین سے زیادہ عشق و یقین کے جذبوں سے معمور ، تعصب و تنگ نظری سے منزہ ، احترام آدمیت اور کشادہ قلبِ انسانی سے ہم آہنگ اور اخوت و محبت کی بنیادوں پر استوار دیکھنے کے متمنی تھے ۔ وہ یہ چاہتے تھے کہ تعلیمی درس گاہیں آدمی کو انسان بنائیں ۔ دماغ کے ساتھ روح کی غذا کا سامان بھی فراہم کریں ۔ دنیا داری کے ساتھ ساتھ دین داری بھی سکھائیں ۔ علم و فکر کی روشنی کے ساتھ قلب و نظر کی روشنی بھی عام کریں ۔ ظاہر کے ساتھ باطن پر بھی نظر رکھیں اور زندگی کے مختلف مرحلوں میں مادی وسائل کے ساتھ ساتھ با طنی شعور اور خود آگہی کی قوتوں سے بھی کام لیں اور اقبالؔ کے نزدیک ایسا ہونا اسی وقت ممکن ہے جب کہ نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم میں دینی اور مذہبی تعلیم کو بنیادی اہمیت دی جائے ۔ مغرب کی خرابی یہ ہے کہ اس نے اپنے نظام تعلیم سے اخلاقیات کے درس اور دینی تعلیم کو یکسر خارج کر دیا ہے ۔ ذہن و فکر کی توانائی کے لیے تو اہلِ مغرب نے نئے نئے راستے کھولے ہیں ، لیکن کشادِ قلب کی راہیں بند کر دی ہیں ۔ اس کے برعکس مشرق کے قدیم نظامِ تعلیم میں غلط قسم کی باطنیت اور خود کو فنا کر دینے والی روحانیت پر اتنا زور دیا گیا ہے کہ اس کی نظر سے خارجی حقائق پوشیدہ ہوگئے ہیں ۔ نئے نظامِ تعلیم میں ذہن و قلب ، خبر و نظر ، عقل و عشق اور جسم و جان کا یہ عدم توازن اقبالؔ کو بہت کھٹکتا ہے ۔ وہ ان میں توازن و توافق پیدا کرنا چاہتے ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ مغرب عقل کے ساتھ عشق کو بھی اپنا رہنما بنائے اور مشرق روحانی قدروں کی محافظت کے ساتھ ساتھ جدید علوم و فنون سے بھی پوری طرح مسلح ہو ۔ گویا اقبال ایک ایسا نظامِ تعلیم چاہتے ہیں ، جس میں مشرق و مغرب کی ساری خوبیاں مجتمع ہوں اور جس میں تعلیم و تر بیت پا کر ایک فردِ بشر اور ایک طالبِ علم دل و دماغ کی جملہ قوتوں کے ساتھ متوازن و مکمل شخصیت کا حامل بن سکے ۔
تعلیم کے مسئلے میں اقبالؔ کی رائیں کسی تنگ نظری کا شکار نہیں ۔ ان کو حساس تھا کہ مغرب کا نظامِ تعلیم مشرق کے مقابلے میں بہرحال فکر انگیز اور زندگی افروز ہے ۔ ہر چند کہ اس کی بنیاد عقل یعنی مادی ترقیوں پر ہے ، بایں ہمہ اس کی کامرانیاں قابل رشک ہیں ۔ اہلِ مغرب نے زمین کے چپے چپے کو فردوس بنا دیا ہے اور اہلِ مشرق ابھی تک خیالی جنت کے انتظار میں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں ۔ ہے ۔
فروس جو تیرا ہے کسی نے نہیں دیکھا
افرنگ کا ہر قریہ ہے فردوس کے مانند
اسی طرح ایک جگہ اقبالؔ نے واضح الفاظ میں اہلِ فرنگ کی تعریف کرتے ہوئے بتایا ہے کہ مغرب کی قوت کا راز ، چنگ و رباب ، رقص و سرور ، عریانی و بے وغیرہ میں نہیں ، بلکہ علم و فن کی ترقی میں ہے ۔
قوتِ مغرب نہ از چنگ و رباب
نے ز رقصِ دخترانِ بے حجاب
نے ز سحرِ ساحرانِ لالہ رو است
نے ز عریاں ساق و نے از قطعِ مو است
( اقبال سب کے لیے ، ص : ۱۲۰ ، ۱۲۱ )
*ڈاکٹر اقبالؔ اور تعلیمِ نسواں* :
تعلیم کی اہمیت و افادیت سے بھلا کس کو انکار ہو سکتا ہے ۔ تعلیم آنکھوں کا نور اور دلوں کے لیے وجہِ سرور ہے ۔ علم دستِ انسانیت کا گہنا اور تعمیر و ترقی کا زینہ ہے ۔ آج وہی قوم عالمی سطح پر ترقی یافتہ ہے ، جس کے پاس تعلیم کا عظیم سرمایہ ہے ۔ عورتوں کی تعلیم ہماری ملی زندگی کا ایک اہم مسئلہ ہے ، جس کو کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ معاشرے میں عورت کے فرائض کے بارے میں مسلمانوں کے تصورات دوسری اقوام کے تصورات سے بالکل مختلف ہیں ۔ اس لیے تعلیم کے حوالے سے اسلام کا نقطۂ نظر سے قدرے مختلف ہے ۔ مذہبِ اسلام اپنے ماننے والوں کو ، چاہے وہ مرد ہو یا عورت ، حصولِ علم و تعلیم پر زور دیتا ہے اور مسلمان مرد و عورت پر تعلیم فرض قرار دیتا ہے ۔ پیغمبرِ اسلام جناب محمد عربی روحی فداہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشادِ گرامی ہے : طلب العلم فریضۃ علیٰ کل مسلم و مسلمۃ ۔ یعنی علم سیکھنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے ۔ دینِ اسلام نے حقوق و فرائض سے متعلق جواحکام دیے ہیں ، وہ مرد اور عورت دونوں پر نافذ العمل ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ اسلام نے ان دونوں کے لیے جو وظیفۂ حیات مقرر کیا ہے ، وہ جدا گانہ نوعیت کا حامل ہے ۔ مذاہب عالم میں اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس نے عورتوں کو ایک با وقار مقام عطا کیا ہے اور انہیں قانونی حقوق دے کر ان کی عظمت و وقار میں اضافہ کیا ہے ۔ دینِ اسلام تعلیم و تعلم کے سلسلے میں مرد و زن کی تفریق کا قائل نہیں ہے ۔ مذہبی نقطۂ نظر سے جو جائز علوم و فنون مرد سیکھ سکتے ہیں ، وہ عورتیں بھی سیکھ سکتی ہیں ، لیکن شرط ہے کہ وہ پردے کے اہتمام کے ساتھ سیکھیں ۔ پیر و مرشد یا استاذ و معلم ان کے لیے غیر محرم کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ عورتوں کی تعلیم پردے کے ساتھ ہو اور ان کو مخلوط نظامِ تعلیم کے ذریعے بے پردگی اور بے حیائی تعلیم کا ان کو عادی نہ بنایا جائے ۔ اسلام بس اسی کا قائل ہے اور اس سلسلے میں علامہ اقبالؔ کا بھی یہی نظریہ ہے ۔ وہ تعلیمِ نسواں سے متعلق مغربی ممالک کے معاشرتی اور تعلیمی اداروں کی اندھا دھند تقلید کو انتہائی درجہ مضر ، خطرناک اور ایمان و اخلاق کی تباہی کا ذریعہ سمجھتے ہیں ۔ تعلیم نسواں کے متعلق اسلام کے شفاف نقطہ نظر کی وہ تائید کرتے ہیں ۔ اقبالؔ کے خیال میں تعلیمِ نسواں کی ضرورت واہمیت سے کسی عقل مند کو انکار نہیں ہو سکتا ، لیکن عورتوں کی تعلیم کا مقصد متعین ہونا چاہیے ۔ یعنی عورتیں تعلیم حاصل کریں ، مگر کسی متعین مقصد کے تحت اور وہ مقصد ایسا ہو جو نسوانی زندگی اور اس کے صنفی تقاضوں سے ہم آہنگ ہو اور اس تعلیم کے حصول میں کسی اسلامی اصول ( جو فرض و واجب کی منزل میں ہو ) کی خلاف ورزی لازم نہ آتی ہے ۔ اقبالؔ مغرب اور اہلِ مغرب کی مادر پدر آزادی کو سمِ قاتل سمجھتے تھے اور تعلیمِ نسواں کے معاملے میں مخلوطِ نظامِ تدریس کو ضرر رساں خیال کرتے تھے ۔ وہ کہتے تھے کہ یہ بات بالکل غلط سو فیصد غلط ہے کہ تعلیم و ترقی کے نام پر خواتین کو مردوں کے دوش بدوش زندگی کے ہر میدان میں اتارا جائے ، کیوں کہ عورتوں کا مردوں کے شانہ بشانہ زندگی کے مختلف شعبوں میں قدم رکھنا ، بیشمار مفاسد کے دروازے کھولتا ہے اور مذہبِ اسلام اس کی قطعی اجازت نہیں دیتا ۔ اس سلسلے میں وہ اکبرؔ الہٰ آبادی کے ہم نوا و ہم خیال تھے ۔ اکبرؔ نے بہت سوچ سمجھ کر کہا تھا :
تم شوق سے کالج میں پڑھو پارک میں کھیلو
جائز ہے غباروں میں اڑو چرخ پہ جھولو
پر ایک سخن بندۂ عاجز کی رہے یاد
اللہ کو اور اپنی حقیقت کو نہ بھولو
مخلوط نظامِ تعلیم جو آج مشرق و مغرب میں رائج ہے ، نئ نسل کی لڑکیوں اور لڑکوں پر بڑے بھیانک اثرات مرتب کر رہا ہے ۔ اس نظامِ تعلیم نے ہمارے دینی و ملی اور اخلاقی و روحانی اقدار کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے اور اس کا سب سے اندوہ ناک اور تباہ کن نتیجہ یہ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ مخلوط تعلیم کے زیرِ اثر عشق و عاشقی کے جذبات پروان چڑھ رہے ہیں ۔ معاشرتی برائیاں پھیل رہی ہیں ۔ شرم و حیا اور ایمانی و اخلاقی غیرت نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہ گئی ہے ۔ فواحش و منکرات کا بازار گرم ہے ۔ اس مخربِ اخلاق نظام نے ہمیں تعلیم تو فراہم کیا ہے ، لیکن اخلاقیات کا جوہر ہم سے چھین لیا ہے ۔ ایک کلاس میں ایک ساتھ لڑکوں کے ساتھ بے پردہ ہو کر تعلیم حاصل کرنے والی مسلم لڑکیاں ارتداد تک کا شکار ہو رہی ہیں ۔ معاذ اللہ ! تعلیم کے نام پر مذہب سے ہاتھ دھونے کا یہ نتیجہ کس قدر خطرناک ہے ، وہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ مخلوط نظامِ تعلیم ” فتنۂ ارتداد ” کے اسباب میں سے ایک اہم اور بڑا سبب ہے ۔ انجام سے بے پرواہ نادان مسلم لڑکیاں اپنے غیر مسلم عاشق کے پیار کے جال میں پھنس کر دین و مذہب کی عزت و ناموس کو نیلام کر رہی ہیں اور اپنے والدین کی عزت کو خاک میں ملا رہی ہیں ۔ کیا فائدہ ایسی تعلیم سے جو انسان کو مذہب سے بیزار اور دین سے ہاتھ دھونے مجبور کر دے ۔ سچ کہا گیا ہے :
وہ اندھیرا ہی بھلا تھا کہ قدم راہ پہ تھے
روشنی لائی ہے منزل سے بہت دور ہمیں
یہی افسوس ناک صورتِ حال دیکھ کر اقبالؔ چیخ پڑتے ہیں اور یوں گویا ہوتے ہیں :
خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر
لبِ خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
اور یہاں صرف الحاد ہی نہیں بلکہ ارتداد بھی ساتھ آیا ہوا ہے ، جو الحاد کی بد ترین قسم ہے ۔ خدا خیر کرے !
مشرقی اقدار و روایات کو اپنے سینے سے لگائے رکھنے اور ان کو دل و جان سے عزیز رکھنے والوں میں ڈاکٹر اقبالؔ کا نام سرِ فہرست ہے ۔ ” تعلیمِ نسواں ” کے حوالے سے اقبالؔ کا نظریہ بعینہٖ وہی تھا ، جو مذہبِ اسلام کا ہے ۔ یعنی عورتیں پردوں کے اہتمام کے ساتھ اختلاطِ مرد کے بغیر تعلیم و تربیت حاصل کریں ۔ اقبالؔ تعلیم کے نام پر عورتوں اور مسلم بچیوں کو مردوں جیسی آزادی کے خلاف تھے ۔ کیوں کہ اس سے بہت سارے مفاسد کے دروازے کھلتے ہیں ۔ وہ مخلوط نظامِ تعلیم جس پر آج کی لڑکیاں اور مسلم بیٹیاں نازاں ہے ، اقبالؔ اس کو علم و تعلیم نہیں بلکہ مسلم بچیوں کے حق میں ہلاکت اور موت سمجھتے ہیں ۔ اسی لیے تو کہتے ہیں :
تہذیبِ فرنگی ہے اگر مرگِ اُمومت
ہے حضرتِ انساں کے لیے اس کا ثمر موت
جس عِلم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اُسی علم کو اربابِ نظر موت
بیگانہ رہے دِیں سے اگر مَدرسۂ زن
ہے عشق و محبّت کے لیے عِلم و ہُنر موت
لڑکياں پڑھ رہی ہیں انگریزی
ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ
روشِ مغربی ہے مدِ نظر
وضعِ مشرق کو جانتے ہیں گناہ
یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
تعلیمِ نسواں سے متعلق اقبالؔ کے مطمعِ نظر اور زاویۂ فکر کو اور وضاحت کے ساتھ سمجھنے کے لیے ذیل کا یہ اقتباس ملاحظہ کریں :
میں کھلے کھلےلفظوں میں اس امر کا اعتراف کروں گا کہ بفحواۓ آیت کریمہ : الرجال قوامون على النساء ۔ میں مرد و عورت کی مساوات کا مطلق حامی نہیں ہوسکتا ۔ ظاہر ہے کہ قدرت نے ان دونوں کو جدا جدا خدمات تفویض کی ہیں اور ان جدا گانہ فرائض کی صحیح اور با قاعدہ انجام دہی بنی نوع انسان کی صحت اور فلاح کے لیے لازمی ہے ۔ مغربی دنیا میں جہاں جہاں نفسی نفسی کا عالم ہے اور غیر معتدل مسابقت نے ایک خاص قسم کی اقتصادی حالت پیدا کر دی ہے ۔ عورتوں کا آزاد کر دیا جانا ایک ایسا تجربہ ہے جو میری دانست میں بجائے کامیاب ہونے کے الٹا نقصان رساں ثابت ہوگا اور نظامِ معاشرت میں اس سے بے حد پیچیدگیاں پیدا ہو جائیں گی اور عورتوں کی اعلی تعلیم سے افراد قوم کی شرحِ ولادت پر جو نتائج مرتب ہوں گے ، وہ بھی غالبا پسندیدہ نہ ہوں گے ۔ مغربی دنیا میں جب عورتوں نے گھر کی چہار دیواری سے باہر نکل کر کسبِ معاش کی جد و جہد میں مردوں کا ساتھ دینا شروع کیا تو خیال یہ کیا جاتا تھا کہ ان کی اقتصادی حرّیت ( آزادی ) دولت کی پیداوار میں معتد بہ اضافہ کرے گی ، لیکن تجربے نے اس خیال کی نفی کر دی اور ثابت کر دیا کہ اس خاندانی وحدت کے رشتے کو جو بنی نوع انسان کی روحانی زندگی کا جزوِ اعظم ہے ، یہ حرّیت توڑ دیتی ہے ۔ میں اس حقیقت کے اعتراف کے لیے آمادہ ہوں کہ زمانۂ حال میں کسی جماعت کا محض مقامی قوتوں کے ذریعے نشو و نما پانا محال ہے ۔ لیکن ہمیں یادرکھنا چاہیے کہ گو کسی قوم کے لیے بغرض تکمیلِ صحت اپنی تمدنی آب و ہوا کی تبدیلی کے طور پر کسی غیر قوم کے تمدن کے عناصر کا اخذ و جذب کرنا قرینِ مصلحت بلکہ لازمی ہی کیوں نہ ہو ۔ لیکن اگر اظہار کی تقلید میں جلدی اور بے سلیقگی سے کام لیا گیا تو نظام قومی کے اعضائے رئیسہ میں اختلالِ عظیم ( بڑی خرابی ) واقع ہونے کا خطرہ ہے ……………. پس اپنی قومی ہستی کی مسلسل بقا کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی عورتوں کو ابتدا میں ٹھیٹھ ( خالص ) مذہبی تعلیم دیں ۔ جب وہ مذہبی تعلیم سے فارغ ہو جائیں تو ان کو اسلام کے علوم ، علمِ تدبیرِ منزل ، امورِ خانہ داری اور علمِ اصولِ صحت پڑھایا جائے ۔ اس سے ان کی دماغی صلاحیتیں اس حد تک نشو و نما پائیں گی کہ وہ اپنے شوہروں سے تبادلۂ خیالات کرسکیں گی اور امومت کے وہ فرائض خوش اسلوبی سے انجام دے سکیں گی ، جو میری رائے میں عورت کے فرائضِ اولین ہیں ۔ تمام وہ مضامین جوان کی نسائیت کی نفی کرنے یا اسلام کی حلقہ بگوشی سے انہیں آزاد کرنے والے ہوں باحتیاط ان کے نصاب تعلیم سے خارج کر دینے چاہئیں ۔ لیکن ہمارے نکتہ آموز ابھی تک اندھیرے میں رستہ ٹٹولتے پھرتے ہیں ۔ انہوں نے ابھی تک ہماری لڑکیوں کے لیے کوئی خاص نصابِ تعلیم متعین یا مرتب نہیں کیا اور ان میں سے بعض بزرگ واروں کی آنکھیں تو مغربی تصورات کی روشنی میں ایسی چندھیا گئی ہیں کہ وہ ابھی تک اسلام میں جو قومیت کو ایک خاص ذہنی کیفیت یعنی مذہب پر منحصر قرار دیتا ہے اور مغربیت میں جس نے قومیت کا محل ایک خارجی سواد یعنی وطن کی بنیاد پر تعمیر کیا ہے ، کوئی فرق نہیں سمجھتے ۔
( تعلیمِ نسواں : مشاہیر کی نظر میں ، ص : ۱۸۰ ، ۱۸۱ ، مطبوعہ : ادارہ جمعیتِ طلبہ ، کراچی )
مذکورہ بالا اقتباس سے اقبال کے نظریۂ تعلیمِ نسواں پر پر بھرپور روشنی پڑتی ہے ۔ مشرق و مغرب کی عصری دانش گاہوں نے عورتوں کے فطری جوہر حیا ، دین داری ، پردہ اور بالخصوص ان کی نسوانی حیثیت کو بری طرح مجروح کیا ہے ، جو حد درجہ افسوس ناک ہے اور اقبالؔ جیسے حکیم الامت اور مصلحِ قوم کو یہ بات کسی بھی صورت گوارا نہیں تھی کہ تعلیم و تربیت کے نام پر صنفِ نازک کا اس طرح استحصال کیا جائے ۔ نیز وہ مغرب کے غیر فطری مساواتِ مرد و زن کے نعرے کو نہایت پُر فریب سمجھتے ہیں ۔ اس لیے وہ اپنی قوم کو جھنجھوڑتے ہوئے کہتے ہیں :
اک زندہ حقيقت مرے سينے ميں ہے مستور
کيا سمجھے گا وہ جس کی رگوں ميں ہے لہو سرد
نے پردہ ، نہ تعليم ، نئی ہو کہ پرانی
نسوانيتِ زن کا نگہباں ہے فقط مرد
جس قوم نے اس زندہ حقيقت کو نہ پايا
اس قوم کا خورشيد بہت جلد ہوا زرد
کوئی پُوچھے ” حکیمِ یورپ ” سے
ہند و یوناں ہیں جس کے حلقہ بگوش
کیا یہی ہے معاشرت کا کمال
مرد بیکار و زن تہی آغوش
ہزار بار حکیموں نے اس کو سُلجھایا
مگر یہ مسئلۂ زن رہا وہیں کا وہیں
قصور زن کا نہیں ہے کچھ اس خرابی میں
گواہ اس کی شرافت پہ ہیں مہ و پرویں
فساد کا ہے فرنگی معاشرت میں ظہور
کہ مرد سادہ ہے بیچارہ زن شناس نہیں
علامہ اقبالؔ کی تہہ دار فکر و شخصیت کا ایک نمایاں پہلو یہ بھی ہے کہ وہ ایک ماہرِ تعلیم تھے ۔ مختلف علوم و فنون پر ان کی گہری نظر تھی اور مشرقیات و مغربیات کا وہ وسیع مطالعہ و تجربہ رکھتے تھے ۔ وہ اس حقیقت سے بخوبی آشنا تھے کہ کون سے علوم امتِ مسلمہ کے حق میں مفید ، کارگر اور دور رس نتائج کے حامل ہیں اور کون سے فنون محض دماغی ورزش کا ذریعہ ہیں ۔ وہ اپنے دور کے دینی و عصری نظامِ تعلیم سے بہت حد تک اختلاف رکھنے کے ساتھ نصابِ تعلیم کی اصلاح کے لیے بھی فکر مند تھے اور اس کے لیے مفید عملی کوششیں بھی کیا کرتے تھے ، تاکہ یہ نصاب دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ اور ملت اسلامیہ کے بلند ترین مقاصد کی تشکیل و تکمیل کا ذریعہ بن سکے ۔ اصلاحِ نصاب کے معاملے میں وہ سائنس اور اور عربی کی یکجائی کے قائل تھے ، تاکہ مسلمانوں میں قدیم علومِ طبعی کی تحقیق کرنے والے طلبہ و اساتذہ پیدا ہوں ۔ نیز وہ عربی و فارسی کو محض لسانی و کاروباری ہی نہیں دینی ، ملی ، تہذیبی اور ثقافتی معاملہ بھی سمجھتے تھے ۔ نئی نسل کے اندر دینی اسپرٹ اور اخلاقی روح پیدا کرنے کے لیے وہ عربی و فارسی زبان کی تعلیم کو ضروری خیال کرتے تھے ۔ وہ کہتے تھے کہ دینی نقطۂ نظر سے عربی ہماری اپنی زبان ہے اور ہمارے سرچشمۂ ہدایت یعنی قرآن و احادیث سے جوڑنے والی زبان ہے اور ادبی نقطۂ نظر سے فارسی کی تعلیم امرِ ناگزیر ہے ۔ اس سلسلے میں جناب حبیب الدین احمد کا بیان ہے :
اقبال کے پیش نظر نصاب تعلیم کی اصلاح بھی تھی ، تا کہ اس کو ملت کے مقاصد سے ہم آہنگ اور دور جدید کے تقاضوں کی تعمیل کرنے والا بنایا جا سکے ۔ ان کا یہ خیال تھا کہ نظام تعلیم میں سائنس اور عربی کو یک جا کرنے کی صورتیں نکالی جائیں تا کہ مسلمانوں میں قدیم علوم طبعی کی تحقیق کرنے والے پیدا ہوں ، جو یہ بتاسکیں کہ مسلمانوں نے علوم طبعی کے نظریات کو کس منزل تک پہنچایا ۔ ان کا یہ بھی خیال تھا کہ اس معاملے میں مستشرقین پر انحصار نہ کیا جائے ، بلکہ مسلمانوں کی آزاد تحقیق ان علوم کی کھوج لگائے اور مسلم علما کے علمی انکشافات کی ایک تاریخ قلم بند کی جائے ۔ وہ کہتے تھے کہ عربی و فارسی کا مسئلہ ہمارے لیے لسانی اور کاروباری ہی نہیں بلکہ دینی تہذیبی اور ثقافتی بھی ہے ۔ دین کے رشتے سے عربی ہماری اپنی زبان ہے اور یہ ہمارے سر چشمہ ہدایت یعنی قرآن وسنت سے جوڑ نے والی ، اسلامی علوم کے ایک بہت بڑے خزانے پر ہمیں دسترس عطا کرنے والی اور مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد سے ہمارے تعلقات کو استوار کر نے والی زبان ہے اور فارسی کا ہماری زندگی وادب سے جتنا قریبی تعلق ہے ، وہ بھی محتاج بیان نہیں ۔ موجودہ جدیدیت سے پہلے عام و خاص سبھی لوگ ان زبانوں کو تربیت اخلاق کا ذریعہ بناتے تھے اور انھی سے زندگی کی حکمت سکھتے تھے ۔ چناں چہ عربی و فارسی ادب کا ہمارے ذہن و فکر پر اتنا اثر ہے کہ ہمیں ان سے منقطع کرنا ہمارے دینی اور ثقافتی شیرازے کو گویا منتشر کرنا ہے ۔ اس حقیقت سے بہت کم لوگ واقف ہیں کہ تدوینِ نصاب کے سلسلے میں علامہ اقبال نے با قاعدہ کتابیں لکھی ہیں اور اکثر مدارس نے ان کو اپنی درسی کتب میں شامل کیا ہے ۔
( علامہ اقبال کا نظریۂ تعلیم ، ص : ۴۲ ، ۴۳ ، مطبوعہ : مرکزی مکتبہ اسلامی پبلیکیشنز ، دہلی )
*ڈاکٹر اقبال کا ادبی نظریہ* :
دیگر علوم و فنون کی طرح ادب اور آرٹ بھی عالمی دانش گاہوں میں رائج تعلیمی نصاب کا ایک اہم حصہ رہا ہے ۔ ڈاکٹر اقبالؔ کے نظریۂ تعلیم کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کی ادبی آئیڈیالوجی کو بھی سمجھا جائے ، تاکہ ان کے نظریۂ تعلیم کا مکمل ڈھانچہ نگاہوں کے سامنے آ سکے ۔ ڈاکٹر اقبال ایک دانائے راز مفکر اور عہد آفریں دانش ور تھے ۔ ان کی شاعری و نثر نگاری میں فکر و فلسفہ ، شعور و آگہی ، ساحری اور دانش وری ساتھ ساتھ اپنا سفر طے کرتی ہے ۔ وہ ” ادب برائے ادب ” یا ” آرٹ برائے آرٹ ” کے بجائے ” ادب برائے زندگی ” اور ” ادب برائے بندگی ” کے نظریہ کے حامی و مبلغ تھے ۔ اقبالؔ نے اپنے دور اور ماقبل کے حکما ، دانش وران ، شعرا اور ادبا میں غالباً سب سے پہلے ” آرٹ برائے آرٹ ” اور ” ادب برائے ادب ” کے نظریہ کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی ہے اور اس تصور کو حکیمانہ دلائل اور عمرانی تجربات سے مسترد کیا ہے ۔ ان کی اولین تصنیف ” اسرارِ خودی ” میں ” حقیقتِ شعر ” اور ” اصلاحِ ادبیات ” پر طویل عارفانہ نظم ہے ۔ وہ ادب میں فکرِ صالح اور فکرِ پاکیزہ کے طالب ہیں ، تاکہ اقوامِ عالم کی صلاح و فلاح کے راستے ہموار ہو سکیں ۔ محض تفریحِ طبع کی غرض سے وجود میں آنے والی تحریر کسی اصلاح یا انقلاب کا پیش خیمہ نہیں بن سکتی ۔ اقبالؔ کے مطابق ادب ( جس میں نظم و نثر دونوں شامل ہیں ) میں فکرِ مستقیم ، فکرِ صالح ، روحانی تربیت اور اخلاقی جوہر کا ہونا ضروری ہے ۔ موجودہ عالمی ادبیات کے حوالے سے اقبالؔ کی رائے یہ تھی کہ ” یورپی ادبیات ، اخلاقیات اور فنون پر بھی اسلامی تمدن کے اثرات گہرے اور نمایاں ہیں ۔ اطالوی ، ہسپانوی ، فرانسیسی اور برطانوی ادب پر الف لیلیٰ یا عربی ادب کا اثر محسوس کیا جاسکتا ہے ۔ دانتؔے نے اس زمانے میں تحریر کردہ معراج ناموں کے ماڈل پر اور ابن العربی کی تصنیف ” فتوحاتِ مکیہ ” سے متاثر ہوکر ” ڈیوائن کامیڈی ” تحریر کی ۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں :
” فلسفہ ، سائنس اور ادبیات کے میدان میں یورپی تہذیب کئی اعتبار سے محض اسلامی تمدن کی توسیع پذیری ہے ۔ اس اہم حقیقت کا احساس نہ آج کل کے یورپین کو ہے اور نہ مسلمانوں کو ۔ کیوں کہ مسلم حکما کے جو کارنامے محفوظ ہیں ، وہ ابھی تک یورپ و ایشیا اور افریقہ کے کتب خانوں میں منتشر اور غیر مطبوعہ حالتوں میں ہیں اور آج کل کے مسلمانوں کی جہالت کا یہ عالم ہے کہ جو کچھ ایک بڑی حد تک خود ان کے تمدن سے برآمد ہوا ہے ، وہ اسے بالکل غیر اسلامی تصور کرتے ہیں ” ۔
پس بقولِ اقبالؔ جب کسی معاشرے میں افراد ” خودی ” سے محروم ہوں تو حرکت اور تجسس کی جگہ جمود و تعطل لے لیتا ہے اور جمود صرف تقلید اور اندھا دھند تقلید کی تلقین کرتا ہے ۔ تجس میں نئی راہ تلاش کرنے کے لیے سوچنے کی تکلیف برداشت کرنی پڑتی ہے اور ذمہ داری خود قبول کرنا پڑتی ہے ، مگر تقلید میں خود سوچنے کی زحمت اٹھانے کی ضرورت نہیں پڑتی اور نہ خود ذمہ داری ہی قبول کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ سوا قبالؔ کی نگاہ میں اگر احیائے مذہب کے ساتھ احیائے علوم کی تحریک نہ چلائی گئی تو مسلمانوں کے مسائل ( جن میں تعلیمی مسئلہ بھی شامل ہے ) حل نہ ہوسکیں گے اور تہذیب اسلامی کا جدید اسلوب یا سانچہ ، جس کا خواب اقبالؔ نے دیکھا تھا ، وجود میں نہ آ سکے گا ۔
( افکارِ اقبال ، ص : ۴۵ )
اقبال کا ادبی اورفنی آئیڈیل ( نظریہ ) کیا ہے اور وہ مسلم معاشرے میں کس قسم کے ادب ، موسیقی یا مصوری کو پروان چڑھتے دیکھنا پسند کرتے تھے ۔ اقبال نے اپنے ادبی نظریے کی ترجمانی اس تحریر میں کی ہے جس کا عنوان ہے : جناب رسالت مآب کا ہم عصر عربی شاعری پر تبصرہ ” ۔ اس مضمون میں اقبالؔ قرآن مجید کی سورۃ الشعراء کی آخری آیات کی وضاحت حضور علیہ السلام کی احادیث کی روشنی میں کرتے ہیں کہ شاعری کیسی ہونی چاہیے اور کیسی نہیں ہونی چاہیے ۔ سورۃ الشعراء میں اللہ تعالیٰ دنیا دار شاعروں کے بارے میں کہتا ہے : شاعروں کے پیچھے تو بے راہ لوگ ہی چلتے ہیں ۔ کیا تم نے انہیں ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے نہیں دیکھا اور وہ جو کچھ کہتے ہیں ، کرتے نہیں ۔ ماسوا ان کے جو اللہ پر ایمان لائے اور نیک اعمال کیے اور اللہ کو خوب خوب یاد کیا ۔ قرآن مجید کی انہیں آیات کی روشنی میں ایک مرتبہ دورِ جاہلیت کے معروف عربی شاعر امرأ القیس کے متعلق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رائے ظاہر کی کہ وہ شاعروں کا سرتاج ہے لیکن جہنم کے مرحلے میں ان سب کا سردار ہے ۔ اقبالؔ کہتے ہیں حضور علیہ السلام نے یہ کیوں ارشادفرمایا ؟ امرأ القیس کی شاعری میں ہمیں کیا دکھائی دیتا ہے ؟ شرابِ ارغوانی کے دور ، عشق و حسن کی ہوش ربا داستانیں ، آندھیوں سے اڑی ہوئی لٹی پٹی بستیوں کے کھنڈر اور ریتیلے ویرانوں کے دل ہلا دینے والے مناظر ۔ امرأ القیس اپنے سامعین پر جادو کے ڈورے ڈالتا ہے اور ان میں بیداری کی بجائے نیند کی کیفیت پیدا کر دیتا ہے ۔ یعنی حقیقت سے فرار کی راہ دکھا تا ہے ۔ اقبالؔ کہتے ہیں :
’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حکیمانہ تنقید میں فنون لطیفہ کے اس اہم اصول کی توضیح فرمائی ہے کہ آرٹ میں جو کچھ خوب ( اچھا ) ہے ، ضروری نہیں کہ وہ زندگی میں بھی خوب ( ہو ) سے مشابہت رکھتا ہو …………… شاعری در اصل ساحری ہے اور حیف ہے اس شاعری پر جو زندگی کی مشکلات اور آزمائشوں میں دل فریبی کی شان پیدا کرنے کے بجائے فرسودگی اور انحطاط کو صحت اور قوت کی تصویر بنا کر دکھائے اور اس طور پر اپنی قوم کو ہلاکت کی طرف لے جائے ۔ ایک اور موقع پر حضور علیہ السلام کے سامنے قبیلۂ بنو عبس کے معروف شاعر عنترہ کا ایک شعر پڑھا گیا جس کا مفہوم تھا کہ میں نے بہت سی راتیں محنت و مشقت میں بسر کی ہیں ، تاکہ میں اکلِ حلال کے قابل ہوسکوں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس شعر سے بڑے متاثر ہوئے اور شاعر سے ملاقات کے شوق کا اظہار کیا ۔ اب عنترہ کی یہ عزت افزائی کیوں کی گئی ؟ اقبالؔ فرماتے ہیں : اس لیے کہ عنترہ کا شعر صحت بخش حیات کی جیتی جاگتی بولتی چالتی تصویر ہے ۔ حلال کی کمائی میں انسان کو جوسختیاں اٹھانا پڑتی ہیں ، اس کا نقش پردۂ خیال پر شاعر نے نہایت خوبصورتی سے کھینچا ہے ۔ ظاہر ہے آرٹ ( ادب ) حیات انسانی کے تابع ہے ۔ اس کی قدر و قیمت کا معیار یہی ہے کہ اس میں حیات بخشی کی صلاحیت کتنی ہے ۔ بقولِ اقبال ” اعلیٰ و ارفع آرٹ وہی ہے جو قوم کی خوابیدہ قوتِ عزم کو بیدار کرے اور زندگی کی آزمائشوں کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کی ترغیب دے ۔ مگر وہ سب کچھ ( شعر و ادب ) جس کے اثر سے ہم اونگھنے لگیں یا حقیقت سے ہمیں فرار کی راہ ملے ، انحطاط اور موت کا پیغام ہے ۔ آج کا مسلم معاشرے آرٹ یا فنون لطیفہ کے اس تصور سے شاید ابھی بہت دور ہے ۔ اسی بنا پر اقبال یہ یہ کہنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ کسی قوم کی روحانی صحت کا انحصار اس امر پر موقوف ہے کہ اس کے شاعروں اور فنکاروں کو کس قسم کی آمد ہوتی ہے ۔ جہاں تک تمدن اسلامی کا تعلق ہے ، میری دانست میں فن تعمیر کے ما سوا اسلامی آرٹ ، موسیقی ، مصوری اور شاعری کا ابھی وجود میں آنا باقی ہے ۔
( افکارِ اقبال ، ص : ۴۷ )
ڈاکٹر اقبالؔ نے اپنے افکار کو اشعار کی شکل میں ” ضربِ کلیم ” اور ” بانگِ درا ” بنا کر پیش کیا ہے اور ہمارے افکار و اعمال کی تطہیر و تہذیب کا سامان مہیا کیا ہے ۔ اقبالؔ جدید و قدیم اور دینی و عصری علوم کی تحصیل کے ساتھ ” صنعتی علوم ” پر زور دیتے تھے اور کہتے تھے کہ اصلاحِ تمدن کے بعد ہماری دوسری ضرورت ” تعلیمِ عام ” ہے ۔ مسلمانوں نے بالعوم یہ سمجھ رکھا ہے کہ تعلیم کا مقصد و منشا زیادہ تر دماغی تربیت ہے اور جو تعلیمی کام آج تک ہمارے اہل الرائے نے کیا ہے ، اس کی بنیاد اسی خیال پر رہی ہے ۔ مگر میں نے جہاں تک اس مسئلہ پر غور و فکر کیا ہے ، میں سمجھتاہوں کہ تعلیم کا اصل مقصد نوجوانوں میں ایک ایسی قابلیت کا پیدا کرنا ہے جس سے ان میں باحسن وجوہ اپنے تمدنی فرائض کے اداکرنے کی صلاحیت پیدا ہو جائے ۔ غرض کہ تعلیمی اعتبار سے علامہ اقبالؔ ایک مثبت ، انقلاب آفریں اور نفع بخش تعلیمی نظریات کے حامل تھے ٬ جنہیں آج عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے ۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page