سماج کیا ہے؟ہندوستانی سماج کی حقیقت کیا ہے؟ اور ہندستانی مسلمان کہاں کھڑا ہے؟ جب تک ان سوالات پر ہم گفتگو نہیں کر لیتے اس وقت تک نہ ہم ہندوستانی سماج کے تغیر کو سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی اس تغیر پذیر ہندوستانی سماج میں مسلمانوں کے تعلیمی مسائل کا ادراک کر سکتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم پہلے سماج اور ہندوستانی سماج کے بنیادی عناصر کو سمجھیں اور بطور مسلم سماج اس تغیر پذیر ہندوستانی سماج میں اپنی اصل پوزیشن سے واقف ہوں اور اسی کے تحت اپنے تعلیمی مسائل کا ادراک کر کے اس کی اصلاح و درستگی کی طرف آگے قدم بڑھائیں۔
لفظ ’’سماج‘‘ سنسکرت زبان کے دو الفاظ ’’ سم ‘‘ اور’’ آج‘‘ کا مرکب ہے۔’’ سم ‘‘کا لغوی معنی ہے’’ اکٹھا‘‘ اور ’’ ایک ساتھ‘‘ اور آج کا لغوی معنی ہے ’’ رہنا‘‘ ان دونوں الفاظ سے مل کر ’’سماج‘‘ جو لفظ وجود میں آیا ہے اس کا معنی ہے ’’ ایک ساتھ رہنا‘‘۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ جہاں چند افراد ایک ساتھ جمع ہو کر رہنے لگتے ہیں وہیں’’ سماج ‘‘ وجود میں آجاتا ہے۔عام فہم زبان میں ’’سماج‘‘ کی سہل تعریف یہ ہو سکتی ہے کہ ’’ سماج انسانی گروہ کا وہ مجموعہ ہے جو اپنے بہت سے ضروری مقاصد کے حصول کے لئے ایک ساتھ رہتا ہے‘‘۔ ان ضروری مقاصد میں لازمی طور پر خود کی حفاظت و بقا کے لئے تمام تر ’’ معیاری‘‘ اور ’’مناسب ماحول‘‘ کی فراہمی، تعلقات و رشتے نیز اخلاقیات و نظریات پر مبنی کچھ اصول و ضوابط بھی شامل ہیں۔
تغیر پذیر ہندوستانی سماج میں ہو رہے تغیرات اور اس کے مثبت اور منفی اثرات کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم پہلے ’’ہندوستانی سماج‘‘ کو سمجھیں اور ہندوستانی سماج کے وجود میں آنے کی ضرورت کو محسوس کریں۔اجمالی طور پر سرزمین ہندوستان میں بسنے والے مختلف سماجی طبقات پر غور کریں تو ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ’’ ہندوستانی سماج‘‘ ایسے مختلف سماجی طبقات کا مجموعہ ہے جو سیاسی، معاشی، اقتصادی،مسلکی،مذہبی، اور علاقائی بنیادوں پر متعدد سماجی گروہ میں منقسم ہے۔ اسی وجہ سے ہندوستان میں ہندو سماج، مسلم سماج،دلت سماج، تاجر سماج وغیرہ مختلف سماجی طبقات موجود ہیں اور’’ ہندوستانی سماج‘‘ان سب کو اپنے وسیع مفہوم میں شامل کئے ہوئے ہے۔ ان مختلف سماجی طبقات کو ’’ ہندوستانی سماج‘‘ کے تانے بانے سے جوڑنے میں جو سب سے اہم اور اساسی عنصر ہے وہ ہے زندگی کی بقا کے لئے ’’ معیاری‘‘ اور ’’ مناسب ماحول‘‘ کی فراہمی کا عنصر، حقیقی معنوں میں یہی وہ بنیادی عنصر ہے جس کی حفاظت اور حصول کے لئے متضاد نظریات پر مبنی متنوع سماجی طبقات کے افراد ’’ ہندوستانی سماج‘‘ نامی دھاگے سے جڑے ہوئے ہیں۔کیونکہ یہی وہ مقصد اصلی ہے جس کی حفاظت کے لئے اندرون ملک میں متصادم قومیں خارجی دشمن کے مقابلہ کرنے کے معاملے میں ایک صف میںکھڑی ہو جاتی ہیں۔ورنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ بالکل متضاد تصورات کی حامل قومیں جو سیاست، مذہب، مسلک، ذات پات اور علاقائی عصبیت کا شکار ہوں وہ سب ایک ’’ ہندوستانی سماج‘‘ میں سما جائیں۔ ایک’’ ہندوستانی سماج‘‘ میں سب کا شامل ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ ’’ ہندوستانی سماج‘‘ ایک ایسے ہدف کا حامل ہے جس کی افادیت سب کو محیط ہے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ’’ ہندوستانی سماج‘‘ کا وجود ایک خاص ضرورت یعنی زندگی کی بقا کے لئے ’’ معیاری‘‘ اور ’’ مناسب ماحول‘‘ کی فراہمی کے اساسی نظریہ پر قائم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ملک ہندوستان میں رہنے والے انہیں افراد اور سماجی طبقات کو ’’ ہندوستانی سماج میں اہمیت حاصل ہوگی جن کی شمولیت کے بغیر ملک ہندوستان میںزندگی کی بقا کے لئے ’’ معیاری‘‘ اور ’’مناسب ماحول‘‘ کے فراہمی ناممکن ہوگی اور اس خاص مقصد کی تکمیل میں جس کا کردار بنیادی ہوگا وہی ’’ ہندوستانی سماج‘‘ میں بھی بنیادی حیثیت کا حامل ہوگا جو سماج ’’ ہندوستانی سماج‘‘ کی ضرورت کی تکمیل میں نا اہلی کا شکار ہوگا اسے ’’ ہندوستانی سماج ‘‘ کے دائرے سے عملی طور پر باہر سمجھا جائے گا اور’’ ہندوستانی سماج ‘‘ میں اس کی حیثیت ایک غیر ضروری اور اضافی چیز کے ہوگی۔اسے ہم ایک مثال سے یوں سمجھیں کہ ایک بڑی جھیل ہے جو کسی خاص کرہ ارض پر واقع ہے اور اس جھیل کا دارومدار اس سے جڑی ہوئی مختلف ندیوں کے پانی پر قائم ہے، اگر یہ ندیاں اس جھیل میں پانی نہ پہنچائیں تو وہ جھیل خشک ہو کر اپنی افادیت کھو دے گی، اب اگر کسی ندی کا منبع ہی خشک ہو جائے تو وہ ندی بھی یقینا خشکی کا شکار ہو جائے گی اور جھیل کی بقا میں اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر ہوگی، اور اس صورت حال میں جھیل کے تناظر میں ندی بے معنی ہو کر رہ جائے گی۔ کسی ایک ندی کے خشک ہو جانے سے اگر جھیل کی بقا پر زیادہ فرق نہیں پڑتا تو جھیل سے اسفتادہ کرنے والے بھی اس ایک خشک ندی کے تحفظ کے لئے کوئی فکر نہیں کریں گے لیکن اگر ندی کے خشک ہونے سے جھیل کی افادیت متاثر ہوگی تو اس جھیل سے استفادہ کرنے والے ندی کے تحفظ اوراسے خشکی سے بچانے کے لئے سو طرح کی تدبیریں کریں گے ، بالکل یہی صورت حال ’’ ہندوستانی سماج‘‘ کے تناظر میں مسلم سماج کا بھی ہے۔’’ ہندوستانی سماج ‘‘ کو جھیل اور ’’ مسلم سماج‘‘ کوندی کی جگہ پر رکھ کر دیکھیں تو مسلم سماج کے حوالے سے ’’ ہندوستانی سماج‘‘ سے وابستہ دیگر قوموں اور ’’ ہندوستانی سماج ‘‘ سے مستفاد اداروں پر متمکن افراد کے متعصبانہ اور نفرتی رویوں کی وجہ شاید سمجھ میں آجائے۔ بیان کردہ مثال میں اگر جھیل کے حوالے سے ندیوں کی اہمیت کی درجہ بندی کی جائے تو یقینی طور پر اس ندی کو اول مقام حاصل ہوگا جو اس جھیل میں سب سے زیادہ پانی فراہم کرتی ہے۔ یہی حال ’’ ہندوستانی سماج‘‘ کا بھی ہے،’’ ہندوستانی سماج‘‘ کی ضرورت کی تکمیل کے لئے جو سماجی اکائی سب سے اہم کردار ادا کرے گی وہی ہندوستانی سماج میں بھی سب سے مقدم ہوگی۔
جیسا کہ میں نے پہلے ہی اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ ’’ ہندوستانی سماج‘‘ اپنے وسیع مفہوم میں مختلف سیاسی، معاشرتی، معاشی، اقتصادی، مسلکی، مذہبی، اور علاقائی سطح پر منقسم متضاد سماجی طبقات کا مجموعہ ہے۔ ان سب کو زندگی کی بقا کے لئے ’’ معیاری‘‘ اور ’’ مناسب ماحول‘‘ کی فراہمی کی ضرورت نے ’’ ہندوستانی سماج‘‘ کے بندھن میں باندھ رکھا ہے اور اسی مقصد نے ان تمام سماجی گروہوں کو یکجا کرکے ’’ ہندوستانی سماج‘‘ کا ہیولی تیار کیا ہے۔ اب جب یہ بات واضح ہو گئی کہ ’’ ہندوستانی سماج‘‘ کے وجود کی بنیاد زندگی کی بقا کے لئے ’’ معیاری‘‘ اور’’ مناسب ماحول‘‘ کی فراہمی پر ہے تو اس ضمن میں یہ بات بھی صاف ہو گئی کہ زندگی کی بقا کے لئے ’’ معیاری‘‘ اور ’’ مناسب ماحول‘‘ کی فراہمی کے لئے جن کا وجود یا جن کا یکجا ہونا ناگزیر ہوگا وہی لوگ ’’ ہندوستانی سماج‘‘ کی اصطلاح میں حقیق طور پر شامل کئے جائیں گے، ان کے علاوہ باقی لوگوں کو اضافی سمجھ کر ’’ ہندوستانی سماج‘‘ کے زمرے سے علیحدہ کر دیا جائے گا۔
اس تمہیدی گفتگو میں یہ بات تو صاف ہو گئی کہ سماج کیا ہے؟ہندوستانی سماج کی حقیقت کیا ہے؟اور ہندوستانی سماج میں مسلم سماج کہاں کھڑا ہے؟رہا یہ سوال کہ ہندوستانی سماج میں مسلم سماج الگ تھلگ کیوں پڑ گیا ہے؟اور ہندوستانی سماج میںمسلم سماج ایک اضافی اور غیر ضروری سماج کیوں سمجھا جا رہا ہے، اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ مسلم سماج کوموجودہ دور میں ’’ ہندوستانی سماج‘‘ اس خشک ندی کی طرح سمجھ رہا ہے جس کے سوتے خشک ہو گئے ہیں،لیکن سوال یہ ہے کہ مسلم سماج کے حوالے سے ’’ ہندوستانی سماج‘‘ سے وابستہ دیگر سماجی طبقات کا نظریہ ایساکیوں ہے؟ اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس اہم نکتے کو سمجھنے کے لئے ہمیں ایک بار پھرگزشتہ مقدمات میں جانا پڑے گا، گزشتہ مقدمات میں یہ بات واضح طور پر سامنے آئی کہ’’ ہندوستانی سماج‘‘ میں انھیں کی اہمیت ہوگی جو ’’ ہندوستانی سماج‘‘ کی تکمیل میں بنیادی کردار ادا کریں گے، ’’ ہندوستانی سماج‘‘ کی ضرورت کی تکمیل میں ’’ مسلم سماج‘‘ کے کردار کا جائزہ لینے کے لئے ضروری ہے کہ ہم ان بنیادی عناصر کی نشاندہی کریں جو ’’ہندوستانی سماج‘‘ کی تکمیل میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
گزشتہ مقدمات سے یہ بات پہلے ہی واضح ہو گئی ہے کہ’’ ہندوستانی سماج‘‘کا تصور زندگی کی بقا کے لئے ’’ معیاری‘‘ اور ’’مناسب ماحول‘‘ کی فراہمی سے عبارت ہے، اس لئے ’’ ہندوستانی سماج‘‘ میں مدغم تمام سماجی طبقات کے لئے یہ بیحد ضروری ہے کہ وہ ’’ ہندوستانی سماج‘‘ کی ضرورت کی تکمیل کے لئے جو امور لازمی حیثیت کے حامل ہیں ان کی حصولیابی کی راہوں میں خود کو اس طرح ثابت کریں کہ ان کے بغیر مطلوبہ مقصد کی بازیابی ممکن نہیں ہے، اور ایسا اسی وقت ممکن ہوگا جب سماج کا ہر فرد اس کوشش میںہو کہ وہ ان تمام بنیادی صلاحیتوں کا حامل ہوگا جو زندگی کی بقا کے لئے’’ معیاری‘‘ اور مناسب ماحول‘‘ کی فراہمی میں اہم کردارادا کرنے والے اداروں سے وابستہ ہونے کے لئے لازمی اور ضروری ہیں، اس مطلوبہ مقصد کی برآوری میں جو ادارے سرفہرست ہیںان میں عدلیہ، مقننہ، حکومتی وزارتیں، ڈیفنس اور سیکورٹی ادارے خصوصیت کے ساتھ قابل زکر ہیں، اس مقدمہ کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان مقامات یعنی عدلیہ، مقننہ، حکومتی وزارتوں، ڈیفنس اور سیکورٹی اداروں میںجن سماجی طبقات کی شمولیت ہوگی انہیں سماجی طبقات کی شمولیت ’’ہندوستانی سماج‘‘میں حقیقی طور پر تسلیم کی جائے گی کیونکہ ملکی سطح پرزندگی کی بقا کے لئے ’’ معیاری‘‘ اور ’’ مناسب ماحول‘‘ کی فراہمی کی ضمانت انہیں اداروں سے ملتی ہے۔
جب ہم’’ تغیر پذیرہندوستانی سماج‘‘ کہتے ہیں تو اس کا مطلب کیاہوتا ہے؟ ہندوستانی سماج میںہم کس تغیر کی بات کرتے ہیں؟اس تغیر سے بعض لوگ سیاسی تغیر مراد لیں گے، بعض لوگ مذہبی اور مسلکی تغیر مراد لیں گے، اور بعض لوگ اس عدم برداشت کی طرف اشارہ کریں گے جو مسلم سماج سے وابستہ تمام امور کے تئیں’’ ہندوستانی سماج‘‘میں عام ہوتا جا رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ’’تغیر پذیر ہندوستانی سماج‘‘کے ضمن میں یہ تما م تغیرات یقینی طور پراہم ہیں لیکن سب سے اہم تغیر یہ ہے کہ ’’ مسلم سماج‘‘ کے فکری و قومی دھارے سے وابستہ ذمے دار افراد کی نمائندگی ان اہم اداروں میںمسلسل کم ہو رہی ہے جو ادارے ’’ ہندوستانی سماج‘‘کے مطلوبہ مقصد کی ضمانت دینے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ’’ تغیر پذیر ہندوستانی سماج‘‘کا مطلب یہ ہے کہ ’’ ہندوستانی سماج‘‘ کے تشکیلی عناصر عدم توازن کے شکار ہو گئے ہیں، حکومتی وزارتوں، عدلیہ، مقننہ، ڈیفنس اور سیکورٹی اداروں میںمسلم سماج کی نمائندگی کا تناسب آبادی کے مقابلے میںبہت کم ہے، اور مسلم سماج کا جو معمولی حصہ ان اداروں سے منسلک ہے ان میں سے اکثریت قومی اور ملی جذبے سے اس قدر عاری ہے کہ وہ بھی ضرورت کے وقت مخالفین کی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ اسی بگڑے ہوئے توازن کا اثر ہے کہ مسلم سماج سے جڑے بڑے سے بڑے مسئلے کو بھی ’’ ہندوستانی سماج‘‘ میں بڑی بے حسی کے ساتھ نظر انداز کردیا جاتا ہے، مسلم سماج سے متعلق مسائل میں عدالتیں طوطا چشمی کا مظاہرہ کرتی ہیں، سیکورٹی ادارے تعصب و نفرت کا برتاو کرتے ہیں اور حکومتی ادارے ان کے خلاف ظالمانہ رویہ اختیار کرناعین انصاف سمجھتے ہیں، یہاں مثال دینے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس طرح کی مثالیں ہم یومیہ اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ ان اداروں کا’’ مسلم سماج‘‘ کے ساتھ ایسا رویہ کیوں ہے؟اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ’’ مسلم سماج‘‘بحیثیت مجموعی ان اداروں سے اس قدر کٹ چکا ہے کہ وہاں ان کے حق کی لڑائی لڑنے والا کوئی موجود نہیں ۔ ’’ مسلم سماج‘‘ اپنے وجود میں اس قدر معطل ہو چکا ہے کہ’’ہندوستانی سماج‘‘ سے وابستہ دیگر سماجی طبقات کو اب یہ یقین ہو گیا ہے کہ وہ اب’’ مسلم سماج‘‘ کی شمولیت کے بغیر بھی ’’ ہندوستانی سماج‘‘کے مطلوبہ مقصد کو حاصل کر سکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ موجودہ دور میںمسلم سماج ’’ ہندوستانی سماج‘‘ کا اضافی اور غیر ضروری حصہ شمار کیا جارہا ہے اور اس کے ساتھ ظالمانہ و غیر منصفانہ رویہ اختیار کیا جا رہا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ’’ مسلم سماج‘‘کو ہندوستانی سماج سے باہر سمجھنے اور انھیںایک اضافی اور غیر ضروری طبقہ تصور کرنے کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ اس کا جواب در اصل مسلمانوں کے تعلیمی مسائل سے مربوط ہے۔
مسلمانوں کے تعلیمی مسائل کیا ہیں؟ تعلیمی اداروں کی کمی؟ تعلیمی رجحانات کی کمی؟ تعلیمی اداروں میں پڑھائی جا رہی نصابی کتابیں؟عصری اور دینی بنیادوں پر علوم کی تقسیم؟یا وہ معاشی اور اقتصادی مسائل ہیں جن کی وجہ سے نہ تو مسلم علاقوں میں اچھے تعلیمی ادارے قائم کئے جا سکتے ہیں اور نہ ہی مسلم سماج کے افراد اچھے پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر سکتے ہیں؟مذکورہ بالا تمام مسائل ہی دراصل مسلمانوں کے تعلیمی مسائل ہیں۔ مسلم سماج سے وابستہ طلبا کے لئے یقینا تعلیمی اداروں کی کمی ہے، ہندوستان میں موجود ،مسلم بستیوں کا جائزہ لیںگے تو ہر شہر میں تعلیمی اداروں کی کمی نظر آئے گی، تعلیمی رجحانات کی کمی کا مشاہدہ ان کی بستیوں میںموجود افرادکی تعلیمی لیاقت سے یقینی طور پر کیا جا سکتا ہے، مسلمانوں کے خالص تعلیمی ادارے جو مدارس کی شکل میں ہندوستان کے مختلف شہروں، قصبوں اور دیہات میں موجود ہیںان کے تعلیمی نصاب کی قدامت اور عصری تقاضوں کے ناموافق پڑھائی جا رہی کتابیں،نصابی کمزوری کو ظاہر کرنے کے لئے کافی ہیں۔ہمارے مذہبی طبقے کی طرف سے عصری اور دینی بنیادوں پر علوم کی تقسیم بھی یقینا مسلمانوں کے تعلیمی مسائل کا اہم حصہ ہے، اسی طرح وسائل کی کمی، معاشی اور اقتصادی کمزوری بھی مسلم سماج کے تعلیمی مسائل کا اہم جز ہے۔ ان تمام مسائل کے اپنے الگ الگ وجوہات ہیں جن کی تفصیل کی یہاں ضرورت نہیں البتہ یہاں اس بات کا تذکرہ کرنا ضروری ہے کہ حکومتی سطح پر دانستہ یا غیر دانستہ طور پور جہاں مسلمانوں کے تعلیمی مسائل سے غفلت برتی جاتی رہی ہے وہیں ان تمام مسائل کا ذمے دار کہیں نہ کہیں مسلم سماج خود بھی ہے۔ مسلم سماج میں تعلیمی رجحانات کی کمی کا عالم یہ ہے کہ ان کی آبادی کا محض 2.80 فیصد ہی گریجویٹ ہے، اعلی تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کا تناسب ہندوستان کے تمام مذہبی طبقات حتی کی شڈیول کاسٹ اور شڈیول ٹرائب سے بھی کم ہے۔ مسلم سماج میں تعلیمی رجحانات کی کمی کے مختلف وجوہات میں سے ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ اس سماج کے مذہبی طبقے کی طرف سے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر یہ تصور عام کیا گیا ہے کہ حقیقی تعلیم تو دراصل قرآن و سنت کی تعلیم ہے، ان کے علاوہ دیگر علوم جن کا تعلق عمرانیات، تاریخ ، جغرافیہ، سائنس اور حساب وغیرہ سے ہے وہ بنیادی طور پر دیناوی علوم ہیں، دینی اور دنیاوی تقسیم کے علاوہ علوم کو علم اور فن کے دائرے میں بھی بانٹا گیا، جس کا منفی اثر یہ ہوا کہ مسلم سماج میں یہ تصور عام ہو گیا کہ اسلام میں صرف مذہبی علوم کی تحصیل مطلوب اور محبوب ہے، باقی دیگر علوم کی تحصیل اسلام کی نظر میں کچھ خاص ممدوح نہیں بلکہ ان علوم کی طلب تو محض دنیا داری کی طلب ہے ، اخروی دنیا میں ان علوم کی کوئی خاص اہمیت نہیں ۔ البتہ موجودہ وقت میں علوم کی تقسیم کا پرانا رویہ روز بروز کم ہوتا جا رہا ہے یہ ایک خوش آئند بات ہے اور ہمارا مذہبی طبقہ بھی کھلے لفظوں میں مزعومہ عصری علوم کی اہمیت کا اقرار کر رہا ہے چنانچہ جن علوم کے حصول کی اکبر الہ آبادی کی زبانی یوں مذمت کی گئی تھی :
پیدا ہوا وکیل تو شیطان نے کہا
لو آج ہم بھی صاحب اولاد ہو گئے
ان علوم سے آشنا کرنے اور وکیلوں کی ٹیم تیار کرنے کی کوشش خصوصی طور پر کی جا رہی ہے۔وکالت اور عدالتی پیشہ سے متعلق اگر مسلم سماج کے رویے کا جائزہ لیں تو ہم یقینا اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ اکبر الہ آبادی کا یہ شعر ایک شاعر کی بڑ نہیں تھی بلکہ یہ مسلم سماج کے ذہنی اور فکری رگوں میں بہتے ہوئے خون کی تصویر تھی جس کا مشاہدکہیں نہ کہیں ہم آج تک کرتے آرہے ہیں۔
ہندوستانی سماج میں مسلمانوں کا تعلیمی مسئلہ معاش، زبان اور سرکاری اداروں پر انحصار کا بھی ہے۔ مسلم سماج معاشی طور پر اس قدر کمزور ہے کہ اس کے بچے اچھے پرائیویٹ اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے، اس لئے ان کی بڑی تعداد سرکاری اداروں میں تعلیم حاصل کرتی ہے، وہاں پر تعلیمی معیار کمزور ہونے اور بیشتر سرکاری اداروں کا ہندی میڈیم میں ہونے کی وجہ سے ان تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کو اعلی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے میں زبان کی دشواری کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے، چنانچہ مسلم سماج کے وہ بچے جو معاشی طور پر تو مضبوط ہوتے ہیں لیکن اپنے علاقے میں اچھے اسکول نا ہونے کی وجہ سے سرکاری اداروں میں انٹرتک کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب اچھے اعلی تعلیمی ادارے میں داخلہ لینے کے لئے جاتے ہیں تو وہ مالی ضرورت کو پورا کرنے کے باوجود بھی ان اعلی تعلیمی اداروں میں پڑھنے کے قابل نہیں ہوتے کیونکہ بیشتر اعلی تعلیمی اداروں میں انگلش میڈیم میں تعلیم دی جاتی ہے اور وہ ہندی میڈیم میں اسکول کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انگلش میڈیم میں پڑھنے کے لئے ذہنی طور پر تیار نہیں ہو پاتے اور جو بچے انتھک محنت کے بعد اعلی تعلیمی اداروں سے جڑے بھی رہتے ہیں وہ ان طلبا سے علمی اعتبار سے اکثر کمزورہوتے ہیں جنھوں نے انگلش میڈیم میں اسکول کی تعلیم حاصل کی ہو یا اسکول کے زمانے میں جنھوں نے زبان کی پریشانی پر قابو پا لیا ہو۔
جیسا کہ میں نے پہلے ہی عرض کیا ہے کہ مسلمانوں کے خالص غیر سرکاری تعلیمی اداروں میں اکثر مدارس ہیں اور ان مدارس میں تعلیم کا نظام چونکہ خالص مذہبی ہے اس لئے یہاں تعلیم حاصل کر نے والے عمومی طور پر ان اداروں سے منسلک نہیں ہو پاتے جن اداروں کو ہندوستانی سماج کے تناظر میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مسلمانوں کا تعلیمی مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اس کے اپنے پرائیویٹ مدارس میںپڑھنے والے ہزاروں طلبا فراغت کے بعد زندگی کی دوڑ میںبہت پیچھے رہ جاتے ہیں اور دس بارہ سال خالص مذہبی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی ان اکثریت علمی اعتبار سے اس قدر کمزور ہوتی ہے کہ وہ ’’ ہندوستانی سماج‘‘ میں اپنے مذہب کا صحیح تعارف بھی نہیں کرا سکتے، یہ مسئلہ تو مسلم سماج کا اپنا مذہبی اور اندرونی مسئلہ ہے اس کی اصلاح کئے بغیر تو مسلم سماج کا وجود از خود کمزور ہو جائے گا۔ ہندوستانی تناظر میں مسلمانوں کا تعلیمی مسئلہ یہ ہے کہ وہ ان تمام تعلیمی اداروں اور مراکز سے دور ہیں جہاں سے علم و آگہی کے حصول کے بعد وہ خود کو ’’ہندوستانی سماج‘‘ کا ناگزیر حصہ بنا سکتے ہیں۔ عدالتوں میں بیٹھ کر، سیکورٹی اداروں میں شامل ہو کر، ڈیفنس کے مراکز میں تعینات ہو کر اپنے سماج کو ’’ ہندوستانی سماج‘‘ کا اٹوٹ حصہ بنا سکتے ہیں، اسی طرح علم و ادب کے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دے کر ہندوستانی سماج کو اپنی اہمیت کا احساس دلا سکتے ہیں لیکن یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب مسلم سماج میں رائج علم کے تقسیم کا تصور ختم ہو، مسلم بستیوں میں تعلیمی بیداری پیدا کی جائے، اپنے اچھے پرائیویٹ تعلیمی ادارے قائم کئے جائیں اور اپنے اداروں میں پڑھنے والے طلبا کو اردو زبان کے ساتھ ہندی اور انگلش کی بھی بھر پور تعلیم دی جائے تاکہ اعلی تعلیمی اداروں میں جانے والے طلبا کو نہ زبان کی دشواری کا سامنا کرنا پڑے اور نہ ہی انھیں مالی مشکلات سے دوچار ہونا پڑے۔
ڈاکٹر تجمل حسین ندوی
Email- tajammulhusain1@gmail.com
Mobile Number: 9716422138