از:سیدہ تزئین فاطمہ
بنت سید نوارلغوث نقشبندی
شعبہ اُردو،ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکرمراٹھواڑہ یونیورسٹی
اورنگ آباد
ا ردو ادب کی تاریخ میں سرزمین دکن کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔نثر اور نظم دونوں اصناف سخن اس کی گود میں پروان چڑھی ہیں۔اردو کے کئی نامور شعرا اور ادباء کا تعلق اسی سرزمین دکن سے ہے۔شاعری کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو اردو غزل کے باوا آدم ’ ولی‘ دکنی سے لے کر اب تک دکن کے سپوت اردو زبان و ادب کی خدمت میں مشغول ہیں،دورحاضر کے شعرا میں ایک اہم نام سلیم محی الدین کا ہے۔ ابوبکر رہبر،سلیم محی الدین کے متعلق لکھتے ہیں۔۔۔
’’سلیم محی الدین عصری اردو ادب کے نظام شمسی کا وہ روشن ستارہ ہے جو اردو دنیا پر اپنے وجود کی کرنیں بکھیر رہا ہے اور اردو نثر و نظم کے متوالے اس کی روشنی میں اپنے منزلوں کا سفر طے کر رہے ہیں۔‘‘
(تہہ میں پڑا ہوں دریا کی،ابوبکر رہبر ص ۱۲،معشوق ِ دکن)
۲۳؍ فروری ۱۹۶۳ء شہر پربھنی کے معزز گھرانے میں سلیم محی الدین کی پیدائش ہوئی،ابتدائی تعلیم پربھنی میں حاصل کی۔آپ کی تعلیمی قابلیت ایم اے(اُردو) پی۔ ایچ۔ ڈی ہے۔بچپن ہی سے مطالعہ کے کافی شوقین تھے اور شاعری سے رغبت بھی تھی کم عمری سے شعر کہنا شروع کردیا تھا۔ اور سلیم محی الدین کومحسن تثلیث قمر اقبال کی شاگردی کا شرف حاصل رہا جس نے ان کے فن کو مزید نکھاردیا اور محض سولہ برس کی عمر میں پربھنی میں منعقدہ مشاعرے میں سلیم محی الدین نے پہلی مرتبہ اپنا کلام پیش کیا اور جب سے اب تک مشاعروں کا یہ سلسلہ جاری ہے۔
ہاں !غزل ہے ہماری وراثت
ہم کے ٹھہرے دکن دیس والے
سلیم محی الدین کو غزل گوئی میں کمال حاصل ہے، سادگی اور بے ساختگی ان کی غزلوں کا طرہ امتیاز ہے۔مطالعہ کے ذوق نے سلیم محی الدین کو بچپن ہی میں اردو کے نامور شعرا کے کلام کا قاری بنا دیا جس نے ان کے ذہن و فکر کو وسعت بخشی۔مطالعہ اور مسلسل مشق نے سلیم محی الدین کو ایک کامیاب شاعر بنا دیا جس کا انداز سب سے جدا ہے،جس نے کسی کی تقلید نہ کی نہ انداز میں اور نہ موضوعات میں۔ سیدھے سادھے الفاظ میںبڑی بات کہہ جانا سلیم محی الدین کا فن ہے۔
وعدے،پھول،کتابیں اس کی
خوشبو کی سوغاتیں اس کی
میرا کمرہ بھر جاتا ہے
آجاتی ہیں یادیں اس کی
سلیم محی الدین غزل کے مزاج شناس ہے۔تشبیہات اور استعاروں کے استعمال نے ان کی غزلوں میں نئی جان ڈال دی ہے ،سلیم محی الدین کی غزلوں میں عشق بھی ہے اور کرب بھی،ناز و ادا بھی ہے اور وفا و بے وفائی بھی،ماضی کی بازگشت بھی ہے اور مستقبل کے خدشات بھی،حق گوئی بھی ہے اورخوداری بھی،غم بھی ہے اور شادمانی بھی ،
غرض سلیم محی الدین کی غزلوں میں ہر قسم کے مضامیں پائے جاتے ہے،جدید اور قدیم کے امتزاج سے پر سلیم محی الدین کی غزلیں اردو ادب کا قیمتی سرمایہ ہے۔غزل گوئی کے ساتھ سلیم محی الدین نے نظموں سے بھی یاری کی ہے۔۔۔
نمرود
بارش کی خبر
وہ کیا رکھتا
جس کے کہے پر
آگ لگی تھی بستی میں
گمان
دروازے پر
کون کھڑا ہے
کمرہ سوچے
اس کی صورت
یا اخی،بدھا !پھر مت ہنسنا،یہ میرا گھر،پودوں کا سفر وغیرہ آپ کی نظمیں ہیں۔سلیم محی الدین کی شاعری کو پڑھ کر قاری فیصلہ نہیں کرپاتا کہ نظمیں اچھی ہیں یا غزلیں ۔اس کشمکش کو بالائے طاق رکھ کر قاری ان کی غزل گوئی کے ساتھ ان کی نظم نگاری کا بھی قائل ہوجاتا ہے۔ سلیم محی الدین کو حمد اور نعت لکھنے کا بھی شرف حاصل ہے،اُن کی ایک نعت کافی پسند آتی ہے ،چند مصرع ملاحظہ فرمائیے
مہر حسن و ماہ عشق
اے جمال و جاہ عشق
وجہ تخلیق جہاں
اے سبیل راہ عشق
دل ہے صوفی باصفا
آپ ہیں درگاہ عشق
در تلک پہنچا سلیم
سچ ہوئی افواہ ہے عشق
آپ کی صلاحیتوں کے اعتراف میں عتیق اللہ رقمطراز ہے ۔۔۔۔
’’سلیم محی الدین بنیادی طور پر ایک شاعر ہیں اور کم ازکم مرہٹواڑہ میں وہ جس جدید نسل سے تعلق رکھتے ہیں ان سے بہتر مجھے اور کوئی شاعر نظر نہیں آتا‘‘
سلیم محی الدین کو شاعری کے ساتھ نثر میں بھی کمال حاصل ہے، ’مراٹھواڑہ میں اردو غزل ‘ سلیم محی الدین کا تحقیقی مقالہ ہے جس پر انہیں ڈاکٹر باباصاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی سے ۲۰۰۲ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض ہوئی تھی کچھ ضروری ترمیم کے بعد ۲۰۱۳ میں اسے شائع کیا گیا ۔اس کے علاوہ میزان،مضمون تازہ اور اردو ناول :تنقید و تجزیہ سلیم محی الدین کی تحقیقی و تنقیدی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
قصہ مختصر!سلیم محی الدین نام ہے اس شخصیت کا جو کامیاب شاعر بہترین محقق اور نقاد ہے۔اور اس کے ساتھ مثالی معلم بھی جس نے نجانے کتنی معمولی شخصیتوں کو غیر معمولی بنا دیا، صدا مسکراتا چہرا،مہذب زبان اور پر خلوص انداز سلیم محی الدین کی شخصیت کا خاصہ ہے،بقول نورالحسنین’’محبتیں ان پرنچھاور ہوتی ہیں۔لوگ ان کے دیوانے ہیں ان سے مل کر گلاب ہوتے ہیں کیوں کے وہ کانٹوں میں پھولوں کی باتیںکرتے ہیں۔چلچلاتی دھوپ میں برف بانٹتے ہیں۔‘‘
رب العالمین سے دعا ہے اللہ ان کا سایہ شفقت تا دیر ہمارے سروں پر قائم رکھے(آمین)
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page