اس وقت پورا ہندوستان آزادی کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر ‘آزادی کا امرت مہوتسو ‘ منا رہا ہے – جیسا کہ ہم سبھی اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ ہمارا وطن ١٥ اگست ١٩٤٧ کو انگریزوں کے چنگل سے آزاد ہوا تھا، اور دنیا کے جغرافیہ پر ہمارے وطن کو ایک آزاد ملک کی حیثیت سے پہچان ملی تھی- ملک کو آزاد کرانے میں کئی طرح کے لوگوں نے اپنی قربانیوں کا نذرانہ پیش کیا- انہیں تمام قربانیوں میں سے بہت ہی اہم قربانی اردو ادب کو جاننے والے لوگوں اور ادیبوں کی بھی تھی، جنہوں نے اپنے قلم سے اور خود عملی طور پر بھی جنگ آزادی میں حصہ لیا-
جس طرح لوگوں نے اپنی اپنی مقامی زبان میں تحریک آزادی میں حصہ لیا، چونکہ اردو اس وقت عام بول چال کی زبان تھی لوگ بات چیت کرنے میں اردو زبان کا استعمال کرتے تھے- اور جب ١٨٣٠ کی دہائی میں انگریزی حکومت نے فارسی کو چھوڑ کر اردو کو حکومت کی زبان بنایا تو اس وقت اردو زبان کی اہمیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے-
جنگ آزادی میں اردو زبان کی شرکت کی اس سے زیادہ اہم اور خوبصورت بات کیا ہو سکتی ہے کہ جس صحافی نے ملک کے لیے سب سے پہلے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا وہ اردو زبان ہی کا ایک صحافی تھا، جسے تاریخ محمد باقر کے نام سے یاد کرتی ہے- محمد باقر کو انگریزی حکومت نے ان کے خلاف لکھنے اور ہندوستانیوں کے اندر آزادی کی روح پھونکنے کی وجہ سے توپوں اور گولیوں سے بھون کر شہید کردیا تھا –
وہ اردو کا ہی ایک شاعر تھا جس نے ١٩٢١ میں احمدآباد کے کانگریس ادھیویشن میں سب سے پہلے مکمل آزادی کا ریزولیوشن پاس کرانے کی مانگ کی تھی، جنکو تاریخ حسرت موہانی کے نام سے یاد کرتی ہے- یہ وہی حسرت موہانی ہیں جنہوں نے تحریک آزادی کے دوران لوگوں کے اندر جذبہ وطن پرستی اور جذبہ آزادی کی امنگ پیدا کرنے لیے ایک نعرہ دیا تھا، اور وہ نعرہ تھا ‘انقلاب زندہ باد’ –
وہ اردو زبان ہی کا ایک شاعر تھا جس نے جنگ آزادی کے دوران ہم ہندوستانیوں کے جذبہ وطن پرستی کو اپنی ایک چھوٹی سی نظم کے اندر سموتے ہوئے یہ اشعار کہے تھے
” سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا”
اردو ادب کا بہت ہی اہم حصہ ہیں اخبار اور رسالے- ١٨٥٧ اور اسکے بعد جتنے اردو اخبار اور رسالے نکلتے تھے ان تمام میں انگریزوں کی سازشوں کو بے نقاب کرنے والی خبریں اور ہندوستانیوں کے اندر وطن پرستی کا جذبہ پیدا کرنے والی تحریریں کثرت سے دیکھنے کو ملتی ہیں – یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ اردو اخبار کے صحافیوں اور ایڈیٹروں کو اپنے اخباروں کی کئی کئی بار ضمانتیں ضبط کروانی پڑیں اور کئی کئی بار جیل کی تکالیف اور اذیتیں برداشت کرنی پڑیں – جن میں زمیندار، کوہ نور، پرتاپ، انڈیا اخبار کے ایڈیٹر اور صحافیوں کا نام خاص طور پر قابل ذکر ہے –
کسی بھی ادب کا بہت ہی اہم حصہ ہوتی ہے شاعری – اگر ہم اس جنگ آزادی کے دوران لکھی ہوئی اردو شاعری کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت شاید ہی کوئی ایسا شاعر ہوگا جس نے جنگ آزادی اور وطن پرستی کو موضوع بنا کر شاعری اور نظمیں نہ کہیں ہوں-
آج بچے بچے کی زبان پر اس غزل کے یہ الفاظ جو اس وقت اردو کے مشہور شاعر بسمل عظیم آبادی نے کہے تھے، اس کے گواہ ہیں –
"سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
اے شہید ملک و ملت میں ترے اوپر نثار
لے تری ہمت کا چرچا غیر کی محفل میں ہے”.
اردو شاعری میں ایک بہت ہی اہم نام ہے برج نرائن چکبست کا – انہیں اردو شاعری میں جانا ہی اس وجہ سے جاتا ہے کہ انہوں نے وطن پرستی اور آزادی کو موضوع بنا کر نظمیں لکھی تھیں – ان کی ہوم رول لیگ کے دوران لکھی ہوئی ایک نظم ‘وطن کا راگ’ کے کچھ اشعار دیکھیے-
” پہنانے والے اگر بیڑیاں پنہائیں گے
خوشی سے قید کے گوشہ کو ہم بسائیں گے
جو سنتری در زنداں کے بھی سو جائیں گے
یہ راگ گا کے انہیں نیند سے جگائیں گے
طلب فضول ہے کانٹے کی پھول کے بدلے
نہ لیں بہشت بھی ہم ہوم رول کے بدلے”
ان اشعار میں کس بے باکی کے ساتھ انھوں نے انگریزوں کو للکارتے ہوئے کہا تھا کہ ہوم رول یہ ہمارا حق ہے – اگر تم اس کے بدلے ہمیں بہشت اور جنت بھی دینا چاہو تو ہم بہشت کو لینے سے انکار کردے کیونکہ ہمیں ہوم رول چاہیے-
اردو کے بہت ہی اہم اور مشہور شاعر ہیں مخدوم محی الدین- ان کی کئی نظموں میں ہمیں وطن پرستی کی فضا دیکھنے کو ملتی ہے- ان کی ایک نظم ‘آزادئی وطن’ کے کچھ اشعار دیکھیے-
"قسم ہے خون سے سینچے ہوئے رنگیں گلستاں کی
قسم ہے خون دہقاں کی قسم خون شہیداں کی
یہ ممکن ہے کہ دنیا کے سمندر خشک ہو جائیں
یہ ممکن ہے کہ دریا بہتے بہتے تھک کے سو جائیں
جلانا چھوڑ دیں دوزخ کے انگارے یہ ممکن ہے
روانی ترک کر دیں برق کے دھارے یہ ممکن ہے
زمین پاک اب ناپاکیوں کو ڈھو نہیں سکتی
وطن کی شمع آزادی کبھی گل ہو نہیں سکتی
اردو ادب کی عمارت جن بنیادوں پر کھڑی ہوتی ہے ان میں سے بہت ہی اہم ہیں ناول اور افسانہ – اردو میں ناول کا آغاز ہوتا ہے ڈپٹی نذیر احمد سے – اگر ہم ڈپٹی نذیر احمد کے ناولوں کو پڑھیں تو ہمیں ان کے کچھ ناولوں میں وطن پرستی اور جذبہ آزادی کی جھلکیاں دیکھنے کو ملتی ہیں – لہذا ہم اس بات کو کہہ سکتے ہیں کہ جب ناول کا آغاز ہوا، اس شروعاتی دور سے ہی اس میں وطن پرستی شامل تھی- اردو ناول میں ایک بہت ہی اہم نام ہے منشی پریم چند کا – منشی پریم چند چونکہ گاندھی جی کے نظریات سے بہت زیادہ متاثر تھے، یہی وجہ ہے کہ ان کے کئی ناول اور افسانوں میں ہمیں گاندھی جی کے نظریات اور خیالات دیکھنے کو ملتے ہیں – اسکے علاوہ انکے کئی ناول ایسے ہیں جن میں ہمیں وطن پرستی اور آزادی کی جھلکیاں دیکھنے کو ملتے ہیں- ان کے ایک ناول جلوۂ ایثار میں دو کرداروں کے مکالمے کے ذریعے سے منشی پریم چند نے کس خوبصورتی کے ساتھ وطن پرستی کو بیان کیا ہے، ملاحظہ کیجیے –
ماں کہتی ہے "مجھے ایک بیٹا دے دیوماتا”
دیوماتا نے پوچھا” جو بہت دھنوان ہو، بلوان ہو اور دنیا بھر شہرت حاصل کرے”
لیکن ماں نے جواب میں کہا "نہیں مجھے ایسا بیٹا دے جو وطن کی خدمت کرے”
منشی پریم چند نے حصول آزادی کو اپنی تحریروں کا مقصد بنایا – ایک خط میں وہ لکھتے ہیں” ہاں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ دو چار بلند پایہ تصنیفیں چھوڑ جاؤں لیکن ان کا مقصد بھی حصولِ آزادی ہو-”
پریم چند کے افسانوں کا پہلا مجموعہ’ سوز وطن’ جب منظر عام پر آیا تو انگریزی حکومت نے یہ کہہ کر اسے ضبط کر لیا کہ انکے ان افسانوں سے بغاوت کی بو آتی ہے- اس میں شامل ایک افسانہ ‘ دنیا کا سب سے انمول رتن’ ان جملوں پر ختم ہوتا ہے-
” وہ آخری قطرۂ خون جو وطن کی خدمت میں گرے وہ دنیا کی سب سے قیمتی شے ہے-”
اردو کے افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کا افسانہ’ تلاش’ ١٩١٩ کے مارشل لا کے ہنگاموں کو بیان کرتا ہے – ان کا دوسرا افسانہ ‘شرابی’ جس میں ١٩١٩ کے بعد کے واقعات کو بیان کیا گیا ہے- ان کے افسانہ’ شرابی ‘کے کچھ جملے دیکھیے-
” آہ آزادی! خدا معلوم اس کا ذائقہ کس قدر لذیذ ہو گا، جب بھی ان آزاد لوگوں کے بارے میں پڑھتا ہوں تو مجھے ایک افسانہ معلوم ہوتے ہیں- میں اپنے دل سے پوچھتا ہوں کہ کیا ہم بھی کبھی آزاد ہوں گے، اس کا جواب مجھے نہیں ملتا-”
اس کے علاوہ اردو کے مشہور افسانہ نگار جن میں سہیل عظیم آبادی، راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر، علی عباس حسینی اور دیگر نے اپنے قلم کے ذریعے سے اس وقت کے حالات و واقعات کو سمیٹ کر تحریک آزادی میں ایک نئی جان ڈال دی تھی-
جہاں اردو ادیبوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے سے ہندوستانیوں کے اندر جذبہ آزادی کو تازہ کیا تو وہیں دوسری اور عملی طور پر بھی انہوں نے بڑھ چڑھ کر تحریک آزادی اور جنگ آزادی میں حصہ لیا- محمد علی جوہر کو کون نہیں جانتا- جنکا صرف ایک ہی خواب تھا – ‘ملک کی آزادی’ – انہوں نے انڈین نیشنل کانگریس، آل انڈیا مسلم لیگ اور خلافت آندولن جیسی تین اہم تنظیموں کے پلیٹ فارم سے ملک کی آزادی کی جنگ لڑی- لندن کی گول میز کانفرنس میں حکومت برطانیہ کے بڑے بڑے ارکان کی موجودگی میں انہوں نے بے خوف ہو کر کہا تھا "ہمیں مشورے کی ضرورت نہیں اور نہ اس بات کی پرواہ ہے کہ آپ ہمارے لئے کس قسم کا قانون تیار کرتے ہیں – ہمیں انسانوں کی ضرورت ہے، کاش سارے انگلستان میں ایک شخص بھی ایسا ہوتا جو انسان کہلانے کا مستحق ہوتا- میں ہندوستان کو آزاد کرنے کے لئے لندن آیا ہوں اور آزادی کا پروانہ لے کر واپس جانا چاہتا ہوں – میں ایک آزاد ملک میں تو مرنا پسند کروں گا لیکن غلام ملک میں واپس نہیں جاؤں گا- ” محققین کے مطابق ١٨٥٧ کی پہلی جنگ آزادی میں کم از کم ساڑھے تین سو شاعروں نے حصہ لیا اور یہ سلسلہ بعد کے دور میں بھی جاری رہا- مختصر یہ کہ اردو ادب نے ملک کی آزادی میں جو اہم کردار ادا کیا ہے اسکی نظیر کسی اور دوسرے ادب میں نہیں ملتی –
نام – محمد نوید
سینٹ جانس کالج ، آگرہ
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page