المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویفیئر ٹرسٹ کے زیر اہتمام سلطان شمسی کے دوسرے شعری مجموعہ ”انداز سخن“ کی تقریب اجراء
دربھنگہ(نمائندہ)اردو کے معروف شاعرسلطان شمسی نے اردو شاعری میں بھی اپنا اہم مقام بنایا ہے۔ ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد اپنے شاعری کے سفر کو جاری رکھا اور آج کے دوسرے شعری مجموعہ ”انداز سخن“ کا رسم اجرا ہوا۔ ہم دعا گو ہیں ان کا تیسر مجموعہ بھی جلد منظر عام پر آئے ۔ یہ باتیں ممبر راجیہ سبھا و مدھوبنی میڈیکل کالج کے بانی ڈاکٹر فیاض احمد نے ملت کالج کے ک انفرنس ہال میں المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویفیئر ٹرسٹ کے زیر اہتمام منعقد سلطان شمسی کے دوسرے شعری مجموعہ انداز سخن کے رسم اجرا تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ میں سلطان شمسی کو بہت قریب سے جانتا ہوں۔ ان کی شاعری نے مجھے بے حد متاثر کیا ہے۔ اللہ انہیں صحت و سلامتی کے ساتھ رکھے۔ ان سے بھی میں دعا کا متمنی ہوں۔ کتاب کی اشاعت کے لئے میں انہیں دل سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ پروگرام کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر محمد آفتاب اشرف (صدر شعبہ اردو ، ایل۔ این۔ ایم۔ یو، دربھنگہ) نے کہا شمسی کے شعری نظام کا امتیازی وصف یہ ہے کہ ان کے یہاں غزلیہ آہنگ میں کلاسیکی شاعری کی پاسداری کے ساتھ ساتھ جدید شاعری کے شفق کی لالی اور تخلیقی برتاﺅ بھی ہے۔ ان کا لب ولجہ معصومانہ ، پرکار اور سادہ ہے۔ مشکل تراکیب ، دور ازکار علامتوں اور تعقید لفظی و معنوی سے خود کو دامن بچاتے ہوئے آسان اور عام فہم انداز میں اپنے احساس کا اظہار کئے ہیں کہ ان کی جملہ شاعری صناعی کے برعکس فطری تخلیقی وجدان کا نتیجہ ہے۔ انجمن ترقی ا ردو بہار کے نائب صدر ڈاکٹر عالمگیر شبنم نے کہا کہ سلطان شمسی ایک کہنہ مشق اور جدید لب و لہجہ کے شاعر ہیں۔ ان کی شاعری پچاس سالوں پر محیط ہے ۔ انہوں نے مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی ہے ۔ جس میں حمد ، نعت ، نظم، غزل شامل ہے۔ جب کہ ان کا رجحان غزل کی جانب زیادہ ہے۔ شفیع مسلم ہائی اسکول کے سابق پرنسپل علاءالدین حیدر وارثی نے ”اندازسخن“ پر روشنی ڈالی اور انہیں کامیاب شاعر قرار دیا۔ الحراءپبلک اسکول کے پرنسپل ڈاکٹر احسان عالم نے کہا کہ سلطان شمسی لمبے عرصے سے شاعری کر رہے ہیں لیکن چند سالوں میں انہوں نے لمبی اڑان بھری ہے۔ اردو شاعری کی دنیا میں انہوں نے ایک الگ شناخت قائم کی ہے۔ ان کے اشعار قارئین کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔ ان کے سینے میں ایک حساس شاعر کا دل دھڑکتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی شاعری میں اپنے گرد و نواح کے حالات کو سمونے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کے سکریٹری ڈاکٹر منصور خوشتر نے کہا کہ سلطان شمسی کی شاعری سادہ ، سلیس اور آسان زبان میں ہوا کرتی ہے۔ عام قاری بھی ان کے کلام کو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ ان کی غزلوں کے مطالعہ سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ان کی نگاہ معاشرے پر گہری ہے۔ ان کی شاعری فکری اور فنی دونوں اعتبار سے قابل قدر ہے۔ ڈاکٹر شہنواز عالم (اسسٹنٹ پروفیسر ملت کالج) نے کہا کہ سلطان شمسی کے شاعری میں ذہنی محرکات اور قلبی جذبات و احساسات بڑی آسانی سے منعکس ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے اپنے کلام میں بہت ہی فنی چابکدستی سے اپنے خیالات کی ترجمانی کی ہے۔ سابق اے ڈی ایم نیاز احمد نے سلطان شمسی سے اپنے پرانے تعلقات کا تذکرہ بڑے ہی مفصل انداز میں کیا ساتھ ہی ان کی شاعری کے فنی لوازمات کو بھی اجاگر کرنے کی کوشش کی ۔ اس موقع پر سلطان شمسی کے صاحبزادے انور کمال نے بہت خوبصورت آواز میں چند اشعار پیش کئے۔ نظامت کے فرائض بھی ان کے صاحبزادے غضنفر جلال نے بہ حسن و خوبی ادا کئے۔ ڈاکٹر منصور خوشتر کے اظہار تشکر کے ساتھ پروگرام کا اختتام ہوا۔ اس موقع پر پروگرام میں شرکت کرنے والوں میں انور آفاقی ، سید محمود احمد کریمی، جنید شکروی ،ڈاکٹر عصمت جہاں، واصف جمال ، نسیم رفعت مکی، ڈاکٹر ریحان قادری، ڈاکٹرمحمد رضوان، ڈاکٹر نجیب اللہ، ڈاکٹر شفیع احمد، سعید احمد، ثوبان احمد شمس، کیف احمد کیفی، ڈاکٹر قیصر ہلال، ڈاکٹر حبان قیصر، ڈاکٹر وقاس نعمان ، محمد خرم جاہ ،پروفیسر اختر بلال، ریحان قیصر زیدی، شاہ عالم ببلو، سہراب عالم ڈبلو، جمیل الدین ، محمد آصف ، محمد جوہی ، امام الدین ، محمد آسی، عرفان قیصر، محمد عارف اقبال، افتخار احمد گڈو، نصیر احمد عادل، پروفیسر یاسر سجاد ، عبدالرازق، حفیظ الرحمن، صفی الرحمن راعین، شمشاد احمد وغیرہ شامل تھے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page