جے این یو میں ڈاکٹر محبوب حسن کے ساتھ ایک شام
نئی دہلی(26/فروری)، جے این یو میرے لیے محض ایک یونیورسٹی نہیں، بلکہ خواب کی تعبیر بھی ہے۔ یہاں کا علمی و تحقیقی ماحول، اساتذہ کی سرپرستی اور دوستوں کا ساتھ میرے علمی سفر میں ہمیشہ مہمیز کا باعث رہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار آج جے این یو میں اردو کے معروف طنز و مزاح نگار، نقاد، محقق اور گورکھپور یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محبوب حسن نے اپنے اعزاز میں منعقد ایک پروقار تقریب ”جے این یو میں ڈاکٹر محبوب حسن کے ساتھ ایک شام“ میں کیا، جس میں علمی و ادبی شخصیات، اساتذہ، ریسرچ اسکالرز اور طلبہ کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ تقریب کے دوران ڈاکٹر محبوب حسن نے جے این یو میں گزارے گئے اپنے علمی سفر کو یاد کیا اور اپنے اساتذہ بطورِ خاص اپنے نگراں پروفیسر معین الدین جینابڑے کی تربیت کے انداز کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ انہوں نے اپنی تصانیف، تحقیقی کام اور طنز و مزاح کے میدان میں اپنی دلچسپی پر بھی روشنی ڈالی اور بتایا کہ ان کی تخلیقات کا بنیادی مقصد نہ صرف قاری کو محظوظ کرنا ہے بلکہ انہیں زندگی کے تلخ حقائق سے روشناس کرانا بھی ہے۔ اس تقریب کے صدر ،معروف فکشن نگار ڈاکٹر ذاکر فیضی نے ڈاکٹر محبوب حسن کی علمی و ادبی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا، ”ڈاکٹر محبوب حسن جیسے نوجوان قلم کار کسی بھی مادر علمی کے لیے باعثِ فخر ہوتے ہیں۔ ان کی تحریریں اردو ادب میں ایک خوشگوار تازگی اور تخلیقی توانائی کا اضافہ ہیں۔“ ڈاکٹر ذاکر فیضی نے اپنا افسانہ ”میرا کمرا“ بھی سنایا، جسے سن کر شرکاء پرانی یادوں میں کھو گئے۔ افسانہ جے این یو کے علمی و ادبی ماحول اور وہاں کے مکینوں کے خوابوں، جدوجہد اور جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔ اس موقع پر ڈاکٹر شاہد حبیب نے مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے ڈاکٹر محبوب حسن کی طنزیہ و مزاحیہ تحریروں پر گفتگو کی۔ ان کی مشہور کتاب ”ٹنڈے کباب“ کا خصوصی تذکرہ کیا، جس میں انہوں نے اردو ادب میں طنز و مزاح کو نئی جہت دینے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ حاضرین نے اس کتاب کے منفرد عنوانات اور ان کے مخصوص مزاحیہ انداز کو بے حد سراہا۔ ڈاکٹر شاہد حبیب نے ڈاکٹر محبوب حسن کے تحقیقی مقالوں اور تنقیدی تحریروں کی روشنی میں اردو ادب میں ان کے کردار کو اجاگر کیا۔ خاص طور پر ”عصمت چغتائی اور جین آسٹین کی ناول نگاری کا تقابلی مطالعہ“ اور ”تقسیم ہند پر مبنی اردو اور انگریزی ناولوں کا تقابلی مطالعہ“ جیسے تحقیقی کاموں اور ادب اطفال پر مشتمل ان کی کتابیں”تتلی رانی“ اور ”جنگل جنگل“ کو اردو ادب میں ایک منفرد اضافہ قرار دیا، اور کہا کہ جے این یو کی علم و ادب کی یہ وادیاں ڈاکٹر بشیر بدر کے الفاظ میں آواز دیتی رہی ہیں اور آج پھر پکار رہی ہیں کہ ”تمہارے ساتھ یہ موسم فرشتوں جیسا ہے/ تمہارے بعد یہ موسم بہت ستائے گا“۔ تقریب کی نظامت نوجوان شاعر آصف بلال نے اپنے مخصوص انداز میں کی اور جناب طریق العابدین نے آخر میں معزز مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور اس یقین کا اظہار کیا کہ جے این یو کی یہ علمی و ادبی محفلیں اسی جوش و خروش سے جاری رہیں گی۔ تقریب میں شریک طلبہ اور اسکالرز نے ڈاکٹر محبوب حسن سے سوالات کیے اور ان کی علمی و ادبی بصیرت سے مستفید ہوکر مسرت کا اظہار کیا۔ اور کہا کہ یہ شام، جو علم و ادب، طنز و مزاح اور یادوں کا حسین امتزاج تھی، دیر تک ان کے ذہنوں میں تازہ رہے گی۔٭٭٭
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page