پروفیسر عبدُ البرکات
شعبۂ اردو, بی۔آر۔امبیڈکر بہار یونی ورسیٹی،
مظفرپور(بہار)
Mob. : 8210281400
علمیت کی دنیا میں اس کہاوت’’عقل بڑی کہ بھینس‘‘کی قدر نہیں کی جاتی بلکہ کسی کی ذہانت کا اندازہ لگانے کے لیے بطورِ تضحیک، یہ سوال کردیا جاتاہے۔حالاںکہ ماہرینِ اغذیہ کا دعویٰ ہے کہ دودھ سے انسانی عقل میں اضافہ ہوتا ہے اور قُویٰ مضبوط ہوتے ہیں۔اگر کسی نے سرے سے دودھ ہی نہیں پیا ہو!! اس کے تعلق سے سوچ سکتے ہیں۔دودھ انسان کا ہو یا گائے، بھینس اور بکری کا، چاہے بھیڑ یا اونٹنی کا؛ اس کو امرت سے تعبیر کیاجاتاہے۔ہاں! بھینس کے دودھ کی دبیز ملائی اور اس کی چھاچھ کا پہلوان ہی نہیں، سبھی دیوانے ہیں اور اس کے گاڑھے دودھ کی مٹھائیوں کا ذائقہ لاجواب ہوتاہے۔واقعتاً جغرافیائی اور موسمی افتراق کے اثرات سے کوئی مبرا نہیں ہوسکتا۔جانوروں کی جسمانی ساخت پر بھی اس کے واضح اثرات دیکھنے کو ملتے ہیں تو دودھ کی تاثیر میں فرق آنا لازمی ہے۔ اس لیے بعض جانوروں کے دودھ کی افادیت کے پیشِ نظر دوا کمپنیاں اس کے حصول کے لیے موٹی رقم ادا کرتی ہیں۔
صاحبو! بھینس ہماری؛ جس کی ہے بات نرالی، اس نے تو دورِ رواں میں اپنی اہمیت، افادیت اور کچھ حد تک جسامت کے اعتبار سے خشکی کے سب سے بڑے جانور کو مات دے کر سلی بریٹی( celebrity) ہونے کا اعزاز حاصل کرلیا ہے۔بلکہ اس کے اولادِ نرینہ’ارنا بھینسا‘ نے تو اکبر کے لکنہ ہاتھی پر بھی سبقت حاصل کرلی ہے۔آل انڈیا کسان فیسٹیول نومبر ۲۰۲۴ء میں بھینسوں کی نمائش ہوئی، جس میں ایک ’انمول‘ نام کی بھینس جس کی قیمت ۲۳؍کروڑ لگائی گئی، پھر بھی اس کے مالک نے فروخت کرنے سے انکار کردیاکہ صحت مندی کی دوڑ میں اس کا کردار انمول ہے۔اس نام اور دام کے ایک بھینسا کی بھی نمائش ہوئی۔نیز’شہنشاہ‘،’یوراج‘، ’سلطان‘ وغیرہ کے نام سے وقیع جسامت،رعب دار وضع قطع اور شاندار و دمدار بھینسا؛ تیلوں کی مالش سے اس قدر چمچماتے ہوئے ریمپ سے گزرتے کہ ان کے سامنے تراشیدہ، سیاہ ڈائمنڈ بھی ماند پڑجائے۔ان کی سج دھج کی وجہ سے دور کا جلوہ ہی میں سامعین؛ عافیت محسوس کرتے اور دیگر مشاہیر کی طرح ان کے قریب جاکر چھونے سے پرہیز کرتے۔ارنا بھینسوں کو دیکھ کر ناظرین کو سمجھنے میں دیر نہیں لگتی کہ ان کے مالک اور خادم نے عمدہ چارہ، کثیر میوہ جات اور صبح و شام کی مالش سے ان کو اپنا گرویدہ بنالیاہے،ورنہ اس کوی ہیکل جانور کے گلے میں رسّہ لگاکر دونوں طرف سے ایک ایک خادم (مہاوت تو کہا نہیں جاسکتا) ان کو ریمپ کرارہے تھے اور جھیل کی طرح شانت مزاج ایک ایک بھینسا، بے نیازی سے اپنا جلوہ بکھیرے جارہے تھے، نہیں توکیا مجال جو کوئی بغل سے گزر جائے۔اب تو جنگلوںکی خبریں بھی سنیدہ نہیں دیدہ ہوگئی ہیں کہ شیر کی بادشاہت کو کس طرح جنگل کے بھینسوںنے چیلنج کیاہے۔کسی کمزور و لاغر بھینس کو دیکھ کر کوئی شیر اس کو دبوچ لیتاہے تو ارنا بھینسا کی نظر پڑتے ہی وہ فرار کی راہ اختیار کرلیتاہے،بصورتِ دیگر بھینسا اپنے سینگ سے اٹھاکر نچانچاکر دور اس طرح پھینکتا ہے کہ دوبارہ وہ شیر کسی بھینس کی طرف نظراٹھاکر نہیں دیکھتا۔شیروں اور بھینسوں کا جھنڈ کے آمنا سامنا ہونے پر شیروںکو ہی بھاگنا پڑتاہے۔ان بھینسوں کی موجودگی میں کسی دوسرے جانور کی طرف بھی شیر؛نظراٹھاکر نہیں دیکھتے، بھینسے ان کے محافظ بن جاتے ہیں۔
حضرات! ان تمام خوبیوں نے اب اہلِ ثروت کی توجہ اپنی طرف مبذول کرلی ہے اور بھینس کے سلی بریٹی بنتے ہی ان کی ہوش و خرد کو جِلا ملی ہے کہ ہاتھی پالنے کا شوق عصری پس منظر میں سہج نہیں رہ گیا ہے۔ ہاتھی کی رہائش کے لیے جتنی جگہ زمین کی ضرورت پڑتی ہے، اتنی میں ہزاروں لوگوںکے لیے شاندار عمارت(complex)تیار ہوجاتی ہے۔ پھر کھانے کے لیے ایکڑ کی ایکڑ زمین میں گنّے لگائے جاتے ہیں، پھر بھی ان کی خوراک پوری نہیں ہوتی تو فیل بان گھما پھراکر لوگوں کے پیڑپودے کھلاتے ہیں اور جھگڑے کے بیج بودیتے ہیں جو دورِ جمہور میں بارآورہوجاتے ہیں۔ہاتھیوں نے تو کتنے فیل بان کو پٹخ کر مار ڈالاہے اور سنک جانے پر جدھر سے گزرے اُدھر کہرام مچادیا۔اس لیے جنگل میں ان کو آزاد رہنے کا ارادہ کرکے اہلِ ثروت حضرات نے بھینسوں کے لیے اپنے گھر کے دروازے کھول دیا ہے کہ اس بے ضرر جانور کو پالنے میں ہر طرح سے فائدہ ہی فائدہ ہے۔بھینس پالو اور گھر میں دودھ دہی کا دریا بہاؤ، اگرمن اُتاؤلا ہوا تو اس دریا کا رخ صارفین کی طرف موڑدو؛ مال و زر بے حساب آئے گا۔ بھینس کے بچّے جس کو کٹرا اور کٹری کہتے ہیں، ان کی معصومیت اور نہایت سیدھاپن کی وجہ سے ہمارے علاقہ میں پاڑا اور پاڑی سے منسوب کیا جاتاہے۔ ہم لوگوں کے بچپن کے دنوں میں جو کُند ذہن ہوتا اس کو ’پاڑا‘ کے خطاب سے نواز دیاجاتا۔بہرکیف! اچھی نسلوں کی بھینسوں کے بچوں کی کیا بات ہے!!بھینس نے اگر کٹری کو جنم دیا تو اس کی خاطر مدارات بڑھ گئی کہ وہ ماں کی قائم مقام ہوگئی اور اگر اس نے کٹرے کو جنم دیا تو پھر کیا کہنا۔اچھا چارہ، دانہ، میوہ جات اور بسلری پانی پلاکر اور مساج کرکے ’ارنا بھینسا‘ بنادیا جس کو دیکھنے اور مادۂ منویہ حاصل کرنے(جس سے ہر روز لاکھوں کی آمدنی بتائی جاتی ہے)کے لیے کھٹال(بتھان) پر مجمع لگا رہتا ہے کیوںکہ اس سے جنمے بچے بہت دودھارو ہوتے ہیں۔گویا بھینس پالو، فائدہ ہی فائدہ اٹھاؤ اور ہاتھی پالو تو صرف نام بناؤ اور خسارہ اُٹھاؤ۔خود بھی مصیبت مول لو اور دوسرے کی جان بھی ہلکان میں ڈال دو۔لہٰذا جو لوگ بھی ’’عقل بڑی کہ بھینس‘‘ کی کہاوت سے دوسرے کو احمق بنانے کی کوشش کرتے ہیں، ان کواب عقل کے ناخن لینا پڑے گا۔
اس پس منظر میں درس و تدریس سے وابستہ حضرات اور طلبہ کے ذہن میں سوال اٹھنا لازمی ہے کہ جو جانور انسانوں کے لیے ہمہ جہت مفید ہے اور تما جھگڑے رگڑے سے بے نیاز کھاپی کر اس کو سکون سے جگالی کرتے دیکھ کر لوگ پھبتی کستے ہیں’’بھینس کے آگے بین بجائے بھینس کھڑی پگرائے‘‘ ان کو سمجھنا چاہیے کہ وہ اپنی شانِ بے نیازی سے پیغام دیتی ہے کہ دنیاوی نعمت سے مستفیض ہوجائیں تو خود امن چین کی بانسری بجائیں اور دوسروں کو بھی سلامتی اور سکھ چین سے جینے دیں۔جب آسودہ حال بھینس چارہ گاہ کی سیر سپاٹے کے بعد اپنے سویمنگ پُل (تالاب) میں ہیر(بیٹھ کر جگالی)جاتی ہے تو باہر سے کوئی لاکھ لاٹھی ڈنڈے دِکھائے یا ہری ہری گھاس؛وہ کسی بھی ڈر، خوف یا لالچ سے بالاتر اپنی قناعت پسندی کا مظاہرہ کرتی ہے۔بھوک کی شدت ہی اس کو باہر کھینچ لاتی ہے جو واجب ہے۔ہاں! ابھی وہ سوال برقرار ہے کہ بھینس کو فن کاروں اور قلم کاروں نے کیوں نظرانداز کیا۔ گائے کے گن گان تو زمانۂ قدیم سے جاری و ساری ہے اور اس پر اسکول کے دنوں سے ہی مضمون لکھنے کا مشق کرایاجاتاہے۔ پھر اس کی عظمت و برتری پر کتابیں بھی دستیاب ہیں۔جن دنوںہم لوگ اسکول میں پڑھاکرتے تھے، منشی پریم چند کی کہانی ’’دو بیلوں کی جوڑی ہیرا اور موتی‘‘ نصاب میں شامل تھی جس پر گاؤں کے معاشی حالات و معاملات کے گہری چھاپ ہے۔کیوںکہ بیلوں کی جوڑی سے کہانی، آپسی میل جول اور اتحاد کا پیغام دیتی ہے کہ ہیرا اور موتی نے اپنی ایکتا اور تال میل سے ایک سنکی سانڈ پر تابڑ توڑ دونوں جانب سے حملہ کرکے مار بھگایا۔ پھر بیلوں کو ہیرا موتی کی طرح جوڑی لگانے کی روایت اتنی مقبول ہوئی کہ آج بھی کسان میلہ درمیلہ گھوم کر اپنے بیل کی جوڑی لگاتے ہیں۔ آج مشینوں نے بھلے ہل جوتنے اور مال ڈھونے والے جانوروں خصوصاً بیل اور بھینسا کی مشکلیں آسان کردی ہے لیکن سماجی زندگی کی ابتدا کے آدمی ان کے احسان تلے دباتھا۔اسی طرح معاشرتی نظام کے ابتدائی دور میں آدمی کے معاون کے طور پر کتے کام کرتے اور شکار میں مددگار ہوتے جس کی وجہ سے کتے کو وفاداری کا تمغہ عطا کردیاگیا جو آج تک اس کے سرپر جگمگا رہا ہے، لیکن اس سے ڈرو خوف کا یہ عالم ہے کہ ’’کتّے‘‘ جیسے معیاری، عمدہ اور زوردار مزاحیہ مضمون لکھنے والے پطرس بخاری کی گھگھی بھی رات کے اندھیرے میں کھڑی بکری کے سایہ کو دیکھ کر بندھ گئی کہ یہ کہیں کتا نہ ہو!!۔غالبؔ تو کتا سے اس قدر خائف تھے کہ یہاں تک بول اٹھے:
پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسدؔ
ڈرتا ہوں آدمی سے کہ مردم گزیدہ ہوں
قلم کاروں اور فن کاروں نے بہت سے جانور اور چرند و پرند کو اپنی تخلیقات کا موضوع بناکر شہرتِ دوام عطا کیاہے۔ اردو زبان و ادب کے ابتدائی دور سے ہی جانوروں اور پرندوںکی صفات اور افادیت پر نظمیں اور تحریریں ملتی ہیں۔نظیر اکبرآبادی نے متعدد چھوٹے چھوٹے جانوروں پر نظمیں لکھ کر ان کو متعارف کرایاہے جب کہ مکالماتی نظم’’ایک پہاڑ اور گلہری‘‘ میں گلہری کے اوصاف اور نظم’’جگنو‘‘ میں جگنو کی صفات کو جس طرح علامہ اقبالؔ نے نمایاںکیاہے، اس کے بچے ہی نہیں بزرگ بھی شیدائی ہیں۔ نیز اردو شاعری کے افق پر علامہ اقبالؔ کا ’’شاہین‘‘ اس شان و کر و فر کے ساتھ اپنی پرواز کا مظاہرہ کرتا ہے کہ پرندوں میں ’خلائی شہنشاہ‘ قرار دیاجاتاہے۔ نظم’شاہین‘ نے برسوں قارئینِ شاعری کے ہمراہ ناقدین و دانشوروں کو غور و فکر میں غلطاں وپیچاں رکھا۔ اس طرح اس نظم کا ایک ایک شعر لوگوں کے حافظہ کا حصہ بن گیا۔خواجہ حسن نظامی صوفی تھے۔ وہ اپنے انشائیہ ’’جھینگر کا جنازہ‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’اس جھینگر کی داستان ہرگز نہ کہتا، اگر دل سے عہد نہ کیا ہوتا کہ جتنے حقیر و ذلیل مشہور ہیں، ان کو چاند لگاکر چمکاؤں گا۔‘‘
اور ان کا یہ ارادہ صحیح ثابت ہوا کہ یہ انشائیہ شوق و ذوق سے پڑھا جاتاہے اور ہمیشہ سے نصاب کا حصہ رہاہے۔اسی طرح کرشن چندر کا ’’ایک گدھا نیفا میں‘‘پہنچ جاتاہے اور ’’گدھے کی واپسی‘‘ کے بعد کرشن چندر کا شاہکار ظریفانہ (فنتاسی) ناول ’’ایک گدھے کی سرگزشت ‘‘منظرِ عام پر آیا جس کو پڑھ کر نامور حضرات کے بھی منھ سے رال ٹپکنے لگی کہ کاش میری سرگزشت بھی کوئی اس طرح تحریرکرتا۔
صاحبان! غور فرمائیں کہ اس قوی ہیکل جانور جو آج سلی بریٹی بن گئی ہے اور جس کی طرف جنگل میں لاچار وکمزور جانور اپنے تحفظ کے لیے حسرت بھری نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ ان کی مداخلت ؛ جان کی ضمانت بن جاتی ہے، اس کو نظرانداز کیوں کر کیا جاسکتا ہے۔اس جانور کی شانِ بے نیازی اور قناعت کو حماقت پر کیوں محمول کیاجاتاہے! گاؤں میں اکثر دیکھنے کو آیا کہ کسی سنسان چوَر میں کوئی تنہا آدی اپنی فصل کی نگہبانی پر ہے، اس کا سامنا کسی بھینسے سے ہوگیا جو اس کو مارنے کے لیے دوڑایا؛وہ آدمی کسی پیڑ کی آڑ لے لیتا تو بھینسا اغل بغل دیکھے بغیر سامنے سے دو تین ڈھائی پیڑ پر لگاکر لوٹ جاتا۔دوسرے جانوروںکی طرح کھوج کر مارنا؛بھینسا اپنی شان کے خلاف سمجھتاہے۔بھینس تو ایسے بھی منکسر المزاج ہوتی ہے۔ وہ اپنی ذات سے صرف فائدہ ہی فائدہ پہنچانا جانتی ہے۔ دوسرے جانوروںکی طرح کھانے پینے میں نکھورائی (کم خوری) نہیں کرتی۔اس کی ناند میں جو چارہ، دانہ گھاس پانی ڈال دیا گیا،آنکھ تک منھ ڈُباڈُباکر کھالیتی ہے۔ بھرپیٹ کھاکر بے نیازی سے جگالی کرنے لگتی ہے۔کوئی ہرہرپٹ پٹ نہیںکرتی۔ ہاں! وہ اپنے کھونٹے سے کھلتی ہے تو بادشاہوں کی طرح سیر و شکار(چارہ گاہ) میں نکلتی ہے اور سیدھی راہ لیتی ہے۔ وہ سامنے والے کی پرواہ نہیں کرتی کہ کون کچل گیا اس لیے اس کی گزرگاہ میں باادب باملاحظہ ہوشیار رہنا چاہیے۔ اس کی سواری بھی ہاتھی سے آسودہ ہوتی ہے۔اس کی پیٹھ چارپائی کی طرح چوڑی ہوتی ہے، ہاتھی کی طرح پہاڑ کی چوٹی نہیں ہوتی کہ ہودج کے بغیر بیٹھنے والا جھولا کی طرح جھولتا رہے اور ہر لمحہ گرنے کا خوف ستائے۔ پھر ہاتھی راستے میں سنک جائے تو مہاوت کو بھی نہیں بخشتی،پاؤں سے کچل کر مار دیتی ہے۔راہ گیروں کو بھی اپنے سونڈ میں لپیٹ کر دور پھینک دیتی ہے اور مکان دُکان تک کو توڑپھوڑ کر برباد کردیتی ہے۔ اس کے باوجود لوگ شوق سے ہاتھی کی سواری کرتے ہیں اور سواری کرنے پر فخر کرتے ہیں۔ راقم کو اس کا افسوس نہیں کہ اس نے ہاتھی کی سواری نہیں کی کہ بچپن میں جی بھرکر بھینس کی سواری کی ہے۔
٭٭٭
Prof. Abdul Barkat
Deptt. of Urdu, B.R.A.B.U.
Muzaffarpur
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page