کل رات بڑی مشکلوں کے بعدآنکھ لگی ہی تھی کہ کیا دیکھتی ہوں سامنے ایک سفید فرش ہے جس پربڑے نفیس خوبصورت لال غلاف والے گائو تکیے قرینے سے سجے ہوئے ہیں ،ایک تکیہ سے ٹیک لگاکر ایک موصوف تھوڑے ترچھے سے نیم غنودگی کی حالت میں ہیں،سامنے نظر جاتی ہے کہ جہاں پر صراحی ومینا و جام و صبو اور فانوس وگلداں رات کی کہانی کہنے لگتے ہیں اسی بیچ شاید میری آہٹ پاکر وہ موصوف اپنی بڑی بڑی سرخ آنکھیں کھولتے ہیں،ابھی میں حیرت و استعجاب کی کیفیت میں ہی تھی کہ آواز آتی ہے ؎
پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا
یا خدا، زہے نصیب ،واقعی یہ تو غالب ہی ہیں،میںحیرت آمیز مسرت سے لبریز عجیب سی ناقابل بیان کیفیت میں محو کچھ کچھ بڑبڑاتے ہوئے غالب کو دیکھے جاتی تھی کہ جیسے خود کو یقین دلارہی ہوں کہ آنکھو ں نے جو دیکھا کانوں نے جو سنا وہ کوئی خواب نہیں۔اسی شد و مد میں یہ بیش قیمت لمحات ضائع گئے۔ہوش جب آیاجب طاقت دیدار نے رخ یار کی تاب نہ لاتے ہوئے کہا کہ’ دیتے ہیں بادہ ظرف قدح خوار دیکھ کر‘۔ یہ سن کر واقعی اس بات احساس ہواکہ ہم کہاں کے دانا تھے،کس ہنر میں یکتا تھے ۔پھر بھی قدرت اس قدر مہمان ہے تو’ اے دل غنیمت جانیے ‘ورنہ بے صدا ہوجائیگا،ارے نہیں نہیں۔بس اس خیال کے آتے ہی میں نے آئو دیکھا نہ تائو ،بغیر کسی علیک سلیک کے یعنی بلاکسی تمہید اور تاخیر کے عرض نیازعشق کرنے کی جرات کر ڈالی،جبکہ غالب اس بے ادبی کی توقع نہیں کر رہے تھے، حالانکہ انہوں نے ادب والوں کی بے ادبی کے ہزار قصے سن رکھے تھے۔ اس لئے وہ اپنے زمانے والی عزت افزائی کی یعنی لمبے لمبے خطاب و القاب کی امید بھی نہیں کر رہے تھے۔لیکن پھر بھی ،کچھ تو ادب آداب ہوا کرتے ہیں۔وہ یہ سوچ سوچ کر خود سے ہی شرمندہ ہوتے جاتے تھے کہ میں نے اپناسوال داغ دیا اور ساتھ میں اپنی صفائی بھی پیش کی کہ معاف کیجیے گا مرزا صاحب !سوال کرنا بھی تو آپ نے ہی سکھایا ہے۔آپ ہی ہر وقت کہتے رہتے تھے کہ ؎
دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
یا الہی یہ ماجرا کیا ہے
جب کہ تجھ بن نہیںکوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں
غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے
شکن زلف عنبریں کیوں ہے
نگہ چشم سرمہ سا کیا ہے
سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے
وغیرہ وغیرہ۔
آپ کو جب کوئی مضمون نہیں سمجھ آتا تھا توآپ سوال کرکے لوگوں کو بہلا دیتے تھے ۔بہلانا توآپ کی پرانی عادت ہے۔روزے تک کو بہلانے سے آپ باز نہیں آئے۔چچا غالب کی تیوری چڑھتی دیکھ میں نے فورا یہ بات بھی جوڑدی کہ چچا معاف کیجیے گایہ اعتراف تو آپ نے بذات خود بھی کیا ہے۔ایک بات بتائیں آپ نے شاعری کی ہے یا سوالنامہ تیار کیا ہے؟کیا آپ کو نہیں پتہ تھا کہ ابر کیا چیز ہے اور ہوا کیا ہے۔۔۔وغیرہ وغیرہ لیکن جب میں نے دیکھا کہ چچاپر غیض وغضب کا غلبہ ہونے ہی والا ہے تو میں نے فورا بات بدل دی کہ معذرت !میں شاید آپ کو سامنے پاکر کچھ حواس باختہ سی ہوگئی ہوں۔اسی لئے اس کیفیت میں کیا کیا بولے جارہی ہوںآپ نے بھی کہا تھا نا کہ ؎
بک رہا جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
مرزا پہ بھی نیم غنودگی طاری تھی ،سر ہلا کے رہ گئے،میں نے بھی بس یونہی پوچھ لیا کہ اور کیسی گزر رہی ہے چچا؟ وہاں بھی مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے والا معاملہ ہے یا قرض کی پیتے ہیں؟لیکن آپ نے یہ بھی کہاں بتایا کے بے در و دیوار سا ایک گھر آپ کو جنت میں میسر آیا یا دوزخ میں ملا؟یا آپ یہ کہ کر چھوٹ گئے کہ ؎
آتا ہے داغ حسرت دل کا شمار یاد
مجھ سے میرے گنہ کا حساب اے خدا نہ مانگ
یا یہ کہہ کر کچھ تخفیف کرالی ؎
حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے
آخر گناہ گار ہوں کافر نہیں ہوں میں
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر نا حق
آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا
حالانکہ اس سے مکمل بچنے کے لئے ہی تو آپ یہ مشورہ دیتے تھے کہ ؎
کیوں نہ فردوس میں دوزخ کو ملا لیں یارب
سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی
اور جو آپ کہا کر تے تھے کہ:
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
اور داغ کیسے ہیں ان کی حوروں سے بن رہی ہے کہ نہیں؟ بڑے دعوے کئے تھے انہوں نے کہ ؎
جس میں لاکھوں برس کی حوریں ہوں
ایسی جنت کا کیا کرے کوئی
کسی دل جلے نے تو یہ بھی کہہ دیا تھا کہ ؎
ان پری زادوںسے لیں گے خلد میں ہم انتقام
قدرت حق سے یہی حوریں اگر واں ہوگئیں
بہت دیر تک غالب یہ تماشائے اہل کرم دیکھتے اور سنتے رہے، پھراس کے جواب میں اپنی طبیعت کے بر خلاف بڑے تحمل سے نرم لہجہ میں کہنے لگے ؎
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
پھر چپ ،بڑی دیر تک کچھ سوچتے رہے اور دھیرے دھیرے ہاتھ میں پکڑے حقہ سے چھوٹے چھوٹے کش لینے لگے۔میں بھی ان کو یوں خیالات میں محو حقہ کے کش لیتے ہوئے دیکھ رہی تھی ؎
جب وہ جمال دل فروز صورت مہر نیمروز
آپ ہی ہو نظارہ سوز پردے میں منہ چھپائے کیوں
اسی اثنا میںمرزا ایک دم سے چونک کے پوری طرح اٹھ بیٹھے،چہرہ سے ساری غنودگی و خماری کے آثار غائب ہوچکے تھے ، اس کی جگہ غصہ نے لے لی تھی۔میں نے بھی جب یہ دیکھاتو سیدھی ہوکر الرٹ سی بیٹھ گئی جبھی مرزا کی کرخت دار آواز آئی:بی بی!یہ تم وہی ہو ناجو کہتی پھر رہی ہو کہ اٹھارویں صدی کی غزلیہ شاعری انیسویں صدی کی غزل سے بہتر اور رنگا رنگ ہے؟میں نے سہمتے ہوئے کہا:جی!۔۔۔کہنے لگے وہ کیوں بی بی ؟ثابت کرو تو جانیں۔۔تمہاری اس بات سے وہاں شاعروں میں بڑی دشنام طرازیاں شروع ہوگئی ہیں۔اٹھارویں صدی کے سراج،آبرو،ناجی،یکرنگ،بے رنگ، ہم رنگ،حاتم،فغاں،تاباں،آرزو،جان جاناں،یقین، میر،درد،سودا،سوز،میر حسن، مصحفی،جرات ،انشا،رنگین اور یہاں تک کہ نظیر اکبر آبادی ان سب نے مل کر ہم بیچارے چار لوگوں یعنی ذوق،مومن،شاہ نصیر اور مجھ پر وہ ظلم ڈھائے کہ بس میرا وہ کہنا بھی غلط ثابت ہوگیا کہ ؎
’’مجھے کیا برا تھا مرنا گر ایک بار ہوتا۔۔۔‘‘
مجھے چونکہ اتنے انا پرست شخص کا یوں عاجزی و انکسار سے بات کرنا بڑا آبدیدہ کر گیا۔میں نے جھنپتے ہوئے کہا اس کا بیج تو شمیم حنفی صاحب نے بویا تھا۔آپ ان سے وہاں معلوم کرلیجیے گا۔میں نے تو بس ان کی کہی ہوئی بات ہی بیان کی،ویسے چچا برا مت مانیے گا۔یہ بات کچھ اتنی غلط بھی نہیں آپ نے اپنی بات سے خود ثابت کردیا کہ اٹھارویں صدی کے برعکس انیسویں صدی میں چند ہی نام ہیں۔رہا بس ایک آپ کا نام تو وہ ہم یا میر کے ساتھ لیتے ہیںیا اقبال کے ساتھ جبکہ میر آپ سے پہلے کے ہیں اور اقبال بعد کے آپ کے عہد میں کون؟؟؟ ۔چچا نے منہ بناکر بیچ میں ہی میری بات کاٹتے ہوئے کہاکہ یہ باتیں تم اپنے سیمیناروں میں کرنا بی بی!۔میں: چچا اگر اجازت ہو تو ایک سوال اورپوچھ لوں ،آپ نے ابھی سیمینار کا نام لیا تو یاد آگیا کہ سیمیناروں میں اکثر یہ قصہ دہرایا جاتا ہے کہ آپ ایک بار آپ کالج کے باہرسے صرف اس لئے واپس آگئے تھے کہ اس کالج کا پرنسپل آپ کو ریسیوکرنے گیٹ تک نہیں آیا۔مرزا نے یہ سن کر ٹھنڈی آہ بھر ی پھر خود کلامی کے انداز میں کہا کہ تمہیں کیا معلوم ہم تو وہ ہیں کہ الٹے پھر آئے در کعبہ اگروا نہ ہوا۔پھر تھوڑابھڑک کر کہنے لگے بی بی تم نے یہ کیا نیا شوشہ چھوڑا ہے؟میں نے کہا جی ؟کہنے لگے جی ہاں ! وہی کہ قائم چاند پوری غالب کا ہیش رو تھا۔تم نے ایک جگہ ضمنا ذکر کیا۔ پھر اس عنوان سے ایک مضمون لکھا،مقالہ پڑھا،کسی طرح ہم مضمون سو اشعار بھی نکال لئے،اس سے بھی دل نہ بھرا تو دوسرا مضمون لے آئیںکہ قائم چاند پوری :غالب کا تخلیقی پیش رو۔۔ہاں جی !ہم تو سمجھتے تھے کہ :’’ہم سا کوئی پیدا نہ ہوا‘‘۔جی جی!چچا صحیح کہتے ہیں۔جب مجھ سے کوئی بات نہیں بن پا ئی تو میں نے جی جی کرنا شروع کردیا۔۔۔یہ دیکھتے ہوئے مرزا ذرا نرم پڑ گئے ۔کہنے لگے کہ آج کی بچی ہو ،تم نادانی نہیں کروگی تو کون کرے گا۔۔۔لیکن یہ بھی کوئی نادانی سی نادانی ہے کہ۔۔۔اتنے میںجبرائیل علیہ مع سواری تشریف لے آئے۔مرزانے ان سے مسکراتے ہوئے کہا : بڑی دیر کردی مہرباں آتے آتے ۔پھرمیری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگے کہ ہم تو یہ سمجھے تھے کہ’ہوچکیں غالب بلائیں سب تمام‘ لیکن میرا یہ خیال تو غلط ثابت ہوا۔اتنے میں مجھے محمد حسین آزاد کی یاد آگئی۔میں نے موقع کو غنیمت جان کر مرزا سے ان کی خیریت معلوم کی۔۔۔پہلے تو مرزا سمجھ نہ پائے کہ کس کے بارے میں پوچھ رہی ہوں۔پھر میں نے بہت سی نشاندہی کی لیکن مرزا سمجھ نہ پائے۔میں نے کہا کہ یہاں تو ان کے خوب چرچے ہیں۔آب حیات کی وجہ سے وہ ہمیشہ یہاں حیات سے پائے جائیں گے۔مرزا آب حیات سن کر کچھ خجل سے ہو کر کہنے لگے کہ ہاں! ان کو کیونکر کوئی بھول سکتا ہے۔ وہاں بھی سارے شعرا ہروقت ان سے دست و گریباں رہتے ہیں۔میں نے فورا کہا کہ آپ کے تعلق سے بھی توانہوں نے کہاتھا کہ بعض بلند پرواز ایسے اوج پہ جائیں گے کہ جہاں آفتاب تارا ہو جائے گااور بعض ایسے اڑیں گے کہ اڑ ہی جائیں وغیرہ وغیرہ۔یہ سنتے ہی چچا سیخ پاہو کر کہنے لگے کہ فسانہ طرازی تمہارے یہاں انشاپردازی ہے۔میں تو وہاں بھی کسی کو نہیں بخشتا ۔میں نے کہا کہ آپ نے قاضی عبدالودودکی کوئی خبر نہیں دی،حضور آپ کے تعلق سے بھی انہوں نے ایک مضمون ’’غالب کی راست گفتاری‘‘کے عنوان سے لکھاتھا۔بہت معذرت کے ساتھ اس میں آپ کے تقریباانیس غلط بیانات کو انہوں نے خوب چٹخارے لے لے کر بیان کیا ہے۔آپ کی تو خیر! انہوں نے بیچارے شاد کو جھوٹوں کا بادشاہ کہہ دیا۔۔۔مرزا کوبرہم ہوتے دیکھ میں نے بات پھربدل دی،کہا کہ آپ کے تعلق سے تو یہاں سب اچھا اچھا چل رہا ہے۔ابھی آپ پر ایک سیمینار ہوا،اس کا موضوع سن کر آپ خوش ہوجائیں گے۔مرزا نے کہا کہ وہ کیا تھا؟’’غالب اور عالمی انسانی قدریں‘‘میں نے کہا۔اور اس میں ہم نے کھوج کھوج کر وہ وہ قدریں بیان کیں جو آپ کے کبھی وہم و گمان میں بھی نہیں ہوں گی۔جب ساری صفات سب بیان کرچکے تو میرے لئے کچھ رہا نہیں، پھرمیں نے بھی یہ کہہ دیاکہ آپ کے یہاں یعنی آپ کی شاعری اور شخصیت میں تضاد نہیں ہے۔اس تعلق سے میں نے آپ کی بادہ خواری اور جتنے گناہوں کا اعتراف آپ نے خود بھی کیا ہے سب کا خوب وضاحت کے ساتھ بیان کیا۔کہا کہ سارے گناہوں کے مر تکب تھے اور انہوں خود بھی اس پر کبھی پردہ ڈالنے کی کوشش نہیں کی،بلکہ ہر جگہ انہوں نے دھڑلے سے خود ہی اعتراف کیا ہے ؎
کعبہ کس منہ سے جاؤگے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
یہ مسائل تصوف یہ تیرا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو ہ بادہ خوار ہوتا
میں ابھی یہ اشعار سنا ہی رہی تھی کہ مرزا جوتے پہن کر لاٹھی ہاتھ میں لئے بڑی تیزی سے یہ جا وہ جا۔۔جاکر جبرائیل علیہ والی سواری میں سوار۔۔جب جبرائیل علیہ نے یہ ماجرا دیکھا تو موقعہ کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے یا میری بے چاری سی شکل پر ترس کھا کر ،کچھ اپنی جگہ سے آگے آکر میری طرف مخاطب ہوئے اوردھیمی آواز میں کہا کہ مرزا غالب کے تعلق سے جو قیاس آرائیاں اور فسانہ طرازیاں ہورہی ہیں ،اس سے اہل اردو کے گناہوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔خداوند تعالی جو نہایت رحم دل ،مہربان اوربندوں سے محبت کرنے والا ہے اس نے اپنے بندوں کواس گناہ سے بچانے کے لئے مرزا کی یہ تجویز قبول کرلی ہے کہ وہ شب جمعہ بوقت بارہ بجے مقام خواب میں خود تشریف لائیں گے اورغلط فہمیوں کا ازالہ کریں گے۔میں نے ایک نگاہ اس سواری پر ڈالی جس پر غالب سوار ہوچکے تھے اورشاید جبرائیل کے سلسلہ میں کہہ رہے تھے ؎
ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
اس کے بعدمع سواری غائب ہوگئے اور میری توخوشی کی انتہا نہ رہی اور اسی کیفیت میں آنکھ کھل گئی۔فجر کا وقت ہو چلا تھا،میں نے سوچا کہ شکرانہ تو بنتا ہے کہ مفت میں ایک انشائیہ کا موضوع مل گیا۔ویسے بھی غالب نے اردو والوں کا تو بہت بھلا کیا ہے چاہے خود کے تعلق سے ان کا ہمیشہ یہی خیال رہا کہ ’بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا‘۔مجھے اس کے بعد بار بار پتہ نہیں کیوں ایک پروگرام کی یہ بات یاد آرہی ہے کہ ایک صاحب نے کہا کہ جو غالب کے بارے میں جتنا کم جانتا ہے اتنا ہی زیادہ ان کے حوالہ سے بولتا ہے ۔یہ کہنا تھا کہ اس محفل میں کسی کو وقت کی پابندی کے خیال کے لئے ٹوکنا ہ نہیں پڑا۔اس واقعہ میںاور اس لطیفہ میں مجھے کافی حد تک مشابہت محسوس ہوتی ہے کہ ایک پروگرام میں عورتیں پہلے سے پہنچ کر تمام کرسیوں پر قابض تھیںاور کچھ معمر قسم کے لوگ کھڑے تھے۔بار بار کہنے کے باوجود بھی کوئی کرسی چھوڑنے کو تیار نہ تھا۔ناظم صاحب کو کیا سوجھی کہ انہوں نے یہ اعلان کیا کہ چالیس سال سے زیادہ عمر والی خواتین کرسیوں پر بیٹھی رہیںاورباقی اٹھ جائیں۔یہ کہنا تھا کہ ساری کی ساری کرسیاں خالی ہوگئیں۔مجال ہے کہ پھر کسی خاتون نے بیٹھناتو دور کسی کرسی کے سہارے یعنی ٹیک لگا کر کھڑے ہونابھی گوارا نہ کیا۔بلکہ کچھ تو پورے پروگرام میں ایک ٹانگ پر کھڑی رہیں۔ خیر،تویہ تھا چچا غالب سے میری ملاقات کا احوال ،جن کے بارے میں نثار احمد فاروقی نے بڑی دلچسپ بات لکھی ہے:
’’ہمارے نقادوں اور محققوں کا غالب پر کچھ نہ کچھ لکھناایسا ضروری ہوگیاہے جیساکہ مناسک حج میں میدان عرفات کا قیام کہ اس کے بغیر حج ہی نہیں ہوتا۔‘‘
ظاہر ہے کہ میرے لئے بھی ضروری تھا کہ غالب پر کچھ نہ کچھ لکھ کر اپنی غالب شناسی کا ثبوت دوں جبکہ میرا اصل تعارف تو یہ ہے کہ جو غالب کے بارے میں جتنا کم جانتا ہے اتنا ہی زیادہ ان کے حوالہ سے بولتا ہے ۔بولے بھی کیوں نہ ؎
بلائے جاں ہے غالب اس کی ہر بات
عبارت کیا اشارت کیا ادا کیا۔۔۔
٭ ٭ ٭ ٭
مہرفاطمہ
ریسرچ اسکالر،دہلی یونیورسٹی، دہلی
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page