دوسرے تمام لوگوں کی طرح پہلے پہل ہمیں بھی یہی لگتا تھا کہ ہمارے مساٸل دنیا بھر سے جدا ہیں۔ کوئی دوسرا اُنھیں نہیں سمجھ سکتا. جیسے بشیراں اور نذیراں آپس میں دکھ سکھ بانٹنے بیٹھیں. بشیراں اپنی دکھی بیتا سنائے تو نذیراں:
"ہائے بشیراں! تینو کی پتہ میرے نال کی ہویا”
کی طرح ہم بھی یہی کرتے۔ کوٸی اپنا مسٸلہ چھیڑتا تو ہم سوچتے کہ یہ کیا جانے، مساٸل کا کون سا پہاڑ ہم کاٹ رہے ہیں۔ اِس کا مسٸلہ بھی کوٸی مسٸلہ ہے بھلا!
اب ہمارا سب سے بڑا مسٸلہ یہ ہے کہ جوں ہی ہم چاٸے کی پیالی لے کر، کاغذ قلم سمیت اپنی کرسی سنبھالتے تو ساری دنیا کو گز بھر لمبی زبان لگ جاتی۔ تمام اجزاٸے کاٸنات امڈ امڈ کر جیسے ہمیں لکھنے سے روکنے آن پہنچتے۔ کوٸی ہمیں ادھورا مصرع تک تحریر نہ کرنے دیتا۔ مگر ہم خود کو سمجھاتے کہ ”میاں! بڑے بڑے ادیبوں کو ایسے چھوٹے چھوٹے مساٸل درپیش رہتے ہی ہیں۔ یہی انسان کی عظمت کا مینارہ ہوتے ہیں۔“ یوں ہم حیلے بہانوں سے خود کو کام سے چھڑا لیا کرتے۔
کرسی سے تو ہم چاٸے کی چسکیاں لے کر اُٹھ جاتے۔ کوٸی بےمقصد زندگی تھوڑی ہی جی رہے ہیں ہم! آخر کرسی پر بیٹھ کر تسلی اور سکون سے چاٸے پینا بھی تو بےمقصد نہ ہے۔ اب کچھ تحریر تو ہوا نہیں۔ کیوں نہ دوسروں کے فن پارے ملاحظہ کر لیے جاٸیں۔ چنانچہ یہ پانچ انچ کا ڈبہ کھول لیا اور ہو گٸے مگن اِس میں۔
دن ڈھلا، شام ہوٸی اور پھر ہر سو رات چھا گٸی۔ اب حضور ہم چلے سونے۔ ادیب تو ہم بن ہی جاٸیں گے۔ سب کام بھی ہو جاٸیں گے۔ مگر دیکھیے رات کو سونا بہت زیادہ ضروری ہے۔ اگر سوٸیں گے نہیں تو اگلا دن ضاٸع کرنے کے لیے اٹھیں گے کیسے؟
ہم نے چادر تانی اور چلے سونے۔ مگر یہ کیا؟ واٸے قسمت۔ وہ سب خیال جو دنیا کو فانی سمجھ کر پردہ فرما چکے تھے جنے کہاں سے نمو پانے لگے۔ ہماری میٹھی اور پُرسکون نیند میں خلل ڈالنے کو ایک سے ایک خیال اپنی جلوہ افرینیوں سمیت وارد ہونے لگا۔ اب تو نیند تادمِ آخر روٹھ گٸی۔ اب تو کم بخت گولیاں پھانکنے سے نہ آوے گی۔
ہم کسل مندی سے اٹھے۔ برا سا منھ بنایا۔ دل ہی دل میں خود کو کوسا۔ اب تو جی کاغذوں کا پلندہ کھلے ہی کھلے۔ ایک کے بعد ایک خیال۔ ایک فکر سے نمو پاتی دوسری فکر۔ اور واللہ! ہم تو بن گٸے ادیب۔ اب کوٸی ہمیں نظرانداز کرکے دکھاٸے۔ دیکھیے اب لوگوں کو ہم سے ملنے سے پہلے وقت لینا ہوگا۔ ہمیں فارغ مت جانیے۔ ہمارا تو بڑا نام ہوگیا ہے۔ یہ ہماری لازوال تحریریں ہی لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کریں گی۔
آخر جب ہمارے الفاظ ہر سو چراغوں کی طرح روشن ہیں۔ کوٸی ہم سے کسی گستاخانہ حرکت کی جرأت نہ کرسکے گا۔ نہیں! نہیں! ہم کوٸی اپنی تعریف تھوڑی ہی کررہے ہیں۔ یہ تو یوں ہی قلم کی روانی میں کہہ ڈالا۔ وگرنہ اپنی تعریف آپ کرنے کو بھلی بات ہم بھی نہیں کہتے۔
تو بات ہو رہی تھی مساٸل کی۔ دنیا کے مسٸلے کہاں ختم ہوتے ہیں جی۔ ایک گیا نہیں کہ کٸی اور آگٸے۔ بس بندہ جی دار ہونا ضروری ہے۔ آپ اِس بارے میں سوچیے گا ضرور۔ ہم ذرا سوشل میڈیا کا چکر لگا کر آتے ہیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |