ابھی ہم نے گھر میں قدم رکھا ہی تھا کہ کال بیل‘‘ کی آواز نے الٹے پاؤں واپس لوٹنے کے محاورے کو عملی جامہ پہنا دیا۔ حالاں کہ اس وقت کسی کی بھی مداخلت ہمیں گوارا نہ تھی ۔ یہ ہمارے مسجد جانے کا وقت تھا۔ رمضان المبارک کی برکت تھی کہ ہر قسم کے لہو ولعب سے ہم نے قریب قریب تو بہ کر لی تھی ، چنانچہ دن بھر میں دس پندرہ گالیوں کی جگہ دو چار ہی سے کام چلا لیتے ۔ جھوٹ یا تو ’’مصلحت آمیز‘‘ ہوتا کہ اسے ’’ فتنہ انگیز‘‘ راستی سے بہتر کہا گیا ہے یا پیشے سے وفاداری کے طور پر مجبوراً بولنا پڑتا ۔ جھوٹ بولنا ہماری معاشی ، معاشرتی اور منصبی ضرورت اور ذمہ داری ہے اور ہم اپنے فرائض منصبی سے غفلت برتنے کے قائل نہیں ۔ چوں کہ ہمارا ہر جھوٹ ’’مصلحت آمیز‘ اور ہر’’ راستی فتنہ انگیز‘‘ ہوتی ہے، اس لیے ہم اول الذکر کو ترجیح دیتے رہے ہیں ۔ مگر دن بھر میں جھوٹی قسموں کی تعداد اب اتنی کم رہ گئی تھی کہ پورووں والی انگلیوں پر گنی جاسکتی تھی ۔ نماز کے لیے حکم دیا گیا ہے کہ دکھا کر پڑھو، اس لیے جہاں دیکھنے والے زیادہ جمع ہو جاتے ہیں ہم ضرور پڑھتے ۔ روزے کے مسائل میں ہم نے پڑھا تھا کہ اپنا منھ روزے داروں جیسا بناۓ رکھو۔ بالکل ویسا ہی بناۓ رکھتے ۔ ایسا اچھا دین داری کا ماحول تھا کہ حور و غلماں کی مسکراتی ہوئی آنکھیں ہمہ وقت ہمیں تکتی رہتی تھیں ۔ ایسے پاکیزہ ماحول میں اور اس وقت ’’ کال بیل‘‘ کی آواز ، استغفر الله! بہر حال ’’ کال بیل‘‘ کی آواز کا تیر کھا کر ہم جیسے ہی ’’ کمیں گاہ‘ یعنی دروازے پر پہنچے تو وہی ہوا یعنی اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی ۔‘‘
ہمارے سر پر ٹوپی دیکھتے ہی ایک چیخا ۔’’ کیوں میاں بڑی نمازیں چل رہی ہیں۔ خیر تو ہے ! دوسرے نے گرہ لگائی۔ روزے بھی سبھی رکھنے کا ارادہ ہے کیا؟ ہم نے منکسرانہ انداز میں کچھ اس طور سے اقرار کیا جیسے ارتکاب گناہ میں رنگے ہاتھوں پکڑے جانے پر اعتراف جرم کر رہے ہوں۔ عصر کی نماز سے فارغ ہو کر ہم ابھی گھر آۓ تھے اور اپنے ایک بزرگ دوست کی طرح رمضانی مسلمان بننے کی سعی کر رہے تھے ۔ ان بزرگ کا دستور تھا کہ سحری کے وقت نہایت اہتمام کرتے ، قورمہ، میٹھا چاول نمکین چاول ، دودھ ، دہی ، فیرنی ، پھینیاں مٹھائیاں، پھل اور نہ جانے کیا کیا نعمت ہائے مترقبہ اور غیر مترقبہ دسترخوان پر سجاتے ۔سحری میں آنکھ کھلنے کے لیے گھڑی میں الارم بھرنے کے علاوہ مختلف لوگوں کو ہدایتیں کرنا بھی نہ بھولتے ۔ سحری کے وقت پابندی سے اٹھتے ، جم کر سحری کرتے ، مسواک کرتے اور پھر اطمینان سے چادر تان کر سو جاتے ، رہا روزے رکھنے کا معاملہ تو یہ گھر کے دیگر افراد کی ذمے داری تھی ۔ ایک روز ان کی اہلیہ نے پوچھا۔ کیوں جی! میں کہتی ہوں جب آپ روزہ رکھتے ہی نہیں تو اس قدر پابندی سے سحری پر اٹھنے کی بھی کیا مار ہے؟ جھنجھلا کر بولے ۔ واہ بھئی واہ! سحری بھی نہ کروں؟ کیا بالکل ہی کافر ہو جاؤں؟ تو قارئین بے تمکین! ’’بالکل کافر‘‘ ہونے کا ہمارا بھی ارادہ نہ تھا۔ بس ان کے اور ہمارے مذہبی جذبات میں اتنا سا فرق تھا کہ وہ سحری میں چوکنا رہتے اور ہم افطار میں ۔ ہم بہر حال فائدے میں تھے۔ ایک جانب تو اللہ میاں کی ہم سائیگی کے طفیل ، مصارف طعام کی دسترس سے باہر ہو گئے تھے۔ دوسری طرف اجتماعی افطار کے یقینی ثواب سے بہر مند ۔ گویا ” ہمارے دونوں ہی بیٹھے تھے” ۔ افطار میں عجلت کا حکم ہے ۔ افطار سے قبل سائرن کا صبر آزما انتظار نہیں شاق گزرتا تھا۔ یوں بھی ہم انتظار کے بالکل عادی نہ تھے ، وہ اس لیے کہ معشوقان مجاز سے انتظار کرانے کی توقع تھی کہ یہ روایت انھیں کی قائم کردہ ہے ، سو اس ’’ماڈرن ایج‘‘ میں انھوں نے بھی لذت انتظار سے محروم رکھنے کا تہیہ کرلیا ہے، بلکہ آج کے معشوق وقت سے پہلے جاۓ ملاقات پر پہنچ کر عاشق کا انتظار کرنے لگے ہیں ۔
خیر یہ تو عبارت معترضہ یعنی لکھتے لکھتے بہک جانے یا بھٹک جانے کی ایک مثال تھی ، ورنہ ہم کہنا یہ چاہتے تھے کہ رمضان میں ہمارا معمول تھا کہ عصر کی نماز پڑھ کر گھر آتے ، پھر فورا یعنی عصر و مغرب کے درمیان ، ( عصر کے قریب مغرب سے دور ) پڑوس کی مسجد میں جا پہنچتے ۔ خوش بختی سے ہمارا دولت کدہ ( معاف کیجیے دولت کدہ ہم از راہ تکبر نہیں مصلحتاً کہتے ہیں ۔ دراصل ہم کراۓ کے مکان میں رہنے کے شوقین ہیں اور دوسرے کے مکان کو ’’ غریب خانہ‘ کہنے میں تامل ہوتا ہے) ایک ایسے محلے میں واقع ہے جہاں کے مسلمان بڑے خدا ترس ، عبادت گزار ، وسیع القلب اور افطار شناس ہیں، انھیں اعلی ذات کی صفات کی وجہ سے ہمارے پڑوس کی مساجد کے دسترخوان کھانے پینے کے برتنوں کے افراط و تفریط کا ایسا منظر پیش کرتے ہیں کہ یزید و بایزید دونوں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے ۔ اشیائے خوردونوش کی اس فراوانی کا مشاہدہ ہمیں اس ولایتی کیمرے کی بدولت ہوا جو ایک دوست لے کر آئے تھے ۔ افطار و نماز کے موقع پر مسلمانوں کی تصاویر کھینچنے کا شوق انھیں کے بطن سے پیدا ہوا تھا۔ ایک مسجد میں اشیاۓ مذکورہ کی فراوانی نے ہمیں بے چین کر دیا، ورنہ ہم تو اپنے گھر میں چین سے تھے، جیسا کہ ہم نے خود کہا
میں اپنے گھر کے اندر چین سے ہوں
کسی شے کی فراوانی نہیں ہے
اس تقریب سعید کے موقع پر جب ہم پہلی مرتبہ مسجد پہنچے تو عجیب و غریب اور نا قابل یقین سا منظر سامنے تھا۔ اب اسے آپ ہمارا حلفیہ بیان سمجھ لیں تو بھی ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوگا کہ ایک طویل دستر خوان پر کھانے کی اتنی ورائٹیز کو یوں دست و کر یہاں اور کتھم گتھا ہوتے ہوئے ہم نے پہلے بھی نہیں دیکھا تھا ، ہماری ( چہرے سے زیادہ شکم کی ) آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ دسترخوان پر انواع و اقسام کا ایک جم غفیر تھا اور تمام روزے دار حواس خمسہ کو دسترخوان اور سائرن کی جانب مبذول کیے ہوۓ ہمہ تن صبر و استقلال کی سعی لا حاصل میں مصروف تھے ۔معلوم ہوتا تھا کسی بہادر فوج کے دلاور سپاہی نیم پر ٹوٹ پڑنے کے لیے سپہ سالار کے اشارے کے منتظر ہوں ۔
کثرت سامان افطار نے ہمارے جوش ایمانی کو اتنی زور سے للکارا کہ ہم نے بھی اس جہاد میں شریک ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ اس پروگرام کا وہ سین جب سائرن کی آواز پر مقابلہ شروع ہوا، نا قابل بیان ہے، اگر دستر خوان کو ایک نہر تصور کر لیا جائے تو ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ نہر سوئز کی جنگ کا منظر ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔ بعض آزمودہ کار ہاتھوں کی مہارت دیکھ کر ہمارے منہ سے داد ( مع افطاری ) نکل جاتی ۔
مثلاً سامنے سے ذرا بائیں ہٹ کر تازہ انار کے سرخ سرخ رسیلے دانے دسترخوان پر بکھرے پڑے ہیں ۔ ان دانوں سے قدرے فاصلے پر چند انگوروں کا ایک خوشہ بھی نہ جانے کیسے ابھی تک باقی رہ گیا ہے۔ معا کچھ نگاہیں اس پر پڑیں۔ چوطرفہ حملے کے امکانات پیدا ہوۓ کہ اتنے میں یکا یک ایک مردضعیف نے اپنے دائیں ہاتھ کا مال بائیں ہاتھ میں ، بائیں ہاتھ کا منہ میں اور منہ کا سالم مال حلق سے اتارتے ہوۓ مولانا آزاد کے مشہور چے ، موسوم بہ قلندر‘‘ کی یاد تازہ کر دی ، اور اس صفائی اور بے باکی سے جھپٹا مارا کہ چشم زدن میں سارے انگور ان کے قبضہ قدرت میں تھے ۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے "جو بڑھ کر خود اٹھالے ہاتھ میں خوشہ اس کا ہے ۔”
اب ایک اور مشاقی ملاحظہ فرمائے ۔ دائیں جانب سے ایک تیز رفتار گل گلہ لڑھکتا ہوا سامنے سے نکل ہی جانا چاہتا تھا کہ ایک اسمارٹ جوان نے بائیں ہاتھ کے کیچ کو پوزیشن میں لا کر اسے نہایت آسانی سے اس طرح دبوچ لیا جیسے شہباز ،ممولے کو دبوچ لیتا ہوگا ۔ تب ہمیں معلوم ہوا کہ دسترخوان پر اقبال کے کردار اور کرکٹ کے اسٹار بھی موجود ہیں ۔
بہت دنوں کی بات ہے ہم نے ایک انگریزی فلم دیکھی تھی ۔ نام تھا ’’ون ملین ایرس بی سی‘‘ یعنی دس لاکھ سال قبل مسیح ۔ اس فلم میں قبل مسیح‘‘ کی اس گونگی تہذیب کی عکاسی کی گئی تھی جسے تاریخ کی زبان میں پتھر کے زمانے کی تہذیب کہا جا تا ہے ۔ ہماری غیر ناقص رائے میں پتھر کے زمانے والوں کا اپنا شکار کرنے اور کھانے کا انداز ، پیش نظر انداز سے بہت زیادہ مختلف نہ ہوگا ۔ اسی یکسانیت کی بدولت ہمیں اس نظریے یا نقطہ نظر کی معقولیت مشکوک نظر آتی ہے کہ پتھر کے زمانے والے ہمارے زمانے سے کم تہذیب یافتہ تھے ۔ خیر ہمارا موضوع تاریخ نہیں ، اس لیے اس گفتگو کو’جملہ معترضہ‘‘ قسم کی کوئی چیز سمجھ لیجیے مگر یہ نہ بھولیے کہ تاریخ ہمیشہ اپنے آپ کو دہراتی ہے ، اس روز بھی دہرا رہی تھی ۔ اس دن کے بعد سے ہم نے بھی مسجد میں روزہ افطار کر نے کا با قاعدہ آغاز کر دیا اور عہد کرلیا کہ سحری خواہ کہیں بھی ہو یا نہ ہو ، افطار یہیں کر یں گے ۔ ( افتتاحی تقریب میں یعنی پہلے روز داخلہ فیس کے طور پر افطاری کی ایک چھوٹی سی پڑیا ہم بھی اپنے ساتھ لے جانا نہیں بھولے تھے ) ۔ ہم نے ایک دو روز ہی میں عید کی نماز والی کنکھیوں سے مسجد کے افطار والے ماحول کا بڑی گہرائی اور دوراندیشی سے مکمل جائزہ لے لیا تھا۔ اب ہمیں معلوم ہو چکا تھا کہ دسترخوان کے کس حصے میں کون سی شے کس طرح اور کب اتاری جاتی ہے۔ چاند میاں ٹھیکیدار کے گھر کی افطاری ( مراد اشیاۓ افطار ) کس وقت آتی ہے اور حاجی الہی بخش صاحب مدظلہ کیا بھیجتے ہیں ، اور یہ کہ ہمیں کچے گوشت کے کباب حاصل کرنا ہیں تو کہاں بیٹھنا چاہیے، اور فروٹ چاٹ اور دہی بڑا مع میٹھی چٹنی بھیجنے والے صاحب ثروت اصحاب خیر مسجد کے کس دروازے سے لاحق ہیں اور یہ بھی کہ کن کن گھروں کی خواتین کون کون سی ڈشیں بنانے میں یدطولی رکھتی ہیں ۔ ( یدطولی کا معاملہ میں ہے کہ ہمیں اس کے تلفظ پر اعتماد نہیں اس لیے ہم اسے صرف تحریر ہی میں استعمال کرتے ہیں ۔ ) یہ دوسرا جملہ معترضہ تھا ممکن ہے آگے ایک آدھ اور بھی جملہ معترضہ ہومگر ہمیں فی الوقت اتنا یاد ہے کہ ہم آپ کو دسترخوان پر پوزیشن سنبھالنے کے آداب یاگر ، سمجھا رہے تھے اور یہ بتانے والے تھے کہ ہم دستر خوان کے کسی ایک کنارے پر بیٹھ کر افطاری ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر کھسکانے کے فن سے بھی بڑی حد تک واقف ہو چکے تھے ۔ مثلا یہ کہ اگر ہم دستر خوان کے کسی ایسے مقام پر بیٹھنے کے لیے مجبور ہیں ، جہاں خزاں ہی خزاں ہے اور اطراف و جوانب میں بہار آئی ہوئی ہے ، یعنی ہمارے آگے ابلے ہوۓ چنے، تلے ہوۓ پاپڑ، پکوڑیاں ( وغیرہ ) قسم کا پیٹ بھراؤ مال ہے اور مٹھائیاں یا پھلوں کے قبیل کی اشیاۓ خوردنی غیروں کے سامنے اور ہم سے فاصلے پر ہیں تو ہم قدرے فیاضانہ بلند آواز میں یہاں بہت ہے، ادھر سے لیجیے کہتے ہوۓ اپنے پکوڑیاں وغیرہ ادھر ادھر سرکا ئیں گے اور انھیں دھکا دیتے ہوۓ دور تک اس طرح لے جائیں گے کہ ہمارے سامنے نہ رہنے کے برابر رہے پھر گویا منصفانہ انداز میں حساب برابر کرتے ہوۓ جب ہمارا ہاتھ دستر خوان پر گھسٹتا ہوا واپس آۓ گا تو دستر خوان کا نقشہ ہی دوسرا ہوگا۔ دیکھا آپ نے ہاتھ کی ایک ذرا سی صفائی کے نتیجے میں ہم خدا کی کتنی بلا معاوضہ نعمتوں سے محروم رہنے سے بحمد الله صاف بچ گئے ، مگر یاد رہے کہ یہ تمام گر صرف ان دسترخوانوں کے لیے ہیں جن میں کھانے کی ساری اشیا آپس میں گڈمڈ ہو کر اتحاد باہمی کا وہ قابل رشک نمونہ پیش کرتی ہیں کہ محمود ایاز میں امتیاز مشکل ہو جاتا ہے ۔ ڈونگوں، ڈشوں اور پلیٹوں والے دسترخوان کے آداب ان سے مختلف ہیں ، اگر چہ وہاں بھی نفسی نفسی کا یہی عالم ہے۔
وہاں کی صورت حال کو واضح طور پر دو زمروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک زمرے میں رکابی دار ( رکابدارنہیں ) یعنی خود پلیٹ والا اپنی پلیٹ ہاتھ میں لے کر ڈونگے یا ڈش کے پاس بہ نفس نفیس جاتا ہے، اسے ’’ کھڑ اکھانا‘‘ کہنا چاہیے ۔ مگر ’بوفے سسٹم‘‘ کے نام سے مشہور ہے ۔ دوسرے زمرے میں ڈونگے ، ہاتھوں ہاتھ پلیٹ والے کے پاس پہنچتے ہیں اور میاں ذرا وہ ڈونگا بڑھانا‘‘، یہ پلیٹ اٹھائیے ۔’’بھائی ذرا ادھر دیجیے! قسم کی آوازوں کے بیچ تمام ڈونگے ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر تھر کتے اور مسلسل گردش کر تے ہوۓ مستقل ہوا میں معلق رہتے ہیں ، تا آنکہ ان کا مال ختم نہ ہو جاۓ ۔ ڈونگوں کو معلق رکھنے کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ پلیٹ والا ، اپنے دائیں ہاتھ سے پلیٹ اور منہ کے درمیان نوالوں کا تسلسل قائم رکھتا ہے اور بائیں ہاتھ سے اپنا ڈونگا کسی اور کے بائیں ہاتھ میں تھما کر کسی اور کے بائیں ہاتھ کا ڈونگا پھر اپنے بائیں ہاتھ میں تھام لیتا ہے۔ اس عمل میں چوکنا رہنے کی بڑی ضرورت ہے، مبادا، جس مال کی ڈش آپ نے ابھی سپلائی کی ہے، کوئی شخص اس مال کی ڈش آپ کو دوبارہ تھمادے ۔
پہلی قسم یعنی کھڑے کھانے کے آداب الگ ہیں ۔ اس میں پلیٹ والا ، اپنے مقدر کا سارا کھانا ایک ہی وقت میں اپنی پلیٹ میں اتارنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ اگر ممکن ہو تو ہاتھ کی خالی پلیٹ ڈونگے کی جگہ رکھ کر بھرا ہوا ڈونگا اٹھالے، لیکن بوجوہ اس خواہش کی تکمیل نہیں ہو پاتی ، اس لیے ڈونگے کو پلیٹ سے تبدیل کرنے کی بجاۓ ڈونگے کا سارا مال اپنی پلیٹ میں منتقل کر لیا جا تا ہے ۔ اس کارروائی کے دوران باقی پلیٹوں والے صبر کھاتے اور غصہ پیتے ہیں ۔ پھر جب کوئی نئی ڈش آتی ہے تو اجمیر والے خواجہ صاحب کی دیگ کے لٹنے کا منظر پیش کرتی ہے ۔ کھڑے کھانے میں قسمت والے ہی پیٹ بھر کر گھر آتے ہیں ۔ سنا ہے انگریزوں نے شام کی چاۓ کے ساتھ پلیٹ میں ڈرائی فروٹس یعنی سو کھے میوے رکھ کر لان میں ٹہلتے ہوۓ اور دوسرے ٹہلنے والے کے ساتھ باتیں کرتے ہوۓ جس کھانے کو رواج دیا تھا، یار لوگوں نے اس رواج کو مرغ و بریانی کے حوالے کر دیا ۔
ذرا تصور کیجیے کہ ایک بھاری بھرکم پلیٹ میں مرغ کی چار رانیں ، چھ دہی بڑے، ایک پاؤ بریانی مع اسی فیصد بوٹیاں، چار سیخ کباب اور سو گرام سلاد، ایک ہاتھ میں اور دبیز و گداز تندوری روٹی ، دوسرے ہاتھ میں ہو تو بھلا آپ روٹی کس طرح توڑیں گے اور بوٹی کس طرح کھائیں گے ۔ مگر ہم نے دیکھا ہے اور آپ نے بھی دیکھا ہوگا، بلکہ ہم نے تو باہوش و حواس یہ تک دیکھا ہے کہ ایک ماہر فن کار نے جو بائیں ہاتھ میں پلیٹ نما ڈونگا تھامے کھڑا تھا ، اپنے دائیں ہاتھ کی روٹی نہایت اطمینان سے بائیں بغل میں اس طرح داب رکھی تھی جس طرح مرزا رفیع سودا نے تضحیک روز گار‘‘ میں اپنا گھوڑا بغل میں داب لیا تھا۔ اس کھانے کے اور بھی بہت سے ہنر ہیں مگر یہاں ان کے بیان کا موقع نہیں ، یہاں تو ہم دستر خوان پر رکھ کر کھانے والی افطاری کے موضوع پر گفتگو کر رہے تھے ۔ مندرجہ بالا جملے کو تیسرا ’’جملہ معترضہ‘‘ سمجھ لیجیے ۔ وہی جملہ معترضہ جس کی ہم نے قبل از وقت پیشین گوئی کر دی تھی ۔ پچھلی بات وہاں ختم ہوئی تھی کہ ہاتھ کی ایک صفائی کے نتیجے میں ہم خدا کی بہت سی نعمتوں سے محروم رہنے سے بحمد اللہ صاف بچ گئے ۔ اور اب نئی بات یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ اس طرح ہم نے دسترخوان کی بساط کے اور بہت سے گر نسبتاً بہت جلد سیکھ لیے ۔ دو چار کمز ورقسم کے بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ کر خاص چوکیوں پر قبضہ جمانے کا گر آزمانے کے سلسلے میں ایک بار ہماری درگت بنتے بنتے رہ گئی۔ ہوا یوں کہ ایک خاص چوکی پر ، جو وضو کرتے ہوۓ ہماری نظر میں آئی تھی اور جو مسجد کے ’’فیض رساں‘‘ دروازے سے اس قدر ملحق تھی کہ محلے سے آنے والی افطاری کے سارے خوان سب سے پہلے اس کو رسد فراہم کرتے تھے، ایک صاحب اپنے یتیم صورت بچے کو بٹھا کر وضوفر مانے چلے گئے ۔ ہم نے موقع غنیمت جانا اور قصر نماز کی طرح قصر وضو کرتے ہوۓ بعجلت پہنچے اور بچے کو ایک جانب کھسکا کر اس چوکی پر قبضہ جمالیا۔ موصوف جب واپس تشریف لاۓ تو انھوں نے وہاں ہماری نشست کو چیلنج سمجھا ۔ نہایت غیر مہذب انداز میں بولے اے مسٹر ذرا اٹھیے تو ہم لہجے کی جانب ان کی توجہ مبذول کرانے کی غرض سے پہلے ہی تھے کہ ان کے ورزشی جسم پر نظر پڑ گئی اور ہماری شرافت عود کر آئی ( جو ایسے موقعوں پر اکثر عود کر آتی ہے ) ہم نے سوچا میاں چھوڑو بھی لڑائی بھڑائی سے کیا حاصل؟ پھر ہم ایک ایسے ملک کے باشندے ہیں جہاں عدم تشدد پر بے شمار تقریریں ہو چکی ہیں اور آۓ دن ہوتی رہتی ہیں ۔ اس لیے اپنی قوت برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوۓ ہم نے انھیں معاف کر دیا اور اسی وقت سے ’’امن پرائز‘‘ کا انتظار کر رہے ہیں ۔ ہم نے یہ بھی سوچا کہ مسجد میں بات بڑھنے سے مسجد کی بدنامی ہوگی ۔ ہوسکتا ہے لوگ افطاری بھیجنا بھی بند کردیں یا کم از کم افطاری میں تخفیف تو لازما ہو جاۓ گی ۔ مسجد سے باہر ہوتے تو ہم انھیں بتاتے کہ اب ہم اتنے بھی کمزور نہیں کہ اگر وہ دو چار ہاتھ جھاڑ دیں تو ہم دو چار گالیاں بھی نہ دے سکیں ۔ وہ اگر طاقت کے زعم میں ہمارا منہ بند کر دیں گے تو ہم دل ہی دل میں دیں گے ۔ مگر انھیں گالیاں ضرور دیں گے ۔
مجھے اسیر کریں یا مری زباں کو بند کریں
مرے خیال کو بیڑی پہنا نہیں سکتے
بظاہر ہم نے انھیں معاف کر دیا تھا اس لیے ان سے دور جا کر بیٹھ گئے ۔ اس سے آپ ہماری دوراندیشی ، سیر چشمی اور دریادلی کا اندازہ کر سکتے ہیں ۔ اس ایک "Not to be Quoted” واقعے کے علاوہ آپ کو بتائیں کہ دروازے کے ساحل سے دسترخوان کے سمندر تک افطاری کی کشتیاں درآمد کرنے کے وسیلے سے ہم اہل دسترخوان کی نظروں میں خاصی اہمیت اور عزت حاصل کر چکے تھے ۔ دسترخوان کے لوگ ہمارا اسی طرح احترام کرتے جس طرح سائنس کے طلبا اپنے اساتذہ کا اور آرٹس کے اساتذہ اپنے طلبا کا احترام کرتے ہیں ۔ مسجد سے باہر بھی دسترخوان کے غازی نہایت خشوع وخضوع کے ساتھ ہم سے ملاقات کر تے ۔ پھر ہوتے ہوتے ہم اس دستر خوان کے سینئر ممبر ہو گئے اور بزرگوں کے اس قول پر کہ مسجد میں جانے سے دل ہلکا ہو جاتا ہے ، ہمارا یقین پختہ ہو گیا ۔ جس روز سے ہم نے مسجد میں جا کر افطار کرنے کا آغاز کیا تھا ۔ دل کے ساتھ ہوٹل کا بل بھی ہلکا ہو گیا تھا کہ ہوٹل کا کھانا ہی ہمارا معمول تھا۔ اس لیے’’ کال بیل‘‘ بجانے والے دوستوں نے جب ہمیں فلم کی دعوت دی تو ہم چراغ پا ہو گئے ۔ اب ہم سے یہ نہ پوچھیں کہ ’’چراغ پا‘‘ کیسے ہوا جا تا ہے ۔ نہ ہر بات پوچھی جاتی نہ بتائی جاتی ہے ۔ بہر حال آج تو ہم کسی بھی صورت میں اور کسی بھی تفریح میں دوستوں کا ساتھ نہیں دے سکتے تھے اور وہ یوں کہ آج کا دن افطار کے نقطہ نظر سے ’’ مرغ مسلم‘‘ والا دن تھا۔ پچھلے تجربات و مشاہدات نے ہمیں افطار جمعہ کی عظمت کا قائل کر دیا تھا۔ ہمیں معلوم ہو چکا تھا کہ مسلم خواتین خواہ گھر کے مردوں کو نماز کے لیے مسجد نہ بھیج سکیں مگر مسجد میں افطاری بھیجنے کے ثواب سے محروم رہنا ہرگز پسند نہیں کرتیں ۔ پھر آج کے دن کی ایک اور اہمیت بھی تھی ۔ آج کا جمعہ نہ صرف جمعۃ الوداع یعنی رمضان کا آخری جمعہ تھا بلکہ آخری روز بھی تھا گویا’’ آخری افطار‘۔
یہ تو وہ نادر موقع ہوتا ہے جب مساجد کے دسترخوان افطاری کے دریا بن جاتے ہیں اور جاننے والے جانتے ہیں کہ ان میں طغیانی بھی آ جاتی ہے۔ چنانچہ ہم نے صاف لفظوں میں دوستوں سے کہہ دیا کہ ہم رمضان جیسے مبارک اور پاک مہینے میں فلم جیسی نامبارک اور ناپاک چیز کا تصور بھی نہیں کر سکتے ۔ ہم انھیں بھی یہ مشورہ دینا چاہتے تھے کہ اس خیال بد سے باز رہیں۔ معا خیال آیا کہ انھوں نے ہمارا مشورہ مان لیا اور خیال بد سے باز رہ کر اس مسجد میں چلے آۓ تو ہماری لیڈر شپ میں بادھا آجاۓ گا۔ اس لیے ہم نے یہ مشورہ نہیں دیا اور انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیا۔ جب وہ رخصت ہو گئے تو ہم بھی بن ٹھن کر ذرا جلدی مسجد میں جا پہنچے۔
آپ نے دیکھا ہوگا کہ بوڑھے نمازی ، یا نماز کے نئے نئے شوقین جمعہ کی نماز کے لیے اذان سے پہلے مسجد میں پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ بس یہی حال جمعہ کے افطار کا ہے ۔ مسجدوں کے افطار کی تاریخ میں آج کا دن بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اگر آپ نے بھی ہماری طرح کسی مسجد کے دستر خوان پر پابندی کے ساتھ روزے افطار کیے ہوں تو آپ کو آج کے افطار کی اہمیت مسجد کے دستر اخوان کی عظمت اشیائے خورد و نوش کی برکت ، بے روزہ، روزہ داروں کی کثرت اور صاحبان افطار کی نقل و حرکت کا نہ صرف اندازہ ہوگا بلکہ آپ خود بھی معترف ہوں گے ۔ مختصراً آج ہم اپنی دانست میں جلد ہی مسجد پہنچ گئے اور اگلی صف (صف سے مراد دسترخوان کی اگلی صف ہے جی ہاں! اس دستر خوان پر صفیں بھی ہوتی ہیں جن کی ترتیب کچھ یوں ہوتی ہے کہ سب سے آگے والوں کی صف دستر خوان کے’ تقریبا‘‘ اوپر ہوتی ہے اور وہ بھی اس طرح کہ بیٹھنے والوں کے پیروں کے انگو ٹھے اشیائے افطار کو اور ایڑیاں فرش کو چھو رہی ہوں ۔ خاص حالات یعنی ایمرجنسی میں اس سے بھی آگے، اشیائے خوردنی کے تقریبا او پر ۔ بڑی ایمرجنسی میں تقریبا‘‘ کا ری پردہ بھی اسی طرح اتار دیا جاتا ہے جس طرح پردہ نشین لڑکیاں کالج پہنچ کر اپنا نقاب اتار دیتی ہیں ۔
دسترخوان کی دوسری صف ، پہلی صف سے متصل اور اس قدر متصل کہ مسجد کے علاوہ کہیں اور متصل ہو جاۓ تو اگلی صف والے ازالہ حیثیت عرفی‘‘ کا دعوی دائر کر بیٹھیں ۔ آپ حیران ہوں گے کہ دوسری صف والے اپنا رزق کیوں کر حاصل کرتے ہوں گے۔ اس منظر کی منظر کشی آسان ہے بشرطیکہ آپ نے کسی مشہور تماشے کے موقع پر شائقین کو ٹکٹ خریدتے دیکھا ہو نہیں دیکھا تو اب ضرور دیکھ لیجیے ۔ آپ کی نالیج میں حیرت انگیز اضافہ ہوگا۔ دسترخوان کی تیسری اور آخری صف کے لوگ ، کھڑے کھڑے روزہ افطار کرتے ہیں ۔ یہ حضرات اگلی صفوں میں بیٹھے ہوۓ افراد کے سروں پر جھک کر دسترخوان تک پہنچتے ہیں اور مٹھی میں رزق لے کر سیدھے کھڑے ہو جاتے ہیں ، پھر کھڑے ہی کھڑے ہاتھ میں دبا ہوا اپنا رزق پورا کرتے ہیں ۔ ختم ہونے پر بھر جھک جاتے ہیں ۔ اس عمل میں ان کے گھٹنے پچھلی صف والوں کی پشت پر، پیٹ ان کی گردن پر اور سینہ اگلی صف والوں کے سروں پر ہوتا ہے اور ہاتھ دستر خوان پر جھول جاتے ہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جن کے سروں پر یہ حضرات لٹکے ہوتے ہیں انھیں احساس بھی نہیں ہوتا۔ مگر اس وقت بڑی دشواری پیدا ہو جاتی ہے جب وہ گردن سیدھی کر نے کی غرض سے اپنا سر اونچا کر لیتے ہیں، ایسا کرنے سے سروں پر جھکے ہوۓ لوگوں کے پیر بھی زمین پر سے اوپر اٹھ جاتے ہیں اور وہ ہوا میں معلق ہو جاتے ہیں ۔ مگر ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے ، اس لیے کہ یہ شاذ‘‘ خود بھی’’ نادر‘‘ ہے۔
ہاں تو قارئین خوش تمکین ! میں عرض کر رہا تھا کہ کھڑی صف والوں کا تھوڑے تھوڑے وقفے سے جھکنے ، اپنا رزق حاصل کرنے اور سیدھے کھڑے ہو کر رزق پورا کرنے کا یہ عمل اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک دسترخوان موجود ر ہے اور دسترخوان اس وقت تک موجود رہتا ہے… چھوڑیے! خواہ مخواہ بات طویل ہوجاۓ گی اور اختصار میں خلل پڑے گا۔ اجمالا یوں سمجھیے کہ کچھ لوگ مغرب کی اذان شروع ہونے کے بعد دسترخوان چھوڑ تے ہیں اور کچھ نماز شروع ہونے کے بعد، کچھ اذان ختم ہونے کے بعد اور کچھ نماز ختم ہونے کے بعد ( براہ کرم اس جملے میں جہاں جہاں لفظ کچھ آیا ہے ، اس کے آگے بطور احتیاط ایک لفظ تقریبا اور چپکا لیں ورنہ بات حرف بہ حرف کیچ ہو جاۓ گی اور آپ کو معلوم ہے کہ’’راستی فتنہ انگیز‘‘ ہوتو ’’دروغ مصلحت آمیز‘‘ سے بہتر نہیں ۔ )
آئیے ، اب وہیں واپس چلتے ہیں جہاں ہم نے کہا تھا کہ ہم مسجد میں پہنچے۔ یہاں سے ہماری داستاں خوں چکاں کا باب کچھ یوں کھلتا ہے کہ جب ہم مسجد میں پہنچے تو وہ خیال صریحا غلط ثابت ہو گیا جس کے بل پر ہم اگلی صف میں بیٹھنے کا خواب دیکھ رہے تھے ۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں قصے کو ایک ذرا سا بر یک دے کر ہم آپ کو یہ قیمتی معلومات فراہم کر دیں کہ آگے بیٹھنا کتنا بھی تکلیف دہ ہو، اس میں مالی نقصان کا اندیشہ کم سے کم رہتا ہے ( نوٹ : مالی نقصان سے ہماری مراد مال المومنین یعنی دستر خوان کا مال ہے ) صفوں اور چوکیوں کے حالات دیکھ کر ہم ابھی مایوس ہونے کا ارادہ کر ہی رہے تھے کہ ایک شنا سا چہرے نے ڈھارس بندھائی اور ہم پر امید ہو کر بصد اشتیاق ان شناسا تکہ پہنچ گئے ، مگر جب ان تک پہنچے تو وہ تو تا بن چکے تھے۔ ہمیں سخت صدمہ ہوا۔ دوستوں کی بے وفائی اور بے اعتنائی پر سیکڑوں اقوال زریں اور ان سے بھی زیادہ اشعار ذہن میں کلبلانے لگے، مگر ہمیں غالب کے اس شعر میں سکون نصیب ہوا جس میں غالب نے کمال ذہانت کے ساتھ زمانے کے بڑے سے بڑے آزار کو خود آزاری میں مبتلا کر دیا ہے ۔ کہتے ہیں:
زمانہ سخت کم آزار ہے بجان اسد
وگرنہ ہم تو توقع زیادہ رکھتے تھے
ہمیں یاد آیا کہ پچھلے جمعہ کی ایمرجنسی میں ہم نے جن صاحب کو اپنی پشت والی صف میں جگہ دلوائی تھی ، وہ آگے بیٹھے ہیں اور اب آج ان کی باری ہے مگر انھوں نے بھی آنکھیں پھیر لیں ۔ خیر انھیں ہم اگلے رمضان میں دیکھ لیں گے ، فی الحال تو کہیں جگہ تلاش کرنی چاہیے۔ یہ سوچ کر ہم ادھر ادھر نگاہیں دوڑانے لگے مگر کہیں کسی صف میں داخل ہونے کا ایک سوراخ بھی نظر نہیں آیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے یہ سارا کا سارا مجمع جڑواں پیدا ہوا ہے ۔ ہم ابھی تلاش معاش کے’بحر نا پیدا کنار‘‘ میں غوطہ خوری کر رہے تھے کہ سائرن کی آواز نے حواس باختہ کر دیا ۔ تمام’’ غازیان افطار بیک وقت دسترخوان پر ٹوٹ پڑے۔ ہم بھی بے محابہ اور بے تحاشہ لپک کر اسی ہجوم مشتاقاں‘‘ میں گھسنے کی کوشش کرنے لگے ۔ دسترخوان کے نزدیک ایک بزرگ ، بے ضرر معلوم ہوۓ ۔ چنانچہ انھیں کے قریب کھڑے ہو کر دسترخوان پر جھکنے کی جسارت کر بیٹھے ۔ قریب تھا کہ ہمارا ہاتھ دسترخوان کے اشیاۓ خورد و نوش کے ذائقے دارلمس سے لذت یاب ہو جاتا مگر ’’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ‘ ۔ اس فرشتہ صورت بزرگ نے اس زور سے ہمیں دھکا دیا کہ ہم ایک دوسرے بزرگ پر جاپڑے۔
اس کے بعد ہماری دست درازی تو دھری کی دھری رہ گئی مگر وہاں ان دونوں بزرگوں نے زبان درازی شروع کر دی اور ایسی زبان درازی کی کہ خدا کی پناہ ! کچھ باتیں تو چنوں کے ساتھ ’’ نقطے ہٹا کر‘‘ بھی ان کے منہ سے نکل گئیں ۔ ہمارے پیچھے کچھ نو جوان تھے جنھیں ابھی تک جگہ نہیں ملی تھی ۔ انھوں نے اس سچویشن سے اس طرح بھر پور فائدہ اٹھایا کہ بزرگوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے ہمیں تو صف سے باہر کر دیا اور خود پوزیشن سنبھال لی ۔ دونوں بزرگوں نے ان کے کارنامے سے متاثر ہوکر انھیں سر آنکھوں پر بٹھایا اور مال غنیمت سے ان کی بھر پور تواضع کرتے رہے ۔ ادھر ہمارا یہ حال تھا کہ غصہ، ندامت اور افسوس کی شدت نے زہنی توازن کے ساتھ جسمانی توازن بھی بگاڑ دیا تھا۔ یہ حال زار دیکھ کر ہماری ہی جیسے مصیبت کے مارے دو چار اللہ کے بندے، خدا انھیں جنت میں خوب افطاری کھلاۓ ، نزدیک آۓ اور ہمیں دلا سا دینے لگے۔ سچ ہے مصیبت میں مصیبت والا ہی کام آتا ہے ۔ مصیبت والا مصیبت والا بھائی بھائی ۔ ہم سب مل کر پانی کے مٹکوں تک پہنچے اور پانی سے روزہ کھولنے کی سنت ادا کر کے زیادہ ثواب حاصل کیا۔ ادھر وہ سب غازیان دستر خوان دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو کر انواع و اقسام سے بھرے پرے دسترخوان پر طالع آزمائی کر رہے تھے اور ادھر ہم سوچ رہے تھے کہ وہ لوگ نہ معلوم کون کی فلم دیکھنے گئے ہوں گے۔
انتخاب و ٹائپنگ : رضوان الدین فاروقی
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |