راقم السطور نے غالب کا نام اب سے تقریباً 25برس قبل سنا تھا۔ ناچیز اس وقت لفظ ’غالب‘ کے معنی و مفہوم سے بھی نا آشنا تھا چہ جائیکہ غالب کے کلام کا معتقد ہوتا لیکن گذشتہ 25برسوں سے غالب کسی نہ کسی طور پر میرے پیچھے پڑے رہے اور اب جبکہ غالب نہ صرف میرے دل بلکہ دماغ پر بھی غالب رہتے ہیں جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ میں کسی قدر غالب اور اس سے زیادہ ان کے کلام کو سمجھنے لگا ہوں۔ اور اب دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر ان کے کلام میں غور و فکر بھی کرنے لگا ہوں۔ چنانچہ اب حال یہ ہے کہ جہاں کہیں بھی غالب اور ان کے کلام کا تذکرہ ہوتا ہے، میرے کان کھڑے ہوجاتے ہیں اور اپنے محبوب کا نام سن کر دل وفور جذبات سے بے قابو ہونے لگتا ہے۔ لیکن جب ہم باقاعدہ مذاکروں میں شرکت کرتے ہیں تو معزز پروفیسران کی گفتگو، طلبا کی حیرت آمیز جستجو نیز کلام غالب کی نئی نئی اور عجیب و غریب تشریحات سن کر نہ صرف دل افسردہ وپژمردہ ہوجاتا ہے بلکہ پورے24 گھنٹے مجھے چادر تان کر بستر پر لیٹنا پڑتا ہے اور ایسا بھی نہیں کہ میں محوِ آغوش نیند ہوجاتا ہوں بلکہ اشک باری سے چادر بھیگ جاتی ہے۔ اب کئی دنوں سے یہ خیال بار بار دماغ میں آرہا ہے کہ ان پروفیسران کی مدلل گفتگو، طلبا کی مسلسل جستجو نیز شارحین غالب کی غیر معمولی شرحوں اور دورحاضر کے بلند پایہ ناقدین کی ’غالب تنقید ‘ کو صفحۂ قرطاس پر لایا جائے تاکہ اس بحث مباحثے سے بالخصوص طلبائے عزیزہ کو فائدہ پہنچے اور ہم جیسے ادب کا ذوق رکھنے والوں کی آنکھیں کھلیں اور ہماری غلط فہمیاں دور ہوں نیز ہمارا غرور و تکبر ٹوٹے (کیونکہ ہم بھی بزعم خود ماہر غالبیات ہیں) اور ہمیں صحیح راہ مل جائے اور اس راہ پر چل کر سیدھے جنت میں جانے والے بن جائیں۔یہ بات الگ ہے کہ میرے مرشد فرماتے تھے:
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
بہر کیف اب براہ کرم اکیسویں صدی میں تشریف لائیے اور کلام غالب کے شارحین نیز بلند پایہ ناقدین کے خیالات ملاحظہ فرمائیے:
فی زمانہ اردو زبان و ادب میں لاتعداد طلبا تحقیقی کاوشوں میں لگے ہوئے ہیں خدا ان کی کوشش و کاوش کو قبول فرما کر ان کے لئے آگے کی زندگی کی راہ ہموار کردے (کیونکہ فی الحال ان ریسرچ اسکالروں کی زندگی میں بڑی ناہمواری پائی جاتی ہے)چلیے آگے بڑھیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب تو ہم نے اس نوجوان ریسرچ اسکالر کا تذکرہ کرنا ہی چھوڑ دیا جس نے میری معصومیت بھرے ایک سوال کا برجستہ جواب دیا تھا۔ میں آج بھی اس محقق کی زبان دانی نیز لغات پر دسترس سے محو حیرت ہوں سوال یہ تھا کہ جناب ’’غمازی‘‘ کے کیا معنی ہوتے ہیں تو انھوں نے بلا تامل ’’ماضی کا غم ‘‘ بتا یا تھا۔بہر حال یہ تو جملۂ معترضہ کے طور پر آگیا تھا۔ آگے سنیے:
میری ملاقات دہلی میں ایک اردو کے ریسرچ اسکالر سے ہوئی (بعد میں معلوم ہوا کہ دیوان غالب ہمیشہ ان کے ساتھ رہتا ہے) حسن اتفاق دیکھیے کہ ناچیز جس وقت ان کی ملاقات سے مشرف ہوا تو ایک جیبی سائز کا ’دیوان غالب‘ ان کے ہاتھ میں دیکھا مجھے تو بے حد مسرت ہوئی۔ ان کے ہاتھ میں مرشد کا دیوان دیکھ کر مجھے ان سے ایک گونہ محبت ہوگئی۔ کچھ دیر تک تو غالب اور ان کی شخصیت کا ذکر چلا۔ انھوں نے غالب کی شخصیت کے بارے میں عجیب وغریب باتیں بتائیں( جو راقم نے اس سے پہلے کبھی نہیں سنی تھیں انشا اﷲ بہ شرط فرصت اس پر تبصرہ کیا جائے گا)۔ پھر کہنے لگے آج کل لوگ غالب۔غالب تو خوب چلاتے ہیں مگر غالب کو کبھی بھی گہرائی سے نہیں دیکھتے۔ برجستہ میرے منھ سے نکل گیا کہ کتنے فٹ گہرائی سے؟ تو انھوں نے غصہ میں فرمایا تم بھی انہیں لوگوں میں سے معلوم ہوتے ہو۔ خیر میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ جب ان کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا تو میں نے ان سے کہا کہ مجھے غالب کا یہ شعر بہت پسند ہے۔ ’’کون سا‘‘ انھوں نے فوراً سوال داغا۔ میںنے کہا سنیے ؎
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
جناب نے فرمایا یہ شعر تو سب کو مرغوب ہے(مجھے لگا کہ مرغ کی بات کر رہے ہیں اسی لئے لفظ مرغو ب کا استعمال کر رہے ہیں) مگر آج تک کوئی اس کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکا (اس بار میں نے ضبط کیا اور گہرائی کی حد نہیں پوچھی)۔ میں نے کہا کہ اس شعر میں تو ایسی کوئی گہرائی کی بات نہیں ہے۔ میرے استادِ محترم پروفیسر علی احمد فاطمی (الہ آباد یونیورسٹی) نے کلاس میں پڑھاتے وقت عام فہم انداز میں یہی مطلب بتایا تھا کہ ہماری آہ میں اثر پیدا ہونے کے لئے ایک مدّت درکار ہے۔ جب تک ہماری آہ میں اثر پیدا ہوگا ہم اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہونگے۔ محترم استاد نے بہت عمدہ طریقے سے شعر کی تشریح کی تھی۔ وہ اشعار کی قرأت اس طرح کرتے تھے کہ طلبا صرف قرأت سن کر پچاس فیصد شعر کا مطلب سمجھ لیتے تھے۔ بہر حال محقق صاحب کہنے لگے ’’سیدھے سیدھے‘‘ تو سبھی یہی کہہ دیتے ہیں۔ اچھا یہ بتائیے کہ انھوں نے ’زلف کے سر ہونے تک‘ کا کیا مطلب بتایاتھا۔ میں نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑ لیا اور بہت زور سے دبایا پھر بھی مجھے یاد نہیں آیا (کیونکہ اس واقعہ کو قریب 20برس گزر چکے ہیں اب محترم استاد دلّی آئیں گے تو ضرور پوچھوں گا انشا اﷲ۔ خدا ان کوزندہ سلامت رکھے)۔ اب میں نے خود محقق صاحب سے درخواست کی کہ حضرت آپ ہی فرما دیجئے تو انھوں نے چہرۂ مبارک رعب دار بنا کر فرمایا کہ اصل خوبی اس شعر کی ’زلف کا سر ہونا‘ محاورہ کا استعمال ہے کیونکہ اگر یہ محاورہ نکال دیا جائے تو شعر بے معنی ہوجائے گا (اس وقت میں فن عروض پر موصوف کی دسترس سے محو حیرت ہو رہا تھا میں نے اپنی ہنسی بڑی مشکل سے ضبط کی) میں نے سوچا کہ پوچھوںکہ ’زلف کا سر ہونا‘ حشو تو نہیں ہے مگر میںنے اپنی بات کو آگے بڑھانا مناسب نہیں سمجھا۔ انھوں نے فاتحانہ انداز میں مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ’زلف کے سر ہونے تک‘ سے گنجا ہونا مراد ہے۔ بڑی مشکل سے میں نے اپنے آپ کو قابو میں کیا (مجھے ڈر تھا کہ میں کہیں بے ہوش نہ ہو جائوں) اور میں نے اس کی تفصیل پوچھی تو انھوں نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ زلف جو پہلے انتہائی گھنی تھی کیونکہ نوجوانی تھی۔ دھیرے دھیرے اس میں سے ایک ایک بال جھڑنے لگے یہاں تک کہ ایک لمبی مدت میں سارے بال جھڑ گئے اور صرف ’’ سر‘‘ بچ گیا۔ درحقیقت غالب نے مدت دراز کو ’زلف کا سر ہونا ‘‘ باندھا ہے اور ۔۔۔۔۔ ارے ۔۔۔۔۔ ارے۔۔۔۔۔ کیا ہوا آپ کو۔۔۔۔۔جب مجھے ہوش آیا تو میں اپنے بستر پر تھا (کون مجھے ہاسپٹل لے گیا اور کب مجھے ہوش آیا اور کب ہاسپٹل سے ڈسچارج ہوا۔ اس کی تفصیل کا موقع نہیں ہے)۔
اب آئیے صاحب! ملک کی سب سے بڑی یونیورسٹی (بہ اعتبار معیاری تعلیم کے نہ کہ بہ اعتبار رقبہ کے) کے ایک اردو ریسرچ اسکالر سے ہوئی ملاقات کا منظر ملاحظہ فرمائیے۔ ابھی چند روز قبل ہی کی بات ہے کہ ہمارا بھی اس یونیورسٹی میں جانا ہوا۔ ہم خراماں خراماں لائبریری کی طرف بڑھ رہے تھے۔ سرِ راہ ایک نوجوان محقق سے ملاقات ہو گئی۔ انھوں نے خود اپنا تعارف کرایا جس سے اندازہ ہوا کہ موصوف نہ صرف یہ کہ محقق و ناقد ہیں بلکہ اعلیٰ درجے کے شاعر بھی ہیں۔ دورانِ گفتگو انھوں نے سب سے پہلے اس بات پر اظہار افسوس کیا کہ نئی نسل اردو کے کلاسیکی سرمایے سے بالکل نا آشنا ہے۔ ظاہر ہے اس بات میں حد درجہ سچائی ہے۔ مجھے ان کی گفتگو میں بڑی دلچسپی معلوم ہوئی کیونکہ وہ میرے دل کی بات کہہ رہے تھے۔ بات دراصل یہ ہے کہ نئی شاعری، نئی نظم، نئی غزل، جدید، جدیدیت، مابعدجدیدیت وغیرہ اس قسم کی تمام اصلاحات سے مجھے وحشت ہوتی ہے۔ (خدا کے فضل سے نہ میں ناقد ہوں اور نہ ہی محقق) اور آج تک یہ اصلاحات میری دسترس سے باہر ہیں جب پہلی بار محترم مکرم جناب گوپی چند نارنگ صاحب سے میری ملاقات ہوئی تو موصوف نے فرمایا تھا ’’بیٹے تم بہت ذہین ہو، بہت آگے جاؤ گے، ملاقات کے لیے آتے رہنا‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ نیز اب سے کوئی 15برس قبل استادمحترم پروفیسرانور پاشا صاحب کلاس روم میں ’نئی شاعری کی فکری بنیادیں‘کے موضوع پر لکچر دے رہے تھے۔ لکچر کے دوران انھوں نے ایک نئے شاعر کی نظم بھی کراہیت کے ساتھ پڑھی تھی۔ اور پھر مجھے نئی شاعری کے سائے سے بھی نفرت ہوگئی تھی آپ بھی اس نظم کو پڑھیں گے تو میرے ہی جیسا تاثر لیں گے کیونکہ ہر آدمی فطرتاً نیک ہوتا ہے نظم کی چند سطریں دیکھیے:
لیکن جو ٹھیک پوچھو
تو یاروں آسماں پر
کوئی خدا نہیں ہے (نعوذ باﷲ)
ترا خدا جدا ہے
میرا خدا جدا ہے
میرے لیے تو یارو
لڑکی کا خوبصورت
ننگا بدن۔۔۔۔۔۔۔ (لاحول ولاقوۃ)
دیکھئے صاحب بات کہاں پہنچ گئی ۔ میں عرض کر رہا تھا کہ مجھے اس نوجوان محقق کی گفتگو بہت پسند آئی۔ خیر انھوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ غالب ان کے محبوب شاعر ہیں تو میں نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے غالب کی شاعری سے متعلق کچھ ان سے گفتگو کی۔ دورانِ گفتگو وہ مجھے بہت غور سے دیکھ رہے تھے۔ ان کو محسوس ہوا کہ میں دینی فکر رکھتا ہوں چنانچہ انھوں نے غالب کے منتخب اشعارجس میں تصوف، ولایت، ہستی، نیستی، خلد، تجلی، طور، تصورجاناں، عشق، عدم وغیرہ الفاط کا استعمال ہوا تھا اور ان کی سمجھ کے مطابق یہ اشعار غالب کی دینی فکر کے حامل تھے فی الفور سنائے۔ مجھے ان کی قوت حافظہ پر حیرت ہو رہی تھی۔ اس کے بعد وہ کہنے لگے کہ یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ مولانا حالیؔ نہ صرف غالب کے شاگرد تھے بلکہ استاد بھی تھے کیونکہ مسائل تصوف پر میں نے جتنے اشعار آپ کو سنائے ہیں وہ سب کے سب حالی ؔنے لکھ کر اپنے استاد مرزاغالب کی خدمت میں نذرانے کے طور پر پیش کئے تھے بعد میں غالب نے انھیں شرف قبولیت سے نواز کر اپنی غزلوں میں نگینے کی طرح جڑ دیے۔ قارئین بھی موصوف کے پیش کردہ اشعار سماعت فرمائیں:
یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
گرنی تھی ہم پر برقِ تجلی نہ طور پر
دیتے ہیں بادہ ظرف قدح خوار دیکھ کر
آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا
نہ چھوڑی حضرت یوسف نے یاں بھی خانہ آرائی
سفیدی دیدۂ یعقوب کی پھرتی ہے زنداں پر
ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسد
عالم تما حلقۂ دام خیال ہے
اب جفا سے بھی ہیں محروم ہم اﷲ اﷲ
اس قدر دشمنِ اربابِ وفا ہوجانا
حضرت سلطان کو رکھے خالق اکبر سرسبز
شاہ کے باغ میں یہ تازہ نہال اچھا ہے
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے تھے لیکن
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
اس قسم کے اور بھی کئی اشعار انھوں نے سنائے۔میں تو حیران تھا کہ یا اﷲ ان اشعار میں تصوف کے کون سے نکات بیان کئے گئے ہیں۔ اور کون سی دینی فکر ان میں جھلک رہی ہے۔ مجھ میں اب تحمل کی قوت نہ تھی (ویسے بھی میں بہت جلد باز واقع ہوا ہوں) میں نے کہا جناب گستاخی معاف ایک سوال کرنا چاہتا ہوں ’’ضرور ضرور‘‘ انھوں نے کہا۔ میں نے کہا ان اشعار میں مسائل تصوف اور غالب کی دینی فکر کس طور نمایاں ہو رہی ہے کہنے لگے یہی تو بات ہے کہ آپ لوگ اشعار میں غور نہیں کرتے بس واہ وا، سبحان اﷲ کہنا جانتے ہیں۔ بہر حال انھوں نے مجھے سمجھانا شروع کیا۔ پہلے شعر کے متعلق فرمایا کہ اس میں حضرت غالب خود فرماتے ہیں کہ ’’یہ مسائل تصوف۔۔۔۔۔۔ اس لیے اس کی تشریح کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس کے بعد دیکھیے، برقِ تجلی، طور، تقریر، حضرت یوسف، حضرت یعقوب، ہستی، لفظ اﷲ کی تکرار، خلاقِ اکبر، نکلنا خلد سے آدم کا وغیرہ وغیرہ۔
میرے حواس نے کام کرنا بند کردیا۔ ہاتھ پائوں سل ہوگئے۔ زبان بند ہو گئی کچھ غنودگی سی آگئی اور میں زمین پر گر گیا۔ پھر میری آنکھ کھلی تو جناب رخصت ہو چکے تھے (دنیا سے نہیں میرے پاس سے) شاید اپنے ہاسٹل چلے گئے( جیسا کہ انھوں نے بتایا تھا کہ میں روم نمبر 420شتابدی ہاسٹل میں رہتاہوں)۔ خدا سے دعا ہے کہ آئندہ میری ان سے ملاقات نہ ہو۔
اب میں نے وہاں سے کوچ کرنے کا ارادہ کیا کیونکہ شاہین باغ پہنچنا آسان نہیں تھا۔ بڑی سے بڑی مہم سر کرنا آسان مگر شاہین باغ 9نمبر پہنچنا مشکل۔ منیرکا سے ہولی فیملی کا راستہ 40منٹ میں طے ہوتا ہے اور ہولی فیملی سے شاہین باغ 2گھنٹے40منٹ میں (یہی وجہ ہے کہ میں طاق۔ جفت فارمولے کا حامی ہوں)۔ بہرحال ابھی چند قدم آگے بڑھا تھا کہ ایک خوبرو نوجوان نے علیک سلیک کی۔ تفتیش پر معلوم ہوا کہ موصوف اردو کے محقق طالب علم ہیں۔ انہوں نے اپنے تعارف میں بتایا کہ میں JRFہولڈر ہوں۔ میں نے پوچھا کہ یہ کیا ہوتا ہے تو انھوں نے بالتفصیل بتایا اور فرمایا کہ JRFنکالنا سب کے بس کی بات نہیں۔ مجھے ان سے مل کر خوشی ہوئی اور میں ان کی چرب زبانی سے مرعوب بھی ہوگیا۔ بہر حال میں نے اپنی نحیف آواز میں ان سے پوچھا کہ آپ نے غالب کو ضرور پڑھا ہوگا کہنے لگے ’’بے شک بے شک‘‘ میں نے کہا کہ غالب کا کوئی ایسا شعر سنادیجیے جس سے میری طبیعت میں تازگی آجائے فرمایا ضرور:
کاوِ کاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا
انھوں نے کاوِ کاوِ کے بجائے اپنے مخصوص انداز میں کاؤ کاؤ پڑھا (پہلے تو میں نے دو تین درختوں کی ڈال پر دیکھا کہ کسی کوّے کی سریلی آواز تو نہیں کیونکہ افسردگی اور ضعف کی وجہ سے میری آنکھ بند تھی آنکھ کھلی تو دیکھا کہ وہ بھی آنکھ بند کیے ہوئے ترنم میں پڑھ رہے تھے)۔ میں نے کوئی Commentنہیں کیا جب وہ پڑھ چکے تو میں نے کہا کہ اسی غزل کا مجھے بھی ایک شعر یاد ہے کہا ارشاد۔۔۔۔۔ میں نے عرض کیا:
آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا
شعرعرض کرنے کے بعد میں نے غایت ادب سے عرض کیا کہ جناب اس کی تشریح کردیجیے وہ تو فوری طور پر سٹپٹائے پھر ہمت کرکے کہا کہ جناب میری Ph.Dغالب کے خطوط پر ہے اور ظاہر ہے ان کی شاعری میرا موضوع نہیں ہے اور کہتے ہیں کہ Lectureship کے لیے انٹرویو میں مقالے کے موضوع سے متعلق ہی زیادہ تر سوال ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ غالب کو خود ان کے عہد والے نہیں سمجھ پائے ہم تو اکیسویں صدی کے ناقد و محقق ہیں، (یہ نہیں کہا کہ طالب علم ہیں)۔ میں نے اپنے زمانے کی یونیورسٹی کو یاد کیا اور میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ جی میں آیا قسم کھالوں کہ یہاں کبھی قدم نہیں رکھوں گا۔۔۔۔۔ مگر مادرِعلمی۔۔۔۔۔ پھر میں نے ان سے آخری بات پوچھی آپ نے Ph.Dکے مقالے کے لیے غالب کے خطوط کا ہی کیوں انتخاب کیا۔ کیا ’غبار خاطر‘ آپ کی نظر سے نہیں گزرا کہنے لگے کیوں نہیں مگر بات یہ ہے کہ چونکہ غالب میرے پسندیدہ شاعر رہے ہیں اس لئے میں نے ان کے خطوط کا انتخاب کیا۔۔۔۔۔۔ میں نے کہا اچھا خدا حافظ۔ (اس لیے کہ مجھے ان کی بات سے تشفی نہیں ہوئی کیونکہ گفتگو کے آغاز میں بھی انھوں نے فرمایا تھا کہ غالب میرے محبوب شاعر ہیں اور اختتام میں بھی یہی بات فرمارہے ہیں پھر کہتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ ہم نے غالب کے خطوط کا انتخاب کیا اور جب میںنے شعر کی تشریح پوچھی تو جواب ملا کہ غالب کی شاعری میرا موضوع نہیں ہے) پھر کہنے لگے جناب آپ ناراض نہ ہوں۔ دراصل غالب کی نثر نگاری کے سامنے ان کی شاعری پھیکی پھیکی سی ہے، بجھی بجھی سی ہے، دبی دبی سی ہے۔ اور حضرت غالب خود اپنی اردو شاعری سے مطمئن نہیں تھے اور دعا کیا کرتے تھے ؎
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
ان کی دعا قبول ہوئی۔ دوسرے یہ کہ دراصل غالب کو بحیثیت شاعر حالی نے آگے بڑھایا ورنہ غالب ، غالب نہیں ہمیشہ مغلوب رہتے اور میرے نزدیک تو اکیسویں صدی میں کچھ ایسے غیر معمولی شاعر ہیں جن کی شاعری سہل ممتنع کی مثال کہی جا سکتی ہے۔ ان کے بعض اشعار غالب کے اشعار پر فوقیت رکھتے ہیں۔ میں نے وضاحت چاہی کہنے لگے غور فرمائیے گا۔ غالب کے شعر کو دیکھیے:
مجھ سے کہا جو یار نے جاتے ہیں ہوش کس طرح
دیکھ کے میری بے خودی چلنے لگی ہوا کہ یوں
گر ترے دل میں ہو خیال وصل میں شوق کا زوال
موجِ محیط آب میں مارے ہے دست و پا کہ یوں
دیکھئے غالب ’یوں‘ ’یوں‘ کر رہے ہیں۔ ’نہ آپ سمجھے نہ ہم سمجھے‘ اب میں آپ کو اکیسویں صدی کے شاعر کے چند اشعار سناتا ہوں یقیناً آپ سننے سے پہلے شاعر کا مدعا و مطلب سمجھ جائیں گے (سننے سے پہلے؟۔۔۔۔) اور شاعر کے فن کی بلندی کا کچھ اندازہ اہل ذوق ہی لگا سکتے ہیں۔ (ابھی ان کی تقریرجاری تھی میں نے درمیان میں روک کر کہا کہ) اب مجھے بہت دیر ہو رہی ہے جلدی سے آپ مجھے وہ اشعار سنا دیں۔ کہنے لگے سنیے اور داد دیجیے اور شاعر کے درازیٔ عمر کی دعا بھی کیجیے:
کبھی جن کے تصور سے مرے دل کو قرار آیا
وہی جب رو برو آئے تو سو ڈگری بخار آیا
مری سسرال سے جب سالیوں کی ٹیم آ پہنچی
تو آٹا دال سے لے کر نمک تک سب ادھار آیا
دیکھا آپ نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ کسی لغت کی ضرورت اور نہ ہی کسی پروفیسر استاد کی ضرورت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور غالب بھی مغلوب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے کہا بس بس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس بس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے زندہ رہنے دو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ براہ کرم مجھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خدا حافظ۔
٭٭٭
مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |