ــــــــ پروفیسر عبدُ البرکات
شعبۂ اردو
بی۔آر۔اے۔ بہار یونی ورسیٹی، مظفرپور(بہار)
Mob. : 8210281400
نوٹ : توضیحِ انشائیہ: انشائیہ غیر افسانوی نثری ادب کی ایک قسم ہے۔ جس کا مضمون سے قریبی رشتہ ہے اور کہانی سے اس کی آنکھ مچولی رہتی ہے۔مضمون سے اس کی مماثلت کی وجہ سے انشائیہ کو انگریزی میں Light Essay کہا جاتاہے۔تاہم مضمون کے اجزائے ترکیبی یعنی تمہید، نفسِ مضمون اور خاتمہ کی ترتیب؛ انشائیہ میں نہیں ہوتی اور نہ ہی مرکزی خیال کے پیشِ نظر عالمانہ زبان اختیار کیاجاتا ہے۔گویا مضمون یا مقالہ، علم کا ٹھاٹھیں مارتا دریا ہوتا ہے اور انشائیہ کو گنگناتے ہوئے جھرنے سے تشبیہ دی جاسکتی ہے جو کئی وادیوں سے گزرتے ہوئے ندی تک پہنچتا ہے۔اپنی تخلیقیت کی بناپر انشائیہ؛ کہانی کی صنف میں کھڑا نظرآتاہے مگر پلاٹ بندی، کردار نگاری، نقطۂ نظر اور وحدتِ زماں سے آزاد، اپنی ساخت کے اعتبار سے انفرادی شناخت کا حامل ہے۔ انشائیہ عربی زبان کا لفظ انشا سے بنا ہے جس کا معنی ہوتاہے نئی بات پیدا کرنا یا بات سے بات پیدا کرتے چلے جانا۔ اس لیے انشائیہ نگار بات سے بات پیدا کرتا چلاجاتاہے اور باتوں باتوں میں مطلب کی بات وکارآمد باتیں کہہ جاتاہے۔ ان باتوں میں آپ بیتی بھی ہوتی ہے اور جگ بیتی بھی۔انشائیہ کو قلم کار کی گپ بھی کہاجاتاہے مگر یہ گپ سنی سنائی نہیں ہوتی بلکہ اس میں قلم کار کے ذاتی تاثر اور تجربات و مشاہدات کارفرما ہوتے ہیں جس کی وجہ سے انشائیہ کو Personal essayبھی کہا جاتاہے۔انشائیہ کی ساخت ایک ہفت رنگ پھلجھڑی کی مانند ہوتی ہے جس میں انشائیہ نگار کی ذہنی ترنگیں جلوہ گر ہوتی ہیں۔ جس طرح پھلجھڑی کے جلنے سے مختلف رنگوں کی روشنی نکلتی ہے، اسی طرح انشائیہ کے مطالعہ سے انشائیہ نگار کی گوںناگوں کیفیات کی جلوہ نمائی، کا علم ہوتاہے جو دلچسپ بھی ہوتی ہے اور مشاہداتی و تجرباتی مراحل سے گزرنے کی بناپر مفید بھی۔ اس کی سرشت میں ظرافت تو ہوتی ہے لیکن طنز و مزاح نہیں۔ انشائیہ کو قوسِ قزح سے بھی تشبیہ دی جاتی ہے جس طرح سات رنگوں کی آمیزش سے قوس قزح ابھرتاہے جو بارش کے خاتمہ یا ہلکی بارش کے دوران میں سورج کی روشنی کے مخالف سمت میں دکھائی دیتاہے اور اس کا ہر رنگ انفرادی شناخت رکھنے کے باوجود یکجا ہونے سے ہی قوس قزح ابھرتا ہے۔انشائیہ کو گلدستہ سے بھی تشبیہ دی جاتی ہے جس کے مختلف اقسام کے پھول آنکھ کو بھاتے اور دل کو لبھاتے ہیں۔حقیقتاً مختلف واقعات اور چھوٹے چھوٹے لطیفے، جس کو پروفیسر محمد حسنین ’’محاضرات‘‘ کہتے ہیں؛ ان کی آمیزش سے انشائیہ تیار ہوتاہے۔ انشائیہ کے حوالے سے وزیر آغاز کی تحریریں قابلِ قدر ہیں۔مختصر یہ کہ انشائیہ شگفتہ زبان اور رواں دواں بیان میں پیش کردہ ہلکے پھلکے مضمون کو کہتے ہیں جو خواص سے عام قاری تک کو بھائے اور ذہن کو کشاہ کرنے میں معاون ہو۔‘‘ـــــ پروفیسر عبد البرکات
جائیں تو جائیں کہاں
موسمِ گل میں آفیسرز کالونی کا ماحول کافی خوشنما ہوجاتا، اس لیے رحمت اللہ صاحب سیر کے لیے اس جانب نکل آتے۔سبکدوشی کے بعد معمولاتِ زندگی اور عزت و توقیر کس حد تک متاثر ہوتی ہے، اس کا شدید احساس ان کو ہورہاتھا۔ملازمت کے دوران صاحب! صاحب! کی آواز سے ان کے کان مانوس ہوگئے تھے جو نیند کی غنودگی میں بھی گونجتی رہتی، لیکن سبکدوشی کے ساتھ صاحب کا لاحقہ حذف ہوگیا اور وہ رحمت ہی رحمت رہ گئے۔خصوصاً اپنے افرادِ خانہ اور پڑوسیوںکے لیے۔اب پوتے، ناتن، ناتیوں پر تو رحمت کی بارش ہونے لگی تھی۔ ان کے پیار دُلار اور گود میں اُٹھاکر گھمانے کی لت بچوںمیں لگ گئی تھی، جو ان کو دیکھتے ہی ہاتھ اوپر اٹھا لیتے گود اُٹھانے کے لیے۔لیکن کتنی دیر تک گود میں اُٹھائے رہتے؟بچے تو چاہتے کہ گھنٹوں گود میں گھمایا کریں جب کہ محبت کے سامنے ان کی قوت، گھوٹنے ٹیک دیتی اور وہ بچے کو نیچے اتارنے پر مجبور ہوجاتے۔پھر ان کے اندر محبت اور قوت کی جنگ چھڑجاتی جس سے فرار حاصل کرنے کے لیے وہ اس کالونی کی طرف نکل آتے۔یہ جگہ تھی بھی بہت من موہن۔سڑک تو بہت کشادہ نہیں تھی اور نہ ہی اتنی تنگ کہ دوپہیا گاڑیوں کے گزرنے میں کوئی دشواری پیش آئے۔ سڑک کنارے مختلف ہیئت و اقسام کے پیڑوں میں الگ الگ رنگ کے گچھے دار پھولوں سے لدی ڈالیاں ہلکی ہوا پر بھی سرسراتی ہوئی زمین سے سرگوشی کرتیں جو بڑی دلکش اور سہانا منظر پیش کرتیں۔ ان کے علاوہ ہر مکان کے احاطے میں مختلف اقسام کے پھول،اپنی رنگینی اور خوشبو بکھیرتے دل و دماغ کو معطر کرتے۔شاہراہ کی بھیڑبھاڑ والی ٹریفک اور انبوہِ انسانی سے بے نیاز پُرسکون ماحول میں کبھی کوئی لگژری گاڑی آتی، باؤنڈری کے گیٹ کا دروازہ کھلتے گڑاپ کر جاتی تو کُل ملاکر جو آوازیں اُبھرتیں؛اس پُرسکون ماحول کو پُراسرار بناتیں، اور راہ گیر کی توجہ اپنی طرف مبذول کرتیں۔پھر اس کی نظر اس فلیٹ کی بالکنی تک پہنچ جاتی، جہاںمختلف اقسام کے پھولوںکے گملے سلیقے سے سجے ہوتے اور چند کرسیاں مع ایک چھوٹی میز نظرآتی جس پر چائے کے پیالے اور اخبار رکھاہوتا۔ کسی کسی بالکنی کی کرسی پر کوئی نوخیز دوشیزہ یا نوجوان اپنے مستقبل سنوارنے کی فکر لیے کتاب کی ورق گردانی کرتے نظر آتے۔ اس کالونی کی سڑک اس لیے پُرسکون رہتی کہ شہر کی شاہراہ کی طرف سے کوئی پبلک ٹریفک اس جانب نہیں آتی کیوںکہ دوسری طرف نکلنے والی سڑک ’’شاہی کوٹھی‘‘ سے متصل تھی، جہاں سے صرف دو پہیا نکل پاتی یا صبح و شام سیر کرنے والے افراد اور بھولے بھٹکے مسافر جس کو لمبا پھیرے لگاکر شاہی کوٹھی تک پہنچنا پڑتا۔ رحمت اللہ صاحب چہل قدمی کرتے ہوئے گرد ونواح کا معائنہ بھی کرتے جارہے تھے کہ ایک فلیٹ سے بحث و تکرار کی اونچی مگر قدرے مدھم آواز ان کے کانوں سے ٹکرائی اور وہ ٹھٹھک گئے۔
’’نہیں سننے کی کون سی بات ہے!! جب تک ملازمت میں رہا پورا پورا دن صرف سنتا اور سمجھتا ہی رہا ہوں۔ کبھی بحث کے درمیان میںکوئی سوال اُٹھادیا اور زیر بحث فائل پر کچھ نوٹس لکھ دیا۔!!
’’اسی لیے تو کہہ رہی ہوں، بہورانی پر بھی کبھی سوال اُٹھائیے۔یہ پرول کی سبزی تو بالکل پھیکی ہے۔ میں تو کہتی ہوںکہ اس میں سرے سے نمک ہی نہیں ہے اور آپ کھائے جارہے ہیں۔ کچھ کہتے بھی نہیں۔‘‘
’’تو کیا ہوا بھول چوک تو ہوجاتی ہے اور دوسری سبزیوںکے ساتھ ملاکر کھانے سے نمک کی کمی نہیں معلوم ہوتی۔‘‘
’’ارے بھول چوک تو ہم لوگوں سے بھی کھانا بنانے میں کبھی کبھی ہوجایا کرتی تھی لیکن ہم لوگ جی لگاکر کھانا بناتے اور تیل نمک مسالہ، سبزی میں اس انداز سے ڈالتے کہ کھانا کھانے والے انگلیاں چاٹتے رہ جاتے۔‘‘
’’تو پھر بہو کو بھی ان سب چیزوں کا اندازہ ہوجائے گا۔‘‘
’’اندازہ کیا خاک ہوگا۔ کھانا بنانے میں من لگے تب نا۔چولھا پر دیگچی رکھتے ہی موبائل کھل جاتاہے اور کھانا بنانے پر کم اور موبائل پر زیادہ نظر رہتی ہے۔اس طرح کہیں نمک مسالہ کا اندازہ آئے گا۔ نیٹ پر دیکھ دیکھ کر کھانا تیار ہوتا ہے۔ایک بار کتاب پڑھ کر دماغ میں بیٹھالو، پھر کھانا بناؤ لیکن ایسا نہیں ہوتا۔‘‘
’’اچھا اچھا دھیر دھیرے سمجھ بڑھ جائے گی اور سب کا اندازہ ہوجائے گا۔ ایک دن نمک اندازے سے کم ہواہے، اس سے ذائقہ میں تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘
’’فرق کیسے نہیں پڑتا؟ بہو کو بھی معلوم ہے کہ آپ کا سوگر لیول بڑھا ہواہے اور بیڈ ٹی میں چینی ڈال دی گئی تھی۔اس سے بھی فرق نہیں پڑتا۔ دوسری چائے بنوانے کے بجائے آپ چینی والی چائے پی گئے۔ کچھ بولے نہیں۔‘‘
اور پھر اس فلیٹ میں سناٹا چھا گیا اور رحمت اللہ صاحب کے قدم آگے بڑھ گئے۔
بڑے شہروں کا معاملہ بھی سمندرکی طرح ہوتاہے جس میں چھوٹی بڑی تمام ندیوں، جھرنوں اور دریا کے پانی آکر گرتے ہیں جس سے سمندر کی شان اور کرّ و فر میں اضافہ ہوتاہے۔اتھاہ پانی ہونے اور جغرافیائی اثرات کے سبب سمندر میں جوار بھاٹا آتے رہتے ہیں، جوار کے وقت پانی تاڑوں بلندیوں تک اچھلتے، گرجتے ساحل کی طرف دوڑتاہے اور اپنے خزانے اچھال کر لوٹ جاتاہے۔ پھر سمندر کی پیٹی میں پہنچ جاتاہے جو بھاٹا سے موسوم ہے۔سمندر کے ساحل پر سیر سپاٹا کرنے والے سیاح اور گوہر شناس افراد ، سمندر کے لٹائے خزانے سے قیمتی اشیا چن لیتے ہیں جو معاشرتی زندگی کا معیار بلند کرنے میں معاون ہوتے ہیں جس سے تحقیق کے نئے نئے دروازے بھی کھلتے ہیں۔اسی طرح چھوٹے چھوٹے شہروں اور قصبوں سے مختلف نوعیت کے ہنرمند افراد ، ملازمت پیشہ، مختلف النوع اشیا کے تاجر،مزدور اور حاجت مند صبح ہوتے ہی شہر کی طرف رُخ کرتے ہیں۔ ان کے آمدِ تسلسل سے انبوہِ انسانی کے ساتھ شام تک ٹریفک کا ورود بھی بڑھ جاتاہے جس کو جوار سے تشبیہ دینا غیرمناسب معلوم نہیں ہوتا۔ان کی ہنرمندیوں، کارگزاریوں اور لیاقتوں کے مظاہرے سے شہر کی آن بان اور شان میں اضافہ ہوتاہے۔ پھر آدھی شب آتے آتے گرد ونواح سے آنے والی آبادی بیش قیمت خزانہ لٹاکر لوٹ جاتی ہے۔گویا شہر میں بھاٹا آجاتاہے۔لیکن آفیسرز کالونی میں کوئی جوار بھاٹا نہیں آتا۔ یہاںکی زندگی جھرنے کی طرح گنگناتی ہوئی ہمہ دم رواں دواں رہتی ہے۔ آفیسرز کالونی کی ایک فلیٹ سے نہایت کڑک دار آواز کان سے ٹکراتے ہی رحمت اللہ صاحب ٹھہر گئے لیکن کسی فلیٹ کی طرف کان لگاکر کھڑا ہوجانا شریفوںکا شیوہ نہیںہوتا۔تاہم اس پُرسکون و پُراسرار ماحول میں کڑک دار آواز پر ٹھہرجانا فطری بات تھی۔لہٰذا وہ پھولوں سے لدی ایک ڈالی ہاتھ سے پکڑکر اس طرح کھڑے ہوگئے جیسے وہ پھولوں پر کوئی ریسرچ کررہے ہوں جب کہ ان کے کان آواز کی طرف لگے ہوئے تھے۔
’’نو بج گئے لیکن گھر میں ابھی تک سناٹا پسرا ہوا ہے۔ کوئی اٹھتا کیوں نہیں!!!‘‘
’’آج چھٹی کا دن ہے۔ اسکول کالج بند ہیں۔سب بستر سے اب باہر آئیںگے۔‘‘
وقت کی پابندی؛ روز مرہ میں آتی ہے! آپ نے ان کو سمجھایا نہیں!!
"Early to bed and early to rise makes a man healthy, wealthy and wise.” زندگی سنوارنے والا مشہور مقولہ ہے۔
’’ہفتہ میں ایک دن بھی تو کوئی اپنی مرضی سے وقت گزارے! نہیں تو اصول و ضابطے کے کھونٹے سے بندھ کر کولہو کا بیل بن جاؤ۔‘‘
’’بالکل ایسا نہیں ہے وقت کی پابندی کولہو کا بیل نہیں بناتا اور نہ ہی وقت کا پابند،ریموٹ کی طرح حکم کا پابند ہوتاہے۔ اس سے تو جینے کا سلیقہ آتاہے اور زندگی پُرمسرت بنتی ہے۔‘‘
’’آپ کے حکم کی تعمیل ہوگی۔ اب بچوں کو پابندیٔ وقت کا سبق پڑھاؤں گی۔‘‘
’’بالکل آپ کو پڑھانا چاہیے۔آپ کی اسکولنگ تو بڑے Convent میں ہوئی ہے جہاں ڈسپلن اور وقت کی پابندی پر سب سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے اور دینی تعلیم بھی مسلمان کو وقت کا پابند بناتاہے۔‘‘
قدرے اونچی آواز میں ’’اچھا ! اچھا! اچھا۔ اب میں اس کا خیال رکھوںگی اور چھٹی کے دن، گھر کی صفائی کے نام کردوں گی۔‘‘
شام ہونے کو چلی تھی اور رحمت اللہ صاحب آفیسرز کالونی کے چھوٹے پاک کی طرف بڑھ گئے جو بچوںکے کھیلنے اور بزرگوںکے ٹہلنے کے لیے سجائے گئے تھے۔ اس پارک میں جہاں تہاں وقت گزاری کے لیے بینچ بھی بنائے گئے تھے۔لہٰذا رحمت اللہ صاحب ایک بینچ کی طرف لپکے جس کے ایک سرے پر سمٹے سمٹائے ایک شخص بیٹھاہواتھا جس کی عمر پینتالیس پچاس کے لپیٹے میں رہی ہوگی۔ بھولابھالا مگر مضبوط قد کاٹھی کا ۔اپنے چہرے مہرے اور ہاؤ بھاؤ سے کوئی جسمانی شغل والا کارندہ معلوم ہورہاتھا جس کی شبیہ سے قیاس لگانا آسان تھا کہ وہ اپنے دماغ سے زیادہ اپنی قوت، شرافت اور ایمانداری پر بھروسہ کرتا ہے جو بغیر تامل حکم بجالانے پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کو بینچ پر بیٹھتے دیکھ کر کسمسایا لیکن رحمت اللہ صاحب ایک کنارے بیٹھ گئے تاکہ وہ نفسیاتی دباؤ میں آنے کی بجائے آزادانہ اظہارِ خیال کرسکے۔وہ بار بار ان کی طرف مڑمڑ کر دیکھ رہاتھا جیسے کچھ کہنا چاہتا ہو۔ لہٰذا ا س کی کیفیات کا اندازہ کرتے ہوئے انھوںنے اس کی طرف ایک سوال اچھال دیا:
’’شام ڈھلنے لگی اور آپ اس طرح یہاں اُداس بیٹھے ہیں۔ کہاں جانا ہے؟‘‘
’’کہیں دور نہیں بس پیچھے۔‘‘’’شاہی کوٹھی‘‘ میں۔کوٹھی دار صاحب کا خادم ہوں۔‘‘
اس نے ان کے سوال کا فوراً جواب دیا۔جیسے لگتا تھا کہ وہ بھرا ہوا بیٹھا ہو کہ کوئی کچھ پوچھے اور اس کے دل کا غبار نکلے۔۔۔
’’آپ کے کوٹھی دار صاحب کا نام کیاہے؟‘‘
’’یہ لیجیے۔ان کا نام کون نہیں جانتا۔یہ آفیسرز کالونی کا پورا علاقہ صاحب ہی کا ہے۔ ان کو رحیم صاحب سب بولتے ہیں۔انھوں نے اس علاقہ کو گلزار بنانے کے لیے صرف بڑے لوگوں سے ہی زمین بیچا ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں نا کتنا اچھالگتاہے۔‘‘
’’وہ کوٹھی میں اکیلے رہتے ہیں۔ان کی کوئی اولاد نہیں ہے!!۔‘‘
’’ان کے لڑکے بالے ہیں۔ سب بدیس رہتے ہیں۔ مالکن بھی اب اس دنیا میں نہیں رہیں، بہت نیک تھیں۔ ہم کو بھی انھوں نے اپنے بچوں کی طرح دیکھا ہے۔میں نے کبھی اپنے باپ کو نہیں دیکھا۔ ماں کوٹھی میں کام کیا کرتی تھی۔ جب مرنے لگی تو نصیحت کرگئی کہ مالک کی خدمت میں لگے رہنا۔‘‘
’’رحیم صاحب کے بچے یہاں آتے ہیں؟‘‘
’’بابو لوگ آتے ہیں۔سال میں ایک بار ضرور آتے ہیں۔ مالکن کو گزرنے کے بعد صاحب کو بھی اپنے ساتھ لے جانا چاہتے ہیں لیکن وہ نہیں جاتے ہیں کوٹھی چھوڑکر۔ان کی خدمت کے لیے ہم جو ہیں۔ہر وقت ان کا خیال رکھتے ہیں۔
’’تو پھر ابھی یہاں آپ بیٹھے ہیں ان کو چھوڑکر!!‘‘
’’آج صاحب غصہ ہوکر ہم کو بہت ڈانٹے ہیں تو ہم بھی روٹھ کر چلے آئے ہیں۔کہاں جائیں گے! مالک کے سوا اس دنیا میں میرا کون ہے، جہاں جائیں گے۔صاحب کو چھوڑکر ہم کہیں بھی چین کی زندگی نہیں جی سکتے۔ کچھ دیر میں گھر لوٹ جائیں گے۔ جب تک صاحب کا غصہ بھی ختم ہوجائے گا اوروہ ہم کو دیکھ کر خوش ہوجائیں گے۔‘‘
’’جب صاحب آپ پر اتنا اعتبار کرتے ہیں تو غصہ کیوں ہوئے؟ اور تم بھی ان کو تنہا چھوڑکر چلے آئے۔‘‘
’’وہ کوٹھی میں تنہا نہیں ہیں۔بہت سے کارندے اور مامائیں ہیں لیکن سب ان کے مال و اسباب پر نظر گڑاتے ہیں۔ صاحب کو ہم پر بہت بھروسہ ہے اس لیے کوٹھی کے راز بھی ہم سے بتاتے ہیں اور ہم سایہ کی طرح ان کے ساتھ لگے رہتے ہیں۔‘‘
پھر اس نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور رازداری کا وعدہ نبھانے کی شرط پر بتایا کہ
’’صاحب کی بیٹھک میں بڑے بڑے بابولوگ بیٹھتے ہیں اس لیے تاکید کیاگیا تھا ، کوئی بات کہنا ہو تو کان کے پاس منھ کرکے آہستہ سے بولاجائے۔‘‘
ایک دن باورچی خانہ میں آگ لگ گئی۔ آگ بھیانک نہیں تھی۔ ان کے کان کے پاس جاکر میں نے آہستہ سے بتایا کہ باورچی خانہ میں آگ لگ گئی ہے۔ وہ بھڑک گئے۔
’’ابے آگ لگ گئی ہے تو زور زور سے چلاتے ہوئے نہ آنا چاہیے تاکہ سب لوگ سن لیں اور جاکر آگ بجھادیں۔ اس کے بعد ہر بات اونچی آواز سے ان تک پہنچانے لگا۔‘‘
پھر وہ تھوڑی دیر کے بعد خاموش ہوگیا اور سرگوشی کرتے ہوئے:
’’مالک کو ماڑ پینے کا چسکا ہے۔بڑے شوق سے گرما گرم ماڑ میں تھوڑا بھات ڈال کر پیتے ہیں۔ آج دوپہر بیٹھک میں بہت لوگ جمع تھے۔ باورچی کہنے لگا کہ ماڑ ٹھنڈا ہورہاہے، مالک سے بول دو جلدی پی لیں۔ سو میں نے بیٹھک کے دروازے سے آواز لگادی؛ ماڑ پی لیں ٹھنڈا ہورہاہے۔یہ سن کر صاحب کا منھ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ ان کے کہنے کے مطابق میں نے اونچی آواز سے ان تک خبر پہنچائی۔ میراکیا قصور۔ صاحب غصہ سے ڈانٹتے ہوئے کانپنے لگے۔ ان کی حالت دیکھ کر میں ڈر گیا اور کوٹھی سے بھاگ نکلا۔پتہ نہیں صاحب کس حال میں ہیں، اب ہم کو چلنا چاہیے۔‘‘
اس کے افسردہ چہرے پر اپنے صاحب سے بے پناہ محبت اور وفاداری کی جھلک نمایاں تھی۔ رحمت اللہ صاحب سوچنے لگے کہ شرافت، ایمانداری، دیانت داری اور وفاداری جیسے اوصاف موجود ہوں تاہم عقل و شعور کا فقدان ہو تو آدمی، سمجھ نہیں پاتاکہ ’’کب! کہاں اور کیا!!! ‘‘کہنا یا کرنا چاہیے۔فارسی کا ایک مشہور مقولہ ہے’’یک من علم دہ من عقل می باید‘‘تو کیا عقل و شعور وہبی ہے جو آدمی اپنے بطنِ ماں سے لے کر آتاہے۔ صد فی صد ایسا بھی نہیں ہے۔ دراصل سماجی زندگی سے ہم آہنگ ہونے سے عقل کو جِلا ملتی ہے، شعور بیداہوتاہے اور معاملہ فہمی پیدا ہوتی ہے۔اگر چُھری ہو تو اس پر شان چڑھانے سے کارآمدہوتی ہے۔معاشرہ؛ ضابطۂ قدرت اور تقاضائے فطرت کا مرہون ہوتاہے۔ پھر ایک معاشرتی نظام پیدا ہوتاہے جس کی تنظیمی جماعت سے مختلف النوع کی فلاح و بہبود کے کام انجام پاتے ہیں اور انسان کی معاشرتی زندگی پروان چڑھتی ہے۔ ورنہ جنگل میں بھی جانور جھنڈ کے جھنڈ ساتھ رہتے ہیں جن کی سمجھ اپنی زیست اور اپنی نسل کے تحفظ کی جد وجہد تک رہتی ہے۔ حقیقتاً ایک مکمل انسانی زندگی کی تکمیل میں معاشرتی نظام کا کلیدی حصہ ہوتا ہے۔اسی لیے کہاگیاہے:
Man is a social animal.
٭٭٭
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page