غسان کنفانی کی کتاب "فلسطینی مزاحمتی ادب 1948-1968”- زین العابدین ہاشمی
غسان کنفانی کی کتاب "فلسطینی مزاحمتی ادب 1948-1968” فلسطینی ادب کی تاریخ اور اس کی مزاحمتی حیثیت کا ایک جامع جائزہ پیش کرتی ہے۔ اس میں فلسطینی ادب کے ارتقا کو اس کے سماجی، ثقافتی، اور سیاسی پس منظر کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ کنفانی نے اس ادب کی اہمیت کو نہ صرف ایک ادبی روایت کے طور پر بلکہ ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر اجاگر کیا ہے۔ ان کے مطابق، فلسطینی ادب ایک جدوجہد ہے جو قابض طاقتوں کے خلاف مزاحمت کی علامت ہے، اور اس نے فلسطینی عوام کے درد اور خواہشات کو عالمی سطح پر اجاگر کیا۔
کتاب کا مرکزی موضوع
غسان کنفانی نے اس کتاب میں فلسطینی ادب کو اس کی مزاحمتی حیثیت میں نمایاں کیا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فلسطینی ادب نہ صرف تخلیقی اظہار کا ذریعہ ہے بلکہ یہ فلسطینی قوم کی جلاوطنی، ثقافتی شناخت، اور آزادی کی جدوجہد کا ایک لازمی حصہ بن چکا ہے۔ 1948 کے بعد فلسطینی ادب نے خود کو ایک مضبوط سیاسی اور سماجی وسیلے کے طور پر پیش کیا، جس نے فلسطینی عوام کے درد کو بیان کیا اور ان کی جلاوطنی کے بعد کے تجربات کو عالمی سطح پر روشنی میں لایا۔
کنفانی لکھتے ہیں:
"ادب وہ طاقت ہے جو عوام کی خاموش چیخوں کو دنیا تک پہنچا دیتی ہے۔”
یہ اقتباس اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ادب صرف ایک تخلیقی عمل نہیں بلکہ ایک ایسا ذریعہ ہے جس کے ذریعے ظلم اور جبر کے شکار عوام اپنی کہانیاں دنیا کے سامنے لا سکتے ہیں۔
فلسطینی ادب کا ارتقا
کنفانی نے فلسطینی ادب کے تین اہم ادوار کا ذکر کیا ہے:
- نکبہ سے پہلے کا دور:
یہ وہ دور تھا جب فلسطینی ادب زیادہ تر سماجی اور ثقافتی موضوعات پر مرکوز تھا۔ ادب کی اس ابتدائی شکل میں فلسطینی عوام کے مسائل کو اجاگر نہیں کیا گیا تھا، بلکہ یہ روایتی انداز میں تھا۔
2 نکبہ کے بعد کا دور:
1948 کی نکبہ کے بعد فلسطینی ادب میں ایک نیا موڑ آیا۔ اس دوران فلسطینی شاعری، کہانیاں، اور افسانے مزاحمت اور جلاوطنی کے موضوعات پر مرکوز ہوئے۔ کنفانی کے مطابق، نکبہ کے بعد فلسطینی ادب نے اپنی شناخت کو محفوظ رکھنے کے لیے ایک طاقتور ذریعہ بننے کی کوشش کی۔ اس دور کے ادب میں فلسطینی عوام کے درد، تکالیف، اور ان کی سرزمین سے جلاوطنی کی کہانیاں شامل تھیں۔
- مزاحمتی ادب کا ارتقا:
1967 کی جنگ کے بعد فلسطینی ادب نے اپنے مقاصد کو مزید واضح کیا اور اس نے عالمی سطح پر فلسطینی مزاحمت کی آواز بننے کی کوشش کی۔ یہ ادب نہ صرف ظلم کے خلاف مزاحمت کا ذریعہ بن چکا تھا بلکہ آزادی اور قومی وقار کی جدوجہد کا بھی ترجمان بن چکا تھا۔ غسان کنفانی نے اس دور کے ادب کو ایک فکری تحریک کے طور پر دیکھا جو فلسطینی قوم کی آزادی کے لیے جدوجہد کی عکاسی کرتا تھا۔
شعرا و ادباء کا کردار
کنفانی نے اس کتاب میں فلسطینی ادب کے اہم شعرا اور ادیبوں کا ذکر کیا ہے، جنہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے فلسطینی عوام کے جذبات اور خواہشات کو اجاگر کیا۔ ان شعرا میں محمود درویش، سمیح القاسم، اور فدویٰ طوقان جیسے مشہور نام شامل ہیں۔ ان کی شاعری میں فلسطینی عوام کے درد اور مزاحمت کی کہانیاں بیان کی گئی ہیں۔
غسان کنفانی کا خیال تھا کہ ادب مزاحمت کا ایک اہم جزو بن چکا ہے، اور یہ صرف فرد کی آزادی کے لیے نہیں بلکہ ایک پوری قوم کی آزادی کے لیے لڑ رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا:
"ادب وہ شمع ہے جو تاریکی میں روشنی پیدا کرتا ہے، اور یہ روشنی فلسطینی قوم کے مستقبل کی امید بن چکی ہے۔”
فلسطینی ادب کی سیاسی اہمیت
غسان کنفانی نے فلسطینی ادب کی سیاسی اہمیت پر زور دیا۔ ان کے مطابق، فلسطینی ادب نہ صرف ان کی تاریخ کا حصہ ہے بلکہ یہ فلسطینی عوام کی آزادی کی جدوجہد کا بھی ایک اہم وسیلہ ہے۔ ادب کے ذریعے فلسطینی عوام نے نہ صرف اپنی آواز بلند کی بلکہ دنیا بھر میں اپنی شناخت کا دفاع کیا۔ کنفانی کا ماننا تھا کہ ادب ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں فلسطینی عوام اپنے مصائب اور امیدوں کا اظہار کرتے ہیں، اور یہ ایک قومی تحریک کا حصہ بن چکا ہے۔
ادب اور عالمی سطح پر اس کا اثر
غسان کنفانی نے اس کتاب میں فلسطینی ادب کے عالمی سطح پر اثرات کو بھی زیر بحث لایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی ادب نے عالمی ادبی منظر پر اپنی شناخت بنائی اور دنیا بھر کے قارئین کو فلسطینی قوم کی حقیقت سے آگاہ کیا۔ فلسطینی ادب کے ادیبوں نے اپنی تحریروں میں فلسطینی عوام کی مشکلات، جلاوطنی کے تجربات، اور ان کی مزاحمت کو پیش کیا، جس نے عالمی سطح پر فلسطینی قوم کی آواز بنائی۔
غسان کنفانی کی یہ کتاب فلسطینی ادب کی مزاحمتی حیثیت اور اس کے عالمی اثرات کو واضح کرتی ہے۔ یہ ادب فلسطینی قوم کے ثقافتی، سیاسی، اور سماجی مسائل کو اجاگر کرنے کا ایک مؤثر ذریعہ ہے، جو نہ صرف فلسطینیوں کی تاریخ اور شناخت کی عکاسی کرتا ہے بلکہ دنیا بھر میں ان کے حقوق کی آواز بھی بن چکا ہے۔ کنفانی نے اس ادب کو ایک طاقتور تحریک کے طور پر پیش کیا جو فلسطینی عوام کے عزم و استقلال کو ثابت کرتی ہے۔
اس کتاب کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ فلسطینی ادب نہ صرف ایک تخلیقی سرگرمی ہے، بلکہ یہ ایک سیاسی اور سماجی تحریک ہے جو فلسطینی قوم کی آزادی، شناخت، اور مزاحمت کو زندہ رکھتی ہے۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page