اردو کے سینئر صحافی اور معروف شاعر و ادیب ندیم صدیقی کی تصنیف ‘ظ اک شخص تھا’ میرے لئے حیرت و استعجاب کا در وا کئے ہوئے سامنے پڑی ہے. گزشتہ دنوں میرے ہم وطن بھائی ڈاکٹر ظہیر انصاری،مدیر تحریر نو، ممبئی سے بتیا تشریف لائے تو ساتھ میں ندیم صدیقی کی یہ کتاب بھی لیتے آئے. انھوں نے کہا کہ اسے پڑھئے. لیکن میں کتاب کی طرف متوجہ نہیں ہو پایا. مجھے لگا کہ اس میں بھی وہی رٹی رٹائ باتیں ہوں گی کہ ظ ایک بہت بڑے ادیب تھے، کئ زبانوں پر دستگاہ تھی، خسرو غالب کے دلدادہ تھے، روسی زبان سے واقف تھے، روسی فن پاروں کا اردو ترجمہ کیا، روسی فکشن نگاروں کو اردو میں متعارف کرایا وغیرہ وغیرہ…اسی دوران ایک دن دوبارہ شام میں ملنا ہوا تو فرمایا کہ دو چار صفحہ پڑھ کر دیکھیے ، اگر طبیعت نہ لگے تو چھوڑ دیجئے. مجھے یہ تجویز بہت اچھی اور آسان لگی اور میں گھر پہنچتے ہی شروع ہو گیا. اور یہ شروعات ایسی تھی کہ اس کا انت ‘حیرت و استعجاب (جیسا کہ اوپر لکھا ہے) کی انتہا پر ہوا. یہاں قرآت کا کام تو بند ہوا مگر تحریر کا سحر مسلسل قائم رہا اور ہنوز قائم ہے.
اردو دنیا ظ صاحب مرحوم کی شخصیت اور ان کے ادبی کارناموں پر مبنی متعدد اصحابِ قلم کے مضامین اور کتابیں پڑھ چکی ہے. میں نے بھی پڑھا ہے، لکھا بھی ہے. لیکن ندیم صدیقی کی کتاب میری دانست میں اب تک کی تمام کتابوں سے بالکل علاحدہ اور بے مثال ہے. واضح ہو کہ میں اس سپر لیٹیو کا استعمال مذکورہ کتاب کے غائر مطالعے کے بعد بڑی ذمہ داری کے ساتھ کر رہا ہوں.
یہ کتاب نہ سوانح ہے، نہ خاکہ ہے اور نہ ہی کوئی تحقیق! بلکہ کہنا چاہیے کہ یہ تخلیق اور تنقید کے بین بین ہے. ہاں یہ ضرور ہے کہ اس میں سوانحی کوائف، واقعات و سانحات اور تجزیاتی انداز و آہنگ کی جھلک جابجا محسوس ہو جاتی ہے. میں اب تک یہ جانتا تھا کہ شمیم طارق ظ صاحب کے واحد بڑے رمز شناس ہیں مگر کتاب پڑھنے کے بعد عقدہ کھلا کہ ندیم صاحب نے نہ صرف ظ انصاری کو دیکھا تھا بلکہ ان کے درون میں اتر کر انھیں کھنگالا بھی تھا. ساتھ ہی ان کے رگ رگ میں جیا بھی تھا.
اردو قبیلہ ممبرا کی یہ کتاب کئ ابواب پر مشتمل ہے، جس میں ظ پر مضامین، ظ کے مضامین، ان کے تبصرے، ان کے ترجمے اور ان کے مکتوبات وغیرہ شامل ہیں. ان کی تحریروں پر باتیں ہوتی رہی ہیں، مجھے یہاں مختصراً بس یہ کہنا ہے کہ ان محتویات کا انتخاب اپنے آپ میں ایک انفراد و امتیاز ہے. ظ صاحب کی ہر تحریر اپنے معاصرین سے بالکل علاحدہ اور انوکھی ہے. تخلیقیت سے بھرے کسے کسائے جملے، صحافت، سیاست، ادب اور زندگی کے سیاہ و سپید سے متعلق ان کے تجربے، اور ان کو بیان کرنے کا بیباک اور باغیانہ اسلوب و ادا کسی کو بھی مبہوت اور مسحور کرنے کے لیے کافی ہیں. یعنی پھر وہی بات کہ ان کا بیانیہ اتنا دل پذیر تھا کہ سننے والا ہی نہیں پڑھنے والا بھی مجسمہ ہو جاتا تھا. اس کتاب کی ایک اور اچھی بات یہ رہی کہ انھوں نے اپنی کتاب میں جو لکھنا تھا خود ہی لکھا، عادی محررین کو تقریظ خوانی کا موقع نہیں دیا.
ندیم صاحب کی اس کتاب میں شامل ان کا 60 صفحے کا مقدمہ ‘زمانہ اور افسانہ :ظ انصاری’ دراصل ظ صاحب سے منسوب اس کتاب کے نہ صرف شایان شان ہے بلکہ اس کتاب کا مغز سخن بھی ہے. میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح ظ انصاری کو ان کی تحریروں اور ان کے عملی کارناموں کےلئے یاد کیا جاتا ہے، اسی طرح ندیم صاحب کو ان کے اس قدر مبسوطِ، جدت و ندرت سے بھرپور نیز حقیقت اور تخلیقیت سے معمور مقدمے کے لیے ہمیشہ یاد کیا جائے گا. ان شاء اللہ
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page