اندرون کا سفر: کیا ہے اس کے باطن میں؟ – ڈاکٹر امتیاز احمد علیمی
ڈاکٹر امتیاز احمد علیمی
اسسٹنٹ پروفیسر، کلکتہ گرلس کالج، کولکاتا
افضل سعدیہ فروہ فرانسیسی زبان و ادب کی نوخیز تخلیق کار اور اسکالر ہیں. انھوں نے فرانسیسی زبان میں ایک ایسی تخلیقی تحریر پیش کی ہے جسے ہم کہانی، افسانہ یا ناول کہنے کے بجائے ذاتی بیاض یا ڈائری کا نام دے سکتے ہیں۔ فرانسیسی میں اس کتاب کا نام Itinéraire de Vie Intérieure ہے۔ جس کا براہ راست فرانسیسی سے اردو زبان میں ترجمہ انتہائی فعال و متحرک، سنجیدہ اور ادب کے باذوق مترجم ڈاکٹر محمد ریحان نے "اندرون کا سفر” کے نام سے نہایت ہی خوش اسلوبی سے کیا ہے. اس کتاب کا اردو ترجمہ پڑھتے ہوئے یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم ترجمہ کی ہوئی کتاب کا مطالعہ کر رہے ہیں بلکہ یہ گمان ہوتا ہے کہ جیسے ہم کسی دلچسپ تخلیقی نثر میں مستغرق ہیں جس میں وقت کا بالکل اندازہ نہیں ہوتا۔ دوران مطالعہ میرے ساتھ بھی یہی ہوا۔ کتاب ختم ہو گئی پر مزید تشنگی بڑھا گئی۔ اسے پڑھتے ہوئے یہی سوچ رہا تھا کہ میں ایک ایسی تخلیقی نثر پڑھ رہا ہوں جو ہمارے جذبات و احساسات، تجربات و مشاہدات اور داخلی و باطنی کرب کا اظہاریہ ہے. یہ تو مترجم کی خوبی ہے کیونکہ انھیں زبان و بیان پر قدرت حاصل ہے جس کا اندازہ اس کی قرأت کے دوران آپ بھی کریں گے اور میری بات کی تائید کریں گے۔
اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ یہ قاری کو اپنے اندرون میں جھانکنے، خود سے سوال کرنے، خود سے حد درجہ محبت کرنے، اپنی ذات کے علاوہ کسی پر بھروسہ، اعتماد اور انحصار نہ کرنے، صرف اپنی ہی ذات پر بھروسہ اور یقین کرنے، اپنے اعتماد کو بحال کرنے، اپنے قوت ارادی کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے، اپنے عزم اور حوصلہ میں استقامت و استقلال پیدا کرنے، منفی کے بجائے مثبت زاویہ نظر پیدا کرنے، اپنے باطنی اضطراب کو محسوس کرنے، درد و کرب کا حل تلاش کرنے اور عرفان ذات سے عرفان کائنات تک رسائی حاصل کرنے کے لیے اکساتی ہے۔ خود کلامی کے اسلوب اور تکنیک میں یہ تخلیقی تحریر جدیدیت کے فلسفہ سے حد درجہ متأثر معلوم ہوتی ہے جسے خودی کے سر نہاں تلاش کرنے کی ایک عمدہ کاوش سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ فلسفیانہ افکار و خیالات کی پیش کش کے ساتھ "من عرف نفسہ فقد عرف ربہ” کی تعبیر و تفسیر کی تلاش و جستجو کا نام دیا جاسکتا ہے۔ جب وہ یہ لکھتی ہیں:
"اے خدا! تو مجھے اپنے راستے سے قریب تر کردے، بلکہ تو اپنی ذات سے قریب کردے، مجھے ہر اس چیز سے قریب کردے جو مجھے تیرے نزدیک لاتی ہے اور ہر اس چیز سے دور کردے جو مجھے تجھ سے دور لے جاتی ہے۔ اے خدا! میں تیری ذات میں ماں، باپ، بہن، دوست، محبوب، اجنبی سب تلاش کرتی ہوں۔ اے خدا! میں تجھ سے پیار کرتی ہوں، میں تجھ سے محبت کرتی ہوں، مجھے تجھ سے پریم ہے، مجھے تجھ سے عشق ہے”
اس طرح تنہائی میں خود کلامی کے انداز میں اپنے نفس اور اپنی ذات کا محاسبہ کرنے کے بعد رب قدیر کی بارگاہ میں دست سوال دراز کرنا اور پھر سب کچھ پا لینا یہ عمل ایسا ہے کہ انسان اپنے اندرون میں جھانکے اور پھر اپنا محاسبہ کرکے سعی پیہم میں لگا رہے جب تک وہ اپنی ذات تک رسائی حاصل نہ کرلے۔ اس کتاب میں کہیں کہیں تانیثیت کی بو باس بھی محسوس کی جاسکتی ہے۔ مثال کے طور پر کتاب سے یہ اقتباس دیکھیں:
"اپنے وجود، اپنی ارتقا اور اپنی ترقی کے لئے میں اپنے تمام حقوق، اپنی تمام آزادی اور اپنی تمام ذمہ داریوں کو واپس اپنے ہاتھ میں لیتی ہوں. میں اب اس قابل ہونا چاہتی ہوں کہ اپنی عقل کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی ہمت، اپنی طاقت، اور ہر اس چیز کا ادراک کرسکوں جو خود کو مضبوط بنانے اور خود مختار ہونے میں مدد کرتی ہے”
اس کتاب کے ہر صفحے کی تحریر پڑھتے ہوئے نثری نظم کا تصور ابھرتا ہے اگر اسے ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا جائے تو یہ کتاب مکمل طور پر نثری نظم کہلانے کی مستحق ہوگی۔مصنفہ نے ‘روح کے ریزے’ اور ‘صدائے باطن’ سے اپنے قارئین کو سماج اور معاشرے میں اپنی شناخت کو مستحکم کرنے اور اپنا راستہ آپ تلاش کرنے کا مفید مشورہ مختلف تحریکی اقوال اور چھوٹے چھوٹے پرمغز اور بامعنی جملوں کے در پردہ حرکت و عمل پر ابھارنے کی کامیاب کوشش کی ہے. اپنے باطن کی آواز کی پیروی کرنے، کسی مسئلے میں پہلے خود کا انتخاب کرنا اور فیصلہ لیتے وقت پہلے اپنے وجدان کی آواز کو سننا، زندگی جس طلسم یا بھنور میں لے جائے اس کا خوش دلی سے استقبال کرنا اور بھر پور اس کو جینے کی کوشش کرنا، روزانہ اپنے ہونے کا بھر پور جشن منانا، اپنے ساتھ بھی شفقت و محبت سے پیش آناجیسے آپ دوسروں کے سامنے پیش آتے ہیں، اپنے حس کو ہر حال میں زندہ رکھیں، ہر طرح کے طوفانوں اور آندھیوسے ٹکرانے کا حوصلہ رکھنا، ہر انسان کے اندر عظیم سے عظیم تر کارنامہ انجام دینے کی صلاحیت ہوتی ہے شرط یہ ہے کہ آپ اسے خود پہچانیں اور زندگی کے کسی بھی شعبے میں خود کو کسی سے کم نہ آنکیں. یہی وہ باتیں ہیں جو آپ کو آپ کے اندرون میں جھانکنے اور اسے منصہ شہود پر لانے کی دعوت دیتی ہیں. میں اس کتاب کے مترجم ڈاکٹر محمد ریحان کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ انھوں نے مجھے اپنے اندرون میں ہورہے توڑ پھوڑ اور بکھراؤ کو از سر نو تلاش کرنے اور اسے مثبت زاویہ نظر سے تفکر و تدبر پر آمادہ کیا.
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page