"افکارِ نو بہ نو: ایک مختصر جائزہ” – محمد خورشید اکرم سوز
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
گزشتہ دنوں نئے سال کے تحفے کے طور پر اردو ادب کے مشہور شاعر و ادیب جناب سید نفیس دسنوی کی دو اہم کتابیں موصول ہوئیں: "افکار نو بہ نو” (شعری مجموعہ) اور "آئینۂ ادراک” (مضامین کا مجموعہ)۔ یہ کتب اردو ادب کے باذوق قارئین کے لئے قیمتی اضافہ ہیں۔
سید نفیس دسنوی پیشے سے جیولوجسٹ ہیں اور حکومتِ اڑیسہ کے محکمۂ ارضیات و معدنیات میں جوائنٹ ڈائریکٹر کے عہدے سے ریٹائر ہو چکے ہیں۔ سائنسی شعبے سے وابستگی کے باوجود انہوں نے اردو ادب میں اپنی انفرادی پہچان قائم کی ہے۔ ان کا تعلق ایک علمی و ادبی خانوادے سے ہے۔ ان کے والد پروفیسر منظر حسن دسنوی استاد شاعر تھے، جبکہ ان کے بڑے بھائی سید شکیل دسنوی ایک معتبر شاعر، نقاد، اور محقق تھے۔ مجھے خوش قسمتی سے سید شکیل دسنوی کے قلبی و روحانی وابستگی کا موقع ملا، اور سید نفیس دسنوی سے بھی میرا روحانی اور قلبی تعلق ہے۔
"افکار نو بہ نو” کا تعارف:
"افکار نو بہ نو” جناب نفیس دسنوی کا چوتھا شعری مجموعہ ہے۔ اس سے قبل ان کے تین شعری مجموعے مقبولیت حاصل کر چکے ہیں۔ اس مجموعے میں 5 حمد و نعت اور 98 غزلیں شامل ہیں۔ نفیس دسنوی کا کلام سہل ممتنع کی عمدہ مثال ہے، جو ترسیل کے مسائل سے پاک اور جدید حسیت و روایتی پاسداری کا حسین امتزاج پیش کرتا ہے۔ ان کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
کترنے لگ گئے ہیں کان اب اپنے بزرگوں کے
نئی دنیا کے بچے ہیں نصیحت سوچ کر کرنا
—–
نفیس آزادئ گفتار حاصل ہے ہمیں لیکن
زباں پر ان کہی پابندیاں کچھ اور کہتی ہیں
——
اونچے محلوں نے تو سورج کو چھپا رکھا ہے
میری کٹیا میں اجالا نہیں ہونے والا
——-
اس دور میں انساں کے کردار نرالے ہیں
ظاہر میں تو اجلے ہیں، باطن میں وہ کالے ہیں
—–
جس کو حاصل ہے حکومت کی کوئی بھی مسند
اس کی تائید میں اخبار بہت ہوتے ہیں
یہ اشعار عصری مسائل، انسانی رویوں، اور سماجی تغیرات کی خوب صورت عکاسی کرتے ہیں۔
شاعری کی فنی خوبیاں اور موضوعاتی تنوع:
نفیس دسنوی کی شاعری میں سماجی، سیاسی، اور اخلاقی زوال کے ساتھ ساتھ انسانی رشتوں کی پامالی کی تصویریں جابجا نظر آتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلامی فکر کی نمائندگی بھی ان کے کلام کا اہم حصہ ہے:
کتنے سنگین مسائل میں گھرے ہیں ہم بھی تم بھی
آؤ کہ راہ نکالیں انہیں سلجھانے کا
—–
آنے والا ہے نفیس اب تو خزاں کا موسم
ڈر ہے پھولوں کے ہواؤں میں بکھر جانے کا
—–
دنیا کی حقیقت سمجھوگے لاریب نفیس اک دن خود ہی
ہستی کے فسانے کا لکھنے جب تانا بانا سیکھو گے
——
عدل کو قائم یہاں رکھنے کی خاطر اے نفیس
طرز فاروقی ہے موزوں حکمرانی کے لئے
—–
کفن پر داغ مٹی کے ابھی لگ بھی نہ پائے تھے
ہوئے ورثا کے ہاتھوں باپ کی جاگیر کے ٹکڑے
—–
بہت آزادئ گفتار کا دعویٰ ہے دنیا کو
تو پھر پیروں میں کیوں ہیں آج بھی زنجیر کے ٹکڑے
——
ہمیں اخلاق حسنہ کا سبق مت دیجئے صاحب
کہ دشمن کو دعا دینا ہماری ہی روایت ہے
—–
نفیس صاحب کے کلام کا ہر مصرع قاری کے دل و دماغ پر دیرپا اثر چھوڑتا ہے، جس کی وجہ ان کی شاعری کی فنی جمالیات اور صوتی آہنگ ہے۔ جیسا کہ سعید رحمانی صاحب نے ان کی شاعری کے بارے میں کہا:
” نفیس صاحب کی شاعری میں فنی جمالیات اور صوتی آہنگ کا فنکارانہ استعمال ہوا ہے جس کی بنا پر انکی شاعری شعریت اور غنائیت کا مرقع بن گئی ہے۔ مختصر کہنا چاہوں گا کہ غم ذات سے غم کائنات تک کا سفر کرتے ہوئے یہ ایسی شاعری ہے جس کو عصر حاضر کا اشاریہ کہا جا سکتا ہے.”
نفیس دسنوی کی شاعرانہ عظمت:
اردو ادب کے ناقدین جیسے ضیاء فاروقی، پروفیسر کرامت علی کرامت، اور سید شکیل دسنوی نے نفیس دسنوی کی شاعری کی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ ضیاء فاروقی ان کے بارے یوں رقمطراز ہیں :
"نفیس صاحب نہ صرف عہدِ حاضر کے شعری رویوں سے متاثر ہیں بلکہ عام انسان کی طرح انھوں نے زندگی کے کیف و کم کو پوری شدت سے محسوس کیا ہے۔ آج کے دورِ پر ہوس اور پر شور میں ادب خصوصاً شاعری میں دور و نزدیک کی بازگشت سے بچ نکلنا انتہائی مشکل امر ہے۔ پھر بھی اگر کوئی شاعر اپنے لہجے کی بازیافت کی شعوری کوشش کرتا ہے تو یہ حوصلہ افزا بات ہے۔ نفیس دسنوی کی شاعری میں یہ بات محسوس کی جاسکتی ہے۔ ایک بات اور جو خصوصی مطالعہ کی متقاضی ہے وہ یہ کہ ان کی شاعری میں بشر دوستی کے ساتھ ساتھ احترام مذہب بھی پوری طرح نمایاں ہے.”
اختتامیہ:
"افکار نو بہ نو” یقیناً اردو ادب کے شائقین کے لیے ایک نادر تحفہ ہے۔ یہ مجموعہ ان کے لیے فکری تحریک اور تخلیقی توانائی کا باعث بنے گا۔ اختتام پر ان کے چند اشعار پیش ہیں، جو ان کی شاعری کی گہرائی اور وسعت کو نمایاں کرتے ہیں:
جو سچ بات ہے اس کو ہم بولتے ہیں
زباں بند ہو تو قلم بولتے ہیں
—–
حق کے رستے سدا پر خار بہت ہوتے ہیں
کیونکہ باطل کے طرف دار بہت ہوتے ہیں
——
راتوں کی سیاہی میں امید سحر رکھنا
تکلیف کے لمحوں میں جینے کا ہنر رکھنا
—–
عبرت سے ذرا دیکھو اس شہر خموشاں کو
سوئے ہوئے لوگوں کی خاموش یہ بستی ہے
—–
کسی کم ظرف سے امید اچھائی کی مت رکھنا
کوئی دریا کبھی گہرا سمندر ہو نہیں سکتا
———-
یہ اشعار قاری کو زندگی، امید، اور حق کی جانب راغب کرتے ہیں، اور یہی نفیس دسنوی کی شاعری کا اصل حسن ہے۔
——-×——–×————
Mohammad Khursheed Akram Soz
Qaiser House, Mohalla: Badi Dargah
Bihar Sharif, Nalanda: Pin : 803101 ( Bihar)
Mobile No. 9850315070
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page