حکیم فخرعالم
(ریسرچ آفیسر/ سائنٹسٹ۔4،ریجنل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف یونانی میڈیسن،علی گڑھ)
ای میل: fakhrealamx7598@gmail.com
موبائل نمبر: 9411653041 7078281442 /
پس منظر کی تفہیم:
حکیم سید خلیفۃ اللہ ایک معزز اور عظیم المرتبت خانوادے کے فرد تھے۔ان کا سلسلۂ نسب شیخ شہاب الدین ملقب بہ فرخ شاہ عادل بادشاہ کابل اور حضرت شیخ فرید گنج سے ملتا ہے ،پھر یہ سلسلہ دراز ہوکر خلیفۂ ثانی حضرت عمر فاروق پر منتہی ہوتا ہے۔ان کے اسلاف مذہبی بزرگی ،علم و فضل سیادت و قیادت ، تصوف و طریقت اور طب و حکمت جیسے تمام شعبوں میں ممتاز رہے ہیں۔حکیم سید خلیفۃ اللہ کے خاندان میں لمبی مدت سے طبابت کاسلسلہ تھا،اُن کے کئی بزرگ شاہی طبیب رہے ہیں۔اُن کے جدّ اعلیٰ حکیم مہدی علی خاں(1287ہجری مطابق1870م) نواب عظیم جاہ بہادر پرنس آف آرکاٹ اول کے طبیب خاص اور فیملی فزیشین تھے۔ وہ امراض نسواں کے علاج میں مہارت رکھتے تھے،ان کی نباضی اور قارورہ شناسی کے بہت سے واقعات ضرب المثل رہے ہیں،ان کی تشخیصی مہارت کا ایک چشم دید واقعہ ہے کہ ایک حاملہ کے قارورے کا معائنہ کرکے بتایاکہ اس کے شکم میں بندر کی شکل کا بچہ ہے،وضع حمل کے بعد ان کی بات صحیح نکلی۔حکیم مہدی علی خاں کے بھائی حکیم ظہور الحق حیدرآباد دکن کے ممتاز طبیبوں میں گزرے ہیں،اُن کے معالجاتی واقعات بھی زبان زد خاص و عام رہے ہیں۔حکیم مہدی علی خاں کے صاحبزادے ،جن کے سال ولادت1261 ہجری کی مناسبت سے غلام محمد مقیم تاریخی نام تجویز ہواتھا،وہ میاں جان صاحب کی عرفیت سے مشہور تھے، 1915م میں وفات پائی ہے،انہوںنے مروجہ علوم و فنون اور عربی زبان و ادب کی تعلیم سے فراغت کے بعد اپنے والد سے طب کی درسی کتابیں پڑھیںاور ان کے مطب میں بیٹھ کر عملی مشق حاصل کی۔والد کی وفات کے بعد وہ مسند نشین ہوئے اور ایک حاذق طبیب کی حیثیت سے اکثر امراء و تجار،اعلیٰ سرکاری عہدے داروں،ضلع کلکٹر،،ممبرانِ کونسل اور پرنس آف آرکاٹ و ہر ہائی نس نواب خورشیدالنسا بیگم ،نواب غلام غوث خاں بہادر رئیس اعظم مدراس، ان کے چچانواب عبدالعلی خاں بہادر،ہرہائی نس نواب خیر النساء بیگم رئیسۂ اعظم کرناٹک اور ہر ہائی نس نواب اعظم النساء بیگم کے طبیب خاص اور فیملی فزیشین رہے ہیں۔
ہندوستان کی جنوبی ریاست تمل ناڈمیں یونانی طب کے فروغ میں حکیم سید خلیفۃ اللہ اور ان کے بزرگوں کا بہت اہم کردار رہا ہے۔ ہندوستان کی شمالی اور وسطی ریاستوں کو یونانی طب کا خاص مرکز خیال کیاجاتاہے ،اس کے برعکس جنوب کے صوبے خصوصاً تمل ناڈ کی حیثیت یونانی طب کے لیے ایک غیر روایتی زمین کی تھی،ایسے خطوں میں طب کے فروغ کے لیے جن لوگوں نے خدمت انجام دی ہے ،یونانی طب کی تعمیر ترقی کے حوالہ سے ان کے کاموں کو غیر معمولی کہا جانا چاہئے ،اس لیے کہ کسی روایتی حلقے میں کچھ کرنا بہت آسان ہوتا ہے، اس کے برعکس جن علاقوں کی زمین یونانی طب کے لیے بہت ہموار نہ ہو وہاں یونانی طب کو متعارف کروانے کے ساتھ اسے فروغ بھی دے لینا بڑی جانفشانی کا کام ہے ،لیکن ان مشکلات سے گزر کر حکیم سید خلیفۃ اللہ اور اُن کے اسلاف نے جنونی ہندوستان میں یونانی طب کے فروغ کے لیے راہیں ہموار کیں ۔اس حوالے سے حکیم سید خلیفۃ اللہ اور اُن کے بزرگوں کی خدمات بے وقیع ہیں کہ انہوں نے تمل ناڈ میں یونانی طب کے ارتقاء اور فروغ کے لیے بہت اہم خدمت انجام دی ہے ۔قدوسیہ طبیہ کالج تمل ناڈ کی پہلی طبی درس گاہ ہے،اس کا قیام 1913م میں عمل میں آیا،اس کی تاسیس میں انجمن مشرقی اطباء جنوبی ہند نے اہم رول ادا کیا تھا ،اس انجمن کے بارہویں سالانہ اجلاس کی رپور ٹ میںچار اساتذہ کا ذکر اہمیت کے ساتھ ملتا ہے،ان میں حکیم سید خلیفۃ اللہ کے والد حکیم ڈاکٹر سید نعمت اللہ(1900م- 1961م) اور تایاشفاء الملک حکیم سید مخدوم اشرف (1883م ۔1956م) کے اسماء بہت اہم ہیں ۔اس کالج میں حکیم ڈاکٹر سید نعمت اللہ ماڈرن میڈیسن کے مضامین جیسے تشریح (anatomy)،منافع الاعضاء(physiology)،علم القابلہ(gynaecology) اور جراحت(surgery)کی تدریس پر مامور تھے اور شفاء الملک حکیم سید مخدوم اشرف مطب عملی(clinical bedside)،تشخیص و تجویز(diagnosis and treatment) اور دواسازی (pharmacy)کی تعلیم دیتے تھے۔شمالی ہند کے طبی اداروں کے برعکس قدوسیہ طبیہ کالج میں جدید مضامین کی تعلیم انگریزی میں ہوتی تھی۔
یہاں اس امر کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ جب مدراس حکومت نے ملک میں رائج طبوں کے لیے اِنٹگریٹڈ اسکول’’گورنمنٹ اسکول آف انڈین میڈیسن‘‘ قائم کیا توقدوسیہ طبیہ کالج کو اس میں ضم کردیا گیا۔اس نئے طبی اسکول میں یونانی، آیوروید،سدھا اور ماڈرن میڈیسن کی تعلیم کاایک ساتھ ایک چھت کے نیچے انتظام تھا۔1928م کے بعد اس اسکول کو ترقی دے کر کالج میں تبدیل کردیاگیا،جو1961متک جاری رہا،حکیم سید خلیفۃ اللہ اس کالج میں طالب علم رہے ہیں۔1961ممیں اس متحدہ کالج کے بند ہوجانے کے بعد پھر لمبی جد و جہد اورطویل مطالبات کے بعد تمل ناڈ حکومت کی جانب سے 1979میں گورنمنٹ یونانی میڈیکل کالج چنئی کا قیام عمل میں آیا،اس سلسلے میں حکیم سید خلیفۃ اللہ،حکیم سید خلیل اللہ قادری اور حکیم سید حبیب اللہ کی مساعی کا کلیدی رول رہاہے۔حکیم سید خلیفۃ اللہ اس کالج کے قیام کی تحریک کے ہراول دستے کا حصہ ہونے ساتھ یہاں آنریری پروفیسر کی حیثیت سے خدمت بھی انجام دی ہے۔
حکیم سید خلیفۃ اللہ کے والد حکیم ڈاکٹر سید نعمت اللہ مطب و معالجہ کے ساتھ طبی تعلیم اور تحریک سے بھی گہری وابستگی رکھتے تھے،انہوں نے اپنے شہر میں اہم سماجی خدمات بھی انجام دی ہیں۔کسی قدر وہ سیاسی مزاج بھی رکھتے تھے،1943-44 م میں مدراس کے میئر رہے ہیں اور اس شہر کی ترقیات میں اہم رول ادا کیاہے۔حکیم سید خلیفۃاللہ کے تایاشفاء الملک حکیم سید مخدوم اشرف جو بعد میں ان کے سسر ہوئے اور اُن کی صاحبزادی رابعہ فاطمہ حکیم سید خلیفۃ اللہ کے عقد میں آئیں،جن سے پانچ اولادیں ہوئیں ۔
چونکہ پس منظر شخصیت کی تشکیل کا اہم عنصر ہوتا ہے اور شخصیت کی عکاسی کرتاہے ،لہٰذا پس منظر جان لینے کے بعد کسی فرد کی تحلیل نفسی بہت آسان ہوجاتی ہے۔ درج بالا سطور میں حکیم سید خلیفۃ اللہ کے بزرگوں کا مختصرحال بیان ہوا ہے، اس کے آئینے میں حکیم سیدخلیفۃ اللہ کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے اوراِس پس منظر سے آگہی کے بعداب ان کی شخصیت کو سمجھنا بہت آسان ہوجاتاہے۔
تعلیمی مراحل:
حکیم سید خلیفۃ اللہ کی ولادت 4اکتوبر1939م کوصوبہ تمل ناڈ کے شہر چنئی کے ترپلی کین(Triplicane)میں ہوئی ۔انہوں نے ابتدائی تعلیم شہر کے گورنمنٹ مدرسۂ اعظم سے حاصل کی اور 1954م میں SSLCکا امتحان پاس کیا ۔اس کے بعد آرٹ اینڈ سائنس کالج مدراس سے انگلش،عربی،نیچرل سائنس،فزکس،کیمسٹری اور ملیٹری سائنس کے مضامین کے ساتھ انٹرمیڈیٹ کیا،انہیں یہ سرٹیفیکٹ یکم ستمبر1956م کو جاری ہوا ہے اور اس میں ان کا نام خلیف اللہ لکھاہے،دراصل انٹرمیڈیٹ تک ان کا نام یہی تھی، پھر انہوں نے درخواست دے کر اسے خلیفۃ اللہ کروایا،کالج آف انٹگریٹڈ میڈیسن مدراس کے ڈین آفس نے26جون1957م کونام کی اس تبدیلی کا نوٹیفیکیشن جاری کیاتھا۔
انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرنے کے بعد 1956م سے1960متک طبی تعلیم کے لیے گورنمنٹ کالج آف اِنٹگریٹڈ میڈیسن میں زیر تعلیم رہ کرانہوں نےGraduate of the College of Integrated Medicine(GCIM)کی ڈگری حاصل کی ،حالانکہ اس زمانہ میں اکثر طبی درس گاہوں میںہائی اسکول کے بعدہی داخلے مل جاتے تھے ۔انہوں نےGCIMکیتعلیم پوری کرکےGovt. Royapettah Hospital Madrasسے ہاؤس سرجن کی ٹریننگ لی۔
یونانی طب کے ساتھ جدید طب کی تعلیم کے حصول کی خاندانی روایت کے مطابق حکیم سید خلیفۃ اللہ نے GCIMکی سند حاصل کرنے کے بعد ماڈرن میڈیسن کی تعلیم کے لیے کیلپاک میڈیکل کالج مدراس میں داخلہ لے کرجون 1967ممیںڈپلومہ اِن میڈیسن اینڈ سرجری(DM&S)کا سرٹیفکٹ حاصل کیا۔حکیم سید خلیفۃ اللہ کے خاندان میں یہ روایت اُن کے بزرگوں سے چلی آرہی تھی کہ وہ لوگ یونانی طب کے ساتھ ماڈرن میڈیسن کی تعلیم بھی حاصل کرتے تھے۔اس زمانہ کے عام چلن کے برعکس کہ اطباء انگریزی ادویات سے مرعوب رہتے تھے اور اپنے مطب میں ان کا استعمال کرکے خود کو جدت پسند ثابت کرنے کی کوشش کرتے تھے،جب کہ حکیم سید خلیفۃ اللہ کا خاندان یونانی طب کے ساتھ ماڈرن میڈیسن کی تعلیم کے باوجود ہمیشہ یونانی طب سے علاج معالجہ کے طریق پر کاربند رہا اور عملاً بھی یونانی طب کے فروغ کے لیے کوشاں رہاہے،یہ پہلواسے معاصر طبی خانوادوں سے بہت ممتاز کردیتا ہے۔واقعی یہ بڑی بات تھی کہ ماڈرن میڈیسن کی پریکٹس کے مجاز ہونے کے باوجود اس خاندان کے لوگ یونانی ادویات کی افادیت اور محفوظ اثرپذیری میں یقین رکھتے تھے اور علاج و معالجہ میں معمول کے طور پر برتتے تھے۔حکیم سید خلیفۃ بھی اس روایت پر کاربند رہے،باوجودیکہ انہوں یونانی طب کے ساتھ باضابطہ ماڈرن میڈیسن کی تعلیم حاصل کی تھی،جسے اُس زمانے میں بڑا اعزاز سمجھا جاتا تھا ،مگرانہوں نے خاندان کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے یونانی مطب و معالجہ کو مشغلہ بنایا اور تاحیات یونانی طب کے نمائندہ کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ افتراء کا مزاج رکھنے والے اُن کے بعض معاصرین نے یہ افواہ پھیلا رکھی تھی کہ حکیم سید خلیفۃ اللہ کبھی یونانی طب کے طالب ہی نہیں رہے۔ یہ افترائیں محض ان دلوں کا غبار ہیں جو حکیم سیدخلیفۃ اللہ کے سامنے اپنے آپ کو کوتاہ قد محسوس کررہے تھے۔
پروفیسر حکیم سید خلیفۃ اللہ کے علمی پس منظر میں یونانی اور ماڈرن میڈیسن کی شمولیت نے ان کی شخصیت کو بہت منفرد بنادیاتھا۔اس پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹریونس افتخار منشی(ڈپٹی ڈائرکٹر ریجنل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف یونانی میڈیسن، کولکتہ) لکھتے ہیں کہ ’’حکیم سید خلیفۃ اللہ کی شخصیت علمی لحاظ سے مجمع البحرین کہی جاسکتی ہے،انہوں نے یونانی طب کے ساتھ ایلوپیتھی کی بھی تعلیم حاصل کی تھی ،اس کی وجہ سے ان کی شخصیت میں قدیم و جدید اور مشرق مغرب کا خوب صورت امتزاج پیدا ہوگیاتھا……….دونوں طبوں سے واقفیت کی وجہ سے وہ یونانی طب کے سلسلے میں بہت مدلل بات کرتے اور یونانی طب کی ایسی وکالت کرتے کہ سامنے والے کوقائل ہونے پر مجبور ہونا پڑتا،اب ایسی خوبی کا کو ئی دوسرا چہرہ نظر نہیں آرہاہے‘‘۔
شخصیت:
تمل ناڈکا شہرچنئی(مدراس)حکیم سید خلیفۃ اللہ کاآبائی وطن ہے ،اس شہرکے عوام و خواص،اہل فن اور ارباب اقتدار میں ان کے بزرگوں کی ہمیشہ قدر و منزلت رہی ہے ،حکیم سید خلیفۃ اللہ نے اس وقار میںچارچاند لگاکر خاندان کے نام کو ملکی سطح پر روشن کیاتھا، اپنے بزگوں کی طرح انہیںبھی ہر دل عزیزی حاصل رہی ہے ،خواہ اہل فن کے درمیان ہوں یا ایوان حکومت میں ،ہرجگہ انہیں قدر و احترام کا مرتبہ حاصل رہاہے، شخصیت کی ایسی پذیرائی کم لوگوں کے نصیب میں آتی ہے۔
حکیم سید خلیفۃ اللہ کی شخصیت کچھ ایسی تھی کہ وہ بھری بھیڑ میں بھی ممتاز نظر آتے ،ایسے ہی وہ اپنے معاصرین میں بھی ہمیشہ نمایاں رہے ہیں۔ خصوصاًجب اسٹیج پر ہوتے تو ان کی شخصیت الگ ہی رنگ میں نظر آتی اور ناظرین کی توجہ مبذول کرلیتی۔دراز قد ،بھرا جسم ،گورا چٹا چہرہ ،کشادہ پیشانی ،بلند آواز اور زبردست خطیبانہ انداز وہ بھی صاف ستھری انگریزی میں ،یہ سماں سامع پر ایسا اثرانداز ہوتا کہ اسے مبہوت اور مرعوب ہونے پر مجبور کردیتا۔حکیم سید خلیفۃ اللہ کے لہجہ میں خود اعتمادی یوں ہی نہیں تھی ،بلکہ اس کا ایک خاص پس منظر تھا ۔انہوں نے یونانی طب کے ساتھ باقاعدہ جدید طب کی بھی تعلیم حاصل کی تھی، ماڈرن میڈیسن سے یونانی طب کا موازنہ کرنے کے بعد وہ اس کی خوبیوں کے معترف ہوئے تھے ،اسی لیے وہ پورے اعتماد کے ساتھ یونانی طب کی باتیںرکھتے تھے۔یہ خوبی ان کے بزگوں میں بھی تھی ان کے والد حکیم ڈاکٹر سید نعمت اللہ اورتایا شفاء الملک حکیم سید مخدوم اشرف کو بھی دونوں طبوں پر عبور تھا،دونوں طبوں کی واقفیت کے باوجود اگر انہوں نے ایلوپیتھی میڈیسن کے بجائے یونانی طب کو اختیار کیا تو یہ اُن کا ذاتی انتخاب تھا گویا یونانی طب اُن کی مجبوری نہیں ، بلکہ پسند تھی۔
نعمت سائنس اکیڈمی کا قیام :
حکیم سید خلیفۃ اللہ نے1985ممیں اپنے والد حکیم ڈاکٹر سید نعمت اللہ کی یاد میں نعمت سائنس اکیڈمی قائم کی ،یہ جنوبی ہند کے اندر یونانی طب کی ترویج و اشاعت میں اہم کردار ادا کر رہی ہے،علاقائی طور پر سرگرم عمل ہونے کے ساتھ نیشنل اور انٹرنیشنل کانفرنس،سیمینار،ورکشاپ اور سمپوزیم کا انعقاکر کے یونانی کے تاریک گوشوں کو روشنی عطا کررہی ہے۔یونانی طب کے فروغ اور ترویج و اشاعت سے جڑے حکیم سید خلیفۃ اللہ کے گوناگوں کا موں میں نعمت اکیڈمی کا قیام خاص اہمیت کا حامل ہے۔
چنئی میں سیاسی خدمات:
ایک سماجی مزاج رکھنے والافرد گر و پیش کے مسائل سے صرفِ نظر نہیں کرپاتا،اپنے بزگوں کی طرح حکیم سید خلیفۃ اللہ کو بھی سماجی مسئلوں سے گہری دل چسپی رہی ہے۔چنانچہ انہوں 1968 م میں کارپوریٹرکے الیکشن میں حصہ لیا،نمایاں کامیابی حاصل کی اور میئر منتخب ہوئے۔میئر جیسے عہدے پر فائز رہنے کے باوجود وہ ہمیشہ منکسر المزاج رہے۔ان کے دروازے تک سماجی اور مذہبی تفریق کے بغیرہر شخص کی رسائی تھی ،خواہ امیر ہو یا غریب ان کے پاس جو بھی اپنے مسئلے لے کرآتا اسے وہ ہر طرح حل کرنے کی کوشش کرتے۔
مطب و معالجہ، تعلیم وتحقیق اورسماجی ورفاہی خدمات کے شعبے حکیم سید خلیفۃ اللہ کی دل چسپیوں کے بنیادی محورتھے ،عملی سیاست سے ذہنی مناسبت نہ ہونے کے باوجود انہوں نے چنئی کی مقای سیاست میں ضرور حصہ لیا،شاید اس لیے کہ اس طرح وہ اپنے آبائی شہرمیں سماجی اور ترقیاتی خدمات کو احسن طریق سے انجام دے سکتے تھے۔
SK’s Educational Academy :
تعلیم کے شعبہ میں حکیم سید خلیفۃ اللہ کی اہم خدمات رہی ہیں،ایسے بہت سے اداروں کی سرپرستی اور رہنمائی کے علاوہ انہوں نےSK’s Educational Academy قائم کی تھی اس کے قیام کا مقصد گلی کوچوں میں رہنے والے مفلس،غریب اور ناداربچوں کو اسکول سے جوڑنا تھا تاکہ وہ تعلیم حاصل کرکے سماجی دھارے کا حصہ بن سکیں۔
مرکزی یونانی کونسل سے وابستگی:
حکیم سید خلیفۃ اللہ مرکزی حکومت کے تحت چلنے والے اداروں میں ہمیشہ مؤثر پوزیشن میں رہے ہیں۔مرکزی کونسل برائے تحقیقات طبِ یونانی نئی دہلی(CCRUM,New Delhi) ہندوستان میں تحقیق کانمائندہ ادارہ ہے،پہلے یہ وزارتِ صحت و خاندانی بہبود حکومت ہند کے آیوش ڈیپارٹمنٹ کی ماتحتی میں تھی،اب وزارت آیوش کے زیر انتظام ہے۔حکیم سید خلیفۃ اللہ اس کونسل سے مختلف حیثیتوں سے وابستہ رہے ہیں، اکزیکیٹیو باڈی کے فاؤنڈر ممبرکے علاوہ کلینیکل ریسرچ سب کمیٹی کے چیرمین ،پھر1996م سے1999م تک کونسل کی اکزیکیٹیو باڈی کے وہ چیئرمین تھے ،گویایونانی کونسل سے ہمیشہ ان کی فعال وابستگی رہی ہے۔
یونانی کونسل نے ان کی علمی اور قائدانہ صلاحیتوں سے خاطر خواہ فائہ اٹھایاہے۔ساتھ ہی سی سی آریوایم سے ان کے مراسم کا فائدہ ان کے آبائی وطن کو اس طرح پہنچاکہ چنئی میں یونانی کونسل کے ریجنل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے قیام میں اُن کی شخصیت کا کلیدی کردار رہاہے،بلکہ اسے ان کی ذات کافیضان کہنا زیادہ صحیح تعبیر ہے،ان کی کوششوں سے 6جولائی1979م کو اس انسٹی ٹیوٹ کا قیام عمل میں آیاتھا،یونانی کونسل کے علاقائی تحقیقاتی اداروں میںچنئی کے انسٹی ٹیوٹ کو امتیاز حاصل ہے کہ کبھی یہاں ترقیاتی کاموں کی رفتار سست نہیں پڑنے پائی ،اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ وہاں کے عملے اور سربراہان کو حکیم سید خلیفۃ اللہ کی تربیت اور سرپرستی سے مستفید ہونے کے مواقع حاصل رہے ہیں ۔اس سچائی کا اعتراف کرتے ہوئے آرآرآئی یوایم،چنئی کے انچارج ڈاکٹر کے کبیر الدین احمد ادارہ کی رپورٹ کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں’’In closing,I extend my heartfelt gratitude to my predecessors,Director Generals,former Deputy Directors,and incharges,with a special mention of Padmashri Prof. Hakim Syed Khaleefatullah,a stalwart of Unani Medicine,whose guidance has been instrumental in the institute’s journey towards its objectives. ‘‘۔ڈاکٹر کے کبیر الدین احمد کی یہ تحریر حکیم سید خلیفۃ اللہ کے انتقال کے بعد کی ہے، زندگی کے بعد اس طرح خدمات کے تذکرہ سے اندازہ کیاجاسکتاہے کہ اس ادارہ کی تاسیس سے اس کی تعمیر و ترقی تک کے مراحل میں حکیم سید خلیفۃ اللہ کاکس کا قدر تعاون رہاہوگا۔
یونانی فارماکوپیا کمیٹی:
یونانی طب کی دوائی مصنوعات میں اصلاح و بہتری اور معیار میں عمدگی کے لیے2مارچ 1964م کو ڈرگ اینڈ کاسمیٹک ایکٹ1940 م میں ترمیم کرکے یونانی فارماکوپیا کمیٹی تشکیل دی گئی،یہ کمیٹی وزارتِ صحت و خاندانی بہبود کے تحت قائم ہوئی تھی۔اس کی تشکیل کامقصد تھاکہ ایسا فارماکوپیاترتیب دیاجائے جس میں شامل مفرد اور مرکب دواؤں کی شناخت اور افادیت غیر متنازعہ ہو اور مرکبات پر مشتمل ایسی نیشنل فارمولری تیار کی جائے جس سے مطب و معالجہ کی ضرورتیں بطریق احسن پوری کی جاسکیں۔یونانی فارماکوپیا کمیٹی کے قیام کاایک منشا یہ بھی تھاکہ یونانی طب میں استعمال ہونے والی دواؤں اور معالجاتی اہمیت رکھنے والی دوائی مصنوعات میں identity,qualityاورpurityکے معیارکا اہتمام ہو تاکہ ان کے پروڈکٹ کی طبعی اور کیمیاوی خصوصیات میں ممکنہ حدیکسانیت پیداسکے اور ان کی ترکیب ِتیاری،مقدارِ خوراک،طریقۂ استعمال،بدرقہ اور سمی تاثیرجیسے امور کاواضح بیان ہو ۔یونانی دواسازی کے نظام کی بہتری کے حوالہ سے یہ بہت اہم ادارہ تھا۔حکیم سید خلیفۃ اللہ تیسری فارماکوپیاکمیٹی کے ممبر تھے،اس کی تشکیل10 جنوری1977م کوہوئی تھی،نیزاس کے تحت قائم فارمولری کمیٹی اور ڈرگ اسٹینڈرڈ ائزیشن کمیٹی کے رکن مقرر ہوئے تھے۔13 ستمبر1994م کو فارماکوپیا کمیٹی کے تحت جو فارمولری کمیٹی بنی تھی حکیم سید خلیفۃ اس کے چیئر مین تھے، پھر1998م سے2002م تک وہ فارکوپیا کمیٹی کے چیئر مین رہے ہیں اس طرح فارماکوپیا کمیٹی کو ہر طرح سے حکیم سید خلیفۃ اللہ نے اپنی خدمات فراہم کی ہیں۔یونانی فارماکوپیا کمیٹی کے چیرمین کی حیثیت سے نیشنل فارمولری آف یونانی میڈیسن کے دوسرے اور تیسرے حصہ پر انہوں نے مقدمہ تحریرکیاہے۔
سی سی آئی ایم میں خدمات:
1971ممیں سنٹرل کونسل آف انڈین میڈیسن کا قیام عمل میں آیا،اس سے پہلے ہندوستان میں روایتی طبوں کے تعلیمی نظام کی نگرانی کے لیے کوئی ادارہ نہیں تھا،سی سی آئی ایم کے قیام کے بعد یونانی ،آیوروید ،سدھا اورسوارِگپاکے کالجوں میں یکساں نصاب اور ڈگری کا ضابطہ نافذ ہوا۔حکیم سید خلیفۃ اللہ نے 1984م سے1995متک سی سی آئی کے صدر کی حیثیت سے خدمت انجام دی ہے اور یہ ذمہ داری بخوبی نبھائی ہے۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف یونانی میڈیسن (NIUM)،بنگلور
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف یونانی میڈیسن (NIUM)،بنگلور یونانی طب میں اعلیٰ تعلیم کاسب سے بڑا ادارہ ہے۔1984م میں مرکزی حکومت نے اس کے قیام کی تجویز منظور کی تھی،8 نومبر1995م کو یونین ہیلتھ منسٹر عبد الرحمن انتولے نے اس کا سنگ بنیاد رکھا۔تعمیرات کا پہلا مرحلہ پورا ہونے کے بعد 20دسمبر2003م کو مرکزی وزیر صحت و خاندانی بہبود محترمہ سشما سواراج نے اس کا افتتاح کیا۔حکومت سے قیام کی منظوری کے بعد اس کے خد و خال وضع کرنے کے لیے جب پہلی گورننگ باڈی تشکیل دی گئی تو اس کے اراکین میں حکیم سید خلیفۃ اللہ بھی شامل تھے ،وہ1986 م سے1997متک این آئی یو ایم،بنگلور کی گورننگ باڈی کے ممبر رہے ہیں۔اس طرح ہندوستان میں یونانی طب میں اعلیٰ تعلیم کے سب سے اہم ادارہ میں انہیں اپنی خدمات پیش کرنے کا موقع حاصل رہاہے۔
حکومت کے نزدیک قدر و منزلت:
عوام و خواص میں مقبولیت اور طبی تنظیموں اور تعلیمی و تحقیقی اداروں سے حاصل غیرمعمولی پذیرائی کے علاوہ حکیم سیدخلیفۃ صوبائی اور مرکزی حکومت میں بھی قدر و احترا م کے مالک تھے،دونوں کے نزدیک حکیم سید خلیفۃ اللہ کی شخصیت بڑی معتبر تھی۔ وہ اپنی آبائی ریاست تمل ناڈ میں کس توقیر کی نظر سے دیکھے جاتے تھے اس کا بڑا اظہار یہ واقعہ ہے کہ صوبہ کی ڈاکٹرایم جی آر یونیورسٹی نے1998 م میں انہیں ڈاکٹر آف سائنس کی اعزای ڈگڑی پیش کی تھی،ساتھ ہی اس یونیورسٹی نے حکیم سید خلیفۃ اللہ کے نام سے ایک گولڈ میڈل جاری کیا جو ہرسال بی یو ایم ایس فائنل ایر میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے طالب علم کو دیاجاتا ہے۔
صدر جمہوریہ ہند کا طبیب مقرر ہونا بڑے اعزاز کی بات ہے،اس سے مفتخر ہونے والے جو چند لوگ ملتے ہیں ان میںحکیم سید خلیفۃ اللہ کا اسم گرامی بھی شامل ہے،وہ 1985م سے 1991م تک صدر جمہوریہ کے اعزازی طبیب رہے ہیں۔
حکومت کے اداروں میں جو مقام و مرتبہ حکیم سید خلیفۃ اللہ کو ملا وہ ان کے کسی معاصر کے حصہ میں نہیں آیا۔ وہ سی سی آریوایم،نئی دہلی کی گورننگ باڈی کے ممبر اور ریجنل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف یونانی میڈیسن ،چنئی کی کلینیکل ریسرچ سب کمیٹی کے چیرمین اور گورنمنٹ آف انڈیا میں آیوروید،سدھا اور یونانی ڈرگس کے ٹیکنیکل ایڈوائزری بورڈ کے ممبر رہے ہیں۔
حکیم سید خلیفۃ اللہ کا طبی سفر چنئی سے ایک معالج کی حیثیت سے شروع ہوا ،پھرشہر اور صوبہ سے نکل کروہ مرکز ی کردارکے حامل بن گئے،ان کی یہ پوزیشن تاحیات قائم رہی۔دیکھا جاتاہے کہ یونانی طب کے معاملے میں شمالی ہند کو ہمیشہ مرکزیت حاصل رہی ہے اور جنوبی ہند ثانوی پوزیشن میں رہاہے،اسی لیے یونانی طب کے کلیدی عہدوں پر زیادہ تر شمالی ہند کے لوگ ہی پائے جاتے ہیں۔حکیم سید خلیفۃ اللہ نے نہ صرف روایت کے اس بت کو توڑا اور اپنی جگہ بنائی بلکہ اُن کی شخصیت کی ایک بڑی خوبی یہ رہی ہے کہ کبھی وہ شمال و جنوب کے تنازعہ کا شکار نہیں ہوئی ۔جنوبی ہند میں ان کی حیثیت تو مسلم تھی ہی، شمالی ہند میںبھی ان کی ذات احترام و اعتراف کی ہمیشہ حامل رہی۔ایسے لوگ بڑی مشکل سے مل پاتے ہیں ،واقعی حکیم سید خلیفۃ اللہ یونانی طب کے در نایاب تھے۔ حکیم سید خلیفۃ اللہ ملک گیر شہرت کے مالک بنے،وہ یونانی طب کے ہر باوقار عہدے پر فائز رہے ہیں اور اسے رونق بخشی ہے،وہ جہاں بھی رہے ہمیشہ اقبال مند رہے ہیں ۔
تکنیکی اداروں سے تعلق:
ایسے تکنیکی اداروں کی ایک لمبی فہرست ہے جنہیں حکیم سید خلیفۃ اللہ کی خدمات حاصل رہی ہیں ،طوالت کے خدشے سے ان کی تفصیل سے گریز کرتے ہوئے صرف ان اداروں سے اُن کی وابستگی کی نوعیت کا ذکرکیا جارہاہے۔
٭ پرائیویٹ میڈیکل کنسلٹنٹ 1962م
٭ وائس پریزیڈنٹ سی سی آریوایم،نئی دہلی،ڈیپارٹمنٹ آف آیوش ،وزارتِ صحت و خاندانی بہبود،حکوت ہند
٭ اعزازی معالج ہز ہائی نس پرنس آف آرکاٹ
٭ ممبر آف دی انٹرنیشنل ایسوسی ایشن فار دی اسٹڈی آف ٹریڈیشنل ایشین میڈیسن
٭ آنریری سکریٹری ایسٹرن میڈیکل ایسوسی ایشن آف ساؤدرن انڈیا،چنئی
٭ سینئر وائس پریزیڈنٹ آل انڈیایونانی طبی کانفرنس، دہلی
٭ وائس پریزیڈنٹ آل انڈیا یونانی طبی کانفرنس ،تمل ناڈ چیپٹر،چنئی
٭ پریزیڈنٹ نعمت سائنس اکیڈمی،چنئی
٭ مینیجنگ ٹرسٹی نعمت ریسرچ فاؤنڈیشن،چنئی
٭ پریزیڈنٹ کریسنٹ ہاسپیٹل،چنئی
سماجی اداروں سے وابستگی:
انسانیت کا درد رکھنے والاکوئی فرد سماجی مسائل سے کبھی بے نیاز نہیں ہوسکتا ،ہر دور میں حکیم سید خلیفۃ اللہ کے خاندان میں سماجی خدمت کی تاریخ ملتی ہے۔خودحکیم سید خلیفۃ اللہ اپنے آبائی وطن میں سماجی خدمت انجام دینے والے متعدد اداروں سے وابستہ رہے ہیں۔ذیل میں ان کا اجمالی خاکہ درج ہے۔
٭ سکریٹری انجمن مفید اہلِ اسلام،چنئی
٭ پریزیڈنٹ بزم قرآن ،چنئی
٭ اعزازی خازن برائے امیرالنساء بیگم صاحبہ اِنڈاؤنمنٹ،چنئی
٭ سکریٹری اینڈ کرسپانڈنٹ انجمن انڈسٹریل ٹریننگ سنٹر،چنئی
٭ پریزیڈنٹ کریسنٹ ویلفیر ایسوسی ایشن،چنئی
٭ وائس پریزیڈنٹ مسلم ویمنس ایڈ سوسائٹی،چنئی
ایوارڈ س،اعزازات اور خطابات پر ارتجالی نظر:
حکیم سید خلیفۃ نے زندگی میں جو اعزاز حاصل کیے ان کی فہرست خاصی طویل ہے،ان سب کی تفصیل کے لیے مستقل ایک مضمون کی ضرورت ہے ،لہٰذا یہاں صرف ان پر ایک ارتجالی نظر ڈالنے پر اکتفا کیا ہے تاکہ قارئین کے سامنے ایک جھلک آجائے،جن سے وہ حکیم سید خلیفۃ اللہ کے مقام و مرتبے کا صحیح اندازہ کر سکیں۔
٭ ممبر آف نعمت سائنس اکیڈمی 1985م
٭ Marthuva Mamani 1987م
٭ حکیم ملت ایوارڈ 1989م
٭ بابائے طب ایوارڈ 1989م
٭ ڈاکٹر آف سائنس(میڈیسن الٹرنیٹو) 1989م
٭ فزیشین آف دی ایر ایوارڈ(گولڈ میڈل ایڈ سائیٹیشن) 1990م
٭ پورنا سواستھیا ایوارڈ(اٹلی) 1991م
٭ فیلو آف فاؤنڈیشن آف اِنٹگریٹڈ میڈیسن(FFIM) 1994م
٭ آنر ایوارڈ(روٹیری مدراس میٹرو) 1994م
٭ فیلو آف دی نیشنل اکیڈمی آف انڈین میڈیسن(FNAIM) 1988م
٭ بھارت بیشق رتنا 1995م
٭ الشفا ایوارڈ 1997م
٭ ڈاکٹر آف سائنس(Honoris Causa) 1998م
٭ لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ 2011م
٭ پدم شری ایوارڈ 2014م
پدم ایوارڈ کسی بھی ہندوستانی شہری کے لیے ایک بڑا اعزاز ہے ۔حکیم سید خلیفۃ اللہ کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں انہیںیہ اعزاز بھی حاصل ہوا۔وہ واقعی اس ایوارڈ کے مستحق تھے،یہی وجہ ہے کہ حب حکومت کی طرف سے انہیں پدم شری ایوارڈ دینے کا اعلان ہوا تو اسے’’حق بہ حقدار رسید‘‘سے تعبیر کیاگیا۔انعامات و اعزازات کی درج بالا فہرست سے اندازہ کیا جاسکتاہے کہ انہیں کتنی پذیرائی حاصل تھی ،لیکن ان کاسب سے اہم اعزاز وہ ہے جو انہوں نے لوگوں کے دلوں میں اپنی جگہ بناکر حاصل کیا ہے۔
رحلت کا سانحہ:
موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیامیں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے
6جون 2023کوپدم شری حکیم سید خلیفۃ اللہ کی رحلت سے طبی دنیااپنے ایک بے باک ترجمان سے محروم ہوگئی،طبی دنیامیں ان کے ارتحال کے سانحہ کو اس لیے بھی شدت سے محسوس کیاجارہاہے کہ اب ان کا کوئی متبادل نہیں ہے جو اعتماد کے لہجہ میں یونانی طب کی ترجمانی کرسکے اور اس کی آواز کو ایوان حکومت تک پہنچائے اور انہیں سننے پر بھی مجبور کردے۔جب تک وہ حیات رہے ،ہر در پیش مسئلے کے لیے سب سے پہلے یاد کیے جاتے تھے ،خواہ فنی یا تکنیکی امور سے متعلق کوئی بات ہویا کسی دوسری نوعیت کا کوئی مسئلہ،وہ ہر موضوع پر اپنی بات کو سلیقے سے رکھنے اور سامنے والے سے اس کو منوانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
عجب لہجہ ہے اس کی گفتگوکا
غزل جیسی زباں وہ بولتاہے
حکیم سید خلیفۃ کی کمی ہمیشہ محسوس کی جائے گی،اس وقت وہ مزید شدت سے یادآئیں گے جب کوئی مسئلہ درپیش ہوگا،اس لیے کہ ان کی پوری زندگی یونانی طب کی حمایت اوروکالت کرتے گزری ہے۔
ماحصل:
حکیم سید خلیفۃ اللہ اور اُن کے اسلاف یونانی طب کی تاریخ کا اہم حصہ ہیں،ان کے کردار کو نظر انداز کرکے ہندوستان میں یونانی طب کی توسیع کے کام کو نہیں سمجھا جاسکتا اس لیے کہ ان کی خدمات پورے ایک خطے پر پھیلی ہوئی ہیں۔آبائی ریاست تمل ناڈ کے علاوہ دکن اور کرناٹک میں بھی اں کے خدمات کے نقوش پائے جاتے ہیں۔اس وقت شمالی ہند کے بالمقابل جنوب میں یونانی طب کی جڑیں زیادہ مستحکم نظرآرہی ہیںاور وہاں طب کا مستقبل زیادہ تابناک دکھائی دے رہاہے۔اس کے پس منظر میں حکیم سید خلیفۃ اللہ ،ان کے والد حکیم ڈاکٹر سید نعمت اللہ،تایا و سسر شفاء الملک حکیم سید مخدوم اشرف ،دادا حکیم غلام محمد مقیم عرف میاں جان صاحب،جداعلیٰ حکیم مہدی علی خاں اور ان کے بھائی حکیم ظہور الحق کی خدمات بہت نمایاں ہیں۔ان کی کوششوں سے وہاں کے عوام و خواص میں یونانی مطب و معالجہ کا تعارف سامنے آیاہے اور انہیں کی وجہ سے انجمن مشرقی اطباء جنوبی ہند کی تحریک پروان چڑھی جس کی کوشش سے قدوسیہ طبیہ کالج کاقیام عمل میں آیا،جس سے تمل ناڈ میں طب کے تعلیمی نظام کی بنیاد پڑی،پھر اِنٹگریٹڈ اسکول آف انڈین میڈیسن ،اس کے بعد گورنمنٹ یونانی میڈیکل کالج چنئی معرضِ وجود میں آئے۔یہ ایسے تعلیمی ادارے ہیںجن کے ذکر کے بغیر جنوبی ہند میں یونانی طب کے تعلیمی نظام کی تاریخ مرتب نہیں ہوسکتی۔پھر جب حکیم سید خلیفۃ اللہ کی شخصیت طبی منظر نامے پر آئی تو اس کی ایسی جلوہ فشانی رہی کہ حکومت ہند کے زیر انصرام کوئی ایسا یونانی طب کا شعبہ یا ادارہ نہیں تھا جس نے ان سے کسب ِفیض نہ کیا ہو۔
حوالہ جات:
٭ ہندوستان کی طبی درس گاہیں،حکیم فخرعالم،آل انڈیایونانی طبی کانفرنس،دہلی،2017م،ص211-17
٭ رموز دواسازی،حکیم فخرعالم، ادارہ علم و ادب،علی گڑھ 2023،ص68-69
٭ رموز الاطباء،ج1،حکیم محمد فیروزالدین،دار الکتب رفیق الاطباء،لاہور،شیخ برکت علی اینڈ سنز،کشمیری بازار،لاہور،طبع پنجم1951م،ص38-43
٭ پدم شری حکیم سید خلیفۃ اللہ یونانی طب کی ایک بے باک آواز تھے،ڈاکٹریونس افتخار منشی،روزنامہ انقلاب(میرے پیش نظر مطبوعہ مضمون کی پی ڈی ایف کاپی رہی ہے)
٭ حکیم سید خلیفۃ اللہ کی اسناد اور سرٹیفکٹ کی عکسی کاپیاں جنہیں ان کے صاحبزادہ ڈاکٹر سید ایم ایم امین صاحب نے فراہم کیا ہے۔
٭ پروفائل حکیم سید خلیفۃ اللہ،فراہم کردہ ڈاکٹر سید ایم یم امین(حکیم سید خلیفۃ اللہ کے بیٹے)
٭ ریجنل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف یونانی میڈیسن،چنئی:ایکٹیویٹیز اینڈ اچیومنٹ،سی سی آریوایم،نئی دہلی،2024،صv-vi
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page