شبلی نعمانی(ولادت:۴جون۱۸۵۷ء۔وفات:۱۸نومبر۱۹۱۴ء ) کو ان ہر علوم فنون سے دلچسپی تھی،جن کا اسلامی تہذیبی ورثہ سے ذرا بھی تعلق تھااور طب ِ یونانی تو ایسے علوم میں ہے ،جس کی آبیاری مسلمانوں نے اپنے خونِ جگر سے کی ہے۔اسی لیے شبلی نعمانی کے اس فن سرگرمیوں کو بطور خاص اپنی تحریروں کا موضوع بنایا،ان کے مقالات اور تراجم میں طبّی ادب ِ عالیہ پر وقیع بحث ملتی ہے ۔ انہوں نے ہند اور بیرون ِ ہند کے جس قدر بھی اسفار کیے،ان میں اسلامی علوم اور شخصیات کے ساتھ ہی اس کی تہذیب وثقافت کی تلاش و تحفظ ان کی اولین ِ ترجیحات میں رہا ہے۔ اٹھارہویں صدی عیسوی کی آخری تین اور اُنیسویں صدی عیسوی کی پہلی ڈیڑھ دہائی میں ہندوستان میں جس قدر بھی علمی تحریکیں چلیں ،ان میں شبلی نعمانی کی حیثیت شریک ِ غالب کی رہی ہے۔ انہوں نے کچھ مستثنیات کے ساتھ نہ صرف سرسید تحریک کو آگے بڑھانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے،بلکہ ہزار صعوبتوں کے باوجود دار العلوم ندوۃ العلماء کی تحریک کو اپنی اصابت ِ فکر سے اعتبار بخشا ہے۔
شبلی نعمانی کو علوم ِ قدیمہ سے شغف کے ساتھ ہی طبّی ادب ِ عالیہ سے بھی ایک خاص مناسبت تھی ،وہ اپنی علمی،سماجی اور معاشرتی زندگی میں طب اور اطبّاء سے بڑی شدت کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔بانی مدرسہ تکمیل الطب لکھنؤ حکیم عبد العزیزلکھنوی (وفات: ۱۹۱۱)، حکیم محمد بدر الدین خاں دہلوی ( وفات۱۹۱۳ ) ،حکیم مولوی سید عبد الحی حسنی( وفات: ۱۹۲۳ ) اورمسیح الملک حکیم حافظ محمد اجمل خاں(وفات: ۱۹۲۷ ) وغیرہ اکابر اطبّاء سے ان کا خاص ربط و تعلق تھا اور طب کی بقاء ا و رارتقاء کے کاموں میں ان کے سہیم و شریک رہتے تھے ۔یہاں ہم طب ِ یونانی سے ان کے تعلق کے حوالہ سے چند باتیں عرض کر رہے ہیں۔
شبلی نعمانی اور مسیح الملک حکیم محمد اجمل خاں میں دانشوری کا رشتہ تھا اور اس حوالہ سے شبلی نعمانی کا حکیم اجمل خاں کی شریف منزل میں بھی آناجاناتھا۔ دونوں ایک دوسرے کے قدرداں تھے۔ حکیم اجمل خاں کی تیار کردہ رام پور رضا لائبریری رام پور کی توضیحی فہرست کتب، بطور خاص بعض طبّی مخطوطات پر ان کا نقد و تبصرہ طبّی ادب ِ عالیہ سے ان کے گہرے شغف اور کثرت ِ مطالعہ کا غماز تھا، حکیم اجمل خاں کے اس کام کو شبلی نعمانی نے بے حد پسند کیا تھا۔ (۱)
شبلی نعمانی اور حکیم عبد العزیز میں بھی علم دوستی کا رشتہ تھا، مدرسہ تکمیل الطب کے حوالہ سے حکیم عبد العزیز لکھنوی بڑی پُرشکوہ اور با برکت تقریبات کا انعقاد کیا کرتے تھے ،جس میں صوبہ کا گورنر یا کسی ریاست کا سربراہ صدر نشین ہوتا تھا،صدارتی خطبات ،روداداور تقاریر کے علاوہ نظمیں پروگرام کا خاص حصّہ ہوتی تھیں اور چونکہ حکیم عبد العزیزلکھنوی اور شبلی نعمانی میں ایک خاص ربط و تعلق تھا ،اسی لیے ان تقریبات میں شبلی نعمانی کی شرکت تقریباً لازمی ہوتی تھی اور حسب ِ موقع وہ ان میں تقریریں بھی کیاکرتے تھے ۔ حکیم سید ظل الرحمن لکھتے ہیں:
’’حکیم صاحب سے فرط ِ تعلق کی وجہ سے وہ (شبلی نعمانی)تکمیل الطب کے جلسوں میں پابندی سے شریک ہوتے تھے اور اُن کی تقریریں تقریبات کا خاص حصّہ ہوتی تھیں‘‘۔ (۲)
اس طرح کی چندتقاریب کا تذکرہ حکیم سید ظل الرحمن نے ’تذکرہ خاندان ِ عزیزی ‘میں کیا ہے۔ مدرسہ تکمیل الطب کے پہلے جلسہ تقسیم ِ اسناد وانعام(۳) کے حوالہ سے وہ لکھتے ہیں :
’’ تکمیل الطب کانصاب تین سال کا تھا۔۳۰/اکتوبر۱۹۰۴ء کو پہلا جلسہ تقسیم ِ اسناد و انعام منعقد ہوا۔اس جلسہ میں جن حضرات نے شرکت کی ان میں مولانا شبلی نعمانی،خان بہادر چو دھری نصرت علی،خان بہادر ڈپٹی ممتاز خاں ڈپٹی کلکٹر و معین المہام بھوپال،تاج الدین سب جج، محمد باقرخاں ڈپٹی کلکٹر،ابو الحسن ڈپٹی کلکٹر،کنور بم بہادر شاہ رئیس سنگھائی، مولانا عبد الحلیم شرر ،مولوی ریاض الدین بی اے مالک اخبار ریاض بھوپال،مولانا حفیظ اللہ صدر مدرس ندوۃ العلماء،خواجہ قطب الدین احمد مالک مطبع نامی جیسے ممتاز اصحاب تھے۔ چودھری محمد نصرت علی صدر رنشین تھے، مولانا شبلی کی تقریر پروگرام کا خاص جزء تھی‘‘۔ (۴)
واضح رہے کہ یہاں حکیم سید ظل الرحمن نے شبلی نعمانی کی تقریر کا ذکر توکیا ہے،لیکن اس کا کوئی اقتباس نقل نہیں کیاہے ۔
کرنل جی اینڈرسن سول سرجن لکھنؤ کو طب یونانی سے دلچسپی تھی،وہ مدرسہ تکمیل الطب کے بہی خواہوں،بلکہ سر پرستوں میں تھے اور حکیم عبد العزیز کو بے حد عزیز رکھتے تھے، ان کی لندن واپسی کے موقع پرحکیم عبد العزیز نے ان کے اہتمام میں ایک الوداعی تقریب منعقد کی تھی ،جس میں شبلی نعمانی بھی شریک ہوئے تھے ،اس حوالہ سے سید ظل الرحمن لکھتے ہیں:
’’ کرنل جی اینڈرسن سول سرجن لکھنؤجو تکمیل الطب کے خاص سرپرستوں میں تھے،جن کے ذریعہ نہ صرف آلات ِ جراحی کی فراہمی کا نظم کیا گیا،بلکہ جن کی نگرانی کی وجہ سے اعمال ِ جراحی میں تکمیل الطب کالج کو ترقی کا موقع ملا،۱۹۰۹ء میں لندن واپس ہوئے۔۲۶/اپریل۱۹۰۹ء کو تکمیل الطب میں ان کے اعزاز میں ایک رخصتی تقریب منعقد ہوئی ۔سر راجہ تصدق رسول اور سر راجہ محمد علی والی ٔ محمود آباد اور شہر کے دوسرے رؤسا وعمائدین کے علاوہ مولانا شبلی بھی تھے‘‘۔ (۵)
حکیم سید ظل الرحمن نے یہاں کسی وضاحت کے بغیراس تقریب میں شبلی نعمانی کی صرف شرکت کے ذکر پر اکتفا کیا ہے۔ اس طرز ِ نگارش سے شبلی نعمانی کے شیدائیوں کو بے حد تشنگی کا احسا س ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ حکیم سید ظل الرحمٰن نے مدرسہ تکمیل الطب اور بعض دیگرتقریبات کی بیشتراطلاعات اُس دور کی تکمیل الطب کی مطبوعہ روداد وں سے اخذ کی ہیں،یہ روداد یں اُن کی قائم کردہ ابن سینا اکیڈمی ،علی گڑھ کی لائبریری میں یقیناً محفوظ ہوں گی،جن کے تفصیلی مطالعے سے ممکن ہے شبلی کی تقریروں کے کچھ اقتسابات حاصل ہو جائیں، جو یقیناً علم دوستوں اورشبلی کے شیدائیوں کی علمی و فکری آسودگی کا سامان بنیں گی۔میں یہ بات اس لیے بھی کہہ رہاہوں کہ حکیم سید ظل الرحمن نے اپنی دلچسپی اور علمی ترجیحات کے اعتبار سے ان تقاریب میں پڑھی گئی متعد د نظموں کے اشعار،ان رودادوں کے حوالے سے نقل کیے ہیں ۔شبلی تو اُس دور میں آبروئے محفل ہوا کرتے تھے اوربقول حکیم سید ظل الرحمن جب ان کی تقریریں اس طرح کی تقریبات کا خاص حصّہ ہوا کرتی تھیںتوو ہ قرین ِ قیاس ہے کہ کلی طور پر نہ سہی،جزوی طورپرا ن رودادوں میں شائع ہوئی ہوں گی۔ شبلی شناسوں کو چاہئے کہ وہ اس حوالہ سے بھی تحقیق کریں۔
’شبلی نعمانی اور طب ِ یونانی‘ کے نام سے یہ چند سطریں ماہر شبلیات ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی کے اُس استفسار کی رہین ِمنت ہیں،جو انہوں نے راقم سطور سے حکیم محمد بدر الدین خاں دہلوی کے سنہ ولادت ووفات ے حوالہ سے کیے تھے،جس کے جواب کے ساتھ ضمنی طورپر شبلی نعمانی اور حکیم عبد العزیزلکھنوی کے علمی روابط اور مدرسہ تکمیل الطب لکھنؤ کی تقریبات میں شرکت اور اس مناسبت سے ان کی تقریروں کے بارے میں بھی باتیں آگئی تھیں ۔ بر سبیل تذکرہ عرض ہے کہ راقم ِ سطور نے بدر الدین خاں دہلوی کے بارے میں بہت پہلے حکیم سید ظل الرحمٰن کی کتاب ’ دلّی اور طب ِ یونانی‘ میں پڑھا تھا اور پھرابھی چند سال پہلے حکیم فخر عالم کی کتاب ’اردو طبّی مترجمین‘ پڑھ کچھ اٖضافی باتیں معلوم ہوئیں۔اسی لیے ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی کے استفسار کا فوراً جواب دے دیا،لیکن اس ’شبلی شناس‘کو ’ماہرِ شبلیات‘ کہے جانے کی وجہ بھی روشن ہوکر سامنے آگئی،کہ شبلی کے ہر نقش ِ قدم پر ان کا دل دھڑک اُٹھتا ہے کہ ’جا این جا ست‘۔۔ اب پورا واقعہ ملاحظہ کریں۔
امتحان الالباء لکافۃ الاطبّاء کے اوراق کی بازیافت میں شبلی نعمانی کا تعاون:
موفق الدین عبد العزیز بن عبد الجبار بن ابی محمد السلمی( وفات: ۶۰۴ ہجری مطابق ۱۲۰۸ ء) کی کتاب امتحان الالباء لکافۃ الاطبّاء اپنے موضوع کے اعتبار سے ایک اہم کتاب تصور کی جاتی ہے۔ اس کتاب کا ایک خطّی نسخہ حکیم محمد بدر الدین خاں دہلوی( ولادت: یکم شعبان ۱۲۵۶ ہجری مطابق ۲۸/ ستمبر ۱۸۴۰ء ۔وفات: ۱۳۳۱ہجری مطابق۱۹۱۳ ) کو حکیم احسن اللہ خاں(وفات:۱۸۷۳ ء)،جو اُن کے استاذ اور پھوپھابھی تھے، کے ذخیرۂ کتب میں دستیاب ہوا تو اُنہوں نے اس کے اردو ترجمہ کا ارادہ کیا ،لیکن اس خطّی نسخے کے چنداوراق کم تھے،جس سے اس کے ترجمہ کی افادیت محدود ہورہی تھی ،ان حالات میں حکیم محمد بدر الدین خاں دہلوی نے شبلی نعمانی سے علمی تعاون چاہا تھا۔اس واقعہ کو حکیم محمد بدر الدین خاں دہلوی نے ’ امتحان الالباء لکافۃ الاطبّاء ‘کے اردو ترجمہ’بدر الجیٰ‘ میں’گزارش ِمترجم‘ کے تحت نقل کیا ہے۔ حکیم سید ظل الرحمٰن نے ’دلّی اور طب ِ یونانی ‘ اور حکیم فخر عالم نے’اردو طبّی مترجمین‘ میں اسی حوالہ سے اس کا ذکر کیا ہے۔حکیم سید ظل الرحمٰن لکھتے ہیں:
’’ یہ گوہر ِگراں بہا مجھے خزینۂ کتب حضرت استاذی حکیم احسن اللہ خاں سے دستیاب ہوا،بلا مبالغہ ہندوستان کے تمام کتب خانے اس صحیفۂ نایاب سے خالی ہیں۔اس کے فضائل کی عمومیت اور فوائد کی کثرت نے مجھے اس امر پر آمادہ کیا کہ میں اس کا ترجمہ اپنی ملکی زبان میں پیش کروں،اصل کتاب عبد العزیز بن علی متطبب نے عہد سید الوزراء صفی الدین، عربی میں لکھی تھی،یہ دس ابواب پر مشتمل ہے ۔مخطوطہ۶۸۸ ھ /۱۲۸۹ء سے قبل کا نقل کردہ ہے۔یہ مخطوطہ شاہان ِ مغلیہ کے کتب خانے کا ہے اور اس پر جلال الدین اکبر اور شاہ جہاں کی مہریں ثبت ہیں۔اس کتاب میں چند اوراق کم تھے۔ میں عرصہ تک اس فکر میں تھا کہ اس کا کوئی اورنسخہ ملے تو اس سے مقابلہ کرکے ترجمہ کی تکمیل کروں۔ملکی اور غیر ملکی اخبارات میں (خبر)شائع کرانے کے باوجود اس کے دوسرے نسخے کی کہیں موجودگی کی اطلاع نہیں ملی۔آخر اسی نسخہ سے ترجمہ کا کام شروع کیا۔ مولانا شبلی نعمانی ،علی گڑھ سے دہلی کسی تقریب میں آئے،اُنہوں نے بھی اس کتاب کے کسی نسخے سے اپنی عدم ِ واقفیت ظاہر کی۔کچھ عرصہ بعد جب وہ مصر و قسطنطنیہ گئے اور وہاں کے کتب خانوں کی سیر کی تو اس کتاب کا ایک نسخہ خدیو کتب خانہ (قاہرہ) میں دیکھا اور ہندوستان آکر مجھے اس کی اطلاع دی۔مولانا شبلی کے توسط سے میں نے اپنا نسخہ قاہرہ بھجوایا اور جرجی زیدان کی معرفت کتب خانہ خدیوکے نسخہ سے گم شدہ اوراق کی باحتیاط نقل و مقابلہ کا کام انجام پایا،مولانا عبد الحق خیر آبادی اور مولانا عبد الحق حقانی سے ترجمہ میں مجھ کو مدد ملی‘‘۔ (۶)
حکیم سید ظل الرحمن نے حکیم محمد بدر الدین خاں دہلوی کے ’گزارش ِ مترجم‘ کو اپنا بیانیہ،بلکہ اختصاریہ بنا دیا ہے،ورنہ چھ صفحے کی باتیں سات آٹھ سطروں میں نہ سماپاتیں۔حکیم فخر عالم نے بھی اس حوالہ سے کم و پیش یہی باتیں لکھی ہیں،لیکن ان دونوں کی تحریروں میں کچھ باتیں ایک دوسرے کے متضاد ہیں،مثلاً:
۱۔اصل عربی متن کے بارے میں حکیم سید ظل الرحمن لکھتے ہیں :
’’ یہ مخطوطہ۶۸۸ ھ ۱۲۸۹ء سے قبل کا نقل کردہ ہے‘‘۔(۷)
اور حکیم فخر عالم اسے ۶۸۸ ہجری سے پہلے کا تالیف کردہ بتاتے ہیں۔(۸)
یہ تالیف تو یقینی طور پر ۶۰۴ہجری/۱۲۰۸ء یا اس سے پہلے کی ہے۔ کیوں کہ یہی مصنف کا سن وفات ہے۔ بعید نہیں حکیم فخر عالم نے سن کتابت(سن نقل) کو تسامحاً سن تالیف لکھ دیا ہو، کہ اس طرح کے تسامحات علمی دنیا میں شاذ نہیں ہیں۔
۲۔ حکیم سید ظل الرحمن اس کتاب کو دس ابواب پر مشتمل بتاتے ہیں۔ (۹)
اور حکیم فخر عالم کی تحریر کے مطابق یہ کتاب:
’’ بیس ابواب پر مشتمل ہے اور ہر باب میں بیس سوالات اور ان کے جوابات ہیں‘‘(۱۰)
حکیم فخر عالم نے ابواب کی تعین کے ساتھ اس کے سوالات اور جوابات کی جو تعداد بتائی ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ ان کے مطالعہ میں حکیم محمد بدر الدین خاں دہلوی اردو ترجمہ رہا ہے ۔
بہر حال یہ دو بڑی اطلاعات ہیں اوریہ نہ صرف باہم مختلف اور متضاد ہیں بلکہ متحارب بھی ہیں،حیرت تو یہ ہے کہ ان دونوں دانشوروں کا ماخذ وہی اردو ترجمہ ہے۔ راقم ِ سطور کے مطالعہ میں امتحان الالبا ء الکافۃ الاطبّاء کا اردو ترجمہ’بدر الدجیٰ‘ نہیں رہا ہے،اسی لیے اس نے ان ہر دو صاحب ِ قلم کی تحریریں آپ کے سامنے نقل کردیں۔
بیانیہ میں یہ تضاد غالباًا س لیے راہ پا گیا ہے کہ ان دونوں صاحب ِ قلم نے مترجم ِکتاب حکیم محمد بدر الدین خاں دہلوی کی اصل عبارت نقل کرنے کی بجائے اخذ ِ معنوی،بلکہ اختصاریہ والا انداز اختیار کیا ہے۔اگر اخذ ِ لفظی کرتے تو یہ صورت ِ حال قطعی نہ پیدا ہوتی۔
المختصر شبلی نعمانی کے بیش قدر علمی تعاون سے موفق الدین عبد العزیز بن عبد الجبار بن ابی محمد السلمی کی اس کتاب کا اردو ترجمہ حکیم محمد بدر الدین خاں دہلوی نے مولانا عبد الحق خیر آبادی اور مولانا عبد الحق حقانی کے تعاون سے ’ بدر الجیٰ ‘ کے نام سے انجام دیا،جو محرم الحرام۱۳۱۸ ھ مطابق ۱۹۰۰ء میں باہتمام خوابہ (۱۱)مصلح الدین خاں، مطبع مطبع المطابع ،دہلی سے شائع ہوا ۔اس طرح طب کی ایک نامکمل کتاب کی تکمیل ہوئی اور اس کا اردو ترجمہ علمی دنیا کے سامنے آیا۔
اہل ِ علم کی دلچسپی کے لیے عرض ہے کہ امتحان الالباء لکافۃ الاطبّاء کا ایک خطّی نسخہ کتاب خانہ خراججی اوغلی،ترکی میں اندراج نمبر۲/ ۱۱۲۰کے تحت رسائل کے ایک مجموعہ میں ورق نمبر۱۹/۱لف سے ورق نمبر۴۶ ب پر مشتمل ہے۔خط ِ نسخ میں اس کی کتابت بدر الدین محمد بن محمد القیصونی نے۹۷۰ ھ میں کی ہے۔ (۱۲)
نسخۂ خراججی اوغلی،ترکی کی یافت کے بعد راقم ِ سطور نے حکیم فخر عالم سے دریافت کیا کہ حکیم محمد بدر الدین خاں دہلوی کا اردو ترجمہ عربی متن کے ساتھ شائع ہوا ہے؟ تو انہوں نے انہو ں نے مطلع کیا:
’ ’جہاں تک یاد پڑتا ہے یہ ترجمہ متن کے ساتھ ہے‘‘۔
یہ سچ ہے کہ وقت گذرنے کے ساتھ بہت سی باتیں قطعیت کے ساتھ حافظہ میں نہیں رہ پاتیں۔اگر یہ ترجمہ عربی متن کے ساتھ ہے تو نسخۂ خراججی اوغلی کی مدد سے اس عربی متن کی تدوین کی جاسکتی ہے،اس طرح نسخۂ حکیم احسن اللہ خاں(ہندوستان)،نسخہ کتب خانہ خدیو( قاہرہ) اور نسخۂ خراججی اوغلی (ترکی )کے تناظرمیں بازتدوین سے ایک معتبر اور برترمتن تک پہنچا جاسکتا ہے۔
مکرر اعتراف کہ’شبلی نعمانی اور طب ِ یونانی‘ کے عنوان سے یہ چند سطریں ماہر شبلیات ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی کے اسی استفسار کی رہین ِمنت ہیں اور اس کے لیے راقم ِ سطور ان کا سپاس گذار ہے ۔
حواشی:
۱۔تفصیل کے لیے ملاحظہ کریں راقم سطور کا مضمون’ مسیح الملک حکیم اجمل خاں اور علامہ شبلی نعمانی کے روابط: ریاست رام پور اور تحریک ندوۃ العلماء کے خصوصی حوالے سے،ماہنامہ معارف اعظم گڑھ،۲۰۱۵ ، شمارہ۲،ص ۱۲۶۔۱۰۳
۲۔تذکرہ خاندان ِ عزیزی، ص 105
۳۔ واضح رہے کہ حکیم عبد العزیز کے درس وتدریس کا سلسلہ مدرسہ تکمیل الطب کی تاسیس سے بہت پہلے سے تھا،ان کے چند شاگردوں نیمدرسہ تکمیل الطب کے قیام کے بعد اس کے ثانوی درجات میں داخلہ لیا تھا،ایسے ہی طلباء کا یہ پہلا جلسۂ تقسیم اسناد وانعام تھا۔
۴۔تذکرہ خاندان ِ عزیزی،ص۱۲۰
۵۔ ایضاً:ص۱۲۶
۶۔ بدر الجیٰ اردو ترجمہ امتحان الالبا لکافۃ الاطبّاء ،ص۶۔۱،بحوالہ دلّی اور طب ِ یونانی،ص۲۴۱
۷۔ ملاحظہ کریں دلّی اور طب ِ یونانی،ص۲۴۱
۸۔ ملاحظہ کریں اردو طبّی مترجمین،ص۶۴
۹۔ ملاحظہ کریں دلّی اور طب ِ یونانی،ص ۲۴۱
۱۰۔ملاحظہ کریں اردو طبّی مترجمین،ص۶۴
۱۱۔ کذا،غالباً خواجہ
۱۲۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ کریں ۱۹۶۔۱۹۵ Medicinalias. بحوالہ فہرس مخطوطات الطب الاسلامی باللغات العربیۃ والترکیۃ والفارسیۃفی مکتبات ترکیا،ص۲۵۱
کتابیات:
۱۔ اردو طبّی مترجمین،حکیم فخر عالم،مسلم ایجوکیشنل پریس، علی گڑھ،۲۰۱۷ء،ص۶۴۔۶۳
۲۔ امتحان الالباء لکافۃ الاطبّاء ترجمہ اردومسمیٰ بدر الدجیٰ از حکیم محمد بدر الدین خاں دہلوی، مطبع مطبع المطابع ،دہلی ،۱۹۰۰ء،ص ۸۔۱ ،۲۱۹۔۲۱۸
۳۔تذکرہ خاندان ِ عزیزی،( اشاعت ِ دوم)،حکیم سید ظل الرحمٰن،انٹر نیشنل پرنٹنگ پریس ،علی گڑھ ، ۲۰۰۹ ء
۴۔دلّی اور طب ِ یونانی(اشاعت ِ دوم)،حکیم سید ظل الرحمن،اصیلا آفسیٹ پرنٹرس، کلاں محل، دریا گنج، نئی دہلی،۲۰۱۱ء
۵۔فہرس مخطوطات الطب الاسلامی باللغات العربیۃ والترکیۃ والفارسیۃفی مکتبات ترکیا،ڈاکٹر اکمل الدین احسان اوغلی،استانبول۱۹۸۴ ء
رابطہ:
سی ۔96،ابرار نگر،لکھنؤ226022-
سل فون: 9451970477
واٹس ایپ:7607314815
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |