اس صدی نے زندگی کے رنگ ڈھنگ ہی بدل ڈالے ہیں۔ جہاں قدریں بدلی ہیں وہیں سوچیں، ماحول، معاشرت، تہذیب اور تفریح کے علاوہ ایک اور چیز بدلی ہے اور وہ ہے ہماری اردو ادب کو پڑھنے اور لکھنے کی عادت کو ۔ ہمارے اجداد نے بہت کوشش کر کے اس کو پروان چڑھایا تھا اور ہماری نسل تک کے لوگوں نے جس کی بقا کے لیے بہت سے شاعر اور ادیب پیدا کیے تھے اس کو اس حالیہ صدی میں آنے والے تغیرات نے بے موت مار دیا ہے ۔اس میں قصور اسکولوں کا ہو گھروں کا یا انگریزی زبان سے ملنے والے فوائد کا یا پھر کمپیوٹر کے بے جااستعمال کا وجہ کچھ بھی ہو اب اردو ادب جاں بلب نظر آ رہا ہے ،اردو ادب کو سمجھنے والے تو کم ہی رہ گئے ہیں مگر خوش اسلوبی کے ساتھ بولنے والے بھی اب چیدہ چیدہ ہی ہیں۔ جب لوگ اردو میں کراچی کو کرانچی بول کر خوش ہو سکتے ہیں تو پھر بھلا اس زبان کی موت کو کون روک سکتا ہے۔ ٹی وی اور پرنٹ میڈیا جو کہ کسی زمانے میں لغت کا درجہ رکھتے تھے ان کی زبوں حالی کا یہ عالم ہے کہ اس سال پچیس دسمبر کو قائد کی یوم ِ وفات بنا ڈالا ہے۔ اب اردو پروگراموں میں بھی پنجابی بولی بولی اور سمجھی جانے لگی ہے پنجابی مذاق کرنے اور سمجھنے کو فخر سمجھا جانے لگا ہے اور تو اور اب عالمی اردو کانفرنس میں اور اردو لٹریری فیسٹیول میں بطور مہمان ہمارے اداکاروں کو بلا کر اردو کے متعلق بات کرنے کے بجائے پنجابی زبان کی لوچ پر باتیں کی جاتی ہیں جس کے نتیجے میں اردو کے لئے شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے ۔حالانکہ اردو ادب میں موجود طنز و مزاح کو کسی بھی طرح پنجابی جگت بازی سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا کہ ہر زبان کا انداز سوچ میں بنیادی فرق ہوتا ہے مگر جب اہل زبان ہی اپنی زبان کو بگاڑنا کمال سمجھیں تو پھر اس کی موت یقینی ہے۔ آج کل کی اردو شاعری اور بے ہودہ نثری نظم اردو شاعری کے تابوت میں آ خری کیل ثابت ہوئے ہے۔ البتہ نثر کی حالت نظم سے قدرے بہتر ہے مگر بچی تو وہ بھی پوری طرح نہیں ہے بس اب دم نکلا تب دم نکلا والا حال ہے۔ اردو زبان جو کبھی اتنی شیریں اور اس قدر پیارے اسلوب سے مزین تھی وہ آہستہ آہستہ اپنی ساخت کھو تی جا رہی ہے ۔بستر مرک پہ پڑی آخری ہچکیاں لیتی اس زبان کو نہیں معلوم کہ اگلی نسل اس کی امین ہوگی بھی یا نہیں
جب کسی چیز کی طلب گھٹتی ہے تو وہ شے خود بخود زوال پذیر ہونا شروع ہو جاتی ہے اردو ادب کے ساتھ بھی یہی ستم ہوا ہے اردو نثر نگاری، تنقید نگاری، انشائیے، زیر لب اورتراجم سب کے سب قصہ پارینہ بنتے جا رہے ہیں ۔اردو بولنے والے والدین نے بچوں کوجس جا نفشانی کے ساتھ انگریزی زبان سے روشناس کرایا ہے اس سے اس کے نتیجے میں بچے اپنی مادی زبان سے نابل تو نہ ہوئے مگر زبان کے معیار اور تاثیر سے محروم ہو گئے ہیں۔ باقی رہی صحیح کسر موبائل کے استعمال کے لیے سیکھی جانے والی رومن اردو نے پوری کر دی ہے۔ اب شکل یہ ہے کہ جو چند اردو ادب کے شیدائی ہیں وہ کیا کریں مرثیہ لکھیں جنازہ پڑھیں کہ اب زبان کی لاوارث لاش کو کاندھا دے کر مکمل طور پہ دفنا ہی دیں۔ ہمارے اردو ادب کے اثاثے جو پچھلی صدی کےآخر تک موجود تھے جن میں پروین شا کر، بانو قدسیہ واشفاق احمد ، احمد فراز، سید ضمیر جعفری، ادا جعفری ،ممتاز مفتی، قدرت اللہ شہاب،نسیم حجازی،احمد ندیم قاسمی،عبداللہ حسین، سید قاسم محمود اور بے شمار جن کے نام ضبطِ تحریر کرنا ممکن نہیں وہ منوں مٹی تلے چلے گئے۔ مگر آج موجود ہمارے اردو دانشور جن میں کشورناہید ، مستنصر حسین تارڑ ،زہرہ نگار ،نیلم احمد بشیر جیسے کئی نام ابھی موجود ہیں ان کو اردو کے میلوں میں بلا نے کے بجائےہمارے اداکاروں کو بلایا گیا ہے جو کہ ناصرف ادب کی بے ادبی ہے بلکہ ہمارے دو الگ شعبوں کو نہایت بھونڈے پن سے مجتمع کرنے کی کوشش کی گئی ۔اس سے بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ ہم اپنے قیمتی اثاثے کو جانتے بوجھتے نہ صرف نظر انداز کر رہے ہیں بلکہ خود بھی اپنی کم عقلی کا ثبوت بھی دے رہے ہیں۔اگر اس پر یہ وضاحت دی جائے کہ لوگ اب ان کو جانتے نہیں اس لئے دیکھنا نہیں چاہتے تو اس پر میں اس ہی قدر کہوں گی کہ ایک تو جو آپ دکھاتے ہیں وہی ہمارا مزاج بن جاتا ہے مگر اس اعتراض کا دوسرا حل بھی ہے کہ ان ڈراموں کے خالقوں کو بلا لیا جاتا جیسے صائمہ اکرم چودھری، سائرہ رضا،فرحت اشتیاق اور عمیرہ احمد ہا مالا کی نمرہ احمد کو بلا لیتے تواس سے شاید نہ ریٹنگ پر اثر پڑتا اور نہ یہ لوگ عوام کے لئے غیرمعاروف ثابت ہوتے۔افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہمارے بہت سے اچھے ادبہ اور شعراء حضرات جو کہ ہمارے اردو کے ہیرو کہلائے جانے کے قابل ہیں ان کو فلم اور ٹی وی کے فلم اور ٹی وی کے ہیرو ہیروئنوں سے یکسرتبدیل کر دیا گیا ہے۔ پوری کی پوری سوچ پورا کے پورا نظام کاڈھانچہ ہی بدل دیا گیا ۔ عالمی اردو کانفرنس، لٹریٹسی فیسٹیول ،اردو میلہ ہو ہر جگہ میڈیا اور سوشل میڈیا کے لوگ چھائے نظر آتے ہیں ۔ وہ تمام افراد جو ڈرامہ اور فلم میں کام کرتے ہیں ظاہر سی بات ہے کہ وہ اپنے فن طاق ہوتے ہیں مگر اس تقریب کے لئے زبان کا ماہر یا عالم ہونا ضروری ہے نہ کہ اس زبان میں کردار کرنےآنا معیار ہونا چاہیے ۔
ویسے تو پنجاب نے اردو کی جو خدمت کی ہے وہ اہل زبان نے بھی نہیں کی مگر افسوس اب تو وہاں سے بھی نہ کوئی اقبال جنم لے پایا نہ ہی کوئی فیض پیدا ہوئے اور جو تھوڑے بہت زبان داں ہیں ان کے اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ان کو منظر پر لایا جائے تو یقینا یہ دم توڑتی زبان دوبارہ سے تروتازہ ہو جائے گی اور پھر شاید کوئی پروین شاکر فیض یا منٹو کا سا طرز سخن اپنا لے۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page