فی الحال میرے پیش نظر جدید غزل کے معتبر شاعر شمیم قاسمی کی نثری کتاب ’’آمدورفت‘‘ ہے جس میں نمونۂ کلام بھی درج ہے اور جس کے مطالعہ سے اندازہ ہوا کہ وہ ایک اسلوب ساز شاعر ہی نہیں بہترین نثر نگار بھی ہیں۔ سہسرام کی موجودہ شعری و ادبی سرگرمیوں کے ’روح رواں، اردو پرست اور بالخصوص شیر شاہ کی نگری سہسرام میں اردو کی تازہ کار ادبی نسل کی ہمت افزائی کرنے والے ایک مخلص بھائی اور دوست ڈاکٹر اے۔کے۔علوی (مصنف :ظفر پیامی کا تخلیقی سفر-مطبوعہ2018،مرتب و مولف بہار میں جدید اردو غزل-1998ء) نے مجھ سے کہا کہ ہردلعزیز شاعر و ادیب برادر محترم شمیم قاسمی کے ہمہ جہت ادبی و شخصی اوصاف کے تناظر میں بطور خاص ان کی شعری شخصیت کو اجاگر کرتے ہوئے میں ایک مضمون قلمبند کروں۔ پہلے تو میں نے انہیں ٹالنے کی کوشش کی، محض اس لئے کہ میں ٹھہرا تجارت پیشہ اور مجھے اس کا اعتراف ہے کہ ادبی و شعری کتابوں کا ذہنی یکسوئی کے ساتھ مطالعہ کرنے کے مجھے مواقع کم ملتے ہیں۔ ہر چند کہ میرے ادبی ذوق کی تسکین فرصت کے لمحات میں عمدہ کتابوں کے مطالعہ سے ہو ہی جاتی ہے۔ میں نے ویر کنور سنگھ یونیورسٹی سے ایم۔اے۔ اردو اور پھر پی ایچ ڈی کی۔ میری تحقیق کا موضوع تھا ’’تحریک نسواں کے پس منظر میں اردو شاعری کا مطالعہ‘‘(سن اشاعت2021)، جس کی ایک کاپی میں نے برائے مطالعہ اور تاثرات برادرم شمیم قاسمی کو بھی بھیجی تھی اور پھر اس سلسلہ میں مَیں نے ان سے موبائل پر رابطہ بھی قائم کیا تھا۔ دوران گفتگو انہوں نے میری ہمت افزائی کی۔ موصوف نے اپنے دلی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے گوش گذار کیا کہ میں سہسرام کی اکیسویں صدی میں شائع شدہ اہم مطبوعات پر ایک جامع کتاب ترتیب دے رہا ہوں۔ اس میں آپ کی کتاب پر بھی میرے بھرپور اور بے لاگ تاثرات شامل ہوں گے۔
دورانِ گفتگو احساس ہوا کہ موصوف دبستانِ سہسرام جو بلاشبہ تاریخی، ادبی اور قدیم تہذیبی و ثقافتی اقدار کا پاسدار رہا ہے، کی تازہ کار ادبی نسل کی سرگرمیوں، شہر کے مختلف محلوں میں ادارہ فکر و نظر کے زیر اہتمام ہونے والی شعری نشستوں وغیرہ سے بہت متاثر ہوتے نظر آئے۔ یہ ان کی ذاتی و ادبی شخصیت کا وصفِ خاص ہے کہ اپنے طور پر نئی نسل کی خاموشی سے وہ ہمت افزائی کرتے رہے ہیں۔ ویسے لکھنے پڑھنے کے معاملے میں ان کے اپنے تحفظات ضرور رہے ہیں۔ ادب میں کسی ذرہ کو محض تعلقات کی بنا پر وہ ’’آفتاب‘‘ ثابت کرنا کبھی پسند نہیں کرتے۔ حسب مراتب کسی ادبی شخصیت یا فن پارے کا وہ جائزہ لیتے ہیں اور بڑے محتاط طریقے سے اپنا نقطۂ نظر، اپنی تنقیدی آرا پیش کرتے ہیں۔ میری ذاتی رائے ہے کہ وہ بہت جلد کسی سے متاثر نہیں ہوتے۔ ہرچند کہ منکسر المزاجی اور کشادہ فکری ان کی فطرت میں شامل ہے۔ ان کی مذکورہ مضامین کی کتاب میں جدید شعر و ادب کی چند برگزیدہ شخصیات پر تنقیدی نوعیت کے شخصی و تاثراتی مضامین جو شامل ہیں اور جن کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ موصوف نے میدانِ نثر میں بھی اپنا انفراد قائم رکھا ہے۔ اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کی یہ کتاب ’’تخلیقی تنقید‘‘ کے زمرے میں رکھی جاسکتی ہے۔ اس سے قبل کہ ان کی شخصی زندگی اور ان کے منفرد شعری ڈکشن پر اپنے تاثرات کا اظہار کروں میں یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ ان کی نثرنگاری پر جدید اردو فکشن کے ممتاز ترین افسانہ نگار محترم شفیع جاوید (IAS)کی درج ذیل سطور کا آپ مطالعہ کریں۔
’’ مختلف عنوانوں کے ساتھ ادبی مضامین کا یہ دل نشیں مجموعہ ہے۔ مصنف کا انداز تحریر بہ انداز دیگر ہے۔ اور یہ ہی نقطہ اس مجموعہ کی یکتائی ہے۔ اس بات کی وضاحت یوں کی جاسکتی ہے کہ جن تخلیق کاروں، ناقدین، فن کاروں اور اصحاب قلم پر مضامین قلم بند کئے گئے ہیں۔ ان میں ان کی تخلیقی کاری کے علاوہ ان کی شخصیات کا عکس بھی موجود ہے…جن لوگوں پر مضامین شامل کئے گئے ہیں ان کی نگارشات کا تجزیہ بھی بے لاگ اور خوب ہے۔ ایک اور اہم بات یہاں پر یہ ہے کہ مصنف نے صرف بڑے ناموں پر یا جن کے ڈنکے بج رہے ہیں، انہیں پر قلم نہیں اٹھایا ہے بلکہ ایسے تخلیق کاروں کو بھی سامنے لایا ہے جن کا تذکرہ دوسرے لوگوں نے اپنی کم نظری کے باعث کم کیا یا نہیں… اس لحاظ سے میں اس مجموعہ کی یکتائی کو لائق ستائش سمجھتا ہوں‘‘۔ شفیع جاوید
(بحوالہ ’’آمدورفت‘‘ ، پس سرورق)
برسبیل تذکرہ اب تک شمیم قاسمی بحیثیت ایک عمدہ نثرنگار کے طور پر آپ کے روبرو متعارف ہوئے ہیں جب کہ ان کی Dimentional Literary Personality ہے البتہ مجھے ان کی جدید شاعری کو بطور خاص فوکس کرنا تھا۔ اب اتنا تو مذکورہ تحریر کی روشنی میں کہا ہی جاسکتا ہے کہ جدید ادبی تنقید میں بھی ان کی ایک نمایاں پہچان ہے۔ آمدم برسرمطلب۔ جدید شعر وادب کے بعض مستند اور نظریہ ساز ناقدین نے انہیں لسانی تازگی اورمنفرد لب و لہجہ کا شاعر تسلیم کیا ہے۔ اب یہ مناسب ہوگا کہ چند نامور جدید ادیب و ناقد کے تاثرات جن میں سے بیشتر میرے زیر مطالعہ کتاب ’’آمدورفت‘‘ میں شامل ہیں‘ پیش کروںجو حسب ذیل ہیں:
’’ یہ بات اپنی جگہ مسلم حقیقت ہے کہ فن کار کی شخصیت فن کے آئینہ پر اپنی قرمزی کرنیں بکھیرتی رہی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ فن اور شخصیت ایک دوسرے کو تجزیاتی طور پر پرکھنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ شاعری کے موضوعی اور معروضی پہلو انہی سے عبارت ہیں۔ 1125ھج میں بادشاہ شاہ فرخ کا عہد تھا کہ سہارن پور سے سید محمد علی خاں بن رحم علی خاں بن سید علمدار علی خاں (مدفون جبل پور، ساداتِ بارہہ چانسٹھ، خان لقب دائمی) شاہی لشکر میں کماندار ہوکر سہسرام آئے اور یہیں سکونت اختیا رکرلی۔ شمیم قاسمی اسی خانوادۂ علمدار علی کے گل شاداب ہیں۔ سیف و قلم تو ورثۂ علوی ہے ہرچند کہ آباء سپہ گری تھامگر شمیم کے ہاتھ سیف نوکِ قلم بن کر رقصاں ہے…شمیم قاسمی کی شخصیت اس امانت فطری کو آغوش میں لئے جس ماحول میں پروان چڑھی وہ یقینا سازگار نہ تھا۔ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ شاعری کا رنگ روپ ہمیشہ ناموافق حالات میں چمکتا دمکتا ہے… قاسمی نئی نسل کے شاعر ہیں۔ ان کی غزلوں کا ایک اپنا موسم ہے، ان کی اپنی لفظیات ہیں…‘‘
سید شاہ طلحہ رضوی برقؔ
سجادہ نشیں خانقاہ چشتیہ نظامیہ، داناپور
سابق پروفیسر،صدر شعبہ اردو،ویر کنور سنگھ یونیورسٹی، آرہ
(بحوالہ گمشدہ موسم:مطبوعہ1981اور تقاریظِ برق مطبوعہ 2011)
’’ شمیم قاسمی کے مجموعے گمشدہ موسم اور اڑان کا موسم لوگوں کی نظر میں رہے ہیں۔ کئی مضامین بھی ان مجموعوں کے سلسلے میں لکھے گئے ہیں اور معتبر ناقدوں نے بھی ان پر توجہ کی ہے۔ دراصل شمیم قاسمی بھیڑ کے شاعر نہیں ہیں۔ ان کی غزلوں کا مزاج و منہاج کچھ الگ سا ہے۔ اس وقت ان کے نئے مجموعے ’’پا برہنہ‘‘ کی کچھ غزلیں میرے پیش نظر ہیں—شمیم قاسمی غزل کو خوب رو اور صحت مند عورت سے مشابہ قرار دیتے ہیں جو بے دریغ خرچ ہونے کے باوجود اپنی دوشیزگی زائل نہیں ہونے دیتی ‘‘ (دیکھئے دیباچہ-پا برہنہ)
شمیم قاسمی کے اس طرح کے بیانات ان کے ذہن و دماغ کی تفہیم میں بے حد معاون ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ غزل کے جس جمالی کیف اور جبلی کیفیت کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ وہ ان کی شاعری میں بھی نمونہ پذیر ہوتی رہی ہے۔ ویسے یہ بھی کہ لفظوں کی حرمت کا احساس رکھتے ہوئے وہ ان الفاظ کو بھی رد نہیں کرتے جو بظاہر غزل کے عمومی مزاج سے لگّا نہیں کھاتے لیکن حد تو یہ ہے کہ وہ بعض متروک الفاظ کو بھی حرمت عطا کردیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ الفاظ سے کھیلتے رہے ہیں اور بڑی آسانی سے اس کھیل کو شاعرانہ وصف عطا کرتے رہے ہیں۔
شمس الرحمن فاروقی اس قبیل کی غزلوں کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ ’’غزل کی زبان کو کتابی اور مکتبی اثر سے آزاد کرانے کی کوششیں پہلے بھی ہوئی ہیں اور آج بھی ہو رہی ہیں۔ محمد علی صدیقی (پاکستان) نے بھی لکھا ہے کہ شعری زبان کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ یہ اپنی لغت میں نہ صرف ہمہ اقسام کی تبدیلیوں کی اجازت دیتی ہے بلکہ تبدیلیوں کو ہی حیات شاعری سمجھتی ہے۔
پروفیسر گوپی چند نارنگ کی رائے ہے کہ زبان میں خالص پن صرف مثالی تصور ہے…’’اصل چیز اس کی وہ تخلیقیت ہے جو جادو کا اثر پیدا کرتی ہے‘‘ — یہ سارے لوگ دراصل اس میں نمایاں تبدیلی کا ذکر کر رہے ہیں جو لفظوں کی حد تک شمیم قاسمی کا بھی تخلیقی میلان رہا ہے— یہ ہے بہت مشکل کام۔ دراصل وہ الفاظ جو بظاہر ٹھیٹ معلوم ہوتے ہیں ان میں نیرنگی پیدا کرنا اور غزل کی نازک مزاجی سے ہم آمیز کرنا ایک مشکل امر ہے۔‘‘ پروفیسر وہاب اشرفی
(مطبوعہ:نئی سمت کی آواز،2010ء بحوالہ آمدورفت)
اب آیئے برادرم شمیم قاسمی کی مختلف غزلوں سے چند اشعار دیکھتے ہیں اور یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ان کی غزلوں میں متروک یا غیر مستعمل الفاظ کون سے ہیں اور بقول پروفیسر وہاب اشرفی جو غزل کے عمومی مزاج سے لگّا نہیں کھاتے۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایسے الفاظ جن میں غنائیت نہیں ہوتی۔ یہ ’’ٹھیٹ‘‘ قسم کے آخر الفاظ کون سے ہیں جو غزل کی نازک بدنی کو راس آتے ہیںبطور نمونہ چند اشعار سے آپ بھی لطف اٹھائیں ؎
دروازۂ خیال کو کھُلنا تھا نہ کھُلا
میں پا برہنہ ہوا محوِ رقصِ ’’بانا‘‘ جب
بارش میں ’’اولتی‘‘ کے میں نیچے پڑا رہا
تو دانت کردیئے کھٹے تمام دشمن کے
——
——
بس دیکھنے کی چیز ہے دیوارِ صحنِ دل
خوب لکھّا ہے آدمی نامہ
معمارِ سنگ و خشت کو ’’ساہل‘‘ سے کیا میاں
واقعی آدمی ہے اتنا ’’چٹخ‘‘
——
——
ذہن میں جب کوئی شرارت ہو
ایک دن سیر بدن کی بھی کریں گے لیکن
اس کو پنگھٹ پہ ’’بھورے بھور‘‘ پکڑ
آج ہم خوش ہیں بہت چاند کا ’’چما‘‘ لیکر
——
——
یہ گستاخی بھی دل کے چور نے کی
وہ ’’بیر بہوٹی‘‘ سی لڑکی
رسیلے لب زباں سے ’’بورنے‘‘ کی
خوابوں میں مرے ناگن کی سی
——
——
رہتا ہوں پریشاں جس کے لئے
مری فکر نہیں اسے ’’تنکی‘‘ سی
——
خط کشیدہ یا جلی الفاظ پر آپ غور کریں (طوالت کے خیال سے محض چند اشعار نوٹ کیے ہیں)تو محسوس ہوگا کہ یہ الفاظ ثقیل بے رس یعنی ٹھیٹ ہیں۔
اب ایسے میں مندرجہ بالا اشعار اور مستند ناقدین کی آراء سے اتفاق رکھتے ہوئے یہ تو کہا ہی جاسکتا ہے کہ شمیم قاسمی واقعی ایک تجربہ پسند شاعر کا نام ہے جو وقت کی گردش میں ہچکولے کھاتے، اپنے وجود کا ماتم کرتے یعنی نہایت متروک، اجنبی اور غیر مروجہ الفاظ کو بھی شعر کا جامہ پہناکر اسے تازہ دم اور تابناک بنا دیتا ہے۔ وہ شعر برائے شعر یا تفنن طبع کے لئے نہیں کہتے بلکہ اپنے عہد کی مختلف تبدیلیوں، سماجی ناہمواریوں کے ساتھ ہر لمحہ رنگ بدلتی دنیا کے شب و روز کا مشاہدہ جب انہیں کچوکے لگاتا ہے تب ان کے دل کے نہاں خانے سے اس قسم کے اشعار اپنے تمام تر شعری جلال و جمال کے ساتھ نمودار ہوتے ہیں اور یوںموصوف کی شاعری میں Modern Sensibility کے ترجمان بن جاتے ہیں اور اس قبیل کے دوسرے اشعار جو بہت حد تک سہسرامی لفظیات اور ایک مخصوص سہسرامی طرزِ ادا اور صارفی و دیہی ثقافت کے نمائندہ کہے جاسکتے ہیں۔ مضمون کی طوالت کا خیال رکھتے ہوئے میں چند کلاسکی سج دھج کے اشعار بطور نمونہ پیش کرنا چاہوں گا جن کی روشنی میں جدید غزل کے قدآور شاعر سلطان اختر نے بھی ان کی شاعری کو تعریفی نظر سے دیکھا ہے۔ آپ محسوس کریں گے کہ ان کے یہاں لفظوں سے کھیلنے کی ادا کے ساتھ صنف غزل کا روایتی تصور حسن بھی ہے گویا ان کے کلام میں سوز بھی ہے، ساز بھی اور عصر نو کی آواز بھی ۔ ان کی معروف غزلوںسے چند اشعار دیکھئے ؎
مِسّی سے اور سُرمہ و کاکل سے کیا میاں
گلشن ہی جب نہیں ہے توپھر گُل سے کیا میاں
بارود کی بدن سے بہت پھوٹتی ہے بُو
آئے ہو تم ابھی ابھی کابل سے کیا میاں
زندان میں رہے کے رہے خواب گاہ میں
صیاد دل کو نہ رہے بلبل سے کیا میاں
یہ کیا گلے میں لقمۂ تر بھی اٹک گیا
لیتے ہو کام طرزِ تغافل سے کیا میاں
٭
نیا لہجہ غزل کا مصرعۂ ثانی میں رکھا ہے
ہوا کو مٹھیوں میں، آگ کو پانی میں رکھا ہے
مہذب شہر کے لمبے سفر سے لوٹ آیا ہوں
سلیقہ زندگی کا گھر کی ویرانی میں رکھا ہے
٭
آنکھوں میں کوئی خاص چمک ہے بھی نہیں بھی
اس شہر میں جینے کی للک ہے بھی نہیں بھی
بھا جائے جو پہلی ہی نظر میں وہی اچھا
ورنہ کسی ہیرے میں ڈھلک ہے بھی نہیں بھی
مذکورہ بالا غزل اور ان کے مجموعۂ کلام میں شامل بعض غزلوں کے اشعار سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ موصوف اردو غزل کی زندہ شعری روایت کا بھرپور احترام کرنا جانتے ہیں۔ سب سے پہلے آپ عالمی شہرت یافتہ شاعر ’’سلطان غزل‘‘ حضرت سلطان اختر (متوفی 2021…ہائے افسوس کہ اب وہ ہمارے درمیان نہیں رہے۔ اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے۔ آمین) کی اپنے ہم وطن سہسرامی شاعر کی شاعری بطور خاص لسانی شکست و ریخت اور سہسرام میں مستعمل بعض شعری لفظیات کے حوالے سے یہ رائے جان لیںکہ
’’ میں سنتا اور پڑھتا آیا ہوں کہ کلاسیکی شعر کو پڑھے بغیر شاعری میں نازک خیالی اور شعریت پیدا نہیں ہوتی۔ نہ تو الفاظ کی نشست و برخاست کا سلیقہ آتا ہے۔ شمیم قاسمی نے کلاسیکی شاعری کا بطور خاص مطالعہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی غزلوں میں سلاست روانی اور بلاغت کی فراوانی ہے۔ اس کے ساتھ ہی جدت پسند شاعر نے مروجہ لفظیاتی جمود کو توڑتے ہوئے کچھ لسانی تجربات بھی کئے ہیں جن میں وہ کامیاب نظر آتے ہیں…گھریلو، مقامی (سہسرامی) عوامی اور قصباتی یعنی غیر خوش آہنگ الفاظ کا تخلیقی استعمال شمیم قاسمی کے یہاں بڑے سلیقے سے کیا گیا ہے…‘‘
(سلطان اختر:مطبوعہ اذکار ،کرناٹک اکیڈمی،2014)
اب آگے دیکھئے کہ شمیم قاسمی کی اس قبیل کی غیر شعری یا سہسرام کی تہذیب و ثقافت میں رچی بسی زبان کا ذائقہ بیرون سہسرام ناقدین زبان و ادب کس طرح محسوس کرتے ہیں۔ بقول پروفیسر جمیل اختر محبی (سابق کنٹرولر آف اکزامینشن، ویرکنور سنگھ یونیورسٹی، آرہ) :
’’ شمیم قاسمی کی چند غزلیں پابرہنہ کے اوراق سے یکجا پڑھیں، ان کی غزلیں پہلے بھی پڑھتا رہا ہوں۔ خاص طور سے ’’ٹخ ٹخ‘‘ والی غزل اب بھی ذہن میں ’’ٹخ ٹخ‘‘ کرتی ہے۔ قاسمی کی غزلوں میں بلاشبہ آزادہ روی کا تیور نمایاں ہے۔ مذہب و اخلاق کے ساتھ جنسی موضوع کو وہ اس طرح آمیز کرتے ہیںکہ وہ ان سے ہی مختص ہے۔ لیکن جو وصف شمیم قاسمی کو ان کے ہم عصروں سے منفرداور نمایاں کرتا ہے وہ ان کی لفظیات ہے۔اس بنیاد پر ان کی غزلوں کو کیا انٹی غزل کے زمرے میں رکھ سکتے ہیں؟ …لیکن ان میں خود روئدگی اور فطری پن کی جو کیفیت ہے وہ اپنا حسن رکھتی ہے۔ظفراقبال کے بعد شمیم قاسمی اس تجربے کو کامیابی سے برت رہے ہیں۔ گو اس نوع کا تجربہ بعض لوگوں کی طبع پر ناگوار اثر کر سکتا ہے لیکن ایسے دانشور حضرات کی بھی کمی نہیں جو اس نوع کے تجربے کو بڑی فراخ دلی سے خوش آمدید کہتے ہیں اور اسے نئی غزل کے لیے نیک فال تصور کرتے ہیں۔ مثلاً کناڈا کے پروفیسر عبدالقوی ضیا کو ان غزلوں میں وہ دلپذیری نظر آتی ہے جو اردو غزل کی حرمت کو قائم رکھنے کی موجب بنتی ہے۔ قاسمی کی لفظیات کے حوالے سے اور ایک بات کی جانب اشارہ کرنا چاہوں گا اور وہ یہ کہ ان کی نامانوس غزلوں میں بھی ایک مانوس آواز کی گونج صاف سنائی دیتی ہے۔ مجھے شموئل احمد کا مضمون یاد آتا ہے جس میں انہوں نے افسانے کے تعلق سے لکھا تھا کہ جدید افسانے میں سب کچھ نظرآتا ہے مگر بہار نظر نہیں آتا ہے۔ قاسمی کی ان غزلوں کو پڑھ کر یہ بات اعتماد کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ ان کی غزلوں میں اردو شاعری کی روایت سے قدرے انحراف بھلے ہی نظر آتا ہو لیکن اس میں بہار موجود ہے۔ ان کی لفظیات تو مجھے سہسرام کی گلیوں اور کیمور کی وادیوں میں پہنچا دیتی ہے۔‘‘
(عہد نامہ ، شمارہ-7‘رانچی،بحوالہ آمدورفت)
کہتے ہیں کہ شاعر بھی خدا کی عظیم مخلوق ہے بلاشبہ شاعر اپنی ذہانت و فطانت سے تخلیقی سطح پر وہ کام کر دکھاتا ہے اور ان نادیدہ اشیا، مناظر فطرت اور ایک جہان دِگر سے متعارف کراتا ہے جس کا عام لوگ تصور بھی نہیں کرسکتے۔ وہ دوسروں کے دکھ درد کو اپنا دُکھ درد سمجھتا ہے یعنی سارے جہاں کا درد لیے سخن سرا ہوتا ہے۔اس مقام پر کہا جاسکتا ہے کہ اپنی تمام بشری کمزوریوں کے باوجود شاعر وہ واحد ذہین و فطین، حساس اور زیرک مخلوق ہے جو بغیر کسی دنیاوی آلات اور مشینی ایجادات کا سہارا لئے صرف اپنی فکری جودت طبع اور پروازِ تخیل سے بعض متحیرالعقول کارہائے نمایاں انجام دے جاتا ہے۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے بزرگوں نے اسے پیامبر اور خدائے سخن کے خطاب سے نوازا ہے۔
المختصر یہ کہ شمیم قاسمی ایک تجربہ پسند اور اسلوب ساز شاعر کا نام ہے۔ وہ عام ڈگر سے ہٹ کر شعر کہتے ہیں اور جن کے سامنے گرے پڑے، غیر چلن اور علاقائی سطح پر برتے جانے والے الفاظ بھی مودبانہ کھڑے نظر آتے ہیں اور جو بلاشبہ ان کی علاحدہ شناخت کاسبب بنتے ہیں اور بقول صف اول کے جدید غزل گو شاعر سلطان اختر ’’الفاظ…جو ذہن پر گراں نہیں گذرتے‘‘۔ موصوف کی شاعری میں جدت طرازی کے ساتھ غیر شعری یہاں تک کہ مردہ لفظیات میں بھی ایک نئی روح پھونکنے کا عمل بڑا فطری ہے ۔ان کے یہاں Modern Sensibility لیے فکر و خیال کا ایک سیل بیکراں ہے جس میں شدتِ جذبات کا البیلا پن اور تخلیقی اظہار کا بانکپن قابل دیدنی ہے۔موصوف کی اب تک کی تمام مطبوعات، انعامات وغیرہ پر سوانحی کوائف کے تحت ڈاکٹر علوی صاحب نے روشنی ڈالی ہے اس لئے اسے یہاں مزید دوہرانا مناسب نہیں سمجھا۔
میری دعا ہے کہ ان کا شعری سفر اپنی پوری تابناکی، تجربہ پسندی اور تازہ کاری کے ساتھ یوں ہی جاری رہے۔ آخر میں برادر محترم شمیم قاسمی کے اس شعر کے ساتھ میں اپنے اس مضمون کا اختتام کرر ہا ہوں ؎
مجھے قریب سے دیکھو، مجھے پڑھو سمجھو
نئے سفر نئے موسم کا قافلہ ہوں میں
===
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page